An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کا خطاب
8 اگست، 2022

فیوچر افریقہ
پریٹوریا، جنوبی افریقہ

وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا بہت شکریہ۔ سبھی کو سہ پہر بخیر۔ یہاں اس غیرمعمولی اہمیت کی حامل یونیورسٹی میں آنا میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔ آج اس شاندار کیمپس میں اپنی میزبانی کرنے پر میں پروفیسر مہاراج اور یونیورسٹی آف پریٹوریا کی پوری قیادت کا مشکور ہوں۔

میرا اس قدر فیاضانہ تعارف کرانے پر محترمہ وزیر اور میری دوست نالیڈی کا شکریہ۔ لیکن خاص طور پر میں اس شراکت کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں جو ہم تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ شراکت محض ہمارے ممالک کے مابین ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان ذاتی طور پر بھی ہے جس کی میں بے حد قدر کرتا ہوں اور اس کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔

میں آغاز میں ایک لمحے کے لیے کسی اور کا شکریہ بھی ادا کروں گا۔ یہ جنوبی افریقہ کے لیے نامزد ہمارے سفیر روبن بریگیٹی ہیں جو اس ہفتے صدر راما فوسا کو اپنی سفارتی دستاویزات پیش کریں گے۔ روبن، آپ کہاں ہیں؟ (تالیاں)

روبن اس سے پہلے ہماری حکومت میں دیگر اعلیٰ عہدوں کے علاوہ افریقن یونین کے لیے امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور بہت سی یونیورسٹیوں کے صدر اور ڈین بھی رہ چکے ہیں۔ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نگران کے طور پر ان سے بہتر کسی دوسرے شخص کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

میرے لیے جنوبی افریقہ میں دوبارہ آنا بہت خوشی کی بات ہے۔ دراصل مجھے اس سے پہلے کئی مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا ہے جس میں میرے صدر کلنٹن، صدر اوبامہ اور نائب صدر بائیڈن کے ہمراہ دورے بھی شامل ہیں۔ ان دوروں کے تاثرات آج بھی میرے ذہن میں نقش ہیں۔

صدر کلنٹن کو آپ کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے والا پہلا امریکی صدر بنتا ہوا دیکھنا ایسی ہی ایک یاد ہے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ ہماری کانگریس کے سیاہ فام اراکین کے کاکس کا وفد بھی موجود تھا جس میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو نسل پرستی کے خلاف مہم کے بہت بڑے حامی رہ چکے تھے۔ یہ لوگ افریقہ سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی اس بہت بڑی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں جس نے ہمارے ممالک کے باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنایا ہے۔

اسی طرح کینیا سے تعلق رکھنے والے والد اور امریکی والدہ کے بیٹے اور ہمارے پہلے سیاہ فام صدر کو روبن جزیرے پر چار مربع میٹر کی کوٹھڑی میں کھڑے دیکھنا بھی میری یادوں میں محفوظ ہو چکا ہے جو کبھی جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کا قید خانہ ہوا کرتی تھی۔

افریقہ میں منعقدہ فٹ بال کے عالمی کپ میں امریکہ کی مردوں کی ٹیم کے میچ کے دوران تماشائیوں کے وو وُو زیلا باجوں کی آوازیں بھی میری یادوں کا حصہ ہیں۔ ایسی بعض آوازیں ہمیشہ کے لیے ذہن میں رہ جاتی ہیں اور کھیلوں کے مقابلے میں ابتدائی مراحل میں ناکامی اب بھی تکلیف دیتی ہے۔ (قہہقے) لیکن امید قائم رہتی ہے۔

جیسا کہ وزیر نے کہا، آج مجھے ذیلی صحارا افریقہ اور امریکہ کے مابین شراکت کے لیے اپنی حکومت کی نئی حکمت عملی پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ یہ حکمت عملی اس خطے کے ساتھ ہمارے ملک کے ربط سے متعلق وسیع تصور پر استوار ہے جسے گزشتہ نومبر میں نائجیریا میں مجھے متعارف کرانے کا موقع ملا تھا۔

یہاں فیوچر افریقہ کیمپس میں اس حکمت عملی کی تفصیل بیان کرنا بہت موزوں ہے۔ اس ادارے کا مقصد مختلف شعبوں، پسہائے منظر اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ دور حاضر کے بعض انتہائی پریشان کن مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

ہمارے مستقبل کا دارومدار اُن نوجوان ماہرین علم اور پیشہ ور لوگوں پر ہے جو یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے سنا، 2050 تک کرہ ارض پر ہر چار میں سے ایک فرد افریقی ہو گا۔ یہ لوگ نہ صرف اس براعظم بلکہ پوری دنیا کا مقدر تشکیل دیں گے۔

یہاں یہ بات کرنا اس لیے بھی موزوں ہے کہ آزادی کے لیے جنوبی افریقہ کی جدوجہد اور اس کی قیادت کرنے والوں کی جرات اور قربانیاں بدستور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے تحریک کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی طرح آپ کے ملک میں بھی آزادی کا طویل سفر ابھی نامکمل ہے۔ تاہم آپ نے اس سفر میں اب تک جو غیرمعمولی پیش رفت کی ہے اس سے ہم تحریک پاتے ہیں۔

1956 میں 156 کارکنوں کو آزادی کے اعلامیے کی حمایت میں جمع ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ وہ دستاویز تھی جس میں یہ دعویٰ کرنے کی جرات کی گئی تھی کہ جنوبی افریقہ اس کے لوگوں کی ملکیت ہے۔ جب یہاں پریٹوریا میں ان لوگوں کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع ہوا تو ملزموں میں اس اعلامیے کا مسودہ تیار کرنے والوں میں سے ایک، پروفیسر زیڈ کے میتھیوز اور اے این سی کے ایک ابھرتے ہوئے کارکن، جو میتھیوز بھی شامل تھے اور دونوں باپ بیٹا تھے۔ یہ دونوں آج کے جنوبی افریقہ کی وزیر برائے بین الاقوامی تعلقات و تعاون ڈاکٹر نالیڈی پینڈور کے والد اور دادا تھے۔ (تالیاں)

