An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

17 مارچ 2023 کو بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روسی صدر ولادیمیر پیوتن اور روس کی بچوں کے حقوق کی کمشنر، ماریہ لوووا- بیلووا کے یوکرینی بچوں کی غیرقانونی منتقلی اور غیرقانونی ملک بدری کے مبینہ جنگی جرائم کی بنیاد پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔

روس کی پروپیگنڈا مشین نے آئی سی سی کے فیصلے پر فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جوہری حملوں کی دھمکیاں دیں، مغرب کے “بچوں پر تجربات” اور روس مخالف “ہسٹیریا،” کے بارے میں جھوٹے دعوے کیے، آئی سی سی کے ججوں کی گرفتاری کے مطالبات کیے، اور یہ دعوے کیے کہ یوکرینی بچوں کی حفاظت کی خاطر انہیں اُن کے گھروں  سے لے جایا گیا ہے۔ کریملن کے پراپینگنڈا بازوں، ولادیمیر سولوویوف اور مارگریٹا سائمونین نے اعلان کیا کہ جوہری حملے پیوتن کو گرفتار کرنے کی جرأت کرنے والے ملک کے منتظر ہیں۔ اسی اثنا میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان، ماریا زخارووا نے “روشن خیال مغرب” پر “بچوں کو بچانے کے کام کو جرم قرار دینے” کا الزام لگایا  اور کہا کہ یہی مغربی ممالک “بچوں کو نئی صنفی شناخت دینے کے تجربات کر رہے ہیں۔” اس کے علاوہ روسی پارلیمان “دوما” کے چیئرمین ویاچسلاو ولودِن نے دعویٰ کیا کہ مغرب “ہسٹیریا” کا شکار ہو گیا ہے اور اعلان کیا کہ پیوتن کے خلاف کی جانے والی کسی بھی “دشنام طرازی” کو روس کے خلاف جارحیت سمجھا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “امریکیو، پیوتن کو ہاتھ مت لگانا!” اسی طرح واشنگٹن میں روس کے سفارت خانے نے وارنٹوں کی “امریکی توثیق” کو “سست رو دماغی فتور” کی یاد قرار دیا اور  دوسری جگہوں پر “امریکی مظالم” کی طرف اشارہ کیا۔ کئی روسی سینیٹروں نے آئی سی سی کے ججوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے اور فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کو بند کرنے کی تجویز دی- اس رپورٹ میں آئی سی سی کے الزامات اور روس کی معلومات کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی کوششوں اور مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں الزامات سے توجہ ہٹانے کی کوششوں کا حقیقی حالات کے تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔

24 فروری 2022 کو جب کریملن نے یوکرین پر اپنے بھرپور حملوں کا آغاز کیا تب سے روس کیئف میں قائم جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران روسی فوجیوں نے متعدد جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جن میں یوکرینی بچوں کے خلاف کیے جانے والے کئی ایک جرائم بھی شامل ہیں۔ اِن جرائم کو بین الاقوامی سطح پر دستاویزی شکل میں محفوظ کیا گیا ہے۔ 5 جون 2023 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے روس کی مسلح افواج اور اِن سے منسلک مسلح گروہوں کو اُن فریقوں کی فہرست میں شامل کیا جنہوں نے مبینہ طور پر مسلح تصادموں کے دوران سینکڑوں یوکرینی بچوں کو قتل کیا اور اپاہج بنایا، انہیں جنگ کے دوران ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کیے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کریملن یوکرین سے اِس کا مستقبل چھین کر ریاست کی حیثیت سے اس کا وجود ختم کرنا چاہتا ہے۔ شواہد کی بڑی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ روس، یوکرین کی شناخت، تاریخ، اور ثقافت کو مٹانے کے لیے جبری نقل مکانی، جبری تعلیمِ نو، اور بعض صورتوں میں یوکرینی بچوں کو جبراً گود لینے کو استعمال کر رہا ہے۔ یہ اقدامات اُس کی منظم کوششوں کے بنیادی اجزا ہیں۔ یوکرین کی حکومت کا اندازہ ہے کہ روسی حکام نے 19,553 بچوں کو ان کے گھروں سے “ملک بدر اور/یا زبردستی بے گھر کیا ہے۔” اِن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جنہیں روس کے زیرقبضہ علاقوں میں نام نہاد “سمر کیمپوں” میں منتقل کیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں اِن بچوں کو روس کے اندر واقع علاقوں، حتٰی کہ عام آبادی سے کٹے روسی مشرق بعید کے دور دراز کے علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے۔  یکم اگست 2023 تک یوکرین 393 بچوں کو وطن واپس لانے میں کامیاب ہوا ہے۔

