An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

اقوام متحدہ میں امریکی مشن
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل سفیر کا خطاب
5 اپریل، 2022

صدر محترمہ آپ کا شکریہ۔ مجھے اپنی بات کے آغاز میں یو اے ای اور سفیر نصیبہ کا شکریہ بھی ادا کرنا ہے جنہوں نے مارچ کے مہینے میں کونسل کی کامیابی سے صدارت کی۔ صدر محترمہ، اب جبکہ آپ سلامتی کونسل میں اپنی صدارت کا آغاز کر رہی ہیں تو میں آپ کے رہنما کردار اور آج یوکرین کے معاملے میں اس اہم بات چیت کو شروع کرنے پر برطانیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں سیکرٹری جنرل اور صورتحال کی نقشہ کشی کرنے والے دیگر افراد کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گی۔ مجھے صدر زیلنسکی کا گرم جوش خیرمقدم کرتے ہوئے خوشی ہو گی۔ میں حالیہ دنوں امریکہ کی کانگریس سے ان کا خطاب سن کر بے حد متاثر ہوئی اور آج وہ اور یوکرین جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے ان کی یہاں موجودگی ہمارے لیے واقعی ایک بڑا اعزاز ہے۔

صدر محترمہ، گزشتہ شب میں مولڈووا اور رومانیہ کے دورے سے واپس آئی۔ وہاں میں نے روس کی ناقابل جواز جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہاجرین کے بحران کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ میں نے مہاجرین سے بات کی جنہوں نے مجھے اپنے گھروں کو واپسی سے متعلق اپنی خواہشات سے آگاہ کیا۔ ہم سب بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے مناظر دیکھ چکے ہیں۔ لیکن جو ہم نے نہیں دیکھا وہ یہ ہے کہ ان تباہ شدہ عمارتوں کے پیچھے تباہ شدہ زندگیاں اور تباہ شدہ خاندان بھی پائے جاتے ہیں۔ میں ںے یوکرین سے جان بچا کر نکلنے والی خواتین اور بچوں سے ملاقات کی جنہوں نے محض سفری تھیلے اٹھا کر اپنے گھر چھوڑ دیے جو ان کا واحد ٹھکانہ تھے۔ ہمارے مابین سنجیدہ بات چیت ہوئی۔

میں نے ایک لڑکی سے بات کی جس کے ساتھ اس کا چھ سالہ بھائی بھی تھا جو آٹزم کا شکار ہے اور کینسر سے لڑ رہا ہے۔ ان کی والدہ نے انہیں زندگیاں بچانے کے لیے یوکرین سے فرار ہونے میں مدد دی لیکن روس کی جنگ کے باعث اب اس کے بھائی کو وہ نگہداشت میسر نہیں رہی جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔

میری ایک اور خاتون سے بات ہوئی جو اپنے آٹھ سالہ بھائی کے ساتھ اوڈیسا سے جان بچا کر آئی تھی۔ ان کا والد یوکرین میں ہی رہ گیا تھا جس نے انہیں فرار کی رات بتایا کہ ان کے اپارٹمنٹ کے قریب بمباری ہو رہی ہے اور اگر وہ اپنا گھر نہ چھوڑتے تو ہلاک ہو سکتے تھے۔

میں جس تیسری خاتون سے ملی اس نے مجھے بتایا کہ اسے سفر کرنا پسند تھا لیکن اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اگلے سفر میں اسے اپنی جان بچا کر نکلنا ہو گا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتی ہے تو اس نے اپنا تعارف کرانا شروع کیا اور پھر اس نے اپنی بات روک دی۔ اس کی آںکھوں میں آنسو تھے اور اس نے مجھے کہا ”میں معذرت چاہتی ہوں، میں نہیں جانتی یہ بات کیسے کہوں، آیا میں کیئو میں رہتی ہوں یا آیا میں کیئو میں رہتی تھی۔” اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نامعقول جنگ کے باعث کیسے اس کی زندگی تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔

یہ 10 ملین سے زیادہ لوگوں میں سے تین کی داستان ہے جن میں چھ ملین اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ چار ملین یوکرین چھوڑ چکے ہیں۔ چار ملین لوگوں کا مولڈووا، رومانیہ، پولینڈ، سلواکیہ اور ہنگری سمیت خطے کے دیگر ممالک اور دنیا بھر کی فراخ دلی پر انحصار ہے جو تحفظ کی تلاش میں یوکرین چھوڑنے والے تمام لوگوں کا خیرمقدم کر رہے ہیں اور انہیں مدد دے رہے ہیں۔ یوکرین کے ہمسایہ ممالک دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں مہاجرین کا سب سے بڑا بحران جھیل رہے ہیں۔ میں ان ممالک کو بتانا چاہتی ہوں کہ امریکہ کی صورت میں ان کے پاس ایک پُرعزم شراکت دار موجود ہے۔

اسی لیے امریکہ نے حالیہ دنوں اعلان کیا ہے کہ ہم یوکرین میں روس کی جنگ اور دنیا بھر میں اس جنگ کے بدترین اثرات جھیلنے والے لوگوں کو انسانی امداد دینے کے لیے ایک بلین ڈالر کی نئی مالی مدد مہیا کرنے کو تیار ہیں۔ اسی لیے ہم یوکرین کے 100,000 تک لوگوں اور روس کی جارحیت سے جان بچا کر آنے والے دیگر افراد کا امریکہ میں خیرمقدم کر رہے ہیں۔ ہم یوکرین کے لوگوں اور پیوٹن کے تشدد سے جان بچا کر آنے والے تمام افراد کی مدد کے لیے امدادی کوششوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔

تاہم میں نے مولڈووا اور رومانیہ میں جتنی تکلیف دہ داستانیں سنی ہیں، بعض اتنی ہی تکلیف دہ کہانیاں کبھی سامنے نہیں آئیں گی۔ یہ ان لوگوں کی داستانیں ہیں جنہیں ہم نے بوچا سے سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا ہے۔ ہم سب یہ ہولناک تصویریں دیکھ چکے ہیں۔ بے جان جسم سڑکوں پر پڑے ہیں جنہیں بظاہر گرفتاری کے بعد فوری طور پر ہلاک کیا گیا اور ان کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے۔ ہم ان تصاویر کے ذریعے سامنے آںے والے واقعات کی غیرجانبدارانہ تصدیق کر رہے ہیں اور میں اس کونسل کو یاد دلاؤں گی کہ اس وقت دستیاب اطلاعات کے مطابق امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ روس کی افواج کے ارکان نے یوکرین میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

بوچا کی تصاویر سامنے آنے سے پہلے بھی صدر زیلنسکی اور خطے کے دیگر رہنما بتا رہے تھے کہ بچوں کو بھی اغوا کیا جا رہا ہے اور آج ہم نے ان کی زبانی یہ سنا۔ شہروں کے میئر، ڈاکٹر، مذہبی رہنما، صحافی اور روس کی جارحیت کو للکارنے والے تمام دیگر لوگوں کو بھی اغوا کیا جا رہا ہے۔ میریوپول سٹی کونسل کی اطلاعات سمیت مصدقہ معلومات کے مطابق ان میں سے بعض کو ”فلٹریشن کیمپوں” میں لے جایا جا رہا ہے جہاں اطلاعات کے مطابق روس کی افواج یوکرین کے لاکھوں شہریوں کو یوکرین سے روس میں بھیج رہی ہیں۔

اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رشین فیڈرل سکیورٹی کے اہلکار لوگوں کے پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات ضبط کر رہے ہیں، ان کے سیل فون قبضے میں لے رہے ہیں اور خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر رہے ہیں۔ میں یہ بات نہیں کہنا چاہتی کہ یہ نام نہاد ”فلٹریشن کیمپ” کس چیز کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ خوفناک صورتحال ہے اور ہم اس سے نگاہیں نہیں چرا سکتے۔

