امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
خصوصی بریفنگ
سفیر ایریکا بارکس- رگلز، بیورو کی اعلیٰ عہدیدار
عالمی اداروں سے متعلق امور کا بیورو
20 ستمبر، 2021
مسٹر پرائس: سبھی کو صبح بخیر اور اس کال میں شمولیت پر بہت شکریہ۔ ہم اس موقع پر آپ کو آئندہ چند روز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران وزیر خارجہ بلنکن کی مصروفیات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم اس دوپہر کو نیویارک جائیں گے اور رواں ہفتے بیشتر وقت وہیں گزاریں گے۔ ایریکا– ایریکا بارکس۔رگلز اس کال میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ وہ عالمی اداروں سے متعلق امور کے ہمارے بیورو میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ابتدا میں وہ چند افتتاحی کلمات کہیں گی اور اس کے بعد ہم آپ کے سوالات کے منتظر ہوں گے۔ یاد دہانی کے طور پر بتاتے چلیں کہ یہ کال آن دی ریکارڈ ہے تاہم کال کے اختتام تک اس کی تفصیلات نشرو شائع کرنے پر پابندی ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی میں ایریکا کو گفتگو کرنے کی دعوت دوں گا۔ جی بات کیجیے۔
مس بارکس-رگلز: صبح بخیر اور شکریہ نیڈ۔
جیسا کہ سبھی جانتے ہیں وزیر خارجہ بلنکن آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں شرکت کریں گے جسے یو این جی اے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اقوام متحدہ میں ایک اعلیٰ سطحی ہفتہ ہے۔
وزیر خارجہ کل وہاں جنرل اسمبلی سے صدر بائیڈن کا خطاب سنیں گے۔ اس دوران وہ متعدد دوطرفہ اور کثیرملکی اجلاسوں میں بھی شرکت کریں گے۔ وزیر خارجہ متوقع طور پر کووڈ۔19 سے متعلق ایک ورچوئل کانفرنس میں حصہ لیں گے جو بدھ کو وائٹ ہاؤس کے زیراہتمام منعقد ہو گی۔ وہ بدھ کو افغانستان کے معاملے پر جی20 کے اجلاس میں بھی شریک ہوں گے اور اس دوران ان کی پی5 ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات بھی طے ہے۔ میں آخر میں جمعرات کو موسمیاتی امور اورسلامتی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں وزیر خارجہ کی شرکت پر بھی روشنی ڈالنا چاہوں گی۔ ان کا جمعرات کی شام کو واپس آنے کا ارادہ ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس وقت جاری وباء کے باعث اس سال اقوام متحدہ میں یہ اعلیٰ سطحی ہفتہ پہلے سے بہت مختلف دکھائی دے گا۔ یو این جی اے میں شرکت کرنے والوں، امریکی اہلکاروں اور نیویارک شہر کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہمارا وفد چھوٹا ہو گا اور ہم نے کووڈ کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقوام متحدہ، سی ڈی سی اور نیویارک شہر کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
چونکہ کووڈ۔19 کو شکست دینا امریکہ کی اولین ترجیح ہے اسی لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران بھی یہ ہماری اول ترجیح رہے گی۔ امریکہ دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں مدد مہیا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے اور دنیا بھر میں کووڈ۔19 کے خلاف اقدامات سے متعلق بات چیت کی بہتر طور سے قیادت کر سکتا ہے۔ ہم ویکسین کی پیداوار بڑھانے اور تحفظ زندگی کے لیے علاج معالجے تک رسائی کو وسعت دینے کے لیے ایک عالمگیر اتحاد قائم کر رہے ہیں۔ ہم اس وباء کو ختم کرنے اور مستقبل کے لیے عالمی سطح پر تحفظ صحت کے اقدامات کو ترقی دینے کے لیے اپنے عالمگیر شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔
یو این جی اے کے دوران ہماری توجہ اس بات پر بھی مرکوز ہو گی کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری پر پُرعزم وعدے کرنے کے لیے زور دیا جائے۔ امریکہ اس معاملے میں اپنی مثال کے ذریعے رہنما کردار ادا کر رہا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے اعلان کیا جا چکا ہے، ہم 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی لانے اور نیٹ زیرو سطح پر پہنچنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس موقع پر ہم دوسرے ممالک کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کی جانب پیش رفت جاری رکھیں۔ امریکہ اس معاملے میں پیرس معاہدے کے تحت اپنی کوششوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے اور یہ ثابت کر رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات نئی نوکریاں، مواقع اور معاشی ترقی لے کر آئیں گے۔
