An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
جوزف آر بائیڈن جونیئر، صدرِ امریکہ
16 اگست، 2021

ایسٹ روم
4:02 سہ پہر

صدر: سہ پہر بخیر۔ آج میں افغانستان میں سامنے آتی صورتحال پر بات کرنا چاہتا ہوں جس میں گزشتہ ہفتے میں پیش آنے والے واقعات اور تیزی سے تبدیل ہوتے حالات سے نمٹنے کے لیے ہماری جانب سے اٹھائے جا رہے اقدامات شامل ہیں۔

میری قومی سلامتی کی ٹیم اور میں افغانستان میں زمینی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور ہر طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں افغانستان میں انتظامیہ کا تیزی سے ہونے والا خاتمہ بھی شامل ہے جس کا ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں۔

میں کچھ دیر میں ان مخصوص اقدامات کے بارے میں مزید بات کروں گا جو ہم اٹھا رہے ہیں، تاہم میں ہر ایک کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم یہاں کیسے آئے اور افغانستان میں امریکہ کے مفادات کیا ہیں۔

ہم قریباً 20 سال پہلے یہ واضح اہداف لے کر افغانستان گئے تھے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ القاعدہ افغانستان کو ہم پر حملے کے لیے ٹھکانے کے طور پر دوبارہ استعمال نہ کر سکے۔

ہم نے اپنا ہدف حاصل کیا۔ ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہم نے اسامہ بن لادن کی تلاش کبھی ترک نہ کی اور اسے جا لیا۔ یہ ایک دہائی پہلے کی بات ہے۔

افغانستان میں ملکی تعمیر کبھی ہمارا مقصد نہیں تھا۔ یہ کبھی نہیں سوچا گیا تھا کہ ہم نے وہاں ایک متحدہ مرکزی جمہوریت قائم کرنا ہے۔

افغانستان میں ہمارا واحد اہم قومی مفاد بدستور وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے کہ اسے امریکہ کی سرزمین پر دہشت گرد حملے کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔

میں کئی سال سے کہتا چلا آیا ہوں کہ ہمارا مقصد انسداد بغاوت یا قومی تعمیر کے بجائے صرف انسداد دہشت گردی تک محدود و مرکوز ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں 2009 میں نائب صدر کے عہدے پر ہوتے ہوئے میں نے اس طرح کی زور دار تجاویز کی مخالفت کی تھی۔

اسی لیے صدر کی حیثیت سے میں اس بات پر سختی سے قائم ہوں کہ ہمیں گزرے کل کے خطرات کے بجائے آج 2021 میں درپیش خطرات پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔

آج دہشت گردی کا خطرہ افغانستان سے باہر تک پھیل چکا ہے۔ صومالیہ میں الشباب، جزیرہ نما عرب میں القاعدہ اور شام میں النصرہ ہے، آئی ایس آئی ایس شام اور عراق میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک میں اپنی ملحقہ تنظیمیں کھڑی کرنے میں مصروف ہے۔ یہ خطرات ہماری توجہ اور ہمارے وسائل کا تقاضا کرتے ہیں۔

ہم نے ایسے بہت سے ممالک میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے موثر اقدامات کیے ہیں جہاں ہماری مستقل عسکری موجودگی نہیں ہے۔

اگر ضروری ہوا تو ہم افغانستان میں بھی یہی کچھ کریں گے۔ ہم نے خود کو انسداد دہشت گردی کے فوری اقدامات کے قابل بنایا ہے جس سے ہمیں خطے میں امریکہ کے خلاف کسی بھی براہ راست خطرے پر کڑی نظر رکھنے اور ضرورت پڑنے پر فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے میں مدد ملے گی۔

جب میں نے عہدہ سنبھالا تو مجھے صدر ٹرمپ کا طالبان سے کیا گیا مذاکراتی معاہدہ ورثے میں ملا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ کی افواج نے یکم مئی 2021 تک افغانستان سے واپس جانا تھا اور یہ تاریخ میرے عہدہ سنبھالنے سے تین ماہ سے کچھ زیادہ وقت میں آنا تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد پہلے ہی 15,500 سے کم ہو کر 2,500 تک آ چکی تھی اور طالبان 2001 کے بعد عسکری طور پر مضبوط ترین پوزیشن میں تھے۔

آپ کا صدر ہونے کی حیثیت سے مجھے یا تو اس معاہدے پر عمل کرنا تھا یا موسم گرما کے عروج پر طالبان سے لڑنا تھا۔

