وائٹ ہاؤس
برائے فوری اجراء
ایسٹ روم
15 فروری، 2022
3:29 سہ پہر
صدر: سہ پہر بخیر: آج میں آپ کو روس اور یوکرین سے متعلق بحران پر تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنا چاہوں گا۔
اس بحران کے آغاز سے ہی میں نے واضح طور پر اور مسلسل یہ بات کی ہے کہ امریکہ ہر صورتحال کے لیے تیار ہے۔
ہم سفارتی اقدامات کے لیے تیار ہیں، ہم پورے یورپ میں استحکام اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ سفارت کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہم یوکرین پر روس کے حملے کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاحال اس حملے کا بہت زیادہ امکان موجود ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کی تمام تر صورتحال میں ہماری یہی سوچ رہی ہے اور اب بھی ہماری یہی سوچ برقرار ہے۔
اس لیے آج میں امریکہ کے لوگوں سے اس بحران کے حوالے سے بنیادی باتیں کرنا چاہتا ہوں اور انہیں اُن اقدامات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو ہم اٹھا چکے ہیں، انہیں اُن اقدامات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو اٹھانے کے لیے ہم تیار ہیں اور انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس بحران میں ہمارا اور دنیا کا کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور اس کا اندرون ملک ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
میری انتظامیہ کئی ہفتوں سے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مسلسل سفارتی اقدامات میں مصروف رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر میں نے دوبارہ صدر پوٹن سے بات کی اور ان پر واضح کیا کہ ہم روس، امریکہ اور یورپی ممالک کے مابین تحریری سمجھوتوں کے لیے اعلیٰ درجے کی سفارت کاری جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اگر روس چاہے تو سلامتی سے متعلق جائز خدشات دور کیے جا سکیں۔ ان میں اس کے اور ہمارے دونوں کے خدشات شامل ہیں۔
صدر پوٹن اور میں نے اتفاق کیا کہ ہماری ٹیموں کو اس مقصد کے لیے بات چیت جاری رکھنی چاہیے جس میں ہمارے یورپی اتحادی اور شراکت دار بھی شامل ہوں۔
گزشتہ روز روس کی حکومت نے اعلانیہ طور پر سفارتی عمل جاری رکھنے کی تجویز دی۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں سفارتی عمل کو کامیابی کا ہر موقع دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سلامتی سے متعلق دونوں فریقین کے متعلقہ خدشات سے نمٹنے کے طریقے موجود ہیں۔
امریکہ نے یورپ میں سلامتی سے متعلق ماحول قائم کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں۔
ہم اسلحے پر پابندی، شفافیت اور تزویراتی استحکام کے لیے نئے اقدامات تجویز کر رہے ہیں۔ یہ اقدامات نیٹو اور روس سمیت تمام فریقین پر لاگو ہوں گے۔
ہم عملی اور نتائج دینے والے ایسے اقدامات کے لیے تیار ہیں جن سے ہماری مشترکہ سلامتی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم بنیادی اصولوں کو قربان نہیں کریں گے۔
تمام ممالک کو اپنی خودمختاری اور زمینی سالمیت قائم رکھنے کا حق ہے۔ انہیں یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں اور کون سے ممالک کے ساتھ چلنا چاہیں گے۔
تاہم اس کے باوجود سفارت کاری سے کام لینے اور تناؤ میں کمی لانے کی بہت سی گنجائش موجود ہے۔ ہمارے خیال میں یہ تمام فریقین کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی قریبی مشاورت سے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے۔
جب تک اس مسئلے کے سفارتی حل کی امید موجود ہے ہم اس پر قائم رہیں گے۔ یہ امید طاقت کے استعمال سے روکتی ہے اور اس سے ہونے والے ناقابل یقین انسانی مصائب سے بچاتی ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے آج اطلاع دی ہے کہ اس کی فوج کے کچھ یونٹ یوکرین کے قریب اپنی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
یہ اچھی خبر ہو گی لیکن تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ابھی ہم نے یہ تصدیق نہیں کی کہ آیا روس کی فوج کے یونٹ واپس جا رہے ہیں یا نہیں۔ درحقیقت ہمارے تجزیے سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ اب بھی خطرناک پوزیشن میں ہیں۔ یہ حقیقت بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ اس وقت روس کی 150,000 سے زیادہ فوج بیلارس میں اور یوکرین کی سرحد کے ساتھ اسے گھیرے ہوئے ہے۔
