Homeاُردو ...افغانستان میں مستقبل کے لائحہ عمل پر صدر بائیڈن کا بیان hide افغانستان میں مستقبل کے لائحہ عمل پر صدر بائیڈن کا بیان اُردو ترجمہ 14 اپریل 2021 وائٹ ہاؤس 14 اپریل 2021 جوزف آر بائیڈن جونیئر، صدر امریکہ بیان ٹریٹی روم 2:29 سہ پہر صدر: سہ پہر بخیر۔ آج میں وائٹ ہاؤس میں روزویلیٹ ــ ٹریٹی روم سے آپ سے مخاطب ہوں۔ یہی وہی جگہ ہے جہاں سے اکتوبر 2001 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ہماری قوم کو مطلع کیا تھا کہ امریکہ کی فوج نے افغانستان میں دہشت گردوں کے تربیتی ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ اس کا آغاز ہمارے ملک پر دہشت گردوں کے حملے سے چند ہی ہفتوں کے بعد ہوا۔ ان حملوں میں 2977 معصوم جانیں گئیں، لوئر مین ہٹن تباہ شدہ علاقے میں تبدیل ہو گیا، پینٹاگون کے کئی حصے تباہ ہوئے، شینکس ویل، پینسلوینیا کے ایک میدان میں مقدس یادگار وجود میں آئی اور ان حملوں نے اس امریکی عہد کو جنم دیا کہ ہم ”کبھی نہیں بھولیں گے۔” 2001 میں ہم القاعدہ کا خاتمہ کرنے اور افغانستان میں منصوبہ بندی کے نتیجے میں مستقبل میں امریکہ کے خلاف ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے افغانستان گئے۔ ہمارا مقصد واضح تھا۔ یہ مقصد جائز تھا۔ ہمارے نیٹو اتحادی اور شراکت دار بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میں نے کانگریس کے ارکان کی غالب اکثریت کے ساتھ اس فوجی کارروائی کی حمایت کی۔ سات سال سے زیادہ عرصہ کے بعد 2008 میں جب صدر اوبامہ اور میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھانے والے تھے تو صدر اوبامہ نے مجھے افغانستان جانے اور وہاں جنگ کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ لانے کو کہا۔ میں نے افغانستان میں کنڑ وادی کا سفر کیا جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ ایک ناہموار پہاڑی علاقہ ہے۔ میں نے اس دورے میں جو کچھ دیکھا اس اسے میرا اس بات پر یقین اور بھی مضبوط ہو گیا کہ صرف افغانوں کو ہی اپنا ملک چلانے کا حق ہے اور یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان میں امریکی فوج کی مزید تعداد میں اورلامحدود عرصہ تک موجودگی سے ایک پائیدار افغان حکومت کے قیام یا اسے برقرار رکھنے میں مدد نہیں مل سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں ہماری موجودگی کا مقصد وہی ہونا چاہیے جسے لے کر ہم پہلی مرتبہ وہاں گئے تھے، یعنی یہ یقینی بنانا کہ افغانستان دوبارہ ہمارے ملک پر حملے کے لیے ٹھکانے کے طور پر استعمال نہیں ہو گا۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے یہ مقصد حاصل کیا۔ میں نے کہا، اگر ضرورت ہوئی تو ہم اسامہ بن لادن کا جہنم کے دروازوں تک پیچھا کریں گے۔ ہم نے یہی کچھ کیا اور اسے جا لیا۔ ہمیں صدر اوبامہ کے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے میں قریباً 10 سال لگے۔ یہی کچھ ہوا، اسامہ بن لادن ختم ہو گیا۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔ اس پر غور کیجیے۔ دس سال پہلے ہم نے بن لادن کو اس کے انجام تک پہنچایا اور تب سے افغانستان میں ہماری عسکری موجودگی کو ایک دہائی ہو گئی ہے۔ اس وقت سے افغانستان میں موجود رہنے کی ہماری وجوہات غیرواضح ہوتی جا رہی ہیں یہاں تک کہ ہم دہشت گردی کے جس خطرے سے لڑنے کے لیے وہاں گئے تھے وہ اب پہلے سے زیادہ پھیل گیا ہے۔ گزشتہ 20 برس میں یہ خطرہ پہلے سے بڑھ چکا ہے اور دنیا بھر میں پھیل گیا ہے۔ صومالیہ میں الشباب، جزیرہ نما عرب میں القاعدہ اور شام میں النصرہ، آئی ایس آئی ایس شام اور عراق میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک میں اپنی ذیلی شاخیں قائم کر رہی ہے۔ اب بہت سے جگہوں پر دہشت گردوں کے خطرے کے ہوتے ہوئے میرے اور ہمارے رہنماؤں کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ہزاروں فوجیوں کو صرف ایک ملک میں جمع رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم اپنے فوجی دستوں کی واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی امید اور مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی توقع میں افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی کو توسیع اور وسعت دینے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ اب میں چوتھا امریکی صدر ہوں جس کی حکمرانی میں امریکی فوجی دستے افغانستان میں موجود ہیں۔ ان میں دو صدور ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹ ہیں۔ میں یہ ذمہ داری پانچویں صدر کو منتقل نہیں کروں گا۔ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں، عسکری حکام اور انٹیلی جنس اہلکاروں، سفارت کاروں اور ترقیاتی ماہرین، کانگریس اور نائب صدر نیز افغان صدر غنی اور دنیا بھر میں بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ مشاورت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کا وقت ہے۔ یہ امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلانے کا وقت ہے۔ جب میں ںے عہدہ سنبھالا تو مجھے امریکی حکومت اور طالبان کے مابین باضابطہ بات چیت کے نتیجے میں طے پانے والا ایک سفارتی معاہدہ ورثے میں ملا۔ اس معاہدے کی رو سے تمام امریکی افواج کو یکم مئی 2021 تک افغانستان سے واپس جانا تھا اور اس تاریخ تک میری حلف برداری کو محض تین مہینے کا عرصہ بنتا ہے۔ ہماری انتظامیہ کو یہ عہد ورثے میں ملا۔ شاید میں خود ایسے معاہدے کے لیے بات چیت نہ کرتا مگر یہ امریکی حکومت کا کیا ہوا معاہدہ ہے اور اس کی اہمیت ہے۔ لہٰذا اس معاہدے اور اپنے قومی مفادات کی پاسداری کرتے ہوئے امریکہ اس سال یکم مئی کو افغانستان سے اپنے آخری فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع کرے گا۔ ہم جلدی بازی میں انخلا نہیں کریں گے۔ ہم ذمہ دارانہ طریقے سے، سوچ سمجھ کر اور محفوظ انداز میں یہ کام کریں گے۔ ہم یہ کام اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کریں گے جن کی افغانستان میں موجود فورسز کی تعداد اب ہم سے زیادہ ہے۔ طالبان کو علم ہونا چاہیے کہ اگر واپسی کے دوران انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو ہم تمام دستیاب ذرائع سے کام لیتے ہوئے اپنا اور اپنے شراکت داروں کا تحفظ کریں گے۔ ہمارے اتحادی اور شراکت دار قریباً 20 سال سے افغانستان میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ہم اپنے مشترکہ مقصد میں ان کی جانب سے ادا کیے گئے کردار اور قربانیوں پر ان کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ ہمارا طویل عرصہ سے یہی منصوبہ رہا ہے کہ اکٹھے افغانستان جائیں گے اور اکٹھے واپسی اختیار کریں گے۔ امریکی فوجی دستے اور ہمارے نیٹو اتحادیوں اور افغانستان میں کارروائی کرنے والے شراکت داروں کی تعینات کردہ افواج 11 ستمبر کے وحشیانہ حملے کی 20ویں برسی سے پہلے افغانستان سے واپس چلی جائیں گی۔ مگر، ہم دہشت گردی کے خطرے سے توجہ نہیں ہٹائیں گے۔ ہم دہشت گردوں کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے اور اپنے ملک کو لاحق خطرے کے سدباب کے لیے اپنی انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں اور خطے میں اپنے مادی اثاثوں کو ازسرنو مںظم کریں گے۔ ہم ہر طرح کے دہشت گردوں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے افغان سرزمین سے خطرہ پیدا کرنے سے روکنے کے بارے میں طالبان کے وعدے پر ان سے جواب طلبی کریں گے۔ افغان حکومت نے بھی ہم سے ایسا ہی وعدہ کیا ہے۔ ہم آج خود کو درپیش خطرے سے نمٹنے پر پوری توجہ دیں گے۔ میری ہدایت پر میری ٹیم ناصرف افغانستان میں بلکہ افریقہ، یورپ، مشرقی وسطیٰ اور ہر جگہ دہشت گردی کے نمایاں خطرات کی نگرانی اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ہماری قومی حکمت عملی کو بہتر بنا رہی ہے۔ میں نے کل صدر بش سے بات کر کے انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں ہمارے مابین پالیسی کے حوالے سے بہت سے اختلافات رہے ہیں مگر ہم قومی خدمت انجام دینے والے امریکی مسلح افواج کے مردوخواتین کی بہادری، ہمت اور دیانت کی تعظیم و تائید میں پوری طرح متحد و متفق رہے ہیں۔ میں جنگی تعیناتیوں کی قریباً دو دہائیوں کے دوران ان کی جانب سے دکھائی گئی بہادری اور قوت و ہمت کا بے حد مشکور ہوں۔ بحیثیت قوم ہم ان کے اور ان کے اہلخانہ کے دائمی مقروض ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ کی مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ بقیہ 99 فیصد ان کے مقروض ہیں۔ ہم نے انہیں جو بھی کام سونپا اس میں کسی ایک میں بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ میں نے افغانستان کے دورے میں ان کی بہادری کا خود مشاہدہ کیا۔ ان کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ انہوں نے ہمارے لیے بہت بڑی قربانی دی۔ ایک مشکور قوم ان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ اگرچہ ہم افغانستان کی فوج کے ساتھ شامل نہیں رہیں گے مگر ہمارا سفارتی اور امدادی کام جاری رہے گا۔ ہم افغان حکومت کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کو مدد کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ ہم نے اپنے شراکت داروں کی مدد سے آج تین لاکھ اہلکاروں پر مشتمل تربیت یافتہ اور مسلح افغان فوج تیار کر دی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں بھی لاکھوں اہلکاروں کو تربیت دی ہے۔ یہ لوگ افغان عوام کی جانب سے بہادری سے لڑائی جاری رکھیں گے۔ یہ امن بات چیت میں مدد دیں گے جیسا کہ ہم نے اقوام متحدہ کے زیراہتمام افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت میں مدد فراہم کی تھی۔ ہم اہم امدادی اور ترقیاتی معاونت برقرار رکھتے ہوئے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم دوسرے ممالک سے کہیں گے ــ خطے میں دوسرے ممالک ــ بالخصوص پاکستان اور روس، چین، انڈیا اور ترکی سے کہیں گے کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے مزید اقدامات کریں۔ افغانستان کے مستحکم مستقبل میں ان کا نمایاں فائدہ ہے۔ آئندہ چند مہینوں میں ہم یہ تعین بھی کریں گے کہ افغانستان میں امریکہ کی آئندہ سفارتی موجودگی کیسی ہو گی اور یہ کہ ہم اپنے سفارت کاروں کی سلامتی کو کیسے یقینی بنائیں گے۔ دیکھیے، میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ پُرزور اصرار کریں گے کہ موثر امریکی عسکری موجودگی کے بغیر سفارت کاری کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہم نے اس دلیل کو ایک دہائی تک آزمایا ہے۔ یہ کبھی موثر ثابت نہیں ہوئی، اس وقت بھی نہیں جب ہمارے 98 ہزار فوجی افغانستان میں موجود تھے اور اس وقت بھی نہیں جب وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد چند ہزار رہ گئی تھی۔ ہماری سفارت کاری کا انحصار امریکی فوج کو خطرناک حالات میں رکھنے پر نہیں ہے۔ ہمیں اس سوچ کو تبدیل کرنا ہے۔ امریکی فوجیوں کو دوسرے ممالک میں جنگی فریقین کے مابین سودے بازی کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ امریکی فوجیوں کو غیرمعین مدت کے لیے افغانستان میں رکھنے کی ترکیب سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ دلیل دیں گے کہ ہمیں افغانستان میں جنگ جاری رکھنی چاہیے کیونکہ وہاں سے واپسی کی صورت میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور دنیا میں امریکہ کا اثر کمزور پڑ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ ہم 20 سال پہلے ایک خوفناک حملے کے نتیجے میں افغانستان گئے تھے۔ یہ 2021 میں بھی ہمارے وہاں موجود رہنے کا جواز نہیں بن سکتا۔ ہمیں طالبان کے ساتھ دوبارہ جنگ کے بجائے خود کو درپیش مسائل پر توجہ دینا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے ان نیٹ ورکس اور کارروائیوں کا پتا چلانا اور ان کا خاتمہ کرنا ہے جو نائن الیون کے بعد افغانستان سے کہیں پرے پھیل چکی ہیں۔ ہمیں چین کی جانب سے درپیش سخت مقابلے میں امریکہ کی مسابقتی صلاحیت برقرار رکھنی ہے جو پہلے سے بڑھ کر زوردار طرزعمل اختیار کر رہا ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے اپنے اتحادوں کو مضبوط کرنا ار ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا ہے کہ سائبر خطرات اور ہمارے مستقبل کو متشکل کرنے والی نئی ٹیکنالوجی کے عالمی معیارات سے متعلق اصولوں کی بنیاد آمریتوں کے وضع کردہ طریقوں کے بجائے ہماری جمہوری اقدار پر ہو۔ ہمیں اس وبا کو شکست دینا اور آئندہ ایسی کسی وبا سے بچاؤ کی تیاری کے لیے عالمگیر نظامِ صحت کو مضبوط بنانا ہے کیونکہ مستقبل میں کوئی اور وبا بھی آ سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں اگر ہم گزشتہ بیس برس کے بجائے آئندہ بیس برسوں کی جنگیں لڑیں تو ہم طویل المدتی طور پر اپنے مخالفین اور حریفوں کے سامنے کہیں زیادہ طاقتور ہوں گے۔ آخر میں افغانستان میں طویل عرصہ تک قیام کے حق میں سب سے بڑی دلیل کا تذکرہ ہو جائے جس سے مجھے سے پہلے آنے والے تین صدور کو واسطہ پڑا۔ وہ دلیل یہ ہے کہ ‘کوئی نہیں چاہتا کہ ہم ہمیشہ کے لیے افغانستان میں رہیں مگر یہ وہاں سے نکلنے کا مناسب موقع نہیں ہے۔’ 2014 میں نیٹو نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں تصدیق کی گئی کہ تب سے لے کر اُس سال کے آخر تک افغان سکیورٹی فورسز کے پاس اپنے ملک کی سلامتی کی مکمل ذمہ داری ہو گی۔ اس بات کو اب سات سال ہو چکے ہیں۔ تو پھر افغانستان سے نکلنے کا مناسب موقع کب آئے گا؟ مزید ایک سال، دو سال، مزید دس سال؟ کیا ہمیں پہلے سے خرچ کیے ٹریلین ڈالر کے علاوہ دس، بیس، تیس بلین ڈالر مزید خرچ کرنا ہوں گے؟ اس کے بجائے اگر ہم یہ طریقہ کار اختیار کریں جس میں امریکہ کا افغانستان سے انخلا وہاں کی زمینی صورتحال پر منحصر ہو تو ہمیں ان سوالات کے واضح جواب درکار ہوں گے کہ ہمیں واپسی کے لیے کیسے خالات چاہئیں؟ اگر یہ حالات پیدا ہو بھی جائیں تو یہ کیسے اور کتنی دیر میں میسر آئیں گے؟ اس کے لیے ہمیں انسانی جانوں اور مالی وسائل کی صورت میں کتنی اضافی قیمت ادا کرنا ہو گی؟ مجھے ان سوالوں کے کوئی اچھے جواب نہیں مل رہے۔ میرے خیال میں اگر آپ ان سوالات کے جواب نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں وہاں نہیں رکنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج میں آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں سیکشن 60 اور امریکیوں کی قربانیوں کی اس مقدس یادگار کا دورہ کر رہا ہوں۔ سیکشن 60 وہ جگہ ہے جہاں حالیہ جنگوں میں جان دینے والے ہمارے لوگ دفن ہیں اور ان میں بہت سے وہ خواتین و مرد بھی شامل ہیں جو افغانستان اور عراق میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ سیکشن 60 کی بات ہو تو اس کی تاریخ میں ہمارے لیے تسکین و تشفی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہاں سخت ملال ہوتا ہے۔ یہ جنگ کی جانی قیمت سے متعلق ایک گہری یاد دہانی ہے۔ نائب صدر بننے کے بعد گزشتہ بارہ برس سے میں ایک کارڈ اپنے ساتھ رکھتا ہون جو مجھے عراق اور افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی درست تعداد یاد دلاتا رہتا ہے۔ اندازہ یا گول مول نہیں بلکہ بالکل درست تعداد، کیونکہ ان جنگوں میں مرنے والے تمام افراد قابل احترام انسان تھے جنہوں نے اپنے پیچھے خاندان چھوڑے ہیں۔ ہمیں ان جنگوں کے نتیجے میں اپنوں سے بچھڑنے والے تمام لوگوں کی درست تعداد یاد رکھنا ہے۔ آج یہ تعداد دو ہزار چار سو اڑتالیس ہے جنہوں نے ہماری افغان جنگوں کے دوران آپریشن اینڈورنگ فریڈم اور آپریشن فریڈمز سینٹینل میں جانیں دیں۔ ان جنگوں میں 20722 اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔ میں چالیس سال میں وہ پہلا صدر ہوں جو یہ جانتا ہے کہ بچے کا میدان جنگ میں ہونا والدین کے لیے کیسا احساس ہے۔ اس دوران میرا سمت نما مجھے یاد دلاتا رہا کہ جب میرے مرحوم بیٹے بیو کو عراق میں تعینات کیا گیا تو یہ کیسا احساس تھا، اسے اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دینے پر کتنا فخر تھا، وہ اپنے یونٹ کے ساتھ تعیناتی پر کتنا مصر تھا اور اس سے اس پر اور گھر میں ہم سب لوگوں پر کیا اثر ہوا۔ آج ہماری فوج کے ایسے ارکان بھی افغانستان میں فرائض انجام دے رہے ہیں جن کے والدین بھی یہ جنگ لڑ چکے ہیں۔ ہماری فوج میں ایسے ارکان بھی ہیں جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب ہمارے ملک پر نائن الیون کا حملہ ہوا تھا۔ افغان جنگ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یہ کئی نسلوں تک چلے گی۔ ہم پر حملہ ہوا تھا۔ ہم واضح مقاصد کے ساتھ جنگ لڑنے گئے۔ ہم نے یہ مقاصد حاصل کیے۔ بن لادن مر چکا ہے اور عراق اور افغانستان میں القاعدہ کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے جاری جنگ ختم کرنے کا وقت ہے۔ میری بات سننے پر آپ سبھی کا شکریہ۔ خدا ہمارے فوجیوں کی حفاظت کرے۔ خدا ان خاندانوں پر رحمت کرے جنہوں نے اس کوشش میں اپنے کسی نہ کسی عزیز کو کھویا ہے۔ 2:45 سہ پہر اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/04/14/remarks-by-president-biden-on-the-way-forward-in-afghanistan/ یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