یہاں موجود سامعین کے لیے ہو سکتا ہے یہ بات اہم ہو کہ موصوفہ وزیر کے نام میں ڈاکٹر کا اضافہ، یونیورسٹی آف پریٹوریا میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ہوا تھا۔

ہم یہ ترقی جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے آپ کے ہموطنوں کی کامیابیوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ بانیانا بانیا کی خواتین اور سپرنگ بوکس کے مردوں کی حالیہ کامیابیاں اس کی مثال ہیں۔ (تالیاں)۔ ماکیبا اور ماسیکیلا کی موسیقی کے دائمی اثرات، ایماپیانو اور اسی طرح ڈی جے کا نیا اثر بھی ایسی ہی کامیابی ہے (تالیاں) بلیک کافی جیسے ڈی جے، جنہوں نے حال ہی میں گریمی ایوارڈ جیتا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ میرے لیے یہاں جنوبی افریقہ میں اپنی حکمت عملی کی تفصیل بیان کرنا اس لیے بھی موزوں ہے کیونکہ ہمارے ممالک اور ہمارے لوگوں کے مابین گہرا رشتہ ہے۔ دونوں ممالک پھلتی پھولتی جمہوریتیں ہیں جن کا تنوع ہماری سب سے بڑی قوت ہے۔

ہماری حکمت عملی اس ادراک پر مبنی ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ ایک بڑی ارضی جغرافیائی قوت ہے جس نے ہمارے ماضی کو متشکل کیا، جو ہمارے حال کو ترتیب دے رہی ہے اور جو ہمارا مستقبل تشکیل دے گی۔

یہ حکمت عملی اس خطے کی پیچیدگی، تنوع اور اس کی قوت اور اثرورسوخ کا اظہار ہے اور یہ اس کام کے گرد گھومتی ہے جو ہم افریقہ کے ممالک اور لوگوں کے لیے نہیں بلکہ افریقہ کے ممالک اور لوگوں کے ساتھ مل کر کریں گے۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو امریکہ اور افریقہ کے ممالک وباء سے بحالی کا عمل مکمل کرنے، وسیع البنیاد معاشی مواقع تخلیق کرنے، موسمیاتی بحرانوں پر قابو پانے، توانائی تک رسائی کو وسعت دینے، جمہوریتوں کو نئے سرے سے مضبوط بنانے اور آزاد و کھلے عالمی نظام کو مضبوط کرنے تک اپنی کسی بھی مشترکہ ترجیح کو اُس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک ہم برابر حیثیت کے حامل شراکت داروں کے طور پر اکھٹے کام نہیں کریں گے۔

اس لیے آج میری گفتگو ان چار ترجیحات پر مرکوز رہے گی جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ان سے ہم نے مشترکہ طور پر نمٹنا ہے اور جو ذیلی صحارا افریقہ کے لیے امریکہ کی حکمت عملی کا مرکز ہیں۔

پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہم کھلے پن کو فروغ دیں گے جس سے ہماری مراد افراد، معاشروں اور ممالک کی اپنی مرضی کا راستہ منتخب کرنے اور اس دنیا کو متشکل کرنے کی صلاحیت ہے۔

1963 میں جب نوآزاد افریقی ممالک کے رہنما افریقن یونین کی پیشرو تنظیم آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی قائم کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو انہوں نے اپنے چارٹر کا آغاز کچھ یوں کیا تھا کہ ”ہم سمجھتے ہیں کہ اپنا مقدر خود بنانا تمام لوگوں کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔”

اس یقین نے افریقیوں کی کئی نسلوں کی جدوجہد سے جنم لیا تھا جن کے مقدر کا فیصلہ نوآبادیاتی طاقتیں کرتی چلی آئی تھیں۔ اس ناقابل تنسیخ حق کا دارومدار قوانین اور اصولوں پر مبنی ایک ایسے نظام پر ہے جو افریقیوں نے اقوام متحدہ اور افریقن یونین جیسے اداروں میں اپنی قیادت کے ذریعے دہائیوں کی محنت کے بعد بنایا ہے۔

اس کے باوجود بھی اکثر و بیشتر افریقہ کے ممالک خود ترقی کرنے کے بجائے محض دوسروں کی ترقی کا ذریعہ بنے رہے ہیں۔ بارہا انہیں کہا گیا کہ وہ طاقت کے عظیم مقابلوں میں کسی ایک فریق کا ساتھ دیں جو کہ یہاں کے لوگوں کی روزمرہ جدوجہد سے کہیں مختلف بات لگتی ہے۔

امریکہ افریقہ کے ممالک پر اپنی مرضی نہیں تھوپے گا۔ نہ ہی کسی اور کو ایسا کرنا چاہیے۔ افریقہ کے بارے میں فیصلے کرنا صرف افریقیوں کا حق ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ  عالمی قوانین کے دفاع کے لیے امریکہ اور دنیا افریقی ممالک کی جانب دیکھے گی جنہوں نے ان قوانین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں ہر ملک کا اپنی آزادی، خودمختاری اور زمینی سالمیت کے احترام کا حق بھی شامل ہے جو اس وقت یوکرین میں داؤ پر لگا ہوا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ تمام ممالک کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی ملک کے اس حق کے دفاع میں کھڑے ہوں کہ اس کی سرحدوں کو بزور طاقت تبدیل نہ کیا جائے۔ اگر ہم کسی جگہ اِس اصول کی پامالی کی اجازت دیں گے تو پھر ہم اسے ہر جگہ کمزور کر دیں گے۔

