وائٹ ہاؤس
4 فروری 2021
امریکی محکمہ خارجہ کا ہیڈکوارٹر
ہیری ایس ٹرومین بلڈنگ
واشنگٹن ڈی سی
صدر: مسٹر سیکرٹری [وزیر خارجہ صاحب] یہاں پر آپ کے ساتھ موجود ہونا خوشی کی بات ہے۔ میں ایک طویل عرصے تک آپ کو “مسٹرسیکرٹری” کہہ سکنے کا انتظار کرتا چلا آ رہا ہوں۔
سب کو سہ پہر کا سلام۔ اولین امریکی سفارت کار، بینجمن فرینکلن کی نگاہوں تلے، یہاں محکمہ خارجہ میں دوبارہ آنا ایک اعزاز کی بات ہے۔
اور، برسبیل تذکرہ، میں چاہتا ہوں کہ پریس کے آپ تمام حضرات کو یہ علم ہو کہ میں پین [یونیورسٹی] میں صدارتی سیاسیات کا بنجمن فرینکلن پروفیسر رہا ہوں۔ اور میرا خیال تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ میری عمر اتنی ہی تھی جتنی کہ اُن [بنجمن فرینکلن] کی تھی۔ مگر میرا اندازہ ہے ایسی بات نہیں تھی۔
چلیے مزاق ایک طرف رہا، یہاں پر موجود ہونا اور ہمارے حالیہ ترین اعلی سفارت کار، وزیر خارجہ ٹونی بلنکن کے ساتھ کھڑا ہونا، بڑی خوشی کی بات ہے۔ مسٹر سیکرٹری، آج ہمیں خوش آمدید کہنے کا شکریہ۔ ہم نے 20 سال سے زائد عرصے تک اکٹھے کام کیا ہے۔ آپ کی سفارتی مہارتوں کا، دنیا بھر میں ہمارے دوستوں اور مسابقت کاروں کی طرف سے، یکساں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔
اور وہ جانتے ہیں جب آپ بات کرتے ہیں تو آپ میری ہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اور لہذا — یہی وہ پیغام ہے جو میں چاہتا ہوں کہ دنیا آج سنے۔ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ سفارت کاری کی ہماری خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت واپس آ چکی ہے۔
جیسا کہ میں اپنے افتتاحی خطاب میں کہہ چکا ہوں، گزشتہ کل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نہیں بلکہ آج کے اور آنے والی کل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہم اپنے اتحادوں کی اصلاح کریں گے اور ایک بار پھر دنیا کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ امریکی قیادت کو، آمریت کو بڑھاوا دینے کے اس نئے لمحے سے نمٹنا ہوگا جس میں چین کے امریکہ سے مقابلہ کرنے کے روزافزوں عزائم اور ہماری جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور اس میں خلل ڈالنے کا روس کا مصمم ارادہ بھی شامل ہے۔
ہمیں تیزی سے بڑہانے — تیزی سے بڑہانے والے عالمی چیلنجوں کے اِس نئے لمحے سے نمٹنا ہوگا — وبا سے لے کر ماحولیاتی بحران اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ تک — ہمارے عزم کو چیلنج کرنے والے [مسائل]۔ یہ مشترکہ نصب العین کے تحت، قوموں کے صرف مل کر کام کرنے ہی سے حل ہوں گے۔ ہم یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے۔
یہ کام ایسے ہی ہونا چاہیے — اس کی ابتدا سفارت کاری سے ہونا چاہیے جس کی جڑیں امریکہ کی عزیز ترین جمہوری اقدار میں پیوست ہیں یعنی آزادی کا دفاع کرتے ہوئے، موقعے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے، آفاقی حقوق کو سربلند کرتے ہوئے، قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے، اور ہر فرد کے ساتھ باوقار سلوک کرتے ہوئے۔
یہ ہماری عالمی پالیسی کی کلیدی اساس ہے — ہماری عالمی طاقت ہے۔ یہ ہماری طاقت کا نہ ختم ہونا والا ذریعہ ہے۔ یہ امریکہ کا دائمی فائدہ ہے۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں ان میں سے بہت ساری اقدار شدید دباؤ میں آئی ہیں، حتیٰ کہ گزشتہ چند ہفتوں میں انہیں انتہائی حدوں تک دھکیلا گیا، [مگر] امریکی عوام جمہوریت کا دفاع کرنے کی جنگ میں دنیا کو متحد کرنے کے لیے اس سے مزید طاقتور، مزید پرعزم، اور بہتر تیاری کے ساتھ نکلیں گے کیونکہ ہم خود اپنے تئیں بھی اس کے لیے لڑ چکے ہیں۔
