وائٹ ہاؤس
روزویلٹ روم
18 فروری، 2022
4:54 سہ پہر
صدر: سہ پہر بخیر۔ آج میں نے دو اہم فون کال کی ہیں، جیسا کہ میں چند مہینوں سے کر رہا ہوں، دو اہم فون کال، یوکرین اور روس کی صورتحال پر۔
میں نے پہلی کال دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس کو کی ہے جو اس وقت نائب صدر ہیرس کے ساتھ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں امریکہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
دوسری کال ہمارے نیٹو اتحادیوں اور یورپی یونین کے ممالک کے سربراہوں کے ساتھ گزشتہ کئی مہینوں سے جاری بات چیت کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جس کا مقصد انہیں اس بارے میں آگاہ کرنا ہے کہ امریکہ موجودہ حالات میں کیا سوچ رہا ہے اور آنے والے دنوں میں یوکرین میں ممکنہ طور پر کیا صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ اس بات چیت کا مقصد یہ یقینی بنانا بھی ہے کہ ہم یورپی یونین اور نیٹو کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
روس کی جانب سے ہمیں اندرون اور بیرون ملک تقسیم کرنے کی کوششوں کے باوجود میں یقین دلا سکتا ہوں کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ میں نے دونوں جگہوں پر بات کرتے ہوئے اتحاد، ثابت قدمی اور عزم کا پیغام دیا۔ میں نے فون پر جس سے بھی بات کی اسے آگاہ کیا کہ ہم یوکرین میں تیزی سے شدت اختیار کرتے بحران کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے ہمیں یوکرین کے علاقے ڈونباس میں روس کی پشت پناہی میں سرگرم جنگجوؤں کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں بڑے اضافے سے متعلق اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یوکرین میں بچوں کے ایک سکول پر بمباری اس کی ایک مثال ہے جس کے بارے میں روس نے غلط دعویٰ کیا کہ یہ یوکرین نے کی تھی۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ روس کی جانب سے اپنے لوگوں میں بڑے پیمانے پر غلط اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں جن میں روس کی پشت پناہی سے یوکرین میں سرگرم روس نواز علیحدگی پسندوں کے یہ دعوے بھی شامل ہیں کہ یوکرین ڈونباس میں ایک بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
دیکھیے، ان دعووں کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور اب جبکہ یوکرین کی سرحدوں پر روس کی 150,000 سے زیادہ فوج جمع ہے تو اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتی کہ وہ ایسے موقع پر اس تنازعے کو بڑھانا چاہے گا جو ایک سال سے جاری ہے۔
روس میں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والا میڈیا ڈونباس میں قتل عام کے جھوٹے الزامات بھی عائد کر رہا ہے اور کسی ثبوت کے بغیر ایسے من گھڑت دعوے کر رہا ہے کہ یوکرین کی جانب سے روس پر حملے کا خطرہ ہے۔ یہ سب کچھ روس کے اسی طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے جس سے وہ پہلے بھی کام لے چکا ہے یعنی یوکرین کے خلاف کارروائی کے لیے جھوٹا جواز گھڑا جائے۔ یہ بات روس کی جانب سے گھڑے جانے والے ان بہانوں سے بھی مطابقت رکھتی ہے جن کے بارے میں امریکہ اور ہمارے اتحادی اور شراکت دار کئی ہفتوں سے خبردار کرتے چلے آئے ہیں۔
ان تناؤ بھرے لمحات میں یوکرین کی افواج نے بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں ںے روس کو جنگ شروع کرنے کا کوئی بہانہ نہیں دیا۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ روس کی افواج یوکرین کو بیلارس کی سرحد سے جنوب میں بحیرہ اسود تک اور اپنی سرحدوں کے ساتھ گھیرے میں لے چکی ہیں۔
آپ جانتے ہیں، دیکھیے، ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی معقول وجہ ہے کہ روس کی افواج آنے والے ہفتوں اور دنوں میں یوکرین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی اور ارادہ کر رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیئو کو ہدف بنائیں گی جہاں 2.8 ملین معصوم لوگ بستے ہیں۔
ہم روس کے ارادوں کے بارے میں باآوز بلند اور تواتر سے بات کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم تصادم چاہتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے پاس ایسا کوئی جواز نہ ہو جسے وہ یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہو۔
یاد رہے اگر روس اپنے منصوبوں پر عمل کرتا ہے تو وہ اپنی منتخب کردہ تباہ کن اور بلا ضرورت جنگ کا خود ذمہ دار ہو گا۔ امریکہ اور ہمارے اتحادی نیٹو کی زمین کو ہماری مجموعی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے سے بچانے کے لیے بھی تیار ہیں۔
ہم یوکرین میں لڑنے کے لیے اپنے فوجی بھی نہیں بھیجیں گے لیکن ہم یوکرین کے لوگوں کی مدد جاری رکھیں گے۔
گزشتہ سال امریکہ نے یوکرین کا دفاع مضبوط کرنے کے لیے اسے 650 ملین ڈالر مالیت کی امداد دی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس میں جیولن میزائلوں سے لے کر گولہ بارود تک سب کچھ شامل ہے۔
اس سے پہلے ہم نے یوکرین کو انسانی اور معاشی امداد کے طور پر 500 ملین ڈالر بھی مہیا کیے ہیں۔ اس ہفتے کے آغاز میں ہم نے یوکرین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے اس کی حکومت کے لیے ایک بلین ڈالر کے اضافی قرضے کا اعلان بھی کیا ہے۔
