An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
19 اپریل، 2021

وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کا خطاب
فلپ میریل انوائرنمنٹل سنٹر
اینا پولس، میری لینڈ

وزیر خارجہ بلنکن: سبھی کو سہ پہر بخیر۔ وِل، میرے لیے شاندار تعارفی کلمات پر آپ کا شکریہ۔ اس بلاشبہ دلکش ترتیب اور پس منظر پر ہم آپ کے مشکور ہیں ــ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اب تک میری نظر سے گزرنے والی یہ سب سے اچھی ترتیب اور بہترین پس منظر ہے۔ اس خلیج کے تحفظ کے پائیدار عزم پر چیسیپیک بے کا بہت شکریہ۔

خلیج چیسیپیک قریباً 12,000 سال پہلے گلیشیئروں کے پگھلنے سے وجود میں آئی تھی۔ آج یہ 200 میل تک پھیلی ہوئی ہے اور پودوں اور جانوروں کی 3,600 سے زیادہ اقسام کا مسکن ہے۔ ہزاروں دریاؤں اور ندیوں کا 50 ارب گیلن سے زیادہ پانی روزانہ اس خلیج میں آتا ہے۔ 18 ملین سے زیادہ لوگ اس جگہ رہتے ہیں اور بہت سے لوگوں کا روزگار اسی خلیج کے پانی سے وابستہ ہے۔ سمندری غذاؤں سے متعلق مقامی صنعت ہی قریباً 34,000 لوگوں کو نوکریاں مہیا کرتی ہے اور سالانہ قریباً 900 ملین ڈالر آمدنی پیدا کرتی ہے۔

تاہم، جیسا کہ وِل نے اشارہ کیا، انسانی سرگرمی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی حدت اس خلیج کے ماحول کو تبدیل کر رہی ہے۔ اس میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اور زمین، بشمول جس جگہ میں کھڑا ہوں اس خلیج کی بنیاد بننے والے گلیشیئروں کے پگھلنے سے پانی میں ڈوب رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ اسی رفتار سے جاری رہا تو صرف 80 سال میں یہ خلیج کئی میل تک خشکی کو ہڑپ کر لے گی جس سے 30 لاکھ لوگوں کے گھر اس کی زد میں آئیں گے اور سڑکیں، پُل اور کھیت تباہ ہو جائیں گے۔ خلیج کے بہت سے پودے اور جانور ختم ہو جائیں گے اور اس طرح یہاں ماہی گیری کی صنعت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور میرے پوتوں پوتیوں کے لیے یہ جگہ ناقابل شناخت ہو جائے گی۔ ہمیں یہ سب کچھ ہونے سے روکنا ہے کہ اس وقت تک یہ ہمارے بس میں ہے۔

اسی لیے صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے لیے اقدامات اٹھائے اور سیکرٹری کیری کو اس حوالے سے دنیا بھر میں ہماری کوششوں کی قیادت کے لیے موسمیاتی امور پر ہمارے ملک کا پہلا خصوصی صدارتی نمائندہ مقرر کیا۔ اسی لیے صدر بائیڈن نے اس ہفتے موسمیاتی امور پر کانفرنس کے لیے دنیا کے 40 رہنماؤں کو واشنگٹن میں مدعو کیا۔

اسی مسئلے کے باعث بائیڈن۔ہیرس انتظامیہ ہمیں درپیش موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے تاریخی طور پر سب سے بڑے اقدامات کرے گی۔ اس سلسلے میں ہماری پوری حکومت اور پوری قوم پہلے ہی اکٹھے ہو کر اقدامات کر رہی ہے۔ ہمارے مستقبل کا انحصار ہمارے آج کے فیصلوں پر ہے۔

وزیر خارجہ کی حیثیت سے میرا کام امریکی عوام کو درپیش سب سے بڑے مسائل سے نمٹتے ہوئے اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے والے سب سے بڑے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی سے امریکہ کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ کوئی اور مسئلہ موسمیاتی مسئلے سے زیادہ واضح انداز میں اس معاملے کے دونوں پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتا۔

اگر امریکہ موسمیاتی بحران پر قابو پانے میں دنیا کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو معیاری روزگار کے حصول کے بہت بڑے موقع سے فائدہ اٹھائیں گے جو کئی نسلوں کے بعد آتا ہے، ایک مزید متوازن، صحت مند اور پائیدار معاشرہ تعمیر کریں گے اور اس ہم اس شاندار زمین کو بچا لیں گے۔ اس وقت ہمیں یہی امتحان درپیش ہے۔

آج میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کیسے ہمیں اس امتحان پر پورا اترنے میں مدد دے گی۔

بہت پرانی بات نہیں جب ہم ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا اندازہ ہوا تھا۔ اب کسی کو اس کا مزید اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں۔

