خطاب
اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹر
نیو یارک سٹی، نیو یارک
اکتوبر24 2023
سکریٹری بلنکن
: جناب صدر، اس وزارتی اجلاس کو بلانے اور اس کونسل کو بلانے کے لیے آپ کا شکریہ۔ اور آپ کا بہت بہت شکریہ، سپیشل کوآرڈینیٹر وینز لینڈ، ڈپٹی سپیشل کوآرڈینیٹر ہیسٹنگز، آپ کی اہم بریفنگ کے لیے۔
جناب سیکرٹری جنرل، ہم اس انتہائ مشکل وقت میں، خاص طور پر غزہ میں شہریوں کو انسانی امداد پہنچانے میں آپ کی قیادت کے شکر گزار ہیں۔
اور اقوام متحدہ کی پوری ٹیم کے لیے – ان کی ناقابل یقین بہادری، ان کی لگن – ان تمام لوگوں کے لیے جو مشکل ترین حالات میں خدمات انجام دیتے رہتے ہیں، ہم شکریہ ادا کرتے ہیں اور اسکی قدر کرتے ہيں ۔
میں آج یہاں اس ليے موجود ہوں کیونکہ امریکہ اس بات پر يقين رکھتا ہے کہ اقوام متحدہ اور خاص طور پر اس کونسل کا اس بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ہے۔ درحقیقت، ہم نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں عملی اقدامات کا تعین کیا گیا ہے جو ہم مل کر اس مقصد کی طرف اٹھا سکتے ہیں۔
یہ قرارداد اس متن کے بہت سے عناصر پر مشتمل ہے جسے برازیل نے گزشتہ ہفتے پیش کیا تھا۔ اس میں حالیہ دنوں میں ساتھی کونسل ممبران سے موصول ہونے والی اہم آراء شامل ہیں۔ یہ ان خیالات پر بھی بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے جو میں نے 7 اکتوبر کو حماس کے خوفناک حملے کے بعد پورے خطے کے شراکت داروں سے خود ہی سنے تھے۔ اور امريکہ بھی يہی آراء رکھتا ہے۔
سب سے پہلے، ہم سب دہشت گردی کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے ریاستوں کے حق، اور درحقیقت ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس لیے ہمیں اسرائیل کے خلاف حماس کے وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کی واضح طور پر مذمت کرنی چاہیے – گولیوں سے چھلنی بچے؛ نوجوانوں کو شکار کیا گيا اور انھيں خوشی کے ساتھ گولياں ماری گئيں ؛ لوگ، نوجوانوں کے سر قلم کیے گئے؛ ايک دوسرے کے سينوں سے چمٹے خاندانوں کو زندہ جلا دیا گيا، والدین کو اپنے بچوں کے سامنے پھانسی اور بچوں کو ان کے والدین کے سامنے پھانسی دی گئ اور غزہ میں بہت سے لوگوں کو یرغمال بنایا گیا۔
ہمیں پوچھنا ہے – واقعی یہ پوچھنا چاہیے – غصہ کہاں ہے؟ نفرت کہاں ہے؟ مسترد کہاں کيا گيا ہے؟ ان وحشتوں کی کھلم کھلا مذمت کہاں ہے؟
ہمیں کسی بھی قوم کے اپنے دفاع کے حق کی تصدیق کرنی چاہیے اوراس طرح کی ہولناکی کو دہراۓ جانے سے روکنا چاہیے۔ اس کونسل کا کوئی رکن – اس پورے ادارے میں کوئی بھی قوم – اپنے لوگوں کے قتل عام کو برداشت نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی برداشت کرے گی۔
جیسا کہ اس کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دہشت گردی کی تمام کارروائیاں غیر قانونی اور ناقابل جواز ہیں۔ وہ غیر قانونی اور ناقابل جواز ہیں چاہے وہ نیروبی یا بالی میں، لکسر، استنبول، یا ممبئی، نیویارک میں یا کبٹز بیری میں لوگوں کو نشانہ بنائیں۔ وہ غیر قانونی اور ناقابل جواز ہیں خواہ وہ آئ ايس آئ ايس کے ذریعے کی گئ ہوں، بوکو حرام کے ذریعے، الشباب کے ذریعے، لشکر طیبہ کے ذریعے، یا حماس کے ذریعے۔ وہ غیر قانونی اور ناقابل جواز ہیں چاہے متاثرین کو ان کے عقیدے، ان کی نسل، ان کی قومیت، یا کسی اور وجہ سے نشانہ بنایا جائے۔
اور اس کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان رکن ممالک کی مذمت کرے جو حماس یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو مسلح کرے، فنڈز دے اور تربیت فراہم کرے جو اس طرح کی خوفناک کارروائیاں کرتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 7 اکتوبر کو حماس نے جن 1,400 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ان میں اقوام متحدہ کے 30 سے زیادہ رکن ممالک کے شہری بھی شامل تھے، جن میں اس میز کے ارد گرد موجود بہت سے ارکان بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 33 امریکی شہری شامل ہیں۔ ہم ميں سے ہر ايک داؤ پر لگا ہوا ہے۔ دہشت گردی کو شکست دینے میں ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔
