نیویارک، نیویارک
10:17 A.M. EDT
10:17 صبح ای ڈی ٹی
صدر: جناب صدر، جناب سیکریٹری جنرل، اور میرے ساتھی راہنماؤ، تقریباً ایک ہفتہ قبل میں دنیا کے دوسرے کونے میں ویت نام کی سرزمین پر کھڑا تھا جو کبھی جنگ سے خون آلود ہوئی تھی۔
میں امریکہ اور ویت نام کے سابق فوجیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے ملا۔ میں نے انہیں جنگ کے دنوں کی ذاتی اشیا کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا جن میں شناختی کارڈ اور ایک ڈائری بھی تھی۔ ویت نامی اور امریکی فوجیوں کا ردعمل دیکھنا ایک انتہائی جذباتی منظر تھا۔
جنگ کے تکلیف دہ ورثوں سے نمٹنا اور اور امن اور بہتر مستقبل کے لیے مل کر کام کرنے کا انتخاب کرنا، دونوں فریقین کی طرف سے کی جانے والی 50 سالہ محنت کا ثمر تھا۔
اس سفر کے بارے میں کوئی چیز بھی ناگزیر نہ تھی۔ کئی دہائیوں تک کسی بھی امریکی صدر کے لیے ہنوئی میں ویت نام کے کسی رہنما کے ساتھ کھڑے ہونا اور ممالک کی اعلیٰ ترین سطح پر شراکت داری کے لیے باہمی وابستگی کا اعلان کرنا ایک ناقابل تصور امر رہا ہے۔ مگر یہ اس بات کی ایک زبردست یاد دہانی ہے کہ ہماری تاریخ کو ہمارے مستقبل پر حاوی ہونے کی ضرورت نہیں۔
مربوط قیادت اور محتاط کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مخالفین شراکت دار بن سکتے ہیں، بڑے بڑے چیلنجوں کو حل کیا جا سکتا ہے اور گہرے زخم مندمل ہو سکتے ہیں۔
لہذا آئیے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ جب ہم ایک ساتھ کھڑے ہونے کا انتخاب کرتے ہیں اور اُن مشترکہ امیدوں کا اقرار کرتے ہیں جو پوری انسانیت کو یکجا کرتی ہیں تو ہم تاریخ کی قوس کو موڑنے کے لیے اپنے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔
میرے ساتھی راہنماؤ ہم ایک مرتبہ پھر عالمی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر اکٹھے ہوئے ہیں جہاں دنیا کی نظریں آپ سب پر بلکہ ہم سب پر لگی ہوئی ہیں۔
امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میں اپنے ملک کی اس نازک لمحے میں قیادت کرنے، مشترکہ مقصد کے لیے جوڑنے والے ہر خطے کے ممالک کے ساتھ کام کرنے، اور ایک ایسی دنیا کے مستقبل کے بارے میں مشترکہ وژن رکھنے والے شراکت داروں کے ساتھ شامل ہونے کے اپنے ملک کے فرض کو سمجھتا ہوں جہاں ہمارے بچے بھوکے نہ سوئیں اور ہر کسی کو معیاری طبی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو، جہاں کارکن بااختیار ہوں اور ہمارے ماحول کا تحفظ کیا جاتا ہو، جہاں ہر جگہ کے کاروباری اور جدت طراز افراد کو ہر جگہ مواقعوں تک رسائی حاصل ہو سکتی ہو، جہاں تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جاتا ہو اور ممالک اپنے راستے کا خود تعین کر سکتے ہوں۔
امریکہ تمام لوگوں کے لیے ایک زیادہ محفوظ، زیادہ خوشحال، زیادہ منصفانہ دنیا کے لیے کوشاں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مستقبل آپ کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ مجھے یہ بات دہرانے دیں: ہمارا مستقبل آپ کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔
اور کوئی بھی ملک آج کے چیلنجوں سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔
ہم سے پہلے آنے والی نسلوں نے اپنے وقت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس ادارے یعنی اقوام متحدہ کو منظم کیا اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور کثیرالفریقی اور علاقائی ادارے کھڑے کیے۔
یہ ادارہ ہمیشہ کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی یہ ہمیشہ کامل رہا ہے۔ مگر اکھٹے مل کر کام کرتے ہوئے دنیا نے کچھ ایسی قابل ذکر اور ناقابل تردید پیشرفتیں کی ہیں جن سے سب لوگوں کی زندگیوں میں بہتریاں آئی ہیں۔
ہم نے ایک ارب افراد جی ہاں ایک ارب افراد کو شدید غربت سے نکالتے ہوئے عالمی تصادم کی تجدید سے گریز کیا۔
ہم نے مل کر کروڑوں بچوں کی تعلیم تک رسائی کو بڑہایا۔