موسمی شدت سے متعلق واقعات مزید سنگین صورت اختیار کر رہے ہیں۔ اس فروری میں سردی کی لہر کے دوران نبراسکا سے ٹیکساس تک درجہ حرارت معمول کی حد سے 40 ڈگری کم رہا۔ صرف ٹیکساس میں ہی ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ 40 لاکھ سے زیادہ لوگ حرارت اور بجلی سے محروم ہوئے جن میں 125 کی جانیں گئیں۔ یہ بات کسی کےلیے بظاہر غیرمنطقی ہو سکتی ہے کہ عالمی حدت سردی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ لیکن قطب شمالی گرم ہونے سے ٹھنڈا موسم جنوب کی جانب بڑھتا ہے۔ اس سے شدید سردی کے ویسے ہی ادوار آتے ہیں جن کا مشاہدہ ٹیکساس میں کیا گیا۔

2020 میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کے موسم میں 10 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبہ جل گیا۔ یہ پوری ریاست میری لینڈ سے بھی بڑا علاقہ بنتا ہے۔ کیلی فورنیا کی تاریخ میں جنگلوں میں آگ لگنے کے چھ سب سے بڑے واقعات میں سے پانچ حالیہ موسم میں ہوئے اور کولوراڈو کی تاریخ میں جنگلوں کی سب سے بڑی آگ بھی اسی دوران لگی۔

2020 میں قدرتی آفات کے نتیجے میں امریکہ کو قریباً 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

2019 میں 48 ملحقہ ریاستوں میں ریکارڈ مقدار میں بارشیں ہوئی۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث مڈویسٹ اور گریٹ پلینز میں کسان 19 ملین ایکڑ رقبے پر فصلیں کاشت نہ کر سکے۔

2000 سے 2018 تک امریکہ کے جنوب مغربی خطے میں 16 ویں صدی کے بعد شدید ترین خشک سالی دیکھنے میں آئی۔

ہمارے ہاں موسمی شدت کے بہت سے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ اس سے مالیات، روزگار اور انسانی جانوں کی صورت میں ہونے والا نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔ جب تک ہم صورتحال کو واپس نہیں پھیر لیتے اس وقت تک یہ بدترین شکل اختیار کرتی جائے گی۔

ایسے میں ہمیں مزید تواتر سے مزید شدید طوفانوں، خشک سالی کے طویل ادوار، بڑے بڑے سیلاب، شدید تر گرمی اور انتہائی سردی، سطح سمندر میں تیزی سے اضافے، لوگوں کی بڑی تعداد کے بے گھر ہونے، مزید آلودگی اور دمے کی بیماری میں اضافے کا سامنا ہو گا۔

طبی اخراجات کئی گنا بڑھ جائیں گے اور کسانوں کی موسموں کا اندازہ لگانے اور اس کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ اس تمام صورتحال سے کم آمدنی والے سیاہ فام اور رنگ دار لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

آخری حصہ اہم ہے۔ ہمارے معاشرے میں وہ لوگ موسمیاتی بحران کی غیرمتناسب قیمت چکاتے ہیں جن میں اسے برداشت کرنے کی صلاحیت سب سے کم ہوتی ہے۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں ایک ایسا طاقتور ذریعہ ہمارے پاس ہے جس کے ذریعے ہم عدم مساوات اور نظام میں شامل نسل پرستی سے نمٹ سکتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا ہمارا انداز اس صورتحال پر قابو پانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔

انہی تمام وجوہات کی بنا پر ہمیں موسمیاتی تباہی کو روکنے کے لیے بہرصورت کامیاب ہونا ہے۔ تاہم دنیا پہلے ہی ان اہداف سے بہت پیچھے ہے جو ہم نے چھ سال پہلے پیرس معاہدے میں طے کیے تھے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ وہ اہداف آغاز کے لیے کافی نہیں تھے۔ آج سائنس واضح ہے: ہمیں تباہی سے بچنے کے لیے زمین کی حدت 1.5 درجے سیلسیئس تک رکھنا ہے۔