آخری بات یہ کہ امریکہ کی توجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے پلیٹ فارم کو انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور قوانین کی بنیاد پر قائم عالمی نظام کی حمایت میں آواز بلند کرنے کے لیے استعمال کرنے پر بھی مرکوز رہے گی۔ اپنے نظام میں شامل نسل پرستی کا خاتمہ کرنے، داخلی سطح پر دہشت گردی کے ظہور سے نمٹنے، عدم مساوات کا مقابلہ کرنے اور اقدار کی بنیاد پر امیگریشن اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہوئے ہم اندرون ملک مزید مکمل اتحاد قائم کرنے سے متعلق اپنے عزم پر بھی زور دیں گے۔ اندرون ملک اور دنیا بھر میں ان اقدار کا دفاع ہماری قومی طاقت اور دنیا بھر میں ہمارے مفادات کو فروغ دینے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے آپ کے سوالات لوں گی۔
مسٹر پرائس: بہت اچھے، آپ کا بہت شکریہ۔ آپریٹر، کیا آپ سوالات پوچھنے سے متعلق ہدایات کو دہرانا چاہیں گے؟
آپریٹر: یقیناً، ہم ایک مرتبہ پھر بتاتے چلیں کہ آپ 1 اور پھر 0 کا بٹن دبا کر کسی سوال یا تبصرے کے لیے قطار میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پہلے 1 اور پھر 0۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا پورا سوال سنا جائے تو براہ مہربانی بولنے سے پہلے میرے یہ کہنے کا انتظار کریں کہ آپ کی لائن کھلی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر بتا دوں کہ آپ کو اپنے سوالات یا تبصروں کے لیے 1 اور پھر 0 کا بٹن دبانا ہو گا۔
مسٹر پرائس: ہم فرانسسکو فونٹیمیگی کے سوال سے آغاز کریں گے۔
آپریٹر: ایک لحظہ ٹھہریے۔ فرانسسکو، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: آپ کا شکریہ۔ صبح بخیر۔ میں پوچھنا چاہتا تھا ـــ آپ نے متعدد دوطرفہ اجلاسوں کا تذکرہ کیا۔ میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آیا گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے بحران کے بعد آپ کی فرانسیسی وزیر خارجہ کے ساتھ کوئی ملاقات طے ہے اور آپ فرانس کو کیا پیغام دیں گے جو ان باتوں سے خوش نہیں ہے جو اس نے سنی ہیں۔ وہ اب بھی تعلقات کے ازسرنو تعین کی بات کر رہے ہیں۔ شکریہ۔
مس بارکس۔رگلز: بہت اچھے۔ سوال کے لیے شکریہ۔ جیسا کہ وزیر خارجہ اور امریکی انتظامیہ کے دوسرے لوگ کہہ چکے ہیں، فرانس ہمارا سب سے پرانا اتحادی، ہمارا سب سے پرانا دوست اور شراکت دار ہے اور بہت سے امور پر بدستور ہمارا انتہائی قابل قدر اتحادی ہے۔ یقیناً ہم فرانس کے ساتھ پی5 اجلاس میں شریک ہوں گے اور دوطرفہ اور کثیرملکی اجلاسوں کو طے کرتے ہوئے ہمیں توقع ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس اجلاس کا شیڈول اسی طرح اہم ہو گا جس طرح یو این جی اے میں ہوتا ہے۔
مسٹر پرائس: اب ہم حمیرا پاموک کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: ایک لحظہ ٹھہریے۔ حمیرا، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: شکریہ۔ کال کا اہتمام کرنے کا شکریہ۔ میں فرانسسکو کے سوال کو ہی قدرے آگے بڑھاؤں گی۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اجلاس میں بہت سے اہم امور پر بات ہو گی، اور میں اسے سمجھتی اور اسے سراہتی ہوں، تو کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے فرانس کے وزیر خارجہ سے دوطرفہ ملاقات جیسا کوئی وقت مانگا ہے؟ دوسری بات یہ کہ اس ملاقات میں فرانس کو کیا پیغام دیا جائے گا؟
