An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
برائے فوری اجراء
8 جولائی، 2021

ایسٹ روم
2:09 سہ پہر

صدر: سہ پہر بخیر۔ آج صبح مجھے ہمارے اعلیٰ سطحی فوجی افسروں اور قومی سلامتی کے رہنماؤں نے افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کی صورتحال سے آگاہ کیا۔

اپریل میں جب میں نے اپنی افواج کی واپسی کا اعلان کیا تو اس وقت میں نے کہا تھا کہ ہم ستمبر تک افغانستان چھوڑ دیں گے اور ہم اس ہدف کی تکمیل کی جانب گامزن ہیں۔

افغانستان میں ہمارا فوجی مشن 31 اگست کو ختم ہو جائے گا۔ افواج کی واپسی محفوظ اور منظم انداز میں جاری ہے جس میں واپس آتے ہوئے ہمارے فوجی دستوں کی سلامتی ممکن بنانے کو ترجیح دی گئی ہے۔

ہمارے فوجی کمانڈروں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ جب میں نے جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس کے بعد ہمیں واپسی کے اہم مراحل تیزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں رفتار ہی تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے۔

ہم نے جس انداز میں واپسی اختیار کی اس کی بدولت امریکی افواج یا کسی بھی اتحادی فوج کے کسی بھی فرد کا نقصان نہیں ہوا۔ اگر ہم واپسی کا عمل کسی اور انداز میں انجام دیتے تو یقیناً اس میں ہمارے اہلکاروں کے تحفظ کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا۔

میرے لیے ایسے خطرات ناقابل قبول تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ہماری فوج اس کام کو موثر طریقے سے اور انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں انجام دے گی۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ یہ بات ہمارے نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں پر بھی صادق آتی ہے جنہیں واپسی کے عمل میں ہمارا تعاون حاصل ہے اور جو ہماری مدد بھی کر رہے ہیں۔

میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ: افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن اگست کے اختتام تک جاری رہے گا۔ ہم اس ملک میں اپنے فوجی اور دیگر صلاحیتیں برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا کچھ اختیار ــ معاف کیجیے، وہی اختیار برقرار ہے جس کے تحت ہم کچھ عرصہ سے وہاں کام کرتے چلے آئے ہیں۔

جیسا کہ میں نے اپریل میں کہا تھا، امریکہ نے افغانستان میں وہی کچھ کیا جو ہم چاہتے تھے: ہمارا مقصد 11/9 کو ہم پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنا، اسامہ بن لادن کو انجام تک پہنچانا اور افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنا تھا تاکہ وہ امریکہ کے خلاف مزید حملوں کے لیے ٹھکانہ نہ بننے پائے۔ ہم نے یہ مقاصد حاصل کیے۔ ہم اسی لیے وہاں گئے تھے۔

ہم ملکی تعمیر کا مقصد لے کر افغانستان نہیں گئے تھے۔ یہ صرف افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور یہ طے کریں کہ وہ اپنے ملک کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں۔

ہم نے اپنے نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغان نیشنل سکیورٹی فورس کے قریباً 300,000 حاضر سروس ارکان کو تربیت دی اور مسلح کیا۔ ان کے علاوہ ایسے مزید بہت سے لوگ بھی ہیں جو اب فوجی خدمت انجام نہیں دے رہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو دہائیوں میں افغان نیشنل ڈیفینس اینڈ سکیورٹی فورسز کے لاکھوں مزید اہلکاروں کو بھی تربیت دی گئی۔

ہم نے اپنے افغان شراکت داروں کو وہ تمام ذرائع مہیا کیے، میں زور دے کر کہوں گا کہ ہم نے انہیں تربیت اور ایسا سازوسامان فراہم کیا جو کسی بھی جدید فوج کے پاس ہو سکتا ہے۔ ہم نے انہیں جدید اسلحہ دیا۔ ہم انہیں مالی وسائل اور سازوسامان کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ ان کے پاس فضائی فوج کو برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی ہو۔

