An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
29 اپریل، 2021
اطلاع کار: نیڈ پرائس، ترجمان
اقتباس

2:45 سہ پہر

نیڈ پرائس: اوکے۔ سہ پہر بخیر۔ آپ کے سوالات کی جانب آنے سے پہلے چند اہم باتیں ہو جائیں۔

پہلی یہ کہ، کووڈ۔19 کے کیسز کی نئی لہر کے خلاف جدوجہد میں مصروف انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر امریکہ آئندہ دنوں میں انڈیا میں اپنے شراکت داروں کو ضروری مدد کی فراہمی کے لیے 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کا طبی سازوسامان بھیج رہا ہے۔

علاوہ ازیں امریکہ کی ریاستی حکومتیں، نجی کمپنیاں، غیرسرکاری ادارے اور ملک بھر میں ہزاروں امریکی شہری لازمی ضرورت کی آکسیجن، متعلقہ آلات اور انڈیا کے ہسپتالوں کے لیے ضروری سازوسامان کی فراہمی کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ان کا مقصد انڈیا میں اگلی صفوں میں کام کرنے والے ان طبی کارکنوں اور لوگوں کی مدد کرنا ہے جو وباء کے حالیہ حملے میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

امریکی حکومت کی پروازیں آج رات انڈیا پہنچنا شروع ہو جائیں گی اور اگلے ہفتے بھی جاری رہیں گی۔ جس طرح انڈیا نے اس وقت ہمیں مدد بھیجی تھی جب وباء کے ابتدائی عرصہ میں ہمارے ہسپتالوں پر بہت زیادہ بوجھ تھا، اسی طرح امریکہ انڈیا کی ضرورت کے وقت اس کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

(۔۔۔)

سوال: اس امداد کے ساتھ آپ لوگوں نے آج نیا سفری نوٹس جاری کیا ہے جس میں یہاں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں تعینات سرکاری اہلکاروں کے اہلخانہ کو یہاں سے روانگی کی اجازت کا تذکرہ ہے۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ کیا اس کا عام مطالبہ سامنے آیا تھا؟ میں جانتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کی تعداد یا ایسی کسی دوسری تفصیل میں نہیں جانا چاہتے لیکن مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا لوگ یہاں سے واپس جانا چاہتے تھے اور کیا اس اجازت کے تحت لوگ پہلے ہی انڈیا سے جا چکے ہیں؟

نیڈ پرائس: یہ سوال پوچھنے کا شکریہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بتانا اہم ہے کہ اس نوٹس میں کیا تھا اور کیا نہیں تھا۔ احتیاط کے طور پر دفتر خارجہ نے لوگوں کو نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے اور ملک بھر میں موجود اپنے قونصل خانوں میں تعینات اہلکاروں کے اہلخانہ کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی اجازت دی۔ یہ اقدام کسی کو ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتا اور کسی سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔ یہ ان لوگوں کے اہلخانہ کو اپنی مرضی سے ملک چھوڑنے کا موقع دیتا ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر واضح کر دوں کہ یہاں سے لازمی روانگی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں بعض غلط اطلاعات یا شاید غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہم نے انڈیا میں اپنے طور پر موجود امریکی شہریوں کو کسی طرح کی نئی ہدایات دی ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم نے ضابطے کی کارروائی کے تحت سفری صلاح کا دوبارہ اجرا کیا تھا۔ یہ چوتھے درجے کی صلاح ہے جو اس سے پہلے بھی موثر تھی اور کووڈ کی وباء کے دوران اس کا اطلاق صرف انڈٰیا پر نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک پر ہوتا ہے۔

(۔۔۔)

سوال: انڈیا سے متعلق ہی ایک اور بات۔ اس کا انڈیا میں امریکی سفارت خانے میں یا امریکی سفارتی عملے کے وباء سے متاثر ہونے کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات سے کیا تعلق ہے۔ کیا آپ کے پاس اس بارے میں کوئی تازہ ترین اطلاع ہے کہ عملے کے کتنے ارکان اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں اور کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں نیز سفارت خانے اور حکومت نے اپنے عملے کی حفاظت کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں؟

