An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
پس منظر بریفنگ
21 ستمبر، 2021
بذریعہ ٹیلی کانفرنس

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): سبھی کو شام بخیر اور ہمارے ساتھ موجودگی پر شکریہ۔ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اجلاسوں میں آج ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ کل یہاں نیویارک میں وزیر خارجہ کی مصروفیات کے بارے میں بھی آپ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ بات چیت پس منظر میں رہتے ہوئے ہو گی۔ آپ یہاں جو کچھ سنیں گے انہیں دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے منسوب کر سکتے ہیں۔ آپ کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ آج ہمارے ساتھ (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار دوم) موجود ہیں۔ وہ چند ابتدائی کلمات کہیں گی اور اس کے بعد ہم آپ کے سوالات لیں گے۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی ساتھی کو گفتگو کی دعوت دوں گا۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): شکریہ (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اول) ٹھیک ہے، ساتھیو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کی مصروفیات میں شرکت کے لیے دوبارہ نیویارک آنا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اس ہفتے کو ہم عالمی جمہوریت کا سُپر باؤل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ہماری چند بالمشافہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ورچوئل انداز میں بھی سفارتی روابط عمل میں آئے ہیں۔ وزیر خارجہ یہاں چار روز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقاتوں اور مختلف معاملات پر پیش رفت کے خواہاں ہیں۔

وزیر خارجہ آج دن کے وقت جنرل اسمبلی سے صدر کے خطاب کے لیے ان کے ساتھ جانے کے علاوہ آسٹریلیا کے وزیراعظم موریسن کے ساتھ صدر کی ملاقات میں بھی شریک ہوئے اور اپنے ترک اور برازیلی ہم منصبوں کے ساتھ الگ الگ دوطرفہ ملاقاتیں بھی کیں۔ ترک وزیر خارجہ چاؤ شولو کے ساتھ اس دوپہر کو ملاقات قریباً ایک گھنٹے پر محیط رہی اور یقیناً اس دوران دونوں نے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے شام کے بارے میں بھی بات کی اور قفقازـ آرمینیا، آزربائیجان اور ناگورنو- کاراباخ سے متعلق معاملات پر قدرے تفصیلی گفت و شنید کی۔

میں برازیل کے وزیر خارجہ سے ان کی ملاقات کے بارے میں تفصیلات بتانے کے لیے (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اول) کو بات کرنے کی دعوت دوں گی کیونکہ میں اس موقع پر موجود نہیں تھی۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): وزیر خارجہ نے اپنے برازیلی ہم منصب کے ساتھ ابھی ایک اچھی ملاقات ختم کی ہے۔ یہ ملاقات قریباً 45 منٹ سے کچھ زیادہ دیر جاری رہی۔ اس دوران موسمیاتی مسئلے پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور گلاسگو کانفرنس سے پہلے طے شدہ اہداف تک رسائی کے لیے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عزائم میں اضافے کی بابت تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران علاقائی سطح پر مہاجرت کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی اور وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور برازیل کے تعلقات تزویراتی اور معاشی دونوں اعتبار سے اہم ہیں۔ ملاقات میں برازیل کے ساتھ امریکہ کا تعاون بھی زیربحث آیا اور آئندہ سالوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے برازیل کے ساتھ مل کر کام کی تیاری میں ناصرف خطے بلکہ اس ہٹ کر دیگر ممالک کے ساتھ تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): بہت اچھے۔ کل بھی سفارت کاری کا ایک بھرپور دن ہو گا جس کا آغاز وزیر خارجہ کی وسطی ایشیا میں امریکہ کے پانچ شراکت دار مملک کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتوں سے ہونا ہے۔ ان میں قازقستان، کرغیز جمہوریہ، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ یہ سی5+1 اتحاد قائم ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ یہ وسطی ایشیا کو خوشحال اور محفوظ بنانے کے علاوہ مشترکہ خدشات سے نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون بڑھانے کی غرض سے ہمیشہ ایک قابل قدر سفارتی پلیٹ فارم رہا ہے تاہم چونکہ ان میں بہت سے ممالک کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے ملتی ہیں اسی لیے اس پلیٹ فارم کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور ان ممالک کے نمائندوں سے بہت سی باتیں ہوں گی۔ یہ ممالک افغانستان سے لوگوں کے انخلاء کے لیے ہماری کوششوں میں بھی مضبوط شراکت دار ہیں۔

