An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
17 فروری، 2022

وزیر خارجہ بلنکن: جناب صدر، آج اس کونسل کا اجلاس مِنسک معاہدوں پر عملدرآمد کے بارے میں بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا۔ روس کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود ان معاہدوں کی تعمیل ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔ ان معاہدوں پر 2014 اور 2015 میں بات چیت ہوئی تھی جن پر روس نے دستخط کیے تھے اور اب بھی یہ مشرقی یوکرین میں تنازعے کو حل کرنے کے لیے امن عمل کی بنیاد ہیں۔

امن اور سلامتی کا تحفظ اس کونسل کی بنیادی ذمہ داری اور اس کے قیام کی بنیادی وجہ ہے۔ آج جب ہم ملاقات کر رہے ہیں تو یوکرین کے خلاف روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت امن اور سلامتی کو لاحق فوری خطرہ ہے۔

اس بحران سے ہونے والا نقصان یوکرین تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور تحفظ نیز اقوام متحدہ کے چارٹر اور قوانین کی بنیاد پر قائم اس عالمی نظام کے لیے سخت خطرے کا وقت ہے جس نے اب تک دنیا بھر میں استحکام برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔ یہ بحران اس کونسل کے ہر رکن اور دنیا میں ہر ملک پر براہ راست اثرانداز ہو رہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم رکھنے والے بنیادی اصول خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جو دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے بعد وضع کیے گئے تھے۔ ان اصولوں کی رو سے کوئی ملک طاقت کے زور پر دوسرے ملک کی سرحدیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی ملک دوسرے ملک کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ اس نے کون سے فیصلے کرنے ہیں، کون سی پالیسیاں اختیار کرنی ہیں یا کس ملک کے ساتھ چلنا ہے۔ ان اصولوں کا تعلق قومی خودمختاری سے ہے۔

یہ بالکل ویسا ہی بحران ہے جسے روکنے کے لیے اقوام متحدہ اور خاص طور پر اس کی سلامتی کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا۔

اس وقت روس یوکرین کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اسے ہمیں روکنا ہو گا۔

گزشتہ مہینوں میں روس نے کسی اشتعال یا جواز کے بغیر یوکرین کے ساتھ اپنے ملک، بیلارس اور مقبوضہ کرائمیا کی سرحدوں پر 150,000 سے زیادہ فوج جمع کر رکھی ہے۔ روس کہتا ہے کہ وہ اس فوج کی تعداد میں کمی کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہماری معلومات سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی فوجیں بشمول بری، فضائی اور بحری فوج آنے والے دنوں میں یوکرین کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

ہم قطعی طور پر نہیں جانتے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن یہی وہ صورتحال ہے جس کے سامنے آنے کی دنیا توقع کر سکتی ہے۔ درحقیقت یہ صورتحال اسی وقت اور آج واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے جب روس جنگ کی راہ پر جا رہا ہے اور اس نے دوبارہ جنگی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

پہلی بات یہ کہ روس نے اپنے حملے کا بہانہ گھنڑے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ یہ کوئی ایسا پرتشدد واقع ہو سکتا ہے جس کا ذمہ دار وہ یوکرین کو ٹھہرائے گا یا کوئی اشتعال انگیز الزام ہو گا جو روس یوکرین کی حکومت کے خلاف عائد کرے گا۔ ہم واضح طور پر نہیں جانتے کہ یہ کیسا واقعہ یا الزام ہو گا۔ یہ روس کے اندر نام نہاد ”دہشت گرد” بم حملے کی گھڑی گئی کہانی ہو سکتی ہے، کسی اجتماعی قبر کی خودساختہ دریافت ہو سکتی ہے، شہریوں کے خلاف خود منظم کیا گیا ڈرون حملہ ہو سکتا ہے یا کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کا الزام حتیٰ کہ ایسا کوئی حقیقی حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ روس ایسے کسی واقعے کو نسل کشی یا قتل عام کا نام بھی دے سکتا ہے اور اس طرح کوئی ایسا جعلی تصور پیش کر سکتا ہے جسے اس جگہ ہم نظرانداز نہیں کر سکتے اور میں بھی اپنی خاندانی تاریخ کی بنا پر اسے نظرانداز نہیں کرتا۔