اس ہدف کو حاصل کرنے میں امریکہ کا اہم کردار ہو گا۔ ہم دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف چار فیصد ہیں مگر دنیا بھر میں کاربن کا 15 فیصد امریکہ سے خارج ہوتا ہے۔ اس طرح ہم گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہیں۔ اگر ہم اندرون ملک اس معاملے میں اپنا کام کریں تو دنیا بھر میں اس بحران سے نمٹنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تاہم یہی کافی نہیں ہو گا۔ اگر امریکہ کل ہی کاربن کے اخراج کی سطح نیٹ زیرو تک لے آئے تو تب بھی باقی دنیا سے خارج ہونے والے 85 فیصد اخراج پر قابو پانے تک ہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ اس ناکامی کا بہت بڑا بالواسطہ اثر ہماری قومی سلامتی پر پڑے گا۔ امریکہ کو متاثر کرنے والے سلامتی کے کسی بھی مسئلے کو دیکھ لیں۔ موسمیاتی تبدیلی ممکنہ طور پر اسے مزید بدترین بنا دیتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی دنیا میں جاری تنازعات میں شدت لاتی ہے اور نئے تنازعات کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ممالک میں یہ امکان اور بھی زیادہ ہوتا ہے جہاں حکومتیں کمزور اور وسائل محدود ہیں۔ ریڈ کراس کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے مقابل کمزور ترین قرار دیے جانے والے 20 میں سے 12 ممالک پہلے ہی مسلح جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ جوں جوں پانی جیسے ضروری وسائل سکڑ رہے ہیں اور حکومتیں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں، ہم مزید مصائب اور تنازعات کا مشاہدہ کریں گے۔

فروری میں روس کا ایک گیس بردار جہاز پہلی مرتبہ پہلی مرتبہ قطب شمالی کے شمالی سمندری راستے سے گزرا۔ اب تک اس راستے پر ہر سال صرف چند ہفتے ہی سفر کرنا ممکن تھا۔ مگر چونکہ قطب شمالی باقی دنیا کی نسبت دو گنا تیزی سے گرم ہو رہا ہے اس لیے اس راستے سے گزرنے کے لیے سازگار وقت کی طوالت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس نئی جگہوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اس تبدیلی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ قطب شمالی میں اپنے اڈوں کو جدید بنا رہا اور نئے ٹھکانے تعمیر کر رہا ہے جن میں ایک الاسکا سے صرف 300 میل دور واقع ہے۔ چین بھی قطب شمالی میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی مہاجرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ 2020 میں بحر اوقیانوس میں 13 سمندری طوفان آئے جو کسی ایک سال کے عرصہ میں وہاں ایسے طوفانوں کی سب سے بڑٰی تعداد ہے۔ وسطی امریکہ ان سے خاص طور پر بری طرح متاثر ہوا۔ طوفانوں کے باعث گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایل سلواڈور میں 68 لاکھ لوگ متاثر ہوئے جن کے گھر اور روزگار ختم ہو گئے جبکہ ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوگئیں جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بھوک کی صورت میں نکلا۔ ان طوفانوں سے کئی ماہ بعد بھی پورے کے پورے گاؤں کیچڑ میں دبے ہوئے ہیں اور لوگ اس میں دفن اپنے گھروں کو توڑ کر کاٹھ کباڑ کے طور پر فروخت کر رہے ہیں۔

جب قدرتی آفات آتی ہیں تو پہلے سے ہی غربت اور عدم تحفظ کا شکار لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر زندگی گزارنے کے لیے بہتر جگہ کی تلاش پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں وسطی امریکہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ امریکہ آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری جانب سے سرحد بند ہونے کے بارے میں تواتر سے آگاہ کرنے اور دوران سفر بہت بڑی تکالیف کا سامنا کرنے اور خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کے بڑے پیمانے پر خطرات کے باوجود یہ لوگ امریکہ آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ تمام مسائل ہماری فوج کی ذمہ داریوں میں بھاری اضافہ کر رہے ہیں۔ امریکی بحریہ کی اکیڈمی یہاں سے صرف پانچ میل فاصلے پر واقع ہے اور دنیا میں سب سے بڑا بحری اڈہ نارفوک یہاں سے قریباً 200 میل جنوب میں ہے۔ ان دونوں اڈوں اور ان کے مقاصد پر موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ یہ ایسی درجنوں عسکری تنصیبات میں سے صرف دو ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی نے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔ مزید یہ کہ ہماری فوج اکثروبیشتر قدرتی آفات کے موقع پر امدادی کام کرتی ہے اور ایسی آفات اب مزید تواتر سے اور مزید تباہ کن صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ جنوری میں وزیر دفاع آسٹن نے اعلان کیا کہ فوج فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی اور اس سے لاحق خطرات کی تشخیص کو اپنی منصوبہ بندی اور کارروائیوں میں شامل کرے گی۔ وزیر دفاع آسٹن کے الفاظ میں ”محکمہ دفاع امریکہ عوام کے تحفظ کے لیے جو کچھ کرتا ہے اس میں بہت سا کام موسمیاتی تبدیلی سے جڑا ہے”۔

یہ سب کچھ کہنے کے بعد، محض موسمیاتی خطرات کے زاویہ ہائے نظر سے ہی سوچنا غلطی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک کو دو کام کرنا ہیں، یعنی کاربن کے اخراج میں کمی لانا اور موسمیاتی تبدیلی کے ناگزیر اثرات سے بچاؤ کے لیے تیاری کرنا۔ امریکی جدت طرازی اور صنعت اِن دونوں کاموں میں سب سے آگے ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا جب صدر بائیڈن یہ کہتے ہیں کہ ‘جب میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں ملازمتوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہوں’ تو ان کا یہی مطلب ہوتا ہے۔