وزیر خارجہ کل یورپی یونین کے اعلیٰ سطحی نمائندے بوریل اور مصر کے وزیر خارجہ شکری سے بھی دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے۔ وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر عبداللہ شاہد سے بھی علیحدہ ملاقات کریں گے۔ وزیر خارجہ کووڈ کے حوالے سے صدر بائیڈن کی ورچوئل کانفرنس میں اختتامی خطاب بھی کریں گے جس میں کووڈ۔19 کو شکست دینے کے لیے ہماری مشترکہ کوششوں کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس اس کانفرنس کے اہداف پر مزید کام کر رہا ہے۔

کل سہ پہر وزیر خارجہ جی20 کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس کی میزبانی اٹلی کرے گا اور اس میں افغانستان کا مسئلہ خاص طور پر زیربحث آئے گا۔ ہم جی20 کے صدر کی حیثیت سے اٹلی کے کام اور وزیر خارجہ ڈی مایو کے قائدانہ کردار کو سراہتے ہیں جنہوں نے افغانستان خواتین اور لڑکیوں کا مستقبل بہتر بنانے اور انہیں تعلیم تک رسائی میں مدد دینے کے معاملے پر بات چیت کے لیے یہ اہم اجلاس منعقد کیا۔ جی20 کے اجلاس میں اس معاملے پر خاص توجہ دی جائے گی، تاہم میں سمجھتی ہوں کہ غالباً اس دوران افغانستان کی صورتحال کا ہر پہلو زیربحث آئے گا۔

وزیرخارجہ دن کے آخری حصے میں جمہوریہ کوریا اور جاپان سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ سہ فریقی ملاقات کریں گے۔ وزیر خارجہ اور ان کے دیگر ہم منصب امریکہ- جاپان- کوریا شراکت کی عالمگیر وسعت کو نمایاں کریں گے جس کی بنیاد تینوں ممالک کی مشترکہ اقدار پر ہے۔ علاوہ ازیں اس دوران ہند۔الکاہل میں علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کے تحفظ اور فروغ کے لیے تینوں ممالک کے عزم پر بھی بات چیت ہو گی۔

آخر میں وزیر خارجہ برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ پی5 اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس طرح یہ ایک انتہائی مصروف اعلیٰ سطحی ہفتہ ہو گا۔ پی5 کے اجلاس کی میزبانی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیخش کریں گے۔

اب میں (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اول) کو بات کرنے کی دعوت دوں گی۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اس کے ساتھ ہی مجھے آپ کے سوالات لے کر خوشی ہو گی۔ آپریٹر، اگر آپ چاہیں تو سوالات پوچھنے سے متعلق ہدایات دہرا سکتے ہیں۔

آپریٹر: اگر آج آپ کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو اپنے فون کے کی پیڈ پر 1 اور 0 کا بٹن دبائیں اور جب تک آپ کو لائن کھلی ہونے کے بارے میں نہ بتایا جائے اس وقت تک انتظار کریں۔ ایک مرتبہ پھر بتاتے چلیں کہ سوالات کی قطار میں شامل ہونے کے لیے آپ نے 1 اور اس کے بعد 0 کا بٹن دبانا ہے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): ہم شان ٹنڈن کے سوال سے آغاز کریں گے۔

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔ براہ مہربانی بات کیجیے۔

سوال: اس اہتمام کا شکریہ۔ کیا میں آپ کی کہی باتوں کے حوالے سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اول) آپ نے برازیل کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں بہت سے ممالک موجود ہیں تو ایسے میں صرف برازیل کو منتخب کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا آپ کو اس سے کوئی خاص امید ہے یا کوئی ایسی بات ہے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ اس پر برازیل کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ ہے تو کیا آپ موسمیاتی امور پر صدر کے اہداف کی جانب برازیل کی کوئی پیش رفت دیکھتے ہیں۔ کووڈ اور اس بیماری کے حوالے سے بولسونارو کے مخصوص خیالات کو دیکھا جائے تو کیا اس بارے میں کوئی خاص پیش رفت ہوئی ہے؟

اس کے علاوہ (دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار دوم)، آُپ نے ترکی کے ساتھ دو طرفہ بات چیت میں قفقاز اور ناگورنو-کاراباخ کے تذکرے کی بابت بتایا۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ مزید وضاحت کریں گے؟ کیا وہاں کچھ پیش رفت کی امید ہے اور آرمینیا کی جانب سے روس کی سرحدی افواج کے بارے میں بیان کردہ مسائل پر بھی کوئی بات ہو گی؟

