An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

تعارف

اپنے پیشرو سوویت یونین کی طرح روس بھی کئی عشروں سے حیاتیاتی خطرات سے نمٹنے والی پرامن عالمی کوششوں اور صحت عامہ کے اداروں کے بارے میں بداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں غلط دعووں کو پھیلاتا چلا آ رہا ہے۔ یوکرین پر فروری 2022 کے مکمل حملے کے بعد سے روس کے غلط معلومات اور پراپیگنڈے کے ماحولیاتی نظام نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں اپنی غلط معلومات کے حجم اور شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ روس کی یوکرین پر اپنے حملے سے توجہ ہٹانے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے اور اس کا مقصد یوکرین کی بین الاقوامی حمایت میں کمی لانا اور ایک ناقبل جواز جنگ کا جواز مہیا کرنا ہے۔ ماسکو کوئی قابل اعتبار ثبوت فراہم کیے بغیر حیاتیاتی ہتھیاروں کی غلط معلومات پھیلانا جاری رکھے ہوئے ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد یوکرین اور روس سمیت سابقہ سوویت ریاستوں میں سوویت یونین کے جوہری، کیمیائی، اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے ورثے سے جڑے خطرات کو کم کرنے کے لیے امریکہ اپنے اتحادیوں، شراکت داروں، اور بین الاقوامی تنطیموں کے ساتھ مل کر کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ کریملن جھوٹ سے کام لیتے ہوئے اِس پرامن تعاون  کو بیرونی ممالک میں امریکہ کی جانب سے مبینہ حیاتیاتی فوجی سرگرمی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ روس اِن جھوٹوں  کو مزید پھیلانے  کے لیے متعدد بین الاقوامی فورموں  کے ایک رکن کی حیثیت سے بارہا اپنی اِس پوزیشن کو غلط استعمال  کر چکا ہے۔ مگر کریملن اپنی غلط معلومات میں یہ بتانے میں ناکام رہا ہے کہ روس 2014 میں یکطرفہ طور پر اِس تعاون کو ختم کرنے تک، ان پروگراموں میں سرگرم طریقے سے شرکت کرتا رہا ہے۔

حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کی تاریخ

بہت سے  ماہرین روس کی اور سوویت یونین کی جانب سے حیاتیاتی ہتھیاروں کی غلط معلومات کے تاریِخی پھیلاؤ کو ایک مربوط مہم کے طور پر بے نقاب کر چکے ہیں ۔ اِس مہم کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دستاویزی شکل میں محفوظ اس کا ایک واقعہ 1951-1953 کی کورین جنگ کے دوران پیش آیا۔ سوویت یونین، شمالی کوریا، اور عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے امریکہ پر جانوروں میں امراض پیدا کرنے والے جراثیم یا وائرس داخل کرنے کے بعد انہیں پی آر سی اور شمالی کوریا میں چھوڑنے کا الزام لگایا ۔ سوویت نمائندوں نے اِن جھوٹے الزامات کو اقوام متحدہ (یو این) سمیت مختلف قسم کے بین الاقوامی فورموں میں اٹھایا۔ وسط مارچ اور وسط اپریل 1952 کے درمیان پورے سوویت میڈیا کی کوریج کا 25% حصہ ان جھوٹے الزامات پر مرکوز رہا ۔ اتنی زیادہ کوریج کے بعد اس مسئلے کو اچھی خاصی عوامی پذیرائی ملی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں  نے امریکہ کے حیاتیاتی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کے خلاف احتجاج کیا۔ مورخین سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے پرانی دستاویزات کے ذخیرے سے کم از کم 12 ایسی دستاویزات کی نشاندہی  کر چکے ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ الزامات غلط تھے۔ ان ثبوتوں کے باوجود یہ فرضی بیانیے گاہے بگاہے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس سال یعنی فروری 2023 میں سوویت یونین کے اِس جھوٹے دعوے کو پی آر سی نے دہرایا  کہ امریکہ نے 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے تھے۔