دوسرا، ہم سب شہریوں کے تحفظ کی اہم ضرورت پر متفق ہیں۔
جیسا کہ صدر بائیڈن نے اس بحران کے آغاز سے ہی واضح کر دیا ہے، اگرچہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق – درحقیقت، ذمہ داری – ہے، جس طرح سے وہ ایسا کرتا ہے، اسکی اہميت ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ حماس فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی اور حماس کی طرف سے کیے گئے قتل عام کے لیے فلسطینی شہری ذمہ دار نہیں ہیں۔ فلسطینی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس کا مطلب يہ ہے کہ حماس کو انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے بڑی گھٹیا حرکت کے بارے میں سوچنا مشکل ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروری انسانی امداد غزہ میں اور ان لوگوں تک پہنچائی جائے جنہیں ان کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شہریوں کو نقصان کے راستے سے نکلنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان مقاصد کے لیے انسانی ہمدردی کی بنياد پر وقفوں پرغور کیا جانا چاہیے۔
امریکہ نے ان اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ ہم مصر، اسرائیل اور پورے خطے کے شراکت داروں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے ساتھ ایسے طريقے وضح کرنے کے لیے قریبی رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں جو حماس یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو فائدہ پہنچائے بغیر غزہ کے شہریوں تک مستقل انسانی امداد پہنچانے کے قابل بنائے۔ صدر بائیڈن نے ہمارے سب سے سینئر سفارت کاروں میں سے ایک، سفیر ڈیوڈ سیٹر فیلڈ کو ہماری انسانی ہمدردی کی کوششوں کی قیادت کرنے کے لیے مقرر کیا، جو وہ اس وقت زمین پر کر رہے ہیں۔
امریکہ نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے لیے 100 ملین ڈالر کی اضافی انسانی امداد کا عہد کیا ہے، جس سے گزشتہ ڈھائی برسوں میں فلسطینی عوام کو فراہم کی جانے والی ہماری مجموعی امداد 1.6 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئ ہے ۔ اس سے امریکہ، فلسطینی عوام کو عطيہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گيا ہے ۔ ہم تمام ممالک سے، خاص طور پر ان لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں جن کے پاس دینے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے کہ وہ غزہ میں انسانی صورتحال کے لیے اقوام متحدہ کی اپیل کو پورا کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔
اس تنازعہ اور ہر تنازعہ میں معصوم جانوں کو بچانے کی ہماری کوششوں کی بنياد، اس معاملے میں ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ ہر شہری کی زندگی یکساں قیمتی ہے۔ جب شہری زندگیوں کے تحفظ کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔ سویلین ایک سویلین ہوتا ہے ایک سویلین ہوتا ہے، چاہے اس کی کوئ بھی قومیت، نسل، عمر، جنس، عقیدہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس بحران میں ہر ایک معصوم جان کے ضیاع پر سوگوار ہے، بشمول بے گناہ اسرائیلی اور فلسطینی مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، مسلمان، یہودی، عیسائی، تمام قومیتوں اور عقائد کے لوگ، بشمول اقوام متحدہ کے کم از کم 35 عملے کے ارکان۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس تنازعہ میں تمام شہریوں کی حفاظت کے لیے کام کریں، تاکہ پہلے سے ہونے والی بہت سی اموات کے بعد مزيد اموات کو روکا جا سکے ۔
