وائٹ ہاؤس
20 اکتوبر، 2023
8:02 سہ پہر
صدر بائیڈن: میرے امریکی ہم وطنو، شام بخیر۔ ہم تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑے ہیں اور یہ ایک ایسا وقت ہے جب ہمارے فیصلے آنے والی دہائیوں میں ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔ آج رات میں آپ سے اسی بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔
آپ جانتے ہیں کہ میں آج صبح اسرائیل کے دورے سے واپس آیا ہوں۔ انہوں ںے مجھے بتایا کہ میں دوران جنگ اسرائیل کا دورہ کرنے والا پہلا امریکی صدر ہوں۔
میں نے اسرائیل کے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کی۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں ان اسرائیلیوں سے بھی ملا ہوں جنہوں نے 7 اکتوبر کو حماس کے ہولناک حملوں کا ذاتی طور پر سامنا کیا تھا۔
اسرائیل میں 1,300 سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا جن میں کم از کم 32 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے متعدد چھوٹے بچوں سے لے کر معمر لوگوں تک بہت سے افراد کو اغوا بھی کیا گیا۔
جیسا کہ میں ںے حماس کی جانب سے اغوا کیے جانے والے امریکی خاندانوں کو بتایا، ہم ان کے عزیزوں کو واپس لانے کے لیے ہر سطح پر کوشش کر رہے ہیں۔ صدر کی حیثیت سے یرغمال امریکیوں کا تحفظ ممکن بنانے سے بڑھ کر میری کوئی ترجیح نہیں۔
دہشت گرد گروہ حماس نے دنیا میں حقیقی دہشت پھیلائی ہے۔ لیکن افسوس ناک طور سے، یہودی لوگ شاید دوسروں سے زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ جب کوئی کسی کو تکلیف دینا چاہے تو اس کی بدکرداری کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
میں نے اسرائیل میں مضبوط، پُرعزم اور دکھی لوگوں کو شدید صدمے اور تکلیف میں دیکھا۔
میں نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر عباس سے بھی بات کی اور واضح کیا کہ امریکہ وقار اور خوداختیاری کے لیے فلسطین کے لوگوں کے حق کا حامی ہے۔ حماس کے دہشت گردوں کے اقدامات سے یہ حق متاثر نہیں ہو گا۔
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی فلسطینیوں کی زندگی کے المناک نقصان پر دلی دکھ ہے۔ میں غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے پر بھی افسردہ ہوں جس میں اسرائیلیوں کا ہاتھ نہیں ہے۔
ہمیں ہر بے گناہ جان کے نقصان پر افسوس ہے۔ ہم ان معصوم فلسطینیوں کی انسانیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے جو صرف امن سے رہنا چاہتے ہیں اور اچھی زندگی کا موقع ملنے کے خواہاں ہیں۔
اسرائیل پر حملے نے یوکرین کے لوگوں پر 20 ماہ سے مسلط کردہ جنگ اور سفاکیت یاد دلا دی ہے جو پیوٹن کی بڑے پیمانے پر چھیڑی جنگ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
ہم یوکرین میں اجتماعی قبروں، تشدد زدہ لاشوں، روس کی جانب سے جنسی تشدد کے بطور ہتھیار استعمال اور یوکرین کے ہزاروں بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے جبراً روس بھیجے جانے جیسی باتوں کو نہیں بھولے۔
حماس اور پیوٹن ایک دوسرے سے الگ انداز کے خطرات ہیں تاہم ان میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں ایک ہمسایہ جمہوریت کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حماس کے مطابق اس کا مقصد اسرائیلی ریاست کو تباہ کرنا اور یہودیوں کو قتل کرنا ہے۔
حماس فلسطینی لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔ حماس فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس کی وجہ سے معصوم فلسطینی خاندان شدید تکالیف جھیل رہے ہیں۔
