وائٹ ہاؤس
10 جون، 2021
بیان
ٹریگینا کیسل ریزارٹ
کورنوال، برطانیہ
6:28 شام
صدر بائیڈن: سبھی کو شام بخیر۔ سب سے پہلے میں جِل اور اپنی جانب سے عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم اور پورے شاہی خاندان اور برطانیہ کے عوام سے تعزیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ آج پرنس فلپ کی 100ویں سالگرہ ہوتی اور میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ آج ان کی غیرموجودگی کو محسوس کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے ہمارا خیرمقدم مثالی تھا۔ یہاں برطانیہ میں ہمارا پہلا دن نہایت بھرپور گزرا۔ وزیراعظم جانسن اور میری ملاقات بہت مفید رہی۔ ہم نے ایسے بہت سے امور پر کُھل کر تبادلہ خیال کیا جن پر برطانیہ اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت قریبی اشتراک سے کام کر رہے ہیں۔
ہم نے دونوں ممالک کے عوام کے مابین خاص تعلقات کی ازسرنو توثیق کی اور دونوں ممالک کی مشترکہ اور مستحکم جمہوری اقدار سے اپنی وابستگی کی تجدید کی۔ یہ اقدار ہماری شراکت کی مضبوط بنیاد ہیں۔
اَسی سال پہلے وزیراعظم ونسٹن چرچل اور صدر فرینکلن روزویلٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے اٹلانٹک چارٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اولین اصولوں کا بیان تھا۔ یہ اس بات کا عہد تھا کہ برطانیہ اور امریکہ اس وقت کے مسائل سے نمٹیں گے اور اس حوالے سے اکٹھے کام کریں گے۔
آج ہم پہلے سے بہتر اٹلانٹک چارٹر کے ذریعے اس عہد کو مزید مضبوط کر چکے ہیں۔ اس چارٹر میں موجودہ صدی کے اہم مسائل پر براہ راست بات کرتے ہوئے اُس عہد کی ازسرنو توثیق کی گئی ہے۔ ان مسائل میں سائبر سکیورٹی، نئی آنے والی ٹیکنالوجی، عالمگیر صحت اور موسمیاتی تبدیلی نمایاں ہیں۔
ہم نے موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے پُرعزم عالمگیر اقدام سے متعلق اپنے مشترکہ اہداف پر تبادلہ خیال کیا۔ میں نے اپریل میں موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی رہنماؤں کی جس کانفرنس کی میزبانی کی تھی اس کا ایک مقصد سی او پی 26 کی جانب پیش رفت کی رفتار بڑھانے میں مدد دینا بھی تھا۔ رواں سال کے آخر میں برطانیہ گلاسگو میں اس کی میزبانی کرے گا۔
ہم نے قریباً 20 سال تک افغانستان میں اپنی افواج کی مشترکہ قربانیوں پر بات کی جو دلیری سے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ لڑتی رہی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح برطانیہ آغاز سے ہی ہمارے ساتھ اور دہشت گردی کے خطرے کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمارے جتنا ہی پُرعزم تھا اور اب دونوں ممالک افغانستان سے اکٹھے واپسی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
یقیناً ہم نے اس موضوع پر بھی بات کی کہ دونوں ممالک کووڈ۔19 کے خلاف عالمگیر جدوجہد کی ایک ساتھ قیادت کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ بات برطانیہ کے زیرقیادت جی7 ممالک کے اجلاس میں خاص طور پر زیربحث آئے گی جس میں دنیا بھر کو ویکسین کی فراہمی کے لیے اپنے وسائل مربوط کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
آج رات میں کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں امریکہ کے رہنما کردار کے بارے میں ایک تاریخی اعلان کر رہا ہوں۔ امریکہ کو وباء کے نتیجے میں پیش آنے والے المیوں کا براہ راست تجربہ ہو چکا ہے۔ اس وباء سے امریکہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ ہمارے قریباً 600,000 ہم وطن اس وباء کا شکار ہوئے جن میں مائیں، باپ، بیٹے، بیٹیاں، بھائی، بہنیں اور دادا دادیاں شامل ہیں۔ امریکہ میں کووڈ۔19 سے ہونے والی اموات کی تعداد پہلی اور دوسری جنگ عظیم، ویت نام کی جنگ اور نائن الیون میں ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ ہم اس المیے سے آگاہ ہیں۔
مگر ہم بحالی کی راہ بھی جانتے ہیں۔ اب تک امریکہ اپنی 64 فیصد بالغ آبادی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دے چکا ہے۔ محض ساڑھے چار ماہ پہلے ہمارے ہاں صرف پانچ فیصد آبادی نے اس کی ایک خوراک لے رکھی تھی۔