برما میں فوجی بغاوت سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کرنے کی خاطر گزشتہ چند دنوں سے ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کر رہے ہیں۔
میں برما کی صورتحال کے بارے میں اپنی مشترکہ تشویش پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے، [سینیٹ میں] لیڈر میکانل سے بھی مسلسل رابطے میں ہوں اور ہم اپنے پختہ ارادے میں متحد ہیں۔
اس میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کہ جمہوریت میں طاقت کوعوام کی رائے کو مسترد کرنے کی کبھی بھی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انتخابات کے معتبر نتائج کو مٹانے کی کوشش کرنا چاہیے۔
برمی افواج کو اِس اقتدار سے دستبردار ہو جانا چاہیے جس پر انہوں نے زبردستی قبضہ کیا ہے، اُن حامیوں اور فعال کارکنوں اور عہدیداروں کو رہا کرنا چاہیے جنہیں انہوں نے حراست میں لے رکھا ہے، ٹیلی مواصلات پر سے پابندیاں اٹھا لینا چاہیئیں اور تشدد سے باز رہنا چاہیے۔
جیسا کہ میں نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا کہ ہم جمہوریت کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے اور ذمہ داروں کو نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران، میں نے اپنے قریب ترین دوستوں میں سے بہت سے دوست [ممالک] — کینیڈا، میکسیکو، برطانیہ، جرمنی، فرانس، نیٹو، جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا — کے رہنماؤں کے ساتھ بات کی ہے [جس کا مقصد] تعاون کی عادات کی اصلاح کرنا شروع کرنا اور جمہوری اتحادوں کی اُن بنیادوں کی تعمیرنو کرنا ہے جن کی چار سالہ نظراندازی اور میں کہوں گا غلط استعمال سے شکل بگڑ چکی ہے۔
امریکی اتحادوں کا شمار ہمارے عظیم ترین اثاثوں میں ہوتا ہے۔ سفارت کاری کے ذریعے قیادت کرنے کا مطلب اپنے اتحادیوں اور کلیدی شراکت داروں کے ایک بار پھر شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔
تاہم سفارت کاری کے ذریعے قیادت کرنے کا یہ مطلب ہونا چاہیے کہ جہاں ہمارے مفاد میں ہو اور امریکی عوام کی سلامتی کو فروغ ملتا ہو وہاں ہمیں اپنے مخالفین اور مسابقین کے ساتھ سفارتی طور پر مل کر کام کرنا چاہیے۔
یہی وجہ ہے، کل، امریکہ اور روس نے جوہری استحکام کو تحفظ فراہم کرنے والے ہمارے ملکوں کے درمیان باقی رہ جانے والے واحد معاہدے کو محفوظ رکھنے کی خاطر، نئے سٹارٹ معاہدے میں پانچ سال کی توسیع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسی اثنا میں صدر پیوٹن پر میں نے اپنے پیشرو سے بالکل مختلف انداز سے، واضح کر دیا ہے کہ روس کے جارحانہ اقدامات، ہمارے انتخابات میں مداخلت، سائبر حملوں، اپنے شہریوں کو زہر دینے کے جواب میں امریکہ کے چپ سادھ لینے کے دن گزر چکے ہیں۔ ہم روس کی چکائی جانے والی قیمتتوں میں اضافہ کرنے اور اپنے [ملک] اور اپنے عوام کے انتہائی اہم مفادات کا دفاع کرنے سے نہیں چونکیں گے۔ اور جب ہم دیگر ہمخیال شراکت داروں کے ساتھ اتحاد اور ہم آہنگی سے کام کریں گے تو روس کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ہم زیادہ موثر ثابت ہوں گے۔
الیکسی ناوالنی کا سیاسی بنیادوں پر جیل میں ڈالے جانا اور اظہار رائے اور پرامن اجتماع کی آزادی کو دبانے کی روسی کوششیں، ہمارے لیے اور بین الاقوامی برادری کے لیے گہری تشویش کا باعث ہیں۔
مسٹر ناوالنی بھی، تمام روسی شہریوں کی طرح، روسی آئین کے تحت اپنے حقوق کے حقدار ہیں۔ انہیں نشانہ بنایا گیا ہے — بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں غیر مشروط طور پر فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔
اور ہماری خوشحالی، سلامتی، اور جمہوری اقدار سے ہمارے جس سنجیدہ مسابقت کار، چین کو چیلنج درپیش ہیں ہم اُس [چین] کا بھی براہ راست مقابلہ کریں گے۔