دوسری جانب پیوٹن اس بات سے انکاری ہیں کہ یوکرین کوئی ملک ہے یا کبھی ملک کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یوکرین کی تخلیق سوویت یونین سے ہوئی۔ دو ہی ہفتے قبل انہوں نے دنیا کو بتایا کہ اگر امریکہ اور ہمارے اتحادی یوکرین کو عسکری مدد دینے سے پیچھے ہٹ جائیں تو یہ معاملہ ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا۔ لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
میں جانتا ہوں کہ بظاہر یہ تنازعات ہم سے بہت پرے رونما ہو رہے ہیں اور یہ پوچھنا فطری بات ہے کہ اس کی امریکہ کے لیے کیا اہمیت ہے؟
اسی لیے میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اسرائیل اور یوکرین کی کامیابی امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کیوں اہم ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب دہشت گرد اپنے کیے کی قیمت نہیں چکاتے، جب آمر اپنی جارحیت کی قیمت نہیں چکاتے تو وہ مزید موت اور مزید تباہی پھیلاتے ہیں۔ وہ یہ کام جاری رکھتے ہیں اور اس سے امریکہ اور دنیا کو پہنچنے والا نقصان بڑھتا رہتا ہے۔
اسی لیے اگر ہم یوکرین میں طاقت اور تسلط کے لیے پیوٹن کی ہوس کو نہیں روکتے تو وہ صرف یوکرین تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ انہوں نے پولینڈ سے بھی کہا ہے کہ اس کا مغربی علاقہ دراصل روس کا تحفہ تھا۔
ان کے ایک مشیر اعلیٰ اور روس کے سابق صدر نے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا کو روس کے بالٹک صوبے قرار دیا ہے۔ یہ تمام نیٹو کے اتحادی ہیں۔
75 برس تک نیٹو نے یورپ میں امن قائم رکھا اور یہ اتحاد امریکہ کی سلامتی کی بنیاد رہا ہے۔ اگر پیوٹن نیٹو کے کسی اتحادی پر حملہ کرتے ہیں تو ہم اس معاہدے پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے نیٹو کی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کریں گے۔
ایسی صورت میں ہمیں وہ کچھ کرنا پڑے گا جو ہم نہیں چاہتے۔ ہم امریکہ کے فوجیوں کو روس میں یا روس کے خلاف لڑانا نہیں چاہتے۔
ہم آگاہ ہیں کہ یورپ سے ہٹ کر بھی ہمارے اتحادی اور اس سے بھی اہم یہ کہ ہمارے مخالفین ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ یوکرین میں ہمارے ردعمل کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔
اگر ہم پیچھے ہٹ جائیں اور پیوٹن یوکرین کی آزادی کو ختم کر دیں تو دنیا بھر میں جارحیت کے خواہاں دیگر کرداروں کو بھی یہی کچھ کرنے کا حوصلہ ملے گا۔ ایسے میں جنگ اور ابتری دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پھیل جائے گی اور ہند۔الکاہل اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ اس سے متاثر ہوگا۔
ایران روس کو یوکرین میں مدد بہم پہنچا رہا ہے اور وہ خطے میں حماس اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا بھی مددگار ہے۔ ہم ان کا بھی محاسبہ جاری رکھیں گے۔
امریکہ اور خطے بھر میں ہمارے شراکت دار مشرق وسطیٰ کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ایسا مشرق وسطیٰ ہو گا جو پہلے سے زیادہ مستحکم اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ انڈیا۔مشرق وسطیٰ۔یورپ ریل راہداری جیسے اختراعی منصوبوں کے ذریعے مزید بہتر طور سے مربوط ہو جس کا اعلان میں نے اس برس دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کی کانفرنس میں کیا تھا۔ جب یہ ربط قائم ہو جائے گا تو مزید قابل بھروسہ منڈیاں کھلیں گی اور مزید روزگار پیدا ہوں گے اور طیش، محرومیوں اور جنگ میں کمی آئے گی۔ اس سے ناصرف مشرق وسطیٰ بلکہ ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا۔
