امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
2 فروری 2021
مسٹر پرائس: سہ پہر بخیر۔ میں اپنی بات کے آغاز میں معذرت چاہوں گا۔ یقیناً، ہم اپنے وائٹ ہاؤس کے ساتھیوں کی بریفنگ ختم ہونے کے انتظار میں اپنی بات ملتوی کیے ہوئے تھے۔ میں تاخیر سے آغاز کرنے پر بہت معذرت چاہتا ہوں تاہم آئیے اب شروع کرتے ہیں۔
سہ پہر بخیر۔ میں ایک مرتبہ پھر بریفنگ روم میں آپ کا خیرمقدم کرنا چاہوں گا جو آپ کا اپنا بریفنگ روم ہے۔ لیکن بنیادی بات کرنے سے پہلے میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے ایک لمحہ یہ بتانے کی اجازت دیں گے کہ ہم نے اس بریفنگ میں کیا کہنا ہے اور یہ کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
جہاں تک ”کیا” کا معاملہ ہے تو بات بالکل سادہ ہے: ہم ”روزانہ” پریس بریفنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔ تاہم یہ محض آغاز ہے۔ ہم اپنی افرادی قوت بشمول میڈٰیا سے متعلق اپنے حکام کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں تاکہ دفتر خارجہ اچھی رفتار سے آگے بڑھ سکے جیسا کہ وزیر خارجہ کہا کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ کے بارے میں بات کی جائے تو آپ ان سے ملتے رہیں گے جیسا کہ آپ ہمارے دیگر حکام سے سنتے رہیں گے۔ جہاں تک ممکن ہو میں اس جگہ کو اس بے پایاں صلاحیت کے اظہار کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے پاس یہاں موجود ہے جن میں دفتر خارجہ کی ملازمت کرنے والی خواتین اور مرد شامل ہیں جو ہمارے کام کے پیچھے تحرک دینے والی قوت ہیں۔ میں روزانہ یہاں موجود ہوں گا، لیکن میں اس کام کے بارے میں بات کر رہا ہوں گا جو دفتر خارجہ کے پیشہ ور لوگ اس عمارت میں کرتے ہیں۔ میں ان کا مشکور ہوں اور مجھے ان کا ساتھی ہونے پر فخر ہے۔
اس کے بعد میں ”کیوں” کی جانب آتا ہوں۔ یہ بات بھی بالکل سادہ ہے۔ ہم سرکاری ملازمین ہیں۔ ہمارا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔ ہم یہ کام بہت سے انداز میں کرتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر، ہم صدر کے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک ایسے تصور پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے تمام امریکیوں کو فائدہ پہنچے۔ ہم جس بھی پالیسی کو نافذ کرتے ہیں اس کا ایک ہی بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ ہمارے ہم وطن لوگوں کی زندگی، محفوظ تر، آسان تر اور مزید خوشحال ہو۔
تاہم، اگر امریکی یا دنیا بھر کے لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں تو پھر ہم امریکہ کے عوام کی صحیح خدمت نہیں کر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ مقبولیت اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے سے آگے کی بات ہے۔ اگر ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش میں ناکام رہتے ہیں تو ہماری پالیسیوں کو جواز نہیں ملے گا اور ہم انہیں موثر بنانے کے لیے درکار عوامی اعتماد سے محروم رہیں گے۔
سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اگر ہم یہاں ناکام رہتے ہیں تو پھر ہر جگہ ناکام ہوں گے۔
شاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ ہماری جمہوریت یعنی ایک ایسے نظام کا بھی بنیادی تقاضا ہے جو ایک آگاہ معاشرے کی رضامندی پر چلتا ہے۔ ہماری سرحدوں سے باہر دیکھا جائے تو اگر ہمارے عالمگیر تعلقات میں شفافیت اور احتساب کی اقدار محض خالی خولی باتیں ہوں تو ہمیں وہی کچھ کرنا ہے جس کی ہم اپنے ملک میں تلقین کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ کرنے کے لیے ایک ایسا میڈیا درکار ہے جو ہمارے ساتھ رابطے میں ہو اور متحرک ہو۔
ہمیں محض اس کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
لہٰذا مختصراً یہی وجہ ہے کہ آپ ہمیں اکثر دیکھ اور سن سکیں گے۔ ہم شفافت، درست اور باادب رہنا چاہیں گے۔ خاص طور پر تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ہم غلطی بھی کر سکتے ہیں تاہم میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ ہم ہمیشہ نیک نیتی سے کام کریں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ کیا داؤ پر لگا ہے۔ ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ ہم کون ہیں، عوام کے خادم، اور آپ کی طرح ہمارا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔
اب بات آگے بڑھاتے ہیں:
جیسا کہ صدر بائیڈن اور وزیر خارجہ بلنکن نے کہا، امریکہ کو برما کی فوج کے ہاتھوں سویلین حکومت کے رہنماؤں بشمول سٹیٹ قونصلر آنگ سان سو کی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کی حراست پر گہری تشویش ہے۔
حقائق کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ یکم فروری کو برما کی فوج کے اقدامات اور جائز طریقے سے منتخب سربراہ حکومت کی برطرفی ایک فوجی بغاوت ہے۔
امریکہ برما میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی حمایت نیز برما میں جمہوری تبدیلی کا خاتمہ کرنے کے ذمہ داروں کی جوابدہی کے لیے اس پورے خطے اور دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
آخری بات یہ کہ امریکہ اسرائیل اور کوسوو کو باقاعدہ طور پر باہم سفارتی تعلقات قائم کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ کل ایک تاریخی دن تھا۔
مضبوط عالمی تعلقات دونوں خطوں میں استحکام، امن اور خوشحالی کے فروغ میں مدد دیتے ہیں۔ جب ہمارے شراکت دار متحد ہوتے ہیں تو امریکہ مضبوط ہوتا ہے۔ امریکہ کوسوو کی یورو-اٹلانٹک شراکت کا حصہ بننے کی جانب پیش رفت پر اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefings/department-press-briefing-february-2-2021/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