یہ بات سمجھنے کے لیے ذرا اس نکتے پر غور کریں کہ 2040 تک دنیا کو 4.6 ٹریلن ڈالر مالیت کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہو گی۔ اس معاملے میں امریکہ کا بہت کچھ اس بات پر داؤ پر لگا ہوا ہے کہ اسے کیسے تعمیر کیا جائے۔ ناصرف یہ کہ آیا یہ بنیادی ڈھانچے امریکی کارکنوں اور کاروباروں کے لیے مواقع پیدا کریں گے، بلکہ یہ کہ کیا یہ ماحول دوست اور پائیدار بھی ہوں گے اور انہیں ایسے شفاف طریقے سے تعمیرکیا جائے گا جس میں محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری ہو، اس میں مقامی آبادی کا عمل دخل ہو اور ان کی تعمیر کے عمل میں ترقی پذیر ممالک اور لوگ قرض کی دلدل میں نہ دھنسیں۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے۔

یا اس نکتے پر غور کریں کہ دنیا کے ممالک صاف توانائی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ایسے ممالک میں اب کثیر مقدار میں بجلی پیدا کرنے کا سستا ترین ذریعہ قابل تجدید ذرائع ہیں جہاں دنیا کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ اندازے کے مطابق 2025 تک دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ کا حجم 2.15 ٹریلین ڈالر ہو جائے گا جو کہ امریکہ میں قابل تجدید ذرائع کی موجودہ مارکیٹ کے حجم سے 35 گنا زیادہ ہے۔ امریکہ میں پہلے ہی شمسی اور ہوائی توانائی کے شعبوں سے متعلقہ کاریگروں کی ملازمتوں میں دوسرے شعبوں کی نسبت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اگر ہم قابل تجدید توانائی کے انقلاب کی قیادت نہیں کرتے تو پھر امریکہ کی چین کے ساتھ طویل مدتی تزویراتی مقابلے میں فتح کا تصور کرنا مشکل ہے۔ اس وقت ہم پیچھے ہیں۔ چین شمسی پینل، ونڈ ٹربائن، بیٹریاں اور بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے اور برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں قابل تجدید توانائی کے قریباً ایک تہائی ایجادی حقوق اسی کے پاس ہیں۔ اگر ہم اس تک نہیں پہنچتے تو امریکہ اس انداز میں دنیا کا موسمیاتی مستقبل تشکیل دینے کا موقع کھو دے گا جس سے ہمارے مفادات اور ہماری اقدار کی عکاسی ہوتی ہو اور ہم امریکی عوام کے لیے بے شمار نوکریاں پیدا کرنے کے موقع سے بھی محروم رہ جائیں گے۔

یہاں میں واضح کر دوں کہ ہماری موسمیاتی پالیسی کا پہلا مقصد تباہی کو روکنا ہے۔ ہم ہر ملک، کاروبار اور سماج کو کاربن کے اخراج میں کمی لانے اور اس معاملے میں اپنی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد دے رہے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِن اختراعات اور دنیا میں ان کو برآمد کرنے میں امریکہ کا کوئی مفاد نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دنیا کے ممالک جس طرح اپنے ہاں کاربن کے اخراج میں کمی کر رہے ہیں اور جس انداز میں خود کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھال رہے اُسے ہم اپنے انداز میں متشکل نہیں کرنا چاہتے۔ تو ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟

ہم اپنی مثال کی طاقت سے قیادت کر کے اس کی شروعات کر سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے پرعزم اہداف کے حصول کے لیے کام کرتے وقت درج ذیل بنیادی اصول ہمارے طریقہ کار کی رہنمائی کریں گے۔

ہم ماحول دوست توانائی کے شعبے میں تحقیق و ترقی کے لیے اپنے مالی وسائل میں نمایاں اضافہ کریں گے کیونکہ اسی طرح ہم ان مراحل کو تیزی سے عبور کر سکتے ہیں جن سے امریکہ کے لوگوں کو فائدہ پہنچے اور امریکہ میں نوکریاں پیدا ہوں۔

موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں مالی وسائل خرچ کرتے ہوئے ہمارا مقصد صرف ترقی کو بڑھانا ہی نہیں بلکہ مساوات کو فروغ دینا بھی ہو گا۔ ہم اس میں معاشرے کے ہر طبقے کو شامل کریں گے جس میں ہماری توجہ ملک بھر میں اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کو اچھے معاوضے والی نوکریاں دینے اور یونین میں شمولیت کا موقع فراہم کرنے پر مرکوز ہو گی۔

