An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
واشنگٹن، ڈی سی
29 مارچ 2021

وزیر خارجہ: (گفتگو جاری ہے) اور ڈاکٹر بالور، انتہائی کربناک حالات میں اپنے ہموطن شامیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے کی جانے والی خدمت، اور دنیا کے سامنے شامی عوام کی حالت زار لانے کے لیے آپ کی زوردار، مصمم کوششوں، دونوں کاموں پر – اور ہاں اُن کے حقوق کا احترام کیے جانے پر زور دینے پر آپ کا شکریہ۔

اس مہینے شامی بغاوت کو دس برس پورے ہو رہے ہیں۔ ایک عشرے پر پھیلے اِس تصادم کے بعد جس میں شامی عوام نے بےتحاشا تکلیفیں جھیلیں، صورت حال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہے۔ جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ اندازاً 13.4 ملین – ہر تین شامی شہریوں میں سے دو – کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ساٹھ فیصد شامیوں کو بھوک کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔

ہر ماہ جب سلامتی کونسل [کے رکن] شام میں انسانی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو بہت بڑی تعدادوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس دوران اس حقیقت سے نظریں ہٹ جانا بہت آسان ہوتا ہے کہ یہ تعدادیں انفرادی انسانوں کی زندگیوں پر مشتمل ہیں۔

اُس شامی ماں کی طرح جس نے حال ہی میں ایک نامہ نگار کو بتایا کہ وہ اپنے تین بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے اتنی پریشان تھی کہ اُسے اس راہ کا انتخاب کرنا پڑا، اور میں اُس کے الفاظ بیان کرتا ہوں: “مجھے اپنے جسم پر موجود اپنے بال بیچنے پڑے۔” اُس کے الفاظ کا اختتام۔ اُس نے اپنے بال 55 ڈالر میں بیچے۔ اس کے بعد دو دن تک وہ شرم کے مارے روتی رہی۔ اِن پیسوں سے اُس نے اپنے تین بچوں کے لیے [چولہے] کا تیل اور کھانا اور کپڑے خریدے۔ یہ ایک ماں ہے – یہ ایک شامی خاندان ہے۔ جب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ شام میں 12.4 ملین افراد کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے تو آپ کو اس تصادم میں انسانی مصیبتوں کی وسعتوں کا احساس ہونے لگتا ہے۔

آپ نے ڈاکٹر بالور کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ [وہ] امید کے ساتھ سلامتی کونسل کا انتظار کر رہے ہیں، امید کے ساتھ سلامتی کونسل کا انتظار کر رہے ہیں۔ دیکھیے ہم سب اِن کرسیوں پر بیٹھتے ہیں، ہم یہ الفاظ بولتے ہیں، ہم اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے کوئی حقیقی معنی خیز اقدام اٹھانے کی مشترکہ انسانیت کو نہ پاسکیں؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ میرے اپنے دو چھوٹے بچے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کونسل کے بہت سے اراکین کے بچے یا پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہوں گے۔ جب مجھے اُن شامی بچوں کا خیال آتا ہے جن کے بارے میں آج ہونے والی باتیں میں نے سنیں تو میں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میرا آپ سے یہ کہنا ہے کہ آپ بھی یہی کام کریں: اپنے [بچوں] کے بارے میں سوچیں، اپنے دلوں میں جھانکیں، پھر اپنے ساتھیوں سے بات کریں۔ اپنے اختلافات کے باوجود، ہمیں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور اگر ہم اسے پورا نہیں کرتے تو ہمارے لیے یہ شرم کی بات ہوگی۔

دریں اثنا، شامی عوام کی مدد کے لیے اپنی جانیں داؤ پر لگانے والے بہادر لوگوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 21 مارچ کو اسد حکومت نے مغربی الیپو کے الاتاریب سرجیکل ہسپتال پر گولہ باری کی۔ اطلاعات ہیں کہ اس میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ جیسا کہ ہم نے سنا ہے اس میں 10 اور 12 سال کے دو بچے بھی ہلاک ہوئے جو ایک دوسرے کے کزن تھے۔ اس حملے میں 15 افراد زخمی ہوئے جن میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے جس کی آنکھ میں بم کا ایک ٹکڑا پیوست ہو گیا۔ اب وہ دوبارہ کبھی بھی نہیں دیکھ پائے گا۔

اس ہسپتال پر اس سے پہلے 2014ء میں بھی بمباری کی گئی تھی۔ اور جیسا کہ ہم نے ڈاکٹر لوکاک سے سنا کہ اس امید کے ساتھ اسے نئے سرے سے زیرزمین تعمیر کیا گیا تھا کیونکہ اگر اس کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا تو ایسا کرنے سے لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے گا۔

