امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
برائے فوری اجراء
2 جون 2023
تقریر
وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن
ہیلسنکی سٹی ہال
ہیلسنکی، فن لینڈ
وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا شکریہ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اور ہاں مجھے آج کہیں زیادہ خوشی کا احساس ہو رہا ہے۔ ایسا کافی عرصے کے بعد ہو رہا ہے۔ (قہقہے)
میئر وارٹی اینن ہیلسنکی میں ہماری میزبانی کرنے پر آپ کا شکریہ۔ اور ہاں یہ سٹی ہال بہت خوبصورت ہے۔
اور میکا آپ کا شکریہ اور سفارت کاری کے بارے میں علم میں گہرائی پیدا کرنے اور عوامی بحث میں وسعت پیدا کرنے پر فن لینڈ کے بین الاقوامی امور کے انسٹی ٹیوٹ کے تمام محققین کا شکریہ۔
میں اس بات پر بھی خوش ہوں کہ میرے دوست اور میرے ساتھی پیکا ہاوسٹو آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہم نے گزرنے والے حقیقی معنوں میں تاریخی سال کے دوران قریبی طور پر مل کر کام کیا اور میں اُن کی موجودگی پر اُن کا شکر گزار ہوں۔
مہمانان گرامی: دو ماہ قبل جب پہلی بار نیٹو ہیڈ کوارٹر پر فن لینڈ کا جھنڈا لہرایا گیا تو میں بھی برسلز میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ صدر نینیسٹو نے اِن الفاط میں اعلان کیا کہ “فن لینڈ میں فوجی غیرجانبداری کا دور تمام ہوا۔ ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے۔”
یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ کم و بیش ایک سال قبل اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یوکرین پر روس کے مکمل حملے سے قبل فن لینڈ کے ہر چار شہریوں میں سے ایک اپنے ملک کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے بعد فن لینڈ کے ہر چار میں سے تین شہری شمولیت کی حمایت کرنے لگے۔
فن لینڈ کے لوگوں کے لیے اپنے آپ کو یوکرین کے لوگوں کی جگہ رکھ کر دیکھنا مشکل نہ تھا۔ وہ 1939 میں خود اُس وقت ایسی ہی صورت حال بھگت چکے تھے جب سوویت یونین نے فن لینڈ پر حملہ کیا تھا۔
یوکرین کے خلاف صدر پوتن کے نام نہاد “خصوصی آپریشن” کی طرح یو ایس ایس آر کے “آزادی کے آپریشن” کے تحت فن لینڈ پر بھی حملے پر اکسانے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔
کیئف کے حوالے سے روسیوں کی طرح سوویت یونین کو بھی یقین تھا کہ وہ ہفتوں کے اندر ہیلسنکی کا بوریا بستر گول کر دیں گے۔ سوویت یونین اس قدر پراعتماد تھا کہ اس نے دیمتری شوستاکووچ سے سرمائی جنگ کے آغاز سے پہلے ہی فتح کی پریڈ کے لیے موسیقی بھی بنوا لی تھی۔
یوکرین میں پوتن کی طرح جب سٹالن فن لینڈ کے شہریوں کی شدید اور مصمم مزاحمت پر قابو پانے میں ناکام رہا تو وہ دہشت گردی کی حکمت عملی پر اتر آیا۔ [اس نے] گاؤں کے گاؤں جلا ڈالے اور اتنے زیادہ ہسپتالوں پر فضائی بمباری کی کہ فن لینڈ کے لوگوں نے اپنے مکانوں کی چھتوں پر بنے ریڈکراس کے نشانوں کو چھپانا شروع کر دیا۔
آج کے لاکھوں یوکرینی پناہ گزینوں کی طرح سوویت حملے کی وجہ سے فن لینڈ کے لاکھوں لوگوں کو بھی اُن کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا تھا۔ ان میں دو بچے، پیرکو اور ہنری بھی شامل تھے۔ اُن کے خاندان والوں نے کیریلیا میں اپنے گھر خالی کر دیئے تھے۔ وہ [بچے] ہمارے میزبان [اور] اس شہر کے میئر کی والدہ اور والد تھے۔
فن لینڈ کے بہت سے لوگوں کے نزدیک 1939 اور 2022 میں گہری مماثلتیں … اور شدید کرب پایا جاتا تھا۔ اور وہ غلط نہیں تھے۔
فن لینڈ کے لوگ جان گئے تھے کہ روس نے یوکرین میں اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں یعنی خودمختاری، علاقائی سالمیت، آزادی کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ انہوں نے جو کچھ یوکرین میں کیا ہے اس سے ان کا امن اور سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
ہم بھی یہ بات جان گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 2021 میں جب روس نے کیئف کے خلاف اپنی دھمکیوں میں اضافہ کرنا شروع کیا اور یوکرین کی سرحدوں پر بڑی تعداد میں فوج، ٹینک اور طیارے جمع کیے تو ہم نے ماسکو کو اپنے خود ساختہ بحران کو کم کرنے اور اسے حل کرنے اور سفارت کاری کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
صدر بائیڈن نے صدر پوتن کو بتایا کہ ہم اپنی اپنی سلامتی کے بارے میں پائے جانے والے باہمی خدشات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے وزیر خارجہ لاوروف تک بشمول ذاتی ملاقات کے باربار یہ پیغام پہنچایا۔ ہم نے تناؤ کم کرنے کے لیے تحریری تجاویز پیش کیں۔ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم نے جنگ کو روکنے کے لیے نیٹو-رشیا کونسل سے لے کر او ایس سی ای تک [اور] اقوام متحدہ سے لے کر اپنے براہ راست رابطوں تک ہر ایک فورم کو استعمال کیا۔
اِن تمام اقدامات میں ہم نے ماسکو کے سامنے دو ممکنہ راستے رکھے۔ سفارت کاری کا راستہ جو یوکرین، روس اور پورے یورپ کے لیے زیادہ سے زیادہ سلامتی کا باعث بن سکتا تھا۔ یا پھر جارحیت کا راستہ جس کے نتیجے میں روسی حکومت کوسنگین نتائج کا سامنا کرنا تھا۔
صدر بائیڈن نے واضح کر دیا تھا کہ قطع نظر اس کے کہ صدر پوتن کون سا راستہ چنتے ہیں ہم تیار ہیں۔ اور اگر روس جنگ کا انتخاب کرتا ہے تو ہم تین کام کریں گے یعنی یوکرین کی حمایت کریں گے؛ روس کو اس کی بھاری قیمت چکانے پر مجبور کریں گے؛ اور ان اہداف پر اتحادیوں اور شراکت داروں کو اکٹھا کریں گے۔