شکریہ۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): شکریہ شان، میں برازیل کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی بات شروع کروں گا۔ جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا، وزیر خارجہ نے اپنے برازیلی ہم منصب کے ساتھ اس ملاقات کی ابتدا میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین تزویراتی اور معاشی تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس باہمی تعاون میں ناصرف دونوں ممالک کے علاقائی مفادات ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی بڑھ کر یہ ہماری معیشتوں کے حجم اور عالمی منظرنامے پر ہمارے کردار کا احاطہ کرتا ہے۔ یقیناً اس میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

اس ملاقات میں موسمیاتی مسئلے پر بھی جامع بات چیت ہوئی۔ موسمیاتی مسئلے پر غالباً اس ملاقات میں سب سے زیادہ دیر تک بات ہوئی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ جب امریکہ اور برازیل جیسے بڑے اور بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دلیرانہ اور پُرعزم اہداف مقرر کریں گے تو دوسرے ممالک بھی یہ دیکھیں گے۔ اس لیے برازیل کی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی اہلیت اور اس پر آمادگی گلاسگو کانفرنس سے پہلے نہایت مثبت اثرات کی حامل ہو گی جبکہ دنیا بھی یہ سب کچھ دیکھے گی اور اس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزید اقدامات ممکن ہوں گے۔

ہمیں اس خطے میں مہاجرت سمیت بہت سے دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس ملاقات میں مہاجرت اور اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقوں پر بات چیت ہوئی۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک کے معاشی تعلقات مزید بہتر بنانے پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ اس ملاقات میں کووڈ پر بات بھی ہوئی۔ یہ واضح طور پر ہماری ایک ترجیح ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں اور وزیر خارجہ تواتر سے کہتے ہیں کہ اگر امریکیوں کو محفوظ ہونا ہے، اگر کسی بھی جگہ لوگ خود کو وباء سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے ہر جگہ نمٹنا ہو گا۔ اسی لیے ملاقات میں برازیل کی جانب سے اندرون ملک اس وائرس سے نمٹنے کی کوششوں اور دنیا بھر میں اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی کوششوں میں اس کا کردار بھی زیربحث آیا۔

اب میں (دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار دوم) کو بات کرنے کے لیے کہوں گا۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): میرا خیال ہے کہ آپ جانتے ہیں اس موسم گرما میں آرمینیا- آزربائیجان جنگ کے بعد امریکہ نے ایک دونوں ممالک کے مابین امن اور مفاہمت کے لیے بات چیت میں مدد دینے کی کوشش کی۔ ہم نے متنازع علاقے میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں ختم کرنے کے لیے نقشوں کا تبادلہ کیا جو آرمینیا والوں نے آزربائیجان کو دیے اور اس کے بدلے میں بعض قیدیوں کو رہا کیا گیا۔

اس لیے اب سوال یہ ہے کہ آیا اب امریکہ، منسک گروپ کے دیگر ممالک اور ترکی کی مدد سے ہم دونوں ممالک میں تناؤ کم کرنے میں مزید مدد دے سکتے ہیں؟ اس میں بقیہ قیدیوں اور باقیماندہ بارودی سرنگوں سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔ اس طرح ہم انہیں ابتدائی پیش رفت میں مدد دیں گے جو آگے چل کر دونوں ممالک کے مابین بڑی سطح پر امن اور مفاہمت کے عمل میں مدد دے سکتی ہے۔

اس لیے وزیر خارجہ نے ترکی پر واضح کر دیا کہ ممکن ہو تو ہم اس معاملے میں مددگار کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ترکی ان ممالک کا ہمسایہ ہے اور امن و مفاہمت کے لیے اس کا بھرپور کردار رہا ہے۔ وزیر خارجہ اس ہفتے آرمینیا اور آزربائیجان کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں بھی یہی پیشکش کریں گے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اب ہم مشیل کیلیمین کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: شکریہ۔ لائن کھلی ہے۔

سوال: میں افغانستان کے بارے میں سوال پوچھنا چاہوں گی۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ آیا وزیر خارجہ جی20 ممالک کے اجلاس میں یہ بتائیں گے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے اب ان کے خیالات کیا ہیں۔ طالبان نے اقوام متحدہ سے تحریری درخواست کی ہے کہ وہ ان کی حکومت کو تسلیم کرے۔ وہ اس جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ امریکہ اس کمیٹی میں شامل ہے جس نے ان کی درخواست کی منظوری دینا ہے، اس لیے میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا خیال ہے۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): ہمیں توقع ہے کہ وزیر خارجہ جی20 کے اجلاس میں اس حوالے سے بات کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو یاد ہو گا کہ دو ہفتے قبل انہوں نے جرمنی میں افغانستان کے ہمسایوں اور اس مسئلے کے فریقین کا ایک وسیع اجلاس بلایا تھا جس میں جرمن وزیر خارجہ ماس بھی شریک تھے۔ جی20 کے حالیہ اجلاس میں بعض ایسے شرکا بھی ہوں گے جو جرمنی میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کر چکے ہیں تاہم اس موقع پر بہت سے دیگر ممالک بھی آئیں گے۔