ہم نے کروڑوں انسانی جانیں بچائیں جو بصورت دیگر خسرہ، ملیریا، تپ دق جیسی قابل انسداد اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتیں۔
ایچ آئی وی/ایڈز کے انفیکشنوں اور اموات کی تعداد کو تیزی سے کم کیا جس کی بڑی وجہ 55 سے زائد ممالک میں 25 ملین سے زائد جانیں بچانے والا پیپ فار [پروگرام ] کا کام تھا۔
یہ اس بات کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ جب ہم مل کر کام کرتے ہیں تو ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ جب ہم مشکل چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہمارے لیے اپنی ترقی کو تیز سے تیز تر کرنے کی ایک پوشیدہ تنبیہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی پیچھے نہ رہے کیونکہ بہت سارے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ہم نے مل کر جو ادارے بنائے تھے وہ ہماری ترقی کی ایک مضبوط بنیاد بن چکے ہیں اور امریکہ انہیں برقرار رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
اس برس ہمیں یونیسکو میں دوبارہ شمولیت پر فخر ہے۔ تاہم ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے دہائیوں پرانے اداروں اور اور سوچوں کو نئے چیلنجوں سے نمٹنے اور انہیں دنیا کے موجودہ حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اُن میں تبدیلیاں لانا ہوں گیں۔
ہمیں مزید قیادت اور صلاحیتوں کو آگے لانا ہوگا جو کہ ہر جگہ موجود ہیں بالخصوص اُن خطوں سے جنہیں ہمیشہ بھرپور طور پر شامل نہیں کیا جاتا۔ ہمیں اُن چیلنجوں پر قابو پانا ہے جو باہم منسلک اور پیچیدہ ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم نہ صرف مخصوص جگہوں پر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ لوگوں کی خدمت کریں۔ ہرجگہ۔
سادہ الفاظ میں ہمیں ایک ساتھ چلنے کے لیے اکیسویں صدی کے نتائج کی شدید ضرورت ہے۔ اس کآ آغاز اقوام متحدہ سے یعنی یہاں اس کمرے سے ہوتا ہے۔
گزشتہ برس اس ادارے سے اپنے خطاب میں میں نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ سلامتی کونسل کی توسیع، مستقل اور غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
امریکہ نے کئی رکن ممالک کے ساتھ سنجیدہ مشاورت کی ہے۔ ہم مزید اصلاحاتی کوششوں کو آگے بڑھانے، مشترکہ بنیادوں کے نکات تلاش کرنے اور آنے والے سال میں پیش رفت کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا جاری رکھیں گے۔
ہمیں اس جمود کو توڑنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے جو عام طور پر پیشرفت میں رخنہ ڈالتا ہے اور کونسل پر مکمل اتفاق رائے کو روکتا ہے۔ ہمیں مذاکراتی میز پر مزید آوازوں اور مزید نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کو امن کو تحفظ دینے، تنازعات کو روکنے اور انسانی مصائب کے خاتمے کے لیے کام جاری رکھنا چاہیے۔ اور ہم اُن ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جو نئے طریقوں سے رہنمائی کرنے اور مشکل مسائل کے نئے حل تلاش کرنے کے لیے سامنے آ رہے ہیں۔
مثال کے طور پر کیریبیئن ممالک کی برادری، ہیٹی کے معاملے میں ہیٹی کے معاشرے کے اندر مکالمے میں مدد کر رہی ہے۔
میں کینیا کے صدر روٹو کا اقوام متحدہ کی حمایت سے قائم کیے جانے والے سکیورٹی مشن کی قیادت کرنے والے ملک کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لیے اُن کی رضامندی پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اب اس مشن کی باضابطہ اجازت دے۔ ہیٹی کے لوگ مزید انتظار نہیں کر سکتے۔
امریکہ عالمی اداروں کو زیادہ ذمہ دار، زیادہ موثر اور زیادہ مشمولہ بنانے کی خاطر سب کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر ہم نے عالمی بنک میں اصلاحات کرنے اور اس میں وسعت لانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں اور اس کی فنانسنگ کو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک تک پھیلایا ہے تاکہ اس سے پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کی جانب پیش رفت کو آگے بڑہایا جا سکے اور ماحولیاتی تبدیلی اور نزاکت جیسے باہم مربوط چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکے۔
