An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
17 مئی، 2021
ایسٹ روم

1:22 دوپہر

صدر بائیڈن: سہ پہر بخیر۔ آج میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں مختصراً بات کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں اندرون ملک کووڈ۔19 کے خلاف ہماری پیش رفت میں حاصل ہونے والی نئی کامیابیاں، دنیا بھر میں کووڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے اقدامات اور 18 سال سے کم عمر بچوں والے خاندانوں کے لیے ٹیکس میں ایک اہم کٹوتی شامل ہے۔ میں یہیں سے اپنی بات شروع کروں گا۔

آج ٹیکس کا دن ہے جب ہر ایک پر ٹیکس واجب الادا ہوتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ٹیکس دینا کسی کو بھی پسند نہیں ہوتا۔ تاہم جیسا کہ میرے والد کہا کرتے تھے، ”یہ اس ملک میں رہنے کی چھوٹی سی قیمت ہے۔” لیکن میں بچوں والے ان تمام لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو آج ٹیکس کے گوشوارے داخل کر رہے ہیں، کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ محنت کش اور درمیانے طبقے کے لوگوں کے لیے بہت جلد ٹیکس میں ایک نئی کٹوتی کی جائے گی۔

جیسا کہ سبھی جانتے ہیں، میں پختہ یقین رکھتا ہوں ـــ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے ٹیکس نظام کو متوسط طبقے کے لیے فائدہ مند بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بڑے کاروباروں اور سب سے امیر ایک فیصد لوگوں سے کہنا چاہیے کہ وہ جائز ٹیکس دینا شروع کریں اور اسی لیے ہمیں ان کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو دھوکہ دہی سے ٹیکس بچاتے ہیں۔

لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمیں عام خاندانوں کو ٹیکس سے وقفہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنے بچے پالنے پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں مدد دی جا سکے۔ بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے لیکن ہم نے ‘امریکن ریسکیو پلان’ میں بچوں والے خاندانوں کے لیے ٹیکس میں کٹوتی کی ہے جس پر کچھ ہی عرصہ پہلے دستخط کیے گئے ہیں۔ میں نے ٹیکس کٹوتی کے قانون پر مارچ میں دستخط کیے تھے۔

نوے فیصد خاندان اس ٹیکس کٹوتی سے مستفید ہوں گے جن کا تعلق متوسط اور محنت کش طبقے سے ہے۔

ٹیکس میں یہ کٹوتی ایک سال کے لیے ہو گی جس کے نتیجے میں آپ کے 18 سال سے کم عمر ہر بچے کے لیے سالانہ ٹیکس میں 3000 ڈالر تک کمی ہو گی۔ اگر کسی کے دو بچے ہیں تو اس کے لیے ٹیکس کٹوتی 6000 ڈالر ہو گی۔ اگر ان بچوں کی عمر چھ سال سے کم ہے تو آپ کو ہر بچے پر 3600 روپے کی بچت ہو گی۔

لہٰذا آج اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کرتے وقت آپ کو علم ہونا چاہیے کہ آپ کو ٹیکس میں کٹوتی کی سہولت ملے گی۔

تاہم اس حوالے سے ایک بہت اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کو یہ سہولت حاصل کرنے کے لیے آئندہ سال اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کرائے جانے تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں آج اعلان کر رہا ہوں کہ 15 جولائی اور اس کے بعد سال بھر ہر مہینے کی 15 تاریخ کو ٹیکس کٹوتی کی نصف رقم آپ کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی جو فی بچے کے حساب سے ہر مہینے کم از کم 250 ڈالر بنتے ہیں۔ یہ رقم براہ راست آپ کے اکاؤنٹ میں جائے گی۔

لہٰذا اگر آپ کا گھرانہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور آپ کے دو بچے ہیں تو جولائی سے ہر مہینے آپ کے اکاؤنٹ میں 500 ڈالر منتقل ہوں گے۔ ہم آپ کو ٹیکس میں اسی سال سہولت دے رہے ہیں جب آپ کو اس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

اگر ٹیکس میں کٹوتی کے نتیجے میں حاصل ہونے رقم خود بخود آپ کے اکاؤنٹ میں جایا کرتی ہے تو پھر حالیہ کٹوتی سے ملنے والی رقم بھی خود بخود آپ کے اکاؤںٹ میں منتقل ہو جائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ رقم آپ کو ڈاک کے ذریعے بھیج دی جائے گی۔