ہمارے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ ان اصولوں کی حمایت میں ان ممالک کو اکٹھا رکھا جائے جو افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں ان طالبان سے عالمی برادری کی توقعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان میں یہ باتیں شامل ہیں کہ طالبان لوگوں کو نقل وحرکت کی آزادی دیں گے، وہ اقوام متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کو امدادی کاموں کی اجازت دیں گے اور ان کی مدد کریں گے اور وہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کریں گے خواہ دہشت گردی کا خطرہ آئی ایس آئی ایس۔ خراسان سے ہو یا یہ القاعدہ کی جانب سے ہو۔ اسی لیے ابھی ہم یہ اندازہ لگانے سے متعلق زیادہ بات نہیں کر سکتے کہ طالبان نے اپنے وعدے کس حد تک پورے کیے ہیں اور خاص طور پر اس وقت جب وہاں ایک عبوری حکومت ہے۔

میں معذرت چاہتی ہوں، جہاں تک افغان حکومت کو اقوام متحدہ سے منظوری ملنے کی بات ہے تو مشیل جیسا کہ آپ نے کہا اقوام متحدہ میں اس حوالے سے ایک کمیٹی موجود ہے۔ ہم اس میں شامل ہیں۔ اسے اس درخواست پر غوروفکر کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا۔ ہم اس معاملے کا بغور جائزہ لیں گے اور اس پر کمیٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر سوچیں گے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اب میٹ لی سوال پوچھیں گے۔

سوال: ہیلو، کیا آپ لائن پر موجود ہیں؟

آپریٹر: آپ کی لائن (ناقابل سماعت)

سوال: جی، کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟ ہیلو؟

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول) جی میٹ، بات کیجیے، ہمیں آپ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

سوال: جی ہاں، ٹھیک ہے۔ مجھے نہایت مختصراً یہ پوچھنا ہے کہ ماورائے اوقیانوس کواڈ اجلاس کا کیا بنا جو کل ہونا تھا۔ میری مراد برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کے اجلاس سے ہے۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): ہم نے آج کواڈ کا اجلاس کر لیا ہے جس میں میری سطح کے عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ میں سمجھتی ہوں کہ وزارتی سطح کا اجلاس اس لیے ممکن نہ ہو سکا کہ اس میں دیگر اجلاس اور ملاقاتوں کا شیڈول آڑے آ رہا تھا۔ تاہم ان میں بیشتر ممالک دیگر اجلاسوں میں اکٹھے شریک ہو رہے ہیں جن میں جی20 ممالک کے اجلاس میں وہ ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے جبکہ پی3 ممالک کل رات سیکرٹری جنرل کی صدارت میں ہونے والے پی5 ممالک کے اجلاس کا حصہ ہوں گے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اب ہم مائیکل کرولی کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔

سوال: اس کال کے اہتمام کا شکریہ۔ کیا آپ آج رئیسی کی تقریر پر کوئی ردعمل دیں گے؟ کیا اس سے آپ کی جوہری مذاکرات کے بارے میں ایران کے نکتہ نظر کی بابت سمجھ بوجھ میں کوئی تبدیلی آئی؟

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): مائیکل، آپ کے سوال کا شکریہ۔ ہم نے اس تقریر کا جائزہ لیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہم خالی خولی باتوں کے بجائے عملی اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں اور ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایران کی قیادت آئندہ ہفتوں میں ویانا میں ہونے والی بات چیت میں دوبارہ شمولیت کے لیے کس قدر آمادہ ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ممکنہ مخصوص وقت کے حوالے سے وزارت خارجہ امور کے بیان کو دیکھا ہے۔ ہم بدستور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جتنا جلد ہو سکے ویانا کے تناظر میں دوبارہ بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے تواتر سے یہ بات کہی ہے کہ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جے سی پی او اے کی تعمیل کی جانب باہمی واپسی ہمارے مفاد میں ہے اور قابل تصدیق طور سے اس کے ذریعے ایران کو ہمیشہ کے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکا جا سکے گا تاہم یہ کوئی ایسا کام نہیں جو لامحدود مدت تک جاری رہے گا۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے جے سی پی او اے سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد میں کمی آ رہی ہے کیونکہ ایران جدید ترین سینٹری فیوج بنانے اور ایسی جوہری سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو 2015 کے معاہدے کے تحت اس کے لیے ممنوع ہیں۔