روسی فیڈریشن کے صدر کے دفتر میں بچوں کے حقوق کی کمشنر، ماریا لوووا- بیلووا سرعام کہہ چکی ہیں کہ اس وقت روس میں سات لاکھ سے زائد یوکرینی بچے موجود ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی اکثریت کے ہمراہ اُن کے سرپرست موجود ہیں۔ انہوں نے اسے “انسانی بنیادوں پر کی جانے والی ایک کاوش” کا رنگ دیا۔ ییل سکول آف پبلک ہیلتھ کی ہیومینٹیرین ریسرچ لیب (ییل ایچ آر ایل) محکمہ خارجہ کی اعانت سے چلنے والی ‘کانفلکٹ آبزرویٹری’ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ ییل ایچ آر ایل نے بتایا کہ روس کے یوکرین پر بھرپور حملوں کے آغاز کے بعد روس نے “اپنے زیر قبضہ کرائمیا میں اور اپنے ملک [روس] کے اندر تعلیم نو اور گود لینے کے کیمپوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ اِن کیمپوں میں منظم طریقے سے یوکرین سے لائے جانے والے کم از کم 6,000 بچوں کو منتقل کیا گیا۔” ییل ایچ آر ایل کے نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اِن میں سے زیادہ تر کیمپ روس نواز تعلیم نو کا کام کر رہے ہیں جبکہ بعض کیمپوں میں بچوں کو فوجی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔” اُن افراد کی غیر قانونی منتقلی اور ملک بدری سویلین لوگوں کے تحفظ کے بارے میں چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے جنہیں قانونی طور پر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اقدامات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جنگی جرم بھی ہے۔

اپنی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے کی خاطر روس غلط معلومات پھیلاتا ہے اور پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے روس اپنی زیادتیوں کے بارے میں گمراہ کن باتیں پھیلا کر انہیں “انسان دوست”  اقدامات قرار دینے کی کوششیں بھی کرتا ہے۔ روس غلط معلومات اور پروپیگنڈے سے بھرپور سرگرمیاں بھی چلاتا ہے جن کا مقصد روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں بچوں کی ذہنی تطہیرکرنا یا یوکرین سے بچوں کو یہ یقین دلانے کے لیے ملک بدر کر کے روس بھجوانا ہوتا ہے کہ کریملن بچوں کو “کیئف کی  نازی حکومت” سے بچا رہا ہے۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ “اس مجرمانہ پالیسی کا مقصد محض لوگوں کو چرانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جلاوطن افراد یوکرین کو بھول جائیں اور واپس نہ آ سکیں۔”

احتساب ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسی لیے امریکہ، یوکرینی اور بین الاقوامی حکام کی مظالم کے تمام ثبوت اکٹھے کرنے، انہیں دستاویزی شکل دینے اور محفوظ کرنے کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ لہذا یوکرین کے بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اُس کا واحد ریکارڈ محض روس کی غلط معلومات اور پروپیگنڈہ ہی نہیں ہے۔

“انہوں نے کہا کہ میری ماں کو میری ضرورت نہیں:” یوکرین کے بچوں کی روس کی غیرقانونی منتقلی، ملک بدری اور گود لینے کی حرکیات

ییل ایچ آر ایل کے مطابق، فروری 2022 میں کریملن کے یوکرین پر بھرپور حملوں کے آغاز سے کچھ ہی پہلے روس نے یوکرین کے ان حصوں سے بچوں کو روس منتقل کرنا شروع کر دیا تھا جو اس کے زیرِ کنٹرول تھے۔ یوکرین سے بچوں کو منتقل کرنے کے لیے روس نے مختلف قسم کے طریقے استعمال کیے۔ اِن میں شامل تین طریقے یہ تھے: 1) یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روسی اور روس کے تعینات کردہ حکام نے نام نہاد “تطہیری” کاروائیوں کے دوران غیر قانونی طور پر بچوں کو ملک بدر کیا۔ 2) یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روسی اور روس کے تعینات کردہ حکام ان بچوں کو یوکرین کے ریاستی اداروں سے اٹھا کر لے گئے۔ اور 3) یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روسی اور روس کے تعینات کردہ  حکام انہیں کرائمیا میں اور روس میں واقع نام نہاد تفریحی کیمپوں میں لے آئے۔

