امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
20 اکتوبر 2021
یونیورسیداد سان فرانسسکو دو کوئیٹو
کوئیٹو، ایکواڈور
وزیر خارجہ بلنکن: بیونس دیاس آ تودوس [ہسپانوی زبان] شکریہ، مارسیلا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اور میں آپ کے اُس زبردست کام کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آپ زیادہ سے زیادہ شفافیت، زیادہ سے زیادہ احتساب لانے کی کوششوں کے سلسلے میں کر رہی ہیں۔
اور یہاں پر موجود آپ سب کا شکریہ، آپ کا شکریہ۔ آج یہاں آنے پر آپ کا شکریہ۔ میں اپنے انتہائی مہربان میزبان، یونیورسیداد سان فرانسسکو دو کوئیٹو کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کتنی شاندار اور زبردست جگہ ہے۔ آپ کا شکریہ (تالیاں۔)
مجھے یہ بتانے سے آغاز کرنے دیں کہ میں بحیثیت وزیر خارجہ جنوبی امریکہ کے دورے پر یہاں، ایکواڈور کیوں آیا ہوں۔ امریکہ کی اندرون ملک اور بیرون ملک تمام پالیسیوں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے جمہوریت کو تمام ممالک کے لیے کامیاب بنانا۔
اس دورے کا مقصد بھی یہی ہے۔ کیونکہ ہماری جمہوریتوں کی ہم جو وعدے کرتے ہیں اور ہم جو عملی کام کرتے ہیں اُن کے درمیان پائے جانے والے فرق کو دور کرنے کی صلاحیتوں کا زیادہ تر انحصار اس پر ہے کہ ہم مل کر اس کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ اور “ہم” میں نہ صرف حکومتیں شامل ہیں بلکہ وہ عوام بھی شامل ہیں جن کی ہم خدمت کرتے ہیں۔
جب جمہوریتوں کو درپیش مشکلات کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں کی بات ہوتی ہے تو ایکواڈور سے؛ کولمبیا سے، جہاں میں اس کے بعد جاؤں گا اور بالعموم خطے سے سیکھنے کی بعض اہم چیزیں موجود ہیں۔
مجھے ایک مثال سے آغاز کرنے دیں۔ کسی ایسے ملک پر غور کریں جہاں کوئی لیڈر ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے اور بعد میں وہ آہستہ آہستہ مگر یقین کے ساتھ آزاد پریس پر حملے کر کے، عدالتوں کی آزادی کو نقصان پہنچا کر، اور سیاسی مخالفین کو دھمکا کر جمہوریت کے ستونوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اب تصور کریں کہ یہی لیڈرعہدوں کی میعادیں ختم کرنے، عدالتوں کو تالے لگانے اور قانون سازوں کو نکالنے جیسی جمہوریت مخالف اصلاحات منظور کرانے کے لیے جمہوری سہولتوں کو استعمال کرتا ہے۔ یہ ہمارے نصف کرے کی ایک سے زیادہ جمہوریتوں کی کہانی ہے۔ اور یہ اُن طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے جمہوریتوں کا بستر گول کیا جا سکتا ہے۔
ایک دہائی قبل ایکواڈور ایسا ہی تھا۔
اور اس سب کے باوجود وہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ کیوں؟ عدالتوں اور انتخابی کونسل نے مخالفت کی۔ اسی طرح انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں، صحافیوں، اور پروفیسروں، اس یونیورسٹی کے عدالتوں میں اصلات کو چیلنج کرنے والے طالبعلموں سمیت سول سوسائٹی کے دیگر حامیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ حتٰی کہ جب ان پر سرکاری طور پر کیچڑ اچھالا گیا، انہیں دھمکیاں دیں گئیں، ان پر حملے کیے گئے پھر بھی انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔
اس سے بھی بڑھکر ایکواڈور کے دسیوں ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے جن میں ٹریڈ یونینوں کے ممبر، صحافی، ایمیزون سے کوئیٹو تک 700 کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے والے بعض آبائی لوگ بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود کے اُن کو مارا پیٹا گیا، گرفتار کیا گیا، پھر بھی لوگوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
گو کہ اس وقت کے صدر کو کئی برسوں کے دوران بہت سے جمہوریت مخالف بل منظور کرنے میں کامیابی ملی مگر کئی [بِلوں] کو روک دیا گیا، یا ناکافی حمایت کی صورت میں انہیں واپس لے لیا گیا۔ اور جمہوریت کا سفر جاری رہا۔
ایک اور مثال: 2020 کے موسم بہار میں جب وبا کی وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا، کووڈ-19 نے ایکواڈور کے طول و عرض میں تباہی مچا دی۔ گوایا کیل میں شرح اموات میں نو گنا اضافہ ہو گیا۔ ہسپتال مرتے ہوئے لوگوں کو واپس کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میتیں کئی دنوں تک فٹ پاتھوں پر پڑی رہیں۔ کفن تیار کرنے والی ایک مقامی کمپنی نے گتوں کے تابوت بنانے شروع کر دیئے کیونکہ مقامی مردہ خانوں میں لکڑی کے تابوتوں کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔
صحت عامہ کی ہنگامی حالت اُن لوگوں نے مزید ابتر بنا دی جنہوں نے ایکواڈور میں ماسکوں، وینٹی لیٹروں، سینی ٹائزروں جیسی انتہائی ضروری طبی اشیاء کی قلت سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ اس سال اپریل میں اس وائرس میں دوبارہ اضافہ ہوگیا اور ہمارے نصف کرے میں ایکواڈور میں کووڈ-19 کی شرح سب سے زیادہ ہوگئی۔
کسی ہنگامی صورت حال میں شہریوں کی زندگی اور موت کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہنا ایک اور طریقہ ہے جس سے جمہوریتوں کا بستر گول کیا سکتا ہے۔
مگر ایک بار پھر حالات بدلے۔
ایکواڈور کے آزاد اور متحرک پریس نے صحت عامہ کی ناکامی اور اُس بدعنوانی پر نمایاں روشنی ڈالی جو اس ناکامی کا باعث بنی۔
ملک کے اٹارنی جنرل نے ایک سخت تحقیقات کی قیادت کی جس میں صحت کے عہدیداروں اور مجرموں کے درمیان 13 گنا زیادہ قیمتوں پر میتوں کے بیگ فروخت کرنے کی ملی بھگت کے شواہد سامنے آئے اور متعدد سابق عہدیداروں پر فرد جرم عائد کی گئی۔
اس سال کے اوائل میں ایکواڈور کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی نے انتخابات میں ووٹ ڈالے جس کی وجہ سے پارٹیوں کے درمیان پرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔ نئی حکومت نے اپنے پہلے 100 دنوں میں ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو ویکسین لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں، کمیونٹی لیڈروں، کاروباری اداروں اور بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر انہوں نے مقررہ وقت سے پہلے یہ ہدف پورا کر لیا۔
یونیورسٹی کے عملے اور رضاکار طلباء کی مدد سے تقریبا 40 ہزار افراد کو یونیورسٹی کے ایرینا ہال میں ویکسین لگائی گئی جو اس جگہ سے زیادہ دور نہیں جہاں ہم آج جمع ہیں۔ اور ہر روز ایکواڈور کے مزید شہریوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ آج تک 11.1 ملین سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
اس نے ایکواڈور کے لوگوں پر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جمہوریتیں ان سب بڑے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں – اور سب کے فائدے کے لیے وہ یہ کام شفاف طریقے سے کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں بہت اہم ہے جب ہمارے نصف کرے اور پوری دنیا میں جمہوریت پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں امریکی براعظموں میں جمہوریتوں کی پیشرفت کو دیکھنے والے بیرونی لوگوں کے لیے اعتماد کے فقدان کو سمجھنا ذرا مشکل ہو۔ اس بات کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں جب ہماری اقوام نے بین الامریکی جمہوری منشور کے ذریعے پورے خطے میں جمہوریت کے فروغ اور اس کے دفاع کا عزم کیا تھا۔ ان ممالک نے یہ عزم کسی دباؤ یا کسی نظریاتی ہم آہنگی کی ضرورت کے تحت نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف خطے کے متعدد ممالک نے غیر جمہوری نظاموں کے تحت سماجی اور معاشی ترقی کرنے کی کوششیں کیں … اور ناکام رہے۔
گو کہ کچھ استثناء ہیں مگر مجموعی طور پر خطے کی جمہوری حکومتیں اپنے ہاں بے مثال خوشحالی، سلامتی اور استحکام کا ایک دور لے کر آئی ہیں۔ لاطینی امریکہ کا متوسط طبقہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے کیونکہ غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔ معیاری زندگی اور تعلیم تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ نوزائیدہ بچوں اور زچگی کی شرح اموات میں کمی آئی ہے۔
اس کے باوجود امریکی براعظموں میں بہت سے لوگوں کے حوالے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ حکومتیں لوگوں کو درپیش تمام بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی کام کر رہی ہیں یا اُن کی توقعات اور امنگوں پر پورا اتر رہی ہیں۔
معیشتوں کی ترقی ہوئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی تباہی کی قیمت پر فروغ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ موسمیاتی بحران پیدا ہوا ہے جس کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔
اس سے بڑھکر یہ ہوا ہے کہ بڑھتی ہوئی مجموعی قومی آمدنیاں، بڑھتی ہوئی سٹاک مارکیٹیں اپنے ساتھ بچوں کی سستی نگہداشت اور معقول آمدنی جیسی وہ مدد اور تحفظات لے کر نہیں آئیں جن کی محنت کش خاندانوں کو ایک روز افزوں مسابقتی عالمگیر معیشت میں پھلنے پھولنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے وہ حفاظتی نظام تیار نہیں کیا گیا جو لوگوں کی اس وقت مدد کرے جب کوئی فیکٹری بند ہو جاتی ہے یا وہ اپنے بیمار بچے یا والدین کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے کام پر نہیں جا سکتے۔