امریکہ کی قیادت دنیا کو متحد رکھتی ہے۔ امریکہ کے اتحاد ہمیں محفوظ رکھتے ہیں۔ امریکہ کی اقدار کی بدولت دوسرے ممالک ہمارے شراکت دار بننا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یوکرین اور اسرائیل سے منہ موڑ لیں گے تو اپنی ساکھ اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
اسی لیے کل میں امریکہ کی قومی سلامتی کی ضروریات کے لیے کانگریس کو مالی وسائل مہیا کرنے کی ایک ہنگامی درخواست بھیجوں گا۔ اس کا مقصد اسرائیل اور یوکرین سمیت ہمارے اہم شراکت داروں کی مدد کرنا ہے۔
یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہو گی جس سے مستقبل میں امریکہ کی سلامتی کو فائدہ ہو گا، ہمیں امریکہ کی افواج کو نقصان سے محفوظ رکھنے اور اپنے بچوں اور ان کے بچوں کےلیے محفوظ، پُرامن اور مزید خوشحال دنیا کی تعمیر میں مدد ملے گی۔
ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ اسرائیل کو ناصرف آج بلکہ ہمیشہ کے لیے اپنے تحفظ کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ میسر ہو۔
میں کانگریس کو سلامتی کے حوالے سے جن مالی وسائل کی فراہمی کی درخواست بھیج رہا ہوں اس کی حیثیت اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک بے مثال عزم کی ہے۔ اس سے اسرائیل کو اپنی معیاری عسکری برتری مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی جس کا ہم نے وعدہ کیا ہے۔
ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ آئرن ڈوم اسرائیل کی فضاؤں کی حفاظت کرتا رہے۔ ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ خطے میں دیگر مخالف کردار یہ جان لیں کہ اسرائیل پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور علاقے میں کشیدگی کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
وزیراعظم نیتن یاہو اور میں نے گزشتہ روز دوبارہ اس معاملے پر بات کی کہ اسرائیل کے لیے جنگی قوانین پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں شہریوں کو نقصان سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔ غزہ کے لوگوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ روز اسرائیل اور مصر کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے دوران میں نے اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کے لیے انسانی امداد کی پہلی کھیپ کی فراہمی کا معاہدہ کروایا۔
اگر حماس اس امداد کا رخ اپنی جانب موڑنے یا اسے چرانے سے باز رہتی ہے تو یہ فلسطینیوں کے لیے متواتر انسانی امداد فراہم کرنے کے سلسلے کا آغاز ہو گا
جیسا کہ میں نے اسرائیل میں کہا۔ ہم امن سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ہم اس مسئلے کے دو ریاستی حل سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔
اسرائیلی اور فلسطینی یکساں طور سے تحفظ، وقار اور امن سے رہنے کے حق دار ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ اندرون ملک ہمیں اپنے ساتھ دیانت دارانہ طرزعمل اختیار کرنا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں بہت زیادہ نفرت پھیلائی گئی ہے اور اس سے نسل پرستی، یہود مخالفت اور مسلم مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ واقعات کے نتیجے میں یہ نفرت بڑھی ہے جو ہولناک خطرات اور حملوں پر منتج ہوئی جن سے ہمیں شدید صدمہ پہنچا۔
اکتوبر 7 کو ہونے والے حملوں نے یہودی برادری کو گہرے زخم اور ہولناک یادیں دی ہیں۔
آج یہودی برادری کو سکولوں میں، اپنے عقیدے کی علامات پہن کر سڑکوں پر چلنے یا روزمرہ کاموں کے دوران نشانہ بنائے جانے کا خدشہ لاحق ہے۔