نیڈ پرائس: ہم نے اگلے دن اس پر بات کی تھی اور جہاں تک میٹ کی بات کا تعلق ہے تو چونکہ اس بارے میں لوگوں کی معلومات سامنے لانا مناسب ںہیں اس لیے ہمارے لیے ایسے افراد کی تعداد بتانا مشکل ہے۔ ہم یہی کہیں گے کہ یقیناً ہماری ہمدردیاں وباء کے اس حملے کے خلاف لڑتے انڈیا کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ یہ کہنا کافی ہے کہ کووڈ نے سبھی کو متاثر کیا ہے۔ انڈیا میں معاشرے کا ہر حصہ اس سے متاثر ہوا ہے اور یقیناً جیسا کہ آپ توقع رکھ سکتے ہیں، انڈیا کے ساتھ ہماری عالمگیر جامع شراکت کے ہوتے ہوئے یہاں ہماری سفارت بھی بہت بڑی ہے۔ لہٰذا میں اس حوالے سے امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں ان کے اہلخانہ یا اس میں کام کرنے والے مقامی عملے کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتا سکتا اور بس یہ کہوں گا کہ یہ ایک وباء ہے، ایک وبائی حملہ ہے اور انڈیا میں کووڈ کے کیسز میں حالیہ اضافے سے جس صورتحال نے جنم لیا ہے اس سے ملک کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں رہا۔

سوال: کیا لوگ ویکسین کی موجودگی کے باوجود اس سے متاثر ہوئے؟ یقیناً آپ اپنے مختلف سفارت خانوں میں ویکسین بھیجتے رہے ہیں۔ کیا انڈیا میں سفارت خانوں کو اس کے حصول میں تاخیر ہوئی جو غالباً موجودہ صورتحال کا باعث بنی؟

نیڈ پرائس: جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپریل کے وسط میں دنیا بھر میں ہماری سفارتوں کے پاس ویکسین پہنچ گئی تھی۔ ہم نے اس کوشش میں ہرممکن تیزی سے کام لیا۔ انڈیا میں ہمارے ملازمین، سفارت خانے کے عملے کو کئی ہفتوں سے ویکسین دستیاب ہے۔ تاہم دنیا بھر میں اس کی تقسیم ایک پیچیدہ کام ہے لیکن ہم نے یہ کام ہر ممکن مستعدی سے کیا اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ جیسا کہ میں نے اگلے دن کہا، بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے اس کام میں ویکسین کی ایک خوراک بھی ضائع نہیں ہوئی۔ ہم نے دنیا بھر میں قریباً دو لاکھ خوراکیں پہنچائیں جن میں انڈیا میں ہماری سفارت بھی شامل ہے۔

شان۔

سوال: اچھا، یقیناً انڈیا میں اس حوالے سے ایک چیز جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ مودی حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو دیکھ لیں، انڈیا کی حکومت کی درخواست پر ان کی کہی باتوں کو کم از کم انڈیا کے اندر ٹویٹر اور سوشل میڈیا کی دیگر جگہوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کیا امریکہ نے اس پر کچھ سوچا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ انڈیا کی حکومت کا حق ہے؟ کیا آپ اس پر کچھ کہیں گے؟

نیڈ پرائس: انڈیا ہو یا دنیا کے دوسرے ممالک، ہم نے کہا ہے کہ اظہار اور اطلاعات کے حصول کی آزادی کسی بھی جمہوریت کی بنیادی علامات ہوتی ہیں۔ یقیناً انڈیا ایک بڑی جمہوریت ہے جس کے ساتھ ہماری بنیادی اقدار مشترک ہیں اور ہم دنیا بھر میں معلومات و اظہار کی آزادی کے حامی ہیں۔

جی

سوال: کیا مجھے انڈیا کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر سوال پوچھنے کی اجازت ہے؟

نیڈ پرائس: یقیناً، پہلے ہم للت اور پھر کائلی سے سوال لیں گے۔

سوال: جی۔ مجھے اس بارے میں مزید پوچھنا ہے کہ جب اظہار کی آزادی اور سوشل میڈیا کو حکومت کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور نظم و ضبط میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس پر آپ کیا کہیں گے؟ حکومت اس معاملے سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟

نیڈ پرائس: کیسے، حکومت اس سے کیسے نمٹ سکتی ہے ۔۔ میں معذرت چاہتا ہوں؟

سوال: جی، جب سوشل میڈیا کو تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