میں جلدی سے یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ میں نے ابھی آپ سے کووڈ ویکسین کی فراہمی میں عدم مساوات کے بارے میں بات کی تھی۔ یہ اس پورے ہفتے میں ایک بنیادی موضوع ہو گا اور کوویکس کے اہداف حاصل نہ ہونے کا معاملہ دیکھا جائے تو امریکہ کا اس بارے میں کیا پیغام ہو گا۔ کیا امریکہ اس حوالے سے مزید وعدے کر رہا ہے یا بقیہ دنیا سے کہے گا کہ وہ اس معاملے میں مزید کردار ادا کرے؟ امریکہ کی اس بارے میں کیا حکمت عملی ہے؟ شکریہ۔
مس بارکس۔رگلز: بہت اچھے، دونوں سوال کرنے کا شکریہ، جہاں تک آپ کی پہلی بات ہے تو یقیناً اس اجلاس میں بہت سے اہم امور پر بات ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہاں ایسا ہی ہو گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ سبھی آگاہ ہیں کہ یو این جی اے کے شیڈول طے کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے اور ہم اس اجلاس کے شیڈول پر کام کر رہے ہیں جبکہ ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ اس میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ میں پہلے ہی اس پیغام کے بارے میں کچھ بات کر چکی ہوں جس کے بارے میں ہم فرانس سے بات کریں گے۔ اس میں ان کے ساتھ ہماری طویل دوستی، موسمیاتی تبدیلی سے کووڈ اور ماورائے اوقیانوس شراکت تک بہت سے عالمی امور پر باہم مل کر کام کرنے کی سنجیدہ ضرورت اور دنیا بھر میں سلامتی سے متعلق بہت سے امور شامل ہیں۔
جہاں تک کووڈ اور عدم مساوات کا مسئلہ ہے تو ہم کووڈ کانفرنس کے ذریعے سول سوسائٹی، این جی اوز، فلاحی کام کرنے والوں، دوسری حکومتوں اور صنعتی شعبے کو ایک جگہ جمع کر رہے ہیں تاکہ اس وباء کا حقیقتاً خاتمہ کیا جائے۔ ہم واقعی یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کام کو تیزی سے کیسے کیا جائے، ہم اپنی کوششوں میں تیزی کیسے لائیں اور لوگوں کو جلد از جلد ویکسین لگانے کے لیے اپنے عزم کو مزید کیسے بڑھائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل کوشش ہے لہٰذا یہ کام ایک ہی قدم میں نہیں ہو جانا۔ یہ اپریل سے اب تک جاری اجلاسوں کے سلسلے کا تسلسل ہے اور یہ سربراہان مملکت کی سطح پر، جی7 میں، ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں اور جی20 کانفرنس میں جاری رہے گا اور اس میں ہر موقع پر اس وباء کو ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی جائے گی۔
ہم پہلے ہی دنیا میں دونوں ویکسین مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہیں اور کوویکس میں سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں پیش رفت کرتے ہوئے ہم اپنے عزم میں اضافے کا پورا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سبھی کو ویکسین تک مساوی رسائی ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بیماری ہر جگہ مساوی طور سے نہیں پھیلی۔ کرونا کا ڈیلٹا وئرس دنیا بھر کے ملکوں میں تباہی پھیلا رہا ہے تاہم ایسی جگہوں پر اس کی شدت زیادہ ہے جہاں کم لوگوں کو ویکسین میسر آئی ہے۔ اسی لیے ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم میں سبھی اپنے وعدے پورے کریں۔ اب تک امریکہ ویکسین 140 ملین خوراکیں دوسرے ممالک کو بھیج چکا ہے، ہم نے مزید 560 ملین خوراکیں بھیجنے کا وعدہ کیا ہے جو کوویکس کے ذریعے دی جائیں گی اور ان کے عوض ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ یہ خوراکیں وہیں جائیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ہم دوسروں پر بھی یہی کچھ کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کو دی جانے والی ویکسین کی خوراکوں کی تعداد بڑھائیں اور لوگوں کو یقینی طور پر جلد از جلد ویکسین لگانے کے لیے کوویکس کی معاونت میں اضافہ کریں۔ لہٰذا اس تمام کوشش کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس وباء کے پھیلاؤ پر قابو پائیں۔ جیسا کہ صدر نے اور وزیر خارجہ نے کہا ہے، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو کرونا وائرس کی ان اقسام کا پھیلاؤ جاری رہے گا اور جب تک سبھی لوگوں کو ویکسین نہیں لگ جاتی اس وقت تک ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہو گا۔