میں جانتا ہوں کی مسلم امریکی برادری یا عرب امریکی برادری یا فلسطینی امریکی برادری سے تعلق رکھنے والے اور بہت سے دیگر لوگوں کو موجودہ حالات پر دکھ اور تکلیف پہنچی ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ویسی ہی مسلم مخالفت کا سامنا ہے جو نائن الیون کے موقع پر دیکھنے کو ملی تھی۔
گزشتہ ہفتے ہی شکاگو کے مضافات میں ایک ماں کو چاقو گھونپ کر زخمی اور اس کے چھ سالہ بچے کو قتل کر دیا گیا۔ یہ بچہ چند ہی روز پہلے چھ سال کی عمر کو پہنچا تھا۔
اس کا نام وادیا تھا اور اس کا تعلق ایک پُرفخر فلسطینی امریکی گھرانے سے تھا۔
ایسے واقعات پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمیں واضح طور پر یہود نفرت کی مذمت کرنا ہو گی۔ ہمیں واضح طور پر مسلم نفرت کی بھی مذمت کرنا ہو گی۔
موجودہ حالات میں جو لوگ دکھ اور تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ آپ تمام لوگ ہی امریکہ ہیں۔ امریکہ کا وجود آپ سے ہے۔
یہ ایسا وقت ہے جب خوف اور شبہات، غصہ اور دکھ شدت اختیار کر لیتے ہیں اسی لیے ہمیں ان اقدار کو قائم رکھنےکے لیے سخت محنت کرنا ہے جو ہماری پہنچان ہیں۔
ہم مذہب اور اظہار کی آزادی والا ملک اور قوم ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور سکولوں، کام کی جگہوں یا اپنے علاقوں میں حملوں کانشانہ بنائے جانے کے خوف سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا حق ہے۔
ہمیں تشدد اور نفرت کی مذمت کرنا ہے اور ایک دوسرے کو دشمنوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہم وطن امریکیوں کے طور پر دیکھنا ہے۔
گزشتہ روز جب میں اسرائیل میں تھا تو میں نے کہا کہ جب امریکہ کو نائن الیون کا سامنا ہوا تو ہم بھی بہت غصے کی حالت میں تھے۔ انصاف کی تلاش اور اس کے حصول میں ہم نے غلطیاں بھی کیں۔ اسی لیے میں نے اسرائیل کی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ اپنے طیش پر قابو رکھے۔
بحیثیت امریکی شہری ہمیں یہ نہیں بھولنا کہ ہم کون ہیں۔ ہم مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر کے خلاف ہر طرح کی نفرت کو مسترد کرتے ہیں۔ عظیم اقوام یہی کچھ کرتی ہیں اور ہم ایک عظیم قوم ہیں۔
یوکرین کے معاملے پر میں کانگریس سے کہہ رہا ہوں کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ ہماری جانب سے اسے ضرورت کے مطابق اسلحہ پہنچتا رہے تاکہ وہ بے فکری سے اپنا دفاع کر سکے اور یوکرین میں پیوٹن کی سفاکیت کو روکا جا سکے۔
یوکرین اس مقصد میں کامیاب ہو رہا ہے۔
جب پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا تو میں نے سوچا کہ وہ چند ہی روز میں کیئو اور پورے یوکرین پر قبضہ کر لیں گے۔ تاہم ایک سال کے بعد پیوٹن اس مقصد میں ناکام ہو چکے ہیں اور انہیں متواتر ناکامیوں کا سامنا ہے۔ یوکرین کے لوگوں کی بہادری کی بدولت کیئو اب بھی قائم ہے۔
یوکرین نے روس کے قبضے میں جانے والے اپنے 50 فیصد سے زیادہ علاقے کو واپس لے لیا ہے۔ اس میں امریکہ کے زیرقیادت دنیا بھر کے 50 سے زیادہ ممالک کا اتحاد بھی یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔
اگر ہم یوکرین کی مدد سے منہ موڑ لیتے تو کیا ہوتا۔ ہم بہت اہم ملک ہیں۔
اسی دوران پیوٹن نے یوکرین کے شہروں اور لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی خاطر ڈرون طیارے اور گولہ بارود خریدنے کے لیے ایران اور شمالی کوریا سے رجوع کیا۔
تب سے میں نے یہ کہا ہے کہ میں یوکرین میں لڑنے کے لیے امریکہ کی فوج نہیں بھیجوں گا۔
