والڈورف ایسٹوریا یروشلم
یروشلم، اسرائیل
وائٹ ہاؤس
14 جولائی، 2022
1:35 سہ پہر
نگران: (جاری گفتگو) ۔۔۔ ہم امریکہ کے قابل احترام صدر جوزف آر بائیڈن جونیئر اور ورچوئل انداز میں ہمارے ساتھ شریک متحدہ عرب امارات کے قابل احترام صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان، جمہوریہ انڈیا کے وزیراعظم فضیلت مآب نریندرا مودی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ہم آج کی آئی 2 یو2 کانفرنس کا آغاز ان تمام معزز رہنماؤں کے ابتدائی کلمات سے کریں گے جس کے بعد یہ رہنما آپس میں بات چیت کریں گے۔
یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں متحدہ عرب امارات کے قابل احترام صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے ابتدائی کلمات کہیں۔
وزیراعظم لیپڈ: ہمیں ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
نگران: معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی تکنیکی مشکل درپیش ہے۔ براہ مہربانی ہمارے ساتھ رہیے۔
صدر بن زاید النہیان: (بمطابق ترجمہ۔) جناب عالی وزیراعظم ریاستِ اسرائیل، (ناقابل سماعت) جناب عالی صدر ریاستہائے متحدہ امریکہ، جناب عالی وزیراعظم جمہوریہ انڈیا، آپ سبھی کو آداب۔
میں آئی2یو2 کے رہنماؤں کی اس پہلی کانفرنس کی میزبانی کرنے پر ریاستِ اسرائیل کے شکریے سے اپنی بات شروع کرنا چاہوں گا۔
میں کانفرنس میں شرکت کرنے اور چاروں ممالک کے اس گروہ کے کام کی کامیابی میں مسلسل تعاون پر امریکہ اور انڈیا کی قیادت کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں (ناقابل سماعت)۔
یہ کانفرنس ان ممالک اور معیشتوں کے مابین تعاون کے بہت بڑے موقع کا واضح ثبوت ہے جو امن، رواداری اور خوشحالی پر مرتکز مشترکہ اقدار اور اہداف کے مالک ہیں۔
ہمارے ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں تاہم وہ (ناقابل سماعت) امن اور بہبود و خوشحالی کے حصول کے لیے اپنے مشترکہ کام میں اکٹھے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مساوات دراصل امن، سلامتی اور ترقی کے حصول کا سب سے بہتر ذریعہ ہے، خاص طور پر اس وقت جب حکومتیں اور عوام شراکت قائم کرنے اور مسائل کا سامنا کرنے کا عزم اور ہمت رکھتے ہوں۔
ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ صرف شراکت داری ہی دور حاضر کے تنازعات اور ایک سے بڑھ کر دوسرے مسائل پر قابو پا سکتی ہے جن میں خوراک اور توانائی کا تحفظ، موسمیاتی تبدیلی اور طبی نگہداشت سب سے زیادہ اہم ہیں۔
اس کی ہماری (ناقابل سماعت) ٹیم کے پہلے منصوبے میں خاص اہمیت ہے جس میں ہم نے خوراک، موسمیاتی تبدیلی سے موافق زراعت، شمسی و ہوائی توانائی اور توانائی کے ذخیرے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
گروپ کے رہنماؤں اور ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس پر چاروں ممالک کی ٹیم کی ستائش کرتے ہوئے میں اس بات کی اہمیت پر زور دینا چاہوں گا کہ ہمیں آنے والے وقت میں تحقیق و ترقی، طبی نگہداشت اور خلائی شعبے کو ترجیح دینا ہے۔
میں اس قوت میں اضافے کے لیے بھی کہوں گا جو ہمارے ہر ملک (ناقابل سماعت) اور قیادت (ناقابل سماعت)
عزیز رہنماؤ، آج میں ایک مفید کانفرنس اور اس کے ساتھ آئی2یو2 گروپ میں دوطرفہ سطح پر اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر آپ کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں جن میں جی20 کانفرنس اور فریقین کی کانفرنس خاص طور پر اہم ہیں جس کے 28ویں اجلاس کی یواے ای آئندہ سال میزبانی کرے گا۔
میں یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ ہماری پوری ٹیم ان ممالک کے لیے ایک نمونہ ہو گی جو امن اور خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں اور ایک عظیم موقع کا ثبوت فراہم کرے گی (ناقابل سماعت) اور جو اچھی زندگی کے خواہش مند لوگوں کی قیمت پر اندھی انتہاپسندی کے باعث ضائع ہوا۔