تاہم بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی اور شراکت دار یوکرین کے لوگوں کی مدد کریں گے۔ ہم روس سے اس کے اقدامات پر جواب طلبی کریں گے۔ مغرب متحد اور پرعزم ہے۔ اگر روس نے یوکرین میں مزید مداخلت کی تو ہم اس کے خلاف کڑی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ روس کے پاس اب بھی سفارتی راستہ اختیار کرنے کا موقع موجود ہے۔ کشیدگی میں کمی لانے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے میں ابھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔
گزشتہ شب روس نے اس پر اتفاق کیا کہ وزیر خارجہ بلنکن اور وزیر خارجہ لاؤرو کو 24 فروری کو یورپ میں ملاقات کرنی چاہیے۔
تاہم اگر روس نے اس تاریخ سے پہلے فوجی کارروائی کی تو اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انہوں نے سفارت کاری کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ ایسے میں وہ جنگ منتخب کریں گے اور اس کی انہیں بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ناصرف ہماری اور ہمارے اتحادیوں کی جانب سے روس پر پابندیاں عائد کی جائیں گی بلکہ اسے باقی دنیا کی جانب سے اخلاقی غضب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
آپ جانتے ہیں کہ بہت سے مسائل پر ہمارے ملک میں اور دنیا میں تقسیم پائی جاتی ہے لیکن روس کی جارحیت کے مقابل کھڑا ہونا ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکہ کے عوام متحد ہیں۔ یورپ متحد ہے۔ ماورائے اوقیانوس لوگ متحد ہیں۔ اس ملک میں ہماری سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ پوری آزاد دنیا متحد ہے۔
روس کو ایک راستہ منتخب کرنا ہے۔ یا تو اسے جنگ اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی تمام تر تکالیف کا انتخاب کرنا ہو گا یا سبھی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سفارتی راہ اختیار کرنا ہو گی۔
اب مجھے آپ سے چند سوالات لے کر خوشی ہو گی۔ بلومبرگ سے نینسی۔
سوال: جناب آپ کا بہت شکریہ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں صدر زیلینسکی کا یوکرین سے باہر جانا دانشمندانہ اقدام تھا جب بقول امریکہ حملہ ہونے کو ہے؟
صدر: یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اور انہیں ملک سے باہر جانا چاہیے یا نہیں یہ طے کرنا انہی کا کام ہے۔
میں نے درجنوں مرتبہ زیلینسکی سے بات کی ہے، شاید اس سے بھی زیادہ مرتبہ۔ مسئلے کا سفارتی حل نکالنے کی کوشش میں یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ انہی کا فیصلہ ہے۔
سوال: کیا آپ کے پاس کوئی ایسی اطلاع ہے جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ آیا صدر پوٹن نے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں۔ کیا آپ پراعتماد انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہیں کر رکھا؟
صدر: اِس موقع پر مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ایسا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہمارے پاس اس بات پر یقین کرنے کی وجہ موجود ہے۔
سوال: یوں لگتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مابین روس کے خلاف بعض پابندیاں، جامع پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے اور جذبہ پایا جاتا ہے۔ تاہم کیا آپ نے ان پابندیوں کے بارے میں سبھی کو اعتماد میں لے رکھا ہے جو آپ عائد کرنا چاہتے ہیں؟
صدر۔ جی ہاں۔ اس حوالے سے بعض معمولی سے اختلافات موجود ہیں لیکن وقت کے ساتھ اختلاف کے بجائے اتفاق رائے میں اضافہ ہو گا۔
سوال: صدر پوٹن اس ہفتے کے اختتام پر جوہری مشقیں دیکھنے جا رہے ہیں۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟ اس پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ شکریہ۔
صدر: میں نہیں سمجھتا کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر ذرا بھر بھی غور کر رہے ہیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ ان کی توجہ دنیا کو یہ بتانے کی کوشش پر مرکوز ہے کہ ان کے پاس یورپ میں حرکیات کو تبدیل کرنے اہلیت موجود ہے البتہ وہ اس انداز میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔
تاہم میں نہیں جانتا کہ ان کی اس بات میں کتنی حقیقت ہو سکتی ہے کہ ”ہم صرف مشقیں کر کر رہے ہیں” اور حقیقی صورتحال کچھ اور ہو، یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔
(ملی جلی باتیں)
سوال: واضح کیجیے، واضح کیجیے، کیا آپ کو یقین ہے ۔۔۔۔
صدر: میں، میں کچھ ۔
سوال: ۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے، کیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صدر پوٹن یوکرین پر حملہ کرنے والے ہیں؟ کیا آپ نے چند لمحے پہلے یہی بات کہی ہے؟
صدر: جی ہاں، میں نے یہی کہا ہے۔
سوال: تو کیا اب سفارتی کوششیں خارج از امکان ہیں؟
صدر: نہیں، سفارت کاری کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
سوال: آپ کے پاس یہ یقین کرنے کی کیا وجہ ہے کہ وہ یہ راستہ اختیار کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں؟
صدر: ہمارے پاس معلومات کے حصول کی نمایاں صلاحیت موجود ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔
5:03 سہ پہر
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2022/02/18/remarks-by-president-biden-providing-an-update-on-russia-and-ukraine-2/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