مسٹر پرائس: اب ہم مشیل کیلیمین کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: ایک لحظہ ٹھہریے۔ مشیل کیلیمین، آپ کی لائن کھلی ہے، براہ مہربانی سوال کیجیے۔
سوال: شکریہ۔ آپ نے افغانستان پر جی20 کے اجلاس کا تذکرہ کیا تاہم میں نے ایک اور شیڈول میں دیکھا کہ منگل کو افغانستان پر ایک وزارتی اجلاس بھی ہونا ہے۔ کیا امریکہ اس میں شرکت کر رہا ہے؟ امریکہ اب افغانستان میں اقوام متحدہ کا کون سا کردار دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا وزیر خارجہ بلنکن کا ایران کے نئے وزیر خارجہ سے ملنے کا کوئی ارادہ ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
مس بارکس۔رگلز: بہت اچھے، جی۔ جہاں تک افغانستان پر وزارتی اجلاس کی بات ہے تو میرے خیال کے مطابق امریکہ اس میں شرکت کرے گا۔ جہاں تک اقوام متحدہ کے کردار کا تعلق ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہم اس پر پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے پوری طرح پُرعزم ہیں کہ اقوام متحدہ اور ہمارے این جی او کے شراکت دار وہاں انسانی امداد، تحفظ زندگی میں مددگار خوراک اور طبی معاونت کی فراہمی جاری رکھیں اس کے ساتھ ساتھ یہ یقینی بنانے کے لیے درکار اہم کام بھی جاری رکھا جائے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کا احترام ہو جس میں خاص طور پر خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق شامل ہیں۔ اقوام متحدہ وہاں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہی ہے اور ایسے میں ہم اس کے ساتھ مل کر مصروف کار ہیں۔ ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ وہ ضرورت مندوں تک خوراک پہنچانے کے قابل ہوں اور سردیوں کی آمد سے پہلے خوراک اور ادویات کا انتظام کر سکیں۔
ہمیں توقع ہے کہ یہ معاملہ بھی موضوع بحث ہو گا لیکن ہم خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس بارے میں کام بھی کر رہے ہیں کہ یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ طالبان اپنا وعدہ پورا کریں گے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردی کے لیے ٹھکانے کے طور پر استعمال نہیں ہو گا، وہ امدادی اداروں کو رسائی دینے کے وعدے پورے کریں گے، وہ غیرملکیوں اور افغانوں سمیت افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند سبھی لوگوں کو راستہ دیں گے اور عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں گے۔ لہٰذا ہمیں پوری توقع ہے کہ یہ تمام باتیں اس بحث کا حصہ ہوں گی۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو ہم مشترکہ جامع منصوبہ عمل کی شرائط کی تعمیل کی جانب مشترکہ طور پر واپسی کے لیے بامعنی سفارت کاری کی راہ پر کاربند ہیں اور انتظامیہ ان امور پر پی5 پلس 1 اور خطے میں اپنے دیگر دوستوں اور اتحادیوں سے مسلسل مشاورت کرتی رہے گی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم ان امور پر نیویارک میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے راب میلے سے بات چیت کرتے چلے آئے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ یہ کام ویانا فارمیٹ کی صورت میں جاری رہے گا۔
مسٹر پرائس: اب ہم جینیفر ہینسلر کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: جینیفر، آپ کی لائن کھلی ہے۔
مسٹر پرائس: جینی، شاید آپ کے فون کی آواز بند ہے۔ ہم نے آپ کو لائن پر لے رکھا ہے۔
سوال: معذرت چاہتی ہوں۔ کیا آپ اب مجھے سن سکتے ہیں؟
مسٹر پرائس: جی ہاں۔
سوال: شکریہ، مجھے مشیل کے سوال کو لے کر ایک اور بات پوچھنا ہے۔ کیا وزیر خارجہ اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کریں گے یا نہیں؟ شکریہ۔
مس بارکس۔رگلز: جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں توقع ہے کہ ہماری بات چیت ویانا فارمیٹ کی صورت میں جاری رہے گی۔
مسٹر پرائس: اب ہم نک ویڈہیم کا سوال لیں گے۔