ہم نوجوانوں کو بااختیار بنائیں گے، محض اس لیے نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بیشتر نتائج انہی کو جھیلنا ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے اس بحران کا سامنا کرنے میں عجلت، ہنرمندی اور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔

ہم ریاستوں، شہروں، چھوٹے بڑے کاروباروں، سول سوسائٹی اور دیگر طرح کے اکٹھ کو شراکت داروں اور نمونوں کے طور پر اس میں شامل کریں گے۔ دوسرے جو لوگ طویل عرصہ سے اس میدان میں بنیادی نوعیت کا کام کرتے چلے آئے ہیں، انہیں ہم بہتر سطح پر لے جائیں گے اور انہیں بہترین طریقہ ہائے کار سے روشناس کرائیں گے۔

یہ اہم بات ہے۔ ہم اس امر سے آگاہ رہیں گے کہ ماحول دوست توانائی کی جانب ناگزیر منتقلی کے نتیجے میں سامنے آنے والے تمام مواقع سے ہر امریکی کارکن کو فوری طور پر فائدہ نہیں ہو گا۔ پرانی صنعتوں پر انحصار کرنے والے بعض روزگار اور لوگ بری طرح متاثر ہوں گے۔ ہم ان امریکیوں کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔ ہم اپنے ساتھی امریکیوں کو نئے اور پائیدار روزگار کی راہ پر ڈالیں گے اور اس تبدیلی سے گزرتے ہوئے ان کی معاونت کریں گے۔

صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی کوئلے اور بجلی کے پلانٹ سے وابستہ لوگوں اور ان کی معاشی حالت بہتر بنانے سے متعلق ایک بین الاداری ورکنگ گروپ بنایا تھا۔ یہ کوئلے، تیل اور گیس کی مقامی معیشتوں اور بجلی کے پلانٹس سے وابستہ لوگوں کی شناخت اور ان کی معاشی حالت میں بہتری کے لیے وفاقی وسائل کی فراہمی کے لیے حکومت کے تمام شعبوں سے مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد ان جگہوں پر کام کرنے والوں کے لیے فوائد اور تحفظات یقینی بنانا ہے۔

امریکیوں کے لیے نوکریاں تخلیق کرنے سے متعلق اپنے منصوبے میں صدر نے 16 ارب ڈالر تجویز کیے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کو تیل و گیس کے متروک کنویں اور کانیں بند کرنے کی یونین والی نوکریاں ملیں گی۔

اگر ہم موسمیاتی حوالے سے اپنے اہداف کی تکمیل کرتے ہوئے ان اصولوں سے وابستہ رہیں تو ہم دوسرے ممالک کے لیے ایک ایسا نمونہ پیش کریں گے جسے دیکھ کر وہ ہمارے ساتھ شریک ہونا اور ہمارے پیچھے چلنا چاہیں گے۔

انہی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے دفتر خارجہ موسمیاتی معاملے پر امریکی عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی سے کام لے گا۔

سب سے پہلے تو ہم موسمیاتی بحران کو اپنی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کا مرکز بنائیں گے جیسا کہ صدر بائیڈن نے عہدہ سنھبالنے کے بعد اپنے پہلے ہی ہفتے میں ہمیں بتایا۔ اس کا مطلب یہ دیکھنا ہے کہ کیسے ہر دوطرفہ اور کثیرطرفی تعلق اور پالیسی سے متعلق ہر فیصلہ دنیا کو ایک محفوظ تر اور مزید پائیدار راہ پر ڈالنے کے ہمارے مقصد پر اثرانداز ہو گا۔

اس کا مطلب یہ یقینی بنانا بھی ہے کہ ہمارے سفارت کاروں کے پاس موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے معاملے کو دنیا بھر میں ہمارے تعلقات میں ترجیحی جگہ دینے کی تربیت اور صلاحیتیں موجود ہوں۔

تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی ملک کی موسمیاتی مسئلے پر پیش رفت اس کے لیے ان معاملات میں برا طرزعمل اختیار کرنے کا بہانہ ہو گا جو ہماری قومی سلامتی کے لیے اہم ہیں۔ بائیڈن۔ہیرس انتظامیہ اس معاملے پر متحد ہے کہ موسمیاتی مسئلہ کوئی تجارتی کارڈ نہیں بلکہ یہ ہمارے مستقبل کا معاملہ ہے۔

مجھے خاص طور پر خوشی ہے کہ صدر بائیڈن نے میرے دوست جان کیری کو موسمیاتی امور پر خصوصی صدارتی نمائندے کے طور پر نامزد کیا۔ دوسرے ممالک کو موسمیاتی مسئلے پر اپنے عزائم میں اضافے کے لیے قائل کرنے کی غرض سے کوئی اور ان سے زیادہ تجربہ کار یا موثر نہیں ہو سکتا۔ ہمیں پوری دنیا کی توجہ 2050 تک کاربن کا اخراج نیٹ زیرو سطح پر لانے کے لیے اس دہائی کے دوران عملی قدم اٹھانے پر مرکوز کرانا ہے۔