تطہیر

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یوکرینسکا پراودا کی رپورٹوں کے مطابق روس کی “تطہیری” کاروائیوں کے دوران کچھ بچوں کو اپنے والدین سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ “تطہیری” عمل کے ایک حصے کے طور پر روس یوکرین کے عام شہریوں کو حراست میں لے لیتا ہے جس کا مقصد روس کے قبضے کَے خلاف یوکرین کے عام شہریوں سے لاحق خیالی خطرات کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ان افراد کو تطہیر کے عمل سے گزرنے کے بعد جن تین نتائج میں سے کسی ایک نتیجے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن میں دستاویزات کا جاری کیا جانا اور روس کے زیر قبضہ یوکرین میں رہنا، ملک بدر کر کے زبردستی روس بھیجا جانا، یا مشرقی یوکرین یا روس کی جیلوں میں نظر بند کیا جانا شامل ہوتا ہے۔ “تطہیری” عمل سے گزرنے کے دوران ہو سکتا ہے کہ بچوں اور والدین کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے اور اُن سے علیحدہ علیحدہ پوچھ کی جائے۔ بعض اوقات بچوں سے اُن کے والدین یا سرپرستوں کی رضامندی کے بغیر یا غیرموجودگی میں پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور اُن کی تلاشی لی جاتی ہے۔

ماریوپول کے 12 سالہ ساشکو نے بتایا کہ روسی فوجیوں نے اسے اور اس کی والدہ کو روس کے زیرقبضہ یوکرین کے ڈونیٹسک کے علاقے کے ایک گاؤں، بیزیمین میں واقع ایک “تطہیری” مرکز میں منتقل کیا۔ اُس کی والدہ کو پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا اور اس کے بعد اُس نے اپنی والدہ کو نہیں دیکھا۔ ساشکو نے بتایا کہ “انہوں [روسی فوجیوں] نے مجھے اپنے والدہ کو خدا حافظ کہنے کی اجازت نہیں دی … انہوں نے کہا کہ میری والدہ کو میری ضرورت نہیں [اور] یہ کہ مجھے بچوں کی نگہداشت کے ایک مرکز میں بھیجا جائے گا اور پھر مجھے رضاعی گھرانے میں بھجوا دیا جائے گا۔” ساشکو نے روس کے زیرِ قبضہ ڈونیٹسک میں ایک “ٹراما سنٹر” میں دو ماہ گزارے جس دوران وہ اپنی دادی لیودمیلا سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے بعد اُس کی دادی اسے گھر لے جانے کے لیے ڈونیٹسک آئیں۔ “تطہیری” کاروائیوں کے دوران اپنے والدین سے علیحدہ کیے جانے والے ماریوپول سے تعلق رکھنے والے دیگر بچوں کو مبینہ طور پر ماسکو پہنچایا گیا اور انہیں روس میں مختلف خاندانوں کی طرف سے  گود لیئے جانے کی تیاریاں کی جانے لگیں۔

اداروں سے منتقلی/ملک بدری

روس یوکرین کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں میں رہنے والے بچوں کو بھی ملک بدر کرتا ہے۔ لوووا-بیلووا نے دعویٰ کیا کہ ایسے بچوں کے والدین یا سرپرست نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس ایسوسی ایٹڈ پریس کو پتہ چلا کہ روس نے “یوکرین کے بچوں کو  بغیر رضامندی کے ملک بدر کر کے یا تو روس بھیجا یا روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بھیجا۔ اُن سے یہ جھوٹ بولا گیا کہ اُن کے والدین کو اُن کی ضرورت نہیں، انہیں پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا، اور انہیں روسی خاندانوں کے حوالے کرکے روسی شہریت دی گئی۔” 17 سالہ ٹیموفی چمیل نے بتایا کہ ڈونیٹسک کے حکام نے “جدید آلات اور کپڑوں” اور “آرام دہ” زندگی کی لالچ دے کر اسے ماسکو جانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اُسے بتایا کہ “اگر آپ کے والدین آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں آپ کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کی مدد کریں گے۔” مگر ٹموفی نے اُن کی باتیں ماننے سے انکار کر دیا۔