یہ تمام مسائل کووڈ-19 کی وجہ سے مزید خراب ہو گئے ہیں جس نے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں اس خطے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ حالیہ دہائیوں کے فوائد کتنے ناپائیدار ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 8 فیصد حصہ بنتے ہیں مگر اس خطے میں دنیا کی کووڈ-19 سے متعلقہ اموات کی شرح 32 فیصد ہے۔ اگر اس میں آپ امریکہ کو بھی شامل کرلیں تو ہم دنیا میں کووڈ-19 سے ہونے والی اموات کا نصف سے زیادہ – جی ہاں نصف سے بھی زیادہ حصہ بنتے ہیں۔
معاشی اثرات بھی تباہ کن رہے ہیں۔ پچھلے سال لاطینی امریکہ کی معیشت تقریبا 8 فیصد سکڑی – ایک بار پھر دنیا کے کسی بھی خطے کے مقابلے میں یہ سب سے بڑا تھا- غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد میں 22 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں اس خطے کے سکول زیادہ لمبے عرصے تک بند رہے۔ ہر تین میں سے دو بچے اب بھی سکول نہیں جا سکتے۔
دنیا کے ہر حصے کی طرح [یہاں پر بھی] کم سہولتوں اور پسماندہ کمیونٹیاں ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ یہاں ایکواڈور میں متاثرہ لوگوں میں آبائی کمیونٹیاں، افریقی النسل لوگ، عورتیں اور لڑکیاں، ایل جی بی ٹی کیو آئی افراد سمیت کم آمدنی والے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن میں سے بیشتر غیر روائتی شعبے میں کام کرتے ہیں۔
ان تمام دیرینہ مسائل کو سنگین سے سنگین تر کرنے میں کووڈ-19 نے شہریوں میں اس بات پر اسراعی رفتار سے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں کہ جب انتہائی ضروری ہو تو جمہوریت ہی کام آتی ہے۔ گزشتہ برس 70 فیصد لاطینی امریکی جمہوریت کی کارکردگی کے طریقے سے مطمئن نہیں تھے۔ یہ شرح 2013 کے مقابلے میں تقریبا 50 فیصد زیادہ ہے۔ اور یہ صرف ہمارے شراکت دار ہی نہیں ہیں جنہیں اس [صورت حال] کا سامنا ہے۔ میرے ملک امریکہ میں بھی تقریبا 60 فیصد لوگ جمہوریت کی کارکردگی کے طریقے سے مطمئن نہیں ہیں۔
لہذا ہمیں جمہوری لمحہِ حساب کا سامنا ہے۔ اور ہم سب کے سامنے جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس [جمہوریت] کی بقا ہمارے مشترکہ مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے سوال یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو، اُن مسائل کو حل کرنے کے قابل بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں جو لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
آج میں آپ کے تعاون سے اُن تین امور کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جنہیں امریکہ جمہوریت کو لوگوں کے لیے مفید بنانے کے لیے، خاص طور پر ہمارے نصف کرے کے لیے، اہم سمجھتا ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جہاں ہم [نئے] خیالات لے کر آئے ہیں۔ مگر اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم عاجزانہ طور پر سننے بھی آئے ہیں۔
عاجزی جزوی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لیے پڑوسیوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اور یہ کام جزوی طور پر ہوتا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے نصف کرے میں امریکہ نے جس کی تبلیغ کی ہے اس پر ہمیشہ عمل نہیں کیا، اور یہ کہ ہماری تاریخ میں ایسے دور آئے ہیں جب ہم نے امریکی براعظموں میں ایسی حکومتوں کی حمایت کی جو اپنے لوگوں کے انتخاب یا مرضی کی عکاسی نہیں کرتیں تھیں اور ان کے انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتیں تھیں۔
مارسیلا نے جس پہلے چیلنج کی بات کی وہ پہلا چیلنج بدعنوانی ہے جو امریکی براعظموں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کے لیے روزمرہ کی ایک حقیقت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی جی ڈی پی میں بدعنوانی کا حصہ پانچ فیصد تک بنتا ہے۔ بدعنوانی ترقی کا گلہ گھونٹ دیتی ہے، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، عدم مساوات کو گہرا کرتی ہے۔ لیکن شاید اس کا سب سے بڑا نقصان شہریوں کا حکومت پر اعتماد کا ختم ہونا ہے۔
در حقیقت اگر آپ حالیہ برسوں میں یوکرین میں میدان، مصر میں تحریرسکوائر؛ رومانیہ سے تیونس تک، سوڈان سے گوئٹے مالا تک، دنیا بھر میں وسیع البنیاد شہری بغاوتوں کی وسیع اکثریت پر نظر ڈالیں تو آپ کو ان کی تہہ میں بدعنوانی کے خلاف بھرپور نفرت ملے گی۔
یہ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے، یہ ریاست کو اُن وسائل سے محروم کر دیتی ہے جنہیں سکولوں، ہسپتالوں یا ایسی چیزوں پر خرچ یا وقف کیا جا سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بناتی ہیں۔