کھلے پن کا مطلب خیالات، معلومات اور سرمایہ کاری کے آزادانہ بہاؤ کے راستے تخلیق کرنا بھی ہے جو اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل ربط کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی لیے امریکہ ایک ایسا ڈھانچہ تعمیر اور اختیار کرنے کے لیے افریقہ کی حکومتوں، کاروباروں اور کاروباری لوگوں کے ساتھ شراکتیں قائم کر رہا ہے جو اس ربط کو ممکن بنائیں۔ اس میں ایک کھلا، قابل اعتبار، باہم متعامل اور محفوظ انٹرنیٹ، ڈیٹا کے مراکز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ شامل ہیں۔

مارچ میں یہی کچھ ہوا جب موزمبیق، سپیس ایکس سٹارلنک ٹیکنالوجی کو اجازت نامہ جاری کرنے والا افریقہ کا پہلا ملک بن گیا۔ اس طریقے میں مصنوعی سیاروں کو انٹرنیٹ مہیا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے ملک بھر کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی بڑھانے اور اس کی قیمت کم کرنے میں مدد ملے گی۔

موزمبیق جیسے ممالک میں ہر جگہ انٹرنیٹ سروس میسر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنیاں ڈیٹا مراکز پر انحصار کرتی ہیں جو اکثر سیکڑوں یا ہزاروں کلومیٹر دور ہوتے ہیں۔ ہم اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے افریقہ کے ممالک اور کاروباروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

امریکہ کی ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن یہاں جنوبی افریقہ سمیت خطے بھر میں ڈیٹا مراکز قائم کرنے اور انہیں چلانے کے لیے 300 ملین ڈالر مہیا کر رہی ہے۔

حال ہی میں ہم نے زیرِآب مواصلاتی تار بچھانے کے لیے 600 ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا ہے جو 17,000 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہو گی اور جنوب مشرقی ایشیا سے مشرق وسطیٰ، قرنِ افریقہ اور وہاں سے یورپ تک جائے گی۔ یہ تار مختلف براعظموں کے لوگوں کے لیے تیزرفتار، قابل اعتبار اور محفوظ روابط ممکن بنائے گی۔

جس انداز میں یہ ڈھانچہ تعمیر ہو گا اس کی صدائے باز گشت دہائیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ بہرحال ہم دیکھ چکے ہیں جب بنیادی ڈھانچے کے معاہدے بدعنوانی اور جبر پر مبنی ہوں، جب یہ ڈھانچہ ناقص انداز میں بنایا جائے یا ماحول کے لیے تباہ کن ہو، جب کارکن درآمد کیے جائیں یا ان کا استحصال کیا جائے یا ملک قرضوں کے بوجھ تلے کچلے جائیں تو اُس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔

اسی لیے دنیا بھر کے ممالک کے لیے اپنے فیصلے خود کرنا اور کسی دباؤ یا جبر کے بغیر مقامی لوگوں کی رائے کے مطابق انہیں شفاف انداز میں جانچنے کے قابل ہونا بہت زیادہ اہم ہے۔

افریقی ممالک نے جب سے آزادی حاصل کی ہے تب سے انہیں یہ اندازہ بھی ہو چکا ہے کہ ممالک اپنی راہ متعین کرنے کا حق اسی صورت استعمال کر سکتے ہیں جب وہ اپنے لوگوں کو بھی یہی حق دیتے ہیں۔

اسی لیے یہ بات مجھے اپنی دوسری ترجیح کی جانب لے جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں جمہوریت کے وعدے کی تکمیل کے لیے اپنے افریقی شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا ہے۔

افریقہ بھر میں لوگوں کی غالب اکثریت جمہوریت کو ہر طرح کے دیگر نظام ہائے حکومت پر ترجیح دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ لوگوں کی بھاری اکثریت آمریت کی جمہوریت کے متبادل کے طور پر بھی مخالف ہے۔ افریقہ سے تعلق رکھنے والی جائزہ تنظیم افروبیرومیٹر کے مطابق افریقہ میں 70 فیصد سے زیادہ لوگ فوجی حکمرانی کو مسترد کرتے ہیں اور 80 فیصد سے زیادہ لوگ کسی فرد کی شخصی حکومت کے مخالف ہیں۔

افریقہ کے شہری جمہوریت چاہتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا افریقہ کی حکومتیں ایسی جمہوریت قائم کر سکتی ہیں جو ان کے لوگوں کی زندگیوں میں واضح بہتری لا سکے۔ یہ مسئلہ صرف افریقہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے ہر حصے میں جمہوریتوں کو اسی سوال کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ایک جیسا طریقہ اپنا کر حل نہیں کیا جا سکے گا۔

اسی لیے ہم اس حوالے سے ایک مختلف انداز میں جو کچھ کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے حوالے سے یہ نہیں سمجھیں گے کہ افریقہ میں اس کے ساتھ مسائل ہیں اور امریکہ کے پاس ان مسائل کا حل ہے۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری جمہوریتوں کو یکساں انداز کے مسائل درپیش ہیں جنہیں ہم نے دوسری حکومتوں، سول سوسائٹی اور شہریوں کے ساتھ مساوی فریقین کی حیثیت سے مل کر حل کرنا ہے۔

اسی جذبے نے گزشتہ برس دسمبر میں صدر بائیڈن کی میزبانی میں منعقدہ سربراہی اجلاس برائے جمہوریت میں 100 ممالک کو اکٹھا کیا تھا۔ یہی جذبہ افریقہ کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کا محرک ہو گا جس کی امریکہ 2014 کے بعد پہلی مرتبہ اس برس دسمبر میں میزبانی کرے گا۔ یہ سربراہی اجلاس مشترکہ ترجیحات سے نمٹنے کے لیے اپنی رفتار تیز تر کرنے کا ایک موقع فراہم کرے گا۔