اسی لیے وزیر خارجہ کے پاس اس حوالے سے بات کرنے کا ایک موقع ہو گا اور ایسا ہی ایک موقع انہیں اس ہفتے ملا ہے جب انہوں نے پی5+1 ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں سے بات کی تھی۔ ان ممالک میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے اور ہم انتظار کریں گے کہ جب ویانا بات چیت آگے بڑھانے کا وقت آتا ہے تو ایران کی قیادت کس بات پر آمادہ ہوتی ہے۔

اب ہم حمیرا پاموک کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: شکریہ۔ آپ کی لائن کھلی ہے۔

سوال: ہیلو، اس بات چیت کا اہتمام کرنے پر آپ کا شکریہ۔ میرے پاس دو سوالات ہیں تاہم میں اپنے ساتھیوں کے چند سوالات پر بھی کچھ مزید بات کرنا چاہتی ہوں۔

میں (دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار دوم) سے یہ وضاحت چاہتی ہوں کہ کیا ماورائے اوقیانوس کواڈ ملاقات اب ختم ہو چکی ہے؟ آپ نے دوسرے اجلاسوں اور ملاقاتوں کے شیڈول آڑے آنے کا تذکرہ کیا۔ کیا اس کا تعلق بعض حالیہ عدم اتفاقات سے ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا اسے فرانس اور امریکہ کے مابین بحران کا نتیجہ سمجھا جائے؟

اسی حوالے سے مجھے یہ بھی جاننا ہے کہ ہم نے اس ہفتے کے اوائل میں پوچھا تھا کہ کیا وزیر خارجہ اپنے فرانسیسی ہم منصب لی ڈرین سے بھی دوطرفہ بات چیت کریں گے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس دوران بہت سے اہم امور پر بات چیت ہونا ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟ کیا کوئی دوطرفہ ملاقات طے ہے؟

چونکہ آج آپ ہمارے ساتھ موجود ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے پاس بریفنگ میں کسی اور سے پوچھنے کا موقع ہے اس لیے آپ ہی سے سوال ہے کہ یہ بحران اس سطح پر کیسے پہنچا؟ کیا یہ امریکہ کی جانب سے اندازے کی غلطی تھی؟ کیا دفتر خارجہ کسی نہ کسی طور وائٹ ہاؤس کے اقدامات سے بے خبر تھا اور یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ ایسے اقدام سے فرانس سخت ناراض ہو گا؟ مزید یہ کہ اب آپ کون سی منصوبہ بندی کر رہے ہیں (ناقابل سماعت)؟ کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ اب امریکہ کی جانب سے اس معاملے میں کوئی بات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں۔ شکریہ۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): ہیلو حمیرا۔ میرے خیال میں آپ کے آخری سوال کا جواب اس موقع پر نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے دیگر مواقع ہوں گے۔ تاہم میں اپنی ساتھی سے کہوں گا کہ وہ آج اور آئندہ کل پیش آنے والے واقعات پر بات کریں۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): جیسا کہ آپ جانتے ہیں وائٹ ہاؤس نے واضح کر دیا ہے کہ صدر بائیڈن جلد صدر میکخواں سے بات چیت کی توقع رکھتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہمیں توقع ہے کہ وزیر خارجہ بلنکن ناصرف کل پی5 ممالک کے اجلاس میں بلکہ جی20 کے ورچوئل اجلاس میں بھی وزیر خارجہ لی ڈرین سے ملیں گے۔ تاہم یقینی طور پر وہ کل پی5 کے وزارتی اجلاس میں ان سے بالمشافہ ملاقات کریں گے جس میں ان کے پاس بہت سے معاملات پرتبادلہ خیال کا موقع ہو گا۔

جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ آج کل یا ہفتے کے آخر میں کواڈ کا اجلاس ہو گا یا نہیں تو مجھے یہ کہنا ہے کہ اس ہفتے کے شیڈول میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا سوال یہ ہو گا کہ آیا اس کی ضرورت تھی یا نہیں۔ مجھے توقع ہے کہ وزیر خارجہ کے پاس اس ہفتے کسی نہ کسی موقع پر اپنے کواڈ کے ہم منصبوں سے تبادلہ خیال کا موقع ضرور آئے گا۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اب ہم جینیفر ہینسلر سے بات کریں گے۔