ہم چین کی اقتصادی زیادتیوں کا سامنا کریں گے؛ جارحانہ، دھونس دھاندلی والے اقدامات کا مقابلہ کریں گے؛ انسانی حقوق، املاکِ دانش، اور عالمی حکمرانی پر چین کے حملوں کی مخالفت کریں گے۔
تاہم، جب بھی ایسا کرنا امریکہ کے مفاد میں ہوگا، ہم چین کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ ہم ملک میں عمدہ طریقے سے تعمیرنو کرکے، اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرکے، بین الاقوامی اداروں میں اپنے کردار کی تجدید کرکے، اور اپنی ساکھ اور اخلاقی اختیار کو، جن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو چکا ہے، واپس حاصل کر کے طاقت کی حالت میں مقابلہ کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنا قائدانہ مقام واپس حاصل کرنے اور مشترکہ چیلنجوں سے متعلق عالمگیر اقدامات میں تیزی لانے کے لیے، بین الاقوامی سطح پر امریکی شرکت کی بحالی کا آغاز کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات اٹھائے ہیں۔
پہلے ہی دن، میں نے پیرس کے ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے دستاویزات پر دستخط کیے۔ ہم اپنی تمام تر سفارت کاری سے مربوط ماحولیاتی مقاصد کی مثال کی روشنی میں اقدامات اٹھا رہے ہیں اور اپنے ماحولیاتی اہداف کے مقصد کو بلند کر رہے ہیں۔ اس طریقے سے ہم دوسری اقوام، بڑے اخراجوں کے ذمہ دار ممالک کو چیلنج کر سکتے ہیں — تاکہ وہ اپنے وعدوں کے بارے میں کی جانے والی کوششیں تیز کریں۔ میں اس برس یوم ارض پر ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ماحولیاتی لیڈروں — ماحولیاتی لیڈروں کی ایک سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنے جا رہا ہوں۔
امریکہ کو بقا کے اس خطرے کے مقابلے کی قیادت کرنا چاہیے۔ اور بالکل ایسے ہی جیسے کہ موجودہ وبا کے بارے میں ہے، اس کے لیے عالمی تعاون درکار ہے۔
ہم نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ اس طرح، ہم کووڈ-19 کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی وباؤں کا پتہ لگانے اور انہیں روکنے کے لیے بہتر تیاری بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ابھی اور وبائیں بھی آئیں گیں۔
ہم اپنی حکومت کے اندر سائبر کے مسائل کی حیثیت کو اوپر لے آئے ہیں جس میں پہلے قومی — سائبر اور ابھرتی ہوئی ٹکنالوجی کے لیے قومی سلامتی کے پہلے نائب مشیر کی تقرری شامل ہے۔ ہم سائبر سپیس میں اپنی صلاحیتیں، تیاری، اور پائیداری کو بہتر بنانے کا ایک فوری منصوبہ شروع کر رہے ہیں۔
آج، میں اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے اور اپنی جمہوری اقدار کو اپنی سفارتی قیادت کے ساتھ بہتر طور پرمتحد کرنے کے لیے اضافی اقدامات کا اعلان کر رہا ہوں۔
اس کے آغاز میں، وزیر دفاع آسٹن ہماری افواج کی عالمی موجودگی کے ایک جائزہ گروپ کی قیادت کریں گے تا کہ ہماری خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی ترجیحات کے مطابق ہماری فوجی موجودگی میں مناسب ردوبدل کیا جا سکے۔ اس میں ہماری قومی سلامتی کے تمام عناصر کے مابین ربط پیدا کیا جائے گا [اور] اس میں وزیر دفاع آسٹن اور وزیر خارجہ بلنکن قریبی تعاون سے کام کریں گے۔
اور جب یہ جائزہ لیا جارہا ہو گا تو ہم جرمنی سے فوجیوں کی کسی بھی منصوبہ بند واپسی کو روک دیں گے۔ ہم یمن میں جنگ بند کرنے کے لیے اپنی سفارت کاری میں تیزی لا رہے ہیں — یہ ایک ایسی جنگ ہے جس نے انسانی اور تزویراتی تباہی کو جنم دیا ہے۔ میں نے اپنی مشرق وسطی کی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ فائر بندی نافذ کرنے، انسانیت دوست ذرائع کھولنے اور طویل عرصے سے معطل امن مذاکرات کی بحالی کے اقوام متحدہ کے زیرقیادت منصوبے کے لیے ہماری مدد کو یقینی بنائے۔