نیڈ پرائس: ہمم

سوال: ۔۔۔ جیسا کہ بعض لوگ وہاں ایسا کرتے رہے ہیں۔

نیڈ پرائس: یقیناً۔ یقیناً نفرت انگیز باتیں اور تشدد کے لیے بھڑکانا ایسی چیزیں ہیں جن کی ہم ہر جگہ مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ہم آزادی اظہار کے حامی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب تشدد کو ہوا دینے اور نفرت پر مبنی اظہار کا معاملہ ہو تو ہم اس کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔

سوال: آپ انڈیا کے لیے جو امداد مہیا کر رہے ہیں اس کا شکریہ۔ تاہم میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ امریکہ کا اس وقت انڈیا میں وباء کی صورتحال کے بارے میں کیا اندازہ ہے؟ یہ کس قدر سنگین ہے؟ کیا یہ دنیا میں کسی بھی جگہ پھوٹنے والی کووڈ۔19 وباء کی سنگین ترین مثال ہے؟

نیڈ پرائس: میں صاف طور سے ایسی کوئی بات نہیں کہوں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اعدادوشمار سے اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے نئے متاثرین کو دیکھیں تو یہ تعداد بے حد تشویشناک ہے اور یہ وباء کسی بھی پیمانے سے غیرمعمولی طور پر تشویش ناک دکھائی دیتی ہے۔ اسی لیے امریکہ کی حکومت انڈیا کی حکومت کی مدد میں پوری طرح شامل رہی ہے۔ میں نے اگلے دن کہا تھا کہ حالیہ دنوں ہم نے انڈیا کے لیے جس امداد کا اعلان کیا ہے اس سے پہلے وباء کے آغاز میں بھی امریکہ نے انڈیا میں صحت عامہ کے نظام کی مدد کے لیے قریباً 19 ملین ڈالر کی امداد مہیا کی تھی۔

یقیناً، ہم نے حالیہ دنوں اس بارے میں زیادہ بات کی ہے، ناصرف امریکی حکومت، دفتر خارجہ، یوایس ایڈ اور سی ڈی سی کی جانب سے بلکہ ہم نے نجی شعبے کو بھی امدادی مقصد کے لیے سرگرم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وزیر خارجہ بلنکن نے اس ہفتے کے اوائل میں چیمبر آف کامرس کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی بلکہ ان کی قیادت میں یہ بات چیت ہوئی۔ تجارت ۔۔۔ گائل سمتھ نے اس بات چیت میں حصہ لیا۔ انہوں نے اس کے بعد چیمبر آف کامرس کے ساتھ بات چیت میں شرکت کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر ہم انڈیا میں کووڈ کے کیسز میں حالیہ اضافے کو روکنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی ایسا کام نہیں جو انڈیا اکیلا کر سکتا ہو اور یہ ایسی چیز نہیں جس سے امریکی حکومت اکیلے نمٹ سکتی ہو۔ اس میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے جن میں نجی شعبہ اور سول سوسائٹی سمیت اس بارے میں آگاہی دینے والے لوگ بھی شامل ہیں اور ہم یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری مدد ناصرف یہاں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کو انڈیا کے عوام کی امداد کے لیے متحرک کرنے میں معاون گی۔

سوال: کیا اس امداد کی تقسیم کے معاملے پر امریکی حکومت اور انڈیا کی حکومت میں کوئی اختلاف بھی پایا جاتا ہے؟ میں نے کہیں سنا ہے کہ امریکہ این جی اوز کے ذریعے امداد کی تقسیم چاہتا ہے اور اسے براہ راست مقامی حکومتوں کے حوالے کرنے کا خواہش مند ہے جبکہ انڈیا اپنی وفاقی حکومت کے ذریعے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔

نیڈ پرائس: ہمارا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ یہ امداد فوری اور موثر طور پر استعمال ہو اور ہم نے انڈیا کی حکومت کو بھی اس سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے میں آپ کو ان لوگوں سے رجوع کرنے کو کہوں گا جو اس پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔

سوال: آپ موجودہ امریکی انتظامیہ کے ابتدائی 100 ایام میں انڈیا۔امریکہ تعلقات کے بارے میں کیا کہیں گے؟