ہم اکیسویں صدی میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر چلیں گے۔ ان خطرات میں غلط اطلاعات، ڈیجیٹل نگرانی اور بدعنوانی کا بطور ہتھیار استعمال کیا جانا بھی شامل ہیں۔ ہم اچھی حکمرانی کے لیے گلوبل فریجیلٹی ایکٹ جیسے منفرد طریقہ کار سے کام لیں گے جو ایسی جگہوں پر مزید پُرامن، مزید مساوی اور مزید مضبوط معاشروں کے قیام کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا جہاں حالات تنازعات کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ ان میں موزمبیق بھی شامل ہے جس کے بارے میں ہم نے آج بات کی۔ اس کے علاوہ ایسے ممالک میں بینن، آئیوری کوسٹ، گھانا، گنی اور ٹوگو جیسے افریقہ کے مغربی ساحل کے ممالک بھی شامل ہیں۔

ایسی تمام جگہوں پر ہم اپنے مقامی شراکت داروں کے ساتھ اس بات سے آغاز کر رہے ہیں کہ کون سے شعبوں میں ہماری مدد ان کے لیے بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ہم تنازعات کی روک تھام کے حوالے سے دہائیوں میں سیکھے گئے اپنے اسباق سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جن میں مقامی رہنماؤں، حکومتوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین بہتر تعلقات کا قیام بھی شامل ہے جو کہ تناؤ کو تشدد میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے بے حد اہم ہے۔ اس کے علاوہ ہم  متواتر سنگین سے سنگین تر خشک سالی جیسے موسمیاتی تبدیلی کے عدم استحکام پیدا کرنے والے اثرات کے خلاف مضبوطی پیدا کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔

امریکہ کی کانگریس میں دو جماعتی حمایت کی بدولت اس اقدام پر دس سال تک سالانہ 200 ملین ڈالر خرچ کیے جانا ہیں۔ یہ ایک ایسا افق ہے جو ہمیں مسائل کے عارضی حل سے آگے دیکھنے میں مدد دے گا۔

ہم جمہوریت اور سلامتی کے درمیان تعلق پر توجہ مرکوز کریں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مضبوط جمہوریتیں زیادہ مستحکم ہوتی ہیں اور ان میں تنازعات کے جنم لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔ دوسری جانب کمزور جمہوریتوں میں خراب حکمرانی، عدم مساوات اور بدعنوانی انہیں انتہاپسند تحریکوں اور غیرملکی مداخلت کے سامنے مزید کمزور بنا دیتی ہے۔ ایسی مداخلتیں کرنے والوں میں کریملن کی پشت پناہی میں سرگرم، ویگنر گروپ بھی شامل ہے جو وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بے دھڑک قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے جیسا کہ ہم مالی اور وسطی جمہوریہ افریقہ میں دیکھ چکے ہیں۔

امریکہ کو ادراک ہے کہ افریقہ کے ممالک کو سلامتی کے حوالے سے حقیقی خدشات کا سامنا ہے اور یہاں بہت سی کمیونٹیوں کو بیک وقت دہشت گردی اور تشدد کی لعنتوں کا سامنا ہے۔ لیکن ان مسائل کا حل ویگنر نہیں اور نہ ہی کوئی اور کرائے کا گروہ یہ کام کر سکتا ہے۔ ان مسائل کا حل پہلے سے زیادہ موثر اور جوابدہ افریقی سکیورٹی فورسز کے قیام کے لیے کام کرنے میں ہے۔ یہ ایسی فورسز ہوں جو لوگوں کے حقوق کا احترام کریں۔ پسماندگی پر قابو پائیں جو عموماً لوگوں کو جرائم پیشہ یا انتہاپسند گروہوں کی جانب لے جاتی ہے۔ اسی طرح پائیدار سفارت کاری اور امن کے راستے کھولنا ان مسائل کا حل ہے۔ یہ وہ سفارت کاری ہے جو افریقہ کے رہنماؤں، علاقائی تنظیموں اور عام شہریوں کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

افریقہ کے ممالک ان کوششوں میں مدد کے لیے امریکہ پر انحصار کر سکتے ہیں۔ اِس مدد کا ہم نے چاڈ، ایتھوپیا، سوڈان اور مشرقی کانگو جیسی جگہوں پر مسائل کے حل میں اپنی شمولیت کا عملی مظاہرہ کیا ہے اور یہی اس ہفتے میرے دورے کا اہم ترین موضوع ہے۔

اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار کی پُرامن منتقلی میں ہے۔ افریقہ کے رہنما علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے لیے اس منتقلی کی اہمیت کو تیزی سے واضح کر رہے ہیں۔ اس میں ‘ای سی او ڈبلیو اے ایس’ بھی شامل ہے جو اس بارے میں بات چیت کر رہی ہے کہ آیا اس کے 15 ارکان کو تیسری مدت کے لیے صدارتی عہدہ رکھنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے یا نہیں۔ گھانا اور نائیجیریا کے صدور اس پابندی کے کھلے حامی ہیں اور دونوں اپنی دوسری صدارتی مدت پوری کر رہے ہیں۔

کل کینیا کے عوام اپنا نیا رہنما منتخب کریں گے اور اس ماہ کے آخر میں انگولا میں بھی یہی کچھ ہونا ہے۔ 2023 میں جمہوریہ کانگو، نایجیریا اور سینی گال میں انتخابات ہوں گے۔ ان میں ہر انتخاب افریقہ کے لوگوں اور ممالک کے لیے اس بات کی توثیق کا موقع ہو گا کہ رہنما اپنے لوگوں کو جواب دہ ہوتے ہیں اور اس طرح خطے اور دنیا بھر میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔

تیسری ترجیح یہ ہے کہ ہم کووڈ۔19 کے باعث ہونے والی تباہی سے بحالی کے لیے باہم مل کر کام کریں گے اور اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے وسیع البنیاد اور پائیدار معاشی مواقع کی بنیاد رکھیں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ اس وباء نے افریقہ کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔ اس میں لوگوں کی جانیں گئیں اور کاروبار تباہ ہوئے۔ وباء کے نتیجے میں 55 ملین سے زیادہ افریقی غربت کا شکار ہو گئے ہیں اور سالہا سال کی محنت سے حاصل کردہ ترقی ضائع ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین میں روس کی بلااشتعال جنگ نے معاشی تکالیف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

صدر پیوٹن کی جانب سے کھلا حملہ شروع ہونے سے پہلے ہی دنیا بھر میں 193 ملین لوگوں کو امداد اور غذائی مدد کی ضرورت تھی۔ عالمی بینک کے مطابق روس کا حملہ ان میں مزید 40 ملین لوگوں کا اضافہ کر سکتا ہے جن میں بیشتر کا تعلق افریقہ سے ہو گا۔

امریکہ اس بے مثال بحران میں افریقہ کے ممالک کی مدد کے لیے موجود ہے کیونکہ شراکت دار ایک دوسرے کے لیے یہی کچھ کرتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ افریقہ کے لوگوں کی مدد کرنا، ایک وسیع البنیاد بحالی اور مستقبل کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہماری مشترکہ خوشحالی کے لیے لازمی اہمیت رکھتا ہے۔

اسی لیے مجھے مختصراً یہ بتانے کی اجازت دیجیے کہ ہم یہ سب کچھ کیسے کر رہے ہیں۔ ہم قرض سے چھٹکارے جیسے ایک اہم مسئلے کے لیے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو جمع کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ اور جی 20 ممالک کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ہم نے قرضے سے چھٹکارے کے لیے مشترکہ فریم ورک تیار کرنے میں مدد دی جس میں پہلی مرتبہ چین اور دیگر قرض دہندگان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس اجتماعی عزم سے زیمبیا کو آئی ایم ایف پروگرام سے 1.4 ارب ڈالر کے حصول میں مدد ملی۔ یہ پروگرام اسے ایک مستحکم معاشی راہ پر ڈالنے اور زیمبیا کے لوگوں کو مزید مضبوط بنانے اور مساوی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔

ہم زندگیاں بچانے والی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اس سال کے آغاز سے امریکہ نے افریقہ کے لیے 6.6 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی انسانی و غذائی امداد بھیجی ہے۔

میں ںے اس سال مئی میں اقوام متحدہ میں عالمگیر غذائی تحفظ سے متعلق وزارتی اجلاس کا انعقاد کیا جس کا مقصد امداد کے حوالے سے فوری توجہ کی متقاضی کمی کو پورا کرنے اور متاثرہ ممالک کو ان کی ضرورت کے شعبہ جات کی نشاندہی میں مدد دینے کے لیے عطیہ دہندگان کو اکٹھا کرنا تھا۔ اس موقع پر افریقہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھیوں نے واضح کیا کہ ہنگامی امداد کے علاوہ انہیں واقعی جس چیز کی ضرورت ہے وہ زرعی شعبے میں مضبوطی، اختراع اور خودانحصاری ہے۔ ہم ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

‘فیڈ دی فیوچر’ نامی اقدام کے ذریعے پانچ سال میں 20 شراکت دار ممالک میں 11 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے جن میں 16 کا تعلق افریقہ سے ہے۔ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ہم ایک نیا اقدام بھی شروع کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ زراعت میں برق رفتاری سے سرمایہ کاری کی جائے گی اور جدت طرازی سے کام لیا جائے گا۔

تاہم ایسے اقدامات صرف زراعت تک ہی محدود نہیں۔ امریکہ بہت سے شعبوں میں اپنے افریقی شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے جس کا مقصد اختراع اور ترقی کے نئے دروازے کھولنا ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن کی قیادت افریقہ کے ممالک اور لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ افریقہ کانٹی نینٹل فری ٹریڈ ایریا ایسا ہی ایک اقدام ہے جو پوری طرح متحرک ہونے کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے بڑا معاشی بلاک بن جائے گا۔ یہ اقدام افریقن یونین کے 2063 کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہے۔

اب ذرا ایک لحظہ بنیادی ڈھانچے پر غور کیجیے۔ حال ہی میں منعقدہ جی7 ممالک کے اجلاس میں صدر بائیڈن نے عالمگیر بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کی شراکت قائم کرنے میں رہنمائی کی جس کے تحت آئندہ پانچ سالوں میں ٹھوس منصوبہ جات کے لیے دنیا بھر میں 600 ارب ڈالر اکٹھے کیے جائیں گے۔ امریکہ نے اس کوشش کے لیے 200 ارب ڈالر جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ہم پہلے ہی سے ایسے منصوبوں پر عمل کر رہے ہیں جن کا تعلق صحت، ڈیجیٹل ڈھانچے، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے، توانائی اور موسمیات سے ہے۔