سوال: کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟
آپریٹر: نک، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: ٹھیک ہے، آپ کا شکریہ۔ میں ابتدا میں کیے گئے بعض سوالات کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ہونے والے اجلاسوں میں بہت سے اہم امور پر بات ہونا ہے، کیا وزیر خارجہ فرانس کے وزیر خارجہ سے دوطرفہ ملاقات کے خواہاں ہیں؟ شکریہ۔
مس بارکس۔ رگلز: میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کی بات پوری طرح نہیں سن سکی، آپ نے کہا کہ ”کیا وزیر خارجہ” اور اس کے بعد میں آپ کے سوال کو سمجھ نہیں پائی۔
سوال: کیا وہ فرانس کے وزیر خارجہ کے ساتھ دوطرفہ ملاقات چاہتے ہیں؟
مس بارکس۔رگلز: میں نہیں سمجھتی کہ بار بار ملاقاتوں اور اجلاسوں کو طے کرنے سے متعلق گفتگو میرے لیے مفید ہے۔ میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کا شیڈول اپنی جگہ برقرار ہے تاہم اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئے گی۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہم پی5 فارمیٹ میں فرانس سے ملیں گے اور ہم وہاں ان کے ساتھ بات چیت کے متمنی ہیں جبکہ دیگر تمام سطحوں پر گفت و شنید بھی یقیناً جاری رہے گی۔
مسٹر پرائس: اب ہم جان ہڈسن کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: ایک لحظہ ٹھہریے۔ جان آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: شکریہ۔ جب سفری پابندی اٹھانے کی بات ہو تو کیا یہ جوہری معاہدے کے معاملے میں رکاوٹوں کے بعد اپنے اتحاد بحال کرنے کے وعدے پورے کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے؟ کیا آپ اس حوالے سے کچھ بتائیں گی؟
مس بارکس۔ رگلز: جن لوگوں نے اس معاملے کا بغور جائزہ نہیں لیا یا آج صبح تک اسے نہیں دیکھا انہیں میں بتاتی چلوں کہ جان 212 (ایف) سفری پابندیوں کی بات کر رہے ہیں۔ آج صبح وائٹ ہاؤس کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ کووڈ وباء کے باعث عائد کی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ اس معاملے میں اور بھی بہت کچھ ہو گا تاہم اس اقدام کے پیچھے واقعتاً کووڈ کارفرما ہے۔ جب دنیا میں مزید لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی تو یقیناً ہم چاہیں گے کہ لوگ مزید آزادانہ طور سے سفر کر سکیں۔ ہم یہ فیصلہ ہمیشہ سائنس کو مدنظر رکھ کر کریں گے اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا آج کی پیش رفت کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس معاملے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔
مسٹر پرائس: اب ہم وی او اے کے ہائیونگ جو پارک کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: ایک لحظہ ٹھہریے۔ معاف کیجیے، مجھے ان کا نام دوبارہ سننا ہے۔
مسٹر پرائس: یہ ہائیونگ جو پارک ہیں۔
آپریٹر: ٹھیک ہے، آپ کا شکریہ۔ ہائیونگ، آپ کی لائن کھلی ہے۔ براہ مہربانی بات کیجیے۔
سوال: جی، میرا سوال شمالی کوریا کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی آج آئی اے ای اے کے سالانہ اجلاس میں یہ بات کر رہے ہیں کہ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام بھرپور طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور وہ صرف پلوٹونیم ہی نہیں بلکہ یورینیم بھی افزودہ کر رہے ہیں۔ یہ بات گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے فوری بعد سامنے آئی ہے جہاں بعض رکن ممالک نے شمالی کوریا کی جانب سے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی مذمت کی تھی کہ یہ تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔ چنانچہ مجھے یہ جاننا ہے کہ آیا بائیڈن انتظامیہ اقوام متحدہ کی اسمبلی کے دوران شمالی کوریا کو کوئی پیغام دے گی۔ اگر ایسا ہے تو یہ پیغام کیا ہو گا؟