یکم مئی کے بعد کوئی جنگ بندی نہ ہوتی۔ یکم مئی کے بعد ہماری افواج کی حفاظت کا کوئی معاہدہ موجود نہں تھا۔ یکم مئی کے بعد امریکی افواج کے جانی نقصان کے بغیر افغانستان میں استحکام برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔

اس موقع پر ہمارے سامنے یہی تلخ حقیقت تھی کہ یا تو اپنی افواج واپس لانے کے معاہدے پر عمل کیا جائے یا جنگ میں مزید شدت لائی جائے اور مزید ہزاروں امریکی فوجی دستوں کو دوبارہ افغانستان میں لڑنے کے لیے بھیجا جائے اور نہ چاہتے ہوئے جنگ کی تیسری دہائی شروع کی جائے۔

میں اپنے فیصلے پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ 20 سال کے تجربات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس عرصہ میں کوئی بھی وقت ایسا نہیں تھا جسے افغانستان سے امریکی افواج کو نکالنے کے لیے موزوں سمجھا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک وہیں تھے۔ آنے والے خطرات ہم پر واضح تھے۔ ہم نے ہر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

تاہم میں نے امریکہ کے عوام سے ہمیشہ یہ وعدہ کیا تھا کہ میں ان سے صاف بات کروں گا۔ سچائی یہ ہے کہ صورتحال ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے تبدیل ہوئی۔

تو پھر کیا ہوا؟ افغانستان کے سیاسی رہنماؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور ملک سے چلے گئے۔ افغان فوج ناکام ہو گئی اور بعض مواقع پر اس نے لڑائی کی کوشش کیے بغیر ہار مان لی۔

گزشتہ ہفتے میں پیش آںے والے واقعات سے یہ بات اور بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ اس وقت افغانستان میں امریکہ کی عسکری موجودگی کا خاتمہ ایک درست فیصلہ تھا۔

امریکہ کی افواج ایسی جنگ نہیں لڑ سکتیں اور انہیں نہیں لڑنی چاہیے اور ایسی جنگ میں جانیں نہیں دینی چاہئیں جسے لڑنے کے لیے افغان فوج خود تیار نہ ہو۔ ہم نے وہاں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل خرچ کیے۔ ہم نے قریباً 300,000 افغان فوجیوں کو تربیت دی اور انہیں اچھی طرح مسلح کیا۔ یہ فوج حجم میں ہمارے بہت سے نیٹو اتحادیوں کی افواج سے بھی بڑی تھی۔

ہم نے انہیں وہ تمام وسائل مہیا کیے جن کی انہیں ضرورت ہو سکتی تھی۔ ہم نے ان کی تنخواہیں ادا کیں، ان کی فضائیہ کی دیکھ بھال کے لیے وسائل مہیا کیے جبکہ طالبان کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ طالبان کے پاس فضائیہ نہیں تھی۔ ہم نے افغان فوج کو فضائی مدد بھی فراہم کی۔

ہم نے انہیں اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کا ہر موقع دیا۔ اگر ہم انہیں کوئی چیز نہ دے سکے تو وہ اپنے مستقبل کے لیے لڑنے کا جذبہ تھا۔

افغان سپیشل فورسز میں بہت سے بہادر اور قابل یونٹ اور سپاہی ہیں لیکن اگر افغانستان اس وقت طالبان کے خلاف حقیقی مزاحمت نہیں کر سکتا تو ایسا کوئی امکان نہیں کہ ایک سال، مزید ایک سال، مزید پانچ سال یا مزید بیس سال تک وہاں امریکی افواج کی موجودگی سے کوئی فرق پڑے گا۔

جس بات پر میرا پورا یقین ہے وہ یہ کہ جب افغان افواج خود کچھ نہ کر سکیں تو پھر امریکی فوج کو وہاں مداخلت کا حکم دینا درست نہیں ہے۔ اگرسنگین حالات میں بھی افغانستان کے سیاسی رہنما اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے اکٹھے نہ ہو سکے اور اپنے ملک کے مستقبل کے لیے بات چیت نہ کر سکے تو جب تک امریکی افواج ان کے لیے لڑتی رہتیں وہ ایسا کچھ بھی نہ کرتے۔

ایسے میں ہمارے حقیقی تزویراتی حریف چین اور روس یہی چاہتے کہ امریکہ لامحدود مدت کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کے مالی وسائل اور توجہ صرف کرتا رہے۔