آج صبح ، سکریٹری بلنکن نے خارجہ پالیسی کے ایک پیشہ ور افسر، ٹم لینڈرکنگ کا یمن کی جنگ میں ہمارے خصوصی ایلچی کے طور پر تقرر کیا۔ اور میں ان کے ایسا کرنے کی تعریف کرتا ہوں۔ ٹم کو ایک زندگی — ّخطے کا زندگی بھر کا تجربہ حاصل ہے اور وہ کسی سفارتی حل پر زور دینے کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر اور اِس تنازعے کے دیگر تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
اور ٹم کی سفارت کاری کو یو ایس آئی — یو ایس ایڈ سے تقویت ملے گی جو یہ یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ انسانیت دوست امداد یمنی عوام تک پہنچے جو — ناپائیدار[لفظ جیسا کہ تقریر میں ادا کیا گیا] — ناقابل برداشت تباہی کا شکار ہیں۔ اس جنگ کو ختم ہونا ہوگا۔
اور اپنے عزم کو واضح کرنے کے لیے ہم یمن کی جنگ کی جارحانہ کارروائیوں میں تمام امریکی حمایتیں ختم کر رہے ہیں جس میں ہتھیاروں کی متعلقہ فروختیں بھی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، سعودی عرب کو متعدد ممالک میں موجود ایرانی امداد حاصل کرنے والی قوتوں کے میزائل حملوں، یو اے وی حملوں، اور دیگر خطرات کا سامنا ہے۔ ہم سعودی عرب کی اپنی خودمختاری اور اپنی علاقائی سالمیت اور اپنے عوام کا دفاع کرنے کی حمایت کرنا اور مدد کرنا جاری رکھیں گے۔
ہمیں پوری دنیا میں آٹھ کروڑ سے زائد بے گھر افراد کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ میں جب یہاں آیا تو ایک طویل عرصے تک پناہ گزینوں کے امور کے بارے میں امریکہ کی اخلاقی قیادت کے نقطے پر دوطرفہ اتفاق رائے پایا جاتا رہا۔ ہم نے مظلوم لوگوں پر — کو آزادی کے چراغ سے اجاگر کیا۔ ہم نے تشدد یا ظلم و ستم سے بھاگنے والوں کو محفوظ پناہ گاہیں پیش کیں۔ اور ہماری مثال نے دوسری قوموں کو بھی اپنے دروازے کھولنے پر قائل کیا۔
لہذا آج، میں اس غیرمعمولی عالمگیر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک انتظامی حکم نامے کی منظوری دے رہا ہوں تاکہ مہاجرین کے داخلے کے پروگرام کو بحال کرنے کا کٹھن محنت والا کام شروع کیا جا سکے۔ ایک ایسی چیز کو دوبارہ تعمیر کرنے میں وقت لگے گا جسے شدید نقصان پہنچ چکا ہے، مگر یہی وہ کام ہے جو ہم کرنے جارہے ہیں۔
یہ انتظامی حکم نامہ ہمیں بائیڈن – ہیرس انتظامیہ کے پہلے مکمل مالی سال کے دوران مہاجرین کے داخلوں کی تعداد کو 125,000 افراد تک بڑھانے کی حالت میں واپس جانے کے قابل بنائے گا۔ اور میں محکمہ خارجہ کو ہدایت کر رہا ہوں کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے اس وعدے سے متعلق پیشگی ادائیگی کے سلسلے میں کانگریس سے صلاح مشورہ کرے۔
اور اپنی اخلاقی قیادت کی مزید اصلاح کرنے کی خاطر، میں ایل جی بی ٹی کیو آئی معاملات میں اپنی قیادت کو مزید تقویت پہنچانے اور یہ کام بین الاقوامی سطح پر کرنے کے لیے، [سرکاری] اداروں کے نام ایک صدارتی میمو بھی جاری کر رہا ہوں۔ آپ جانتے ہوں گے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سفارت کاری اور غیر ملکی امداد ان افراد کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے کام کریں جن میں ایل جی بی ٹی کیو ہونے کو جرم قرار دیے جانے کو روکنا اور ایل جی بی ٹی کیو مہاجرین اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو تحفظ فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
