An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
واشنگٹن، ڈی سی
14 اپریل 2021

ٹریئٹی روم
2 بجکر 29 منٹ سہ پہر ای ڈی ٹی

صدر: سہ پہر کا سلام۔ میں آپ سے وائٹ ہاؤس کے ‘روز ویلٹ’ نامی ٹریئٹی روم سے مخاطب ہوں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے 2001 کے اکتوبر میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ہماری قوم کو بتایا تھا کہ امریکی فوج نے افغانستان میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں پر حملے شروع کردیئے ہیں۔ یہ چند ہفتوں — [ یعنی] یہ ہماری قوم پر اُس دہشت گردانہ حملے کے محض چند ہفتے بعد کی بات ہے جس نے بے گناہ لوگوں کی جان لی، زیریں مین ہیٹن کو ایک تباہی والے علاقے میں تبدیل کردیا، پینٹاگون کے کچھ حصوں کو تباہ کردیا، اور شینکس وِل، پینسلوینیا کے ایک کھیت کو مقدس بنا دیا، اور اِس امریکی وعدے کا ایک شعلہ بھڑکا دیا کہ ہم “کبھی بھی نہیں بھولیں” گے۔

ہم 2001ء میں القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے افغانستان گئے تاکہ افغانستان سے مستقبل میں ہونے والے امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کی روک تھام کی جا سکے۔ ہمارا مقصد بڑا واضح تھا۔ [ہمارا] نصب العین انصاف پر مبنی تھا۔ ہمارے نیٹو کے حلیف اور شراکت دار ہمارے ساتھ آن ملے۔ اور میں نے کانگریس کے اراکین کی بھاری اکثریت سمیت اس فوجی کارروائی کی حمایت کی۔

سات سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد، 2008 میں ہمارے [اپنے] عہدوں کے حلف اٹھانے سے ہفتوں قبل، [ یعنی] جب صدر اوباما اور میں حلف اٹھانے والے تھے، صدر اوباما نے مجھے افغانستان جانے اور افغانستان کی جنگ کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنے کا کہا۔ میں افغانستان کی کنڑ وادی میں گیا۔ یہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔ اس سفر میں میں نے جو کچھ دیکھا اس سے میرے اس یقین کو مزید تقویت ملی کہ صرف افغانیوں کو اپنی ملک کی قیادت کرنے کا حق ہے اور یہ اُنہی کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ مزید اور نہ ختم ہونے والی امریکی فوجی قوت پائیدار افغانستان تشکیل نہیں دے سکتی یا اسے برقرار نہیں رکھ سکتی۔

میرا یہ یقین تھا کہ افغانستان میں ہماری موجودگی کو اُسی وجہ پر مرکوز ہونا چاہیے جس بنیادی وجہ سے ہم وہاں گئے تھے: [یعنی] اس بات کو یقینی بنانا کہ افغانستان کو دوبارہ ہمارے وطن پر حملہ کرنے کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔ ہم نے یہ مقصد حاصل کیا۔

میں نے دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کہا کہ ہم اسامہ بن لادن کا پیچھا، اگر ضرورت پڑی تو جہنم کے دروازوں تک کریں گے۔ ہم نے بالکل یہی کام کیا اور ہم نے اسے جا پکڑا۔ صدر اوباما کے عزم کو عملی شکل میں ڈھالنے میں ہمیں 10 برس کے قریب لگے۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ اسامہ بن لادن ختم ہو گیا۔

وہ 10 سال پہلے کی بات تھی۔ اس کے بارے میں سوچیے۔ ہم نے ایک دہائی قبل بن لادن کو انصاف کے گھاٹ اتارا اور اُس کے بعد ہمیں افغانستان میں رکے ایک دہائی ہو گئی ہے۔ اس کے بعد سے افغانستان میں رہنے کی ہماری وجوہات تیزی سے غیر واضح ہوتی جارہی ہیں، باوجود اس کے کہ دہشت گردی کا وہ خطرہ جس کے خلاف ہم لڑنے گئے تھے وہ ارتقا پا کر پھیل گیا ہے۔