یہ غار بھی انہیں محفوظ نہ رکھ سکی۔ جیسا کہ ہم نے دوبارہ سنا، اقوام متحدہ کے تنازعات سے آزاد مقامات کے نظام کے تحت ہسپتال کے محلِ وقوع کے بارے میں [شامی حکومت] کو آگاہ کیا گیا تھا یعنی حکومت کو قطعی طور پر علم تھا کہ یہ [ہسپتال] کہاں واقع ہے۔ الاتاریب ہسپتال میں جو کہ اب بند ہوچکا ہے، ہر ماہ اوسطاً 3,650 افراد آتے تھے۔ اُسی دن جس دن اسد حکومت نے ہسپتال پر حملہ کیا، روسی فضائی حملوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کردہ سرحد عبور کرنے کے مقام کو نشانہ بنایا جس میں ایک عام شہری ہلاک ہوا اور انسانی بنیادوں پر مہیا کیا جانے والا امدادی سامان تباہ ہو گیا۔ ان حملوں کی وجہ سے خطرات سے دوچار شامی عوام تک امداد پہنچانے کا موثر ترین راستہ بھی خطرات کی زد میں آ گیا۔

اگرچہ آج کے اجلاس کی توجہ کا مرکز شام میں انسانی بحران ہے، تاہم یہ جاننا اہم ہے کہ اِن طویل مصائب کا واحد حل، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں بیان کیا گیا ہے، کسی سیاسی تصفیے اور تصادم کے مستقل حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ اسی مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی پیڈرسن کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیکن اس حل کے لیے ہمارے کام کرنے کے باوجود، ہم شام کے لوگوں کی اُن ضرورتوں کے بارے میں صرف نظر نہیں کر سکتے جن کے بارے میں آج ہم نے بہت صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ یہ واضح ہے کہ کھانے کے لیے معقول خوراک اور ضروری دواؤں تک رسائی سمیت، اِن ضرورتوں کو اسد حکومت تو نہیں پوری کرے گی۔ لہذا ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل اُن لاکھوں شامی شہریوں کی مدد کے لیے کیا کرسکتی ہے جن کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

مختصر الفاظ میں، ہمیں علم ہے کہ جواب بہت آسان ہے: ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شامیوں کو وہ انسانی امداد ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ اس وقت شمال مغرب اور شمال مشرق میں لوگوں تک زیادہ تر امداد پہنچانے کا سب سے تیز اور موثر ترین راستہ سرحد کے عبوری مقامات ہیں۔ اس کے باوجود سلامتی کونسل نے حال ہی میں سرحد کے دو عبوری مقامات کی اجازت کو ختم ہونے دیا [یعنی] شمال مغرب میں باب السلام، جسے چار ملین شامیوں کو امداد پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور شمال مغرب میں الیروبیا جہاں سے 1.3 ملین مزید افراد کے لیے امداد لائی گئی۔

ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ چاہے وہ جہاں بھی رہتے ہوں ہم یہ یقینی بنائیں کہ شامی شہریوں کو زندگی بچانے والی امداد تک رسائی حاصل ہو۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسل کی سرحد عبور کرنے کے اِن دو مقامات کی دوبارہ اجازت دینے میں ناکامی کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔

اور ان عبوری مقامات کے آج بھی بند رہنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اِن مقامات سے امداد پہنچانے کا ایک ایسا راستہ میسر آتا تھا جو زیادہ سستا، محفوظ، اور موثر تھا۔ اِن راستوں کی غیرموجودگی میں امداد پہنچانا زیادہ مہنگا، زیادہ خطرناک، اور کم موثر ہوگیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جب کوئی واحد عبوری مقام ناقابل رسا ہو جاتا ہے – جیسا کہ گزشتہ ہفتے اُس وقت ہوا جب روسی افواج نے اس پر بمباری کی – تو ہو سکتا ہے کہ امداد بالکل ہی رک جائے۔

سرحد عبور کرنے کے مقامات کی تعداد میں کمی کا یہ مطلب بھی ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے زیادہ امدادی قافلے کنٹرول کی کئی ایک لائنوں کو عبور کرنے، رسائی کے لیے مختلف متحارب مسلح گروہوں سے مذاکرات کرنے اور طویل فاصلے طے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اِن سب عوامل سے بہت سی ایسی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں جن کی بنا پر امداد شامی عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی سست رفتار ہو جاتی ہے یا رک جاتی ہے اور خود امدادی کارکنوں کے نشانہ بنائے جانے کے زیادہ خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔

ممکن ہے کہ بعض لوگ دلیل دیں کہ انسانی بنیادوں پر سرحد کے عبوری مقامات کی دوبارہ اجازت دینے سے اور سرحد پار امداد فراہم کرنے سے کسی لحاظ سے شامی حکومت کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوگی۔ مگر خودمختاری کا یہ مقصد کبھی بھی نہیں تھا کہ کوئی بھی حکومت لوگوں کو فاقوں مارنے، انہیں زندگی بچانے والی دواؤں سے محروم رکھنے، ہسپتالوں پر بمباری کرنے، یا شہریوں کے کسی اور حق کو پامال کرنے کویقینی بنائے۔

ہو سکتا ہے کہ اس کونسل کے دوسرے [ارکان] یہ دلیل دیں کہ، جیسا کہ وہ ماضی میں کرچکے ہیں، ہمیں شامی عوام تک امداد پہنچانے کے لیے شامی حکومت اور دیگر فریقین سے بات چیت کرکے امداد فراہم کرنے پر زیادہ انحصار کرنا چاہیے [اور وہ] دعوے کرتے ہیں کہ یہ ایک زیادہ موثر طریقہ ہے۔ مگر ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومت اور فریقین سے مذاکرات کے ذریعے امداد پر زیادہ انحصار کرنے کا نتیجہ شامی عوام کو زیادہ نہیں بلکہ کم امداد ملنے کی صورت میں نکلا ہے۔

سرحد عبور کرنے کے مقامات کی اجازت دینے میں ناکامی واضح طور پر شامی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین یا انسانی امداد کے ماہرین جس چیز کی سفارش کر چکے ہیں وہ یہ چیز نہیں ہے۔ اور انسانیت کے انسانی اصولوں، عدم مداخلت، غیرجانبداری، اور آزادی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ سیکرٹری جنرل گوتیریز کہہ چکے ہیں اور میں اُن کے الفاظ بیان کرتا ہوں، “فریقین سے مل کر اور سرحدوں کے پار سے امداد کی تیزتر فراہمی لازمی ہے” اُن کے الفاظ کا اختتام، تاکہ [امداد] تمام ضورت مند شامیوں تک پہنچ سکے۔

یہ شامی لوگوں کے مفاد میں بھی نہیں ہے کہ شام کے پناہ گزینوں پر شام واپس جانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اِس میں [شام] کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جو حکومت کے زیر کنٹرول ہیں جہاں بہت سے [پناہ گزینوں] کو خوف ہے کہ اُن کے فرار کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے اسد حکومت کی سکیورٹی فورسز انہیں من مانے طور پر حراست میں لے لیں گیں، اُن پر تشدد کریں گیں، حتٰی کہ اُنہیں جان سے مار ڈالیں گیں۔ ہمیں اقوام متحدہ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ، مکمل باخبری اور اُن کی سلامتی اور وقار کی یقین دہانی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ واپسی نہیں ہونا چاہیے۔

موجودہ طریقہ کار کا کوئی جواز نہیں، یہ غیر موثر ہے اور اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا براہ راست نتیجہ شامی عوام کے بڑھتے ہوئے مصائب کی صورت میں نکل رہا ہے۔

مجھے ایک مختلف طریقہ کار تجویز کرنے کی اجازت دیں: آئیے سرحد کے اُن مقامات کو عبور کرنے کی دوبارہ اجازت دیں جو بند ہو چکے ہیں اور سرحد کے ایک ایسے مقام کی دوبارہ اجازت دیں جو کھلا رہے۔ آئیے ہم اپنے لیے شامی عوام تک خوراک اور دوائیں پہنچانے کے زیادہ سے زیادہ راستے بنائیں نہ کہ کم از کم راستے بنائیں۔ آئیے ہم جو بھی راستہ اختیار کرنے کا عزم کریں وہ اُن لوگوں تک پہنچنے کا محفوظ ترین اور تیزترین راستہ ہو جو بھوک کا شکار ہو رہے ہیں اور جنہیں دواؤں کی شدید ضرورت ہے۔ اور آئیے شامی پناہ گزینوں پر اس وقت تک واپسی کے لیے دباؤ نہ ڈالیں جب تک کہ وہ یہ محسوس نہ کریں کہ وہ ایسا بحفاظت اور باوقار طریقے کے ساتھ کرسکتے ہیں۔