گزشتہ چند روز میں روس کے میڈیا نے پہلے ہی ایسے بعض جھوٹے خدشات اور دعوے پھیلانا شروع کر دیے ہیں تاکہ عوامی غضب کو بڑھایا جائے اور جنگ کا خود ساختہ جواز پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ آج روس میں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے میڈیا میں شدت سے یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ہم نے آج روس کے حمایت یافتہ مقررین کے منہ سے ایسے بعض بے بنیاد الزامات سنے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اس مصنوعی اشتعال انگیزی کے رعمل میں پیدا ہونے والے نام نہاد بحران سے نمٹنے کے لیے روسی حکومت میں اعلیٰ ترین سطح پر بناوٹی طور سے ہنگامی اجلاس بلائے جا سکتے ہیں۔ روس کی حکومت ایسے اعلانات جاری کر سکتی ہے جن میں کہا جائے گا کہ روس کو اپنے شہریوں یا یوکرین میں روسی النسل لوگوں کے تحفظ کے لیے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔

اس کے بعد حملہ شروع کرنے کا منصوبہ تیار ہو گا۔ پورے یوکرین میں روس کے میزائل اور بم گریں گے۔ مواصلاتی ذرائع بند ہو جائیں گے۔ سائبر حملوں کے نتیجے میں یوکرین کے اہم ادارے کام کرنا چھوڑ دیں گے۔

اس کے بعد روس کے ٹینک اور فوجی ایسے اہم اہداف کی جانب پیش قدمی کریں گے جن کی پہلے ہی نشاندہی کر لی گئی ہو گی اور ان پر قبضہ کرنے کے تفصیلی منصوبے بنائے جا چکے ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان اہداف میں یوکرین کا دارالحکومت کیئو بھی شامل ہے جس میں 2.8 ملین لوگ بستے ہیں۔

روس نے یوکرین کے لوگوں پر محض روایتی حملے کرنے کی ہی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہمارے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس یوکرین میں لوگوں کے مخصوص گروہوں کو بھی نشانہ بنائے گا۔

ہم یوکرین کی حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ اسے اس تمام صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آج یہاں ہم اس کی تفصیلات بتا رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دنیا کو اپنی معلومات سے آگاہ کر کے ہم روس کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ جنگ کا راستہ ترک کر دے اور اس سے ہٹ کر راہ اختیار کرے کیونکہ اب بھی اس کے لیے وقت باقی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ ہماری معلومات پر سوال اٹھائیں گے کیونکہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب ایسی اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ آج میں یہاں جنگ شروع کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے روکنے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے یہاں جو اطلاعات پیش کی ہیں اس کی تصدیق ان واقعات سے ہوتی ہے جو ہم کئی ماہ سے خود دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اگرچہ روس نے ہمارے انتباہ اور خدشات کا تواتر سے انکار کیا ہے اور اسے سنسنی پھیلانے کی کوشش اور حماقت قرار دیا ہے تاہم وہ یوکرین کی سرحدوں پر متواتر فوج جمع کرتا رہا ہے جس کی تعداد 150,000 تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس نے بڑے پیمانے پر فوجی حملہ کرنے کی صلاحیتیں بھی سرحد پر جمع کر لی ہیں۔

یہ سب کچھ صرف ہم ہی نہیں دیکھ رہے بلکہ ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کو بھی یہ سب کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ روس یہ باتیں صرف ہم سے ہی نہیں سن رہا۔ عالمی برادری بھی اس پر پہلے سے زیادہ زوردار آواز میں بات کر رہی ہے۔

اگر روس یوکرین پر حملہ نہیں کرتا تو ہمیں یہ اطمینان ہو جائے گا کہ روس نے اپنی راہ بدل لی ہے اور اس نے ہماری پیشگوئیوں کوغلط ثابت کر دیا ہے۔ یہ اس صورتحال کا اس سے کہیں بہتر نتیجہ ہو گا جس سے اب ہم دوچار ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ہمارے دعووں پر ہمارے خلاف تنقید کرے گا تو ہم اسے بخوشی قبول کریں گے۔

جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، یہ انتخاب کی جنگ ہو گی۔ اگر روس جنگ کا راستہ منتخب کرتا ہے تو ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بالکل واضح فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہمارا ردعمل تیز اور فیصلہ کن ہو گا۔ صدر بائیڈن نے اس ہفتے کے آغاز میں پُرزور انداز میں اس کا اعادہ کیا ہے۔