گزشتہ 20 برسوں میں یہ خطرہ مزید منتشر ہو گیا ہے، اور دنیا بھر میں ایک مرض کی طرح پھیل چکا ہے: [ یعنی] صومالیہ میں الشباب؛ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ؛ شام میں النصرہ؛ [اور] داعش شام اور عراق میں کیلافت [خلافت] قائم کرنے اور افریقہ اور ایشیا کے متعدد ممالک میں ذیلی [تنظیمیں] قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بہت ساری جگہوں پر اب دہشت گردی کے خطرے کی موجودگی کے پیش نظر، ہر سال اربوں کی لاگت سے ہزاروں فوجیوں کو ایک ہی ملک میں بٹھانا اور اُسی پر مرکوز رکھنا، میری اور ہمارے راہنماؤں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے یا اس میں توسیع کرنے کے چکر کو انخلا کے لیے مثالی حالات پیدا کرنے، اور مختلف نتیجے کی توقع کرنے کی امید لیے جاری نہیں رکھ سکتے۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی صدارت کرنے والا اب میں امریکہ کا چوتھا صدر ہوں: [ یعنی] دو ری پبلکن، دو ڈیموکریٹس۔ میں اس ذمہ داری کو پانچویں کو نہیں منقل کروں گا۔

اپنے حلیفوں اور شراکت داروں کے ساتھ ، اپنے فوجی لیڈروں اور انٹیلی جنس عہدیداروں کے ساتھ، اپنے سفارت کاروں اور اپنے ترقیاتی ماہرین کے ساتھ، کانگریس اور نائب صدر کے ساتھ، اورمسٹر غنی اور دنیا بھر کے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ قریبی مشورے کرنے کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وقت امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کا وقت ہے۔ یہ امریکی فوجیوں کے وطن لوٹنے کا وقت ہے۔

جب میں اپنے دفتر میں آیا تو مجھے امریکہ کی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے باضابطہ مذاکرات میں طے پانے والا ایک سفارتی معاہدہ ورثے میں ملا جس کے تحت تمام امریکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے نکل جانا تھا [ یعنی] میرے حلف اٹھانے کے محض تین مہینے کے بعد۔ ہمیں یہی کچھ ورثے میں ملا – یہ وعدہ۔

شاید یہ وہ چیز نہیں ہے جس کے لیے میں نے خود بات چیت کی ہوتی۔ مگر یہ ایک معاہدہ تھا جو امریکہ کی حکومت نے کیا تھا اور یہ کچھ وزن رکھتا ہے۔ لہذا اس معاہدے کا پاس رکھتے ہوئے اور اپنے قومی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے، امریکہ اپنا آخری انخلاء شروع کرے گا — اس کا آغاز اس سال کے یکم مئی کو ہو گا۔

ہم انخلا میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے– ہم یہ کام ذمہ داری سے، سوچ سمجھ کر، اور محفوظ طریقے سے کریں گے- اور ہم اسے اپنے اُن حلیفوں اور شراکت داروں کے ساتھ مکمل رابطہ کاری کے ساتھ کریں گے جن کی افغانستان میں افواج کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔

اور طالبان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ ہمارے انخلا کرتے وقت ہم پر حملے کریں گے تو ہم اپنے آپ کا اور اپنے شراکت کاروں کا اپنے اختیار میں موجود تمام وسائل کے ساتھ دفاع کریں گے۔

ہمارے حلیف اور شراکت دار تقریبا 20 برسوں سے افغانستان میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اور ہم اُن کی ہمارے مشترکہ مشن کے لیے سرانجام دی جانے والی خدمات اور انہوں نے جو قربانیاں دی ہیں اُن کے لیے بہت زیادہ مشکور ہیں۔

ایک طویل عرصے سے “اکٹھے آئے ہیں اور اکٹھے جائیں گے” کا منصوبہ چلا آ رہا ہے۔ امریکہ فوجیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے نیٹو حلیفوں کے تعینات کردہ فوجی اور آپریشنل شریک کار، 11 ستمبر کے گھناؤنے حملے کی ہماری بیسویں برسی منانے سے پہلے افغانستان سے نکل جائیں گے۔

تاہم، ہم دہشت گردی کے خطرے سے اپنی نظریں نہیں ہٹائیں گے۔ ہم دہشت گردی کے خاتمے کی اپنی صلاحیتوں اور خطے میں خاطر خواہ اثاثوں کی تنظیم نو کریں گے تاکہ دہشت گردوں کے دوبارہ ابھرنے – افق کے اُس پار سے خطرے کے دوبارہ ابھرنے کو روکا جاسکے۔ ہم طالبان کو افغان سرزمین سے کسی قسم کے دہشت گردوں کو امریکہ یا اس کے حلیفوں کو خطرہ بننے کی اجازت نہ دینے کے ان کے وعدے پر جوابدہ ٹھہرائیں گے۔ افغان حکومت نے بھی ہم سے وعدہ کیا ہے۔ اور ہم سب اپنی پوری توجہ اُس خطرے پر مرکوز کریں گے جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔

میری ہدایات کے تحت میری ٹیم دہشت گردی کے اہم خطرات کی نگرانی اور انہیں ناکام بنانے کے لیے ہماری قومی حکمت عملی کو نہ صرف افغانستان میں بہتر بنا رہی ہے بلکہ جہاں کہیں ہو سکتے ہیں ۔ ۔ جہاں کہیں ہیں [ یعنی] افریقہ، یورپ، مشرق وسطی اور دوسری جگہوں پر بھی بہتر بنا رہی ہے۔

میں نے کل اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے صدر بش کے ساتھ بات کی۔ گوکہ ان کا اور میرا [ گزشتہ] برسوں کے دوران پالیسیوں پر رائے کا اختلاف رہا ہے مگر ہم ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مسلح افواج کی خواتین اور مردوں کی بہادری، جرات اور سالمیت کے احترام اور حمایت پر مکمل طور پر متحد ہیں۔ انہوں نے تقریباً دو دہائیوں پر پھیلی جنگی تعیناتیوں کے دوران جس بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے میں اُس کے لیے انتہائی مشکور ہوں۔ ہم بحیثیت قوم ہمیشہ اُن کے اور ان کے خاندانوں کے مقروض رہیں گے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ ایک فیصد سے کم امریکی ہماری مسلح افواج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ باقیماندہ 99 فیصد – ہم اُن کے مقروض ہیں۔ ہم اُن کے مقروض ہیں۔ وہ کبھی ایک بھی ایسے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے جو ہم نے انہیں سونپا ہے۔

افغانستان کے دوروں کے دوران میں نے ان کی بہادری کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔ اپنے عزم میں اُن کی قدم کبھی بھی نہیں ڈگمگائے۔ انہوں نے ہماری طرف سے ایک زبردست قیمت ادا کی ہے۔ اور انہیں ایک شکر گذار قوم کا شکر حاصل ہے۔

ہم افغانستان ميں فوجی لحاظ سے تو ملوث نہيں رہيں گے، تاہم ہمارا سفارتی اور انسانی بنيادوں پر کام جاری رہے گا۔ ہم افغانستان کی حکومت کی حمايت جاری رکھيں گے۔ ہم بدستور افغان نيشنل ڈيفينسس اور سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرتے رہيں گے۔

اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم نے گزشتہ دو دہائيوں کے دوران ہزاروں کی تعداد ميں اور آج 3 لاکھ نفوس پر مبنی فورس کی تربيت کر کے اس کو ليس کيا ہے۔ اور بھاری قيمت چکاتے ہوئے وہ افغانيوں کے ليے بہادری کے ساتھ لڑتے رہيں گے۔ وہ امن مذاکرات کی حمايت کريں گے، جيسا کہ ہم بھی اقوام متحدہ کی سہولت کاری ميں طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درميان امن مذاکرات کی حمايت کريں گے۔ اور ہم اہم انسانی اور ترقياتی امداد کو جاری رکھ کے افغان بچيوں اور عورتوں کے حقوق کی حمايت جاری رکھيں گے۔

اور ہم ديگر ممالک سے بھی کہيں گے – خطے کے ديگر ممالک کہ وہ افغانستان کی مدد کے ليے مزيد کاوشيں کريں، خاص طور پر پاکستان اور اس کے علاوہ روس، چين، بھارت اور ترکی۔ ان سب کا افغانستان کے مستحکم مستقبل کے حوالے سے کافی کچھ داؤ پر ہے۔

اور آئندہ چند ماہ کے دوران ہم اس بات کا بھی تعین کريں گے کہ افغانستان ميں مسلسل سفارتی موجودگی کيا رخ اختيار کرے گی بشمول اس کے کہ ہم اپنے سفارت کاروں کی حفاظت کو کيسے يقينی بنائيں گے۔

ديکھيے ميں جانتا ہوں کہ ايسے بہت ہوں گے جو بلند آواز کے ساتھ اس بات پر بضد رہيں گے کہ مضبوط امريکی فوجی موجودگی کے بغير سفارت کاری کامياب نہيں ہو سکتی۔ ہم نے اس دليل کو ايک دہائی کا عرصہ ديا ہے۔ يہ کبھی بھی موثر ثابت نہيں ہوئی، نا تو تب جب افغانستان ميں 98,000 فوجی تھے اور نہ اس وقت جب يہ تعداد کم ہوکر چند ہزار رہ گئی ہے۔