جون میں جب میں نے صدرغنی اور چیئرمین عبداللہ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا اور جولائی میں جب میں نے غنی سے فون پر بات کی تو ہمارے مابین کھل کر تبادلہ خیال ہوا۔ ہم نے اس موضوع پر بات کی کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان کو اپنی خانہ جنگی سے نمٹنے اور سرکاری سطح پر بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے کس طرح تیار ہونا چاہیے تاکہ حکومت افغان عوام کے لیے اچھے طریقے سے کام کر سکے۔ ہم نے افغان رہنماؤں کے سیاسی طور پر متحد ہونے کی ضرورت پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

تاہم وہ ایسا کچھ بھی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

میں نے ان پر سفارت کاری اور طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیے کے لیے زور بھی دیا۔ تاہم یہ تجویز صاف طور پر مسترد کر دی گئی۔ غنی نے اصرار کیا کہ افغان افواج لڑیں گی مگر ظاہر ہے کہ وہ غلط تھے۔

لہٰذا میں ان لوگوں سے ایک مرتبہ پھر پوچھتا ہوں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں وہاں رہنا چاہیے تھا۔ میں امریکہ کی بیٹیوں اور بیٹوں کی مزید کتنی نسلیں افغان خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے بھیجتا جبکہ افغان فوج خود لڑنے کے لیے تیار نہ تھی؟ یہ جنگ امریکیوں کی مزید کتنی جانیں لیتی؟ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں کتبوں کی مزید کتنی لامحدود قطاریں کھڑی ہوتیں؟

میرے پاس اس کا واضح جواب ہے۔ میں وہ غلطیاں نہیں دہراؤں گا جو ہم نے ماضی میں کیں۔ ایسی جنگ میں شامل رہنے اور لامحدود مدت تک لڑنے کی غلطی جو امریکہ کے قومی مفاد میں نہیں ہے، کسی دوسرے ملک کی خانہ جنگی میں لڑتے رہنے کی غلطی اور امریکی فوج کی لامحدود تعیناتیوں کے ذریعے کسی ملک کی تعمیر نو کی غلطی۔

یہ وہ غلطیاں ہیں جو ہم دہرا نہیں سکتے کیونکہ دنیا میں ہمارے اہم مفادات ہیں جنہیں ہم نظرانداز کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

میں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہے۔ ہم افغانستان میں جو مناظر دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سابق فوجیوں، ہمارے سفارت کاروں، امدادی کارکنوں اور ہر اس فرد کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں جس نے افغان عوام کی مدد کے لیے وہاں جا کر کام کیا ہے۔

یہ مناظر ان لوگوں کے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں جنہوں نے افغانستان میں اپنے پیاروں کو کھویا اور ان امریکیوں کے لیے بھی جو وہاں لڑے اور افغانستان میں امریکہ کے لیے خدمات انجام دیں۔ یہ انتہائی ذاتی نوعیت کی تکلیف ہے۔

یہ سب کچھ میرے لیے بھی اتنا ہی ناخوشگوار ہے۔ میں نے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ان معاملات پر کام کیا ہے۔ میں اس جنگ کے دوران افغانستان میں کابل سے قندھار اور وادی کنڑ تک جاتا رہا ہوں۔

میں نے چار مختلف مواقع پر وہاں کا دورہ کیا۔ میں وہاں لوگوں سےملا۔ میں نے وہاں کے رہنماؤں سے بات کی ہے۔ میں نے وہاں اپنے فوجیوں کے ساتھ وقت گزارا۔ میں نے اپنے براہ راست مشاہدے کی بنیاد پر جانا کہ افغانستان میں کیا ممکن تھا اور کیا ممکن نہیں تھا۔

اس لیے اب ہماری توجہ اس پر ہے جو وہاں ممکن ہے۔

ہم افغانستان کے عوام کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم سفارت کاری، اپنے عالمی رسوخ اور اپنی امداد کے ذریعے اپنا کام کریں گے۔

ہم علاقائی سطح پر سفارتی کوششوں اور باہمی رابطوں کے ذریعے افغانستان میں تشدد اور عدم استحکام روکنے کا کام جاری رکھیں گے۔

ہم افغان عوام، وہاں کی خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم پوری دنیا میں کرتے ہیں۔

میں واضح طور پر سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کو ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہونا چاہیے۔ تاہم اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی جگہ نامعلوم مدت کے لیے فوجیں تعینات کر دی جائیں۔ یہ کام ہماری سفارت کاری، ہمارے معاشی ذرائع اور دنیا کو اپنے ساتھ ملانے کے ذریعے ہونا ہے۔