عالمی بنک کے نئے سربراہ کی قیادت سے آنے والی تبدیلی جڑیں پکڑتی جا رہی ہے۔
گزشتہ ماہ، میں نے امریکی کانگریس سے عالمی بنک کی مالی امداد کو 25 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے اضافی فنڈز مانگے ہیں۔ اس کے علاوہ جی 20 میں ہم نے دنیا کی بڑی معیشتوں کو اور زیادہ فنڈنگ اکٹھا کرنے کے لیے ایک جگہ جمع کیا۔ مجموعی طور پر ہم عالمی بنک کی قرض دینے کی صلاحیت کو انقلابی بڑہاوا دے سکتے ہیں۔
اور چونکہ ترقی پذیر ممالک میں شفاف، اعلٰی معیار کی سرمایہ کاری کے لیے کثیر الجہتی ترقیاتی بنکوں کا شمار ہمیں دستیاب بہترین ذرائع میں ہوتا ہے اس لیے اِن اداروں میں اصلاحات لانے سے ترقی کے اس کھیل کا پانسہ پلٹا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں ترقی پذیر ممالک کو مضبوط آواز اور مضبوط نمائندگی دی جائے۔
ہم تجارت کی عالمی تنظیم میں اصلاحات لانے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور مسابقت، کھلے پن، شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اسے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کو تحرک دینے، محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے، مشمولہ اور دیرپا نمو جیسے جدید دور کے فوری تقاضوں سے نمٹنے کے لیے وسائل بھی مہیا کریں گے۔
اور اس ماہ ہم نے جی 20 کے انتہائی اہم فورم میں افریقی یونین کا مستقل رکن کی حیثیت سے خیرمقدم کر کے جی 20 کو مضبوط بنایا۔
تاہم اپنے اداروں کو مزید بہتر بنانا اور مضبوط کرنا تصویر کا ایک رخ ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں نئی شراکتداریاں تشکیل دینا ہوں گیں اور نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت جیسی ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیاں اپنے ہمراہ بے تحاشہ امکانات اور بڑے بڑے خطرات لاتی ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انہیں مواقع کے وسائل کے طور پر استعمال کیا جائے نہ کہ انہیں جبر کے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جائے۔
دنیا کے راہنماؤں کے ساتھ مل کر امریکہ قوانین اور پالیسیوں کو مضبوط بنا رہا ہے تاکہ اے آئی ٹکنالوجیوں کو عوام کے استعمال کے لیے جاری کرنے سے قبل محفوظ بنایا جائے، یہ یقینی بنایا جائے کہ ہمیں ان ٹکنالوجیوں پر اختیار ہو نہ کہ معاملہ اس کے برعکس ہو اور انہیں ہم پر اختیار حاصل ہو۔
اور میں یہ یقینی بنانے کے لیے اس ادارے اور دیگر بین الاقوامی اداروں اور دنیا بھرکے حکمرانوں کے ساتھ براہ راست کام کرنے کے لیے پرعزم ہوں کہ ہم مصنوعی ذہانت کے سب سے بڑے خطرے سے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس کی طاقت کو بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
اس میں ہم سب کو شامل ہونا ہوگا۔ جیسا کہ آپ اس پر کام کر رہے ہیں میں بھی اس پر کچھ عرصے سے کام کر رہا ہوں۔ اس کام کو درست طریقے سے کرنے میں ہمیں سب کی ضرورت پڑے گی۔
دنیا کے تمام خطوں میں امریکہ ہم سب کے مشترکہ چیلنجوں کے حوالے سے نئی سوچیں لانے کے لیے مضبوط اتحادوں، ہمہ گیر شراکتداریوں، مشترکہ مقصد، اور اجتماعی اقدام کو تحرک دے رہا ہے۔
یہاں مغربی نصف کرے میں ہم نے نقل مکانی اور تحفظ پر لاس اینجلیس اعلامیے کی حمایت میں 21 ممالک کو متحد کیا اور پورے خطے کے چیلنجوں کے لیے پورے خطے کی سوچ کی شروعات کیں تاکہ عمدہ طریقے سے قوانین کی بالادستی قائم کی جانے اور نقل مکانی کرنے والوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
بحرہند و بحرالکاہل میں ہم نے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ کی شراکت داری کو بڑہایا ہے تاکہ ویکسین سے لے کر سمندری جہازرانی کی سلامتی تک خطے کے عوام کے لیے ٹھوس ترقی کی جا سکے۔