جیسے جیسے [جنگی] طوفان کے بادل گہرے ہوتے گئے ویسے ویسے ہم یوکرین کے لیے فوجی اقتصادی اور انسانی امداد میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ابتدا میں ہم نے اگست 2021 میں پھر دسمبر میں یوکرین کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے جیولن اور سٹنگر [میزائلوں] سمیت فوجی سازوسامان بھیجا۔ ہم نے یوکرین کو سائبر حملوں کے خلاف اس کے بجلی کے نظاموں اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچوں کے دفاع کو مضبوط بنانے میں مدد کرنے کے لیے امریکہ کی سائبر کمانڈ کی ایک ٹیم تعینات کی۔
ہم نے مکمل حملے کی صورت میں روس کو بھاری اور فوری قیمت ادا کرنے کے لیے پابندیوں، برآمداتی کنٹرول، اور دیگر اقتصادی تعزیروں کا ایک بے مثال مجموعہ تیار کیا۔
ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے نیٹو کی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھنے کے لیے [ضروری] اقدامات اٹھائے تاکہ اس سلسلے میں اگر کوئی غلط فہمی ہو تو دور ہو جائے۔
اور ہم نے یوکرین کو اپنے دفاع میں مدد کرنے اور پوتن کو اپنے تزویراتی اہداف حاصل کرنے سے روکنے کے مقاصد پر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو اکٹھا کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔
اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے روز ہی سے صدر بائیڈن نے امریکہ کے اتحادوں اور شراکت داریوں کو ازسرِنو مضبوط بنانا شروع کر دیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ جب ہم اپنے مفادات اور اقدار کے ساجھے داروں کے پہلو بہ پہلو کام کرتے ہیں تو ہم مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
روس کے اس حملے سے پہلے ہم نے اِن شراکت داریوں کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے نیٹو، ای یو، جی سیون اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کسی ممکنہ حملے کے حوالے سے رابطہ کاری اور منصوبہ بندی کا کام شروع کر دیا۔
جنوری اور فروری 2022 کے ان ہیجان خیز ہفتوں میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ کوئی بھی سفارتی کوشش صدر پوتن کے ذہن کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ وہ جنگ کا ہی انتخاب کریں گے۔
چنانچہ 17 فروری 2022 کو میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے گیا تاکہ دنیا کو روس کے یوکرین پر مکمل اور صاف دکھائی دینے والے حملے کے بارے میں خبر دار کیا جا سکے۔
میں نے وہ اقدامات بیان کیے جو روس اٹھائے گا۔ پہلے وہ کوئی بہانہ گھڑے گا اور پھر میزائلوں، ٹینکوں، فوج اور سائبر حملوں کا استعمال کرتے ہوئے کیئف سمیت پہلے سے طے شدہ اہداف پر حملے کرے گا۔ اس کا مقصد یوکرین کی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کو گرانا اور اسے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے [دنیا کے] نقشے سے مٹانا تھا۔
ہم اپنے آپ کے غلط ثابت ہونے کی مسلسل امید کرتے رہے۔
بدقسمتی سے ہم درست ثابت ہوئے۔ سلامتی کونسل میں میری تنبیہ کے ایک ہفتے بعد صدر پوتن نے حملہ کر دیا۔ یوکرین کے فوجیوں اور شہریوں، مردوں اور عورتوں، جوان اور بوڑھوں غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے یوکرینیوں اپنے ملک کا بہادری سے دفاع کیا۔
امریکہ تیزی سے اور فیصلہ کن انداز سے حرکت مییں آیا اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر مکمل ہم آہنگی سے وہ کچھ کیا جو ہم نے کرنے کا کہا تھا: یعنی یوکرین کی حمایت کی، روس کو اپنے کیے کی قیمت چکانے پر مجبور کیا، [اور] نیٹو کو مضبوط کیا۔ اور ہاں یہ سب کچھ ہم نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کیا۔
ہماری بھرپور حمایت کے ساتھ یوکرین نے نے بھی وہی کچھ کیا جو کچھ اس نے کرنے کا کہا تھا: یعنی اپنی سرزمین کا، اپنی آزادی کا، [اور] اپنی جمہوریت کا دفاع کیا۔
آج میں جو کچھ کرنا چاہتا ہوں وہ آپ کو یہ بتانا ہے کہ یوکرین کے خلاف پوتن کی یہ اور بہت سے دیگر لحاظ سے جارحیت کی جنگ ایک تزویراتی ناکامی ہے اور یہ آنے والے کئی برسوں تک روس کی طاقت، اس کے مفادات اور اس کے اثر و رسوخ کو بہت زیادہ کم کرتی رہے گی۔ اس کے علاوہ میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے راستے کے بارے میں اپنا وژن بھی آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔
جب آپ صدر پوتن کے طویل المدتی تزویراتی مقاصد اوراہداف پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بارے میں کوئی شک نہیں رہتا کہ آج فوجی، اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے روس کی حالت یوکرین پر مکمل حملے سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے۔
جہاں پوتن کا مقصد طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں اُن کی کمزوری بھی آشکار ہوئی۔ جہاں انہوں نے تقسیم کرنے کی کوشش کی وہاں [لوگ] متحدہ ہوئے۔ جسے انہوں نے روکنے کی کوشش کی وہ کام یکدم ہوگیا۔ یہ نتائج حادثاتی نہیں ہیں۔ یہ یوکرین کے عوام کی ہمت اور یکجہتی کا اور یہ اُس سوچے سمجھے، فیصلہ کن، تیز اقدام کا براہ راست نتیجہ ہیں جو ہم نے اور ہمارے شراکت داروں نے یوکرین کے حق میں اٹھائے ہیں۔
پہلے، صدر پوتن اس جھوٹے دعوے کی بنیاد پر برسوں تک نیٹو کو کمزور کرنے اور تقسیم کرنے کی کوششیں کرتے رہے کہ یہ روس کے لیے خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2014 میں کریمیا اور مشرقی یوکرین پر روس کے حملہ کرنے سے پہلے نیٹو کا طرزعمل اس مشترکہ یقین کی عکاسی کرتا تھا کہ یورپ میں تصادم کا کوئی امکان نہیں۔ امریکہ نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے یورپ میں اپنی افواج کی تعداد نمایاں طور پر کم کر دی تھی یعنی امریکہ 1989 کی 315,000 کی تعداد کو کم کر کے 2013 کے آخر میں 61,000 تک لے آیا تھا۔ کئی یورپی ممالک کے دفاعی اخراجات میں برسوں سے کمی ہوتی چلی آ رہی تھی۔ نیٹو کے تب کے تزویراتی نظریے میں روس کو شراکت دار کا درجہ حاصل تھا۔