ہم روزانہ روس کی جانب سے انسانی حقوق کی پہلے سے بڑھ کر پامالی دیکھتے ہیں۔ اسی لیے کل میں نے اعلان کیا کہ یوکرین اور اقوام متحدہ کے بہت سے دیگر رکن ممالک کے اشتراک سے امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے روس کی معطلی چاہے گا۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بڑھتے ہوئے ثبوتوں کی موجودگی میں روس کے پاس ایسے ادارے میں کوئی عہدہ نہیں ہونا چاہیے جس کا بنیادی مقصد ہی انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینا ہے۔ یہ محض انتہائی درجے کی منافقت ہی نہیں بلکہ خطرناک صورتحال بھی ہے۔ روس انسانی حقوق کونسل میں اپنی رکنیت کو اس پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہا ہے کہ روس کو انسانی حقوق کی جائز طور سے فکر ہے۔ درحقیقت ہم آج یہاں ایسا ہی کچھ پروپیگنڈہ سنیں گے۔ میں جانتی ہوں اور میں اس جھوٹ کا جواب دے کر اسے معتبر نہیں کروں گی بلکہ صرف اتنا کہوں گی کہ ہم روس کے نمائندے کی جانب سے جو بھی جھوٹ سنتے ہیں وہ اس امر کا مزید ثبوت ہوتا ہے کہ ان کا انسانی حقوق کونسل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک سو چالیس ارکان نے روس کی جانب سے بلااشتعال جنگ شروع کیے جانے اور یوکرین کے لوگوں کو انسانی بحران میں مبتلا کرنے پر اس کی مذمت میں ووٹ دیا۔ میرا آپ سب کے لیے یہ پیغام ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ ہم ذمہ دارانہ طور سے کام کر سکتے ہیں۔ میں صدر زیلنسکی کے نکتہ نظر کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ یہ وقت دنیا کی ذمہ دار طاقتوں اور علمی رہنماؤں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہمت کا مظاہرہ کریں اور یوکرین اور دنیا کو لاحق روس کے خطرناک اور بلااشتعال خطرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس خطرے کا مقابلہ کرنا سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ ایسا ہی ہے۔ اسی طرح یہ اقوام متحدہ کے رہنماؤں، دنیا بھر کے رہنماؤں اور جنرل اسمبلی کے ہر رکن ملک کی ذمہ داری بھی ہے۔ کوئی ملک روس کی جارحیت کا دفاع نہیں کر سکتا۔ انسانی حقوق کونسل سے روس کی معطلی ایک ایسا کام ہے جو ہم جنرل اسمبلی میں مشترکہ طور پر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ووٹ حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کونسل میں روس کی موجودگی سے اس کونسل کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس سے پوری اقوام متحدہ کمزور پڑتی ہے اور یہ بالکل غلط ہے۔ آئیے وہ کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوں جو درست ہے اور یوکرین کے لوگوں کے لیے درست سمت میں قدم اٹھائیں۔ آئیے انہیں اپنی زندگیاں دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد دینے کے لیے یہ قدم اٹھائیں۔ آئیے صدر زیلنسکی جیسی جرات کا مظاہرہ کریں جن کی یہاں موجودگی ہمارے لیے بے حد باعث فخر ہے۔

صدر زیلنسکی، میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس وقت جب آپ کی خودمختاری، جمہوریت اور آپ کی آزادی اس وحشیانہ حملے کی زد میں ہے ایسے میں ہم یوکرین کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

آپ کا شکریہ۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://usun.usmission.gov/remarks-by-ambassador-linda-thomas-greenfield-at-a-un-security-council-briefing-on-the-humanitarian-impact-of-russias-war-against-ukraine/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future