ہماری سفارت کاری فوجيوں کو خطرات ميں ڈالنے پر منحصر نہيں ہے — [ یعنی] زمين پر امريکی فوجیوں کی موجودگی۔ ہميں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ امريکی فوجيوں کو دوسرے مملک ميں متحارب جماعتوں کے درميان سودے بازی کے ليے استعمال نہيں کيا جانا چاہيے۔ آپ جانتے ہيں کہ اس کی اہمیت امريکی فوجيوں کو افغانستان ميں غير معينہ مدت تک رکھنے کے نسخے سے بڑھکر کچھ نہیں۔

ميں يہ بھی جانتا ہوں کہ ايسے بہت سے لوگ ہيں جو اس بات پر بحث کريں گے کہ ہميں رہنا چاہيے — [ یعنی] افغانستان ميں لڑائی جاری رکھنا چاہيے کيونکہ واپسی سے امريکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور دنيا ميں امريکہ کا اثرورسوخ کمزور پڑ جائے گا۔ ميں سمجھتا ہوں کہ سچ اس کے بالکل برعکس ہے۔

ہم افغانستان ميں بيس برس قبل ہونے والے خوفناک حملے کی وجہ سے گئے تھے۔ يہ اس بات کی توجيہہ فراہم نہيں کرتا کہ ہم 2021 ميں بھی وہاں رہيں۔

طالبان کے ساتھ دوبارہ جنگ کی بجائے ہميں ان چيلنجوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے جو ہمارے سامنے ہيں۔ ہميں دہشت گردی کے ان نيٹ ورکوں اور کاروائیوں کا پیچھا کر کے ان کا قلع قمع کرنا ہے جو 11/9 کے بعد سے افغانستان سے بہت دور تک پھيل چکے ہيں۔

ہميں امريکی مسابقت کو تقويت دينا ہے تا کہ اس سخت مقابلے کا سامنا کيا جا سکے جو ہميں بدستور بڑھتے ہوئے چين سے درپیش ہے۔

ہميں اپنی شراکت داريوں کو مستحکم کرنا ہے اور ہم خيال شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہے کہ

ہمارے مستقبل کی صورت گری کرنے والی ابھرتی ہوئی ٹيکنالوجيوں اور سائبر خطرات کے قوانین ہماری جمہوری اقدار — [یعنی] اقدار پر کھڑے ہوں — نہ کہ آمروں کی اقدار پر۔

ہميں اس وبا کو شکست دينا ہے اور عالمی نظام صحت کو مضبوط کرنا ہے تا کہ اگلی کی تياری کی جا سکے کيونکہ ايک اور وبا بھی آ سکتی ہے۔

آپ جانتے ہيں کہ ہم اپنے مخالفين اور مسابقیں کے مقابلے میں طويل مدت کے ليے زيادہ مضبوط ہوں گے اگر ہم گزشتہ بيس برسوں کی بجائے آئندہ 20 برسوں کی جنگيں لڑيں گے۔

اور آخر ميں مزيد رکنے کے ليے اہم ترين دليل جس کا سامنا ميرے تينوں پيشروں کو کرنا پڑا وہ يہ ہے کہ کوئی بھی يہ نہيں کہنا چاہتا کہ ہميں افغانستان ميں ہميشہ رہنا چاہيے ليکن وہ اس بات پر بضد ہيں کہ واپسی کے ليے يہ وقت درست نہيں ہے۔

سال 2014 ميں نيٹو نے ايک اعلاميہ جاری کيا تھا جس ميں اس بات کی تصديق کی گئی تھی کہ اس وقت کے بعد سے، افغان سکیورٹی فورسز سال کے آخر تک، اپنے ملک کی سکیورٹی کے ليے کلی طور پر ذمہ دار ہوں گیں۔ يہ سات برس پہلے کی بات ہے۔

تو پھر واپسی کے ليے درست وقت کيا ہو گا؟ مزید ايک سال، دو سال، دس سال؟ کيا جو کھربوں ڈالر ہم پہلے ہی خرچ کر چکے ہيں اس ميں دس، بيس، تيس ارب ڈالر کا مزيد اضافہ؟

“اب نہیں” — اسی وجہ سے جہاں ہم آج کھڑے ہیں وہاں پہنچے ہیں۔ اس وقت انخلا کے واضح نظام الاوقات کے بغیر یکم مئی کے بعد رکنے میں اچھے خاصے خطرات ہیں۔