نیڈ پرائس: جی یقیناً گزشتہ 100 ایام میں امریکی حکومت کی انڈیا پر خاص توجہ رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے گزشتہ رات اپنے خطاب میں بھی انڈیا کا تذکرہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کسی بھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ دونوں ممالک میں باہمی شراکت اور اس سے وابستگی کس قدر گہری ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، صدر بائیڈن کو حالیہ دنوں خود وزیراعظم مودی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ وزیر خارجہ بلنکن اپنے انڈین ہم منصب جے شنکر کے ساتھ کئی مرتبہ بات چیت کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین کئی اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوا ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت کے لیے سیکرٹری کیری بھی انڈیا آئے تھے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب وزیر دفاع آسٹن نے بھی انڈیا کا دورہ کیا اور دونوں ممالک میں سلامتی کے امور پر باہمی تعاون کے لیے تبادلہ خیال کیا۔

ہم چار ملکی اکٹھ ‘کواڈ’ کے ذریعے کثیرملکی تناظر میں بھی انڈیا کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ اس میں ہم نے ناصرف وزارتی سطح پر ایک دوسرے سے بات چیت کی ہے بلکہ پہلی مرتبہ ملکی سربراہوں کی سطح پر بھی تبادلہ خیال ہو چکا ہے۔ میں موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے شعبے میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون کا تذکرہ کر چکا ہوں۔ یہ وباء سے پہلے کی بات ہے مگر وباء کے آغاز کے ساتھ اس تعاون میں مزید بہتری آئی اور انڈیا میں کووڈ متاثرین کی تعداد میں اضافے کے بعد یہ تعاون اور بھی بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دنوں انڈیا میں کیسز میں اضافے کی تعداد بے حد تشویشناک ہے۔

لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کا باہمی تعلق ہماری عالمگیر جامع شراکت کی عکاسی کرتا ہے۔

سوال: آپ کا بہت شکریہ۔

نیڈ پرائس: شکریہ۔ کائلی، انڈیا۔

سوال: میں آج صبح جاری ہونے والی سفری صلاح کے حوالے سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ اس میں یہاں موجود امریکی سفارت کاروں کے بارے میں کی گئی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا میں موجود ایسے امریکی شہری جو اپنے ملک واپس جانے کے خواہش مند ہیں وہ نقل و حمل کے دستیاب کمرشل ذرائع سے فائدہ اٹھائیں۔ علاوہ ازیں اس میں دوسرے امریکیوں کو انڈیا جانے کے حوالے سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔ کیا موجودہ امریکی انتظامیہ آئندہ دنوں یا ہفتوں میں انڈیا سے آنے والی تمام پروازوں کو روکنے پر غور کر رہی ہے؟

نیڈ پرائس: جہاں تک سفری صلاح کا معاملہ ہے تو ہم نے حالیہ بریفنگ میں اس پر بات چیت کی تھی، تاہم جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دفتر خارجہ نے اپنے شہریوں کو سفری صلاح دینے کے لیے حال ہی میں سی ڈی سی کا فریم ورک اختیار کیا تھا۔ اس سلسلے میں دنیا کے بہت سے ممالک، جہاں تک میرا خیال ہے کہ 80 فیصد ممالک کو سفری صلاح اور ہدایت نامے کے چوتھے درجے میں رکھا گیا ہے۔ انڈیا کے حوالے سے امریکی شہریوں کو جو بھی مشورہ دیا گیا ہے وہ دفتر خارجہ کی جانب سے اختیار کیے گئے اسی یکساں طریقہ کار کا نتیجہ ہے جو سی ڈی سی نے وضع کیا ہے۔

لہٰذا انڈیا کے معاملے میں اپنے شہریوں کے لیے ہماری رہنمائی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی صرف اتنی تھی کہ امریکی اہلکاروں کے اہلخانہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے طور پر انڈیا چھوڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے انڈیا کے ساتھ امریکہ کا کمرشل فضائی رابطہ برقرار رہے گا اور امریکہ کی کمرشل پروازیں انڈیا آتی جاتی رہیں گی۔ جہاں تک سفری پابندیوں کا معاملہ ہے تو جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس کا تعین قریبی مشاورت اور سی ڈی سی اور ایچ ایچ ایس میں صحت عامہ کے ماہرین کے مشورے سے ہوتا ہے۔

سوال: اگر ان پروازوں کو بند کرنے کا سوچا جا رہا ہے تو یقیناً اس حوالے سے امریکی شہریوں کو خبردار کرنا دفتر خارجہ کا کام تھا۔ تو کیا آپ لوگوں نے ایسا کوئی انتباہ جاری نہیں کیا؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ آنے والے وقت میں کسی وقت یہ پروازیں بند ہونے کا کوئی امکان نہیں؟