لہذا امریکہ اس بات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے کہ ہم بدعنوانی کا مقابلہ زیادہ مؤثر طریقے سے کس طرح کر سکتے ہیں۔ اس کے انسداد کو پہلی بار صدر بائیڈن نے امریکہ کی قومی سلامتی کے بنیادی مفاد کے طور پر نامزد کیا ہے۔ ہم غیر قانونی فنانسنگ کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں، چوری شدہ اثاثوں کو ضبط اور منجمد کر رہے ہیں اور چوری کرنے والوں کے گمنامی کے پیچھے چھپنے کو مشکل سے مشکل تر بنا رہے ہیں۔
ہم بدعنوان افراد اور گروپوں کو قابل احتساب ٹھرانے کے لیے اپنے پاس موجود وسائل کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ یہ وسائل بدعنوانی کے خلاف اہدافی پابندیوں سے لے کر مجرموں سے متعلق اور فوجداری قوانین کے نفاذ کے اقدامات [اور] بدعنوان سرکاری عہدیداروں اور ان کے خاندانوں کو ویزوں کے انکار تک پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ وسائل ہماری سرحدوں سے آگے تک بدعنوانی کی اس قیمت میں اضافہ کرنے میں مدد کریں گے جو بدعنوان لوگوں کو چکانا پڑے گی۔
کیونکہ بدعنوانی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور چونکہ بدعنوان لوگ ہمارے باہم جڑے عالمی نظام میں کمزور ترین کڑی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں،اس لیے کوئی بھی ملک تنہا، حتیٰ کہ دوسری حکومتوں کی مدد سے بھی مؤثر طریقے سے بدعنوانی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں ہر جگہ اور ہر شعبے میں انسداد بدعنوانی کے لیے مضبوط شراکت داروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی لیے ہم شراکت دار حکومتوں، تحقیقاتی صحافیوں، بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والوں اور کاروباری اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے نئے وسائل اور پروگرام تیار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ای یو، جی 7، او ای سی ڈی، اور دیگر ممالک کے گروپوں کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید وسیع کر رہے ہیں۔ [یہ سب] اس لعنت سے نمٹنے کے لیے ہمارے عزم میں شریک ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو امریکی براعظموں کے 2018 کے سربراہی اجلاس میں کیے گئے لیما عزم کا پابند بنانا چاہیے جس میں پورے خطے کے ممالک نے بدعنوانی کے خلاف جمہوری حکمرانی کو فروغ دینے کی خاطر ٹھوس وعدے کیے تھے۔
اِن ساری کوششوں میں ہم اس نقطے پر گہرا غوروخوض کر رہے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں کون سی چیز سب سے زیادہ کار آمد ہے۔ یہ سوال اس جامع جائزے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے جو امریکی حکومت کے تمام ادارے صدر بائیڈن کی ہدایت کے تحت اس وقت لے رہے ہیں۔ ہم جو کچھ جانیں گے وہ مستقبل میں ملک کے اندر، امریکی براعظموں میں، اور دنیا میں ہمیں اپنی توانیاں اور وسائل کو مرکوز کرنے میں ہماری رہنمائی کرے گا۔
دوسرا چیلنج شہری تحفظ ہے۔ کئی دہائیوں سے امریکہ نے بین الاقوامی جرائم پیشہ تنظیموں کا مقابلہ کرکے نصف کرے میں تشدد کو کم کرنے پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ گو کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ لاطینی امریکہ اور کیریبین کو حالیہ دہائیوں میں بڑے پیمانے پر مسلح تصادم سے بچایا گیا ہے تاہم پھر بھی یہ دنیا کا پرتشدد ترین علاقہ ہے۔
لیکن خطے کی جمہوریتوں میں شہری سلامتی کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ہم نے سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے اور انہیں [آلات] سے لیس کرنے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جبکہ ہم نے اپنے دیگر دستیاب وسائل کو بہت کم استعمال کیا۔ ہم نے قتل و غارت اور منشیات کی سمگلنگ جیسے منظم جرائم کی علامات کو حل کرنے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی اور بنیادی وجوہات پر بہت کم توجہ دی۔ ہم اس عدم توازن کو دور کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
ہم خاص طور پر سہولتوں کے فقدان والی آبادیوں کے مکینوں کے لیے جو غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں معاشی مواقع کو بڑھانے پر مزید کام کر رہے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہوں کہ ان کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں بچا۔ ہم منشیاتی مواد کی روک تھام، علاج، اس کی لت سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے والوں پر کی جانے والی اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد اِن غیر قانونی منشیات سے ہماری کمیونٹیوں کو پہنچنے والے سنگین نقصانات کو اور امریکہ میں طلب کو کم کرنا ہے تاکہ وسیع پیمانے کے تشدد اور مجرمانہ سرگرمیوں کو ہوا نہ مل سکے۔ ہم کمیونٹی کی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کی کوششوں میں مدد کر رہے ہیں۔ اِن کے ذریعے اُن مقامی لوگوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے جو پرتشدد مجرمانہ تنظیموں اور بدسلوکی کرنے والی سکیورٹی فورسز کے درمیان پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ہم انہیں اپنی کمیونٹیوں کے سماجی تانے بانے کی بحالی کے لیے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔ اور ہم قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے، استغاثہ کے وکیلوں اور ججوں کو تربیت دینے کے لیے سرمایہ کاری کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں ایسے مقدمات کی تفتیش کرنے اور مقدمے چلانے میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
بنیادی وجوہات پر یہ زور اعلی سطح کے اُن معاشی اور سکیورٹی مذاکرت کے سلسلے کا بنیادی نقطہ ہے جن کا ہم نے حالیہ ہفتوں میں میکسیکو کی حکومت کے ساتھ آغاز کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے انصاف، تجارت، خزانے، تجارتی لین دین، ترقی، ہوم لینڈ سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سے تعلق رکھنے والے سینئر لیڈروں کا سلسلہ اُس جامع نصب العین کی عکاسی کرتا ہے جسے ہم اب حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم اور کولمبیا میں ہمارے شراکت دار کل کے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں بھی اسی طرح کا نصب العین لے کر جا رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے کل صدر لاسو کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہم شہریوں کی سکیورٹی کی ایک ایسی جامع سوچ پر یقین رکھتے ہیں جو کہ سکیورٹی فورسز پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہ کرتی ہو۔ ایکواڈور میں بھی اس سوچ کے موثر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
ہم نے استثناء کی وہ حالت دیکھی ہے جس کا صدر لاسو نے اس ہفتے کے شروع میں اعلان کیا ہے اور کل صدر کو اور مجھے اس پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی ملا۔ امریکہ کے حوالے سے میں نے واضح کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات جمہوریتوں کو سلامتی اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن یہ لازمی ہے کہ اس ضرورت کو تمام شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت کے حوالے سے متوازن بنایا جائے۔ یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ یہ اقدامات قانون کی حکمرانی کے مطابق تیار اور نافذ کیے جائیں، اِن کا دائرہ کار اور مدت محدود ہوں اور یہ نگرانی اور عدالتی جائزے سے مشروط ہوں۔ وہ سکیورٹی فورسز جو یہ اقدامات اٹھاتی ہیں انہیں بین الاقوامی معیار کی پاسداری کرنا چاہیے اور جب وہ ایسا نہ کریں تو انہیں جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ اِن حدود کے بغیر کوئی استثناء کیسے ایک قانون بن جاتا ہے اور شہریوں کو کسی ایک خطرے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کس طرح انہیں ایک اور خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔
صدر لاسو نے مجھے یقین دلایا کہ اِن کی حکومت اُن معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے جو ایکواڈور کے لوگوں اور ان کی جمہوری اقدار کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور میں نے واضح کیا کہ ان معیارات کو برقرار رکھنا امریکہ کی بھی ایک ترجیح ہے۔
تیسرا چیلنج، ہمارے عوام کو درپیش معاشی اور سماجی چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہونا چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم محنت کشی کے معیاروں کو مستحکم بنانے، مناسب تعلیم اور صحت تک رسائی کو بڑہانے، اور زیادہ مشمولہ مواقع فراہم کرنے جیسے لوگوں کے معاشی اور سماجی حقوق کی بجائے، اکثر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، قانون کی حکمرانی، تقریر اور اجتماع کی آزادی جیسے شہری اور سیاسی حقوق پر زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے پورے نصف کرے کے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم یہ دونوں کام کریں۔ اور امریکہ اس مطالبے کو توجہ سے سن رہا ہے۔