وباء سے بری طرح متاثر ہونے والے اور محنت کش خاندانوں کی مدد کے علاوہ ماہرین نے ہمیں بتایا ہے کہ اس سے امریکہ میں بچوں میں غربت کی شرح نصف رہ جائے گی۔

ٹیکس میں کٹوتی کا یہ اقدام امریکہ میں بچوں والے محنت کش خاندانوں کو ایک واضح اور موثر پیغام دیتا ہے کہ ‘ان کے لیے مدد موجود ہے’۔

اب میں کووڈ کے ساتھ ہماری طویل جنگ میں ایک اور کامیابی پر بات کروں گا۔ یہ وباء شروع ہونے کے بعد آج پہلی مرتبہ تمام 50 ریاستوں میں وباء کے متاثرین کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ یہ درست بات ہے۔ بہت سے لوگوں کی کڑی محنت کی بدولت تمام 50 ریاستوں میں کووڈ کے کیس کم ہو گئے ہیں۔

اب میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا کہ یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس راہ میں ہمیں کامیابیاں اور ناکامیاں بھی ملیں گی اور ہم جانتے ہیں کہ کئی مواقع پر وباء کی شدت میں اچانک اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاہم جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی اگر وہ ویکسین لگوا لیتے ہیں تو نا صرف خود انہیں تحفظ ملے گا بلکہ ان کے اردگرد ایسے لوگوں کی حفاظت بھی ہو گی جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جن ریاستوں میں ویکسین لگوانے کی شرح کم ہے ان میں نئے متاثرین کی شرح بڑھ سکتی ہے اور ہمیں حاصل ہونے والی کامیابی کے ثمرات زائل بھی ہو سکتے ہیں۔

جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی انہیں بالاآخر اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ویکسین لگوانے والے لوگ شدید بیماری سے تحفظ میں ہوں گے اور جو لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے انہیں شاید یہ تحفظ نہ مل سکے۔

تاہم ویکسین لگوانے کا عمل آسان اور مفت ہونے کے باوجود ویکسین نہ لگوانے والوں میں کووڈ کے کیسز میں اضافہ ایک المیہ ہو گا۔

اس وائرس کے خلاف ہماری جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اب بھی کروڑوں لوگوں کو ویکسین لگائی جانا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہمیں نمایاں کامیابی مل رہی ہے۔

درحقیقت کل جب ویکسین لگوانے والوں کی تعداد سامنے آئے گی تو اندازہ ہو گا کہ 60 فیصد امریکی کم از کم اس کی ایک خوراک ضرور لے چکے ہیں۔

ہر روز اس سرنگ کے آخری دہانے پر روشنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ویکسین لگانے کا یہ اقدام انتظام و انصرام کے حوالے سے ہمارے ملک کی ایک تاریخی کامیابی ہے۔ اس کے لیے میں سائنس دانوں اور محققین، ویکسین بنانے والی کمپنیوں، نیشنل گارڈ، امریکی فوج، ایف ای ایم اے، ملک کے ریاستی گورنروں، ڈاکٹروں، نرسوں اور ماہرین ادویہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں امریکہ کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آگے آئے اور حب الوطنی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ویکسین لگوائی۔

چار ماہ پہلے امریکہ میں ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لینے والوں کی تعداد 6 فیصد سے بھی کم تھی جو اب 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ہم لوگوں کی زندگیوں اور ان کے روزگار میں اس کے مثبت نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

کووڈ سے اموات کی شرح میں 81 فیصد تک کمی آ گئی ہے اور اپریل 2020 کے بعد یہ کم ترین شرح ہے۔

زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ویکسین پہنچانے اور معیشت کو ترقی دینے کے لیے اپنے بلاتاخیر اقدام کی بدولت ہم جمود سے نکل کر ایک ایسی معیشت بن گئے ہیں جو گزشتہ 40 سال کے مقابلے میں تیزترین رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ جب ہم آئے تو اس وقت نئی نوکریوں کی تخلیق کے حوالے سے صورتحال بہت خراب تھی۔ اس وقت سے اب تک ہم نے ریکارڈ تعداد میں نئی نوکریاں پیدا کی ہیں۔ اتنے کم وقت میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں نئی نوکریاں تخلیق نہیں ہوئیں۔