یوکرین کے سرکاری اداروں میں رہنے والے تمام بچے “یتیم” نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ اِن میں ایسے بچے بھی شامل ہوں جن کے خاندان کو مشکل حالات درپیش ہوں یا ایسے بچے ہوں جن کے والدین تو روسی بمباری سے مارے گئے ہوں مگر اُن کے دیگر رشتہ دار یا قانونی سرپرست موجود ہوں۔  نیویارک ٹائمز کے مطابق “[یوکرین میں] سرکاری گھروں میں رکھے جانے والے بچوں کو بالعموم یتیم کہا جاتا ہے حالانکہ اِن میں سے زیادہ تر کے والدین زندہ ہوتے ہیں۔ پیچیدہ بیماریوں یا معذور بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین سمیت بیمار، منشیات کے عادی یا مالی مشکلات سے دوچار والدین بھی عارضی یا مستقل طور پر اپنے بچوں کو یوکرین کے سرکاری اداروں میں ڈال سکتے ہیں۔ روس اِن بچوں کو “حفاظتی خدشات” یا “علاج معالجے” کے بہانے یہاں سے نکال کر روس کے زیر قبضہ علاقوں میں واقع ہسپتالوں یا “فیملی سنٹروں” میں بھجوا دیتا ہے جہاں سے اُنہیں روسی گھرانے رضاعی طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں یا انہیں گود لے لیتے ہیں۔ اس طرح کے بعض بچوں کو ڈرا دھمکا کر روسی شہریت لینے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ سائبیرین شہر سالیک ہارڈ کی اولگا دروژینینا نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے روسی زیرکنٹرول یوکرینی شہر ڈونیٹسک سے تعلق رکھنے والے چار بچوں کو گود لیا۔ مِس دروژینینا نے کہا کہ “ہمارا کنبہ ایک چھوٹے روس کی مانند ہے … روس نے چار علاقے لیے اور دروژینینا خاندان نے چار بچے لیے۔” ییل ایچ آر یل کے مطابق 2022 کے موسم گرما میں لوووا-بیلووا نے کہا کہ یوکرین سے تعلق رکھنے والے 350 “یتیم” [بچوں] کو گود لیا جا چکا ہے جبکہ “ایک ہزار سے زائد” گود لیے جانے کے منتظر ہیں۔ یوکرین سے متعلق اقوام متحدہ کا بین الاقوامی انکوائری کمشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ “جن صورت حالات کی  کمشن نے جانچ پڑتال کی ہے بظاہر اُن میں سے کوئی ایک صورت حال بھی بچوں کی منتقلیوں کے بارے میں بین الاقوامی انسانی قانون میں مقرر کی گئیں شرائط پر پورا نہیں اترتی۔ حفاظت یا طبی وجوہات کی بنا پر منتقلیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔”

“سمر کیمپوں” میں منتقلی

یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روس کے تعینات کردہ “حکام” اور روسی فیڈریشن کے فوجی بھی یوکرین کے بچوں کو مقبوضہ کرائمیا اور روس کے اندر واقع “تفریحی کیمپوں” میں لے جانے کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔ ییل ایچ آر ایل نے یوکرین کے 6,000 سے زائد ایسے بچوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں اسی طرح کے کم از کم 43 “تفریحی کیمپوں” میں لے جایا گیا ہے۔ ییل ایچ آر ایل نے گیارہ ایسے کیمپوں کی نشاندہی کی ہے جو روس کے ساتھ لگنے والی یوکرین کی سرحد سے 500 میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اِن کیمپوں میں سے دو کیمپ سائبیریا میں اور ایک کیمپ روسی مشرق بعید میں واقع ہے۔ ییل ایچ آر ایل کے مطابق اِن کیمپوں میں لے جانے کے لیے بچوں کے والدین سے “زبردستی اجازت لی گئی اور [اس اجازت] کی خلاف ورزی کی گئی۔” اے پی نے بتایا کہ روسی حکام نے یوکرین سے تعلق رکھنے والے بچوں کو دھوکے سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اُن کے “والدین اُن کو نہیں رکھنا چاہتے۔” ییل ایچ آر ایل کے مطابق والدین نے بتایا کہ اُن سے “قیام کی مدت اور اُن کے بچوں کو واپس کرنے کے طریقہ کار” کے بارے میں جھوٹ بولا گیا۔ بعض صورتوں میں کیمپوں کے منتظمین نے والدین کے انکار کے باوجود بچوں کو کیمپوں میں بھیجا۔ اسی رپورٹ کے مطابق تقریباً 10 فیصد کیمپوں نے منصوبے کے مطابق بچوں کی یوکرین واپسی روک دی اور والدین کو اُن کے بچوں کی حیثیت اور مقام کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس کے بعد سے اس قسم کے دو کیمپوں کے بچوں کو روس میں رضاعی خاندانوں کے ہاں رکھا گیا۔ یوکرین کے بچوں کی اِن منتقلیوں اور ملک بدریوں کے حوالے سے روس کے وفاقی، علاقائی اور مقامی حکومتی اہلکاروں کے ذریعے “مرکزی سطح پر رابطہ کاری” کی جاتی ہے جس میں روس اور یوکرین کے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں “تفریحی کیمپوں” کے  پروگرام سے متعلق پراپیگنڈہ کرنا بھی شامل ہے۔