مس بارکس۔رگلز: جی، امریکہ بدستور ــــ معاف کیجیے، مجھے آپ سے بات کرتے ہوئے گونج سنائی دے رہی ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا، امریکہ نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کی مذمت کی ہے۔ ہم نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی اور اس تجربے کے نتیجے میں شمالی کوریا کے ہمسایوں، عالمی برادری کے ارکان اور یقیناً خطے میں اپنے قریبی اتحادیوں کو لاحق خطرے کے حوالے سے ایک بھرپور پیغام جاری کیا ہے۔
ہم شمالی کوریا کے حوالے سے سفارتی طریقہ کار اپنانے پر کاربند ہیں اور ہم نے انہیں بات چیت میں شامل ہونے کو کہا ہے۔ ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ ہم نے یہ بات بھی بالکل واضح کر دی ہے کہ جمہوریہ کوریا اور جاپان کے دفاع کے لیے ہمارا عزم انتہائی پختہ ہے۔ ہماری اور اقوام متحدہ کی پابندیاں برقرار ہیں اور ہم ان کا اطلاق جاری رکھیں گے اور دوسروں سے بھی کہیں گے کہ وہ انہیں موثر طریقے سے نافذ کریں۔
ہم نےتواتر سے کہا ہے کہ ہم غیرمشروط طور پر شمالی کوریا سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور ہم امید کریں گے کہ وہ اس کا مثبت جواب دیں گے، تاہم بدقسمتی سے انہوں نے اب تک ایسا نہیں کیا۔
مسٹر پرائس: اب ہم مائیکل گینڈر کا سوال لیں گے۔
آپریٹر: مائیکل، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: جی، شکریہ۔ آپ نے کہا کہ آپ ایران کے ساتھ ویانا فارمیٹ کے تحت بات چیت کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا آپ نے اس بات چیت کے لیے کسی مخصوص تاریخ کا تعین کر رکھا ہے؟ کیا یہ فارمیٹ اب بھی قائم ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
مس بارکس۔ رگلز: میرے پاس اس حوالے سے آپ کو بتانے کے لیے کوئی مخصوص تاریخیں نہیں ہیں اور میں اس کا جواب خصوصی نمائندے میلے پر چھوڑوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ ہم بات چیت کی جانب واپسی کےلیے تیار ہیں اور امید ہے کہ ایرانیوں کی جانب سے ہمیں جلد کوئی جواب ملے گا۔
مسٹر پرائس: اب ہم چند آخری سوالات لیں گے۔ اگلا سوال جیمز مارٹون کریں گے۔
آپریٹر: جیمز، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے بتایا کہ وزیر خارجہ بلنکن افغانستان پر وزارتی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ کیا اس موقع پر کسی طرح کے خدشات یا طالبان کی جانب سے دہشت گردوں خصوصاً القاعدہ اور دوسروں گروہوں کو افغان سرزمین دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے وعدوں پر بھی کوئی خاص بات چیت ہو گی؟
مس بارکس۔ رگلز: جی، ہمیں توقع ہے کہ اس دوران مختلف ممالک اور پی5 فارمیٹ میں بھی دیگر موضوعات کے علاوہ طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کو القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی جانب سے امریکہ، ہمارے دوستوں، اتحادیوں یا خطے میں دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہو گی۔ یہ ایسی بات ہے جس کے لیے ہم ان پر ابتدا ہی سے زور دیتے چلے آئے ہیں۔
وزیر خارجہ اس معاملے میں واضح سوچ رکھتے ہیں کہ ہم سب کو چوکس رہنا ہے اور ہمیں افغانستان سے ابھرنے والے خطرات خصوصاً دہشت گردی کے کسی خطرے کے دوبارہ ظہور پر نظر رکھنا ہے۔ اسی لیے ہمیں توقع ہے کہ یہ معاملہ اس بات چیت کا ایک بڑا موضوع ہو گا۔ یقیناً اس دوران صرف اسی معاملے پر بات چیت نہیں ہو گی کیونکہ ہمیں دیگر وعدوں پر بھی ان سے جواب طلبی کرنا ہے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان میں انسانی حقوق خاص طور پر عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ان کے وعدے، ان کی جانب سے امدادی اداروں کو رسائی دینے کے وعدے اور افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند لوگوں کو راستہ دینے کا وعدہ شامل ہیں۔ اسی لیے نیویارک میں ہونے والے ان تمام اجلاسوں میں ان معاملات پر بھرپور بات ہو گی۔
مسٹر پرائس: نائیکے چنگ، براہ مہربانی بات کیجیے۔