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔

سوال: اس بات چیت کے اہتمام پر آپ کا بے حد شکریہ۔ مجھے بوریل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں پوچھنا ہے کہ کس نے کس کے ساتھ ملاقات کی درخواست کی تھی؟ کیا اس کا سبب فرانس کے ساتھ بحرانی کیفیت تھی؟ بوریل نے کہا ہے کہ انہیں اگست میں ہونے والے معاہدے کی بابت قبل از وقت مطلع نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے بعد مجھے سی5 اجلاس کے بارے میں بھی پوچھنا ہے۔ کیا آپ افغانستان کے معاملے پر ان ممالک سے نئے اور خاص وعدوں کے منتظر ہیں؟ شکریہ۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): میں بوریل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں یہ کہوں گی کہ ہم اس سال خزاں میں ان کے دورہ واشنگٹن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ دورہ بھی ہو گا۔ تاہم اس بارے میں بات کرنے کو بہت کچھ ہے اس لیے ان سے یہاں تبادلہ خیال بھی بہت مفید ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ جانتے ہیں آئندہ ہفتے ہماری یورپی یونین کے ساتھ ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل کا اجلاس ہے۔ نائب وزیر خارجہ شرمین نے بھی یہاں یورپی یونین کے نمائندے سے ملاقات کی اور سیاسی ڈائریکٹر کی سطح پر بھی ملاقات ہوئی۔ اس لیے یہ بات چیت بہت سے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ افسر (اول): اب ہم وِل مولڈن کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔

سوال: اس بات چیت کے اہتمام پر آپ کا بہت شکریہ۔ مجھے بس یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ واضح طور پر بتا سکتے ہیں کہ وزیر خارجہ بلنکن اور ان کے فرانسیسی ہم منصب کا اقوام متحدہ میں دوطرفہ رابطہ ہو گا یا وزیر خارجہ بلنکن پیرس جائیں گے یا وزیر خارجہ لی ڈرین جلد کسی وقت واشنگٹن آئیں گے یا دونوں ممالک کے صدور کے مابین طویل عرصہ سے موخر چلی آ رہی ٹیلی فونک بات چیت کب ہو گی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حالیہ واقعات سے امریکہ کے اپنے قدیم ترین اتحادی کے ساتھ تعلقات میں درمیانی یا طویل مدت کے لیے کس حد تک زوال آیا ہے۔ شکریہ۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ افسر (دوم): میں سمجھتی ہوں کہ ہم اس پر پہلے ہی کئی مرتبہ بات کر چکے ہیں۔ صدور ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں اور وزیر خارجہ اور ان کے فرانسیسی ہم منصب کے پاس بھی اس ہفتے کے دوران ملاقاتوں اور بات چیت کا اچھا خاصا موقع ہو گا۔ شکریہ۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): اب ہم باربرا یوشر کا سوال لیں گے۔

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): باربرا، کیا آپ لائن پر موجود ہیں؟ یوں لگتا ہے جیسے باربرا ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ آئیے جوئیل گیرکے سے بات کرتے ہیں۔

آپریٹر: جوئیل گیرکے کی لائن کھلی ہے۔

سوال: اس بات چیت کا اہتمام کرنے اور میرا سوال لینے کا شکریہ۔ میں امریکہ۔ یورپی یونین کے تعلقات اور فرانس کے تناظر میں اپنے ساتھیوں کے بعض سوالات کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ بدھ کو ایجنڈے پر موجود ملاقات منسوخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل کے اجلاس کی تیاری کی جا سکے۔ کیا آپ تصدیق کر سکتے ہیں اور کیا آپ کو اس پر کوئی تشویش ہے کہ فرانس کے ساتھ یہ تنازع اس کونسل کے اجلاس میں پیش رفت کے حوالے سے آپ کی اہلیت پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ایسا ہی ہے جیسے ماورائے اوقیانوس کواڈ اجلاس بظاہر ایجنڈے سے ہٹ گیا ہے؟

اس کے بعد مجھے افغانستان کے بارے میں بات کرنا ہے۔ کیا آپ کل تاجکستان اور خطے کے بعض دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں مزید وضاحت کر سکتے ہیں؟ یقیناً تاجکستان ماضی میں 90 کی دہائی سے طالبان کی مدد کرتا چلا آیا ہے۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا اسے انسانی امداد مہیا کرنے یا شاید پنجشیر میں طالبان کے مخالفین کی مدد کے بارے میں بھی اس ملاقات میں کوئی بات چیت ہو گی؟

