موازنہ کیا جائے تو ایک کے بعد دوسرے عالمگیر مسئلے پر امریکہ اور ہمارے شراکت داروں نے ثابت کیا ہے کہ یوکرین پر ہماری توجہ دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے اور روس کی جارحیت کے پھیلتے اثرات سے نمٹنے کے کام سے ہمارا دھیان نہیں بٹائے گی۔
ہماری بے مثال غذائی امداد نے لاکھوں لوگوں کو بھوکوں مرنے سے بچایا۔ گزشتہ برس ہی امریکہ نے دنیا بھر میں 13.5 بلین ڈالر کی غذائی امداد مہیا کی۔ اس وقت امریکہ اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک کا نصف سے زیادہ بجٹ مہیا کر رہا ہے جبکہ اس میں روس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
ہم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتیرش اور ترکیہ کی ثالثی سے طے پانے والے ایک معاہدے میں تعاون کیا جس کا مقصد یوکرین کے اناج کو روس کی گرفت سے چھڑانا تھا۔ اس اقدام کی بدولت یوکرین سے 29 ملین ٹن خوراک دنیا بھر میں بھیجی گئی۔ اس میں 8 ملین ٹن گندم بھی شامل ہے جو تقریباً 16 ارب روٹیوں کے مساوی ہے۔
ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسے ممالک میں اعلیٰ معیار کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد دینے کے لئے کئی بلین ڈالر اکٹھے کر رہے ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ڈھانچے شفاف اور ماحول دوست انداز میں تعمیر کئے جا رہے ہیں اور اس سے مقامی کارکنوں اور لوگوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملتی ہے۔
ہم براعظم ہائے امریکہ میں طبی شعبے کے نصف ملین لوگوں کی تربیت سے لے کر ادویہ ساز کمپنی موڈرنا کو کینیا میں ‘ایم آر این اے’ ویکسین تیار کرنے والی افریقہ کی پہلی سہولت قائم کرنے میں معاونت کے لئے مدد دینے تک بہت سے اقدامات کے ذریعے عالمگیر طبی تحفظ کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
وقتاً فوقتاً ہم یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ عالمگیر مسائل کی آگ کون بھڑکاتا ہے اور کون انہیں حل کرتا ہے۔
آخری بات یہ کہ صدر پیوٹن کا بنیادی مقصد بلکہ ان کے ذہن پر چھایا خیال یہ ہے کہ یوکرین کے بنیادی تصور یعنی اس کی شناخت، اس کے ثقافت، اس کی خودمختاری اور اس کی سرزمین کو ختم کر دیا جائے۔ تاہم یہاں بھی پیوٹن کے اقدامات کا الٹ نتیجہ نکلا ہے۔ کسی نے یوکرین کی قومی شناخت کو مضبوط بنانے کے لئے اس شخص سے زیادہ کام نہیں کیا جو اسے ختم کرنا چاہتا تھا۔ کسی نے یوکرین کے اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لئے اتنا کام نہیں کیا۔ کسی نے یوکرین کے لوگوں کے اپنا مستقبل اپنی شرائط پر طے کرنے کے عزم کو پختہ تر کرنے کے لئے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا صدر پیوٹن کے اقدامات کے باعث ہوا ہے۔
یوکرین کبھی روس کا حصہ نہیں بنے گا۔ یوکرین خودمختار اور آزاد حیثیت میں موجود ہے اور اس کا مقدر پوری طرح اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس طرح پیوٹن اپنے بنیادی مقصد کے حصول میں واضح طور پر ناکام رہے ہیں۔
صدر پیوٹن نے تواتر سے دعوے کئے کہ امریکہ، یورپ اور یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک روس کو شکست دینا یا اسے تباہ کرنا، اس کی حکومت کا تختہ الٹنا اور اس کے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ ہم روس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی کبھی ہماری یہ خواہش رہی ہے۔ روس کے مستقبل کا فیصلہ روس کے عوام کو کرنا ہے۔
ہماری روس کے لوگوں کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے جن کا اس المناک جنگ کو شروع کرنے میں کوئی کردار نہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ پیوٹن روس کے ہزاروں لوگوں کو ایسی جنگ کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں جو وہ چاہیں تو اسی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ وہ روس کی معیشت اور اس کی ترقی کے امکانات پر تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں۔ درحقیقت یہ لازمی پوچھا جانا چاہئیے کہ پیوٹن کی جنگ نے روس کے شہریوں کی زندگیوں، ان کے روزگار یا عام روسی شہری کے مستقبل کے امکانات کو کیسے بہتر کیا؟