نوجوانوں کے بارے میں غور کیجیے۔ گزشتہ روز میں نے منڈیلا واشنگٹن فیلوشپ کے سابقہ طلبہ سے ملاقات کی۔ آٹھ سال پہلے صدر اوبامہ کی جانب سے یہ پروگرام شروع کیے جانے کے بعد اب تک ذیلی صحارا افریقہ کے ہر ملک سے پانچ ہزار سے زیادہ ابھرتے ہوئے رہنما تعلیم اور قیادت کی تربیت حاصل کرنے کے لیے امریکہ آ چکے ہیں۔ اس اقدام سے انہیں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے اور انہوں نے ایسے تعلقات بنائے ہیں جو عمر بھر قائم رہیں گے۔ وسیع تر ‘وائی اے ایل آئی’ نیٹ ورک کے ارکان کی تعداد اب سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ نیٹ ورک افریقہ کے نوجوان رہنماؤں کو آلات، وسائل اور ورچوئل کمیونٹی فراہم کرتا ہے۔

غور کیجیے کہ ہم صحت کے شعبے میں کیا کچھ کر رہے ہیں۔ 2003 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ‘پیپفار’ پروگرام شروع کیا جس کا مقصد ایچ آئی وی کی روک تھام، اس کی نشاندہی، علاج اور نگہداشت کے لیے انقلاب آفریں سرمایہ کاری کرنا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے خیال میں اس اقدام کا شمار اُن عظیم ترین امریکی اقدامات میں ہوتا ہے جو امریکہ نے اٹھائے ہیں۔ تب سے اب تک ہم نے اس کاوش میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے وسائل فراہم کیے ہیں اور تقریباً یہ تمام وسائل ذیلی صحارا افریقہ میں امریکہ کے شراکت دار ممالک کو مہیا کیے گئے ہیں۔ باہم مل کر ہم نے تقریباً 21 ملین لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ ہم نے مزید لاکھوں لوگوں کو اس بیماری کا شکار ہونے سے بچایا ہے جن میں ایچ آئی وی انفیکشن سے پاک پیدا ہونے والے پچپن لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔

اب ایک سیکنڈ کے لیے اس پر غور کیجیے۔ یہ بہت بڑی تعدادیں ہیں اور جب ہم اِن تعدادوں کی بات کرتے ہیں تو بعض اوقات ہمیں معاملے کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ ان تعدادوں میں شامل ہر ایک کا تعلق کسی انفرادی زندگی، کسی انفرادی مقدر اور کسی انفرادی داستان سے ہے۔ اس غیرمعمولی کام کی بدولت یہ داستانیں بدستور وجود میں آتی چلی جا رہی ہیں اور وہ ہماری اس مشترکہ دنیا میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والی ہیں۔

آج ‘پیپفار’ 70 لاکھ طبی مراکز، تین ہزار لیبارٹریوں، تین لاکھ طبی کارکنوں اور ‘ڈریمز’ [نامی] بے شمار سفیروں کی مدد کرتا ہے جو نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں کو ایچ آئی وی سے محفوظ رہنے میں مدد دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے اِن سفیروں میں سے بعض آج ان سامعین میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔

یہ کوششیں لاکھوں افریقیوں کی زندگیوں پر دیرپا اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ہم نے وباء کے دوران دیکھا کہ افریقی ممالک کو محفوظ و موثر کووڈ ویکسینوں کی 170 ملین سے زیادہ خوراکیں ۔۔ جو کہ مفت ہیں اور ان کے علاوہ مزید بھی مہیا کی جائیں گیں ۔۔ فراہم کرنے کے علاوہ ہم نے کئی دہائیوں میں باہم مل کر صحت کے جو نظام بنائے تھے انہوں نے بے شمار جانیں بچائیں۔ ہم نے اکٹھے مل کر جو طبی مراکز قائم کیے تھے ان میں ایسے لوگوں کا علاج معالجہ ہوا جو کووڈ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ہم نے جن مقامی طبی کارکنوں کو تربیت دی وہ گھر گھر گئے اور لوگوں کو ویکسین لگائی۔ ہم نے باہم مل کر جو تحقیقاتی شراکتیں قائم کی تھیں انہوں نے کووڈ کی نئی اقسام کی نشاندہی اور علاج کے ضمن میں غیرمعمولی کام کیا۔

اسی دوران قومی اور افریقہ سی ڈی سی جیسے علاقائی طبی اداروں کے ساتھ ہماری شراکتوں نے نئی وباؤں کے پھیلاؤ کی نشاندہی اور ان کے خلاف اقدامات میں مدد دی ہے۔ گھانا میں ماربرگ نامی وبائی بیماری پر قابو پانے کے لیے ہمارا باہمی تعاون اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔

اِس وباء نے جہاں بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی ہے وہیں ہم باہم مل کر ان پر قابو پانے کے لیے بھی کوششیں کر رہے ہیں۔

میں نے فروری میں 40 ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جن میں وزیر پیںڈور اور افریقن یونین جیسے کثیرملکی اداروں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ہم نے ایک گلوبل ایکشن پلان پر بات چیت کی جو ویکسین کی مزید مساوی تقسیم کو یقینی بنانے جیسی اہم ترجیحات کو واضح کرتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ٹھوس اہداف مقرر کیے۔ اس کے بعد ہم نے مختلف شعبوں میں اپنی باہمی طور پر مددگار مضبوطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممالک میں ذمہ داریاں تقسیم کیں تاکہ یہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔ ہم اپنی پیش رفت جاری رکھنے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور جی 20 کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر ہم نے وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور اس کے خلاف اقدامات کے لیے عالمی بنک اور عالمی ادارہ صحت میں ایک نیا فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ یہ [فنڈ] ضرورت مند ممالک اور خطوں میں طبی تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے پائیدار مدد کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا اور بحران اور لاپروائی کے چکر کو ختم کرے گا۔ ہم ہمیشہ یہی کچھ کرتے ہیں یعنی ایک بڑا بحران آتا ہے، ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں، ہم متحرک ہوتے ہیں۔ [جب] بحران ختم ہو جاتا ہے تو ہم معمول کے کاموں کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ آئندہ ہم نہ تو اس معمول کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہوں گے۔

