Homeاُردو ...“روسی جارحیت کے یوکرین کے لیے اور اس سے آگے کے نتائج “ hide “روسی جارحیت کے یوکرین کے لیے اور اس سے آگے کے نتائج “ اُردو ترجمہ 20 جنوری 2022 امریکی محکمہ خارجہ ترجمان کا دفتر 20 جنوری 2022 وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن تقریر برلن-برینڈن برگ اکیڈمی آف سائنسز برلن، جرمنی وزیر خارجہ بلنکن: سہ پہر کا سلام۔ سب سے پہلے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ میرے لیے یہاں جرمنی میں بہت سارے دوستوں، ساتھیوں، مختلف کمیونٹیوں کے رہنماؤں، اور ہمارے دونوں ممالک کو جوڑنے والی شراکت داری کے رہنماؤں کے درمیان موجود ہونا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہاں پر میں اپنی موجودگی پر آپ سب کا شکر گزار ہوں۔ میں اس موقع کے ساتھ ساتھ اکیڈمی آف سائنسز اینڈ ہیومینٹیز میں آنے پر بھی شکر گزار ہوں۔ میں نے سیگمار سے اس کی تاریخ کے بارے میں تھوڑا بہت سنا اور ہال کی راہداری میں تھوڑی سی چہل قدمی بھی کی۔ میں اس مہمان نوازی کی بہت قدر کرتا ہوں۔ لیکن یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی علمیت اور دریافت کی 300 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ایک غیر معمولی روایت ہے۔ اور مجھے علم ہے کہ دیگر علمی شخصیات کے علاوہ البرٹ آئن سٹائن بھی اس [ادارے] کے ایک رکن تھے۔ لہذا مجھے شاید آپ کو بتانا چاہیے کہ میرے آج کے خطاب میں فلکیاتی طبیعیات کے بارے میں کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات سب کے لیے بہتر ہوگی۔ میں اٹلانٹک برک سمیت ان تمام اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو ہماری میزبانی کر رہے ہیں۔ بر سبیل تذکرہ برک [یعنی] پُل کے ساتھ میرا اپنا تعلق 20 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ مجھے کلنٹن انتظامیہ کے دوران جرمنی سے آنے والے ساتھیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت اچھی طرح یاد ہے۔ میرے لیے جرمن مارشل فنڈ، ایسپن انسٹی ٹیوٹ، امریکن کونسل آن جرمنی کے ہمراہ ہونا بھی خوشی کی بات ہے۔ اور میں اپنے یونیورسٹی، کلنٹن انتظامیہ، اوباما انتظامیہ کے دنوں کے ایک عظیم دوست اور ساتھی، ڈین بینجمن کا ذکر کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ آپ کو دیکھ کر بھی بہت اچھا لگا۔ گزرے ہوئے برسوں میں ان تنظیموں نے ہمارے ممالک کے درمیان تعلقات بنانے، انہیں مضبوط اور گہرا کرنے میں مدد کی۔ ایک مضبوط جمہوریت کی علامات میں سے ایک علامت ایک مضبوط اور آزاد سول سوسائٹی بھی ہے۔ میں بحر اوقیانوس کے دونوں طرف جمہوریت کے لیے اُن کی خدمات کے لیے اور ایک بار پھر، آج ہمیں اکٹھا کرنے کے لیے اپنے مشترکہ میزبانوں کا شکر گزار ہوں۔ تو جیسا کہ سیگمار نے کہا اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں ایک ایسے وقت برلن آیا ہوں جب یورپ، امریکہ اور بلکہ میں یہ دلیل دوں گا کہ دنیا کو ایک انتہائی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔ روس یوکرین مخالف اپنی دھمکیوں میں اضافہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے ابھی گزشتہ چند دنوں میں دیکھا ہے کہ [روس] روز افزوں جھگڑالو بیان بازی کے ساتھ بیلاروس سمیت، یوکرین کی سرحدوں پر اپنی فوجوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ روس نے بار بار ان معاہدوں سے انحراف کیا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے پورے براعظم میں امن برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس نے نیٹو کو جو کہ ایک ایسا دفاعی اتحاد ہے جس نے پورے یورپ اور شمالی امریکہ میں تقریباً ایک ارب لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حکمرانی کے اُن اصولوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے جن کے دفاع میں ہم سب کا حصہ ہے۔ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے بعد وضح کیے گئے یہ اصول ایک ملک کے دوسرے ملک کی سرحدوں کو طاقت کے ذریعے تبدیل کرنے … دوسرے کو حکم دینے کے لیے کہ وہ کس قسم کی پالیسی پر عمل پیرا ہو یا تعلقات رکھنے کے انتخاب سمیت اپنے لیے کیا انتخاب کرے۔ … اور اثر و رسوخ کا ایسا دائرہ اختیار بنانے کے حق کو مسترد کرتے ہیں جو خود مختار پڑوسیوں کو اس کی مرضی کے تابع کر دے۔ روس کو استثنیٰ کے ساتھ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دینا ہم سب کو اُن انتہائی خطرناک اور غیر مستحکم وقتوں کی طرف واپس لے جائے گا جب یہ براعظم – اور یہ شہر – دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے، غیر جانبدار علاقے انہیں جدا کرتے تھے جہاں فوجی گشت کیا کرتے تھے اور [جب] ایک ہمہ گیر جنگ سب کے سروں پر منڈلاتی رہتی تھی۔ اس سے دنیا بھر میں دوسروں کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ یہ فضول قسم کے اصول ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کے تباہ کن نتائج نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر امریکہ اور یورپ میں ہمارے شراکت دار اتنی زیادہ توجہ مرکوز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ معاملہ دو ملکوں کے درمیان تصادم سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہ روس اور نیٹو کے درمیان تصادم سے بڑا ہے۔ یہ عالمی نتائج کا حامل بحران ہے۔ اور اس کے لیے عالمی توجہ اور عمل کی ضرورت ہے۔ تیزی سے سامنے آنے والی اس صورتحال کے دوران میں آج یہاں اس معاملے کے حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ اس کی ابتدا میں اس طرح کرتا ہوں کہ روس دعویٰ کرتا ہے کہ اس بحران کا تعلق اس کے قومی دفاع، فوجی مشقوں، ہتھیاروں کے نظام اور سلامتی کے معاہدوں سے ہے۔ چلیے اگر یہ سچ ہے تو ہم اِن معاملات کو پرامن اور سفارتی طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ شفافیت کو بڑھانے، خطرات کو کم کرنے، ہتھیاروں کے کنٹرول کو فروغ دینے اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہم – یعنی امریکہ، روس، یورپ کے ممالک یہ اقدامات کر سکتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں یہ کام کامیابی سے کیے ہیں اور ہم انہیں دوبارہ کر سکتے ہیں۔ اور درحقیقت یہ وہی کچھ تھا جو ہم پچھلے ہفتے امریکہ اور روس کے درمیان سٹریٹیجک استحکام کے ڈائیلاگ، نیٹو-روس کونسل اور او ایس سی ای میں ہونے والی چیت میں کرنے جا رہے تھے۔ اِن ملاقاتوں اور بہت سی دیگر ملاقاتوں میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے برابری کے جذبے کے تحت سفارت کاری کی پیشکش کے ساتھ بارہا روس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑہایا ہے۔ اب تک ہماری نیک نیتی پر مبنی مل کر کام کرنے پیشکشوں کی آمادگی کو رد کیا جاتا رہا ہے – کیونکہ حقیقت میں اس بحران کا بنیادی تعلق ہتھیاروں یا فوجی اڈوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق یوکرین اور سوویت [یونین] کے بعد کی دیگر ریاستوں کی خودمختاری اور خود ارادیت سے ہے۔ اور اس کے پیچھے روس کی طرف سے سرد جنگ کے بعد کے اُس یورپ کو مسترد کیا جانا کارفرما ہے جو ایک اکائی، آزاد اور پرامن ہے۔ روس کی جارحیت، اشتعال انگیزیوں، سیاسی مداخلت کے بارے میں جس میں امریکہ میں کی جانے والی مداخلت بھی شامل ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اپنے تمام گہرے خدشات کے باوجود زیادہ مستحکم، متوقع تعلقات کو آگے بڑہانے؛ نیو سٹارٹ اور ہمارے سٹریٹیجک استحکام ڈائیلاگ شروع کرنے جیسے ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدوں پر مذاکرات کرنے؛ آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کو آگے بڑھانے اور ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی خاطر مشترکہ مقصد پر کام کرنے کے لیے اپنی آمادگی واضح کر دی ہے۔ اور روس نے جس طرح ان کوششوں میں ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے ہم اسے سراہتے ہیں۔ اور یوکرین کے خلاف ماسکو کی اندھا دھند دھمکیوں اور خطرناک فوجی نقل و حرکت کے باوجود – اس کی مبہم اور گمراہ کن معلومات کے باوجود – امریکہ نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس خود ساختہ بحران سے نکلنے کا سفارتی حل پیش کیا ہے۔ اس لیے میں یورپ واپس آیا ہوں – یعنی گزشتہ کل یوکرین میں تھا، آج یہاں جرمنی میں ہوں، کل سوئٹزرلینڈ میں ہوں گا جہاں میں روسی وزیر خارجہ لاوروف سے ملاقات کروں گا اور ایک بار پھر سفارتی حل تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔ امریکہ کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ ایسا ہی ہو۔ اور یقینی طور پر [امریکہ] دیگر متبادلات پر سفارت کاری کو ترجیح دے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپ میں ہمارے شراکت دار بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ پورے براعظم کے لوگ اور خاندان بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر روس سفارت کاری کو مسترد کرتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان اُنہیں ہی اٹھانا پڑے گا۔ اور ہم یورپ سے باہر کے ممالک، مجموعی طور پر بین الاقوامی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اگر روس تصادم چاہتا ہے تو روس کو اِس کی جو قیمت چکانی پڑے گی وہ اُس پر واضح کریں۔ اسی طرح وہ اُن تمام اصولوں کے حمایت میں بھی اٹھ کھڑے ہوں جو ہم سب کی حفاظت کرتے ہیں۔ تو آئیے سیدھی بات کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس وقت خطرہ کیا ہے، حقیقی معنوں میں کون متاثر ہوگا، اور ذمہ دار کون ہے۔ 1991 میں لاکھوں یوکرینیوں نے یہ کہہ کر انتخابات میں حصہ لیا کہ یوکرین پر اب مطلق العنان حکمران حکومت نہیں کریں گے۔ بلکہ یوکرین خود حکومت کرے گا۔ 2014 میں یوکرین کے عوام جمہوری اور یورپی مستقبل کے حق میں اپنے انتخاب کا دفاع کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ تب سے کریمیا میں روسی قبضے کے اور ڈونباس میں جارحیت کے سائے میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔ مشرقی یوکرین میں روس کی طرف سے پراکسیوں کے ذریعے جنگ شروع کی گئی۔ اس جنگ کی قیادت، اس کے لیے تربیت، اس کے لیے سازوسامان، اور اس کی مالی مدد روس کرتا ہے۔ اس میں 14,000 سے زیادہ یوکرینی مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ پورے کے پورے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔ تشدد سے بچنے کے لیے تقریباً پندرہ لاکھ یوکرینی باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کریمیا اور ڈونباس میں رہنے والے یوکرینی باشندوں پر کیا جانے والا جبر اپنی انتہا پر ہے۔ روس یوکرین کے باشندوں کو رابطہ لائن عبور کرنے سے روکتا ہے اور انہیں باقی ملک سے کاٹ دیا گیا ہے۔ روس اور اس کی پراکسیوں نے سیکڑوں یوکرینیوں کو سیاسی قیدیوں کے طور پر پکڑ رکھا ہے۔ سینکڑوں خاندان نہیں جانتے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ اور امدادی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ یوکرین کے قریباً تیس لاکھ لوگوں کو ہنگامی طور پر خوراک، پناہ اور زندگی بچانے کے لیے درکار دیگر اشیاء کی ضرورت ہے۔ ان میں دس لاکھ عمر رسیدہ لوگ اور پانچ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ تاہم یقیناً وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں جو لڑائی والے علاقے سے دور رہتے ہیں۔ یہ ان کا ملک ہے اور یہ ان کے ہم وطن شہری ہیں۔ یوکرین میں کہیں بھی لوگ روس کی مہلک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ماسکو نے یوکرین کے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے، یوکرین کی سیاست اور انتخابات میں مداخلت کی ہے، یوکرین کے رہنماؤں کو دھمکانے اور اس کے شہریوں کو دباؤ میں لانے کے لیے اس کی توانائی اور تجارت میں رکاوٹیں ڈالیں ہیں، بداعتمادی پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کیا اور گمراہ کن اطلاعات پھیلائی ہیں اور ملک میں اہم تنصیبات پر سائبر حملے کیے ہیں۔ یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی مہم مسلسل جاری ہے۔ اور اب روس اس سے بھی آگے جانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ روس کی نئی جارحیت کی وجہ سے ضائع ہونے والی انسانی جانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی جو ہم آج تک دیکھ چکے ہیں۔ روس یہ دعویٰ کر کے اپنے اقدامات کا جواز پیش کرتا ہے کہ یوکرین کسی نہ کسی شکل میں اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ بات سراسر حقیقت کے خلاف ہے۔ کس کی فوجیں کس کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں؟ کس نے طاقت کے ذریعے دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے؟ کون سی فوج دوسرے سے کئی گنا بڑی ہے؟ کس ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں؟ یہاں یوکرین جارح نہیں ہے۔ یوکرین تو محض اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر روس اشتعال انگیزی یا کسی واقعے پر اکساتا ہے، پھر اسے اس امید کے ساتھ فوجی مداخلت کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جب تک دنیا کو اس بہانے کا احساس ہو گا تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ صدر پوٹن کے اصل ارادوں کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہمیں تواتر سے بتا چکے ہیں۔ وہ حملے کی راہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں سمجھتے کہ یوکرین ایک خودمختار ملک ہے، انہوں نے 2008 میں صدر بش کو واضح طور پر یہ بات کہی تھی اور میں ان کے الفاظ دہراتا ہوں کہ ”یوکرین ایک (حقیقی) ملک نہیں ہے۔” انہوں نے 2020 میں کہا تھا کہ یوکرین اور روس کے شہری ”ایک (اور ایک جیسے) لوگ ہیں۔” چند ہی روز پہلے روس کی خارجہ امور کی وزارت نے 1654 میں یوکرین اور روس کے اتحاد کی سالگرہ کی خوشی میں ٹویٹ کیا۔ تمام ہفتوں میں دیئے جانے والے پیغامات میں سے اس ہفتے میں دیا جانے والا پیغام نہایت واضح تھا۔ اور اس طرح یوکرین میں جو کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے وہ مکمل طور پر کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس کا تعلق کسی ممکنہ حملے اور جنگ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق اس سے ہے کہ آیا کہ یوکرین کو ایک خودمختار ملک کے طور پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس کا تعلق اس سے ہے کہ آیا کہ یوکرین کو جمہوری بننے کا حق حاصل ہے۔ بات یوکرین پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ 1990 اور 1991 میں تمام سابقہ سوویت سوشلسٹ جمہوریتیں خودمختار ممالک بن گئیں تھیں۔ جارجیا بھی ان میں شامل ہے۔ روس نے اس پر 2008 میں حملہ کیا۔ آج تیرہ سال بعد بھی جارجیا کے قریباً 300,000 شہری بے گھر ہیں۔ مالدووا ایک اور مثال ہے۔ روس نے اس کے لوگوں کی مرضی کے خلاف وہاں اپنی فوج اور جنگی سازوسامان رکھا ہوا ہے۔ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے اور اس پر قبضہ کرلیتا ہے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ روس کی اپنے پڑوسیوں کو کٹھ پتلی ریاستوں میں تبدیل کرنے، ان کی سرگرمیوں کو قابو میں رکھنے، اور جمہوری اظہار کی کسی بھی لو کو بجھانے کی کوششیں یقینی طور پر تیز ہو جائیں گی۔ ایک بار جب خودمختاری اور خود ارادیت کے اصولوں کو ختم کر دیا جاتا ہے تو آپ ایک ایسی دنیا کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس میں ہمارے کئی دہائیوں میں مل کر بنائے جانے والے اصول ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سے کچھ حکومتوں کو شہہ ملی کہ وہ اپنی مرضی کے حصول کے لیے جو چاہے وہ کریں۔ بھلے اس کا مطلب کسی دوسرے ملک کا انٹرنیٹ بند کرنا ہو، عین سردیوں کے موسم میں [گھروں] کو گرم رکھنے والا تیل بند کرنا ہو، یا ٹینک بھیجنے ہوں۔ حالیہ برسوں میں روس یہ تمام حربے دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کر چکا ہے۔ اسی لیے تمام [ممالک] کی حکومتوں اور شہریوں کو یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر فکر مند ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ بادی النظر میں یہ ایک دور دراز کا علاقائی تنازعہ یا روس کی طرف سے ڈرائے دھمکائے جانے کی ایک مثال دکھائی دیتی ہو۔ دراصل یہاں ایک بار پھر داؤ پر لگے وہ اصول ہیں جو کئی دہائیوں سے دنیا کو محفوظ اور مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔ متبادل طور پر روس یہ کہتا ہے کہ نیٹو مسئلہ ہے۔ پہلی ہی نظر میں یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے۔ نیٹو نے جارجیا پر حملہ نہیں کیا۔ نیٹو نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا۔ روس نے کیا۔ نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے جس کے روس کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔ اس کے برعکس نیٹو کی طرف سے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں اور بدقسمتی سے انہیں مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اعتماد پیدا کرنے اور باہمی مشاورت و تعاون بڑھانے کے لیے بنائے جانے والے نیٹو روس فاؤنڈنگ ایکٹ میں نیٹو نے مشرقی یورپ میں اپنی فوجی قوت نمایاں طور سے کم کرنے کا وعدہ کیا اور ایسا ہی کیا۔ روس نے یورپ میں تعینات اپنی روایتی افواج میں کمی کرنے کے ایسے ہی اقدام کا وعدہ کیا۔ تاہم ایسا کرنے کے بجائے اس نے دو ممالک پر حملہ کر دیا۔ روس کا کہنا ہے کہ نیٹو اس کے گرد گھیرا ڈال رہا ہے۔ درحقیقت روس کی سرحدوں کا صرف 6 فیصد نیٹو ممالک سے ملتا ہے۔ اس کا مقابلہ یوکرین سے کیجیے جو اب واقعتاً روسی فوج کے گھیرے میں ہے۔ بالٹک ممالک اور پولینڈ میں نیٹو کے قریباً 5,000 ایسے فوجی تعینات ہیں جن کا تعلق ان ممالک سے نہیں ہے اور ان کی وہاں موجودگی بھی مستقل کے بجائے گردشی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں روس نے یوکرین کی سرحدوں پر اس سے کم از کم 20 گنا زیادہ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ صدر پوٹن کے الفاظ میں ”نیٹو نے ہمارے گھر کے گیراج میں میزائل نصب کر رکھے ہیں۔” تاہم اصل میں یہ روس ہی ہے جس نے زمین سے فضا میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ایسے میزائل بنائے ہیں جو جرمنی اور نیٹو کے یورپی علاقے میں قریباً ہر ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں حالانکہ روس آئی این ایف کے اُس معاہدے کا ایک فریق ہے جو ان میزائلوں کی تیاری اور تنصیب کی ممانعت کرتا ہے۔ درحقیقت روس کی جانب سے خلاف ورزی کے باعث ہی یہ معاہدہ ختم ہوا اور اس کے نتیجے میں ہم سب اب پہلے جیسے محفوظ نہیں رہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ روس نیٹو کا رکن نہیں ہے مگر بہت سے غیر نیٹو ممالک کی طرح درحقیقت اِس نے بھی اُس امن، استحکام اور خوشحالی سے فائدہ اٹھایا ہے جسے نیٹو نے ممکن بنانے میں مدد کی ہے۔ ہم میں بہت سے لوگوں کو سرد جنگ کے دور کی کشیدگی اور خوف اچھی طرح یاد ہیں۔ ان برسوں میں سوویت یونین اور مغرب نے باہمی سمجھ بوجھ پیدا کرنے اور باہمی تعلقات کے حوالے سے متفقہ اصول بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ان کا ہر جگہ لوگوں نے خیرمقدم کیا کیونکہ ان کی بدولت کشیدگی کا خاتمہ ہوا اور جنگی تصادم کا امکان کم رہ گیا۔ یہ کامیابیاں ہر فریق کی جانب سے کی گئی کڑی محنت کا نتیجہ ہیں۔ اب ہم یہ محنت ضائع ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1975 میں روس سمیت او ایس سی ای کے تمام ممالک نے ہیلسنکی فائنل ایکٹ پر دستخط کیے جس میں بین الاقوامی رویوں کے 10 رہنما اصول طے کیے گئے تھے۔ ان میں قومی خودمختاری کا احترام، طاقت کے خطرے یا استعمال سے اجتناب، سرحدوں کی ناقابل تسخیریت، ریاستوں کی علاقائی سالمیت، تنازعات کا پرامن حل اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہیں۔ روس نے اس کے بعد سے یوکرین میں ان اصولوں میں سے ہر ایک اصول کی خلاف ورزی کی – اور بارہا ان کے لیے اپنی حقارت کو واضح کیا ہے۔ 1990 میں روس سمیت، او ایس سی ای کے ممالک نے ویانا دستاویز پر اتفاق کیا۔ یہ [دستاویز] فوجی مشقوں سمیت فوجی سرگرمیوں کے بارے میں شفافیت اور پیش گوئی کو بڑھانے کی خاطر اعتماد سازی اور سکیورٹی کو بڑھانے کے اقدامات کا مجموعہ ہے۔ اب روس من چاہے طریقے سے ان دفعات پر عمل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ وسیع پیمانے پر فوجی مشقوں کا انعقاد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہ مشقیں ویانا دستاویز کی اطلاع اور مشاہدے کی شرائط سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ مشقیں اس میں شامل ہونے والے فوجیوں کو پیشگی اطلاع دیئے بغیر کی جاتی ہیں۔ گزشتہ موسم خزاں میں روس نے بیلاروس میں جو فوجی مشقیں کیں اِن میں 100,000 سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ وہ مشقیں ایسی تھیں جن کی فوجیوں کو “کوئی اطلاع نہ” دی گئی ہو۔ اور ماسکو جارجیا میں اپنے فوجی دستوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، گزشتہ موسم بہار میں یوکرین کے ارد گرد بڑے پیمانے پر اپنے فوجی تعینات کرنے کے بارے میں او ایس سی ای کو مطلع کرنے، اور یوکرین کے ان سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ 1990 کے معاہدے کے تحت اس [روس] کے لیے یہ کام کرنے ضروری تھے۔ 1994 میں بڈاپسٹ میمورنڈم کے نام سے جانے جانے والے ایک معاہدے میں روس، امریکہ، اور برطانیہ نے عہد کیا – اور میں اس کے الفاظ نقل کرتا ہوں – “یوکرین کی آزادی اور خودمختاری اور موجودہ سرحدوں کا احترام کریں” اور اس ملک [یوکرین] کے خلاف “دھمکیوں یا طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔” ان وعدوں نے یوکرین کو اپنے اُن جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے میں مدد کی جو یو ایس ایس آر کی تحلیل کے بعد اُسے ورثے میں ملے تھے اور جن کی تعداد دنیا میں تیسرے نمبر پر تھی۔ اب ہمیں صرف کریمیا اور ڈونباس میں رہنے والے لوگوں سے پوچھنا ہے کہ ان وعدوں کا کیا ہوا؟ میں ایسی مزید بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں۔ ان تمام مثالوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ملک نے تواتر سے اپنے وعدوں کو توڑا ہے اور ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کیا ہے جن پر اس نے اتفاق کیا تھا جبکہ دوسروں نے ہر قدم پر اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے کے لیے کڑی محنت کی ہے اور وہ ملک روس ہے۔ بلاشک و شبہ روس کو اپنی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ امریکہ اور یورپ، روس کے سکیورٹی سے متعلق خدشات پر اور اس نکتے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم ان کو ایک دوسرے کے ساتھ مساویانہ طور پر کیسے حل کر سکتے ہیں۔ روس کو اپنی سلامتی اور اُن اقدامات کے بارے میں خدشات لاحق ہیں جو اس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ اور نیٹو اٹھا رہے ہیں اور یہ [اقدامات] کسی نہ کسی طرح اس کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ ہمیں روس کے ان اقدامات پر گہری تشویش ہے جو ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہم ان سب کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم خودمختاری یا علاقائی سالمیت کے اُن اصولوں پر کوئی بات نہیں کریں گے جو کہ اقوام متحدہ کے منشور میں درج ہیں اور جن کی توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کر رکھی ہے۔ اور اگر میں روسی عوام سے بات کر سکوں تو میں ان سے کہوں گا کہ آپ دنیا کے تمام لوگوں کی طرح سلامتی اور وقار کے ساتھ جینے کا حق رکھتے ہیں اور کوئی بھی نہیں – یوکرین نہیں، امریکہ نہیں، نیٹو یا اس کے اراکین نہیں – آپ کے اس حق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا۔ تاہم جو چیز واقعی آپ کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے وہ ہے یوکرین میں آپ کی پڑوسیوں کے ساتھ بے شمار نقصانات کی حامل ایک ایسی بے معنی جنگ جس میں سب سے زیادہ نوجوان یا تو خطرات میں گھر جائیں گے یا اپنی گنوا بیٹھیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب کووڈ کی وبا پورے کرہ ارض پر پھیل چکی ہے، ہمیں آب و ہوا کے بحران کا سامنا ہے اور ہمیں عالمی معیشت کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ہماری توجہ اور وسائل کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیا واقعی یہ ایک ایسا پرتشدد تصادم ہی ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے اور جو طول پکڑتا چلا جائے گا؟ کیا یہ حقیقت میں آپ کی زندگیوں کو زیادہ محفوظ، زیادہ خوشحال، مواقع سے بھرپور بنا دے گا؟ سوچیے کہ روس جیسا عظیم ملک اپنے وسائل اور خاص طور پر اپنے انسانی وسائل، اپنے لوگوں کی غیرمعمولی صلاحیت کو اِس دور کے اہم ترین مسائل کے حل کے لیے وقف کر کے کیا کچھ حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ [اس صورت میں] امریکہ میں ہم اور یورپ میں ہمارے شراکت دار اس کا خیرمقدم کرتے۔ میں کل وزیر خارجہ لاوروف سے مِلوں گا اور ان پر زور دوں گا کہ روس ان معاہدوں سے رجوع کرے جو اس نے گزشتہ دہائیوں میں کیے ہیں اور ایسا مستقبل تخلیق کرنے کے لیے امریکہ اور یورپ میں ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرے جس سے ہماری دوطرفہ سلامتی یقینی بنانے کی ضمانت ملتی ہو۔ تاہم میں ان پر یہ بھی واضح کروں گا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے نتیجے میں یہ امکان ختم ہو جائے گا اور اس سے وہی کچھ ہو گا جس کی روس شکایت کرتا ہے یعنی نیٹو کا دفاعی اتحاد مزید مضبوطی اختیار کر لے گا۔ یہ مشکل مسائل ہیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا حل جلدی نہیں نکلے گا۔ یقینی طور پر میں یہ توقع نہیں کرتا کہ ہم کل جنیوا میں ان کا حل نکال لیں گے۔ لیکن ہم اپنی باہمی افہام و تفہیم کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اور یوکرین کی سرحدوں پر روس کے اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی لانے کے ساتھ مل کر یہ [پیش رفت] ہمیں آنے والے ہفتوں میں بحران سے نکال سکتی ہے۔ امریکہ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو، یورپی یونین، او ایس سی ای، جی7، اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ واضح کرنے کے لیے اپنا کام جاری رکھے گا کہ روس کے سامنے دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ سفارت کاری کی راہ اختیار کرے جو امن اور سلامتی کی جانب لے جا سکتی ہے اور یا وہ جارحیت کا راستہ اختیار کرے جو صرف تصادم، سنگین نتائج اور عالمی تادیبی کارروائی کی طرف لے جائے گا۔ امریکہ اور ہمارے اتحادی یوکرین کا ساتھ دیتے رہیں گے اور ان دونوں میں سے کسی بھی راہ پر روس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ میں یہاں برلن میں کھڑا ہو کر یہ پیش کش کر رہا ہوں۔ شاید دنیا میں کسی اور جگہ کوسرد جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تقسیم کا اس قدر تجربہ نہ ہوا ہو جتنا اس شہر کو ہوا ہے۔ یہاں صدر کینیڈی نے تمام آزاد لوگوں کو برلن کا شہری قرار دیا۔ یہاں صدر ریگن نے مسٹر گورباچوف پر زور دیا کہ وہ یہ دیوار گرا دیں۔ یوں لگتا ہے جیسے صدر پوٹن اُسی دور میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ تاہم اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو انہیں ہماری جانب سے وہی عزم اور وہی اتحاد دیکھنے کو ملے گا جس کا مظاہرہ ماضی کے رہنماؤں اور شہریوں نے یورپ اور دنیا بھر میں امن، آزادی اور انسانی وقار کو فروغ دینے کے لیے کیا تھا۔ مجھے سننے پر آپ کا بہت شکریہ۔ (تالیاں) اصل عبارت پڑھنے کا لِنک: https://www.state.gov/the-stakes-of-russian-aggression-for-ukraine-and-beyond/ یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