نسلوں میں ایک بار خاندانوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری کی صدر بائیڈن کی کوششوں کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو بڑے پیمانے پر کی جانے والی اُن سرمایہ کاریوں کو آگے بڑھا رہی ہے جو امریکی براعظموں کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور اُن کی فلاح کے لیے امریکہ کر رہا ہے۔ 2020 کے بعد سے ہم نے بین الاقوامی ترقیاتی مالیاتی کارپوریشن کے ذریعے لاطینی امریکہ اور کیریبین میں 10 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے نتیجے میں نجی شعبہ مزید اربوں ڈالر لے کر آیا ہے۔ مثال کے طور پر یہاں ایکواڈور میں ہم بینکو دو لا پروڈکسیوں کے ساتھ تجزیہ کرنے معاف کیجیے چھوٹے کاروباروں کو قرضوں کی شکل میں 150 ملین ڈالر کی رقم تیزی سے فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے تجربے اور آپ کے تجربے سے معلوم ہے کہ چھوٹے کاروبار ترقی کے بنیادی محرک اور لوگوں کے لیے روزگار حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔
ہم محض یہ سرمایہ کاریاں ہی نہیں کر رہے، بلکہ ایک ایسے شفاف طریقے سے یہ کام کر رہے ہیں جو مقامی کمیونٹیوں کو قرض کے کسی خطرناک چکر میں پھنسانے کی بجائے انہیں شراکت دار سمجھتا ہے، جو ماحول کو نقصان پہنچانے کی بجائے ماحول کو بہتر بناتا ہے، اور جو مزدوروں کے حقوق اور انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے۔
اس طرح کی سرمایہ کاریوں سے اُس افسانے سے ہوا نکالنے میں مدد ملتی ہے جو آمرانہ حکومتیں اپنے بارے میں بتانا پسند کرتی ہیں کہ وہ عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں بہتر ہیں۔ آمر لوگوں کے سامنے ایک جھوٹا انتخاب رکھتے ہیں؛ یعنی یا تو آپ بنیادی شہری اور سیاسی حقوق حاصل کر سکتے ہیں یا آپ اعلٰی معیار کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم عوام کی فلاح کے لیے آمروں کی طرف سے کیے جانے والے وعدوں کے برعکس اُن کا عمل ایک مختلف کہانی بیان کرتا ہے۔
لیکن محض اس وجہ سے کہ جمہوریت نصف کرے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔
یہ بات خاص طور پر کم سہولتوں والی آبادیوں پر صادق آتی ہے۔ ہماری جمہوریتوں میں گہرا، دیرینہ امتیازی سلوک عام ہے۔ اس ناانصافی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یہ غلامی اور نوآبادیات کے دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اور امریکہ کی کہانی اس تاریخ سے ایسے طریقوں سے جڑی ہوئی ہے کہ اسے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم نے استحصال اور نسل پرستی کو جاری رکھنے … اور اسی کے ساتھ ساتھ امید دلانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ آج کے دور کے بہت سے لوگوں سمیت امریکیوں کی نسلوں نے نسل پرستی کے کریہہ ورثے اور امتیازی سلوک کی تمام شکلوں کو شکست دینے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں۔
نسل پرستی جمہوریت کو کم خوشحال، کم مستحکم، کم مساواتی بناتی ہے۔ یہ انتہا پسندی اور عدم اعتماد کو فروغ دیتی ہے۔ اور یہ جمہوریت سے اس کی طاقت، جدت اور اُن تخلیقی صلاحیتوں کو چھین لیتی ہے جو متنوع اور جامع برادریوں اور کام کی جگہوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی تمام کمیونٹیوں اور اداروں کی جانب سے کی جانے والی ایک جامع اور فوری کوشش کی ضرورت ہے۔ اس میں تمام حکومتی ادارے شامل ہیں۔ اس میں وہ ادارہ بھی شامل ہے جس کی میں قیادت کر رہا ہوں جہاں میری اولین ترجیحات میں ایک ترجیح یہ ہے کہ محکمہ خارجہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہمارے سفارت کار امریکہ کی عکاسی اس طرح کریں جس میں ہمارا شاندار تنوع جھلکتا ہو۔ اس کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی بھی بہتر ہوگی۔
میرے خیال میں یونیورسیداد سان فرانسسکو دو کوئیٹو کے پاس اس کے بارے میں ہمیں سکھانے کے لیے کچھ ہے۔
اس ادارے کے قیام کے بعد سے اس یونیورسٹی نے مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کو اپنے مشن کا بنیادی حصہ بنا رکھا ہے۔ یونیورسٹی ہر سال ایکواڈور کے سینکڑوں آبائی اور افریقی النسل طلباء کے لیے اپنے ہاں تعلیم حاصل کرنا ممکن بناتی ہے۔ یہ وہ گروپ ہیں جو کہ روایتی طور پر شدید پسماندگی اور موقعوں تک غیر مساوی رسائی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں کم نمائندگی رکھتے ہیں۔ ہر وہ طالب علم جو اس یونیورسٹی میں پڑھتا ہے وہ یونیورسٹی کے متنوع طلباء کی وجہ سے بہتر تعلیم حاصل کرتا ہے۔
چنانچہ جب ہم اپنی جمہوریتوں میں حقیقی چیلنج دیکھتے ہیں تو ہمیں ان سے نمٹنے کے بہترین طریقے کے بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہوتا۔ مسائل کو کھلے بندوں سامنے رکھنا اور اُن لوگوں کے ساتھ بھی اکٹھے مل کر کام کرنا ہی انہیں حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے جن کے ساتھ آپ ہمیشہ متفق نہیں ہوتے۔ یہ جمہوریت کی ہمیشہ سے سب سے بڑی طاقت رہی ہے اور یہ [جمہوریت] کی خود کو بہتر بنانے کی ایک صلاحیت بھی ہے۔