تاہم سب سے اہم بات یہ ہے اور جیسا کہ میں نے دو ہی ہفتے پہلے صدر غنی اور چیئرمین عبداللہ سے اپنی ملاقات میں زور بھی دیا کہ افغان رہنماؤں کو متحد ہونا اور ایسے مستقبل کی جانب بڑھنا ہو گا جس کی افغان عوام خواہش کرتے ہیں اور جس کے وہ حق دار ہیں۔

ملاقات کے دوران میں نے صدر غنی کو یقین دلایا کہ افغانستان کے عوام کے لیے امریکہ کی مدد جاری رہے گی۔ ہمارا ان کے ساتھ غیرفوجی اور امدادی تعاون برقرار رہے گا جس میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی شامل ہے۔

اس موقع پر میں نے افغانستان میں امریکہ کی سفارتی موجودگی برقرار رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ہم بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت جاری رکھنے کے لیے اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔

ہم امن اور ایک ایسے امن معاہدے کے لیے پُرعزم سفارت کاری کا حصہ ہوں گے جس سے یہ غیرمعقول تشدد ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

میں نے وزیر خارجہ بلنکن اور افغان مفاہمتی عمل کے لیے اپنے خصوصی نمائندے سے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے مذاکراتی حل میں مدد دینے کے لیے ناصرف افغان دھڑوں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی فریقین کے ساتھ بھی بھرپور انداز میں کام کریں۔

واضح رہے کہ اس خطے کے ممالک کا افغانستان میں ایک پُرامن تصفیے میں لازمی کردار ہے۔ ہم ان کے ساتھ کام کریں گے اور انہیں بھی اپنی کوششیں آگے بڑھانی چاہئیں۔

ہم افغانستان میں قید تمام امریکیوں بشمول مارک ــ معاف کیجیے، فریرچز کی رہائی کے لیے کام جاری رکھیں گے تاکہ وہ محفوظ طریقے سے اپنے خاندان کے پاس واپس آ سکیں۔ میں ان کا نام درست طریقے سے ادا کرنا چاہتا ہوں، مجھ سے بولنے میں غلطی ہوئی۔

ہم یہ بات بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ امریکی افواج کے شانہ بشانہ کام کرنے والے افغان ترجمانوں اور مترجمین کو امریکہ لایا جائے۔ چونکہ اب وہاں ہماری عسکری موجودگی نہیں ہو گی تو ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ ایسے میں وہ بے روزگار ہو جائیں گے جبکہ افغانستان میں ہماری کوششوں میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے اور اسی لیے ہم ان کے اہلخانہ کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

ہم نے سپیشل امیگرنٹ ویزوں کے اجرا کا عمل پہلے ہی تیز کر دیا ہے تاکہ انہیں امریکہ لایا جا سکے۔

20 جنوری کو میری حلف برداری کے بعد سے ہم ان لوگوں کو امریکہ لانے کے لیے 2500 سپیشل امیگرنٹ ویزوں کی مںظوری دے چکے ہیں۔ اب تک ان میں سے نصف سے زیادہ لوگوں نے اپنا یہ حق استعمال کیا ہے۔ نصف لوگ عام پروازوں کے ذریعے آ چکے ہیں اور نصف وہیں رہنا چاہتے ہیں۔ کم از کم اب تک تو یہی صورتحال ہے۔

اس معاملے میں ہم ویزوں کی منظوری سے متعلق قانون سازی کے لیے کانگریس کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ ان ویزوں کے اجراء کے عمل کو بہتر اور موثر بنا سکیں۔ افغانستان میں امریکہ کے فوجی مشن کی تکمیل سے پہلے ہزاروں افغانوں اور ان کے اہلخانہ کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی کارروائی میں جن لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا ہے اگر وہ چاہیں تو امریکی ویزوں کے اجراء کا عمل مکمل ہونے تک افغانستان سے باہر محفوظ طور سے قیام کر سکتے ہیں۔

اگر وہ چاہیں تو انہیں امریکہ سے باہر امریکی ٹھکانوں اور تیسرے ممالک میں رکھا جائے گا۔ اس ماہ کے آغاز سے ہم سپیشل امیگرنٹ ویزے کی درخواستیں دینے والوں اور ان کے اہلخانہ کو افغانستان سے نکالنے کے لیے فضائی پروازوں کا سلسلہ شروع کریں گے۔