جیسا کہ سال 2023 کی انسانی سمگلنگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ کو روس کی جانب سے یوکرین کے بچوں کو روسی فیڈریشن میں زبردستی منتقل کرنے پر گہری تشویش ہے۔ اِن بچوں کو انسانی سمگلنگ کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ اگر اِن بچوں کو جبری مشقت کا نشانہ بنایا جائے یا جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ جرائم انسانی سمگلنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ چونکہ ان بچوں اور ان کے خاندانوں کی خیریت اور ٹھکانوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوتی ہیں جس میں انسانی بنیادوں پر کام کرنے والیں تنظیموں کو حاصل رسائی بھی شامل ہے، اس لیے فی الحال اِن کے بارے میں معقول مقدار میں ڈیٹا دستیاب نہیں۔ لہذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے  کہ جن طریقوں سے اِن بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے آیا وہ انسانی سمگلنگ کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔

یوکرین کے بچوں کو پراپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور انسانیت کا چہرہ مسخ کرنا

روس کی غلط معلومات اور پراپیگنڈے کے نظام کے تحت کریملن کی جبری نقل مکانیوں، تعلیم نو، اور یوکرین کے بچوں کو گود لینے کو انسانی ہمدردی کے ایسے اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن کے ذریعے اِن بچوں کو جنگ سے (جسے خود روس نے شروع کیا ہے) بچایا جا رہا ہے۔ اکثر روس کا سرکاری میڈیا ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے لے جا کر یوکرین سے نئے آنے والے بچوں کی نمائش کرتا ہے۔ اس دوران روسی حکام کو انہیں بوسہ دیتے اور گلے لگاتے ہوئے، انہیں کھلونوں اور تحفوں کی ٹوکریاں پیش کرتے ہوئے، انہیں روسی پاسپورٹ دیتے ہوئے دکھا نے کے  ساتھ ساتھ انہیں “جنگ سے بچائے گئے لاوارث بچوں” کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ریاست سے منسلکہ ادارے، ٹیلی گرام اور یو ٹیوب پر پراپیگنڈہ ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں جن میں یوکرین سے روس میں آنے والے بچوں کا ایک مستقل بہاؤ دکھایا جاتا ہے۔

یوکرین اور مغرب کو بدنام کرنے کے لیے روس جھوٹے دعوے بھی پھیلاتا ہے جن کا مقصد یوکرین کے بچوں کی منتقلی اور ملک بدری کے لیے مزید بہانے گھڑنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ دو نام نہاد دستاویزی فلمیں ہیں جن کے ذریعے وسیع پیمانے پر غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ اِن فلموں میں یوکرین، مغرب، اور انسان دوست مغربی تنظیموں پریوکرینی بچوں کو استعمال کرتے ہوئے انسانی اعضا کی سمگلنگ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ روسی ٹیلی ویژن [آر ٹی] کی “گردوں کے بدلے ٹینک” نامی فلم میں یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ یوکرین کی حکومت بچوں کے اعضا سمگلنگ کرنے والے ایک بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس فلم میں یہ جھوٹا تاثربھی دیا گیا ہے کہ ماضی میں نیٹو اور سرحدوں کی قید سے آزاد ڈاکٹروں (Médecins Sans Frontières)  نے سربیا میں بھی اسی طرح کی کاروائیوں میں مدد کی۔ اسی طرح کی ایک اور فلم ہے جس کا روسی زبان میں نام “Пусть мама услышит” [“ماں کو یہ سننے دیں“] ہے۔ یہ فلم سوشل میڈیا کے روس نواز چینل “Russia is me” [میں روس ہوں] نے چلائی ہے۔ اس فلم میں گمنام ذرائع اور ماہرین کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ بظاہر یوکرینی پولیس کی سرپرستی میں کام کرنے والی “وائٹ اینجلز” نامی تنظیم بچوں کو “خفیہ تجربہ گاہوں” میں قتل کرتی ہے اور اِن کے جسمانی اعضا کو یورپ اور امریکہ میں اپنے گاہکوں کو بیچتی ہے۔ ان مکروہ اور غلط معلومات کو پھیلانے کے علاوہ یہ فلم خطرات سے دوچار بچوں کا استحصال بھی کرتی ہے۔ انٹرویو لینے والے کے کئی مکارانہ سوالات کے بعد ایک لڑکی کو یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ بھلے اُس کی ماں اُسے واپس یوکرین لے جانے کا فیصلہ ہی کیوں نہ کرے مگر وہ روس میں ہی رہنا پسند کرے گی۔