آپ کا شکریہ۔
نگران: جناب صدر آپ کا شکریہ۔ یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں ریاستِ اسرائیل کے وزیراعظم، فضلیت مآب یائر لیپڈ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے ابتدائی کلمات کہیں۔
وزیراعظم لیپڈ: قابل احترام صدر امریکہ جو بائیڈن، قابل احترام صدر متحدہ عرب امارات، فضلیت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان، اور قابل احترام، انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی، آپ سبھی کا شکریہ۔
دوستو، اس گروپ کا قیام کئی ماہ پہلے واشنگٹن ڈی سی میں یو اے ای کے سفیر کے گھر کھانے کے موقع پر عمل میں آیا تھا۔ ہم میز کے گرد بیٹھے اور اس موضوع پر بات چیت کی کہ جب ہم وباء پر قابو پا لیں گے تو حالات کو معمول پر واپس لانے میں ناکامی کیونکر ہو سکتی ہے۔ جو بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمیں نئی طرز کے مسائل کا سامنا ہے وہ کامیاب رہے گا اور ترقی کرے گا۔
ہم بدھ کی شام اس کھانے پر بیٹھے تھے۔ چند روز کے بعد میرے دوست اور انڈیا کے وزیر برائے خارجہ امور ڈاکٹر جے شنکر یروشلم میں میرے دفتر میں جبکہ ٹونی بلنکن اور شیخ عبداللہ بن زاید زوم پر موجود تھے جو کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر ہم نے اس چار رخی آئی2یو2 فورم کی پہلی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
ہمارا نقطہء آغاز یہ تھا کہ ہم جس نئی دنیا میں رہ رہے ہیں اس میں ہمیں فوری تعاون کی اپنی صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم موزوں جدید ٹیکنالوجی کو موزوں وسائل کے ساتھ ملا کر اپنی ہر مسابقتی خصوصیت کو زیادہ سے زیادہ مفید انداز میں بروئے کار لا سکیں۔
جب توانائی، غذائی تحفظ، پانی، ٹیکنالوجی، دفاع اور تجارت کی بات ہو تو ہمیں نئے انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ملک کو ایک دوسرے سے بہت مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور ہر ملک الگ طرح کی خصوصیات کا مالک ہے۔ لیکن یہی بات ہمارے امکانات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ 21ویں صدی میں مسائل مقامی ہیں لیکن ان کے حل بین الاقوامی ہوتے ہیں۔
میں اس حوالے سے آپ کو دو مثالیں دینا چاہوں گا۔ اس وقت پوری دنیا غذائی تحفظ سے متعلق مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ موسمیاتی بحران، یورپ میں جاری جنگ اور کووڈ۔19 وباء نے باہم مل کر دنیا بھر میں غذائی تحفظ کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ افریقہ، لاطینی امریکہ، مشرقی ایشیا اور یقیناً مشرق وسطیٰ میں غذائی تحفظ اب سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔
اس گروپ نے انڈٰیا اور یو اے ای کے مابین غذائی راہداری جیسا اقدام پیش کیا جو کہ ایک ایسے مسئلے کے اختراعی حل کی ایک واضح مثال ہے جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ خوراک کی تیزتر نقل و حمل اور غذا کو محفوظ رکھنے کی ٹیکنالوجی، مختلف شعبوں میں ہر ملک کی متعلقہ خصوصیت کو اکٹھا کر کے کام میں لانے کی صلاحیت ۔۔ یہی مسئلے کا حل ہے۔
شمسی اور ہوائی توانائی کو ذخیرہ کرنے کا منصوبہ ایک اور مثال ہے۔ اس معاملے میں بھی ہمارا تصور یہ ہے کہ ہمیں ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ موثر انداز میں کام میں لانا ہے جن میں سے بعض ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں سنگین مسائل کا سامنا کرنے والی توانائی کی منڈی کی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
جب سے یوکرین میں جنگ چھڑی ہے، ہم میں سے ہرملک کو مقامی سطح پر ابھرنے والے بحرانوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ رہن سہن کے اخراجات پر اس کے اثرات فوری اور بہت بڑے ہیں۔ یقیناً اس کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
مسئلے کا حقیقی حل ممالک کے مابین تعاون کے ذریعے ہی نکلے گا جو یہ جانتے ہوں کہ ذہنی قوت، علم اور وسائل کو کیسے یکجا کرنا ہے۔
میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ یہ کوئی فلاحی گروپ نہیں ہے۔ ہم دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے ممالک، اپنے کاروباروں اور اپنے سائنسی شعبے کے لیے متعلقہ فوائد بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ میں نے جن دونوں منصوبوں کا تذکرہ کیا ان میں مقامی کمپنیوں اور متعلقہ ٹیکنالوجی سے متعلق فہرستوں کا پہلے ہی تبادلہ ہو چکا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس اقدام میں نجی شعبے کی منڈی کو بھی ایک مکمل شراکت دار کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔
یہ ایک دلچسپ گروپ ہے کیونکہ ہم چاروں ممالک ایک دوسرے سے نہایت مختلف ہیں لیکن جب ہم نے بات چیت شروع کی تو واضح ہوا کہ ہم چاروں ایک ہی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو سردی میں حرارت میسر ہو، انہیں خوراک اور صاف پانی دستیاب ہو، انہیں معیاری تعلیم ملے اور وہ علاج معالجے اور نقل و حمل کے جدید نظام سے مستفید ہو سکیں۔ ہم موسم اور ماحول کو اپنی نسل کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان میں بھی کمی لانا چاہتے ہیں۔
یہ بڑے مسائل ہیں۔ کوئی ملک خواہ کتنا ہی بڑا یا امیر کیوں نہ ہو وہ اکیلا ان سے نہیں نمٹ سکتا۔ دوسری جانب میں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں اور یہ اس ملاقات کے پیچھے کارفرما تصورات میں بھی شامل ہے کہ بہت بڑے گروپ آخر میں غیرموثر بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ چار رخی گروپ ایک درست نمونہ ہے۔ ہم پر ایک دوسرے کی نمایاں خصوصیات اور ضروریات واضح ہیں۔ ہم خاطرخواہ لچک اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کر سکتے ہیں جس کی بدولت تیزتر اور موثر فیصلے کرنا ممکن ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ہمیشہ ایسے ممالک کے ساتھ عبوری روابط تخلیق کرنے کے طریقے بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ مل کر ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی خواہش رکھتے ہوں۔
میں نے جن منصوبوں کا تذکرہ کیا ہے وہ محض آغاز ہیں۔ اس فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رہنماؤں کی حیثیت سے ہمارا کردار یہ ہے کہ ہمیں جتنا ہو سکے اپنی ٹیموں کو ایسے شعبوں میں تحقیق کے لیے آگے بڑھانا ہے جن میں حقیقی تبدیلی ممکن ہو، ہمیں انہیں نئے منصوبوں کا جائزہ لینا، انہیں تبادلہء خیال کے لیے پیش کرنا اور انہیں سائنسی اور کاروباری طبقات سے جوڑںا ہے۔
دنیا اس اجلاس کو دیکھ رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کچھ خاص ہونے کو ہے۔ یہ ایک نئی طرز کا معاشی و علاقائی تعاون ہے۔ یہ تعاون کہیں زیادہ لچک دار اور ہمیں درپیش مسائل کے مقابل موزوں ترین ہے۔
اس ملاقات سے سامنے آںے والے سفارتی اور معاشی نتائج ایک نئی طرز کے تعاون سے ہماری وابستگی کو واضح کریں گے۔
اس شراکت میں ہر ملک اور ہر فریق اپنی قوت لایا ہے تاکہ مجموعہ اپنے اجزا سے زیادہ طاقتور ہو سکے۔
یہ محض آغاز ہے۔ شکریہ۔
نگران: جناب وزیراعظم آپ کا شکریہ۔ یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں امریکہ کے صدر، قابل احترام جوزف آر بائیڈن جونیئر کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے ابتدائی کلمات کہیں۔
صدر بائیڈن: وزیراعظم لیپڈ، رہنماؤں کی سطح پر اس گروپ کے پہلے اجلاس کے انعقاد پر آپ کا بہت شکریہ۔