ہم نے ایسی تمام کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس اور دفتر خارجہ کے زیرقیادت ٹاسک فورس میں ایک مخصوص عہدیدار کا تقرر کیا ہے۔

تاہم ان مردوخواتین کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے: اگر آپ چاہیں تو امریکہ کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں اور ہم اسی طرح آپ کا ساتھ دیں گے جس طرح آپ نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔

جب میں نے افغانستان میں امریکی افواج کا کردار ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو میں نے اندازہ لگایا کہ اس جنگ کو لامحدود مدت تک جاری رکھنا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا اور مجھے میدان جنگ کی تازہ ترین صورتحال سے روزانہ آگاہ کیا جاتا ہے۔

تاہم جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں مزید چھ مہینے یا مزید ایک سال وہاں قیام کرنا چاہیے تھا انہیں میں حالیہ تاریخ کے اسباق پر غور کرنے کو کہتا ہوں۔

2011 میں نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم اپنا جنگی مشن 2014 میں ختم کر دیں گے۔ 2014 میں بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مشن مزید ایک سال جاری رکھا جائے۔ چنانچہ ہم نے جنگ جاری رکھی اور ہماری ہلاکتیں بھی بڑھتی گئیں۔ 2015 میں اور اس کے بعد بھی یہی صورتحال تھی۔

قریباً 20 سال کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں سلامتی کی موجودہ صورتحال سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ”صرف ایک اور سال” کی جنگ اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ گویا وہاں لامحدود مدت تک رہنے کی ترکیب ہے۔

یہ افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے لیے کون سا فیصلہ کرتے ہیں۔

دیگر لوگ اس سے بھی کہیں سیدھی بات کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ہمیں لامحدود مدت تک افغانستان میں رہنا چاہیے۔ اپنی بات کے حق میں وہ گزشتہ سال کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہیں جب وہاں کسی امریکی فوجی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔ اس طرح ان کا دعویٰ ہے کہ وہاں صورتحال جوں کی توں رکھنے کی زیادہ قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی۔

تاہم اس طرح وہ حقائق نظرانداز کر دیے جاتے ہیں جو اس وقت بھی ہمارے سامنے تھے جب میں نے عہدہ سنبھالا تھا۔ اس وقت 2001 کے بعد طالبان عسکری اعتبار سے مضبوط ترین پوزیشن میں تھے۔

افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کم سے کم کر دی گئی تھی۔ گزشتہ انتظامیہ کے دور میں امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اس سال یکم مئی تک اپنی تمام افواج واپس بلا لے گا۔ میری حکومت کو یہ معاہدہ ورثے میں ملا۔ اسی معاہدے کی وجہ سے طالبان نے امریکی افواج کے خلاف بڑے حملے بند کر دیے تھے۔

اس کے بجائے اپریل میں اگر میں نے یہ اعلان کیا ہوتا کہ امریکہ گزشتہ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے ــ اور امریکی اور اتحادیوں کی افواج قابل قیاس وقت تک افغانستان میں موجود رہیں گی ــ تو طالبان نے ایک مرتبہ پھر ہماری افواج پر حملے شروع کر دیے ہوتے۔

صورتحال جوں کی توں رکھنا اس مسئلے کا حل نہیں تھا۔ افغانستان میں رہنے سے امریکیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا اور امریکہ کے مردوخواتین دوبارہ خانہ جنگی میں پھنس جاتے۔ ایسے میں ہمیں اپنے بقیہ فوجی دستوں کی حفاظت کے لیے مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا خطرہ مول لینا پڑتا۔

جب طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو پھر وہاں ایک چھوٹی سی فورس کا قیام کرنا ممکن نہیں تھا۔

اس لیے میں وہاں قیام کے حق میں بات کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ امریکہ کے مزید کتنے بیٹوں اور بیٹیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ آپ انہیں وہاں مزید کتنی دیر رکھنا چاہتے ہیں؟

ہماری فوج کے وہ ارکان افغانستان میں ہیں جن کے والدین بھی 20 سال پہلے وہاں لڑتے رہے تھے۔ کیا آپ ان کے بچوں اور پھر ان کے پوتے پوتیوں کو بھی وہاں بھیجیں گے؟ کیا آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو بھی وہاں بھیجیں گے؟