ہم اور ہمارے اتحادی و شراکت دار پیوٹن کے حملے کے جواب میں جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ یوکرین کے لوگوں کو اپنی خودمختاری، اپنی علاقائی سالمیت اور آزادی کے تحفظ میں مدد دی جائے اور عالمی قوانین و اصولوں کے لئے کھڑا ہوا جائے جن کو پیوٹن کی اس جنگ سے خطرہ لاحق ہے۔
میں روس کے لوگوں سے یہ بات براہ راست کرنا چاہتا ہوں۔ امریکہ آپ کا دشمن نہیں ہے۔ سرد جنگ کے پُرامن اختتام پر ہم نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ روس روشن مستقبل کے حامل، آزاد، کھلے اور دنیا کے ساتھ پوری طرح مربوط ملک کی حیثیت سے ابھرے گا۔ 30 سال سے زیادہ عرصہ تک ہم نے ماسکو کے ساتھ مستحکم اور تعاون پر مبنی تعلقات کے لئے کام کیا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ پُرامن، محفوظ اور خوشحال روس ہی امریکہ اور دنیا کے مفاد میں ہے۔ ہم آج بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔
ہم آپ کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور ہم ایسا کرنےکی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن ہم صدر پیوٹن کو دوسروں پر اپنی خواہشات مسلط کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔ ماسکو کو چاہئیے کہ وہ اپنے ہمسایوں کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا اسی قدر احترام کرے جتنا وہ روس کے لئے چاہتا ہے۔
اب، جیسا کہ میں واضح کر چکا ہوں صدر پیوٹن کا روس پر حملہ ہر اعتبار سے ایک تزویراتی ناکامی ہے۔ تاہم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہنے کے باوجود وہ اپنی روش پر گامزن ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روسی شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر اور یوکرین کے لوگوں پر زیادہ سے زیادہ تکالیف مسلط کر کے یوکرین اور اس کے حامیوں کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مختصر مدتی ناکامی کے باوجود وہ طویل مدتی جنگ جیت سکتے ہیں۔ تاہم وہ یہاں بھی غلط ہیں۔
امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ آج، کل اور مقصد کے حصول تک یوکرین کے دفاع میں مدد دینے کے لئے پوری طرح پُرعزم ہے۔ امریکہ میں یہ حمایت دو جماعتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پیوٹن کے ارادوں کے حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بامعنی سفارت کاری اور حقیقی امن کے لئے مضبوط اور مستقبل میں کسی بھی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور اپنے دفاع کی اہلیت کا حامل یوکرین ضروری ہے۔
ہم نے اس کوشش کے لئے ایک طاقت ور ٹیم تیار کی ہے۔ وزیر دفاع آسٹن کی قیادت میں 50 سے زیادہ ممالک یوکرین کے دفاعی رابطہ گروپ کے ذریعے تعاون کر رہے ہیں۔ ہم اپنی مثال کی طاقت سے ان اقدامات کی قیادت کر رہے ہیں اور یوکرین کو دسیوں بلین ڈالر کی دفاعی امداد دے رہے ہیں جس کے لئے ہمیں اپنی کانگریس کے دونوں فریقین کی موثر اور غیرمتزلزل حمایت حاصل ہے۔
آج امریکہ اور ہمارے اتحادی و شراکت دار یوکرین کو موجودہ میدان جنگ میں پیش آنے والی ضروریات کی تکمیل میں مدد دے رہے ہیں اور ایک ایسی فوج کی تیاری میں معاونت فراہم کر رہے ہیں جو آنے والے برسوں میں کسی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور دفاع کے قابل ہو۔ اس کا مطلب طویل مدتی مالی معاونت کے ذریعے مستقبل کے لئے یوکرین کی فوج تیار کرنا ہے جس میں جدید لڑاکا طیاروں کی حامل مضبوط فضائیہ، فضائی اور میزائل دفاع کا مربوط نیٹ ورک، جدید ٹینک اور بکتربند گاڑیاں، اندرون ملک گولہ بارود کی تیاری کی صلاحیت اور فوج اور دفاعی سازوسامان کو جنگ کے لئے تیار رکھنے کے لئے ددرکار تربیت اور مدد کی فراہمی شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کا فیصلہ روس نہیں بلکہ یوکرین اور اس کے اتحادی کریں گے۔ امن کا راستہ یوکرین کی طویل مدتی عسکری طاقت سے ہی نہیں نکلے گا بلکہ اس کے لئے یوکرین کی معیشت اور جمہوریت کی طاقت بھی درکار ہو گی۔ یہ بات مستقبل کے لئے ہمارے تصور میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یوکرین کو ناصرف قائم رہنا ہے بلکہ اسے پھلنا پھولنا بھی ہے۔ جارحیت کرنے والوں کو اپنی سرحدوں سے باہر روکنے اور اپنا دفاع کرنے کے لئے یوکرین کو اندرون ملک متحرک اور خوشحال جمہوریت درکار ہے۔
یہی وہ راستہ ہے جسے یوکرین کے لوگوں نے 1991 میں آزادی حاصل کرتے وقت منتخب کیا تھا۔ یہی وہ انتخاب ہے جس کا دفاع انہوں نے 2004 میں میڈان میں اور پھر 2013 میں کیا۔ یہ آزاد اور کھلے معاشرے کا تصور ہے جس میں انسانی حقوق اور قانون کا احترام ہو اور ملک یورپ کے ساتھ پوری طرح مربوط ہو جہاں تمام شہریوں کو اپنی مکمل صلاحیتوں سے کام لینے کے لئے وقار اور مواقع میسر ہوں اور جہاں حکومت مخصوص مفادات کی تکمیل اور اشرافیہ کے بجائے اپنے لوگوں کی ضروریات کی ذمہ دار ہو۔
ہم یوکرین کو یہ تصور حقیقت میں بدلنے میں مدد دینے کے لئے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم یوکرین کو ناصرف اپنی معیشت کی تعمیرنو میں مدد دیں گے بلکہ نئی صنعتوں، تجارتی راستوں اور یورپ نیز دنیا بھر کی منڈیوں کے ساتھ مربوط تجارتی ترسیل کے نظام کے ذریعے ایک نیا تصور بھی پیش کریں گے۔ ہم یوکرین میں انسداد بدعنوانی کے آزاد اداروں، آزاد اور متحرک صحافت اور سول سوسائٹی کے اداروں کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم یوکرین کو اپنے توانائی کے نظام کی مرمت میں مدد دیں گے جس میں نصف سے زیادہ روس کے ہاتھوں تباہ ہو چکا ہے اور ہم یہ سب کچھ اس انداز میں کریں گے جو ماحول دوست، مستحکم اور اس کے ہمسایوں کے ساتھ مزید مربوط ہو تاکہ ایک دن یوکرین توانائی برآمد کرنے والا ملک بن سکے۔
ان تمام کوششوں کے لئے یوکرین کا یورپ کے ساتھ بھرپور انضمام لازمی اہمیت رکھتا ہے۔ کئیو نے گزشتہ برس جون میں اس سمت میں ایک بہت بڑا قدم اٹھایا جب یورپی یونین نے رسمی طور پر یوکرین کو اپنی رکنیت کے امیدوار کا درجہ دیا تھا۔ کئیو اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے بھی یورپی یونین میں شمولیت کی شرائط پوری کرنے کی جانب پیش رفت کر رہا ہے۔
یوکرین کو مضبوط بنانے کا کام سفارت کاری کی قیمت پر نہیں ہو گا بلکہ اس سے سفارت کاری کی راہ ہموار ہو گی۔ صدر زیلنسکی نے تواتر سے کہا ہے کہ سفارت کاری اس جنگ کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے اور ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ دسمبر میں انہوں نے منصفانہ اور پائیدار امن کا تصور پیش کی تھا۔ تاہم صدر پیوٹن نے اس تجویز پر غور کرنے یا جواباً اپنی تجاویز پیش کرنے کے بجائے کہا کہ جب تک یوکرین “نئے زمینی حقائق” کو قبول نہیں کرتا اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ باالفاظ دیگر، ان کا کہنا تھا کہ یوکرین اپنے 20 فیصد علاقے پر روس کا قبضہ تسلیم کرے۔ پیوٹن نے اس موسم سرما میں یوکرین کے لوگوں کو سردی سے ہلاک کرنے کی کوشش کی اور پھر ان پر بم برسائے۔ روس روزانہ یوکرین میں رہائشی عمارتوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر میزائلوں اور ڈرون کی بارش کر رہا ہے۔