میں اس کوشش میں پوری طرح جان کے ساتھ ہوں۔ امریکی حکومت کے دوسرے ادارے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ موسمیاتی مقصد کو دفتر خارجہ میں ہمارے ہر کام کا حصہ بنانے میں ان کی قیادت ناگزیر ہو گی۔

دوسری بات، جب دوسرے ممالک نے اس معاملے میں پیش رفت کی تو دفتر خارجہ ان کی مدد کے لیے وسائل، ادارہ جاتی سمجھ بوجھ، اپنی حکومت کے تمام شعبوں، نجی شعبے، این جی اوز اور تحقیقی یونیورسٹیوں کی معاونت مہیا کرے گا۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ہی ہم نے بنگلہ دیش میں ماحول دوست توانائی کے کاروباروں اور قابل تجدید توانائی کی مزید موثر منڈیوں کی معاونت اور انڈیا میں شمسی توانائی کے شعبے میں چھوٹے کاروباروں کی مدد کے لیے نئے مالی وسائل مختص کرنے کا اعلان کیا۔ یہ سرمایہ کاری ہمیں ہمارے موسمیاتی اہداف کی جانب لےجاتی ہے اور ان لوگوں کو ماحول دوست توانائی مہیا کرتی ہے جن کی پہلے اس تک کبھی رسائی نہیں ہوئی تھی۔

تیسری بات، ہم موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک کی مدد پر خاص توجہ دیں گے۔ ان میں بیشتر ممالک ایسے ہیں جن کے پاس اس تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل اور صلاحیت کی کمی ہے۔ ان میں جزائر پر مشتمل چھوٹے ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں جن میں بہت سے ایسے ہیں جو سطح سمندر بلند ہونے کے باعث واقعتاً پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ 2020 میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مختص وسائل کا صرف تین فیصد ان ممالک کو دیا گیا تھا۔ ہمیں اسے بہتر بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ الکاہل اور غرب الہند میں خطرات کی زد پر موجود جزائر میں ماہرین اور ٹیکنالوجی بھیج رہا ہے تاکہ وہاں قدرتی آفات کے موقع پر بروقت خبردار کرنے اور جوابی اقدامات کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے اور ہم اس معاملے میں وہاں بنیادی ڈھانچے اور زراعت جیسے شعبوں کو مضبوط بنانے پر مالی وسائل خرچ کر رہے ہیں۔

چوتھی بات، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں ہمارے سفارت کار عملی طور پر قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ وہ پہلے ہی یہ کام کر رہے ہیں اور امریکی حکومت اور نجی شعبے کی منفرد قوت سے کام لینے کے طریقوں کا کھوج لگاتے ہوئے دوسرے ممالک کی حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق پالیسیوں کی تیاری اور ان پر عملدرآمد میں مدد دے رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے ہی امریکہ کی کمپنی سن افریقہ نے انگولا میں شمسی توانائی کے دو بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جن میں بائیوپیو میں 144 میگاواٹ کی تنصیب بھی شامل ہے۔ تکمیل کے بعد یہ ذیلی صحارا افریقہ میں شمسی توانائی کا سب سے بڑا مرکز ہو گا۔ اس منصوبے سے 265,000 گھروں کو بجلی میسر آئے گی اور ہر سال 440,000 گیلن ڈیزل سے نجات ملے گی جو انگولا ہر سال درآمد کرتا ہے اور جس کے استعمال سے بھاری مقدار میں کاربن خارج ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں متوقع طور پر اس منصوبے میں شمسی توانائی کا تقریباً 150 ملین ڈالر مالیت کا سامان استعمال ہو گا جو امریکہ سے درآمد کیا جائے گا۔ یہ کاوش انگولا کے لوگوں، ماحول اور امریکہ میں نوکریوں اور کاروبار کے لیے فائدہ مند ہو گی۔ یہ سب کچھ ہمارے سفارت کاروں کی کوششوں کی بدولت ہی ممکن ہوا۔

پانچویں بات، ہم امریکہ میں ماحول دوست توانائی کے حوالے سے اختراعات کرنے والوں کو عالمی مںڈی میں بہتر درجے پر رکھنے کے لیے ہر ممکن ذرائع سے کام لیں گے۔ اس میں برآمدی-درآمدی بینک کی جانب سے قابل تجدید توانائی کی برآمدات بڑھانے کے لیے مالی مدد کی فراہمی، صدر کے امریکی نوکریوں کے منصوبے میں ماحول دوست توانائی پیدا اور ذخیرہ کرنے پر محصولات میں چھوٹ کی سہولت اور امریکی ساختہ اشیا اور خدمات کے لیے عالمی سطح پر مساوی مسابقتی ماحول ممکن بنانے کے لیے حکومت کی جاری کوششیں شامل ہیں۔