اس سلسلے میں ہماری حکومت کو کڑی محنت اور کوشش کرنا پڑی جو انتظام و انصرام کے حوالے سے ہماری تاریخ کا ایک بہت بڑا اور انتہائی پیچیدہ کام تھا۔ ویکسین کی تیاری کے لیے سائنس دانوں کی اختراعی صلاحیت اور کئی دہائیوں سے چلے آ رہے تحقیقی کام سے مدد ملی۔ اس کے لیے چوبیس گھنٹے ویکسین تیار کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے والی امریکی کمپنیوں کی پوری صلاحیت صرف ہوئی۔
ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے ہاں کووڈ سے روزانہ ہونے والی اموات کی تعداد وباء کے آغاز کے بعد کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ہماری معیشت دوبارہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام سے پہلے ہی لاکھوں زندگیاں بچائی جا چکی ہیں اور یہ تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے لاکھوں امریکیوں کو اپنی معمول کی زندگی کی جانب واپسی میں مدد ملی ہے۔
میری صدارت کے آغاز سے ہی ہم اس بارے میں واضح رہے کہ ہمیں اس وائرس پر دنیا بھر میں جوابی حملہ کرنا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری اور ہمارا انسانی فرض ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں ہو سکے زندگیاں بچائی جائیں اور اپنی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی یہ ہمارا فرض ہے۔
ہم تمام لوگوں کے خلقی وقار کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ مشکل وقت میں امریکیوں نے دوسروں کو مدد کی پیشکش کی اور ان کی جانب اپنا مددگار ہاتھ بڑھایا۔ یہی ہماری پہچان ہے۔
جب ہم دنیا بھر میں کہیں بھی لوگوں کو تکلیف اور مصیبت میں مبتلا دیکھتے ہیں تو ہم ان کی مدد کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں صدور کے ادوار میں امریکہ نے عالمگیر صحت کو بہتر بنانے کے لیے تبدیلی لانے والے اقدامات کیے۔ صدر بش کے دور میں ‘پیپفار’ پروگرام اس کی نمایاں مثال ہے جس نے ایچ آئی وی/ ایڈز کے خلاف عالمگیر جنگ کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اِس وقت ہماری اقدار ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم دنیا کو کووڈ۔19 کے خلاف ویکسین مہیا کرنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھائیں جو ہمارے لیے ممکن ہو۔
ایسا کرنا امریکہ کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ جب تک کہیں بھی وائرس کی تباہ کاریاں جاری رہتی ہیں اس وقت تک اس کی نئی اقسام ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ بنی رہیں گی۔
ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں کووڈ۔19 کے پھیلاؤ نے عالمگیر ترقی کا رخ واپس پھیر دیا ہے، عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے اور حکومتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے امریکہ میں دیکھا اور یہ بات روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے، اپنے لوگوں کو ویکسین دینا ہی معیشتوں کی بحالی اور ترقی کی کنجی ہے۔
ہمارے ویکسین پروگرام نے امریکہ کی معیشت کو سو سال کے عرصہ میں آنے والے اس بدترین معاشی بحران سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ میرے صدر بننے کے بعد گزشتہ چار مہینوں میں ہی دو ملین سے زیادہ نئی نوکریاں تخلیق ہوئی ہیں۔ طویل مدتی بیروزگاری میں تاریخی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ کاروبار دوبارہ کھل رہے ہیں اور معاشی ترقی کی متوقع شرح 6.9 فیصد ہے۔ یہ امریکہ میں گزشتہ قریباً چار دہائیوں میں ترقی کی تیزترین رفتار ہو گی۔
جس طرح امریکہ کی معیشت بحال ہو رہی ہے اسی طرح دنیا میں ہر جگہ معاشی بحالی ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ ایسا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم دنیا بھر میں وباء پر قابو نہیں پا لیتے۔