2014 میں کریمیا اور ڈونباس پر روس کے حملے کے بعد اس رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اتحادیوں نے دفاع پر اپنی مجموعی قومی آمدنی کا دو فیصد خرچ کرنے کا وعدہ کیا اور روسی جارحیت کی صورت میں نیٹو کے مشرقی بازو میں نئی فوجیں تعینات کیں۔ [نیٹو] اتحاد نے روس کے بڑے پیمانے پر حملے کے بعد اپنی تبدیلی کے عمل کو تیز کر دیا جس کی وجوہات کسی کے لیے خطرہ بننا یا نیٹو کا لڑائی کرنے کی کوشش کرنا نہ تھیں۔ نیٹو ہمیشہ سے ایک دفاعی اتحاد چلا آر رہا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ لیکن روس کی جارحیت، دھمکیوں، جوہری ہتھیاروں کی نمائش نے ہمیں اپنے دفاع اور خطرات کو دور رکھنے کی اپنی صلاحيتوں کو مضبوط کرنے پر مجبور کر دیا۔
بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملے کے چند گھنٹے بعد ہم نے نیٹو کی دفاعی رسپانس فورس کو متحرک کیا۔ اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں برطانیہ، جرمنی، نیدرلینڈز، ڈنمارک، سپین، فرانس سمیت کئی اتحادیوں نے نیٹو کے مشرقی بازو کو مضبوط بنانے کے لیے تیز رفتاری سے فوجیں، طیارے اور بحری جہاز بھیجے۔ ہم نے شمالی اور بالٹک سمندروں میں گشت کرنے والے بحری جہازوں کی تعداد کو دگنا کر دیا اور خطے میں جنگی گروپوں کی تعداد بھی دگنا کر دی۔ امریکہ نے پولینڈ میں پہلی مرتبہ اپنی مستقل فوجی موجودگی تشکیل دی۔ اور ہاں نیٹو نے فن لینڈ کو اپنے اکتیسویں اتحادی کے طور پر شامل کیا جبکہ ہم جلد ہی سویڈن کو بتیسویں اتحادی کے طور پر شامل کریں گے۔
اب ہم ولنیئس میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں جہاں ہم سب کا یہ واضح اور مشترکہ پیغام ہوگا کہ نیٹو کے اتحادی دفاعی قوت اور خطرات کو دور رکھنے کی صلاحيتوں میں اضافے، زیادہ اور بہتر دفاعی اخراجات، بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت داروں کے ساتھ گہرے تعلقات کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ نیٹو کے دروازے نئے اراکین کے لیے کھلے ہیں اور یہ کھلے رہیں گے۔
روس کے حملے نے یورپی یونین کو پہلے سے کہیں زیادہ کام کرنے بلکہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے یوکرین کو 75 ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی، اقتصادی، اور انسانی امداد فراہم کی ہے۔ اس میں 18 ارب ڈالر کی سلامتی سے متعلق امداد بھی شامل ہے جس میں فضائی دفاع کے نظاموں سے لے کر ليپرڈ ٹینک اور گولہ بارود تک شامل ہیں۔ یورپی یونین نے امريکہ، برطانيہ اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطہ کاری سے کام کرتے ہوئے اپنی اب تک کی سب سے زیادہ جامع پابندیاں لگانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں روس کے آدھے سے زیادہ خودمختار اثاثے غيرفعال ہو جائیں گے۔ یورپی ممالک آٹھ ملین سے زیادہ یوکرینی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دے چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو نہ صرف سرکاری سہولتوں تک رسائی دی گئی ہے بلکہ انہیں کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے کے حفقوق بھی دیئے گئے ہیں۔
دوسرے، ماسکو نے دہائیوں تک یورپ کے روس کے تیل اور گیس پر انحصار میں اضافہ کرنے پر کام کیا۔ صدر پوتن کے بڑے پیمانے پر حملے کے بعد یورپ نے روسی توانائی [پر انحصار] تیزی سے اور فیصلہ کن انداز سے کم کیا ہے۔ برلن نے فوری طور پر نورڈ سٹريم 2 [نامی پائپ لائن کے منصوبے] کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس سے جرمنی کو روسی گیس کی ترسیل دوگنا ہو جانا تھی۔
پوتن کے حملے سے پہلے یورپی ممالک اپنی قدرتی گیس کا 37 فیصد روس سے درآمد کیا کرتے تھے۔ یورپ نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس مقدار میں نصف سے زیادہ کی کمی کی ہے۔ 2022 میں یورپی یونین کے ممالک نے اپنی بجلی کا پانچواں حصہ ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کیا۔ بجلی کی یہ مقدار کوئلے، گیس، یا کسی دوسرے ذریعے سے بجلی پیدا کرنے سے زیادہ ہے۔ امریکہ نے اپنے ہاں سے یورپ کو گیس کی سپلائی دوگنا کر دی ہے۔ جبکہ ایشیا میں ہمارے اتحادیوں جاپان، اور جمہوریہ کوریا نے بھی یورپ کی سپلائی میں اضافہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
دریں اثنا ہم نے اور ہمارے جی سيون شراکت داروں نے تیل کی زیادہ سے زیادہ قیمتوں کی جو حد مقرر کی ہے اس نے عالمی منڈی میں روس کی توانائی کی موجودگی کو تو برقرار کھا ہے مگر اس اقدام سے روس کی آمدنی میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ روس کے حملے کے ایک برس بعد اس کی تیل کی آمدنی 43 فیصد کم ہو چکی ہے۔ روسی حکومت کے تیل اور گیس پر لگائے جانے والے ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی میں تقریباً دو تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ ماسکو کو یورپ کی وہ منڈیاں واپس نہیں مل سکیں گی جو وہ کھو چکا ہے۔