ہم نے افریقہ کے ممالک کی جانب سے ویکسین میں خود انحصاری کے حصول کی خواہش کے بارے میں بھی سنا ہے۔ ہم آپ کو یہ مقصد حاصل کرنے میں مدد دینے کے لیے اکٹھے مل کر کام کر رہے ہیں۔ میں نے نومبر میں سینی گال میں ویکسین بنانے والے ایک مرکز کا دورہ کیا جسے چلانے میں ہم بھی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہی مہینے امریکہ کے الرجی اور متعدی بیماریوں کے قومی ادارے نے جدید ایم آر این اے ویکسینوں اور علاج معالجے کی تیاری سے متعلق تکنیکی مہارت شیئر کرنے کے لیے “افریجن” [نامی کمپنی] کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا۔ اور یہ یہاں جنوبی افریقہ میں ہو رہا ہے۔

یہ تمام تر تعاون ہمارے باہمی مفاد میں ہے کیونکہ جیسا کہ وباء نے ثابت کیا ہے، جب تک کسی ایک فرد کو بھی اس بیماری سے خطرہ لاحق رہے گا اس وقت تک ہم سبھی خطرے میں ہوں گے۔

یہ بات مجھے اس آخری شعبے کی طرف لے جاتی ہے جہاں ہماری شراکت خاص طور پر اہم اور ضروری ہے یعنی اپنی زمین کو بچانے کے لیے ماحول دوست توانائی کی جانب ایسی منتقلی میں قائدانہ کردار ادا کرنا جو خود کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالتی ہو اور معاشی مواقع بڑھانے کے لیے توانائی مہیا کرتی ہو۔

اقوام متحدہ کے مطابق موسمیاتی بحران کے اثرات کو دیکھا جائے تو افریقہ دنیا میں غیرمحفوظ ترین خطہ ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب ہمیں ان اثرات کا تصور کرنا پڑتا تھا اور آج ہم ان کے درمیان جی رہے ہیں۔ اپریل میں آپ نے دیکھا کہ ڈربن کے گردونواح میں تباہ کن سیلاب آنے سے 400 جانیں چلی گئیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ایسے سیلاب لانے والے سمندری طوفانوں کا خطرہ دو گنا بڑھ گیا ہے۔ جوں جوں زمین گرم ہوتی جا رہی ہے توں توں ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ امریکہ میں ہو رہا ہے، ایسے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی سے پسماندہ ہیں۔

میں وزیر خارجہ سے پوری طرح متفق ہوں کہ تمام ممالک اس بحران کے برابر کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ امریکہ دنیا کی آبادی کا تقریباً چار فیصد ہے۔ ہم دنیا بھر میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 11 فیصد پیدا کرتے ہیں اور چین کے بعد اس معاملے میں ہمارا دوسرا نمبر ہے۔ دنیا کی 15 فیصد آبادی ذیلی صحارا افریقہ میں رہتی ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اس کا حصہ صرف تین فیصد ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے جیسی بڑی معیشتوں نے ہی وہ سب کچھ تیار کرنے کے کام کیے تھے جسے اب ہم دوسروں کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم نے ماحول پر اس کے اثرات کو سمجھ لیا ہے۔

ہمیں اس امر کا ادراک ہے کہ یہ عدم توازن امریکہ جیسے ممالک پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کرتا ہے جنہیں ناصرف اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی اور خود کو بدلتے موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دینا ہے۔ اسی لیے سی او پی 26 کے موقع پر صدر بائیڈن نے غیرمحفوظ ترین ممالک کے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھلنے میں مدد دینے کے لیے سالانہ تین ارب ڈالر مختص کرنے کی غرض سے کانگریس کے ساتھ کام کرنے کا وعدہ کیا۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے سامنے کمزور ترین 20 ممالک میں سے 17 کا تعلق ذیلی صحارا کے افریقی ممالک سے ہے اور اسی لیے اس امداد کا بڑا حصہ انہی ممالک کو ملے گا۔ ہم اس سال کے آخر میں مصر میں سی او پی 27 کے موقع پر اس امداد میں مزید اضافے اور اس ضمن میں مزید کوششوں کے منتظر ہیں۔

اب افریقہ بھر کے رہنماؤں نے واضح کر دیا ہے کہ جہاں وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہیں انہیں اپنے لوگوں کی فوری اور بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قابل اعتبار توانائی تک مزید رسائی درکار ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ تبدیلی ہر ملک یا ہر معاشرے میں ایک جیسی دکھائی نہیں دے گی کیونکہ اسے ہر ملک کی انفرادی صلاحیتوں اور انفرادی حالات کے مطابق تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی جانب سے توانائی تک وسیع رسائی کے لیے اپنی مخصوص ضروریات پوری کرنے کے بہترین طریقوں کا تعین کرنے اور موسمیاتی اہداف حاصل کرنے میں، امریکہ آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ ہم ایسے کارکنوں اور کمیونٹیوں کی مدد کے لیے بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہیں جو ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے دوران سب سے بڑی مختصر مدتی قیمت چکائیں گے۔ یہ سب کچھ ماحول دوست توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی کا ایک لازمی حصہ ہے۔

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ موسمیات کے بارے میں صرف خطرات یا بوجھ کے تناظر سے سوچنا یا اسے ایک تباہی کو روکنے اور مواقع پیدا کرنے کے درمیان ایک انتخاب کے طور پر دیکھنا غلطی ہے۔ ہمیں توانائی تک رسائی بڑھانے اور افریقیوں اور امریکیوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے کا ایک ایسا موقع مسیر آیا ہے جو کئی نسلوں کے بعد آتا ہے۔ جب صدر بائیڈن یہ کہتے ہیں کہ ”جب میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دراصل میں نوکریوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہوں” تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے۔