امریکہ میں ہم اس بنیادی اصول پر کاربند ہیں کہ ہمارا قومی مشن ایک کامل یونین بنانا ہے۔ اصل میں یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم کامل نہیں ہیں اور ہم کبھی بھی کامل نہیں ہوں گے اور یہ کہ ہم اپنے بانیوں کے نظریات کے ساتھ جو کچھ کریں گے وہ اِن نظریات پر پورا اترنے کی کوشش ہی ہوگی
ایسا کوئی بھی خطرہ نہیں ہے جس کا ہمیں سامنا ہو اور جس سے بہتر جمہوریت، زیادہ جمہوریت، نہ نمٹ سکتی ہو۔ ایسا کوئی چیلنج نہیں جس سے لوگوں کی بہتری کے لیے نمٹنے کے لیے بند نظام کھلے نظام سے بہتر ہو۔
اور جمہوریتوں کو درپیش تمام چیلنجوں کے حوالے سے میرے خیال میں ہمارے پاس پر امید رہنے کی، بالخصوص ہمارے نصف کرے میں معقول وجوہات ہیں جہاں ہمارے شراکت داروں کا ایک بہت ہی مربوط گروپ ہے جن کی اور ہماری نہ صرف اقدار مشترک ہیں بلکہ جن کے ساتھ ثقافت اور برادری کے ذریعے بھی ہم جڑے ہوئے ہیں۔ اور یہاں ہمیں قدرتی وسائل اور حیاتیاتی تنوع میں زبردست دولت سے نوازا گیا ہے مگر اس کی شرط یہ ہے کہ ہم اس کا تحفظ کریں۔
لیکن سب سے بڑھکر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے لوگوں کی وجہ سے پرامید ہونا چاہیے یعنی اُن کے عملی مظاہرے جمہوریت کا دل ہیں۔ گزرے وقتوں میں ہماری جمہوریتوں میں سے کسی ایک کی پیشقدمی کو دیکھیں اور آپ بار بار یہ دیکھیں گے کہ اسے حکومتوں نے نہیں بلکہ عام لوگوں نے چلایا ہے۔ اِن میں عورتیں اور مرد، بلکہ اکثر نوجوان جنہیں بہت کچھ کھونا پڑا شامل تھے۔ [وہ] اپنے خاندانوں اور برادریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم تھے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تواتر سے جمہوریتوں کے وعدوں اور جو کچھ وہ دے پائی ہیں اُن کے درمیان موجود فرق کو دور کرتے ہیں۔
ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی تمام وجوہات موجود ہیں کہ شہری ایسا کرتے رہیں گے۔ ایکواڈور کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بات سچ ہے۔ اسی طرح امریکہ میں جہاں ہماری جمہوریت بھی امتحانوں سے گزری ہے، ہمارا تجربہ یہی بتاتا ہے ۔
جمہوریت سے جڑی تمام مایوسیوں کے باوجود نصف کرے کے عوام کی اکثریت اس یقین میں شریک ہے۔ لاطینی امریکہ میں تقریبا 63 فیصد لوگ اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت بہترین حکومتی نظام ہے۔ اس کے مقابلے میں 13 فیصد لوگ ایسے ہیں جو آمرانہ حکومت کے بارے میں ایسا محسوس کرتے ہیں۔
در حقیقت کچھ لوگ امریکی براعظموں اور دیگر جگہوں پر جمہوری حکومتوں پر تنقید کرنے والے مظاہروں اور عوامی تحریکوں کو دیکھتے ہیں اور اسے اس بات کی علامت سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ میں اسے جمہوریت کی مضبوطی کی علامت سمجھتا ہوں۔ میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو اپنے نظام پر اتنا زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اسے درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے شہری جمہوریت پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ خطرہ ہے کہ وہ اس کی فکر کرنا چھوڑ دیں اور اس سے ہاتھ اٹھا لیں۔
اور میں امریکی براعظموں میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں اسی وجہ سے پراعتماد ہوں کیونکہ ہمارے انتہائی غیر معمولی افراد نظام کو بہتر بنانے کا کام کر رہے ہیں۔
یہ ڈیانا سالازار مینڈیز جیسے لوگ ہیں۔ یہاں سے شمال میں واقع ایبارا میں اُن کی اکلوتی والدہ نے اُن کی پرورش کی جنہوں نے ابتدائی عمر میں کمیونٹی کی خدمت کرنے اور اس سے بھی بڑھ کر دیانت داری کی اہمیت کو اُن کے ذہن میں راسخ کر دیا۔ ڈیانا نے اپنی یونیورسٹی تک کے تعلیمی اخراجات دن کو کام کرکے پورے کیے اور رات کو کلاسیں لیں۔ انہوں نے ایکواڈور میں افریقی تارکین وطن کی سمگلنگ پر اپنا مقالہ تحریر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سماجی انصاف کے کام سے اُن کی رغبت اُن کے خون میں رچی بسی ہے۔ اُن کے انکل کو فوج میں شامل ہونے سے محض اس لیے روک دیا گیا تھا کیونکہ وہ ایکواڈور کے افریقی النسل شہری تھے۔ اور قانون میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی وجہ سے ڈیانا کو بھی سرکاری وکیل کی تقرریوں میں کئی بار نظر انداز کیا گیا۔
لیکن وہ اپنے مقصد پر ڈٹی رہیں اور انہیں آخرکار اپنا پہلا عہدہ مل گیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی طاقتور لوگوں کو قابل احتساب ٹھہرانے کے لیے وقف کردی۔ مافیاز۔ سابق صدور سمیت سیاست دان۔ تاجر۔ اُن کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا، انہیں دھمکیاں دی گئیں، اور حتٰی کہ وہ منشیات کے سمگلروں کو پکڑنے کے ایک آپریشن کے دوران تقریبا سمندر میں گم ہو گئیں۔ وہ ڈری نہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں نہیں ڈریں تو انہوں نے جواب دیا، “جو حق پر ہو اسے ڈرنا نہیں چاہیے۔”