سوویت حیاتیاتی ہتھیاروں کی غلط معلومات کی بدنام ترین مثال 1980 کی دہائی میں تب دیکھنے کو ملی جب سوویت یونین نے یہ جھوٹا بیانیہ گھڑا کہ امریکہ نے جینیاتی طور پر انسانی مدافعاتی نظام کو نقصان پہنچانے والا وائرس (ایچ آئی وی) تیار کیا ہے۔ یہ وہی وائرس ہے جو انسان کے مدافعاتی نظام کو تباہ کرنے والی ایڈز کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ غلط معلومات کی یہ مہم  آپریشن انفیکشن  یا آپریشن ڈینور کے نام سے مشہور ہوئی۔ سوویت یونین کی ریاستی سلامتی کی کمیٹی (کے جی بی) نے بین الاقوامی میڈیا میں جعلی کہانیاں لگوا کر اس جھوٹے بیانیے کو پوری دنیا میں پھیلایا ۔  کے جی بی کی 1985 کی ایک ٹیلی گرام میں کہا گیا کہ “ان اقدامات کا مقصد بیرونی ممالک میں اپنے حق میں ایک سازگار رائے عامہ پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ یہ بیماری امریکہ اور پینٹاگان کے خفیہ اداروں کی طرف سے ایک نئے قسم کے حیاتیاتی ہتھیار کے اُن خفیہ تجربات کا نتیجہ ہے جو اب بے قابو ہو چکے ہیں۔” پرانی دستاویزات کے ذخیروں میں شامل کئی ایک دستاویزات  اور کے جی بی کے سابقہ افسروں کی آن ریکارڈ شہادتوں  سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ یہ سوویت انٹیلی جنس اداروں کی عمدہ طور پر مربوط کردہ اور اُن کے زیر ہدایت چلائی جانے والی غلط معلومات کی ایک مہم تھی۔ سوویت یونین کے سابق رہنما میخائل گورباچوف نے بالآخر سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن سے اس مخصوص جھوٹے بیانیے کو پھیلانے پر معافی بھی مانگی تھی ۔

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ

فروری 2022 میں یوکرین پر اپنے بھرپور پیمانے پر کیے جانے والے حملے کا جواز پیش کرنے کی خاطر کریملن نے کئی ایک فرضی بیانیے گھڑے ہیں جن میں سے بعض کا تعلق حیاتیاتی ہتھیاروں سے ہے۔ یوکرین پر حملہ کرنے کے چند ہی دنوں کے اندر کریملن نے اپنے حملے کے جھوٹے بہانوں میں سے ایک یعنی “یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی تجربہ گاہوں” کی موجودگی کا دعوی کیا۔ ایک روسی پارلیمنٹیرین نے حملے کے ایک ماہ بعد یہ دعوی کیا  کہ “یہ بات واضح ہے کہ ڈی پی آر اور ایل پی آر کے رہائشیوں کی حفاظت کی غرض سے کی جانے والی خصوصی کاروائیوں سے یوکرین کے علاقے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی خطرناک سرگرمیوں کے بارے میں حقائق سامنے آئے ہیں۔” ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی کریملن نے اِن دعوں کا کوئی قابل اعتبار ثبوت فراہم نہیں کیا۔ دیگر بے بنیاد جوازوں میں یوکرین کی حکومت کو “نازیوں سے پاک کرنے” کی ضرورت اور نیٹو کی روس کے ٹکڑے کرنے کی مبینہ سازش شامل ہیں۔

یوکرین کے خلاف فوری فتح حاصل کرنے میں ناکام ہونے اور جنگ کے کئی ایک محاذوں پر ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد کریملن نے یوکرین اور امریکہ کو جارحین کے طور پر پیش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات کی اپنی مہم کو مزید بڑہاوا دینا شروع کر دیا۔ کریملن کے سب سے زیادہ قابل ذکر دعووں میں سے ایک دعوٰی یہ ہے کہ امریکہ اور یوکرین نے مل کر موسمی پرندوں، مچھروں اور حتٰی کہ چمگادڑوں کی فوج کو روس میں حیاتیاتی ہتھیار لے جانے کی تربیت دینے کا کام کیا ہے۔ ممکنہ طور پر کریملن نے اِن جھوٹے بیانیوں کی بنیاد اس بات کو بنایا ہے کہ صحت عامہ کی تجربہ گاہوں میں جانوروں میں پائے جانے اور بیماریوں کا باعث بننے والے جراثیموں یا وائرسوں کا پتہ چلانے کے لیے موسمی جانوروں کی انواع کا معمول کے مطابق مطالعہ کیا جاتا ہے۔ روس کے یہ الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ ایسی انواع کے جانوروں کو بفرض محال ہتھیار کے طور پر استعمال کیا بھی جا سکتا ہو تو بھی انہیں روسی علاقے کے اندر رہنے پر پابند نہیں کیا جا سکتا اور وہ یوکرین کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔

 کریملن کی مالیاتی مدد سے چلنے والے میڈیا کے ادارے  اور روسی انٹیلی جنس اداروں سے جڑی ویب سائیٹیں  روس کی غلط معلومات اور پراپیگنڈے کے ماحولیاتی نظام کے دیگر حصوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ یہ سب ایک جیسے جھوٹے بیانیے دنیا بھر میں پھیلاتے ہیں اور اِن کی باتوں  میں ایک دوسرے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ کریملن پریس سے بات کرنے کے لیے نام نہاد “ماہرین” پر بھی انحصار کرتا ہے۔ زیادہ اثر پیدا کرنے کے لیے وہ مختلف قسم کے روس کے زیر کنٹرول یا روس نواز ترجمانوں کو استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2022 سے روسی مسلح افواج کے حیاتیاتی اور کیمیائی تحفظ کے دستوں کے کمانڈر، لیفٹننٹ جنرل ایگور کیریلوف نے اپنی میڈیا کی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔ اپنے بیانات میں کیریلوف باقاعدگی سے دعوے کر رہے ہیں کہ امریکہ ایم پوکس  اور کووڈ  کی تیاری میں ملوث تھا اور یہ کہ امریکہ ایسے حیاتیاتی ہتھیار تیار کر رہا ہے جنہیں مخصوص نسلی گروپوں کو نشانہ بنانے  کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر انہوں نے اپنے اِن دعووں کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ امریکی حکومت کو تشویش ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ جھوٹا بیانیہ کسی فالس فلیگ آپریشن  کا پیش خانہ ہو جس میں روس بذات خود یوکرین میں حیاتیاتی، کمیائی یا جوہری ہتھیار استعمال کرے اور پھر یوکرین پر اور/یا امریکہ پر اِن کا الزام لگانے کی کوشش کرے۔

کریملن ایک غلط حقیقت تخلیق کرنے کی کوشش میں اِن بیانیوں کو روس کے عوام میں بھی پھیلا رہا ہے تاکہ انہیں یہ باور کرایا جا سکے کہ کریملن کو روس کے شہریوں کو غیر ملکی دشمنوں سے بچانے کے لیے مداخلت کرنے پر “مجبور” کیا گیا تھا۔ بقا کے  خطرے کا احساس پیدا کیے بغیر یوکرین میں روس کی حکومت کے ہونے والے فوجی نقصانات کا لوگوں کو جواز پیش کرنا بہت مشکل ہوتا۔ روس اپنی فوج میں بھرتی ہونے والے نئے فوجیوں کو محاذ پر بھیجنے سے پہلے مناسب طریقے سے تربیت نہیں دیتا اور نہ ہی  مناسب حفاظتی سامان اور اچھی طرح سے کام کرنے والے ہتھیار  فراہم کرتا ہے۔ فوج اب اس حد تک جا چکی ہے کہ نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کو لڑائی میں لگنے والے اپنے زخموں کی دیکھ بھال کے لیے خواتین کے ایام مخصوصہ کے دوران استعمال کیے جان والے پیڈ ساتھ لے جانے کا کہہ رہی ہے کیونکہ فوج کے پاس اپنے فوجیوں کے لیے ابتدائی طبی امداد کا سامان نہیں ہے۔ حیاتیاتی ہتھیاروں کی سہولتوں کے بارے میں ان جھوٹے بیانیوں کا مقصد روس کے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ جنگ کے لیے ان کی قربانیوں کا اب بھی جواز موجود ہے۔

یوکرین میں حیاتیاتی تجربہ گاہوں کے بارے میں روس کے پارلیمانی کمشن کی تحقیقات

مارچ 2022 میں روسی اسمبلی “ڈوما” کے چیئرمین ویچسلاو وولڈن کے کہنے پر روسی حکومت نے یوکرین میں امریکی حیاتیاتی تجربہ گاہوں کی تحقیقات پر ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا۔ یہ کمیشن فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر مکمل حملے کے ایک ماہ بعد سامنے آیا۔ ڈپٹی فیڈریشن کونسل کے سپیکر، کونسٹنٹین کوساچیو اور ڈوما کی ڈپٹی سٹیٹ سپیکر، ارینا یارووایا اس پارلیمانی کمیشن  کی مشترکہ سربراہ تھیں جبکہ اس کے ممبروں میں 14 سینیٹر اور ڈوما کے 14 اراکین شامل تھے۔