اور آخر میں، اپنی سفارت کاری کو کامیابی سے دوبارہ موثر بنانے اور امریکیوں کو محفوظ، خوشحال اور آزاد رکھنے کے لیے ہمیں اپنی خاارجہ پالیسی کے اداروں کی طاقت اور حوصلے کو بحال کرنا ہوگا۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو اس عمارت میں کام کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانوں اور قونصلیٹوں میں کام کرتے ہیں، وہ یہ جانیں کہ میں آپ کی مہارت کی قدر کرتا ہوں اور میں آپ کا احترام کرتا ہوں، اور میں آپ کی پشت پر کھڑا ہوں۔ یہ انتظامیہ آپ کو اپنے کام کرنے کے لیے بااختیار بنائے گی، نہ کہ نشانہ بنائے گی یا سیاست میں ملوث کرے گی۔ ہم ایک ایسا جاندار مباحثہ چاہتے ہیں جو تمام نقطہائے نظر سامنے لے کر آئے اور اختلاف رائے کی گنجائش پیدا کرے۔ اس طرح سے ہمیں پالیسی کے بہترین ممکنہ نتائج حاصل ہوں گے۔
لہذا، آپ کی مدد سے، امریکہ محض ہماری طاقت کی مثال سے نہیں بلکہ ہماری مثال کی طاقت سے دوبارہ قیادت کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ میری انتظامیہ ملک کے اندر اپنی جمہوری اقدار کا عملی مظاہر کرنے — [جی ہاں] ملک کے اندر اپنی جمہوری اقدار کا عملی مظاہر کرنے کے لیے پہلے ہی سے اہم اقدامات اٹھا چکی ہے۔
اپنا منصب سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر، میں نے نفرت انگیز، امتیازی سلوک کا حامل مسلمانوں پر پابندی کا انتظامی حکم نامہ منسوخ کیا؛ ٹرانسجینڈر افراد کے ہماری افواج میں خدمات انجام دینے کی پابندی کو کالعدم قرار دیا۔
سچائی، شفافیت، اور احتساب کے ساتھ اپنی وابستگی کے ایک حصے کے طور پر ہم نے پہلے دن کہا — ہم نے وائٹ ہاؤس سے پہلے دن کا آغاز روزمرہ پریس بریفنگز سے کیا۔ ہم نے دوبارہ شروع — ہم نے یہاں محکمہ خارجہ اور پینٹاگان میں باقاعدہ بریفنگز دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ آزاد پریس مخالف نہیں ہوتا؛ بلکہ، یہ لازمی ہوتا ہے۔ ایک آزاد پریس جمہوریت کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
ہم نے سائنس کے ساتھ اور حقائق اور شواہد پر مبنی پالیسیاں بنانے کے ساتھ اپنی وابستگیوں کو بحال کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بین فرینکلن اس سے اتفاق کریں گے۔
ہم نے اپنے ملک میں نظاماتی نسل پرستی اور سفید بالادستی کی لعنت کا اعتراف کرنے اور ان سے نمٹنے کی خاطر اقدامات اٹھائے ہیں۔ نسلی مساوات ہماری انتظامیہ کے محض کسی ایک محکمے کا مسئلہ نہیں ہوگی، بلکہ یہ پوری حکومت کا [اور] تمام وفاقی پالیسیوں اور اداروں کا کام ہوگا۔
یہ سب کچھ خارجہ پالیسی کے لیے اہم ہے کیوں کہ جب ہم عالمی سطح پر جمہوریت کے دفاع کے لیے دنیا کی اقوام کو اکٹھا کرنے، [اور] آمریت پسندی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اپنی انتظامیہ کے آغاز میں جمہوریت کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے، تو ہم ان کوششوں کی وجہ سے اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کہیں زیادہ معتبر شراکت دار بن جائیں گے۔
خارجہ اور ملکی پالیسی کے درمیان اب، کوئی واضح لکیر نہیں رہی۔ بیرون ملک اپنے طرز عمل سے متعلق جب ہم کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں، اس وقت ہمیں امریکی محنت کش خاندانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ متوسط طبقے کے لیے کسی خارجہ پالیسی کو فروغ دینا، ہماری ملکی معاشی تجدید پر فوری توجہ مرکوز کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔
اور اسی وجہ سے میں نے اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے امریکہ کے بچاؤ کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ہفتے میں نے اپنی امریکی ساختہ سامان خریدنے کی پالیسیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔ اور اسی وجہ سے میں تغیرپذیر —تغیرپذیر ٹیکنالوجیوں کی تحقیق و ترقی پر دور رس سرمایہ کاریاں کرنے کی خاطر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔
اِن سرمایہ کاریوں سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، عالمی سطح پر امریکہ کی مسابقتی برتری برقرار رہے گی، اور تمام امریکیوں کی فوائد میں شرکت یقینی بنے گی۔
اگر ہم اپنے آپ پر اور اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اگر ہم یہ یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں کہ امریکی کاروبار عالمی سطح پر مقابلہ کرنے اور جیتنے کی حالت میں ہوں، اگر ہمارے کارکنوں اور ہماری دانشورانہ املاک کو تحفظ حاصل ہو، تو پھر کرہ ارض پر کوئی ایسا ملک نہیں — نہ ہی چین یا دنیا کا کوئی اور ملک — جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔
اپنی سفارت کاری میں سرمایہ کاری کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ دنیا کے لیے کرنے کا صحیح کام ہے۔ ہم امن، سلامتی اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں۔ ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ صریحاً ہمارے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے اتحادوں کو مضبوط بناتے ہیں، تو ہم اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ خطرات کو اپنے ساحلوں پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔
جب ہم [دوسرے] ممالک کی معاشی ترقی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ہم اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تخلیق کرتے ہیں اور عدم استحکام، تشدد اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔
جب ہم دنیا کے دور دراز خطوں میں صحت کے نظاموں کو مضبوط بناتے ہیں، تو ہم مستقبل کی اُن وبائی امراض کے خطرات کو کم کرتے ہیں جو ہمارے عوام اور ہماری معیشت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
جب ہم دنیا بھر کے لوگوں — عورتوں اور لڑکیوں، ایل جی بی ٹی کیو افراد، آبائی باشندوں کی بستیوں، اور معذوری کے حامل افراد، تمام نسلی پس منظروں اور مذہب کے لوگوں کے مساوی حقوق کا دفاع کرتے ہیں — تو ہم یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے اپنے بچوں کے انہی حقوق کو یہاں امریکہ میں بھی تحفظ حاصل ہو۔
اب امریکہ عالمی منظر سے غائب رہنے کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں آج محکمہ خارجہ میں، جو کہ ایک ایسا ادارہ ہے جو اتنا ہی نامور ہے جتنی کہ یہ قوم بذات خود نامور ہے، اس لیے آیا ہوں، کیوںکہ امریکی – امریکہ اپنی تقدیر جیسے لکھتا ہے اس میں سفارت کاری ہمیشہ سے انتہائی اہمیت کی حامل چلی آ رہی ہے۔
اسی لیے بین فرینکلن کی سفارت کاری نے ہمارے انقلاب کی کامیابی کو یقینی بنانے میں مدد کی۔ مارشل پلان کے تصور نے دنیا کو جنگ کے تباہ شدہ ڈھانچے میں غرق ہونے سے بچانے میں مدد کی۔ اور ایلینور روز ویلٹ نے اُن آفاقی حقوق کے بیباک نظریے کا اعلان کیا جو سب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہر سوچ کے حامل سفارت کاروں کی قیادت نے روزانہ میل جول کا کام کرتے ہوئے، ایک آزاد اور باہم منسلک دنیا کا یہ خاص نظریہ تخلیق کیا۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جو بڑے کام کرتا ہے۔ امریکی سفارت کاری ان کاموں کو وجود بخشتی ہے۔ اور ہماری انتظامیہ ایک بار پھر ذمہ داریاں سنبھالنے اور قیادت کرنے کے لیے تیار ہے۔
آپ سب کا شکریہ اور خدا آپ کو سلامت رکھے اور ہمارے فوجیوں کی، ہمارے سفارت کاروں کی، اور ہمارے ترقیاتی ماہرین کی، اور اُن تمام امریکیوں کی حفاظت فرمائے جنہں خطرات کا سامنا ہے۔
اس طرف سے جانا ہے۔ آپ سب کا شکریہ۔
اختتام
اصل عبارت پڑھنے کا لِنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/02/04/remarks-by-president-biden-on-americas-place-in-the-world/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