جھوٹ اور ہیراپھیریاں

یوکرین کے بچوں کی بالترتیب، یوکرین کے مقبوضہ حصوں میں منتقلی اور/یا روس ملک بدری کا اقرارکرتے ہوئے روسی حکام نے کریملن کی مذموم سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں جھوٹے دعوے بھی پھیلائے۔ مثال کے طور پر لوووا-بیلووا نے یہ دلیل دی کہ روس یہ اقدمات انسانی بنیادوں پر اٹھا رہا ہے اور اس میں کلی طور پر بچوں کے والدین یا اُن کے قانونی سرپرستوں کی رضامندی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ مئی 2022 میں پیوتن نے یوکرین کے یتیم بچوں اور اُن بچوں کے لیے روسی فیڈریشن کی شہریت کے حصول کو آسان بنانے کے لیے ایک حکم نامے پر دستخط کیے جو اپنے والدین کی تحویل میں نہیں ہیں۔ جنوری 2023 میں پیوتن نے لوووا-بیلووا کو یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے “کمسن بچوں کی نشاندہی کرنےکے لیے اضافی اقدامات اٹھانے” کی ہدایت کی۔ لوووا-بیلووا کے ساتھ فروری 2023 میں ایک ملاقات میں انہوں نے “[یوکرینی] بچوں کو گود لینے کے بارے میں  دلچسپی ظاہر کرنے والے اپنے [روسی] شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا فخریہ انداز سے ذکر کیا۔” جبکہ اس کے برعکس لوووا-بیلووا یوکرینی بچوں کے گود لیے جانے کی بار بار تردید کرتی رہیں  اور مارچ 2023 میں یہ دعویٰ کیا کہ 380 یتیم بچوں کو “عارضی طور پر روس میں خاندانوں کے ہاں اُس وقت تک  رکھا گیا ہے جب تک کہ بچوں کے والدین انہیں لے نہیں جاتے۔ روستوف کی علاقائی حکومت کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر آزاد تحقیقاتی ادارے “ویژنی آئستوری” (اہم کہانیاں) نے بتایا کہ روس میں مختلف خاندانوں کے ہاں پرورش پانے والے یوکرین کے بچوں کی تعداد 1,184 ہے۔ یہ تعداد لوووا-بیلووا کی بیان کردہ تعداد سے تین گنا زیادہ ہے۔

یوکرین کے بچوں کو استعمال کرنے اور ان کی ذہن سازی کرنے کے لیے غلط معلومات اور پراپیگنڈے کا استعمال

روسی حکام نے یوکرین کے بچوں کو روس نواز بنانے کے لیے “تعلیم نو” کی روسی حکومت کی منظم کوششوں کی تردید کرتے ہوئے جھوٹے دعوے بھی پھیلائے ہیں۔ لوووا-بیلووا نے “تعلیم نو” کے ثبوتوں کو “سازشی نظریہ” اور “جعلی خبریں” قرار دیا۔ تاہم ییل ایچ آر ایل کا کہنا ہے کہ “سیاسی تعلیم نو” کو اِن کیمپوں کے بنیادی مقصد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ “تعلیم نو” کے عمل میں روس نواز تعلیمی، ثقافتی، اور “حب الوطنی” کی تعلیم شامل ہوتی ہے جس میں جنگی عجائب گھروں اور روس کے ثقافتی مقامات کے دورے بھی شامل ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں اِن بچوں کو روسی جنگوں میں لڑنے والے سابقہ فوجیوں کی طرف سے فوجی تربیت بھی دی  جاتی ہے۔ اس تربیت میں فوجی گاڑیاں چلانے اور آتشیں اسلحے کے استعمال کے بارے میں اسباق شامل ہوتے ہیں۔ روس کی طرف سے اِن کیمپوں کی تشہیر “مربوطی کے پروگراموں” کے طور پر کی جاتی ہے۔ بظاہر اس کا مقصد “یوکرینی بچوں کو [روس] کی قومی ثقافت، تاریخ اور معاشرے کے روسی حکومت کے تصور” سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق لوووا-بیلووا نے خود بتایا کہ روس یوکرین کے خطرات سے دوچار بچوں کو روس نواز “نظریے اور عالمی نقطہ نظر” اپنانے کے لیے کس طرح استعمال کرتا ہے۔ لوووا-بیلووا نے اُن تیس بچوں کی مبینہ کہانی سنائی جنہیں روسی حکومت روس کی مسلح افواج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے یوکرین کے شہر ماریوپول سے ماسکو کے علاقے میں لے کر آئی تھی۔ لوووا-بیلووا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ بچے بڑی روانی سے پیوتن مخالف خیالات بیان  کرتے تھے اور یوکرین کا قومی ترانہ گاتے تھے۔ لوووا-بیلووا نے اُن کے چہروں کے تاثرات کو “گستاخانہ” قرار دیا۔ لوووا-بیلووا نے دعویٰ کیا کہ “روسی خاندانوں کے ساتھ رہنے” کے بعد ان کے رویے تبدیل ہوگئے اور ان کے “منفی” نقطہائے نظر “روس کی محبت” میں بدل ہو گئے- مئی 2023 میں لوووا-بیلووا نے کہا کہ “ہمیں مختلف قسم کے تعلیمی اور معلوماتی پروگرام تیار کرنا ہوں گے۔ ہمیں [یوکرین کے] بچوں کو دوبارہ تعلیم دینا ہوگی۔”

بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں یورپ کی انسانی حقوق کی کمشنر نے یوکرین کے بچوں کے ذہنوں میں “روس نواز عالمی نظریہ راسخ کرنے اور یوکرینی شناخت کا توہین آمیز تاریخی بیانیہ ڈالنے کی” روسی کوششوں کا نام دیا ہے۔ آزاد صحافتی ادارے “ویژنی آئستوری” نے نیژنی نوووگراد میں واقع ایک یتیم خانے کے “حب الوطنی” پر مبنی تعلیمی پروگراموں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ اس یتیم خانے نے نازی جرمنی پر سوویت یونین کی فتح کی یاد منانے کی ایک تقریب منعقد کی جس میں یوکرینی بچوں نے شرکت کی۔ یتیم خانے کے سوشل میڈیا کے پیجز پر کھلم کھلا کہا گیا کہ اس تقریب کا مقصد “عظیم روس” کے حق میں “فخر کا بیج بونا” تھا۔ اس یتیم خانے نے بہت سے روسی فیڈریشن کے ایسے فوجیوں کی میزبانی بھی کی جنہوں نے بچوں کو “خاص قسم کی فوجی کاروائیوں” سے متعلق “بہادری کے قصے” سنائے اور دعوے کیے کہ روس یوکرین سے فاشسٹوں، نازیوں، اور “دشمنوں” کا صفایا کر رہا ہے۔ کریملن نے یوکرین کو “نازی ازم سے پاک کرنے” کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے ساتھ ساتھ یوکرین سے بچوں کی غیر قانونی منتقلی پر کام کرنے کے لیے ایسے اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں جو نازی نظریات کے حامی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق لوووا-بیلووا کے ایک سینیئر معاون، الیکسی پیتروو “نوجوانی میں سفید فاموں کی بالادستی اور نازیت پسد تحریکوں سے آن لائن وابستہ رہے ہیں۔”