اور ہاں آج ڈیانا ایکواڈور کی اٹارنی جنرل ہیں۔ (تالیاں)
اور اسی طرح ایکواڈور کی مقامی کیکوا کمیونٹی کی راہنما، نینا گوالنڈا جیسے لوگ بھی ہیں۔ 2001 میں جب نینا کی عمر محض آٹھ برس تھی تو تیل کی ایک کمپنی ایمیزون کی اُس زمین سے تیل نکالنے آئی جہاں وہ اور اُن کا گھرانہ رہتے تھے۔ اُن کی والدہ اور اُن کی خالہ نے اس منصوبے کی مخالفت میں کمیونٹی کی قیادت کی جس کے جواب میں انہیں مسلسل دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انہوں نے سول نافرمانی، تنظیم سازی، قانونی چیلنجوں کے ذریعے مزاحمت جاری رکھی جس کے نتیجے میں نینا کو [کسی نصب العین] کی وکالت کے بارے میں آگاہی ملی۔
جب ایک دہائی کے بعد بالآخر اُن کی کمیونٹی کا معاملہ بین الامریکی عدالت کے سامنے پیش ہوا تو کمیونٹی کی طرف سے عدالتی سماعت میں 18 سالہ نینا نے بات کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایکواڈور کو تیل کی کمپنیوں کو اپنی زمین پر کاروبار کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے سے پہلے مقامی برادریوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ تقریبا ایک دہائی کے بعد نینا نے آبائی خواتین کے ایک گروپ کی قیادت میں ڈھائی لاکھ سے زائد دستخط جمع کرنے میں مدد کی جن کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایمیزون کی خواتین محافظوں کے خلاف ایک نظام کے تحت کیے جانے والے حملوں کی تحقیقات کرے۔ یہ ایک درخواست تھی جو ایکواڈور کی اٹارنی جنرل، ڈیانا سالازار کے حوالے کی گئی۔
ذرا غور کریں کہ ان دو غیر معمولی عورتوں کی راہوں کا آپس میں ملنا کتنا ناممکن تھا۔ ایکواڈور کی ایک افریقی النسل [خاتون] جسے ایک وقت میں ابتدائی درجے کی سرکاری وکیل کی نوکری کے لیے محض اس لیے نظرانداز کر دیا گیا کیونکہ وہ سیاہ فام تھی۔ ایک آبائی [خاتون] رہنما جس کی اپنی کمیونٹی کا اپنے مستقبل کے بارے میں اختیار حاصل کرنے کی جدوجہد تب شروع ہوئی جب اس نے اپنی کمیونٹی پر آٹھ سالہ بچی کے طور پر حملہ ہوتے دیکھا۔
اس کے باوجود ان کی راہوں کا ملنا جمہوریتوں کی اُس واحد انفرادی طاقت کا مظہر ہے جس کی صورت گری افراد کو کرنا ہوتی ہے۔ ایک [خاتون] حکومت کے اندر کام کرتی ہے دوسری باہر۔ مگر دونوں کا تعلق ایسی جگہوں سے ہے جہاں بہت ساری مشکلات اُن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑی تھیں۔ جمہوریت ڈیانا اور نینا جیسے لوگوں کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہے – یہ ترقی کرتی ہے اور یہ اپنے تئیں بہتر ہوتی ہے۔ یہ اُن لوگوں کی وجہ سے کام کرتی ہے جو کسی ایسے نظام کے براہ راست نتائج کا سامنا کرتے ہیں جو اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح اسے کام کرنا چاہیے، ایسے لوگ جو جمہوریت کے اصولوں اور اس کے عملی طریقوں کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں، اور اسے ہر حال میں اپنے جیسے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر بنانے کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
انہیں اس لیے کامیابی ملتی ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹتے۔ وہ یہ جانتے ہوئے کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والی قوتیں بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں پھر بھی وہ ترقی کے ہر ایک سنٹی میٹر کا دلیری سے دفاع کرتے ہیں۔
آمر اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازشیں کرنا کبھی بھی بند نہیں کریں گے۔ بدعنوان لوگ دوسروں کی قیمت پر نفع حاصل کرنے کے طریقے ڈھونڈنا کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اردگرد [کے ماحول] پر نظر رکھیں۔
اسی لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم میں سے ہر ایک، بالخصوص ابھرتی ہوئی نسلیں، [اور] آپ سب مصروف عمل رہیں اور دوسروں کو ہمارے ساتھ ملائیں۔ کیونکہ یہ جمہوریت کی خصوصیت ہے – یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو کبھی مکمل نہیں ہوتا۔
اور جب تک ہمارے معاشرے نینا اور ڈیانا جیسے لوگوں کے اندر سے نظام کو بہتر بنانے کو ممکن بناتے رہیں گے، ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ جمہوریت نہ صرف قائم رہے گی بلکہ غالب بھی رہے گی۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کا شکریہ۔
(تالیاں۔)
اصل عبارت پڑھنے کا لِنک:
https://www.state.gov/making-democracy-deliver-for-the-americas/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