یہ ناقابل تردید پیش رفت ہے مگر ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ آنے والے دنوں میں ہمیں مشکل ترین کام کرنا ہے۔

وباء کے نتیجے میں اب بھی بہت سے امریکیوں کی جانیں جا رہی ہیں اور اب بھی امریکہ میں بہت سے لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔ گزشتہ ہفتے سی ڈی سی نے اعلان کیا کہ اگر آپ نے ویکیسن کی دونوں خوراکیں لے لی ہیں تو پھر آپ کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس بتاتی ہے کہ ویکسین آپ کو ویسا ہی تحفظ دیتی ہے جو آپ کو ماسک پہن کر ملتا ہے یا اس سے بھی زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

لہٰذا آپ ویکسین لے کر یا پوری ویکسین نہ لیے جانے تک ماسک پہن کر خود کو کووڈ سے ہونے والی سنگین بیماری سے تحفظ دے سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں آپ محفوظ ہوں گے۔

جیسا کہ میں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا، بعض لوگ پوری ویکسین لینے کے بعد بھی چہرے کا ماسک پہننا جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ خود انہوں نے کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے بعض کاروبار یہ چاہیں کہ ماسک پہننے کی پابندی جاری رہے۔

آئیے ہم سب اس وباء سے چھٹکارا پاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور اخلاق پر مبنی برتاؤ کریں اور ان لوگوں کا احترام کریں جو ویکسین لگوانے کے باوجود ماسک پہننا چاہتے ہیں۔

سب سے اہم یہ کہ آئیے 4 جولائی تک 70 فیصد بالغوں کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دینے کے میرے ہدف کی تکمیل کے لیے مل کر کام کریں۔ سات ریاستیں پہلے ہی یہ ہدف حاصل کر چکی ہیں۔

ویکسین لگوانا کبھی اتنا آسان نہیں تھا۔ ہمارے پاس ایسی 80 ہزار جگہیں ہیں جہاں آپ ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ آپ میں نوے فیصد لوگ ایسی جگہوں سے پانچ میل کے فاصلے پر رہتے ہیں۔

آپ موبائل فون میسج کے ذریعے 438829 پر اپنا زپ کوڈ بھیج کر اپنے گھر کے قریب ویکسین لگوانے کا مقام ڈھونڈ سکتے ہیں۔ 438829۔ آپ نے اس نمبر پر اپنا زپ کوڈ بھیجنا ہے۔ اس طرح آپ اپنے قریب ترین ویکسینیشن مراکز کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

ایسی بہت سے جگہوں پر پہلے سے وقت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس جائیں اور ویکسین لگوا لیں۔ یہ مفت ہے اور 12 سال سے زیادہ عمر کا ہر فرد یہ ویکیسن لگوا سکتا ہے۔

اگر آپ کو ویکسین لگوانے کے مقام تک جانے اور آںے کے لیے مدد کی ضرورت ہے تو لیفٹ اور اوبر 24 مئی سے 4 جولائی تک ہر ایک کو ویکسین لگوانے کے مقام تک لے جانے اور واپس لانے کی مفت سہولت پیش کر رہی ہیں۔

میں نے آجروں سے کہا ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے ملازمین کو ویکسین لگوانے کے لیے کچھ دیر رخصت دیں۔ ہم نے ایسے کاروباروں کو معاوضہ دینے کے لیے قومی سطح پر ایک پروگرام شروع کیا ہے جنہیں اپنے ملازمین کو ویکسین لگوانے کی رخصت دینے سے مالی نقصان کا اندیشہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ آپ ویکسین کی خوراک لیں۔ ویکسین ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس 12 سال سے زیادہ عمر کے تمام بالغوں اور بچوں کے لیے خاطرخواہ مقدار میں ویکسین کا ذخیرہ موجود ہے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ آپ ویکسین کی خوراک لے لیں۔

گزشتہ 118 دن میں ہمارا ویکسینیشن پروگرام دنیا بھر میں وباء کے خلاف اقدامات میں سب سے آگے رہا ہے۔ آج ہم دنیا کی مدد کے لیے ایک نیا قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کبھی اس وقت تک پوری طرح محفوظ نہیں ہو گا جب تک دنیا بھر میں پھیلی اس وباء پر قابو نہیں پا لیا جاتا۔ وگرنہ کوئی سمندر اور کوئی دیوار ہمیں محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