اسی لیے میں نے اپریل میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ امریکہ کووڈ۔19 کے خلاف ہماری جنگ میں ویکسین کے اسلحہ خانے کا کام دے گا جس طرح دوسری جنگ عظیم میں امریکہ جمہوریت کا مرکز تھا۔
گزشتہ چار مہینوں میں ہم نے اس تاریخی کوشش کی جانب کئی قدم بڑھائے ہیں۔ ہم نے کوویکس پروگرام کے لیے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امداد دی ہے۔ یہ ایک اجتماعی عالمگیر اقدام ہے جس کے تحت دنیا بھر کو ویکسین مہیا کی جا رہی ہے۔
ہم نے جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا کے ساتھ اپنی شراکتوں کے ذریعے بیرون ملک ویکسین کی تیاری میں مدد دی۔ ان ممالک کے ساتھ ہمارا اتحاد ‘کواڈ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ہمسایہ ملک کینیڈا اور میکسیکو کو ویکسین کی خوراکیں مہیا کی ہیں۔
اس کے علاوہ تین ہفتے پہلے امریکہ کے پاس اتنی بڑی تعداد میں ویکسین کی دستیابی ممکن ہو گئی جس کے بعد ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ہر اس امریکی شہری کے لیے ویکسین موجود ہے جو اسے لگوانا چاہتا ہو اور ہم نے اعلان کیا کہ جون کے اختتام تک ہم اپنے ہاں تیار کردہ ویکسین کی 80 ملین خوراکیں دوسرے ممالک کو مہیا کریں گے۔ اس وقت جب ہم یہ بات کر رہے ہیں، امریکی ویکسین کی بہت سی کھیپیں دنیا بھر کے ممالک کو روانہ کی جا رہی ہیں۔
آج ہم ایک بڑا قدم اٹھا رہے ہیں جس سے اس وباء کے خلاف عالمگیر جنگ کی رفتار تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ میری ہدایت پر امریکہ فائزر ویکسین کی مزید پچاس کروڑ خوراکیں خریدے گا جو کم اور زیریں متوسط آمدنی والے قریباً 100 ممالک کو عطیہ کی جائیں گی۔ یہ ممالک اس ویکسین سے فائدہ اٹھائیں گے۔
میں دوبارہ بتا دوں کہ امریکہ فائزر ویکسین کی قریباً پچاس کروڑ خوراکیں خریدے گا جو 100 ایسے ممالک کو دی جائیں گی جنہیں اس وباء کے خلاف جنگ میں ان کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ کسی ملک کی جانب سے خریدی اور عطیہ کی جانے والی کووڈ۔19 ویکسین کی سب سے بڑی مقدار ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ ایم آر این اے ویکسین ہے جو کووڈ۔19 اور اب تک سامنے آنے والی اس کی ہر قسم کے خلاف انتہائی موثر ہے۔
یہ پچاس کروڑ ویکسین تیار ہوتے ہی اگست میں فوری طور پر دوسرے ممالک کو بھیج دی جائیں گی۔ اس کی 200 ملین خوراکیں اس سال 2021 میں بھیجی جائیں گی اور مزید 300 ملین 2022 کے ابتدائی نصف میں دوسرے ممالک کو پہنچائی جائیں گی۔
یہاں میں واضح کر دوں، جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ہم نے 80 ملین خوراکیں دینے کا اعلان کیا تھا اسی طرح امریکہ ان 50 کروڑ خوراکوں کی فراہمی کے لیے بھی کوئی شرائط عائد نہیں کر رہا۔ میں ایک مرتبہ پھر کہہ دوں کہ ہم اس کے بدلے میں کچھ نہیں لیں گے۔
ہم ویکسین کے عطیات کے بدلے میں کسی طرح کا کوئی فائدہ یا رعایات نہیں مانگ رہے۔ ہم یہ کام زندگیاں بچانے اور اس وباء کو ختم کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ بس یہی بات۔
میں آج اپنے ساتھ موجودگی پر فائزر کے سی ای او اور چیئرمین البرٹ بورلا کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم گزشتہ چند ماہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ انہوں نے، میں نے اور ان کی پوری ٹیم نے واقعتاً ــ انہوں ںے وباء کے خلاف ہماری جنگ کے اس اہم مرحلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
یہ منصوبہ امریکہ میں تیار کردہ پچاس کروڑ خوراکوں کی دنیا بھر میں فراہمی سے متعلق ہے۔ ان میں مشی گن کے علاقے کیلامیزو میں فائزر کے پلانٹ پر تیار کردہ ویکسین بھی شامل ہیں۔
ڈیٹرائٹ میں کیلامیزو کے اسی پلانٹ کے قریب اَسی سال پہلے امریکہ کے کارکنوں نے ٹینک، طیارے اور گاڑیاں بنائیں جن سے دوسری جنگ عظیم میں فسطائیت کے عالمگیر خطرے کو شکست دینے میں مدد ملی۔ انہوں نے جو چیزیں بنائیں اِنہیں ‘جمہوریت کا اسلحہ خانہ’ کہا جاتا ہے۔
اب امریکی مردوخواتین کی ایک نئی نسل آج کی نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے امن، صحت اور استحکام کو لاحق تازہ ترین خطرے کا قلع قمع کرنے کے ہتھیار بنا رہی ہے۔ یہ خطرہ کووڈ۔19 ہے۔