تیسرے، صدر پوتن نے دو دہائیاں روس کی فوج کو ایک ایسی جدید فورس میں ڈھالنے کی کوششوں میں گزاریں جو جدید ترین ہتھیاروں اور اچھے اسلحے سے لیس ہو اور جس کی کمانڈ خامیوں سے مبرا ہو، اور اچھی تربیت یافتہ ہو۔ کریملن اکثر دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے زیادہ مضبوط فوج ہے، اور بہت سے لوگ اس دعوے پر یقین بھی کرتے تھے ۔ مگر آج بہت سے لوگ [دنیا کی بجائے] یوکرین میں روس کی فوج کو دوسری طاقتور ترین فوج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ماسکو یوکرین اور یوکرینیوں کو تباہ کن، اندھا دھند اور غیرضروری نقصان پہنچا رہا ہے مگر اس کا سازوسامان، ٹیکنالوجی، قیادت، فوج، حکمت عملی اور حوصلے ناکامی کی ایک ایسی داستان بن چکے ہیں جو تجزیے کا تقاضا کرتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صرف پچھلے چھ مہینوں میں روس کو 100,000 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پوتن [اب بھی] گوشت کا قیمہ بنانے والی اپنی ہی تیار کردہ مشین میں روسیوں کو جوق در جوق جھونکتے چلے جا رہے ہیں۔
دریں اثنا، امریکہ، یورپی یونین، اور دنیا کے دیگر شراکت داروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور برآمدی قدغنوں نے روس کی جنگی مشین اور دفاعی برآمدات کو شدید تنزلی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ کئی برس پيچھے چلا گیا ہے۔ روس کے عالمی دفاعی شراکت دار اور گاہک اب، فاضل پرزوں کی تو بات ہی کیا کرنا بلکہ پہلے سے دیئے گئے آرڈروں پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے۔ چونکہ وہ میدان جنگ میں روس کی خراب کارکردگی کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس لیے وہ تیزی سے اپنے کاروبار کو کہیں اور لے کر جا رہے ہیں۔
چوتھے، صدر پوتن روس کو ایک عالمی، اقتصادی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ ان کے حملے نے روس کی معیشت کو متنوع بنانے، اس کے انسانی سرمائے کو مضبوط کرنے، ملک کو عالمی معیشت میں مکمل طور پر ضم کرنے میں ان کی طویل عرصے سے جاری ناکامی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آج روس کی معیشت اپنے ماضی کا سایہ بن چکی ہے اور اگر پوتن نے ہتھیاروں اور جنگ کی بجائے پیسہ ٹکنالوجی اور اختراعات پر لگایا ہوتا تو اس کے نتیجے میں روس جو کچھ ہوتا آج وہ اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
روس کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نصف سے زیادہ کم ہوگئے ہیں جبکہ اس کے سرکاری اداروں کے منافعوں کی حالت بھی یہی ہے۔ حملے کے آغاز کے بعد سے 1,700 سے زیادہ غیر ملکی کمپنیوں نے روس میں اپنی [کاروباری] سرگرمیوں کو کم، معطل یا ختم کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں ملازمتیں ختم ہو گئیں، غیر ملکی ماہرین کی بڑی تعداد ملک چھوڑ گئی، اور کریملن کی آمدنی میں اربوں ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
دس لاکھ لوگ روس چھوڑ گئے ہیں جن میں ملک کے آئی ٹی کے ہہت سے سرکردہ ماہرین، کاروباری افراد، انجنیئر، ڈاکٹر، پروفیسر، صحافی، اور سائنسدان شامل ہیں۔ لاتعداد فنکار، ادیب، فلم ساز، موسیقار بھی چلے گئے ہیں جن کو ایک ایسے ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنی بات نہیں کر سکتے۔
پانچویں، صدر پوتن نے یہ ظاہر کرنے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کیں کہ چین روس کا قابل قدر شراکت دار ثابت ہو جائے۔ حملے کے موقع پر بیجنگ اور ماسکو نے “لامحدود” شراکت داری کا اعلان کیا۔ حملے کے اٹھارہ ماہ بعد یہ دو طرفہ شراکت داری اپنی بہترین حالت میں بھی یک طرفہ دکھائی دیتی ہے۔ پوتن کی جارحیت اور روس کے تزویراتی انحصار کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے نے پوری دنیا کی حکومتوں کی اس بارے میں آنکھیں کھول دی ہیں کہ وہ خطرات سے بچنے کے لیے کوششیں کریں۔ امریکہ اور ہمارے شراکت دار مل کر ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن کا تعلق انتہائی اہم رسدوں کے سلسلوں کو زیادہ لچکدار بنانے سے لے کر معاشی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مشترکہ وسائل کو مضبوط بنانے تک سے ہے۔
لہذا روس کی جارحیت نے بحرہند و بحرالکاہل میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے پر سے ہماری توجہ نہیں ہٹائی۔ در حقیقیت اس نے ان [چیلنجوں] پر ہماری توجہ میں مزيد اضافہ کر دیا ہے۔ یوکرین کے لیے ہماری حمایت نے چین یا کہیں اور سے لاحق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیتوں کو کمزور نہیں کیا۔ بلکہ اس نے انھیں مضبوط کیا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ بیجنگ یہ بات سمجھ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی سنگین خلاف ورزیوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے دنیا اس کے دفاع میں اکٹھی ہو چکی ہے۔
چھٹے، جنگ سے پہلے صدر پوتن نے اقوام متحدہ کے منشور کو کمزور کرنے کی کوشش میں بین الاقوامی اداروں میں روس کے اثر و رسوخ کو باقاعدگی سے استعمال کیا۔ آج روس عالمی سطح پر پہلے سے کہیں زیادہ تنہا کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کے کم از کم دو تہائی رکن ممالک یعنی 140 ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی توثیق کرنے، یوکرین کے علاقے کا غیر قانونی الحاق کرنے کی پوتن کی کوششوں کو مسترد کرنے، روس کی جارحیت اور مظالم کی مذمت کرنے، اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کے مطابق امن کے قيام کے حق میں بار بار ووٹ دیئے ہیں۔ مغرب اور مشرق، شمال اور جنوب کی حکومتوں نے روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے لے کر بین الاقوامی شہری ہوا بازی کی تنظیم تک متعدد اداروں سے معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیئے ہیں۔ یونیسیف کے گورننگ بورڈ سے لے کر اقوام متحدہ کے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیوں کے ذمہ دار ادارے، آئی ٹی يو کی قیادت تک بین الاقوامی اداروں کی کلیدی نشستوں کے لیے کھڑے ہونے والے روسی امیدوار یکے بعد دیگرے ہارتے چلے جا رہے ہیں۔