یوکرین پر روس کا حملہ واضح طور پر ممکن ہے۔ اسی لیے میں ںے کئی مرتبہ کہا ہے کہ یوکرین میں موجود تمام امریکی شہریوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ ان کے لیے محفوظ انخلا کرنا مشکل ہو جائے۔ اسی لیے ہم نے اپنا سفارت خانہ عارضی طور پر کیئو سے مغربی یوکرین کے شہر لیوو منتقل کر دیا ہے جو پولینڈ کی سرحد کے قریب ہے۔
ہم نے روس کے منصوبوں اور صورتحال کی سنجیدگی کے حوالے سے امریکہ کے لوگوں اور دنیا کو صاف صاف بتایا ہے تاکہ سبھی خود دیکھ لیں کہ دراصل ہو کیا رہا ہے۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں اور اس صورتحال میں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے سبھی کو آگاہ کر دیا ہے۔
یہاں میں یہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم کیا نہیں کر رہے۔
امریکہ اور نیٹو روس کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ یوکرین روس کے لیے خطرہ پیدا نہیں کر رہا۔ امریکہ اور نیٹو نے یوکرین میں میزائل نصب نہیں کر رکھے۔ ہمارے انہیں وہاں نصب کرنے کے کوئی ارادے نہیں ہیں۔ ہم روس کے شہریوں کو نشانہ نہیں بنا رہے۔ ہم روس کو غیرمستحکم کرنا نہیں چاہتے۔
میں روس کے شہریوں سے کہتا ہوں کہ آپ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ یوکرین کے خلاف ایک خونی اور تباہ کن جنگ چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ آپ کے گہرے خاندانی، تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔
ستتر سال پہلے ہمارے لوگ تاریخ کی بدترین جنگ کو ختم کرنے کے لیے شانہ بشانہ لڑے اور قربانی دی۔ ہم نے دوسری جنگ عظیم مجبوراً لڑی تھی۔ تاہم اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو یہ سوچی سمجھی جنگ ہو گی جس کا کوئی اچھا مقصد یا وجہ نہیں ہے۔
میں یہ باتیں اشتعال دلانے کے لیے نہیں بلکہ سچائی سامنے لانے کے لیے کر رہا ہوں کیونکہ سچائی اہمیت رکھتی ہے، ذمہ داری اور جواب دہی کی اہمیت ہے۔
آنے والے دنوں یا ہفتوں میں اگر روس حملہ کرتا ہے تو یوکرین کو بے پایاں انسانی ںقصان کا سامنا ہو گا اور روس کو بھی اس کی بہت بڑی تزویراتی قیمت چکانا پڑے گی۔
اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے پوری دنیا کی جانب سے بھرپور مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا یہ نہیں بھولے گی کہ روس نے بلاضرورت موت اور تباہی کا راستہ چنا۔
روس یوکرین پر حملہ کر کے گویا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارے گا۔
ایسے کسی حملے کی صورت میں امریکہ اور ہمارے اتحادی اور شراکت دار فیصلہ کن ردعمل دیں گے۔ مغرب اس معاملے میں متحد اور تیار ہے۔
آج ہمارے نیٹو اتحادی اور یہ اتحاد ہمیشہ کی طرح متحد اور پرعزم ہے۔ ہماری طاقت، مضبوطی اور ہماری مشترکہ جمہوری اقدار کی عالمی سطح پر قبولیت ہماری اٹوٹ قوت کا ذریعہ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں جو معاملہ درپیش ہے وہ محض روس اور یوکرین سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ ان باتوں کے لیے کھڑے ہونے کا معاملہ ہے جن پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ یہ اس مستقبل کا معاملہ ہے جو ہم اپنی دنیا کے لیے چاہتے ہیں، یہ آزادی کا معاملہ ہے، یہ بے شمار ممالک کے اپنی منزل کا انتخاب خود کرنے کے حق اور لوگوں کو اپنے مستقبل کا تعین خود کرنے کے حق اور اس اصول کا معاملہ ہے کہ کوئی ملک طاقت کے زور پر اپنے ہمسایہ ملک کی سرحدیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہی ہماری سوچ ہے۔ اس مقصد کے لیے، مجھے یقین ہے کہ یہ سوچ اور آزادی قائم رہے گی۔
اگر روس نے یوکرین پر چڑھائی کی تو ہم اس کی جارحیت کو روکنے کے لیے دنیا کو اکٹھا کریں گے۔
امریکہ اور دنیا بھر میں ہمارے اتحادی اور شراکت دار روس کے خلاف طاقتور پابندیاں اور تجارتی پابندیاں عائد کرنے کو تیار ہیں۔ ان میں ایسے اقدامات بھی شامل ہیں جو ہم نے اس وقت نہیں اٹھائے تھے جب روس نے 2014 میں کرائمیا اور مشرقی یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ ہم اس کے بڑے اور اہم ترین مالیاتی اداروں اور اہم صنعتوں پر شدید دباؤ ڈالیں گے۔
ہم روس کے حملہ کرتے ہی یہ اقدامات اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسی صورت میں روس کو طویل مدتی نتائج بھگتنا ہوں گے جن سے اس کی معاشی اور تزویراتی مسابقتی اہلیت کمزور پڑ جائے گی۔