نیڈ پرائس: میں ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ اس بات کا جواب دینا میرا کام نہیں۔ آپ نے آج جو سفری صلاح دیکھی ہے اس سے ہٹ کر میں کچھ نہیں کہوں گا۔ میرے خیال میں یہ کمرشل پروازیں آتی جاتی رہیں گی۔ پروازوں کے داخلے پر کسی طرح کی پابندیاں صحت عامہ کو دیکھتے ہوئے اور سی ڈی سی میں طبی ماہرین کی مشاورت سے لاگو کی جائیں گی۔

سوال: اگر ایسا ہوا تو کیا دفتر خارجہ امریکی شہریوں کو پیشگی خبردار کرے گا؟

نیڈ پرائس: دفتر خارجہ دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے امریکیوں کے ساتھ باقاعدگی سے رابطہ رکھتا ہے۔

سوال: آپ نے سی ڈی سی کا ضابطہ اپنانے کی بات کی، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس کا تعلق صحت اور بیماری کے معاملات سے ہے؟

نیڈ پرائس: درست، یہ بات درست ہے۔

سوال: کیونکہ سی ڈی سی صحت کے معاملات کو بہتر طور سے دیکھ سکتی ہے مگر شاید وہ اس کے سیاسی نتائج سے زیادہ آگاہ نہ ہو۔

نیڈ پرائس: دنیا بھر کے 80 فیصد ممالک کو صحت عامہ کو لاحق خدشات کے باعث ہی چوتھے درجے میں رکھا گیا ہے۔

سوال: بیماری سے متعلق وجوہات کی بنا پر۔

نیڈ پرائس: درست

سوال: مگر آپ ابھی تک، آپ ابھی تک اپنے ہی پیمانوں سے کام لے رہے ہیں ـــ تشدد، یا ـــ

نیڈ پرائس: یقیناً، یقیناً، ہاں۔

سوال: مجھے انڈیا کے حوالے سے ہی ایک بات پوچھنا ہے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ سی ڈی سی اپنے حکام پر مشتمل ٹیم کو دہلی میں امریکی سفارت خانے میں کب بھیج رہی ہے؟

نیڈ پرائس: جتنا جلد ممکن ہو ــ جتنا جلد ممکن ہو۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وائٹ ہاؤس کے حقائق نامے میں سی ڈی سی کی ٹیم کا بھی تذکرہ تھا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ جتنا جلد ممکن ہوا سفارت خانے کے ساتھ ہوں گے مگر اس بارے میں مخصوص تفصیلات کے لیے میں آپ کو سی ڈی سی سے رابطہ کرنے کو کہوں گا۔

جی

سوال: شکریہ۔

سوال: شکریہ جناب، میرا نام نذیرہ اعظم کریمی ہے۔ میں ایک فری لانس افغان صحافی ہوں۔ جناب، جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل افغانستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں افغان خواتین بہت پریشان ہیں اگرچہ انہوں نے بہت سے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ یہ چند مثالیں جو میں اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ نفسیاتی طور پر واقعتاً بہت بری حالت میں ہیں۔ کیا آپ مجھے مختصراً کچھ بتا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان کی حالت کیا ہو گی۔ وہ اپنے مستقبل کی بابت واقعتاً تشویش کا شکار ہیں۔

مجھے امن عمل کے لیے استنبول کانفرنس کے بارے میں بھی پوچھنا ہے۔ طالبان نے اسے ملتوی کر دیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب طالبان زیادہ طاقتور ہیں۔ کیا استنبول کانفرنس منعقد ہو گی یا نہیں؟

نیڈ پرائس: جہاں تک استنبول کانفرنس کا معاملہ ہے تو اس کے منتظمین نے ہمیں بتایا ہے کہ رمضان کے مہینے میں اس کے انعقاد کا امکان نہیں، تاہم میں اس بارے میں تازہ ترین معلومات کے لیے آپ کو اس کے منتظمین سے رابطہ کرنے کو کہوں گا۔

جہاں تک خواتین اور لڑکیوں کی بات ہے ــ یہ تصاویر دکھانے کا شکریہ ــ تو جیسا کہ آپ جانتی ہیں، وزیر خارجہ بلنکن نے وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن کی تقریر سے فوری بعد افغانستان کا دورہ کیا۔ وہاں ہم جہاں صدر غنی سے ملے وہیں چیئرمین عبداللہ سے بھی ملاقات کی، مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملے۔ اس ملاقات میں نصف درجن یا اس سے کچھ زیادہ لوگ موجود تھے جن میں ایک کے علاوہ باقی تمام خواتین تھیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کا افغان عوام کی حاصل کردہ کامیابیوں میں صف اول کا کردار رہا ہے۔ یہ وہ کامیابیاں ہیں جو افغان عوام نے کڑی محنت سے پچھلے 20 سال میں حاصل کیں۔