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): پہلے میں یورپی یونین کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب دوں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پِٹس برگ میں آئندہ ہفتے ہونے والا اجلاس معمول کے مطابق ہو گا۔ یہاں میں ایک جامع بات کروں گی کہ ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل بہت سے کاموں کے لیے بنائی گئی ہے۔ یقیناً اس کا کام تجارت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمگیر سطح پر تعاون ممکن بنانا اور ٹیکنالوجی کے میدان کو جمہوریتوں اور آزادی کے لیے کھلا رکھنا اور آمریتوں کے ہاتھوں اس کا غلط استعمال روکنے کے لیے کام کرنا ہے۔ تاہم اتنی ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ کونسل ہند۔الکاہل میں امریکہ اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کو مزید موثر بنانے کا ذریعہ بھی ہے اور اس کے ذریعے بعض تجارتی خدشات کے بارے میں بات چیت بھی ہو سکتی ہے جس میں چین کے کاروباری انداز یا ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کی سوچ اور طریق کار کی بابت ہمارے خدشات بھی شامل ہیں۔

اس لیے میں یہ کہوں گی کہ ہم یورپی یونین کے ممالک کو ایشیائی بحرالکاہل کے خطے سے متعلق اپنی حکمت میں مزید اچھی طرح شامل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے یہ کونسل لازمی اہمیت رکھتی ہے۔ ہم ہند۔الکاہل میں فرانس کے روایتی قائدانہ کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اب اس کونسل کا کام دوطرفہ نہیں بلکہ یورپی یونین کے ساتھ کثیرطرفی ہو چکا ہے جس کا مقصد ان تمام امور پر بات چیت کرنا اور اوقیانوس کے آر پار ہمارےکام کو آزادی اور کھلے و قوانین کی بنیاد پر قائم نظام کے تحفظ نیز ہند۔الکاہل میں ہماری سرگرمیوں سے جوڑنا ہے۔

جہاں تک سی5 کی بات ہے تو آُپ جانتے ہیں کہ سی5 میں شامل تین ممالک کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے ملتی ہیں۔ ان میں تمام ممالک کے بہت سے مسائل ہیں جن پر سوچ بچار ہونا ہے اور یہ ممالک اپنی سرحدوں اور ان کے ذریعے افغانستان سے آںے والے مہاجرین اور دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے بھی بہت سے خدشات کا شکار ہیں۔ ان میں بہت سے ممالک ہمارے لیے بہت مفید کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان میں سے ہر ملک نے اس وقت ہماری بہت مدد کی جب ہم شہریوں کی معاونت اور غیرمحفوظ افغانوں اور امریکہ کے مستقل قانونی رہائشیوں کو ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ممالک ہمارے کام آئے خواہ ان کی مدد براہ راست تھی یا ایندھن کی فراہمی یا کسی اور شکل میں میسر آئی۔ اسی لیے اس خطے میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور یہ ان ممالک کے ساتھ ان امور پر تبادلہ خیال کے لیے ہمارے پاس ایک اہم موقع ہے کہ سلامتی کو بہتر کیسے بنایا جائے، امدادی امور پر ہمارے مشترکہ طریقہ کار میں بہتری کیسے لائی جائے اور ان کی بات سنی جائے کہ وہ مستقبل کی بابت کون سے خدشات کا شکار ہیں۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): آئیے اب نائیکے چِنگ سے بات کرتے ہیں۔

سوال: شکریہ۔ کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟

آپریٹر: آپ کی لائن کھلی ہے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): جی بات کیجیے۔