ماسکو کی ہر سرزنش اورنقصان نہ صرف روس کی جارحیت کے خلاف ایک ووٹ ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں کے حق میں بھی ووٹ ہے۔ دنیا بھر کے ملک روس کو اس کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھہرانے کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ [اِن کوششوں] میں روس کی طرف سے جنگ میں کیے جانے والے جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں دستاويزی شکل ميں پيش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کمیشن کی تشکیل سے لے کر یوکرین میں سرکاری وکلاء کی تحقیقات میں مدد تک شامل ہے۔
ساتویں، صدر پوتن، برسوں سے مغرب کو باقی ممالک سے الگ کرنے کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روس ترقی پذیر دنیا کے بہترین مفادات کو فروغ دے رہا ہے۔ آج کھلے عام اپنے سامراجی عزائم کا اعلان کرنے اور خوراک اور ایندھن کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرنے کی بدولت صدر پوتن نے تمام براعظموں میں روسی اثر و رسوخ کو کم کر دیا ہے۔ پوتن کی صدیوں پرانی سلطنت کی تشکیل نو کی کوششوں نے ہر اُس ملک کو وہ درد یاد دلا دیا ہے جس نے نوآبادیاتی حکمرانی اور جبر بھگتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمی منڈیوں میں یوکرین کے اناج کی سپلائی منقطع کرکے ہر کہیں اناج اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ اس سے کووڈ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی سے معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
موازنہ کیا جائے تو ایک کے بعد دوسرے عالمگیر مسئلے پر امریکہ اور ہمارے شراکت داروں نے ثابت کیا ہے کہ یوکرین پر ہماری توجہ کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے اور روس کی جارحیت کے پھیلتے اثرات سے نمٹنے کے کام سے ہماری توجہ نہیں ہٹے گی۔
ہماری بے مثال غذائی امداد نے لاکھوں لوگوں کو بھوکوں مرنے سے بچایا۔ گزشتہ برس ہی امریکہ نے دنیا بھر میں 13.5 ارب ڈالر کی غذائی امداد مہیا کی۔ اس وقت امریکہ اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک کا نصف سے زیادہ بجٹ مہیا کر رہا ہے جبکہ اس میں روس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
ہم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گتیرس اور ترکیہ کی ثالثی سے طے پانے والے ایک معاہدے میں تعاون کیا جس کا مقصد یوکرین کے اناج کو روس کی گرفت سے چھڑانا تھا۔ اس اقدام کی بدولت یوکرین سے 29 ملین ٹن خوراک دنیا بھر میں بھیجی گئی۔ اس میں 8 ملین ٹن وہ گندم بھی شامل ہے جو تقریباً 16 ارب روٹیوں کے برابر ہے۔
ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسے ممالک میں اعلیٰ معیار کے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں مدد دینے کے لئے کئی ارب ڈالر اکٹھے کر رہے ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ڈھانچے شفاف اور ماحول دوست انداز میں تعمیر کئے جا رہے ہیں اور اس سے مقامی کارکنوں اور لوگوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملتی ہے۔
ہم براعظم ہائے امریکہ میں طبی شعبے کے نصف ملین لوگوں کی تربیت سے لے کر دواساز کمپنی موڈرنا کو کینیا میں ‘ایم آر این اے’ ویکسین تیار کرنے والی افریقہ کی پہلی کمپنی قائم کرنے میں معاونت کے لیے مدد دینے تک بہت سے اقدامات کے ذریعے عالمگیر طبی تحفظ کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
وقتاً فوقتاً ہم یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ عالمگیر مسائل کی آگ کون بھڑکاتا ہے اور کون اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ صدر پوتن کا بنیادی مقصد بلکہ ان کے ذہن پر چھایا خیال یہ ہے کہ یوکرین کے بنیادی تصور یعنی اس کی شناخت، اس کی ثقافت، اس کی خودمختاری اور اس کی سرزمین کو ختم کر دیا جائے۔ تاہم یہاں بھی پوتن کے اقدامات کا الٹ نتیجہ نکلا ہے۔ کسی نے بھی یوکرین کی قومی شناخت کو مضبوط بنانے کے لیے اِس شخص سے زیادہ کام نہیں کیا جو کہ خود اسے ختم کرنا چاہتا تھا۔ کسی نے یوکرین کے اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے اتنا کام نہیں کیا۔ کسی نے یوکرین کے لوگوں کے اپنا مستقبل اپنی شرائط پر طے کرنے کے عزم کو پختہ تر کرنے کے لیے اتنا کچھ نہیں کیا جو کچھ پوتن کے اقدامات کے باعث ہوا ہے۔
یوکرین کبھی بھی روس کا حصہ نہیں بنے گا۔ یوکرین خودمختار اور آزاد حیثیت میں موجود ہے اور اس کا مقدر پوری طرح اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس طرح پوتن کو اپنے بنیادی مقصد کے حصول میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
صدر پوتن نے تواتر سے دعوے کیے کہ امریکہ، یورپ اور یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک روس کو شکست دینا یا اسے تباہ کرنا، اس کی حکومت کا تختہ الٹنا اور اس کے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ ہم روس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی کبھی ہماری یہ خواہش رہی ہے۔ روس کے مستقبل کا فیصلہ روس کے عوام کو کرنا ہے۔