اس موقع پر وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ ان کے لیے محض افغانستان کا دورہ ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی کے نمائندوں اور خواتین سے ملاقات بھی اہم تھی اور اس کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ اگرچہ ہم عسکری طور پر افغانستان سے واپس آ رہے ہیں مگر افغان عوام کے ساتھ ہماری شراکت قائم رہے گی۔ ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ عالمی سطح پر جائز حیثیت کے خواہاں ہر ملک کو، جو دنیا میں تنہا نہ ہونا چاہتا ہو، خواتین اور لڑکیوں کو احترام دینا ہو گا اور اس میں افغانستان میں مستقبل کی ہر حکومت بھی شامل ہے۔ امریکہ دفتر خارجہ اور یوایس ایڈ کے ذریعے افغانستان کو امداد کی فراہمی جاری رکھے گا۔ یہ امداد ایسے اہم پروگراموں کے لیے دی جائے گی جن کی مدد سے گزشتہ 20 سال میں افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کو کڑی محنت سے کامیابیوں کے حصول میں مدد ملی۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں افغانستان میں ہماری سفارتی موجودگی برقرار رہے گی۔ یہ آگے کی جانب بڑھتے افغان عوام کے ساتھ مستقل شراکت کا خاص طور پر ایک اہم عنصر ہے۔

سوال: کیا مجھے اسی پر ایک اور بات پوچھنے کی اجازت ہے؟

نیڈ پرائس: جی۔

سوال: شکریہ۔

سوال: کیا میں ایک اور سوال پوچھوں؟

نیڈ پرائس: جی۔ میں معذرت چاہتا ہوں، میں نہیں دیکھ سکا کہ کون بات کر رہا ہے۔ جی۔

سوال: جی، معذرت۔ آج ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ امریکہ کے فوجی دستے انخلا شروع کر رہے ہیں۔ کیا آپ سفارت خانے کی صورتحال بتا سکتے ہیں؟ کیا وہاں سے انخلا شروع ہو چکا ہے؟

نیڈ پرائس: فوجی دستوں کی واپسی کے بارے میں معلومات لینے کے لیے میں آپ کو محکمہ دفاع سے رجوع کرنے کو کہوں گا، مگر اہم نکتہ یہ ہے اور صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں بھی کہا ہے کہ افغانستان میں ہماری عسکری موجودگی صرف اتنی ہو گی جتنی وہاں ہمارے سفارت خانے کی حفاظت کے لیے درکار ہے اور یہ اس وجہ سے اہم ہے جس پر میں ابھی بات کر رہا تھا۔ اگرچہ ہم 20 سال کے بعد اب وہاں اپنی عسکری موجودگی ختم کر رہے ہیں تاہم اپنے سفارت خانے، غیرفوجی نمائندوں بشمول اپنے سفارت کاروں کے ذریعے ہم بدستور وہاں موجود رہیں گے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اس ہفتے کے آغاز پر اعلان کیا گیا تھا کہ ہم کابل سے سفارت خانے کے بعض اہلکاروں کو کسی دوسری جگہ منتقل کریں گے۔ یہ وہ اہلکار ہیں جو کسی اور جگہ اپنا کام کر سکتے ہیں۔ یہ اہلکاروں کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا معاملہ ہے جس سے ہمیں انہیں کسی اور جگہ رکھنے اور مزید اہلکاروں کو لانے میں مدد ملے گی جو امریکی فوج کی واپسی اور ہمارے سفارت خانے پر اس کے مضمرات سے نمٹنے کے معاملات میں مدد دیں گے۔ یہ اہلکار ان لوگوں کو مدد دیں گے جو افغان حکومت اور عوام کی ترقی کے عمل میں امریکہ کی جانب سے سفارتی ذریعہ ہوں گے۔ جیسا کہ ہم نے بتایا ہے عملے میں تخفیف کا یہ حکم کابل میں ہمارے سفارت کاروں کی مقابلتاً چھوٹی سی تعداد کے لیے ہے۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefings/department-press-briefing-april-29-2021/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future