اپنی تشکیل کے بعد سے یہ کمشن غلط معلومات پھیلانے کے لیے کریملن کے ایک کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ یارووایا باقاعدگی سے یہ دعویٰ کرتے ہوئے اعلانات  کرتی  رہتی ہیں کہ “کمیشن کے حاصل کردہ ثبوت پوری دنیا میں امریکہ کے تشکیل دیئے گئے حیاتیاتی انٹیلی جنس کے نیٹ ورک کی تصدیق کرتا ہے۔” تاہم انہوں نے اِس کے شواہد کبھی بھی  فراہم نہیں کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یارووایا کے الزامات تیزی سے سنسنی خیز ہوتے چلے جا رہے ہیں بلکہ اب سائنسی افسانوں کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔ جولائی 2022 میں یارووایا نے دعویٰ کیا  کہ کریملن نے یوکرین کے فوجیوں کے خون کا مطالعہ کیا تھا اور ان کے تجزیے سے پتہ چلا کہ فوجیوں کو “خفیہ تجربات” کا نشانہ بنایا گیا اور ان تجربات نے انہیں “ظالم ترین عفریتوں” میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایک بار پھرکمیشن نے ان مضحکہ خیز دعووں کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کمیشن کا اصل کردار ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا ہے جہاں سے مختلف قسم کے حیاتیاتی ہتھیاروں سے متعلق غلط معلومات کے بیانیوں کو ایک تسلسل سے معلومات کے ماحول میں داخل کیا جا سکے۔ کمیشن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے  کہ وہ اپریل 2023 کے وسط میں ایک رپورٹ جاری کرے گا جس میں اس کی ایک سال سے جاری غلط معلومات پھیلانے کی مہم کے دوران کیے جانے والے دعووں کو ثابت کرنے والے شواہد موجود ہوں گے۔ اپریل کی رپورٹ میں ممکنہ طور پر ری سائیکل شدہ غلط معلومات، کریملن سے جڑے نام نہاد “ماہرین” کے انٹرویو اور عوامی سطح پر پہلے سے بڑی تعداد میں دستیاب دستاویزات  شامل ہوں گی جن میں یوکرین کے لیے امریکہ کے پرامن تعاون اور مدد کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ کریملن کی غلط معلومات کی دیگر مثالوں کی مانند کمیشن کی اس رپورٹ کا مقصد دنیا کو اس بات کا یقین دلانا نہیں ہوگا کہ کریملن کے دعوے جھوٹے نہیں بلکہ سچے ہیں۔ اس کے برعکس اس رپورٹ کا مقصد یوکرین کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کو کمزور کرنے کی کوشش میں لوگوں کے ذہنوں میں شک و شبے اور الجھن کے بیچ بونا ہوگا۔

 غلط معلومات پھیلانے کے لیے کثیرالجہتی تنظیموں کا استعمال

متذکرہ بالا کمیشن کے علاوہ کریملن کثیرالجہتی تنظیموں کے عوامی پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرکے اپنے جھوٹے دعوے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ 1950 کی دہائی کے سوویت یونین کی روش پر چلتے ہوئے روس نے کئی کثیر الجہتی فورموں پر حیاتیاتی ہتھیاروں کی غلط معلومات کو بڑھاوا دیا ہے۔ فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملہ شروع کرنے کے فوراً بعد اور اس وقت سے اب تک روس کئی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے کونسل کے ایجنڈے کو یرغمال بنانے اور یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی فرضی تجربہ گاہوں کے بارے میں اپنے بے بنیاد دعووں کو بڑھاوا دینے کی خاطر اپنی حیثیت کا غلط استعمال کر چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے ارکان کی اکثریت بارہا اور پرزور طریقے سے روس کے دعووں کی تردید کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل اور تخفیف اسلحہ کے امور کی اعلی نمائندہ، ایزومی ناکامٹسو  نے یہاں تک کہا ہے کہ  یوکرین میں “اقوام متحدہ کو حیاتیاتی ہتھیاروں کے کسی بھی ایسے پروگرام کاعلم نہیں ہے۔” یوکرین پر کریملن کے بھرپور پیمانے پر کیے جانے والے حملے کے بعد سے روس اپنے حیاتیاتی ہتھیاروں کے الزامات کو دہرانے کے لیے اقوام متحدہ کے بہت سے اجلاس بلا چکا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ  نے اسے “وقت کا بہت بڑا ضیاع” قرار دینے کے ساتھ ساتھ “یوکرین میں روسی افواج کے مظالم سے توجہ ہٹانے اور ایک بلاجواز جنگ کا جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا ہے۔