ہماری روس کے لوگوں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں اور اُن کا اس المناک جنگ کو شروع کرنے میں کوئی کردار نہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ پوتن روس کے ہزاروں لوگوں کو ایک ایسی جنگ کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں جو اگر وہ چاہیں تو اسی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ وہ روس کی معیشت اور اس کی ترقی کے امکانات پر تباہ کن اثرات ڈال رہے ہیں۔ درحقیقت یہ لازمی پوچھا جانا چاہیے کہ پوتن کی جنگ نے روس کے شہریوں کی زندگیوں، ان کے روزگار یا ایک عام روسی شہری کے مستقبل کے امکانات کو کیسے بہتر بنایا ہے؟
ہم اور ہمارے اتحادی و شراکت دار پوتن کے حملے کے جواب میں جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ یوکرین کے لوگوں کی اپنی خودمختاری، اپنی علاقائی سالمیت اور آزادی کے تحفظ میں مدد کی جائے اور اُن عالمی قوانین و اصولوں کے لیے کھڑا ہوا جائے جن کو پوتن کی اس جنگ سے خطرہ لاحق ہے۔
میں روس کے لوگوں سے براہ راست یہ بات کہنا چاہتا ہوں۔ امریکہ آپ کا دشمن نہیں ہے۔ سرد جنگ کے پُرامن اختتام پر ہم نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ روس روشن مستقبل کے حامل، آزاد، کھلے اور دنیا کے ساتھ پوری طرح مربوط ملک کی حیثیت سے ابھرے گا۔ 30 سال سے زیادہ عرصہ تک ہم نے ماسکو کے ساتھ مستحکم اور تعاون پر مبنی تعلقات پر کام کیا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ پُرامن، محفوظ اور خوشحال روس ہی امریکہ اور دنیا کے مفاد میں ہے۔ ہم آج بھی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں۔
ہم آپ کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور ہم ایسا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن ہم صدر پوتن کو دوسروں پر اپنی خواہشات مسلط کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔ ماسکو کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایوں کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا اسی طرح احترام کرے جس طرح کا احترام وہ روس کے لیے چاہتا ہے۔
اب، جیسا کہ میں واضح کر چکا ہوں کہ صدر پوتن کا یوکرین پر حملہ ہر اعتبار سے ایک تزویراتی ناکامی بن چکا ہے۔ تاہم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہنے کے باوجود انہوں نے اپنی روش نہیں بدلی۔ انہیں یقین ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روسی شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر اور یوکرین کے لوگوں پر زیادہ سے زیادہ مصائب کے پہاڑ توڑ کر یوکرین اور اس کے حامیوں کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مختصر مدتی ناکامی کے باوجود وہ طویل مدتی جنگ جیت سکتے ہیں۔ تاہم پوتن یہاں بھی غلط ہیں۔
امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ آج، کل اور مقصد کے حصول تک یوکرین کے دفاع میں مدد کرنے کے لیے پوری طرح پُرعزم ہے۔ امریکہ کو اپنے ہاں کی دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پوتن کے ارادوں کے حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بامعنی سفارت کاری اور حقیقی امن کی پیشگی شرائط میں مضبوط اور مستقبل میں کسی بھی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور اپنے دفاع کی اہلیت کا حامل یوکرین کا شامل ہونا ضروری ہے۔
ہم نے اس کوشش کے لیے ایک طاقت ور ٹیم تشکیل دی ہے۔ وزیر دفاع آسٹن کی قیادت میں 50 سے زیادہ ممالک یوکرین کے دفاعی رابطہ گروپ کے ذریعے تعاون کر رہے ہیں۔ ہم اپنی مثال کی طاقت سے ان اقدامات کی قیادت کر رہے ہیں اور یوکرین کو دسیوں ارب ڈالر مالیت کی دفاعی امداد دے رہے ہیں جس کے لیے ہمیں اپنی کانگریس کے دونوں فریقین کی موثر اور غیرمتزلزل حمایت حاصل ہے۔
آج امریکہ اور ہمارے اتحادی و شراکت دار یوکرین کی موجودہ میدان جنگ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی فوج کی تیاری میں معاونت فراہم کر رہے ہیں جو آنے والے برسوں میں کسی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور دفاع کے قابل ہو۔ اس کا مطلب طویل مدتی مالی معاونت کے ذریعے مستقبل کے لیے یوکرین کی فوج تیار کرنا ہے جس میں جدید لڑاکا طیاروں کی حامل مضبوط فضائیہ، فضائی اور میزائل دفاع کا مربوط نیٹ ورک، جدید ٹینک اور بکتربند گاڑیاں، اندرون ملک گولہ بارود کی تیاری کی صلاحیت اور فوج اور دفاعی سازوسامان کو جنگ کے لیے تیار رکھنے کے لیے درکار تربیت اور مدد کی فراہمی شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کا فیصلہ روس نہیں بلکہ یوکرین اور اس کے اتحادی کریں گے۔ امن کا راستہ یوکرین کی طویل مدتی عسکری طاقت سے ہی نہیں نکالا جائے گا بلکہ اس کے لیے یوکرین کی معیشت اور جمہوریت کی طاقت بھی درکار ہو گی۔ یہ بات مستقبل کے لیے ہمارے تصور میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یوکرین کو ناصرف قائم رہنا ہے بلکہ اسے پھلنا پھولنا بھی ہے۔ جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنی سرحدوں سے باہر روکنے اور اپنا دفاع کرنے کے لیے یوکرین کو اندرون ملک متحرک اور خوشحال جمہوریت درکار ہے۔
یہی وہ راستہ ہے جسے یوکرین کے لوگوں نے 1991 میں آزادی حاصل کرتے وقت منتخب کیا تھا۔ یہی وہ انتخاب ہے جس کا دفاع انہوں نے 2004 میں میڈان میں اور پھر 2013 میں کیا۔ یہ ایک ایسے آزاد اور کھلے معاشرے کا تصور ہے جس میں انسانی حقوق اور قانون کا احترام ہو اور ملک یورپ کے ساتھ پوری طرح مربوط ہو جہاں تمام شہریوں کو اپنی مکمل صلاحیتوں سے کام لینے کے لیے وقار اور مواقع میسر ہوں اور جہاں حکومت مخصوص مفادات کی تکمیل اور اشرافیہ کے بجائے اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرے۔