آپریٹر: نائیکے، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: آپ کا بہت شکریہ، اس کال کا اہتمام کرنے کا شکریہ۔ مجھے شمالی کوریا کے بارے میں مزید پوچھنا ہے۔ آپ نے ابھی بتایا کہ امریکہ غیرمشروط طور پر شمالی کوریا کے حکام سے ملے گا۔ کیا اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے نمائندے کے ساتھ کسی طرح کے رابطے اور ذیلی ملاقاتوں کا بھی امکان ہے؟
اور اس سے ہٹ کر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا وزیر خارجہ بلنکن یو این جی اے کے دوران چین کے حکام سے بھی کوئی ذیلی ملاقاتیں کریں گے؟ آپ کا بہت شکریہ۔
اوہ، ویسے ـــ میں معذرت چاہتا ہوں ـــ کیا آُپ جمہوریہ کوریا اور جاپان کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں بھی کچھ کہیں گے؟ کیا آپ کے خیال میں چھ فریقی بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے جیسا کہ میڈیا میں آنے والی بعض اطلاعات میں اشارہ کیا گیا ہے؟ شکریہ۔
مس بارکس۔ رگلز: بہت اچھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے چار سوالات کیے ہیں۔ جہاں تک شمالی کوریا کا معاملہ ہے تو جیسا کہ میں نے کہا، ہم نے تواتر سے یہ بات کہی ہے کہ ہم غیرمشروط طور پر شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ وہ اس پر ہمیں مثبت جواب دیں گے تاہم ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
جہاں تک چینی وفد کے ساتھ ملاقات کی بات ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ چینی حکام یو این جی اے میں زیادہ تر ورچوئل انداز میں شرکت کریں گے اسی لیے ہم انہیں بہت سی کثیرملکی ملاقاتوں میں دیکھیں گے۔ اس موقع پر میرے پاس شیڈول میں ورچوئل ملاقاتوں کا تذکرہ نہیں ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بعد میں بھی نہیں ہوں گی۔ تاہم اس موقع پر میں سمجھتی ہوں کہ وزیر خارجہ کے ہم منصب اس اجلاس میں بالمشافہ شرکت نہیں کریں گے۔
جہاں تک آپ کے تیسرے سوال کا تعلق ہے تو جمہوریہ کوریا اور جاپان کے ساتھ ایک ملاقات طے ہے اور ہم علاقائی سلامتی کے بہت سے معاملات بشمول شمالی کوریا کے مسئلے پر بات چیت کے لیے اس ملاقات کے منتظر ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ دونوں ممالک کے ساتھ اور تینوں ممالک میں بہت اچھی بات چیت ہو گی۔ اس موقع پر ہمارے پاس چھ فریقی بات چیت کے بارے میں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مسٹر پرائس: اب ہم مسی ریان سے آخری سوال لیں گے۔
آپریٹر: مسی، آپ کی لائن کھلی ہے۔
سوال: شکریہ۔ اگر یہ سوال پہلے پوچھا جا چکا ہے تو میں معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ مصر کے لیے سلامتی کے شعبے میں امداد اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کی جانب سے اس معاملے پر تنقید کے بعد اس اجلاس کے موقع پر آپ کا مصر کے وزیر خارجہ کا پیغام کیا ہو گا۔ شکریہ۔
مس بارکس۔رگلز: جی، یقیناً ہم مصر کے نمائندوں سے بہت سے امور پر بات چیت کریں گے جن میں علاقائی سلامتی کے امور بشمول دوطرفہ معاملات، براعظم افریقہ سے متعلق امور بشمول جی ای آر ڈی اور ایتھوپیا کی صورتحال شامل ہے جو یقیناً ہم سبھی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ لہٰذا ہمیں ان کے ساتھ بھرپور ایجنڈے اور بہت سے موضوعات پر بات چیت ی توقع ہے جن میں بعض ایسے موضوعات بھی ہیں جن پر آپ بات چیت کر چکے ہیں۔
مسٹر پرائس: بہت اچھے۔ اس کے ساتھ ہی آج کی کال کا اختتام ہوتا ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر اپنی مقرر عالمی اداروں سے معتلق امور کے بیورو کی اعلیٰ سطحی عہدیدار ایریکا بارکس: رگلز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ساتھ شامل ہونے پر سبھی لوگوں کا شکریہ۔ ہم آپ میں سے بہت سے لوگوں سے اب نیویارک میں ملیں گے۔ بہت شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefing-with-bureau-of-international-organization-affairs-senior-official-erica-barks-ruggles-on-u-s-participation-at-the-76th-un-general-assembly/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