وزیراعظم مودی، صدر بن زاید، ہمارے تمام ممالک کے لوگوں کے لیے نہایت اہم منصوبے لانے کے لیے مشرق وسطیٰ اور ہند۔الکاہل میں اہم شراکت داروں کے مابین روابط بڑھانے اور تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے آپ کے کام کا شکریہ۔
سادہ سچائی یہ ہے کہ 21ویں صدی میں ہمیں اپنی دنیا میں جو مسائل درپیش ہیں وہ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم باہم مل کر کام کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈیں خواہ یہ تیزی سے بڑھتے موسمیاتی بحران پر قابو پانے کا معاملہ ہو جس کے اثرات روزانہ کی بنیاد پر یہاں مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جا رہے ہیں، یا غذائی عدم تحفظ اور توانائی کی منڈیوں پر آںے والے دباؤ کا مسئلہ ہو جو روس کی جانب سے اپنے ہمسایے یوکرین پر سفاکانہ اور بلااشتعال حملے کے نتیجے میں شدت اختیار کر چکا ہے یا عالمگیر وباء کے نتیجے میں تحفظ صحت کی ضروریات اور معاشی اثرات پر قابو پانے کا مسئلہ ہو جس کا ہم نے گزشتہ دو سال میں براہ راست تجربہ کیا ہے۔
یہ تمام مسائل تعاون اور اشتراک کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ملک اکیلے ان مسائل کے خلاف جامع اقدامات نہیں کر سکتا۔ ہم باہم مل جل کر جس قدر کام کریں گے ہمیں حاصل ہونے والے فوائد اسی قدر بڑھ جائیں گے اور ہم امن، استحکام اور بڑھتی ہوئی خوشحالی کے لیے اپنے مشترکہ عزم کو اتنا ہی فروغ دے سکیں گے۔ یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں جب ہمارے وزرائے خارجہ پہلی مرتبہ اس ہیئت میں ایک دوسرے سے ملے تو میرے خیال میں ہم سب نے ایک مشترکہ ایجنڈے کو فروغ دینے کے امکان کی بابت فوری جان لیا تھا۔ یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس کے ساتھ معاشی ربط قائم کرنے کے عملی اثرات کی اہمیت سامنے لانے کا معاملہ ہے جس میں مشترکہ مسائل پر قابو پانے کے لیے ان قابل اعتماد شراکتوں سے کام لیا جانا ہے۔
ہمارے ممالک میں دنیا کے انتہائی اختراعی ذہن کے حامل، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اہل ترین اور کاروباری صلاحیتوں کے مالک لوگ پائے جاتے ہیں۔ ہمیں ہر قدم پر خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ”ہم باہم مل کر کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں؟”
ہم غذائی تحفظ اور ماحول دوست توانائی سے متعلق جن پہلے دو منصوبوں پر کام کر رہے ہیں ان میں سے ایک اس وقت دنیا بھر میں لوگوں کودرپیش ہنگامی ترین نوعیت کے بحران پر قابو پانے سے متعلق ہے اور یہ غذائی عدم تحفظ کا بحران ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے نجی شعبے کے ماہرین کے تعاون سے انڈیا بھر میں مربوط زرعی پارک قائم کرنے کے لیے یو اے ای کی سرمایہ کاری محض پانچ برس میں اس خطے میں انڈیا کی خوراک کی پیداوار کو تین گنا بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انڈیا خوراک پیدا کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے۔ انڈیا کے کسانوں اور خطے میں بھوک اور غذائی قلت کا شکار لوگوں کو اس منصوبے سے پہنچنے والے فوائد پر غور کیجیے۔
اسی طرح امریکہ نے پہلے ہی انڈیا میں قابل تجدید توانائی کے ایک دہرے منصوبے کے امکاناتی جائزے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے ہیں جس میں 300 میگاواٹ صلاحیت کی ہوائی اور شمسی توانائی اور اسے ذخیرہ کرنے کا نظام تیار کیا جانا ہے۔
چاروں ممالک کے باہم مل کر اپنی مہارتوں کو یکجا کرنے اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو آگے بڑھانے سے انڈٰیا کو 2030 تک معدنی ایندھن سے پاک 500 گیگا واٹ توانائی کے حصول کے ہدف تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
ہمارا مشترکہ ہدف یہ ہے کہ ہمیں ایسے حقیقی نتائج دینا ہیں جنہیں لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کر سکیں۔