ابھی کل ہی دو [برس] کی مشاورت اور سفارت کاری کے بعد امریکہ نے بحر اوقیانوس کے تعاون کے لیے ایک نئی شراکت داری قائم کرنے کے لیے چار براعظموں کے درجنوں ممالک کو اکٹھا کیا تاکہ بحر اوقیانوس کے ساحلی ممالک سائنس، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تحفظ، اور پائیدار اقتصادی ترقی سے متعلق بہتر طور پر تعاون کر سکیں۔
ہم نے فینٹنائل اور مصنوعی طریقے سے تیار کی جانے والیں ادویات کا خاتمہ کرنے کے لیے تقریباً 100 ممالک کو اکٹھا کیا ہے تاکہ اس ابتلا کی انسانی قیمت کو کم کیا جا سکے۔ اور یہ [فینٹنائل] ایک حقیقت ہے۔
اور جس طرح دہشت گردی کے خطرات کی نوعیت بدل رہی ہے اور جغرافیہ نئی جگہوں تک پھیلتا جا رہا ہے، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر سازشوں کو ناکام بنانے، نیٹ ورکوں کو توڑنے اور اپنے تمام لوگوں کی حفاظت کرنے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کام کر رہے ہیں۔
مزید برآں ہم نے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے، بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، اور سیاسی تشدد کو مسترد کرنے کے لیے جمہوریت کے لیے سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا۔
اور آج جب مغربی اور وسطی افریقہ میں جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومتوں کا یکے بعد دیگرے تختہ الٹا گیا ہے ہمیں یہ یاد دلایا جا رہا ہے کہ یہ کام ہمیشہ کی طرح فوری اور اہم ہے۔
ہم آئینی حکمرانی کی حمایت کرنے کے لیے افریقی یونین اور ایکوواس اور دیگر علاقائی تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اُن اقدار سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جو ہمیں مضبوط بناتی ہیں۔ ہم جمہوریت کا دفاع کریں گے جو کہ دنیا بھر میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا ہمارا بہترین ذریعہ ہے۔ اور ہم یہ ثابت کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن سے جمہوریت کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ کہ اِن طریقوں کو لوگوں کی زندگیوں میں اہمیت حاصل ہے۔
عالمی بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے لیے شراکت داری، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک، بالخصوص افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی شدید ضرورتوں اور مواقع کو پورا کر رہی ہے۔
ہم تزویراتی، اور اہدافی حکومتی سرمایہ کاریوں کے ذریعے، نجی شعبے کی بے تحاشہ فنانسنگ کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔
جی سیون نے بنیادی ڈہانچے کی فنانسنگ کے لیے مجموعی طور پر 600 ارب ڈالر جمع کرنے کی خاطر فریقین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ اج تک 30 ارب ڈالر سے زائد رقم کا بندوبست کر چکا ہے۔
ہم نے ایسے پراجیکٹوں کے لیے پہلے نمبر پر آنے کے لیے ایک دوڑ کا سا سماں پیدا کیا ہے جن کے لیے ناپائیدار قرضوں سے بچتے ہوئے محنت کشوں، ماحول اور املاک دانش کے اعلٰی معیار مقرر کیے گئے ہیں۔
ہم ایسی اقتصادی راہداریوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جن سے ہماری اجتماعی سرمایہ کاری کے زیادہ سے زیادہ اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک اور بہت سے شعبوں میں دور رس نتائج بھی مرتب ہوں گے۔
مثال کے طور پر لوبیٹو راہداری انگولا کی مغربی بندرگاہ سے لے کر ڈی آر سی تک اور زیمبیا تک پورے افریقہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے افریقہ میں علاقائی جڑت کو فروغ ملے گا اور تجارت اور غذائی سلامتی مضبوط ہوگی۔
اسی طرح ہم نے جی 20 میں بھارت کو یو اے ای، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کے راستے یورپ سے ملانے کی جس نئی کاوش کا اعلان کیا گیا اس سے دو براعظموں پر پھیلے مواقعوں اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔
یہ ایک زیادہ پائیدار، مربوط مشرق وسطیٰ کی تعمیر کے لیے ہماری کوششوں کا حصہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت اسرائیل کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر حالات کو معمول پر لانا اور اقتصادی رابطے پیدا کرنا کس طرح مثبت اور عملی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جبکہ ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو قوموں دو ریاستوں کی بنیاد پر منصفانہ اور دیرپا امن کی حمایت کے لیے انتھک محنت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب مجھے یہ بات واضح کرنے دیجیے: اِن شراکت داریوں میں سے کسی بھی شراکت داری کا کسی بھی دوسرے ملک کا راستہ روکنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن کا تعلق ہمارے مشترکہ مستقبل کے لیے ایک مثبت وژن سے ہے۔
جب چین کی بات آتی ہے تو میں بالکل واضح ہونا اور اپنے موقف کا تسلسل قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے ممالک کے درمیان ذمہ دارانہ مسابقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ تنازعے کی شکل اختیار نہ کرے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ “ہم خطرات سے بچنے کے حق میں ہیں نہ کہ چین کو جدا کرنے کے حق میں۔”
ہم جارحیت اور دھمکیوں کی مخالفت کریں گے اور سمندری جہاز رانی سے لے کر طیاروں کی ملکوں کے اوپر سے پرواز کی آزادی تک ایک ایسے یکساں مواقع کے حامل اقتصادی میدان کے مروجہ قوانین و ضوابط کا دفاع کریں گے جس نے دہائیوں سے سلامتی اور خوشحالی کے تحفظ میں مدد کی ہے۔
مگر ہم ان مسائل پر چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں جہاں ترقی ہماری مشترکہ کوششوں سے مشروط ہے۔
اس کام کی انتہائی اہمیت شدید سے شدید تر ہوتے ہوئے موسمیاتی بحران سے بڑھکر کسی اور معاملے میں نہیں ہے۔ ہم اسے ہر کہیں دیکھ رہے ہیں جیسا کہ امریکہ اور چین میں ریکارڈ توڑ گرمی کی لہریں؛ شمالی امریکہ اور جنوبی یورپ میں تباہی مچاتی ہوئی جنگلوں میں لگنے والیں آگیں؛ قرن افریقہ میں خشک سالی کا مسلسل پانچواں سال؛ لیبیا میں المناک سیلاب — میرا دل لیبیا کے لوگوں کے لیے دکھتا ہے — جس سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
اگر ہم معدنی ایندھن پر اپنا انحصار کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو محفوظ بنانے کا کام شروع کرنے میں ناکام رہے تو جو کچھ ہمارا منتظر ہے اس کے بارے میں یہ سب منظرنامے مل کر ہمیں فوری اہمیت کی حامل کی کہانی سناتے ہیں۔
جب سے ہم نے اقتدار سنبھالا ہے [پہلے دن سے] میری انتظامیہ نے، امریکہ نے اس بحران کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک وجودی خطرہ سمجھا ہے۔
گزشتہ برس موسمیاتی بحران کا مقابلہ کرنے اور عالمی معیشت کو ماحول دوست توانائی کے حامل مستقبل کے طرف لے جانے میں مدد کرنے کے لیے میں نے امریکہ کی بلکہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کے قانون پر دستخط کیے۔
ہم ترقی پذیر ممالک کو اپنے آب و ہوا کے اہداف تک پہنچنے اور موسمیاتی اثرات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد کرنے کے لیے اپنی آب و ہوا کی فنانسنگ کو چار گنا کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہے ہیں۔
اور ہم اس برس پیرس معاہدے کے تحت مجموعی طور پر 100 ارب ڈالر اکٹھے کرنے کے لیے کیے گئے موسمیاتی فنانس کے وعدوں کو پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ مگر ہمیں بالخصوص بحرالکاہل کے جزائر جیسی اُن جگہوں پر برابر کی سرکاری اور نجی سرمایہ کاریوں کی ضرورت ہے جن کا عالمی اخراجوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر انہیں بعض بدترین موسمیاتی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکہ ان ممالک کی خود کو موسمیاتی اثرات کے مطابق ڈھالنے اور لچک پیدا کرنے میں مدد کرنے کے لیے بحرالکاہل کے جزائر کے فورم کے ساتھ براہ راست کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ایسی اختراعی اور نئی شراکت داریاں تشکیل دینے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں جو تمام اطراف سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کریں گیں۔