غزہ میں حماس اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کی ہماری کوششوں کے پیچھے يہ محرک ہے کہ ہم ہرشہری کی زندگی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اپنے حاليہ دورے ميں مجھے، دوسروں کی طرح، ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملنے کا موقع ملا جن کا حماس کی قيد میں ہونے کا شبہ تھا۔ کئی، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، آج اس کمرے میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی – ہم میں سے کوئی بھی – وہ اس ڈراؤنے خواب کا تصور نہیں کر سکتا جو وہ جی رہے ہیں، جس سے کسی خاندان کو نہیں گزرنا چاہیے۔ ان کے پیاروں کو فوری طور پر، غیر مشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے، اور اس کونسل کے ہر رکن کو – درحقیقت، اس ادارے کے ہر رکن کو اس پر اصرار کرنا چاہیے، اس پر اصرار کرنا چاہیے، اس پر اصرار کرنا چاہیے۔
ہم حماس کے چار مغویوں کی رہائی میں مدد کرنے کے لیے قطر، مصر، آی سی آر سی کے شکر گزار ہیں۔ لیکن کم از کم 200 مزید – اور پھر، ہماری بہت سی قوموں سے – اب بھی حماس کی گرفت میں ہیں۔ اس لیے ایک بار پھر، میں یہاں ہر ممبر سے التجا کرتا ہوں: اپنی آواز کا استعمال کریں، اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، ان کی غیر مشروط اور فوری رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا اثر استعمال کریں۔
تیسرا، ہم سب اس تنازعہ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ سلامتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری ہے – بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا۔ ایک وسیع تر تنازعہ تباہ کن ہو گا، نہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے، بلکہ پورے خطے اور درحقیقت پوری دنیا کے لوگوں کے لیے۔
اس مقصد کے لیے، ہم تمام رکن ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ریاست یا غیر ریاستی اداکار کو ایک مضبوط متحد پیغام بھیجیں جو اسرائیل کے خلاف اس تنازعے میں ایک اور محاذ کھولنے پر غور کر رہا ہے یا جو اسرائیل کے شراکت داروں بشمول امریکہ کو نشانہ بنا سکتا ہے: ایسا نہ کریں۔ . آگ پر ایندھن نہ پھینکیں۔
اس کونسل کے ممبران اور خاص طور پر مستقل ممبران کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تنازعہ کو پھیلنے سے روکیں۔ میں عوامی جمہوریہ چین کے اپنے ہم منصب کے ساتھ کام جاری رکھنے کا منتظر ہوں کہ جب وہ اس ہفتے کے آخر میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
اب یہ بات اس کمرے یا اس کونسل میں کسی کے لیے بھی راز نہیں ہے کہ برسوں سے ایران حماس، حزب اللہ، حوثیوں اور دوسرے گروہوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو اسرائیل پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
ایرانی رہنما معمول کے مطابق اسرائیل کو نقشے سے مٹانے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں، ایران کے پراکسیوں نے عراق اور شام میں ان امریکی اہلکاروں پر بار بار حملے کیے ہیں، جن کا مشن داعش کو اس کی تباہ کاريوں کی تجدید سے روکنا ہے۔
لہٰذا میں یہ بات اس کونسل کے سامنے کہوں اور میں وہ بات کہوں جو ہم نے دوسرے چینلز کے ذریعے ایرانی حکام سے مسلسل کہی ہے: امریکہ ایران کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتا۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ جنگ وسیع ہو۔
لیکن اگر ایران یا اس کے پراکسی کسی بھی جگہ امریکی اہلکاروں پر حملہ کرتے ہیں تو کسی غلط فہمی ميں نا رہيں: ہم اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے، ہم اپنی سلامتی کا دفاع کریں گے – تیزی سے اور فیصلہ کن طریقے سے۔