روس کے میڈیا کے ایک آزاد ادارے ورستکا نے دعویٰ کیا کہ کھیرسان کے ایک یتیم خانے سے 14 یوکرینی بچوں کو کرائمیا میں “ایک ایسے یتیم خانے میں منتقل کیا گیا جہاں کے حالات خوفناک حد تک خراب تھے۔” اس یتیم خانے کا مشن وہاں رہنے والے بچوں میں “حب الوطنی اور شہری احساس کو فروغ دینا” تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ “اپنی شناخت ایک کثیر القومی روس کے شہری کی حیثیت سے کریں۔” میروسلاوا خارچینکو “یوکرین بچاؤ” نامی اُس پراجیکٹ کی وکیل ہیں جو ملک بدر کیے گئے بچوں کو یوکرین واپس لانے میں مدد کرتا ہے۔ انہوں نے یوکرینسکا پراودا کو بتایا کہ “وہ [روسی] کہتے ہیں کہ یوکرین نے [بچوں کو] لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ وہ انہیں اپنے والدین سے نفرت کرنا، اور پھر ہمارے ملک سے [نفرت کرنا]، اور پھر روس سے محبت کرنا سکھاتے ہیں۔” کھیرسان کی 13 سالہ ایکاترینا نے دوسرے بچوں کے ہمراہ روس کے زیرقبضہ جزیرہ نما کرائمیا میں ییوپتروئیا کے ایک کیمپ میں وقت گزارا۔ اس نے بتایا کہ کیمپ کی انتظامیہ نے بچوں کو یوکرین کے بارے میں بات کرنے سے منع کیا ہوا تھا، انہیں ہر صبح روس کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا جاتا تھا، اور کھیرسان کو دوبارہ روسی بنانے” کا وعدہ کرتے ہوئے کیئف پر بمباری جاری رکھنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ بیریسلاو سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ وتالی نامی نوجوان نے جسے روس کے زیر قبضہ کرائمیا کے ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا، بتایا کہ “جب وہ ہمیں وہاں لے کر گئے تو انھوں نے کہا کہ ‘یوکرین ایسے دہشت گردوں سے بنا ہے جو لوگوں کو مارتے ہیں۔” وہ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے جاتے تھے اور ‘یوکرین زندہ باد!’ کہتے جاتے تھے۔ انہوں نے ہمارے لیے گندی زبان استعمال کی اور ہمیں [یوکرینیوں کے لیے ایک توہین آمیز روسی لفظ] ‘خوخول’ کہا۔ جب ایک لڑکی نے اپنے کمرے میں یوکرین کا جھنڈا لٹکایا تو انہوں نے اس جھنڈے کو جلا ڈالا۔ یوکرین کے قومی مزاحمتی مرکز کے مطابق ژاپوریژیا کے علاقے میں قابض روسی حکام نے بچوں کو یوکرین میں لڑنے والے روسی فوجیوں کے نام اُن کی حمایت میں خط لکھنے پر مجبور کیا۔ واپس کیے گئے یوکرینی بچوں نے بذات خود اور دیگر ذرائع نے بھی ذہنی تطہیر کے اسی طرح کے طریقوں کی اطلاعات دی ہیں۔ لوووا-بیلووا نے کہا کہ “کیا اس وقت وطن کی محبت محسوس نہیں ہوتی جب غیر ملکی بچوں کا کوئی وجود نہیں رہتا اور وہ ہمارے ہو جاتے ہیں؟”

امریکہ چاہے جتنا وقت بھی لگے روس کی زیادتیوں پر اسے جوابدہ ٹھہرانے کا کام کرتا رہے گا۔

روسی حکومت نے بچوں سمیت یوکرین کے لاکھوں شہریوں کو غیرقانونی طور پر یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کے اندر منتقل کیا ہے یا ملک بدر کر کے روس بھیجا ہے۔ روس نے یہ اقدامات اپنی تطہیری کاروائیوں اور دیگر طریقوں کے ذریعے اٹھائے ہیں۔ یہ چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ جنگی جرم ہے۔ آئی سی سی کے پراسکیوٹر کے دفتر نے الزام لگایا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے بچوں کو ملک بدر کیا گیا ہے اور اِن میں سے کچھ کو روس میں گود لینے کے لیے رکھا گیا ہے۔ روس کا یہ اقدام ان بچوں کو مستقل طور پر اُن کے اپنے ملک سے نکالنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل آندری کوسٹین نے واضح کیا کہ “بچوں کے اغوا اور ملک بدری کو مسلح تصادم کے دوران بچوں کے خلاف چھ سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک خلاف ورزی گردانا جاتا ہے اور ایسا کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون، انسانیت کے بین الاقوامی قانون اور فوجداری کے بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ 1949 کے نسل کشی کے کنونشن کے تحت اس کا شمار پانچ ممنوعہ اقدامات میں ہوتا ہے۔ دیگر ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ “بچوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی ایک جنگی جرم ہے چاہے یہ بچے یتیم ہی کیوں نہ ہوں۔” اپنے خاندانوں سے زبردستی الگ کیے جانے والے بچوں سمیت، یوکرین کے شہریوں کی ملک بدری بھی اُن وجوہات میں سے ایک وجہ تھی جس کی بنیاد پر امریکی وزیر خارجہ نے فروری 2023 میں اس بات کا تعین کیا تھا کہ روس کی افواج کے ارکان اور دیگر روسی حکام یوکرین میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امریکہ اپنے شراکت داروں، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر سفاکانہ جرائم کے مشاورتی گروپ (اے سی اے) کے ذریعے  یوکرین کے بچوں کے خلاف روس کے جرائم کی تحقیقات کرنے اور مقدمہ چلانے کی حمایت کر رہا ہے۔

یوکرین کے بچوں کے خلاف پیوتن کی جنگ کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ امریکہ یوکرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور چاہے جتنا وقت بھی لگے امریکہ، روس کی خوفناک زیادتیوں پر اسے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے مستعدی سے کام کرتا رہے گا۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future