البرٹ نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فروری میں کیلامیزو کے پلانٹ میں میرا خیرمقدم کیا۔ میں نے اس پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا کہ ویکسین کی ہر خوراک غیرمعمولی جدت، دیکھ بھال اور حفاظت سے تیار کی جا رہی ہے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ جب آپ وہاں جاتے ہیں تو آپ کو فخر کا وہی احساس ہوتا ہے جو وہاں ہر کارکن محسوس کرتا ہے۔ وہ جو کام کر رہے ہیں اس پر انہیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ میں بہت سی فیکٹریوں میں گیا ہوں۔ میں نے کام بھی کیا ہے، میں انجمنوں میں متحرک رہا ہوں۔ میں اپنے پورے کیریئر میں یہ کام کرتا رہا ہوں۔ تاہم آپ ان لوگوں کے چہروں کے تاثرات پر فخر دیکھ سکتے ہیں۔ میں سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ وہ جو کچھ کر رہے تھے اس پر انہیں فخر تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کون سا کام کر رہے ہیں۔
امریکہ کے کارکن اب افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ویکسین تیار کریں گے۔ وہ ان لوگوں کے لیے یہ کام کریں گے جنہیں وہ کبھی نہیں ملیں گے اور ان جگہوں پر کبھی نہیں گئے تاہم امریکہ کے رہنما کردار اور امریکی کارکنوں کی کڑی محنت اور اقدار کے باعث ہر جگہ لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی۔
میں یہاں اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ یہ امریکہ کے عوام کا ایک یادگار عہد ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہم ایسے لوگوں پر مشتمل قوم ہیں جو ضرورت کے وقت اندرون و بیرون ملک اپنے جیسے دیگر انسانوں کی مدد کے لیے آگے آتی ہے۔ ہم ہر لحاظ سے مکمل نہیں ہیں مگر ہم مدد کرتے ہیں۔
تاہم اس سفر میں ہم اکیلے نہیں ہیں اور میں یہی بات کہنا چاہتا ہوں۔ ہم اپنے عالمگیر شراکت داروں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے دنیا کو اس وباء پر قابو پانے میں مدد دیں گے۔
جی7 کی برطانوی سربراہی میں دنیا کی دیگر جمہوریتیں بھی یہ مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ کی یہ مدد دنیا بھر کو ویکسین مہیا کرنے کی مزید مربوط کوششوں کی بنیاد ہے۔
برطانوی حکومت اور ان کے وزیراعظم نے اپنے پورے ملک میں لوگوں کو ویکسین دینے کی بھرپور مہم چلائی ہے اور میں ان کی جانب سے ویکسین کے فیاضانہ عطیے پر ان کا مشکور ہوں۔
کل جی7 ممالک اس سلسلے میں اپنے عہد کی پوری تفصیل بتائیں گے۔ یہاں ‘اپنے’ سے مراد جی7 ممالک ہیں۔ میں وقت کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے اپنے جی7 شراکت داروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں آنے والے دنوں میں اور اس سے بھی آگے ان کوششوں پر اپنے ہم منصبوں کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں۔
یہاں میں ایک آخری بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کووڈ۔19 کے خلاف جنگ یا دنیا کو ویکسین مہیا کرنے کی ہماری کوششوں کا اختتام نہیں ہے۔ ہمیں لوگوں اور معاشروں کو تحفظ دینے کے لیے تیار شدہ ویکسین استعمال بھی کرنا ہیں۔
اسی لیے امریکہ لوگوں کی ویکسینیشن کے لیے پہلے ہی سیکڑوں ملین ڈالر مہیا کر رہا ہے جس میں امریکن ریسکیو پلان کے طور پر کانگریس کی جانب سے نئے مالی وسائل کا اجرا اور لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں جاری پروگراموں کے ساتھ کام کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ہم ویکیسین کی خوراکوں کی تیاری، عطیہ اور جیسا کہ برطانیہ میں کہا جاتا ہے انہیں لوگوں کے بازو میں لگانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ دنیا اس وائرس کو شکست دے دے۔
میں آپ سبھی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں اپنے دوست، فائزر کے سی ای او اور چیئرمین البرٹ بورلا کو اظہار خیال کی دعوت دوں گا۔