فرسٹ موورز کولیشن جو کہ اربوں کی نجی شعبے کی کمیونٹی کو متحرک کر رہا ہے، نجی شعبے کے وعدوں کے تحت کنکریٹ، شپنگ، ہوا بازی اور ٹرکنگ جیسے زیادہ کاربن پیدا کرنے والے شعبوں میں ماحول دوست مصنوعات کی مارکیٹ میں طلب پیدا کرے گا۔ زرعی اختراع سازی کا مشن برائے آب و ہوا کسانوں کو آب و ہوا کے مسائل کے حلوں میں شامل کرے گا اور ہماری خوراک کی فراہمی کو موسمیاتی جھٹکوں کے مقابلے میں مزید لچکدار بنائے گا۔ اور میتھین کاعالمی عہد جس کی اب تک 150 سے زائد ممالک توثیق کر چکے ہیں، اس دہائی میں ہماری فضا میں ممکنہ گرین ہاؤس گیسوں کو 30 فیصد تک کم کرنے کے لیے ہمارے کاربن کے اخراجوں کے اہداف سے آگے تک ہماری توجہ مبذول کرائے گا۔ [مذکورہ بالا] تمام اقدامات ہماری پہنچ میں ہیں۔
ایک ایسے وقت جب ہم 2030 کے دیرپا ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں ہمیں اسی قسم کے عزم اور عجلت اور احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اہداف اقوام متحدہ نے 2015 میں پوری دنیا میں زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ایک روڈ میپ کے طور پر منظور کیے تھے۔
مگر تلخ سچ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں کووڈ-19، تصادموں اور دیگر بحرانوں کے نتیجے میں دہائیوں کی ترقی دنیا کے ہاتھ سے نکل گئی۔
ہمیں دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے لیے امریکہ اپنا کردار ادا کرنے میں پرعزم ہے۔
قصہ مختصر، میری انتظامیہ کے پہلے دو برسوں میں امریکہ نے غذائی سلامتی کو مضبوط کرنے، دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی کو بڑھانے، صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مضبوط بنانے اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر ترقیاتی پیشرفت کو بڑہاوا دینے کے لیے 100 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی۔ اس کے علاوہ ہم نے نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اربوں ڈالر کی اضافی سرمایہ کاریوں کو متحرک کرنے میں مدد کی۔
لیکن پائیدار ترقی کے اہداف پر اپنی پیش رفت کو تیز سے تیز تر کرنے کے لیے ہم سب کو مزید کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسی نئی شراکت داریاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو اس چیلنج سے نمٹنے کے طریقوں کو بدلیں تاکہ تمام وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی کے لیے کھربوں کی اضافی فنانسنگ کو متحرک کیا جا سکے۔ ہمیں اِن خلاؤں کو پُر کرنے اور اپنے موجودہ نظام کی وبائی امراض کے نتیجے میں سامنے آنے والی ناکامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ خواتین اور عورتیں ہماری ترقی سے بھرپور طریقے سے مستفید ہو سکیں۔
ہمیں اُن قرضوں پر قابو پانے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا جو بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔ جب قوموں کو اپنے ہی لوگوں کی ضروریات پر قرضوں کی ناپائیدار ادائیگیوں کو ترجیح دینے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس سے ان کے لیے اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اور ایسے میں جب ہم عالمی جھٹکوں سے نکلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، امریکہ کسی ایک ادارے کو سب سے زیادہ عطیہ دینے والا ملک بنا رہے گا یعنی ایک ایسا ملک جو دنیا میں ضرورت کے ان بیمثال لمحات میں انسانی امداد کے طور پر عطیات دے رہا ہے۔
دوستو، تعاون، شراکت داری یہ اُن چیلنجوں سے متعلق کی جانے والی پیشرفتوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جو ہم سب کو متاثر کرتے ہیں اور اس میں آخری نقطہ ذمہ دار عالمی قیادت ہے۔