ایسی معاونت بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب قابل تجدید توانائی کی موجودہ منڈی کا حجم مستقبل کی ایسی مںڈی سے بہت چھوٹا ہے۔ شمسی پینل، ونڈ ٹربائن اور بیٹریوں کے علاوہ ماحول دوست توانائی کی 40 سے زیادہ اضافی اقسام ہیں جن میں ماحول دوست ہائیڈروجن، ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کرنے کی ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ جیوتھرمل توانائی جیسے مستقبل کے قابل تجدید ذرائع توانائی شامل ہیں۔ ابھی تک کسی نے ایسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوئی پر اجارے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کی معاونت کے ذریعے ایسی ہر ٹیکنالوجی امریکہ کی شروع کردہ اور امریکی ساختہ ہو سکتی ہے۔

بوسٹن میٹل کے نام سے میساچوسیٹس میں شروع ہونے والے ایک نئے کاروبار نے ثابت کیا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے۔ اس کمپنی نے ایک نیا طریقہ کار شروع کیا جس کے ذریعے کم لاگت سے موثر انداز میں کم آلودگی پھیلائے بغیر سٹیل اور دوسری دھاتیں بنائی جا سکتی ہیں۔ امریکہ میں سٹیل کا بیشتر شعبہ پہلے ہی ماحول دوست توانائی سے کام لے رہا ہے مگر اس کمپنی کے سی ای او نے جو برازیل سے ہجرت کر کے امریکہ میں آباد ہوئے تھے، برازیل جیسے ممالک میں اس سٹیل کی ایسی مارکیٹ کا اندازہ لگایا جس سے پہلے رجوع نہیں کیا گیا تھا۔ بوسٹن میٹل وہاں مقامی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک سے سٹیل بنانے کے پرانے اور آلودگی کا باعث بننے والے طریقوں کو اس ماحول دوست طریقے سے تبدیل کر رہی ہے۔ یہ کمپنی امریکہ میں اچھے معاوضے والی اور معیاری نوکریاں پیدا کر رہی ہے۔ سٹیل کی عالمی صنعت کا حجم 2.5 ٹریلین ڈالر ہے اور دنیا میں سٹیل پیدا کرنے والے بہت سے ممالک کو ایسا ہی بڑا قدم اٹھانا ہو گا۔ امریکہ اس کام میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

چھٹی بات، ہمارے سفارت کار ایسے ممالک کے طریقہ ہائے کار کو چیلنج کریں گے جن کے اقدامات یا عدم اقدامات سے دنیا پیچھے کی جانب جا رہی ہے۔ جب ممالک اپنی توانائی کا بیشتر حصہ کوئلے سے حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے یا کوئلے کے نئے کارخانے لگائیں گے یا بڑے پیمانے پر درخت کاٹنے کی پالیسی اپنائیں گے تو امریکہ اور ہمارے شراکت دار انہیں بتائیں گے کہ یہ اقدامات کس قدر خطرناک ہیں۔

آخر میں، ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اور کثیرملکی اداروں کے ذریعے ان مسائل کو سامنےلانے کے ہر موقع سے کام لیں گے۔ نیٹو کی ہی مثال دیکھ لیجیے، ان ممالک میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی فوج کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق ناگزیر خطرات کے مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے اور اتحاد کی افواج کا رکازی ایندھن پر اںحصار محدود کرنا ہے جو ناصرف کمزور ہے بلکہ آلودگی کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ موسمیاتی مسئلے کو سلامتی کے خطرات میں کئی گنا اضافے کا باعث قرار دینے والے نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹنبرگ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری طرح ہی سنجیدہ ہیں۔

ہم آئندہ مہینے جی7 کے اجلاس میں ایک بھرپور پیغام پہنچائیں گے جس کے ارکان کرہ ارض کے ماحول میں خارج ہونے والی ایک چوتھائی کاربن کے ذمہ دار ہیں۔ میں آئندہ مہینے آرکٹک کونسل کے وزارتی اجلاس میں بھی امریکہ کی نمائدنگی کروں گا جہاں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اپنے اہداف کی تکمیل کے حوالے سے امریکہ کے عزم کی توثیق نو اور قطب شمالی کے دوسرے ممالک کی اسی راہ پر چلنے کے لیے حوصلہ افزائی کروں گا۔

اندرون و بیرون ملک یہ تمام کوششیں نومبر میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس کے موقع پر ہمیں دنیا بھر کی اقوام میں طاقتور پوزیشن پر رہتے ہوئے اس مسئلے پر عالمگیر قیادت کا موقع فراہم کریں گی۔