اس کے برعکس اگر ہم اس نقطہ نظر پر عمل پيرا ہوں کہ امريکی روانگی زمينی حالات سے مشروط ہے تو پھر ہمارے پاس ان سوالات کے واضح جوابات ہونے چاہيئیں: [یعنی] کن حالات کی ہمیں ضرورت ہے [یعنی] کیسے حالات درکار ہیں جو ہميں روانگی کی اجازت ديں گے؟ ان کے حصول کے لیے کتنے وسائل اور کتنا وقت درکار ہوگا؟ اور مزيد کتنی اضافی جانی اور مالی قيمت درکار ہو گی؟

مجھے ان سوالات کے کوئی اچھے جوابات سنائی نہيں دے رہے۔ اور اگر آپ ان کے جواب نہيں دے سکتے تو پھر ميرے خيال ميں ہميں نہيں رکنا چاہيے۔ حقيقت يہ ہے کہ آج بعد دوپہر ميں آرلنگٹن نيشنل سيمٹری سيکشن 60 اور امريکی قربانی کی مقدس يادگار کا دورہ کرنے جا رہا ہوں۔

سيکشن 60 وہ جگہ ہے جہاں ہمارے حاليہ دنوں ميں مرنے والے فوجی دفن ہيں، ان ميں بے شمار ايسے مرد اور عورتيں بھی ہيں جو عراق اور افغانستان ميں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ سيکشن 60 ميں تاریخ کا کوئی آرام دہ فاصلہ نہيں ہے۔ غم تازہ ہے۔ يہ جنگ کی چکائی جانے والی قيمت کی ایک روحانی ياد دہانی ہے۔

گزشتہ بارہ برسوں سے جب سے ميں نائب صدر بنا، ميں نے اپنے پاس ايک کارڈ رکھا ہوا ہے جو مجھے عراق اور افغانستان ميں مرنے والے امريکی فوجيوں کی اصل تعداد کی ياد دلاتا ہے۔ اصل تعداد، قريب تر يا اندازے کی بنياد پر نہيں — کيونکہ مرنے والے تمام مقدس انسان تھے جنھوں نے اپنے پيچھے پورے خاندان چھوڑے ہيں۔ ہر کسی کا شمار کيا جانا چاہيے۔

آج تک 2488 امريکی فوجی اور نفوس ہيں جو افغانستان ميں جاری تنازعات ميں آپريشن اينڈيورنگ فريڈم اور آپريشن فريڈمز سينٹينل کے دوران ہلاک ہو چکے ہيں۔ 20722 زخمی ہوئے ہيں۔

چاليس سالوں ميں پہلا صدر ہوں جو يہ جانتا ہے کہ جنگ زدہ علاقے ميں آپ کے بچے کی موجودگی کيا معنی رکھتی ہے۔ اور اس سارے عمل کے دوران، ميرا شمالی ستارہ يہ ياد رکھتا چلا آ رہا ہے کہ وہ کيا احساسات تھے جب ميرا بيٹا، بيو عراق ميں تعنيات تھا — اپنے ملک کی خدمت کے ليے وہ کتنا فخر محسوس کرتا تھا، اپنی يونٹ کے ساتھ تعنيات ہونے کے ليے وہ کتنا بضد تھا، اور اس بات کے اس پر اور گھر ميں ہم سب پر کتنے اثرات مرتب ہوئے تھے۔

آج بھی افغانستان ميں ہمارے ايسے فوجی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہيں جن کے والدين نے بھی اسی جنگ ميں اپنی خدمات پيش کی ہيں۔ ہمارے ايسے فوجی بھی ہيں جو اس وقت پيدا بھی نہيں ہوئے تھے جب 11/9 کو ہماری قوم پر حملہ کيا گيا تھا۔

افغانستان ميں جنگ کا کبھی بھی یہ مقصد نہيں رہا کہ وہ کئی نسلوں تک جاری رہے گی۔ ہم پر حملہ کيا گيا تھا۔ ہم جنگ ميں واضح اہداف کے ساتھ گئے تھے۔ ہم نے وہ مقاصد حاصل کر ليے ہيں۔ بن لادن مر چکا ہے، اور القائدہ عراق ميں، افغانستان ميں کمزور ہو چکی ہے۔ اور اب وقت آ گيا ہے کہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کو ختم کيا جائے۔

آپ سب کا سننے کے ليے شکريہ۔ خدا ہمارے فوجيوں کی حفاظت کرے۔ خدا ان سب خاندانوں پر رحمتیں کرے جنھوں نے اس کاوش میں کسی کو کھويا ہے۔

2 بجکر 45 منٹ سہ پہر ای ڈی ٹی


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/04/14/remarks-by-president-biden-on-the-way-forward-in-afghanistan/ 

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future