ہمیں ہتھیاروں پر کنٹرول جیسے مسائل پر آگے بڑھنے کے لیے ہر چیز پر متفق ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس [کنٹرول] کو بین الاقوامی سلامتی میں سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔
عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت 50 سال سے زائد عرصے پر محیط پیشرفت کے بعد روس ہتھیاروں کے کنٹرول کے دیرینہ معاہدوں کو توڑتا جا رہا ہے جن میں نیو سٹارٹ کی معطلی اور یورپ میں روایتی افواج کے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان بھی شامل ہے۔
میں اس فعل کو غیرذمہ دارانہ سمجھتا ہوں اور اس سے پوری دنیا کم محفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔
بھلے دنیا میں کچھ بھی ہو رہا ہو امریکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرات کو کم کرنے اور مثال قائم کر کے قیادت کرنے کے ذریعے نیک نیتی سے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
اس سال ہم نے کیمیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے امریکی ذخیرے میں موجود آخری کیمیائی ہتھیاروں کو محفوظ طریقے سے تباہ کر دیا۔
اور ہم ڈی پی آر کے کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرادادوں کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم ہم ایسی سفارت کاری سے کام لینے کے لیے پرعزم ہیں جو جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا سبب بنے گی۔
اور ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایران کی عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں سے نمٹنے پر کام کر رہے ہیں جن سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو خطرت لاحق ہیں اور اپنے اس عزم پر ثابت قدمی سے قائم ہیں کہ ایران کو کسی صورت میں بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔
اب جبکہ ہم اپنے اداروں کو کھڑا کر رہے ہیں اور نئی تخلیقی شراکت داریاں تشکیل دے رہے ہیں تو میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بین الاقوام نظام کے بعض اصول مقدس ہیں۔
خودمختاری، علاقائی سالمیت، انسانی حقوق – یہ سب اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصول ہیں، اور ممالک کے مابین پرامن تعلقات کے ستون ہیں۔ ان کے بغیر ہم اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکتے۔
یہ نہیں بدلے اور انہیں ہرگز نہیں بدلنا چاہیے۔
اس کے باوجود مسلسل دوسرے سال تنازعات کے پرامن حل کے لیے وقف اس اجتماع پر جنگ کا تاریک سایہ چھایا ہوا ہے۔ یہ فتح کی ایک غیرقانونی جنگ ہے جسے روس نے اپنے پڑوسی، یوکرین پر بغیر کسی اشتعال انگیزی کے مسلط کر رکھا ہوا ہے۔
دنیا کے ہر ملک کی طرح امریکہ بھی یہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔ کوئی بھی ملک اتنا زیادہ نہیں چاہتا کہ یہ جنگ ختم ہو جتنا کہ یوکرین چاہتا ہے۔
اور ہم یوکرین کی ایک ایسا سفارتی حل لانے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جو منصفانہ اور دیرپا امن فراہم کرتا ہے۔
اس جنگ کی ذمہ داری صرف اور صرف روس پر عائد ہوتی ہے۔ صرف روس ہی اس جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور یہ اکیلا روس ہی ہے جو امن کی راہ میں کھڑا ہوا ہے کیونکہ امن کے لیے روس کی قیمت یوکرین کا ہتھیار ڈالنا ہے، یوکرین کی سرزمین ہے اور یوکرین کے بچے ہیں۔
روس کا خیال ہے کہ دنیا تھک جائے گی اور اسے نتائج کا سامنا کیے بغیر یوکرین پر ظلم و ستم ڈھانے کی اجازت دے گی۔
مگر میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اگر ہم کسی جارح کو خوش کرنے کے لیے [اقوام متحدہ کے منشور] کے بنیادی اصولوں کو ترک کردیں تو کیا اس ادارے کا کوئی رکن ملک یہ اعتماد محسوس کر سکتا ہے کہ اُسے تحفظ حاصل ہے؟ اگر ہم یوکرین کے حصے بخرے کرنے کی اجازت دے دیں تو کیا کسی دوسرے ملک کی آزادی محفوظ ہوگی؟
میں احترام سے کہوں گا کہ میرا جواب نفی میں ہے۔
