HomeAuto Draft Remarks & Releases...سنکیانگ کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی چینی کوششیں hide سنکیانگ کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی چینی کوششیں Other Release Global Engagement Center 24 اگست 2022 خلاصہ: عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سنکیانگ کے بارے میں عالمگیر بحث کو اپنے حق میں تبدیل کرنے اور اس پر غالب آنے اور ویغوروں کے خود مختار علاقے سنکیانگ میں ویغوروں، جو زیادہ تر مسلمان ہیں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے آزاد ذرائع کو بدنام کرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہے۔ چین کے زیر ہدایت اور چین سے وابستہ عناصر بیجنگ کے ترجیحی بیانیوں کو پھیلانے کی مربوط کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں تاکہ اُن بیانیوں کو ختم کرنے کے علاوہ بے وقعت بھی بنایا جا سکے جو ویغوروں پر کیے جانے والے ظلم پر چین کے ناقد ہیں۔ اسی طرح یہ عناصراُن کو بھی ہراساں کرتے ہیں جو چین پر تنقید کرتے ہیں۔ پیغام رسانی کے ہتھکنڈے: چین کے پیغام رسانی کے ہتھکنڈوں کا مقصد تنقیدی بیانیوں کو بے اثر بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین دو کام کرتا ہے۔ ایک تو وہ بیجنگ کے سرکاری موقف کی نفی کرنے والے بیانیوں تک رسائی کو محدود کرنے کی خاطر معلومات کے بین الاقوامی ماحول میں معلومات کی بھرمار کرتا ہے۔ دوسرا وہ چینی پالیسیوں کی حمایت کی مصنوعی شکلیں تخلیق کرتا ہے۔ پیغام رسان نقلی صارفین کے پروفائل کو حقیقی صارفین کی شکلیں دینے کے لیے مصنوعی ذہانت سے تیار کی جانے والیں پیچیدہ تصاویر استعمال کرتے ہیں۔ چین اختلاف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرانے کے لیے بین الاقوامی جبر، ٹرولنگ اور آن لائن ڈرانے دھمکانے کا کام کرتا ہے۔ تنقیدی بیانیوں کو بے اثر بنانے کے لیے معلومات کی بھرمار: چین سرچ انجنوں اور سوشل میڈیا کی فیڈز پر موجود اُن پیغامات کو بے اثر بنانے اور ویغوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اپنے سلوک کے بارے میں بیجنگ کے من پسند بیانیوں کو بڑہاوا دینے کے لیے اُن گفتگوؤں میں معلومات کی بھرمار کر دیتا ہے جنہیں وہ اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ چین نواز فریق چینی حکام کے سنکیانگ میں ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات بیان کرنے والے بیانیوں کو دبانے کے لیے معلومات کے نظاموں میں جوابی بیانیوں، سازشی نظریات، اور غیرمتعلقہ خبروں کی بھرمار کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2022 میں بیجنگ میں ہونے والے اولمپک کے سرمائی کھیلوں میں چین نواز اکاؤنٹوں کے ذریعے ٹوئٹر ہیش ٹیگ #GenocideGames [نسل کش کھیلیں] سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسی پوسٹوں سے بھر دیا گیا جن کا مقصد سنکیانگ میں ویغوروں کے خلاف چین کی نسل کشی کی طرف توجہ دلانے والے اِس ہیش ٹیگ کو بے اثر بنانا تھا۔ اس کام میں سوشل میڈیا کے سرکاری اکاؤنٹ، چین سے منسلک میڈیا، نجی اکاؤنٹ، اور باٹ کلسٹر معاونت کرتے رہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اِن سب کو چینی حکام ہدایات جاری کرتے رہے ہوں گے۔ حمایت کی جھوٹی صورت بنانے کے لیے پیغام رسانوں کی حقیقی شناخت کو چھپانا: سنکیانگ میں بیانیوں کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے چین نواز عناصر پس پردہ کارفرما حقیقی کرداروں کی شناخت کو چھپانے کا کام کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر وہ غیرمستند پوسٹوں کی مربوط مہمیں چلاتے ہیں تاکہ کسی پالیسی، فرد یا نقطہ نظر کے حق میں عوامی سطح پر وسیع حمایت کا تاثر پیدا کیا جا سکے۔ حقیقت میں ایسی حمایت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ معلومات کی بھرمار کی طرح چین سنکیانگ اور ویغوروں کے بارے میں “مثبت کہانیوں” سے معلوماتی ماحول کو بھرنے کے لیے حقیقی شناخت کو چھپانے کا استعمال کرتا ہے۔ اِن کہانیوں میں ویغوروں کی “سادہ خوشگوار زندگیاں” گزارنے کی خود ساختہ کہانیاں گھڑنے کے ساتھ ساتھ اُن فرضی اقتصادی فوائد والی پوسٹوں پر بھی زور دیا جاتا ہے جو سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ 2021 کے وسط میں 300 چین نواز غیرمستند اکاؤنٹوں سے ویغوروں کی ہزاروں ایسی ویڈیوز پوسٹ کی گئیں جن میں بظاہر ویغور سنکیانگ کے علاقے میں اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کی تردید کرتے اور یہ دعوی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ “بالکل آزاد ہیں۔” بین الاقوامی میڈیا میں ویغوروں پر ظلم کیے جانے کے دعووں کی روشنی میں اِن ویڈیوز میں کیے جانے والے دعووں کے بارے میں پورے سنکیانگ میں وسیع پیمانے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تاہم نیویارک ٹائمز اور پروپبلیکا کے مطابق اِن میں زیادہ تر ویڈیوز سنکیانگ کے پراپیگنڈہ کے عہدیداروں نے بنائیں۔ سب سے پہلے یہ ویڈیوز چین میں قائم پلیٹ فارموں پر دیکھنے میں آئیں اور اس کے بعد انہیں یو ٹیوب اور ٹوئٹر پر پھیلایا گیا تاکہ رائے عامہ میں کو اپنے حق میں تبدیل کیا جا سکے۔ تصاویر کو مستند بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر کا استعمال: کم از کم جنوری 2021 سے چین نواز نیٹ ورک اپنے غیر مستند اکاؤنٹوں کے لیے حقیقی دکھائی دینے والی پروفائل تصویریں بنانے کے لیے جدید مصنوعی ذہانت سے تیار کیا جانے والا مواد استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال سٹائل جی اے این مشین لرننگ سے تیار کی جانے والی تصویریں ہیں۔ حقیقی لوگوں کی چوری شدہ تصاویر کے برعکس اِن تکنیکوں کے ذریعے مختلف تصویروں کو جوڑ کر بنائی جانے والی کسی بھی جامع تصویرکے حقیقی ہونے کا ‘ریورس امیج سرچ’ نامی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سراغ لگانا ناممکن ہے۔ لہذا اِن اکاؤنٹوں کے مستند یا غیر مستند ہونے کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض اکاؤنٹوں کے ذریعے سنکیانگ میں چین کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی بار بار تردید کی جاتی رہی اور یہ جھوٹے دعوے کیے جاتے رہے کہ مظالم کے مضبوط اور آزاد معروضی شواہد کا مجموعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی من گھڑت اختراع ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرانے کے لیے بین الاقوامی جبر، ٹرولنگ اور آن لائن ڈرانے دھمکانے کا استعمال: چین کے خلاف بولنے والوں کو چینی حکومت کی سرپرستی میں بین الاقوامی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ خاص طور پر بیرونی ممالک میں مقیم چینی کمیونٹیوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں آن لائن اور آف لائن ہراساں کیا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنی کہانیاں دوسروں تک پہنچانے سے روکا جا سکے یا انہیں ڈرا دھمکا کر اپنی سنسرشپ آپ کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ ٹرولنگ کی مہموں کا مقصد چین کے خلاف بولنے والوں کو خاموش کرانا، بدنیتی پر مبنی دلائل کے ساتھ معلوماتی ماحول میں زہر گھولنا اور مخالف نقطہائے نظر کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ ٹرولنگ کی مہمیں اکثر موت، عصمت دری، یا جسمانی حملوں، بدنیتی پر مبنی سائبر حملوں، اور ڈاکسنگ کے ذریعے آن لائن ڈرانے دھمکانے یا ہراساں کرنے کے خطرات میں بدل جاتی ہیں۔ ڈاکسنگ سے مراد کسی فرد کی ذاتی معلومات کو اس کی اجازت کے بغیر آن لائن شائع کرنا ہے۔ اِن ذاتی معلومات میں اُس فرد کا پورا نام، گھر کا پتہ، یا نوکری سے متعلق معلومات شامل ہوتی ہیں۔ مارچ 2021 میں چین کی خارجہ امور کی وزارت [ایم ایف اے] نے عوامی سطح پر کئی افراد کے بدسلوکی کے دعووں پر سوالات اٹھائے۔ بیانیوں کی توجہ کا مرکز: سنکیانگ کے بارے میں چین کے بیانیوں کی توجہ تنقید کی اجازت نہ دینے اور “مثبت کہانیوں” کو بڑہا چڑہا کر پیش کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ اقدامات نسل کشی اور انسانیت کے جرائم کے الزامات کا توڑ نکالنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ چین کے جارح ترین معلومات رساں جب حملہ آور ہوتے ہیں تو وہ چین کے رویے پر کی جانے والی بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے دوسرے ممالک کے اقدامات کے ساتھ جھوٹ پر مبنی مماثلتیں تخلیق کرتے ہیں۔ میڈیا کے آزاد ذرائع کی تنقید کو رد کرنا/مسترد کرنا: چین کے پیغام رساں، میڈیا کے آزاد ذرائع اور بین الاقوامی شہرت کے حامل تھنک ٹینکوں کی طرف سے کیے جانے والے دعووں کو مسترد کرنے والے مواد کو پوسٹ کرنے اور اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں۔ کسی تیسرے فریق کی طرف سے چین کے ویغوروں سے جبری مشقت کروانے کے الزمات کے جواب میں چین کے سفارتی اکاؤنٹوں، پی آر سی- اور چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) سے وابستہ میڈیا کی تنظیموں، اور مشتبہ بوٹ نیٹ ورکوں کی طرف سے سنکیانگ میں مشینوں سے کپاس کی چنائی کے بارے میں پوسٹ کی جانے والی کہانیوں کی ایک لہر اٹھائی جاتی ہے جس سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سنکیانگ کی کپاس کی صنعت میں جبری مشقت سے کام کروانے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اس پیغام رسانی میں چینی حکام کی طرف سے اندازاً ایک لاکھ ویغوروں کو سنکیانگ سے باہر چین میں کسی دوسری جگہ قائم فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے “جبری مشقت کی حامل تعیناتیوں” کے بارے میں رپورٹوں کا جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا مقابلہ کرنے/”جھوٹا ثابت کرنے” کے لیے “مثبت کہانیوں” کو اجاگر کرنا: چینی آلہ کار سنکیانگ کے بارے میں مثبت کہانیوں کو اجاگر کرنے اور چینی حکام کے خلاف لگنے والے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات کی آزادانہ رپورٹنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے #AmazingXinjiang [حیران کن سنکیانگ] اور #Xinjiang [سنکیانگ] جیسے ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہیں۔ ہم آہنگی سے رہنے والے ایک کثیر الثقافتی معاشرے کی کہانیوں اور ویغوروں کی چین کی طرف سے کی جانے والی کڑی نگرانی کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ اس نگرانی میں چین کے اہلکاروں کا ویغوروں کے گھروں میں سال میں کم از کم چھ ہفتے کے لیے رہنا بھی شامل ہے۔ اس پیغام رسانی کا مقصد چین کی “آبادی میں نسلی حوالے سے تبدیلی” کی مہم کے بارے میں رپورٹوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد سنکیانگ میں ہان چینی آبادی کو منظم انداز سے بڑھانا اور خطے میں ویغور آبادیوں کے ارتکاز کو ” گھٹانا” ہے۔ تنقید سے توجہ ہٹانے/اس کا رخ موڑنے کے لیے “دوسروں پر انگلی اٹھانے” اور جھوٹی مماثلتوں کا استعمال: چین کے خارجہ امور کے اطلاعاتی محکمے کے ژاؤ لیجیان اور ہوا چن ینگ جیسے فصیح و بلیغ سفارت کاروں سمیت چین کے عہدیدار بھی چین کی سنکیانگ کی پالیسیوں سے توجہ ہٹانے اور الزامات لگانے والوں کو منافق قرار دینے کے لیے “دوسروں پر انگلیاں اٹھانے” اور جھوٹی مماثلتوں سے کام لیتے ہیں۔ اُن کے دلائل اس بات کو ثابت نہیں کرتے کہ چین بے قصور ہے۔ اس کے برعکس وہ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ دوسرے ممالک بھی زیادتیوں کے برابر کے مجرم ہیں۔ سنکیانگ کی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی اِن تمام کوششوں کے باوجود میڈیا کے آزاد اداروں، ماہرین تعلیم، اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کئی افراد کے آنکھوں دیکھے واقعات اور قابل تصدیق اعداد و شمار شائع کیے ہیں۔ یہ واقعات اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین نے ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ افراد کو قید کیا ہے جبکہ اس بات کے قابل اعتبار ثبوت موجود ہیں کہ اِن لوگوں کو تشدد، جبری نس بندی اور دیگر زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ چینی خبر رساں افراد: اپنی مخاصمانہ خبر رسانی کے لیے مشہور چین کے جارح ترین خبر رساں، چین کے سفارتی اہل کاروں کا ایک ذیلی گروہ ہے۔ اس کے علاوہ چین اور چین کی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک میڈیا عالمی سطح پر کم از کم ایک درجن زبانوں میں سنکیانگ سے متعلق غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔ عالمی سامعین تک پہنچنے اور اُن میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے چین میڈیا کی نجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے کثیراللسانی با اثر افراد سے رجوع کرتا ہے۔ معلومات کے ماحول کو زہر آلود بنانے اور چین پر تنقید کرنے والے بیانات سے توجہ ہٹانے کے لیے نیٹیزنز پر حملہ کرنے، تنازعات کو ہوا دینے، بے عزتی کرنے اور ہراساں کرنے میں ٹرولنگ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جارحانہ خبر رسانی کے ساتھ قیادت کرنے والا چینی سفارت کاروں کا ذیلی گروہ: چین کے سفارتی سوشل میڈیا کی زیادہ تر پیغام رسانی مثبت ہوتی ہے۔ اُن میں دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور چین کے بارے میں تاثر کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ خارجہ امور کی وزارت کے اہلکاروں کا ایک اقلیتی گروہ چین کے قومی مفادات کا دفاع کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے جس میں اس گروہ کے لوگ بالعموم جارحانہ طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اس گروہ کو بعض مبصرین نے “جنگجو بھیڑیوں” کا نام دے رکھا ہے۔ اس گروہ میں شامل افراد کے بارے میں غالب امکان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ چین کے سرکاری پیغام کے خلاف چلنے والے بیانیوں کو مسترد، “غلط ثابت کرنے” اور اِن بیانیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سنکیانگ میں ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے چین کے خبر رساں یہ غلط بیانیہ پھیلاتے ہیں کہ سی آئی اے چین کو نیچا دکھانے کے لیے سنکیانگ میں بے چینی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ جارحانہ انداز چین کو مختلف قسم کے پیغام رسانی کے طریقے استعمال کرنے کے تجربات کرنے کا موقع دیتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ملک کے اندر اور بیرونی ممالک میں کیا چیز مقبولیت پا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر خارجہ امور کی وزارت کے اہلکاروں کے اکاؤنٹوں کے ذریعے کووڈ-19 کے وائرس کے اصلی مقام اور اس کے اسباب کے بارے میں بار بار غلط معلومات اور سازشی نظریات پھیلائے جاتے ہیں۔ اسی طرح یوکرین کے خلاف روس کی بلاجواز اور بلا اشتعال جنگ کے بارے میں بھی غلط معلومات اور سازشی نظریات پھیلائے جاتے ہیں۔ چینی حکومت اور چین کی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک میڈیا عالمی سطح پر سنکیانگ سے متعلق غلط معلومات پھیلاتا ہے: چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک، چائنا ڈیلی، چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، اور شنہوا جیسے چینی حکومت اور چین کی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک میڈیا کے ادارے کم از کم 12 زبانوں میں مواد تیار کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے اچھے خاصے وسائل وقف کرتے ہیں۔ فروری 2021 میں جب سنکیانگ میں چین کو نسل کشی پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی جانچ پڑتال کا سامنا تھا تو شنہوا نے ایک “حقائق نامہ “جاری کیا جس میں کئی ایک جھوٹے دعوے کیے گئے۔ اِن جھوٹے دعووں میں کہا گیا کہ سنکیانگ میں ویغوروں کو رکھنے والے حراستی کیمپ ایسے “پیشہ ورانہ تعلیمی اور تربیتی مراکز” ہیں جن میں “تربیت حاصل کرنے والوں کو ذاتی آزادی اور وقار کی مکمل ضمانت حاصل ہوتی ہے۔” تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے شائع کیے جانے والے زیر حراست افراد کے شہادتی بیانات میں الزام لگایا گیا ہے کہ چین نے انہیں باقاعدہ طور پر پوچھ گچھ، تشدد اور دیگر زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ چین کے خود کے تیار کردہ اور چینی تائید سے تیار کردہ مواد کو مقامی سامعین کے لیے دوبارہ شائع کرنے کے لیے، چین غیرملکی میڈیا کے ساتھ شراکت داری کرتا ہے۔ اِس اقدام سے بیجنگ کے پسندیدہ بیانیوں کو ایسے درجے کی سند اور اعتبار حاصل ہو جاتا ہے جو چین اپنے تئیں حاصل نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر کینیا براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے نومبر 2019 میں ایک گمنام مصنف کی ایک کہانی نشر کی جو سنکیانگ میں چین کی “غربت کے خاتمے” کی پالیسی کے بارے میں تھی۔ مبصرین نے اس کہانی کی صداقت پر سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ یہ چین کا پراپیگنڈہ تو نہیں ہے۔ چین کا غیرممالک کا سامنا کرنے والی معلوماتی مہموں کو اپنے حق میں ترتیب دینے کے لیے میڈیا کی نجی کمپنیوں سے رجوع کرنے کا روز افزوں رجحان: چین نجی شعبے کی جدت طرازیوں سے فائدہ اٹھانے کی خاطر غیر ملکی زبانوں میں معلومات کے اپنے بعض آپریشنز کو آؤٹ سورس کرنے کے ساتھ ساتھ اِن کی نج کاری بھی کر رہا ہے۔ چینی حکومت چین میں قائم کم از کم 90 کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ چین کو مثبت انداز سے پیش کرنے کے لیے غیرممالک کا سامنا کرنے والی معلوماتی مہموں کو اپنے حق میں ترتیب دیا جا سکے۔ اس کی ایک مثال سنکیانگ کے ویغوروں کے خود مختار خطے کے ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن کے بیورو کی طرف سے چلائی جانے والی ایک اشاعتی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم چینی کمیونسٹ پارٹی کے یونائیٹڈ فرنٹ ورک کے محکمہ سے منسلک ہے۔ اس تنظیم نے ویغوروں کی ایسی ویڈیوز بنانے کے لیے مارکیٹنگ کی ایک کمپنی کو ادائیگی کی جِن میں انہیں چینی حکومت کی حمایت کرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ بعد میں اِن ویڈیوز کو غیر مستند اکاؤنٹوں کے ایک نیٹ ورک نے ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر پھیلایا۔ چینی بیانیوں کو پھیلانے کے لیے استعمال کیے جانے والے غیرمستند نیٹ ورک: چین کے منظور شدہ بیانیوں کو ٹویٹ اور ری ٹویٹ کرنے والے بوٹس کے غیرمستند نیٹ ورک اور حقیقی اکاؤنٹ، معلومات کی جگہوں میں معلومات کی بھرمار کر دیتے ہیں اور حقیقت کو چھپانے کی مہموں میں مدد کرتے ہیں۔ اکاؤنٹوں کا ایک نیٹ ورک ایسی معلومات پوسٹ کرتا ہے جن میں سنکیانگ میں ہونے والے مظالم کی تردید کی جاتی ہے یا “مغرب” پر منافقت کا الزام لگایا جاتا ہے جبکہ دوسرا نسبتاً بڑا نیٹ ورک ان معلومات کو ری ٹویٹ اور دوبارہ پوسٹ کر کے بڑہاوا دیتا ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیٹ آبزرویٹری سائبر پالیسی سنٹر نے اندازہ لگایا ہے کہ چین کے انگریزی زبان کے غیر مستند نیٹ ورک غیر ملکی سامعین میں قبولیت پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ نوجوان بین الاقوامی سامعین تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے اثر و نفوذ کے حامل افراد کا استعمال : چینی حکام کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے اثر و نفوذ کے حامل افراد چین کی پیغام رسانی کو پھیلا سکتے ہیں تاکہ اُن کے تعلق اور سند کی وجہ سے معلومات کے مقامی ماحولوں کی صورت گری کی جا سکے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے منصوبہ سازوں کی کوشش ہے کہ وہ عالمی سطح پر میڈیا کے نوجوان صارفین تک پہنچنے کے طریقوں کو اپنا سکیں۔ وہ غیر ملکی پراپیگنڈے کو “زیادہ نوجوان” رنگ دے رہے ہیں اور وائرل بنا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ سیاسی “سرخ لکیروں” کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ جون 2021 میں ریاست کے زیر انتظام کام کرنے والے چائنا میڈیا گروپ کے سربراہ، شین ہئی شونگ نے اہم خطوں میں چین کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے “کثیر اللسانی انٹرنیٹ سیلیبریٹی سٹوڈیوز” کے استعمال کو فروغ دیا۔ یہ میڈیا گروپ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ “می بورو سولیوشنز” نامی تجزیاتی کمپنی نے چین کے ریاستی میڈیا سے وابستہ تیسرے ملک کے اثر و نفوذ کے حامل 200 سے زیادہ ایسے افراد کی نشاندہی کی جو کم از کم 38 زبانوں میں سوشل میڈیا کا مواد تخلیق کرتے ہیں۔ اِن زبانوں میں انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی، اور روسی زبانیں بھی شامل ہیں جن کے فالورز کی اوسط تعداد 309,000 ہے۔ می بورو کو پتہ چلا ہے کہ چین اثر و نفوذ کے حامل افراد کو سنکیانگ سے متعلق اپنے بیانیوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چین یہ کام سرکاری میڈیا کے ملازمین کی وابستگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور مغرب سے تعلق رکھنے والے اثر و نفوذ کے حامل چین نواز افراد کے لیے سنکیانگ کے دورے ترتیب دے کر کرتا ہے۔ چینی موقفوں کا دفاع کرنے اور ناقدین پر حملے کرنے، بے عزت کرنے اور ہراساں کرنے کے لیے ٹرولنگ کا استعمال:بنیادی طور پر انٹرنیٹ ٹرولز یپلز لبریشن آرمی، سائبر سپیس کے امور کے مرکزی کمیشن، یا کمیونسٹ یوتھ لیگ کے تحت کام کرتے ہوئے ناقدین پر آن لائن براہ راست حملے کرتے ہیں۔ فرانس کے ملٹری سکول کے سٹریٹیجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین کی ٹرولز کی چالوں میں چین کا دفاع کرنا، ناقدین پر حملے کرنا اور ناقدین کو بدنام کرنے کی کوششیں کرنا، سازشوں کی آگ کو ہوا دینا، بے عزت کرنا، اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔ چین کے سائبر سپیس کے کمشن اور پراپیگنڈے کے مرکزی محکمے نے اس حیثیت سے ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد کو براہ راست ملازم رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دو کروڑ افراد “نیٹ ورک تہذیب کے رضاکاروں” کے طور پر جزوقتی کام کرتے ہیں۔ یہ افرادی قوت چین میں موجود سامعین اور بیرونی ممالک میں مقیم چینی بولنے والی کمیونٹیوں کے افراد کو نشانہ بناتی ہے۔ 2019 میں ہانگ کانگ کے مظاہروں کے ردعمل میں چین نے ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب جیسے امریکہ میں قائم پلیٹ فارم استعمال کرنے والوں پر اثرانداز ہونے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنا شروع کی۔ چین نے اسی نوعیت کا طرزعمل وی کنٹیکٹے اور ٹیلی گرام جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارموں کے صآرفین کے بارے میں بھی اپنایا۔ 2021 میں “فائر آئی” نامی کمپنی کے “مینڈی انٹ تھریٹ انٹیلی جنس” ادارے اور گوگل کے “خطرات کا تجزیہ کرنے والے گروپ” نے چین کی پشت پناہی میں جاری ایک معلوماتی آپریشن کے اُن عناصر کی نشاندہی کی جنہوں نے سوشل میڈیا کے 30 پلیٹ فارموں اور 40 ویب سائٹوں پر مختلف زبانوں میں سنکیانگ سمیت مختلف مسائل کو نشانہ بنایا۔ Tags Bureau of East Asian and Pacific Affairs China Disinformation Xinjiang