یوکرین صرف ہتھیاروں، گولہ بارود اور حملہ آور روسی افواج کو واپس دھکیلنے کی صلاحیت اور اہلیت کا تقاضا کر رہا ہے اور وہ روس کے میزائلوں کو یوکرین کے شہروں پر گرنے سے پہلے ہی مار گرانے کے لیے فضائی دفاعی نظام کے حصول کا خواہاں ہے۔
میں ایک بات واضح کر دوں کہ ہم نے یوکرین کو اپنے ذخائر سے اسلحۃ بھیجا ہے اور ہم کانگریس کی جانب سے مہیا کی جانے والی رقم سے اپنے ذخائر کو نئے ہتھیاروں سے دوبارہ بھرتے ہیں جو امریکہ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ فضائی دفاع کے لیے پیٹریاٹ میزائل ایریزونا میں بنتے ہیں، توپخانے کے گولے پنسلوینیا، اوہائیو اور ٹیکساس سمیت ملک بھر میں 12 ریاستوں میں تیار ہوتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کی طرح آج بھی محب وطن امریکی کارکن جمہوریت کے لیے ہتھیار بنا رہے ہیں اور آزادی کے مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ میں نے اس سال کے اوائل میں ایئرفورس ون کے ذریعے پولینڈ کی جانب خفیہ پرواز کی۔ وہاں میں نے ایک ٹرین پکڑی جس کی کھڑکیوں پر پردے تھے اور اس پر 10 گھنٹے سفر کے بعد یوکرین کے لوگوں سے ملنے کے لیے کیئو پہنچا جب انہیں پیوٹن کے خلاف لڑتے ہوئے ایک سال بیت چکا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ صدر لنکن کے بعد میں کسی ایسے جنگی علاقے میں پہنچنے والا پہلا صدر ہوں جس پر امریکہ کی فوج کا کنٹرول نہیں ہے۔
اس موقع پر میرے ساتھ سکیورٹی کے چند اہلکاروں اور چند مشیروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
لیکن جب ہم ٹرین سے نکلے اور صدر زیلنسکی سے ملے تو میں نے خود کو اکیلا محسوس نہیں کیا۔ میں اپنے ساتھ ان لوگوں کے لیے امریکہ کا تصور اور امریکہ کا وعدہ لے کر آیا تھا جو آج انہی مقاصد کے لیے لڑ رہے ہیں جن کے لیے ہم نے 250 برس پہلے جنگ کی تھی اور وہ آزادی، خودمختاری اور خود اختیاری کے مقاصد ہیں۔
جب میں صدر زیلنسکی کے ساتھ کیئو کے دورے پر نکلا تو کچھ فاصلے پر فضائی حملوں کے سائرن بج رہے تھے۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ امریکہ اب بھی دنیا کے لیے امید کی کرن ہے۔
جیسا کہ میری دوست میڈیلین البرائٹ نے کہا تھا ‘ہم ناگزیر قوم ہیں’، اس وقت دنیا بھر میں بہت سے معصوم لوگ صرف ہماری وجہ سے ہی امید قائم رکھے ہوئے ہیں، جو ہماری وجہ سے بہتر زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں نظرانداز نہ کریں اور وہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم اس کے لیے وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ اندرون ملک ہمارے مابین اختلافات بھی ہیں۔ لیکن ہمیں انہیں پس پشت ڈالنا ہے۔ ہم بے وقعت سیاسی اختلافات کو بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریوں کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ہم حماس جیسے دہشت گردوں اور پیوٹن جیسے آمروں کو فتح یاب ہونے نہیں دے سکتے اور انہیں جیتنے نہیں دیں گے۔ میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔
ایسے وقت میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم کون ہیں۔ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہیں۔ اگر ہم متحد ہو کر کچھ کرنا چاہیں تو کوئی بھی مقصد ہماری پہنچ سے دور نہیں۔
میرے ہم وطن امریکیو، آپ کے وقت کا شکریہ۔
خدا آپ پر رحمت کرے اور خدا ہمارے فوجیوں کی حفاظت کرے۔
8:17 سہ پہر
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2023/10/20/remarks-by-president-biden-on-the-unites-states-response-to-hamass-terrorist-attacks-against-israel-and-russias-ongoing-brutal-war-against-ukraine/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