ہم پہلے ہی سے اس کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ گھانا میں ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر مغربی افریقہ کا پہلا دہرا  شمسی۔آبی پلانٹ لگا رہے ہیں۔ اس سے قابل بھروسہ توانائی میں اضافہ ہو گا، توانائی کے حصول پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوں گے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سالانہ 47 ہزار ٹن تک کی کمی آئے گی جو کہ سڑکوں سے دس ہزار کاریں کم کرنے کے مترادف ہے۔ کینیا میں جہاں 90 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے، امریکہ کی کمپنیوں نے گرڈ سے باہر توانائی کی مارکیٹ میں 570 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے 40 ہزار ماحول دوست نوکریاں پیدا ہوئی ہیں۔

ہم براعظم افریقہ کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے اور اسے بحال کرنے کے لیے بھی مل کر کام کر رہے ہیں جو کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج محدود کرنے اور براعظم کے منفرد اور غیرمعمولی حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے حکومتیں اور معاشرے محض وعدوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ انہیں جنگل کاٹنے کے بجائے انہیں محفوظ بنانے کی عملی ترغیب بھی ملے گی کیونکہ دنیا کا پہلا پھیپھڑا سمجھے جانے والے کانگو کے طاس جیسے جنگلات کو کھونے کے نتائج تباہ کن اور ناصرف مقامی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ناقابل تلافی ہوں گے۔

اگر آپ پیچھے جائیں اور ان ترجیحات پر غور کریں جو میں نے آج آپ کے سامنے رکھی ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں سب سے پہلے افریقہ کے لوگوں نے بات کی تھی۔ ان میں تمام ممالک کی صحت اور موسم کا باہم منسلک ہونا، تمام ممالک کو اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل  ہونا اور ممالک کے اندر اور ان کے مابین عدم مساوات سے ہماری مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کو لاحق خطرات جیسے امور شامل ہیں۔ دہائیوں تک افریقہ کے شہریوں، افریقہ کے ممالک اور افریقی ممالک کے بلاک نے ان میں سے ہر ایک ترجیح پر عملی پیش رفت کے لیے کوششیں کیں۔ آج امریکہ اور تمام ممالک کے لوگوں کے فائدے کے لیے یہ پوری دنیا کی ترجیحات بن چکی ہیں۔

اس وقت جنوبی افریقہ کی ناردرن کیپ میں دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ ‘میر کیٹ’ ہمیں خلا کے ایسے تفصیلی مناظر دکھا رہی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جنوری میں جاری ہونے والی تصاویر سے توانائی کے حرکی دھماکوں کا روشن سرخ اور نارنجی منظر سامنے آتا ہے جو 25 ہزار نوری سال دور ملکی وے کہکشاں میں سیکڑوں ملین ستاروں کے ذریعے بنا ہے۔

ایسی صرف ایک تصویر بنانے کے لیے 70 ٹیرا بائیٹ ڈٰیٹا درکار ہوتا ہے۔ اس ڈٰیٹا سے کام لینے میں تین سال کا عرصہ لگتا ہے اور جی ہاں یہ یہاں جنوبی افریقہ میں ہونے والی جدید ترین تحقیق کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں، جیسا کہ ایک علمی ماہرہ نے لکھا اور میں اسے دہراتا ہوں ”1994 سے پہلے لوگوں پر ہونے والی سرمایہ کاری بڑی حد تک نسل پرست حکومت کے مقاصد کو فروغ دینے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔” برسبیل تذکرہ یہ بات ڈاکٹر پینڈور نے کہی تھی جب اُس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کی وزیر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ (تالیاں)

جب ‘میر کیٹ’ سے لی گئی تصاویر شائع ہوئیں تو جنوبی افریقہ کی ریڈیائی خلائی رصد گاہ کے سب سے بڑے سائنس دان نے کہا کہ ”بہترین دوربینیں ہمارے افق کو غیرمتوقع انداز میں وسیع کر دیتی ہیں۔” ایک لمحے کے لیے ان تصاویر سے وسعت پانے والے ہر افق کے بارے میں سوچیے۔ دنیا بھر کے ان سائنس دانوں کے بارے میں غور کیجیے جو انسانی وجود کے عظیم ترین رازوں کو سامنے لانے کے لیے ‘میر کیٹ’ کے ذریعے حاصل ہونے والیں معلومات سے کام لے رہے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا ہماری زمین سے پرے بھی کوئی زندگی وجود رکھتی ہے یا نہیں۔ جنوبی افریقہ میں سکول کے بچوں کے بارے میں سوچیے جو باقاعدگی سے ‘میر کیٹ 64’ کے بہت بڑے انٹینا کو دیکھنے آتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا تصور کیجیے جن سے وہ متاثر ہوں گے۔

بہترین دوربین پر جو بات صادق آتی ہے وہی بات بہترین شراکتوں پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ ہمارے افق کو نہ صرف مسائل کو حل کرنے کے لیے بلکہ حیرت، کھوج اور تحریک کے لیے بھی غیرمتوقع انداز میں وسعت دیتی ہیں۔ افریقہ کے ممالک اور امریکہ نے بہت سے شعبوں میں باہم مل کر بہت کچھ کرنا ہے جن میں ایسے شعبے بھی ہوں گے جنہیں ہم نے شاید تاحال دریافت نہیں کیا۔ شراکت داروں کی حیثیت سے ہمیں یہ افق خود بنانا ہے۔

آپ کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/vital-partners-shared-priorities-the-biden-administrations-sub-saharan-africa-strategy/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future