اپریل 2022 میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن (بی ڈبلیو سی) کے اجلاس میں روس سمیت کنونشن کے تمام فریق ممالک کو امریکہ، جرمنی اور یوکرین کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں مدعو کیا گیا۔ اس تقریب میں یوکرین کے ساتھ ہمارے تعاون اور امدادی سرگرمیوں کی حقیقی اور پرامن نوعیت بیان کی گئی اور اس طرح وفود کو ایسے افراد سے اُن کے کام کے بارے میں براہ راست سوال پوچھنے کا ایک موقع فراہم کیا گیا جو یہ کام کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بلا تعجب، روسی وفد نے اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ محض چند ماہ بعد اور بی ڈبلیو سی کی تاریخ میں صرف دوسری بار روس نے ان جھوٹے الزامات پر غور کرنے کے لیے کنونشن کے آرٹیکل پانچ کے تحت فریق ممالک کے باضابطہ مشاورتی اجلاس کے لیے درخواست جمع کرا دی۔ جب مشاورتی اجلاس روس کے الزامات کی توثیق کرنے میں ناکام رہا تو بی ڈبلیو سی کی تاریخ میں پہلی بار روس نے بی ڈبلیو سی کے آرٹیکل چھ کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت درج کرا دی۔ جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ امریکہ اور یوکرین نے بی ڈبلیو سی کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بار بھی روس اپنے بے بنیاد الزمات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ روس نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی جو قرارداد پیش کی تھی وہ ووٹوں کے ایک بڑے فرق سے ناکام ہو گئی اور اس کے حق میں صرف روس اور پی آر سی نے ووٹ ڈالے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس کی مخالفت کی اور یو این ایس سی کے تمام دس منتخب اراکین نے غیر حاضر رہے۔

2022  کے اواخر میں ہونے والی بی ڈبلیو سی کی جائزہ کانفرنس میں روس نے ایک بار پھر تخفیفِ اسلحہ کے ایک کثیرالجہتی فورم کے اہم کام کو بار بار ناکام بنانے کی کوشش کی۔ روس کا یہ اقدام غلط معلومات پھیلانے اور اپنے فرضی بیانیوں کو جائز قرار دینے کی ایک اور کوشش تھی۔ بی ڈبلیو سی  کے نفاذ کو بامعنی طور پر مضبوط بنانے کے لیے دیگر فریق ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے روس نے بار بار ایسی تجاویز پیش کیں جن کا مقصد مکمل طور پر اِس جائزہ کانفرنس کے کام کو ناکام بنانا اور اس میں تاخیر پیدا کرنا تھا۔ بی ڈبلیو سی کے حوالے سے روس کے اقدامات نہ صرف غلط معلومات پھیلانے کے مترادف تھے بلکہ انتہائی اہم بین الاقوامی معاہدوں کے کام میں براہ راست رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ ممکنہ طور پر انہیں کمزور کرنے کے مترادف بھی تھے۔

نتیجہ

ماسکو قابل اعتبار ثبوت فراہم کیے بغیرحیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات کو بڑھاوا دیتا چلا جا رہا ہے۔ سائنسی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد روسی ماہرین کے لکھے ہوئے ایک خط پردستخط کر چکے ہیں ۔ اس خط میں کریملن کے دعوے کو رد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یوکرین میں پرامن حیاتیاتی تحقیقی تجربہ گاہوں کے کام کا “مطلب حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری یا  خاص طور پرتجربہ گاہوں میں خطرناک جراثیموں یا وائرسوں کا استعمال نہیں ہے۔  آر آئی اے نووستی اور میڈیا کے دیگر روسی اداروں نے جن اقسام کی فہرست شائع کی ہے اُن میں ایک کی بھی ایسی قسم نہیں ہے جو خطرناک ہو۔”

امریکہ کا پرامن تعاون اور امدادی سرگرمیاں بی ڈبلیو سی کے تحت اس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے مطابقت رکھنے کے علاوہ انہیں پورا کرنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔ یہ تعاون اور امدادی سرگرمیاں شفاف ہیں اور اِن کا مقصد دوسرے ممالک کی متعدی بیماریوں کے پھوٹنے کا پتہ لگانے، ان کے لیے تیاری کرنے اور اِن سے نمٹنے میں مدد کرنا ہے۔ اس کے برعکس روس یوکرین اور پوری دنیا میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے کی جانے والی پرامن تحقیق اور اس مقصد کے لیے امریکہ کے تعاون اور مدد کرنے کو حیاتیاتی ہتھیاروں کے مذموم پروگراموں کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کریملن کی حیاتیاتی ہتھیاروں کی غلط معلومات کی مہم کا مقصد چیزوں کو غلط رنگ دینا، اُن سے توجہ ہٹانا اور غلط سمت میں لے جانا ہوتا ہے۔ روس کی یہ تاریخ ہے کہ وہ دوسروں پر اُن کاموں کا الزام لگاتا ہے جو وہ خود کر رہا ہوتا ہے اور یوکرین سے متعلق حیاتیاتی ہتھیاروں کے اُس کے حالیہ دعوے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ امریکہ کا اندازہ ہے کہ روس حیاتیاتی ہتھیاروں کے ایک جارحانہ پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔ اُس کا یہ اقدام حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کے تحت اُس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future