میں نے روس یا چین کے جارحانہ اقدامات سے امریکہ کی سلامتی اور مفادات کو لاحق خطرات، کوویڈ۔19 کے پھیلاؤ اور جمہوریتوں کو درپیش مسائل پر اپنا بہت سا وقت صرف کیا ہے۔ مگر امریکہ کے عوام کو لاحق اتنا ہی سنگین خطرہ اور طویل مدتی طور سے ایک وجودی خطرہ بھی پایا جاتا ہے جو یہاں چیسیپیک بے میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

اسی جگہ سے ہم امریکہ کی اختراع اور قائدانہ کردار کی مثالیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ایسے اقدامات سے موسمیاتی تباہی کو روکنا اور امریکہ کے محنت کشوں اور لوگوں کو فائدہ پہنچنا ممکن ہے۔

میری لینڈ نے 2030 تک ریاستی سطح پر کاربن کے اخراج میں کم از کم 40 فیصد اور 2040 تک 100 فیصد کمی لانے کا عہد کیا ہے۔ میری لینڈ کسانوں کو ماحولیاتی نقصان سے حفاظت فراہم کرنے والی فصلیں کاشت کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے جن کی بدولت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول میں پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس ریاست کے 40 فیصد سے زیادہ کسان اب یہی فصلیں اُگا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خلیج پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس دوران ان کے اقدامات کی بدولت اکثروبیشتر امریکیوں کے لیے نوکریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

یاس میریل سنٹر بلڈنگ پر ہی غور کیجیے جہاں کھڑا میں بات کر رہا ہوں۔ 20 سال پہلے جب یہ عمارت بنی تو یہ پوری دنیا میں پہلی ‘لیڈ پلاٹینم’ عمارت تھی۔ یہ توانائی کی بچت کے حوالے سے ایک امریکی معیار تھا جو اب دنیا بھر میں گولڈ سٹیںڈرڈ بن چکا ہے۔ اس عمارت میں استعمال ہونے والی قریباً ایک تہائی توانائی شمسی ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اپنے حجم کی دیگر عمارتوں کے مقابلے میں 80 فیصد کم پانی استعمال کرتی ہے۔ اس عمارت میں استعمال ہونے والا قریباً نصف تعمیراتی مواد 300 میل سے کم فاصلے سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی بناوٹ ہی ہر سال توانائی کی مد میں 50 ہزار ڈالر کی بچت میں مدد دیتی ہے۔

چیسیپیک بے فاؤنڈیشن کی 2014 میں تعمیر کردہ ایک نئی عمارت اس سے بھی زیادہ ماحول دوست ہے جو تعمیرات اور صنعت کاری میں امریکہ کی ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ جتنی توانائی استعمال کرتی ہے اس سے زیادہ پیدا کرتی ہے اور اس میں استعمال ہونے والا تمام پانی وہ ہے جو بارش کے دوران اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس کے شمسی پینل اوریگون سے آئے ہیں اور ہوائی ڈ ٹربائن اوکلاہوما سے منگوائی گئی ہیں۔ یہ شمسی پینل اور ہوائی ٹربائن امریکہ میں ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ امریکی ملکیت اور امریکی ساختہ ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ ان عمارتوں کا جائزہ لینے آتے ہیں۔

ایسی ہی تبدیلیاں اس خلیج کے ماحول اور یہاں رہنے والے لوگوں اور روزگار کو محفوظ رکھنے میں مدد دیں گی۔

یہ موسمیاتی مسئلے پر امریکہ کی قیادت کا خاکہ ہے۔ یہ سرکاری و نجی شعبے، مقامی لوگوں اور اداروں کی اختراعات کو یکجا کرنے کا منصوبہ ہے۔ ہمارا مقصد محض موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے اہداف کا حصول ہی نہیں بلکہ ہمیں یہ کام اس انداز میں کرنا ہے جو کُھلا ہو، جس میں اچھی سرمایہ کاری ہو اور جس سے امریکی کارکنوں کے لیے مواقع پیدا ہوں۔

ہمیں شدید نوعیت کا موسمیاتی بحران درپیش ہے۔ اس سے نہ نمنٹے کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ تاہم اگر ہم اپنی مثال کے ذریعے دنیا کی رہنمائی کریں، اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی سے محض دوسرے ممالک کو ضروری تبدیلیوں کے وعدے پر قائل کرنے کا کام لینے کے بجائے امریکہ کو ان تبدیلیوں پر عملدرآمد کے لیے ان کا شراکت دار بننے کے لیے استعمال کریں تو ہم پچھلی کئی نسلوں کے اس سب سے بڑے مسئلے کو آںے والی نسلوں کے لیے بہت بڑے موقعے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

میری بات سننے کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-remarks-to-the-chesapeake-bay-foundation-tackling-the-crisis-and-seizing-the-opportunity-americas-global-climate-leadership/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future