ہمیں آج اس ننگی جارحیت کے خلاف کھڑے ہونا ہے اور مستقبل کے دیگر جارحین کو [جارحیت] سے باز رکھنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر یوکرین کے بہادر عوام کے ساتھ بدستور کھڑا ہے کیوں کہ وہ اپنی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور اپنی آزادی کا دفاع کر رہے ہیں۔ (تالیاں۔)
یہ نہ صرف یوکرین کے مستقبل میں سرمایہ کاری ہے بلکہ ہر اس ملک کے مستقبل میں سرمایہ کاری بھی ہے جو ایک ایسی دنیا کا خواہاں ہے جو اُن بنیادی قوانین کے مطابق چلائی جاتی ہو جو تمام ممالک پر یکساں طور پر لاگو ہوں۔ اور قطع نظر اس کے کہ کوئی ملک کتنا بڑا یا کتنا چھوٹا ہے ہر ملک کے حقوق یعنی خودمختاری، علاقائی سالمیت کو مقدم رکھا جائے- یہی اس معزز ادارے کی مستحکم بنیادیں ہیں اور عالمگیر انسانی حقوق اس کا شمالی ستارہ ہے۔ اِن میں سے ہم کسی ایک کو بھی قربان نہیں کر سکتے۔
پچھتر برس قبل انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اجتماعی امید، میں ایک بار پھر کہتا ہوں اجتماعی امید، کے ایک قابل ذکر عمل کا باعث بنا۔ اس اعلامیے کا مسودہ جس کمیٹی نے تیار کیا اس میں مختلف خطوں، فلسفوں کو نمائندگی حاصل تھی اور اسے پوری جنرل اسمبلی نے منظور کیا۔ اس اعلامیے میں موجود حقوق بنیادی اور لازوال ہیں۔
اور ایک ایسے وقت جب ہم اب بھی سب کے برابر کے اور ناقابل تنسیخ حقوق کی سربلندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یہ حفقوق ہمیشہ کی طرح آج بھی مستحکم اور سچے ہیں۔
چاہے یہ زیادتیاں شنجیانگ میں ہوں، دارفور میں ہوں یا کہیں اور ہوں ہم ان سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔
ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے کام جاری رکھنا ہوگا کہ خواتین اور لڑکیوں کو ان کے معاشروں میں مساوی حقوق اور مساوی شرکت کے مواقع حاصل ہوں۔ اور یہ کہ آبائی گروہ؛ نسلی، ثقافتی، مذہبی اقلیتیں؛ معذریوں کے حامل افراد کی صلاحیتیں نظاماتی امتیازی سلوک کے ذریعے کچلی نہ جائیں۔ اور یہ کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی+ افراد کے خلاف اُن کی شناخت کی بنیاد پر مقدمات نہ چلائے جائیں یا انہیں تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
یہ حقوق ہماری مشترکہ انسانیت کا حصہ ہیں۔ جب کسی بھی جگہ پر یہ حقوق موجود نہیں ہوتے تو اس سے ہونے والا نقصان ہرجگہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ اُس انسانی ترقی کے فروغ کے لیے ضروری ہیں جو ہمیں یکجا کرتی ہے۔
میرے ساتھی رہنماؤ مجھے اِن کلمات سے بات ختم کرنے کی اجازت دیں۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اس پیمانے پر پرکھا جائے گا کہ آیا ہم نے ان وعدوں کو پورا کیا جو ہم نے اپنے آپ سے، ایک دوسرے سے، کمزور ترین لوگوں سے اور اُن تمام لوگوں سے کیے جو ہماری تشکیل کردہ دنیا کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ ہم یہی کام کر رہے ہیں۔
کیا ہم اپنے اندر وہ کچھ کرنے کی ہمت پائیں گے جو کرہ ارض کے تحفظ، انسانی وقار کے تحفظ، پوری دنیا کے لوگوں کو مواقع فراہم کرنے اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے دفاع کے لیے کیا جانا چاہیے تھا؟
اس کا صرف ایک ہی جواب ہو سکتا ہے یعنی ہمیں بہرصورت یہی کرنا چاہیے اور ہم یہی کریں گے۔
آگے کی راہ طویل اور دشوار تو ہے لیکن اگر ہم استقامت سے کام لیں اور غالب رہیں، اگر ہم اپنے آپ پر یقین رکھیں اور دکھائیں کہ کیا ممکن ہے تو [ہم کامیاب ٹھہریں گے۔]
آئیے اکٹھے مل کر یہ کام کریں۔ آئیے سب کے لیے ترقی لے کر آئیں۔ آئیے دنیا کی بھلائی کے لیے تاریخ کے قوس کو موڑیں کیونکہ ایسا کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔
توجہ سے سننے کے لیے آپ کا شکریہ. آپ مہربان ہیں۔ (تالیاں۔)
10:44 صبح ای ڈی ٹی
# اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2023/09/19/remarks-by-president-biden-before-the-78th-session-of-the-united-nations-general-assembly-new-york-ny/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