البرٹ بات کیجیے۔ ایک مرتبہ پھر میں ذاتی طور پر آپ کا مشکور ہوں کہ آپ آگے آئے اور اس معاملے میں اپنا کردار ادا کیا۔
البرٹ بورلا: جناب صدر آپ کا شکریہ۔
صدر: شکریہ۔
البرٹ بورلا: آپ کا بہت شکریہ۔
شکریہ جناب صدر۔ یقیناً آج اس تاریخی اعلان کے موقع پر آپ کے ساتھ موجودگی میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
اس وقت جب جی7 ممالک اس اہم کانفرنس کے موقع پر اکٹھے ہیں تو دنیا کووڈ۔19 بحران حل کرنے کے لیے ان طاقت ور ممالک کے رہنماؤں کی جانب دیکھ رہی ہے۔ اگرچہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے تاہم دنیا اب جی7 ممالک کے رہنماؤں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ہر ملک میں لوگوں کو ویکسین دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔
جناب صدر، آپ کے ساتھ بات چیت کے بعد میں جانتا ہوں کہ ہم میں اس پر اتفاق پایا گیا کہ کرہ ارض پر ہر مرد، عورت اور بچے کو اس کی مالی حیثیت، نسل، مذہب یا جغرافیائی مقام سے قطع نظر زندگی بچانے کے لیے کووڈ۔19 ویکیسن تک رسائی کا حق ہے۔
ایک مرتبہ پھر امریکہ نے وقت کا تقاضا پورا کیا اور ہم اس محاذ پر آپ کے قائدانہ کردار پر آپ کےاور آپ کی انتظامیہ کے مشکور ہیں۔
آج ہم فائزر۔ بائیواین ٹیک کی 500 ملین خوراکیں دنیا کے غریب ترین ممالک کو مہیا کر رہے ہیں۔ اس سے آئندہ 18 مہینوں میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کو ویکسین کی دو بلین خوراکیں مہیا کرنے کے ہمارے مقصد کی تکمیل کی صلاحیت نمایاں طور سے بہتر ہو جائے گی۔
بہت سے سائنس دانوں کی اختراعی مہارت اور بہت سے صنعتی کارکنوں کی لگن کی بدولت آج ہم امید کی کرن کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمیں ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ جناب صدر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس وباء کو ختم کرنے کے لیے مزید خدمات کے لیے انتھک کام کریں گے۔
اسی ہفتے ہم نے عالمگیر فیز3/2 جائزے میں شرکت کرنے والے 5 سے 11 سال عمر کے بچوں کو ویکسین دینا شروع کی۔ اس ضمن میں ہم حاملہ خواتین کے جائزے جاری رکھے ہوے ہیں۔
ہم اس وائرس کی نئی اقسام پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف اپنی ویکسین آزما رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم وائرس کی نگرانی کے حوالے سے دنیا بھر میں صحت عامہ کے حکام سے رابطے میں ہیں۔
اب تک یہ سامنے آیا ہے کہ اس وائرس کی کوئی بھی قسم ہماری ویکسین سے بچ نہیں پائی۔ میں دوبارہ کہوں گا کہ کوئی بھی قسم۔
اس کے باجود ہم نے ایک طریقہ کار تشکیل دیا ہے جس کے ذریعے ضرورت پڑنے پر ہم 100 دن میں نئی ویکسین تیار کر لیں گے۔ خدا معاف کرے۔
ہمارے سائنس دان کووڈ۔19 کا دوا کے ذریعے علاج بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اس سال کے آخر تک ہم اس طریقہ علاج کو مںظوری کے لیے حکومت کو پیش کر دیں گے۔
تاہم، جناب صدر میں آج آپ کے اعلان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ کسی وباء میں ہر کوئی اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے جتنا اس کے ہمسایے محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کوئی ملک بھی اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے جتنا دنیا بھر میں دوسرے ملک محفوظ ہوتے ہیں۔
آج امریکی حکومت کی جانب سے کیا گیا یہ اعلان ہمیں ہمارے مقصد سے قریب لے آیا ہے اور اس سے دنیا بھر میں مزید زندگیوں کے تحفظ کی ہماری صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
جناب صدر، میں آپ کی قیادت، سوچ اور شراکت پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم کووڈ۔19 پر سائنس کی فتح یقینی بنانے کے لیے آپ کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔
شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/06/10/remarks-by-president-biden-on-the-covid-19-vaccination-program-and-the-effort-to-defeat-covid-19-globally/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