ہم یوکرین کو یہ تصور حقیقت میں بدلنے میں مدد دینے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم یوکرین کو ناصرف اپنی معیشت کی تعمیرنو میں مدد دیں گے بلکہ نئی صنعتوں، تجارتی راستوں اور یورپ نیز دنیا بھر کی منڈیوں کے ساتھ مربوط تجارتی ترسیل کے نظام کے ذریعے ایک نیا تصور بھی پیش کریں گے۔ ہم یوکرین میں انسداد بدعنوانی کے آزاد اداروں، آزاد اور متحرک صحافت اور سول سوسائٹی کے اداروں کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم یوکرین کو اپنے توانائی کے نظام کی مرمت میں مدد دیں گے جس میں نصف سے زیادہ روس کے ہاتھوں تباہ ہو چکا ہے اور ہم یہ سب کچھ اس انداز سے کریں گے جو ماحول دوست، مستحکم اور اس کے ہمسایوں کے ساتھ مزید مربوط ہو تاکہ ایک دن یوکرین توانائی برآمد کرنے والا ملک بن سکے۔
ان تمام کوششوں کے لیے یوکرین کا یورپ کے ساتھ بھرپور انضمام لازمی اہمیت رکھتا ہے۔ کیئف نے گزشتہ برس جون میں اس سمت میں ایک بہت بڑا قدم اٹھایا جب یورپی یونین نے رسمی طور پر یوکرین کو اپنی رکنیت کے امیدوار کا درجہ دیا تھا۔ کیئف اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے بھی یورپی یونین میں شمولیت کی شرائط پوری کرنے کی جانب پیش رفت کر رہا ہے۔
یوکرین کو مضبوط بنانے کا کام سفارت کاری کی قیمت پر نہیں ہو گا بلکہ اس سے سفارت کاری کی راہ ہموار ہو گی۔ صدر زیلنسکی نے تواتر سے کہا ہے کہ سفارت کاری اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے اور ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ دسمبر میں انہوں نے منصفانہ اور پائیدار امن کا تصور پیش کیا تھا۔ تاہم صدر پوتن نے اس تجویز پر غور کرنے یا جواباً اپنی تجاویز پیش کرنے کے بجائے کہا کہ جب تک یوکرین “نئے زمینی حقائق” کو قبول نہیں کرتا اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ باالفاظ دیگر، ان کا کہنا تھا کہ یوکرین اپنے 20 فیصد علاقے پر روس کا قبضہ تسلیم کرے۔ پوتن نے اس موسم سرما میں یوکرین کے لوگوں کو سردی سے ہلاک کرنے کی کوشش کی اور پھر ان پر بم برسائے۔ روس روزانہ یوکرین میں رہائشی عمارتوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر میزائلوں اور ڈرون کی بارش کر رہا ہے۔
دور سے دیکھا جائے تو روس کے ایسے اور ان جیسے دیگر مظالم پر خاموش رہنا آسان ہے۔ ان میں گزشتہ ہفتے نیپرو میں ایک طبی مرکز پر ڈرون حملے میں ڈاکٹروں سمیت چار افراد کی ہلاکت یا مئی میں کیئف پر ہائپر سونک میزائلوں سمیت 17 حملے یا اپریل میں محاذ جنگ سے سینکروں میل دور اومن شہر پر میزائل کے حملے جیسے واقعات شامل ہیں جن میں 23 شہری ہلاک ہوئے۔ اومن میں صبح سورج نکلنے سے پہلے رہائشی عمارتوں پر بہت سے راکٹ برسائے گئے۔ ایسی ایک عمارت میں حملے کے وقت دمترو نامی ایک باپ بھاگ کر دوسرے کمرے میں گیا جہاں اس کے 17 اور 11 سالہ بچے کیریلو اور صوفیہ سو رہے تھے۔ تاہم جب اس نے ان کی خواب گاہ کا دروازہ کھولا تو آگے اسے کمرے میں صرف آگ اور دھواں دکھائی دیا۔ اس کے بچے ہلاک ہو چکے تھے۔ دو مزید معصوموں کی زندگیوں کے چراغ بجھ چکے تھے۔ روس نے ایک ہی حملے میں چھ میں سے دو بچوں کو ہلاک کر دیا۔ روس کی اس جارحانہ جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں بچوں میں مزید دو کا اضافہ ہو گیا۔ مزید ہزاروں بچے زخمی ہو چکے ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جنہیں ان کے والدین سے زبردستی جدا کر کے روسی خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پوتن کی جارحانہ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ سب بچے یوکرینی بچوں کی اُس نسل کا حصہ ہیں جو دہشت زدہ، صدمے سے دوچار اور پوتن کی جارحیت کی جنگ کا شکار ہے۔ یہ سب بچے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یوکرین کے لوگ اپنی قوم اور منصفانہ و پائیدار امن کے حق کا دفاع کرنے کے لیے اتنی جوانمردی سے کیوں لڑ رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ واقعی امن چاہتا تو ہم یوکرین کی مدد کرنا بند کر دیتے اور اگر یوکرین واقعتاً امن کا خواہاں تھا تو وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے اس پانچویں حصے سے دستبردار ہو جاتا جس پر روس کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ آئیے ایک لمحے کے لیے اس مفروضے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر پوتن کو ان کی جارحیت کا انعام یوکرین کے بیس فیصد علاقے پر قبضے کی صورت میں دے دیا جائے تو کیا روس کے ہمسائے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے حوالے سے پُراعتماد محسوس کریں گے؟
ایسے میں دھمکیوں اور جارحیت کی تاریخ رکھنے والی کسی غنڈہ گردی کرنے والی ریاست کے قریب کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کو کیسے محفوظ سمجھے گا؟ اگر پوتن کو اقوام متحدہ کے منشور میں شامل ایک بنیادی اصول کو پامال کرنے کی اجازت مل گئی تو مستقبل کے جارحین اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ کیا تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ اپنے ہمسایہ ملک کو ہڑپ کرنے والے جارح ممالک نے اسی پر اکتفا کیا ہو؟ ایسا کرنے کے بعد ولادیمیر پوتن کیا مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گے؟