اب میں افغانستان میں اپنے موجودہ مشن کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ مجھے افغانستان سے امریکہ اور اتحادی ممالک کے غیرفوجی عملے کو نکالنے کے لیے وہاں 6,000 فوجی تعینات کرنے کا مشورہ دیا گیا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اس اقدام کے ذریعے ہمارے افغان اتحادیوں اور خطرے کی زد پر موجود افغانوں کو بھی وہاں سے بحفاظت نکالا جانا تھا۔

ہمارے فوجی دستے ہوائی اڈے کو محفوظ رکھنے اور فوجی و غیرفوجی پروازوں کی آمدوروفت یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم ایئر ٹریفک کنٹرول کو بھی سنبھال رہے ہیں۔

ہم نے محفوظ طریقے سے اپنا سفارت خانہ بند کر کے اپنے سفارت کاروں کو وہاں سے منتقل کر دیا ہے۔۔ اب ہوائی اڈے پر بھی ہماری سفارتی موجودگی مستحکم ہے۔

ہم آنے والے دنوں میں ان ہزاروں امریکی شہریوں کو واپس لانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو افغانستان میں رہ رہے ہیں اور وہاں کام کر رہے ہیں۔

ہم غیرفوجی عملے کی محفوظ واپسی میں مدد بھی جاری رکھیں گے۔ ان میں ہمارے اتحادیوں کا وہ غیرفوجی عملہ بھی شامل ہے جو تاحال افغانستان موجود ہے۔

میں ںے جولائی میں آپریشن الائیز رفیوجی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 2,000 افغانوں اور ان کے اہلخانہ کو امریکہ لانے کے لیے پہلے ہی وہاں سے ہی نکالا جا چکا ہے جو تارکین وطن کے خصوصی ویزے کے اہل تھے۔

آنے والے دنوں میں امریکی فوج ایس آئی وی ویزے کے اہل مزید افغانوں اور ان کے اہلخانہ کو افغانستان سے واپس لانے میں مدد فراہم کرے گی۔

ہم خطرات کی زد پر موجود ایسے افغانوں کو بھی پناہ گزینوں کے دائرے میں لا رہے ہیں جنہوں نے وہاں ہمارے سفارت خانے، امریکہ کے غیرسرکاری اداروں یا امریکہ کی غیرسرکاری تنظیموں کے لیے کام کیا تھا۔ ان میں ایسے عام افغان بھی شامل ہیں جنہیں اس وقت بہت بڑا خطرہ لاحق ہے اور امریکہ کے میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس میں شامل ہوں گے۔

میں جانتا ہوں کہ اس بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ ہم نے ان افغان شہریوں کو جلد وہاں سے کیوں نہ نکالا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض افغان فوری طور پر وہاں سے جانا نہیں چاہتے تھے اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں پُرامید تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت اور اس کے حامیوں نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کیونکہ اس سے انہیں یہ خدشہ تھا کہ اس سے لوگوں میں اعتماد کا بحران جنم لے گا۔

امریکہ کے فوجی دستے ہمیشہ کی طرح اس مشن کو بھی پیشہ وارانہ اور موثر طور سے انجام دینے میں مصروف ہیں تاہم اس میں خطرات بھی ہیں۔

ہم نے واپسی کا یہ عمل شروع کرتے وقت طالبان پر واضح کر دیا تھا کہ اگر انہوں نے ہمارے اہلکاروں پر حملہ کیا یا ہماری کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو امریکہ فوی طور پر اور پوری قوت سے اس کا جواب دے گا۔ اگر ضروری ہوا تو ہم تباہ کن طاقت سے اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے۔

افغانستان میں ہمارے موجودہ عسکری مشن کا دورانیہ مختصر ہو گا، اس کی وسعت محدود ہو گی اور یہ مخصوص مقاصد کے حصول پر مرتکز ہو گا۔ وہ مقصد یہ ہے کہ اپنے لوگوں اور اتحادیوں کو جتنا جلد ممکن ہو محفوظ انداز میں وہاں سے نکالا جائے۔

جب ہمارا یہ مشن مکمل ہوجائے گا تو وہاں سے ہماری فوج کی واپسی بھی مکمل ہو جائے گی۔ اس طرح ہم 20 سالہ خونریزی کے بعد امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔

اس وقت ہم جن واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ افسوسناک طور سے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کتنی بھی بڑی فوجی قوت افغانستان کو مستحکم، متحد اور محفوظ نہیں بنا سکتی جیسا کہ تاریخ میں اسے ‘سلطنتوں کا قبرستان’ کہا گیا ہے۔”

اس وقت ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اسی طرح پانچ سال پہلے یا پندرہ سال کے بعد بھی ہو سکتا تھا۔ ہمیں دیانت دارانہ طور سے سمجھنا چاہیے کہ ہم نے افغانستان میں اپنے مشن میں بہت سی غلطیاں کیں، ہم سے گزشتہ بیس سال میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔

میں اس وقت چوتھا صدر ہوں جس کے دور میں افغان جنگ جاری رہی ہے۔ ان میں دو ڈیموکریٹ اور دو ری پبلکن صدر شامل تھے۔ میں یہ ذمہ داری پانچویں صدر کو منتقل نہیں کروں گا۔

میں یہ دعویٰ کر کے امریکہ کے لوگوں کو گمراہ نہیں کروں گا کہ ہماری افغانستان میں کچھ مزید وقت موجودگی سے صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ موجودہ صورتحال تک آنے اور یہاں سے آگے بڑھنے کے حوالے سے مجھ پر جو ذمہ داری آتی ہے اسے میں قبول کرتا ہوں۔

میں امریکہ کا صدر ہوں اور یہ ذمہ داری مجھ پر ہی آتی ہے۔

ہمیں اس وقت جن حقائق کا سامنا ہے ان پر میں بے حد دکھی ہوں۔ تاہم افغانستان میں امریکہ کی جنگ کے خاتمے اور افغانستان سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں انسداد دہشت گردی کے لیے مستعد رہنے کے فیصلے پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔

افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گردی کے خطرے کا زور توڑنے اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا ہمارا مقصد کامیاب رہا۔

ہماری دہائیوں پر مشتمل کوششیں صدیوں کی تاریخ بدلنے اور افغانستان کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے اور اس کی تعمیرنو کے لیے نہیں تھیں اور میں نے یہ بات لکھی ہے اور اس پر یقین رکھتا ہوں کہ ایسا کبھی ممکن نہیں تھا۔

میں اپنے فوجیوں کو کسی اور ملک کی خانہ جنگی میں لامحدود مدت تک لڑنے، جانیں دینے، عمر بھر کے لیے اپاہج ہونے اور اپنے خاندانوں کو ٹوٹ پھوٹ، دکھ اور نقصان میں چھوڑنے نہیں دے سکتا  اور نہ ہی آئندہ ایسا کروں گا۔

یہ ہمارے قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے۔ امریکہ کے عوام یہ سب کچھ نہیں چاہتے۔ ہمارے فوجی بھی اس کے حقدار نہیں ہیں جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں اس قدر بڑی قربانیاں دی ہیں۔

جب میں نے صدارتی انتخاب لڑا تو امریکہ کے عوام سے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں افغانستان سے امریکہ کی فوج کو واپس بلا لوں گا۔ اگرچہ یہ کام مشکل اور بے ترتیب انداز میں ہوا ہے تاہم میں اسے اعزاز سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ میں ںے اس قوم کے لیے خدمات انجام دینے والے بہادر مردو خواتین سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں ایسی فوجی کارروائی میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالے رکھنے کے لیے نہیں کہوں گا جسے بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

جب میں نوجوان تھا تو ہمارے رہنماؤں نے ویت نام میں یہی کچھ کیا تھا۔ میں افغانستان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔

میں جانتا ہوں کہ میرے فیصلے پر تنقید ہو گی مگر میں یہ فیصلہ اگلے اور پانچویں صدر پر چھوڑنے کے بجائے اس تنقید کا سامنا کروں گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے لوگوں کے لیے درست فیصلہ ہے۔ یہ ہماری فوج کے بہادر ارکان کے لیے درست فیصلہ ہے جنہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہمارے ملک کی خدمت کی۔ یہ امریکہ کے حق میں ایک درست فیصلہ ہے۔

لہٰذا آپ کا شکریہ۔ خدا ہمارے فوجیوں، ہماری سفارت کاروں اور خطروں کی راہ میں خدمات انجام دینے والے ہمارے تمام بہادر امریکیوں کا تحفظ کرے۔

4:21 سہ پہر


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/08/16/remarks-by-president-biden-on-afghanistan/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future