آئیں ہم وہ سادہ سا سوال پوچھتے ہیں جو سرحد عبور کرنے کے مقامات کی دوبارہ اجازت دینے اور شام کے لوگوں کو امداد پہنچانے سے متعلق تمام سوالوں کے بارے میں ہمارے فیصلوں کی رہنمائی کرتا یے یعنی شامی بچوں، عورتوں، اور مردوں کے مصائب کم کرنے میں سب سے زیادہ کارگر کیا چیز ہوگی؟

اگر ہم یہ سوال پوچھیں تو اس کونسل کے سامنے جو کام ہے وہ آسان ہو جائے گا: سرحد عبور کرنے کے مقامات کی دوبارہ اجازت دیں، امداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مدد کرنا بند کریں، انسان دوست امداد فراہم کرنے والوں کو اور انسان دوست امداد تک رسائی کی بلا روک ٹوک اجازت دیں تاکہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اتنی جلدی شامی ضرورت مند جہاں بھی ہوں اُن تک پہنچ سکے۔

آج شامیوں کے لیے بلاروک ٹوک رسائی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے – نہ صرف دن بدن بڑھتے ہوئے انسانی بحران کی وجہ سے بلکہ کووڈ-19 کی وجہ سے درپیش خطرات کی وجہ سے بھی۔

اس کونسل کا ہر ایک رکن اپنے ملک میں اس عالمی وبا کے تباہ کن اثرات دیکھ چکا ہے [یعنی] یہ وبا جو جانیں لیتی ہے، اور یہ روزگاروں اور معیشتوں کو جس طرح برباد کرتی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے شام آج مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنا اُس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب لوگ روٹی کی لائن میں کھڑا ہونے کے لیے جگہ حاصل کرنے کی خاطر دھکم پیل کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے شامیوں کو ہاتھ دھونے کے لیے صاف پانی اور صابن کی قابل اعتماد رسد دستیاب نہیں ہوتی۔ شام میں دس ہزار شہریوں کے لیے تقریباً ایک شامی ڈاکٹر ہے۔ جو ہسپتال بچ گئے ہیں اُن پر جیسا کہ ہم نے الاتاریب ہسپتال کے سلسلے میں دیکھا، حکومت اور اس کے حواریوں کی طرف سے اب بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔

کووڈ-19 کے باعث شام میں پہلے ہی سے ڈاکٹر، نرسیں، صحت کے کارکن خطرناک شرحوں سے بیمار ہو رہے ہیں اور مر رہ ہیں اور دن بدن یہ [صورت حال] ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اور شام میں شاید اُن ہزاروں افراد سے بڑھکر کوئی بھی زیادہ خطرات کا شکار نہیں ہے جنہیں بلاجواز غیرانسانی جیلوں میں نظربند کیا گیا ہے – اِن میں سے بہت سے وہ ہیں جنہوں نے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی – اور 6.7 ملین وہ شامی جو ملک میں جاری اس تصادم کی وجہ سے ملک کے اندر بے گھر ہوگئے ہیں۔

سلامتی کونسل بہت سے ایسے چیلنجوں کا سامنا کرتی ہے جو پیچیدہ ہیں۔ یہ اُن میں سے نہیں ہے۔ شام میں لوگوں کی زندگیوں کا انحصار فوری مدد پر ہے۔ ہمیں امداد اُن تک پہنچانے کے لیے راستے بنانے کے لیے ہر وہ کام کرنا ہوگا جو ہمارے بس میں ہے [یعنی] راستے کھولنے نہ کہ انہیں بند کرنا۔

اس کونسل کے اراکین کو ایک کام کرنا ہے۔ شامی عوام کے لیے انسانی امداد کی خاطر سرحد عبور کرنے کے تین مقامات کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینا ہے۔ اُن حملوں میں حصہ لینا – یا اُن کے لیے بہانے تراشنا – بند کریں جو اِن راستوں کو بند کرتے ہیں اور اُن انسانی امدادی کارکنوں اور شامی شہریوں کو نشانہ بنانا بند کریں جو مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُس انسان دوست امداد کو ایک سیاسی تنازع بنانا بند کریں جس پر لاکھوں شامیوں کی زندگیاں منحصر ہیں اور وہ سلامتی کونسل سے آس لگائے انتظار کر رہے ہیں۔ سلامتی کونسل سے آس لگائے انتظار کر رہے ہیں۔ سلامتی کونسل سے آس انتظار کر رہے ہیں۔

آئیے اس انتظار کو ختم کریں۔ آئیے شام میں لوگوں کی مدد کریں۔ آپ کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لِنک : https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-the-un-security-council-briefing-and-consultations-on-the-humanitarian-situation-in-syria/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future