بنیادی ڈھانچہ ایک اور ہم شعبہ ہے جس میں ہم بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں موزوں اور شفاف انداز میں انفراسٹرکچر تعمیر کرنے اور اس سلسلے میں ان لوگوں کے ساتھ شراکت قائم کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے جنہیں اس بنیادی ڈھانچے سے فائدہ ہونا ہے۔ فی الوقت اس شعبے میں خلا ہے۔
اس لیے آئندہ چند سال میں یہ گروپ بنیادی ڈھانچے کے ایسے نئے منصوبوں کی نشاندہی کے لیے کام کرے گا جن میں ہم سرمایہ کاری کر سکیں اور انہیں باہم مل جل کر ترقی دے سکیں۔
یہ اجلاس محض پہلا قدم ہے اور چاروں ممالک کے مابین تعاون کی اس نئی ہیئت کی اہمیت ثابت کرنے کا موقع ہے۔ آئی2یو2 کے دائرہ کار کو آگے بڑھانے اور ہر ایک کے فائدے کے لیے اکٹھے کام کرنے کے موقع پر میں اس گروپ میں رہنماؤں کی سطح پر دوسروں سے قریبی رابطے میں رہنے اور باہم تعاون کا منتظر ہوں۔ اگر ہم اکٹھے رہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
اس لیے میں اس انداز میں آگے بڑھنے پر اتفاق رائے کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔ میرے خیال ہم بعض بڑے کام کر سکتے ہیں۔ شکریہ۔
نگران: جناب صدر آپ کا شکریہ۔ یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں جمہوریہ انڈیا کے وزیراعظم، فضلیت مآب نریندرا مودی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے ابتدائی کلمات کہیں۔
وزیراعظم مودی: (بمطابق ترجمہ۔) عزت مآب وزیراعظم لیپڈ، فضلیت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان، عزت مآب صدر بائیڈن۔
سب سے پہلے میں وزیراعظم لیپڈ کو عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارک باد دیتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ آج اس کانفرنس کے انعقاد پر بھی میں ان کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں۔
یہ واقعتاً تزویراتی اتحادیوں کا اجلاس ہے۔ ہم اچھے دوست بھی ہیں اور ہمارے نقطہ ہائے نظر اور مفادات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
فضلیت مآب سربراہان، آئی2یو2 نے آج اپنی پہلی ہی کانفرنس میں ایک مثبت ایجںڈا پیش کیا ہے۔ ہم نے کئی شعبوں میں مشترکہ منصوبوں کی نشاندہی کی ہے اور انہیں آگے بڑھانے کا لائحہ عمل بھی بنایا ہے۔ آئی2یو2 فریم ورک میں ہم نے چھ اہم شعبہ جات میں مشترکہ سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جن میں پانی، توانائی، نقل و حمل، خلا، صحت اور غذائی تحفظ شامل ہیں۔ یہ واضح ہے کہ آئی2یو2 کی سوچ اور ایجنڈا ترقی پسندانہ اور عملی ہے۔
ہم اپنے ممالک کی باہمی قوت کو کام میں لا کر اپنے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا سکتے ہیں اور یہ قوت سرمایے اور منڈیوں کے حوالے سے ہماری مہارت ہے۔ اس طرح ہم عالمی معیشت میں اپنا اہم حصہ ڈال سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی غیریقینی کے ہوتے ہوئے ہمارا تعاون پر مبنی ڈھانچہ عملی تعاون کا ایک اچھا نمونہ بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئی2یو2 کے ساتھ ہم توانائی کے تحفظ، غذائی تحفظ اور معاشی ترقی کے شعبہ جات میں عالمی سطح پر اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ شکریہ۔
نگران: معزز رہنماؤں کا شکریہ۔ اب ہم رہنماؤں کے مابین بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔
یہاں براہ راست نشریات کا اختتام ہوتا ہے۔ صحافیوں کا شکریہ۔ براہ مہربانی باہر جائیے۔
1:55 سہ پہر
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2022/07/14/remarks-by-president-biden-prime-minister-lapid-president-bin-zayed-al-nahyan-and-prime-minister-modi-at-i2u2-virtual-event/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