امریکہ منصفانہ اور دیرپا امن کے بنیادی عناصر پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ ایسے ہر اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے جس میں صدر پوتن کو بامعنی سفارت کاری کے لئے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ ہم ایسی کوششوں کی حمایت کریں گے خواہ یہ برازیل یا چین یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب سے ہی کیوں نہ کی جائیں۔ اگر یہ اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہیں اور منصفانہ اور پائیدار امن میں مدد کرتی ہیں تو ہمیں یہ قبول ہوں گیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
منصفانہ اور پائیدار امن اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ہونا چاہیے اور اس میں خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کے اصولوں کی توثیق ہونا چاہیے۔
منصفانہ اور پائیدار امن یوکرین کی مکمل شمولیت اور رضامندی کا تقاضا کرتا ہے۔ یوکرین کے بغیر یوکرین پر کوئی بات نہیں ہو گی۔
منصفانہ اور پائیدار امن سے یوکرین کی تعمیرنو اور بحالی میں مدد ملنا چاہیے جس میں روس بھی اپنا حصے کا کام کرے۔
منصفانہ اور پائیدار امن سے احتساب اور مفاہمت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
منصفانہ اور پائیدار امن پابندیوں سے چھٹکارے کی راہ کھول سکتا ہے جس کا تعلق ٹھوس اقدامات خصوصاً فوجوں کی واپسی سے ہو گا۔ منصفانہ اور پائیدار امن کے ذریعے روس کی جارحانہ جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بعض ممالک جنگ بندی کے لیے کہیں گے۔ بظاہر یہ بہت معقول اور ایک پرکشش مطالبہ دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال کون نہیں چاہتا کہ جنگی فریقین اپنے ہتھیار رکھ دیں؟ کون نہیں چاہتا کہ ہلاکتیں بند ہوں؟
تاہم ایسی جنگ بندی جس سے موجودہ سرحدی صورتحال برقرار رہے، جس سے پوتن کو یوکرین میں اپنے زیرقبضہ علاقوں پر تسلط مستحکم کرنے کا موقع ملے اور پھر وہ تازہ دم ہو کر اور نئے سرے سے مسلح ہو کر دوبارہ حملہ کریں تو یہ امن منصفانہ اور پائیدار نہیں ہو گا۔ یہ پوتینی امن ہو گا۔ اس سے روس کے زمینی قبضے کو قانونی جواز میسر آئے گا۔ اس سے جارح کو انعام ملے گا جبکہ متاثرہ فریق کو سزا ملے گی۔
اگر اور جب روس حقیقی امن پر کام کرنے کے لیے رضامند ہو تو یوکرین اور دنیا بھر میں امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی مشاورت سے اس کا جواب دے گا۔ ہم یوکرین اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ یورپی سلامتی پر ایک ایسی وسیع تر بات چیت کے لیے تیار رہیں گے جس سے استحکام اور شفافیت آئے اور مستقبل میں جنگ کا امکان کم کرنے میں مدد ملے۔
آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں امریکہ اِن اصولوں کی بنیاد پر یوکرین اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ منصفانہ اور پائیدار امن میں مدد دینے کے لیے مخلص سوچ رکھنے والے تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا۔
فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت سے 74 برس قبل یعنی 4 اپریل 1949 کو اس اتحاد کے بانی ارکان اپنے بنیادی معاہدے پر دستخط کے لیے جمع ہوئے۔ اس موقع پر صدر ٹرومین نے گروپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا اور میں یہاں اُن کے الفاظ نقل کرتا ہوں کہ “اگر ہمارے لوگوں کے سروں پر جارحیت کا مستقل خطرہ منڈلاتا رہا اور اُن کے ممالک پر انفرادی طور پر کسی حملے کے خلاف دفاع کے اخراجات کا بوجھ ڈالا گیا تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم جارحیت اور اس کے خطرے کے خلاف ایک ایسی ڈھال تیار کرنے یعنی ایک ایسی فصیل کھڑی کرنے کی امید لیے ہوئے ہیں جس سے ہم سب کے [ملکوں] کے شہریوں کو بھرپور اور خوش و خرم زندگی کے حصول کے . . . حقیقی مقصد کے لیے کام کرنے کی آزادی ہو۔”
یہ بات موجودہ حالات پر بھی صادق آتی ہے۔ یوکرین، امریکہ، فن لینڈ اور سویڈن سمیت کوئی بھی ملک جارحیت کے مستقل خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یہ یقینی بنانے میں ہم سب کا مفاد ہے کہ یوکرین کے خلاف صدر پوتن کی جارحانہ جنگ ایک تزویراتی ناکامی ثابت ہو۔
یوکرین کے صدر نینسٹو نے اپنے ملک کے عوام سے نئے سال کے خطاب میں صدر پوتن کے یوکرین کو فتح کرنے کے منصوبے میں ایک بنیادی خامی کی نشاندہی کی۔ یہ ایسی خامی ہے جس نے سٹالن کے فن لینڈ کو فوری طور پر فتح کرنے کے منصوبے کو بھی ناکام بنا دیا تھا۔ صدر نینسٹو نے کہا اور میں ان کے الفاظ نقل کرتا ہوں “آمرانہ حکومت میں چلنے والے ملک کے رہنماؤں کی حیثیت سے سٹالن اور پوتن یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ آزاد ملک میں رہنے والے لوگوں کی اپی خواہشات اور اپنے اعتقادات ہوتے ہیں اور جو ملک اندرونی طور پر متحد ہو وہ ایک بہت بڑی قوت ہوتا ہے۔”
فن لینڈ میں قوت ارادی اور لگن کے لیے ‘سیسو‘ کا طاقتور لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فن لینڈ کے لوگ یوکرین کی جدوجہد میں موجود سیسو کو پہچانتے ہیں۔ جب یوکرین کے شہریوں جیسے آزاد لوگوں کو اپنے مقدر اور آزادی کی پہچان رکھنے والے دنیا بھر کے آزاد ممالک کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو ان کے حقوق اور سلامتی بھی یک جان دو قالب کے مصداق ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جو نہ صرف بے پایاں ہوتی ہے بلکہ اسے روکا بھی نہیں جا سکتا۔
آپ کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/russias-strategic-failure-and-ukraines-secure-future/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