دور سے دیکھا جائے تو روس کے ایسے اور ان جیسے دیگر مظالم پر خاموش رہنا آسان ہے۔ ان میں گزشتہ ہفتے نیپرو میں ایک طبی مرکز پر ڈرون حملے میں ڈاکٹروں سمیت چار افراد کی ہلاکت یا مئی میں کیئو پر ہائپر سونک میزائلوں سمیت 17 حملے یا اپریل میں محاذ جنگ سے سینکروں میل دور اومن شہر پر میزائل کے حملے جیسے واقعات شامل ہیں جس میں 23 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اومن میں صبح سے پہلے رہائشی عمارتوں پر بہت سے راکٹ برسائے گئے۔ ایسی ایک عمارت میں حملے کے وقت دمترو نامی باپ بھاگ کر دوسرے کمرے میں گیا جہاں اس کے 17 اور 11 سالہ بچے کیریلو اور صوفیہ سو رہے تھے۔ تاہم جب اس نے ان کی خواب گاہ کا دروازہ کھولا تو آگے کمرہ کے بجائے محض آگ اور دھواں دکھائی دیا۔ اس کے بچے ہلاک ہو چکے تھے۔ دو مزید معصوم جانیں چلی گئیں۔ روس نے ایک ہی حملے میں چھ میں سے دو بچوں کو ہلاک کر دیا۔ روس کی اس جارحانہ جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں بچوں میں مزید دو کا اضافہ ہو گیا۔ مزید ہزاروں بچے زخمی ہو چکے ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جنہیں ان کے والدین سے الگ کر کے روس کے خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پیوٹن کی جارحانہ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یوکرین میں بچوں کی ہر نسل دہشت زدہ ہو گئی ہے اور یہ تمام بچے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یوکرین کے لوگ اپنی قوم اور منصفانہ و پائیدار امن کے حق کا دفاع کرنے کے لئے اس قدر پرزور انداز میں کیوں لڑ رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ واقعی امن چاہتا تو ہم یوکرین کی مدد کرنا بند کر دیتے اور اگر یوکرین واقعتاً امن کا خواہاں تھا تو وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے اس پانچویں حصے سے دستبردار ہو جاتا جس پر روس کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ آئیے ایک لحظہ اس مفروضے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر پیوٹن کو ان کی جارحیت کا انعام یوکرین کے بیس فیصد علاقے پر قبضے کی صورت میں دے دیا جائے تو کیا روس کے ہمسایے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے حوالے سے پُراعتماد محسوس کریں گے؟
ایسے میں دھمکیوں اور جارحیت کی تاریخ رکھنے والی ایک غنڈہ گرد ریاست کے قریب کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کو محفوظ سمجھے گا؟ اگر پیوٹن کو اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل ایک بنیادی اصول کو پامال کرنے کی اجازت مل جائے تو مستقبل کے جارحین اس سے کیا سبق لیں گے؟ کیا تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ اپنے ہمسایہ ملک کو ہڑپ کر جانے والے جارح ممالک نے اسی پر اکتفا کر لیا ہو؟ کیا پیوٹن کبھی ایسا کر کے مطمئن بیٹھے ہیں؟
امریکہ منصفانہ اور دیرپا امن کے بنیادی عناصر پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ ایسے ہر اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے جس میں صدر پیوٹن کو بامعنی سفارت کاری کے لئے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ ہم ایسی کوششوں کی حمایت کریں گے خواہ یہ برازیل یا چین یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب سے ہی کیوں نہ پیش کی گئی ہوں۔ اگر وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی مطابقت سے منصفانہ اور پائیدار امن کے لئے مدد دیتے ہیں تو ہمیں یہ قبول ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ
منصفانہ اور پائیدار امن اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہونا چاہئیے اور اس میں خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کے اصولوں کی توثیق ہونی چاہئیے۔
منصفانہ اور پائیدار امن یوکرین کی مکمل شمولیت اور رضامندی کا تقاضا کرتا ہے۔ یوکرین کے بغیر یوکرین پر کوئی بات نہیں ہو گی۔
منصفانہ اور پائیدار امن سے یوکرین کی تعمیرنو اور بحالی میں مدد ملنی چاہئیے جس میں روس بھی اپنا حصہ ادا کرے۔
منصفانہ اور پائیدار امن سے احتساب اور مفاہمت کو یقینی بنایا جانا چاہئیے۔
منصفانہ اور پائیدار امن پابندیوں سے چھٹکارے کی راہ کھول سکتا ہے جس کا تعلق ٹھوس اقدامات خصوصاً فوجوں کی واپسی سے ہو گا۔ منصفانہ اور پائیدار امن کے ذریعے روس کی جارحانہ جنگ کا خاتمہ ہونا چاہئیے۔
آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بعض ممالک جنگ بندی کے لئے کہیں گے۔ بظاہر یہ بہت معقول اور پرکشش مطالبہ معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال کون نہیں چاہتا کہ جنگی فریقین اپنے ہتھیار رکھ دیں؟ کون نہیں چاہتا کہ ہلاکتیں بند ہوں؟
تاہم ایسی جنگ بندی جس سے موجودہ سرحدی صورتحال برقرار رہے، جس سے پیوٹن کو یوکرین میں اپنے زیرقبضہ علاقوں پر تسلط مستحکم کرنے کا موقع ملے اور پھر وہ تازہ دم ہو کر اور نئے سرے سے مسلح ہو کر دوبارہ حملہ کریں تو یہ منصفانہ اور پائیدار امن نہیں ہو گا۔ یہ پوٹیمکن کا امن ہو گا۔ اس سے روس کے زمینی قبضے کو قانونی جواز مل جائے گا۔ اس سے جارح کو انعام ملے گا اور متاثرہ فریق سزا بھگتے گا۔
اگر کبھی روس حقیقی امن کے لئے رضامند ہو تو امریکہ یوکرین اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی مشاورت سے اس کا جواب دے گا۔ یوکرین اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہم یورپی سلامتی پر وسیع تر بات چیت کے لئے تیار ہوں گے جس سے استحکام اور شفافیت آئے اور مستقبل میں جنگ کا امکان کم کرنے میں مدد ملے۔
آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں امریکہ یوکرین اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں نیز ان اصولوں کی مطابقت سے منصفانہ اور پائیدار امن میں مدد دینے کے لئے مخلص سوچ رکھنے والے تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت سے 74 برس قبل 4 اپریل 1949 کو اس اتحاد کے بانی ارکان اپنے بنیادی معاہدے پر دستخط کے لئے جمع ہوئے۔ اس موقع پر صدر ٹرومین نے گروپ کو خبردار کیا کہ “اگر ہمارے لوگوں کو جارحیت کا مستقل خطرہ درپیش رہے اور ہم پر کسی حملے کے خلاف اپنے ممالک کو انفرادی حیثیت میں تیار رکھنے کا بوجھ رہے تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمیں جارحیت اور اس کے خطرے کے خلاف تحفظ قائم کرنے اور ایک ایسی رکاوٹ کھڑی کرنے کی امید ہے جس سے ہمیں اپنے تمام شہریوں کے لئے بھرپور اور خوش و خرم زندگی کے حصول کے حقیقی مصقد کے لئے کام کرنے کی آزادی ہو۔”
یہ بات موجودہ حالات پر بھی صادق آتی ہے۔ یوکرین، امریکہ، فن لینڈ اور سویڈن سمیت کوئی بھی ملک جارحیت کے مستقل خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو فوائد نہیں پہنچا سکتا۔ لہٰذا یہ یقینی بنانے میں ہم سب کا مفاد ہے کہ یوکرین کے خلاف صدر پیوٹن کی جارحانہ جنگ تزویراتی ناکامی ثابت ہو۔
یوکرین کے صدر نینسٹو نے اپنے ملک کے عوام سے نئے سال کے خطاب میں صدر پیوٹن کے یوکرین کو فتح کرنے کے منصوبے میں ایک بنیادی خامی کی نشاندہی کی۔ یہ ایسی خامی ہے جس نے سٹالن کے فن لینڈ کو فوری طور پر فتح کرنے کے منصوبے کو بھی ناکام کیا تھا۔ جیسا کہ صدر نینسٹو نے کہا اور میں ان کے الفاظ دہراتا ہوں “آمرانہ حکومت میں چلنے والے ملک کے رہنماؤں کی حیثیت سے سٹالن اور پیوٹن یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ آزاد ملک میں رہنے والے لوگوں کی اپی خواہشات اور اعتقادات ہوتے ہیں اور جو ملک اندرونی طور پر متحد ہو وہ بہت بڑی قوت ہوتا ہے۔”
فن لینڈ میں قوت ارادی اور لگن کے لئے ‘سیسو’ کا طاقتور لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فن لینڈ کے لوگ یوکرین کی جدوجہد میں سیسو کو پہچانتے ہیں۔ جب یوکرین کے شہریوں جیسے آزاد لوگوں کو اپنے مقدر اور آزادی کی پہچان رکھنے والے دنیا بھر کے آزاد ممالک کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو ان کے حقوق اور سلامتی بھی لاینحل طور پر ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کی قوت محض بے پایاں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس روکنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔
آپ کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)
اصل عبارت پڑھنے کا لِنک : https://www.state.gov/russias-strategic-failure-and-ukraines-secure-future/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