اگر روس کے اس دعوے میں کوئی سچائی ہے کہ وہ سفارت کاری کا عزم رکھتا ہے تو اس کے پاس ایک اور راستہ منتخب کرنے کا وقت بھی ہے۔

سفارت کاری اس بحران کو حل کرنے کا واحد ذمہ دارانہ راستہ ہے۔ اس کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ منسک معاہدوں پر عملدرآمد کیا جائے جو کہ آج ہمارے اجلاس کا موضوع ہے۔

روس اور یوکرین نے منسک معاہدوں کے تحت بہت سے وعدے کیے ہیں جن میں او ایس سی ای اور نارمنڈی فارمیٹ کے شراکت دار بھی شامل ہیں۔

اگر روس یوکرین کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان وعدوں پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے ذریعے کام کرنے کو تیار ہے تو فرانس اور جرمنی میں ہمارے دوست ان مسائل کو طے کرنے کے لیے نارمنڈی فارمیٹ میں اعلیٰ سطحی بات چیت کا انعقاد کرنے کو تیار ہیں۔ یوکرین اس کے لیے تیار ہے۔ ہم اس معاملے میں فریقین کی مدد کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

منسک معاہدوں کے ذریعے ڈونباس کے بحران کو حل کرنے کی جانب پیش رفت سلامتی کے مسائل پر وسیع تر بات چیت کو موثر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ ہم ان مسائل پر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے اشتراک سے روس کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہیں۔

تین ہفتے سے زیادہ عرصہ پہلے ہم نے روس کو ایک دستاویز دی تھی جس میں ایسے ٹھوس اور دوطرفہ اقدامات کا ذکر تھا جو ہم اپنے اپنے خدشات دور کرنے کے لیے مستقبل قریب میں اٹھا سکتے ہیں اور روس، امریکہ اور ہمارے یورپی شراکت داروں اور اتحادیوں کے اپنی سلامتی سے متعلق مجموعی مفادات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ آج صبح ہمیں روس کی جانب سے اس کا ایک جواب موصول ہوا ہے اور ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

آج صبح میں نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤرو کو ایک خط بھیجا ہے جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ہم آئندہ ہفتے یورپ میں ملاقات کریں جس میں حالیہ ہفتوں میں ہماری بات چیت کے تناظر میں ایسے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے جو ہم تصادم کے بغیر اس بحران کو حل کرنے کے لیے اٹھا سکتے ہیں۔ ہم نیٹو۔ روس کونسل اور او ایس سی ای کی مستقل کونسل کے اجلاس بلانے کی تجاویز بھی دے رہے ہیں۔

یہ اجلاس کشیدگی میں کمی لانے اور سلامتی سے متعلق باہمی خدشات کو سمجھنے کے لیے طرفین کے اہم رہنماؤں کی کانفرنس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں اپنے ممالک کے سفارتی سربراہوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ سفارت کاری کو کامیاب بنانے کے لیے ہر کوشش کریں اور کوئی سفارتی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔

اگر روس سفارت کاری سے کام لینے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اسے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا ہر موقع دے رہے ہیں۔

مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج یہاں میری باتوں کے جواب میں روس کی حکومت یہ کہے گی کہ امریکہ ہیجانی طرزعمل کا اظہار کر رہا ہے یا اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا ”کوئی ارادہ نہیں”۔

اس لیے میں آسان الفاظ میں کہوں گا کہ روس کی حکومت گھمائے پھرائے بغیر صاف طور سے یہ کہہ سکتی ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ واضح طور پر یہ بات کہیے۔ دنیا کو واضح طور پر بتائیے۔ اس کے بعد اپنے فوجی، اپنے ٹینک اور اپنے طیارے سرحدوں سے واپس بلا کر اور اپنے سفارت کاروں کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر اس کا عملی مظاہرہ پیش کیجیے۔

آنے والے دنوں میں دنیا اس وعدے کو یا ایسا وعدہ کرنے سے انکار کو یاد رکھے گی۔ میں اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-on-russias-threat-to-peace-and-security-at-the-un-security-council/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future