سوال: جی شکریہ۔ (دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار) کیا میں شمالی کوریا کے بارے میں سوال کر سکتا ہوں؟ امریکہ جاپان اور کوریا کے ساتھ سہ فریقی بات چیت سے کون سے نتائج کے حصول کا خواہاں ہے۔ خاص طور پر جب سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے یہ واضح ہوا ہے کہ شمالی کوریا اپنے مرکزی یونگ بیون جوہری کمپلیکس میں یورینیم کو افزودہ کرنے کے پلانٹ کو وسعت دے رہا ہے تو ملاقات میں اس حوالے سے کیا بات ہو گی؟ اس سے ہٹ کر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا امریکہ ژی جِن پنگ کی بات پر کوئی ردعمل دے گا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مخاصمت پر بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے؟ جی20 کانفرنس کے دوران صدر بائیڈن اور صدر ژی کے مابین ملاقات کا کس قدر امکان ہے؟ کیا اس بات چیت میں کوئی رکاوٹ ہے؟ آپ کا بہت شکریہ۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم): میرا اندازہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے میزائل تجربات کو دیکھا جائے تو یہ سہ فریقی ملاقات بہت مناسب وقت پر ہو رہی ہے اور ان واقعات کے بعد یہ ملاقات تبادلہ خیال کا ایک اچھا موقع ہے۔ میں مزید کھل کر کہوں گی کہ ان سہ فریقی ملاقاتوں کے انعقاد کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ناصرف شمالی کوریا کے ساتھ بلکہ خطہ ہند۔الکاہل اور چین کے حوالے سے تبادلہ خیال اور اپنی پوزیشن ترتیب دینے کا ایک موثر طریق کار ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتی ہوں کہ کل یہ ایک مفید ملاقات ہو گی۔ یقیناً میرے پاس صدر ژی اور صدر بائیڈن کے مابین ممکنہ ملاقات کے حوالے سے اعلان کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار(اول): ہم باربرا یوشر سے ایک سوال لینے کی کوشش کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا انہیں فون پر سنا جا سکتا ہے یا نہیں۔

سوال: کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): جی ہمیں آپ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ بات کیجیے۔

سوال: بہت اچھے۔ مجھے طالبان کی اقوام متحدہ سے منظوری کی درخواست کے بارے میں (دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار) سے بات کرنا ہے۔ آپ نے کہا کہ کمیٹی کو سوچ بچار کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا۔ کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس میں اقوام متحدہ کی موجودہ جنرل اسمبلی کے اختتام سے زیادہ وقت لگے گا؟ دوسرے الفاظ میں کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کو اقوام متحدہ سے خطاب کا موقع نہ مل سکے؟

میرا دوسرا سوال آسٹریلیا کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں فرانس کے غصے پر یورپی یونین کے ردعمل کے بارے میں ہے۔ کیا آپ نے یہاں بوریل کے ساتھ ہونے والی اس بات پر کوئی ردعمل دیا ہے کہ امریکہ فرانس کے ساتھ کھڑا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اس واقعے سے یورپ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ چارلس مائیکل کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں شفافیت اور وفاداری کا واضح طور پر فقدان ہے۔ باالفاظ دیگر یہ فرانس سے زیادہ بڑا معاملہ تھا؟ شکریہ۔

دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار (دوم) مجھے اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے منظوری دینے والی کمیٹی کو عموماً کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ میں یہ پیش گوئی نہیں کروں گی کہ اسے کتنا وقت لگے گا۔ میں یہ کہوں گی کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کا مکمل دورانیہ قریباً تین مہینے پر محیط ہوتا ہے۔ اس کا اعلیٰ سطحی ہفتہ یہی ہے اور میں یہ توقع نہیں رکھتی کہ یہ معاملہ اسی ہفتے طے ہو جائے گا۔

میں سمجھتی ہوں کہ یورپی یونین کے ساتھ آج ہونے والی تمام بات چیت میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس نے اپنے رکن ممالک کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کی ہے جو کہ فطری اقدام ہے۔ لیکن ہم ایک مسلسل، بھرپور اور مفصل بات چیت کے دوران ان کے مفادات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے یہ بات چیت چین کے بارے میں اور ہند۔ الکاہل کے حوالے سے تمام رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعاون کی بابت شروع کی ہے۔ اسی لیے میں سمجھتی ہوں کہ ہم نے ایک ساتھ بہت سا کام کیا ہے اور ہم اسی کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے۔

دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار (اول): بہت اچھے۔ اس کے ساتھ ہی آج کی بات چیت کا اختتام ہوتا ہے۔ ہم کل بھی ایسی ہی ایک کال کی منصوبہ بندی کریں گے۔ ہم اس بارے میں اطلاعات کل فراہم کریں گے۔

یاد دہانی کے طور پر بتاتے چلیں کہ یہ پس منظر میں ہونے والی بات چیت تھی جسے آپ دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے نام منسوب کر سکتے ہیں۔ ہم آپ سے کل بات کریں گے۔ آپ کا بہت شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefing-with-senior-state-department-officials-on-u-s-engagements-at-the-united-nations-and-on-the-margins-of-high-level-week/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future