جہاں تک قدرتی گیس کو روس سے جرمنی پہنچانے والی پائپ لائن ‘نارڈ سٹریم 2’ کی بات ہے تو اگر روس نے یوکرین کے خلاف مزید کوئی کارروائی کی تو یہ پائپ لائن بند ہو جائے گی۔
اگرچہ میں روس کے خلاف لڑنے کے لیے امریکی فوجیوں کو یوکرین میں نہیں بھیجوں گا لیکن ہم نے یوکرین کی فوج کو اپنے دفاع کے لیے فوجی سازوسامان بھیجا ہے۔ ہم نے اس مقصد کے لیے انہیں تربیت، مشاورت اور اطلاعات بھی مہیا کی ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اپنی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے نیٹو کی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کرے گا۔ کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ ہم سب پر حملہ متصور ہو گا۔ امریکہ نیٹو کے آرٹیکل 5 پر پوری طرح عمل کرے گا۔
میں نے روس کی جانب سے فوجی اجتماع کے جواب میں پہلے ہی مزید امریکی فوجیوں کو نیٹو کے مشرقی پہلو کو مضبوط کرنے کے لیے بھیج دیا ہے۔ ہمارے بہت سے اتحادیوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مزاحمتی توازن اور نیٹو کے مشرقی پہلو پر دفاع یقینی طور پر قائم رکھنے کے لیے اپنی افواج اور صلاحیتوں سے کام لیں گے۔
ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں بھی کریں گے تاکہ اپنی دفاعی تیاری کو بہتر بنا سکیں۔
اگر روس نے حملہ کیا تو ہم نیٹو میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط بنانے، اپنے اتحادیوں کے دفاع کی یقین دہانی اور مستقبل میں کسی جارحیت کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔
یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے لیے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں متحد ہیں۔ میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس اور ان کے رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہمارے انتہائی بنیادی، دوطرفہ اور انتہائی امریکی اصولوں کے لیے کھل کر بات کی ہے۔
میں یہ ظاہر نہیں کروں گا کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس سے ہمارے ہاں توانائی کی قیمتوں پر اثر پڑ سکتا ہے اس لیے ہم اپنی توانائی کی منڈیوں پر دباؤ کم کرنے اور قیمتوں میں اضافے کا ازالہ کرنے کے لیے مستعد اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
ہم توانائی کے بڑے پیداکاروں اور صارفین کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم نچلی سطح پر صارفین کے لیے آسانی پیدا کرنے کی غرض سے ہرممکن ذرائع اور اختیار سے کام لے رہے ہیں۔
میں صارفین کے تحفظ اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے نچلی سطح پر اثرات سے نمٹنے کے مزید اقدامات کی غرض سے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔ ہم روس کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتے اگرچہ میں ںے واضح کر دیا ہے کہ اگر روس یوکرین میں امریکی شہریوں پر حملہ کرتا ہے تو ہم بھرپور طاقت سے اس کا جواب دیں گے۔
اگر روس نے ہماری کمپنیوں یا اہم تنصیبات پر خلل انگیز سائبر حملوں کی طرح غیرمتشکل انداز میں امریکہ یا ہمارے اتحادیوں کو نشانہ بنایا تو ہم اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
ہم سائبر سپیس میں لاحق خطرات کے خلاف نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اپنا مشترکہ دفاع بہتر بنانے کے لیے ان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔
دو راستے اب بھی کھلے ہیں: عالمی استحکام کے لیے روس اور امریکہ کی مشترکہ تاریخی ذمہ داری کی خاطر اور اپنے مشترکہ مستقبل کی خاطر سفارت کاری کا راستہ منتخب کیا جائے۔
تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کر کے اس ذمہ داری کی خلاف ورزی کی تو دنیا بھر کے ذمہ دار ممالک اس کا جواب دینے سے ہرگز نہیں ہچکچائیں گے۔
اگر ہم آج اپنی آزادی کو خطرے سے تحفظ نہیں دیں گے تو یقینی طور پر کل ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
آپ کا شکریہ۔ میں آپ کو صورتحال سے آگاہ کرتا رہوں گا۔
3:50 سہ پہر۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2022/02/15/remarks-by-president-biden-providing-an-update-on-russia-and-ukraine/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