اس کونسل کے تمام ممبران کے لیے: اگر آپ امریکہ کی طرح اس تنازعہ کو پھیلنے سے روکنا چاہتے ہیں تو ایران کو بتائیں، اس کے پراکسیوں کو بتائیں – عوامی طور پر، نجی طور پر، ہر طرح سے – اسرائیل کے خلاف دوسرا محاذ نہ کھولیں۔ اسرائیل کے شراکت داروں پر حملہ نہ کریں۔
اور ہم اراکین پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک قدم آگے بڑھیں: واضح کریں کہ اگر ایران یا اس کے پراکسی اس تنازع کو وسیع کرتے ہیں اور مزید شہریوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں، تو آپ – آپ – جوابدہ ہوں گے۔ اس طرح کام کریں جیسے پورے خطے اور اس سے باہر کی سلامتی اور استحکام لائن پر ہے، کیونکہ ایسا ہی ہے۔
چوتھا اور آخر میں، اب جبکہ ہم اس فوری بحران سے نبرد آزما ہيں، ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعہ کے پائیدار سیاسی حل کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے۔ خطے میں پائیدار امن و سلامتی کا واحد راستہ، تشدد کے اس ہولناک چکر سے نکلنے کا واحد راستہ دو [ملکوں کے] عوام کے ليے دو رياستيں ہيں۔
جیسا کہ صدر بائیڈن نے پہلے دن سے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی سلامتی، آزادی، انصاف، مواقع اور وقار کے مساوی مستحق ہیں۔ اور فلسطینیوں کو حق خود ارادیت اوران کی اپنی حیثیت حاصل ہے۔
اب ہمیں اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ دو ریاستی حل کو حاصل کرنا کتنا مشکل ہوگا۔ لیکن جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا ہے، ہم امن سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ درحقیقت، ايسے ہی تاريک ترین لمحات میں ہمیں متبادل راستے کو محفوظ کرنے کے لیے سخت ترین جدوجہد کرنی ہوگی، لوگوں کو یہ دکھانے کے لیے کہ وہ اسے حقیقی بناتے ہوئے، ان کی زندگیوں کو ٹھوس طریقوں سے بہتر بنانا ممکن ہے – درحقیقت، یہ ضروری ہے۔
ہم نے بہت سے ممالک کو حالیہ ہفتوں میں پائیدار سیاسی حل کے لیے حمایت کا اظہار کرتے سنا ہے۔ ہمارا آج کا پیغام یہ ہے: اس حل کو بنانے میں ہماری مدد کریں۔ جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے میں ہماری مدد کریں جو دو ریاستوں کے قيام اور خطے میں وسیع تر امن و سلامتی کے حصول کو مزید مشکل بنا دے گی۔
اس کونسل کے ارکان: ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ ان کے درمیان فرق اس سے زيادہ واضح نہیں ہو سکتا۔
ایک وہ راستہ ہے جو حماس نے پیش کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کہاں لے جاتا ہے: موت، تباہی، مصائب، تاریکی۔
دوسرا راستہ زیادہ امن، زیادہ استحکام، زیادہ مواقع، زیادہ معمول پر لانے اورانضمام کی طرف ہے – ایک راستہ جس سے پورے خطے کے لوگوں کو رہنے، کام کرنے، عبادت کرنے، شانہ بشانہ سیکھنے کے قابل ہونے کی طرف، فلسطینیوں کی اپنی ریاست اور ان کے خود ارادیت کے جائز حق کی تعبير کا راستہ۔
حماس کے لیے اس سے بڑی فتح اور کوئی نہیں ہو گی کہ اس کی بربریت کو ہمیں دہشت گردی اور عصبیت کے راستے پر اتارنے کی اجازت دی جائے۔ ہمیں اسے نہیں ہونے دینا چاہیے۔ حماس کو ہمارے لیے انتخاب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
امریکہ کسی کے ساتھ بھی کام کرنے کے لیے تیار ہے جو خطے کے لیے زیادہ پرامن اور محفوظ مستقبل بنانے کے لیے تیار ہے – ایک ایسا مستقبل جس کے لیے اس کے لوگ ترستے ہیں اور اس کے مستحق ہیں۔ شکریہ جناب صدر۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک:
https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-the-un-security-council-ministerial-meeting-on-the-situation-in-the-middle-east/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