20 سال میں افغان نیشنل سکیورٹی اینڈ ڈیفینس فورس کے ہزاروں ارکان کی تربیت اور انہیں سازوسامان مہیا کرنے پر ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے، 2448 امریکی افغانستان میں ہلاک ہوئے، 20,722 زخمی ہوئے اور ہزاروں فوجی ذہنی صحت کے مسائل لے کر واپس آئے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ میں مختلف نتائج کے حصول کی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں بھیجوں گا۔

امریکہ ایسی پالیسیوں سے جڑا رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جو 20 سال پہلے کی دنیا کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ہمیں آج کے دور کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

آج دہشت گردی کا خطرہ افغانستان سے باہر پھیل چکا ہے۔ اس لیے ہم اپنے وسائل کو ازسرنو ترتیب دے رہے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو موجودہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا رہے ہیں جو جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں خاص طور پر نمایاں ہے۔

تاہم یاد رہے کہ: ہمارے فوجی اداروں اور انٹٰیلی جنس کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ وہ ہمارے وطن اور ہمارے مفادات کو افغاانستان سے دہشت گردی کے کسی بھی ابھرتے ہوئے خطرے سے تحفظ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

ہم انسداد دہشت گردی کی ایک ایسی افقی صلاحیت ترتیب دے رہے ہیں جو ہمیں خطے میں امریکہ کو لاحق کسی بھی براہ راست خطرے کو اپنی نگاہ میں رکھنے اور ضرورت پڑنے پر فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے میں مدد دے گی۔

ہمیں چین اور دوسرے ممالک کے ساتھ تزویراتی مسابقت کے لیے امریکہ کی بنیادی طاقت کو قائم رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ مسابقت ہی ہمارے مستقبل کا تعین کرے گی۔

ہمیں اندرون ملک اور دنیا بھر میں کووڈ۔19 کو شکست دینا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم آئندہ آنے والی کسی وباء یا حیاتیاتی خطرے سے نمٹنے کے لیے بہتر طور سے تیار ہوں۔

ہمیں سائبر سپیس اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی بابت عالمگیر ضوابط بنانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے ہمارے وجود کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہیں۔

اگر ہم گزشتہ 20 سال کے بجائے آئندہ 20 سال کی جنگیں لڑیں تو طویل مدتی طور پر اپنے مخالفین اور حریفوں کے مقابلے میں ہم زیادہ مضبوط ہوں گے۔

آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ میں افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے شانہ بشانہ کام کرنے والے امریکہ کے فوجی اور غیرفوجی اہلکاروں کی غیرمعمولی قربانی اور لگن کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے جو کامیابی حاصل کی اور اپنی ذات کے لیے جو بہت بڑا خطرہ مول لیا اور ان کے خاندانوں نے اس کی جو قیمت ادا کی میں اس کی اہمیت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کرہ ارض کے ایک انتہائی سخت ماحول میں دہشت گردی کے خطرے کا تعاقب کیا۔ میں نے قریباً پورے افغانستان کا دورہ کیا ہے اور ان لوگوں کی بدولت گزشتہ 20 سال میں افغانستان سے امریکہ کے خلاف کوئی دوسرا حملہ نہیں ہوا جبکہ انہوں نے بن لادن کو بھی پکڑا۔

میں آپ لوگوں کی خدمات اور اپنے مقصد سے لگن نیز اس طویل جنگ کے دوران آپ کی اور آپ کے اہلخانہ کی قربانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

ہم ان لوگوں کو کبھی نہیں بھولیں گے جو اپنے ملک کے لیے افغانستان میں پوری لگن سے لڑے اور وہ لوگ بھی جن کی زندگیاں اپنے ملک کی خدمت کرتے ہوئے لگنے والے زخموں سے اس طرح تبدیل ہو گئیں جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہم امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کر رہے ہیں مگر ہم اس جنگ میں خدمات انجام دینے والے امریکی محب وطنوں کی بہادری کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

خدا آپ سب پر رحمت کرے اور خدا ہمارے فوجیوں کی حفاظت کرے۔  آپ کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/07/08/remarks-by-president-biden-on-the-drawdown-of-u-s-forces-in-afghanistan/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future