دوسرے ممالک میں بے قابو بیماری اور موت انہیں غیرمستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بھی خطرہ ہیں۔ بیرون ملک اس وائرس کی ایسی نئی اقسام جنم لے سکتی ہیں جن سے ہمیں بہت بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہمیں خود کو اندرون ملک محفوظ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں اس بیماری کے خلاف جنگ میں مدد دینا اور دوسرے لوگوں کی مدد کے لیے درست اقدامات کرنا ہیں۔ یہ درست سمت میں، دانشمندانہ اور موثر کام ہے۔

مارچ میں ہم نے اپنی ایسٹرا زینیکا ویکسین کی 4 ملین سے زیادہ خوراکیں کینیڈا اور میکسیکو کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپریل کے آخر میں ہم نے اعلان کیا کہ ہم ایسٹرا زینیکا ویکسین کی مزید 60 ملین سے زیادہ خوراکیں بیرون ملک بھیجیں گے۔

یاد رہے کہ یہ وہ ویکسین ہے جس کے امریکہ میں استعمال کی تاحال اجازت نہیں ہے اس لیے جب ایف ڈی اے اس کا جائزہ لے کر اسے محفوظ قرار دے دے گی تبھی ہم اسے دوسروں کو فراہم کریں گے۔

امریکہ میں بنائی جانے والی ایسٹرا زینیکا ویکسین کی تمام مقدار دوسرے ممالک کو بھیجی جائے گی۔

آج میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جب فائزر، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ ویکسین دستیاب ہوں گی تو ہم یہ ویکسین بھی دوسرے ممالک کو فراہم کریں گے۔ یہ وہ ویکسین ہیں جنہیں امریکہ میں استعمال کی اجازت مل چکی ہے۔

جون کے اختتام تک جب ہمیں امریکہ میں ہر شخص کی صحت کو تحفظ دینے کے لیے ضرورت کے مطابق ایسی ویکسین دستیاب ہوں گی تو امریکہ ان کی کم از کم 20 ملین فاضل خوراکیں دوسرے ممالک کو مہیا کرے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چھ ہفتوں میں امریکہ ویکسین کی 80 ملین خوراکیں بیرون ملک بھیجے گا۔ یہ جون کے اختتام تک امریکہ میں بنائی جانے والی ویکسین کی مجموعی مقدار کا 13 فیصد ہے۔ یہ اب تک کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ بڑی تعداد میں دی جانے والی امدادی ویکسین ہو گی۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے ملک سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ روس اور چین کی فراہم کردہ ویکسین سے بھی بڑی تعداد ہے جنہوں نے اب تک 15 ملین خوراکیں عطیہ کی ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ روس اور چین کی جانب سے ویکسین کے ذریعے دنیا پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم اپنی اقدار کے ذریعے دنیا کی قیادت کرنا چاہتے ہیں اور اپنی اختراع، ہنرمندی اور امریکی لوگوں کی بنیادی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رہنما کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔

جس طرح دوسری جنگ عظیم میں امریکہ جمہوریت کا گڑھ تھا اسی طرح کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں ہمارا ملک پوری دنیا کے لیے ویکسین کا گڑھ ہو گا۔ ہم ہر جگہ وباء کے خاتمے کے لیے یہ ویکسین مہیا کریں گے۔ ہم اپنی ویکسین کو دوسرے ممالک سے فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔

ہم ویکسین کی فراہمی کے لیے بنائے گئے عالمی ادارے کوویکس اور دوسرے شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ یقینی بنائیں گے کہ ویکسین کی فراہمی مساوی انداز میں ہو اور اس میں سائنس اور صحت عامہ سے متعلق معلومات کو مدنظر رکھا جائے۔

آج بیرون ملک ویکسین کی 80 ملین خوراکیں دینے کا اعلان دنیا بھر میں کووڈ۔19 سے نمٹنے کی کوششیں تیز کرنے کی جانب ہمارا اگلا قدم ہے۔

آنے والے ہفتوں میں دنیا کی جمہوریتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم اس وباء کے خاتمے کے لیے ایک کثیر ملکی کوشش مربوط کریں گے۔ متوقع طور پر میں جون میں برطانیہ میں جی7 ممالک کی کانفرنس کے موقع پر اس حوالے سے پیش رفت کا اعلان کروں گا۔ میں اس کانفرنس میں شرکت کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔

یہ تاریخ میں ایک منفرد موقع ہے اور یہ امریکہ کے قائدانہ کردار کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر میں اس وباء کو شکست دینا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں، حتیٰ کہ امریکہ بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، امریکہ دستیابی کی صورت میں ویکسین کی اضافی مقدار عطیہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاہم یہ کافی نہیں ہو گی۔

ہمیں پوری طرح سے ایک نئی کوشش کی ضرورت ہے، ہمیں ادویہ ساز کمپنیوں اور شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر ویکسین کی سپلائی میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ضرورت ہے جس کی بیشتر مقدار یہاں امریکہ میں تیار ہو گی۔ ہمارے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے جس کی بدولت ہم اندرون ملک نوکریاں تخلیق کر کے اور بیرون ملک زندگیاں بچا کر اس وباء کو دنیا بھر میں شکست دے سکتے ہیں۔

اس میں ہمارے پاس موجود ویکسین سے عطیہ کرنے کے فوری کام سے زیادہ وقت لگے گا۔ ہم دوسرے ممالک سے کہیں گے کہ وہ اس اقدام کی معاشی قیمت ادا کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ تاہم اس کے نتائج کہیں زیادہ دیرپا اور ڈرامائی ہوں گے۔

اس اقدام سے ہمیں وباء کو شکست دینے اور اپنے ہاں کسی آئندہ بحران اور ویکسین کی کسی آئندہ ضرورت کے لیے درکاری صنعتی صلاحیت کے حصول میں مدد ملے گی۔

میں جیف زینٹس کو اس اقدام کا سربراہ مقرر کر رہا ہوں جو امریکہ میں اس وائرس پر قابو پانے کے لیے ہماری کووڈ ٹیم اور کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ جیف ہماری قومی سلامتی کونسل اور ایک باصلاحیت ٹیم کے ساتھ کام کریں گے جو ہماری حکومت کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں دفتر خارجہ میں کووڈ۔19 سے متعلق سفارتی امور کی سربراہ گیل سمتھ اور امریکی ادارہ برائے عالمی ترقی اور محکمہ صحت و انسانی خدمات کے ماہرین بھی شامل ہوں گے۔ ہم اس وباء کے خلاف دنیا بھر میں اپنی کوششوں میں بھی اسی کُل حکومتی اقدام سے کام لے رہے ہیں جس نے ہمیں اندرون ملک اس قدر بڑی کامیابی دلائی ہے۔

میں ایک مرتبہ پھر بتاتا چلوں کہ امریکہ کے پاس 12 سال سے زیادہ عمر کے تمام افراد کے لیے درکار ویکسین موجود ہے۔ لیکن اب بھی ہمارا کام باقی ہے۔ ہمیں سخت محنت کرنا ہے۔

چونکہ ہم اندرون ملک بہت سا کام کر چکے ہیں اس لیے امریکی کمپنیوں کی طاقت، تحقیق اور ویکسین کی تیاری کی صلاحیت کی بدولت ہم باقی دینا کی مدد کے لیے مزید کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ تیزی سے بدلتی دنیا ہے اور جمہوریتوں کو کمزور سمجھنا غلطی ہے۔

جس طرح جمہوریتوں نے دوسری جنگ عظیم کی تاریکی میں دنیا کی قیادت کی تھی اسی طرح جمہوریتیں دنیا کو اس وباء سے چھٹکارا دلانے میں بھی نمایاں کردار ادا کریں گی۔ امریکہ آنے والے مہینوں میں دنیا کو پہلے سے زیادہ صحت مند اور پرامید بنانے کے کام میں ان جمہوریتوں کی مدد کرے گا۔

ذرا ماضی پر نظر ڈالیے۔ چار ماہ پہلے ہم نے یہ جرات مندانہ ہدف مقرر کیا تھا کہ میری صدارت کے پہلے 100 دن میں ہمارے پاس ویکسین کی 100 ملین خوراکیں ہونا چاہئیں۔ ہم نے اس عرصہ میں 220 ملین خوراکیں تیار کر لیں۔

اس وقت بیشتر بالغ افراد ویکسین لگوانے کے اہل قرار نہیں دیے گئے تھے۔ اب 12 سال سے زیادہ عمر کا ہر فرد اہل ہے۔ کل 60 فیصد امریکی بالغ آبادی کو اس ویکسین کی کم از کم ایک خوراک مل چکی ہو گی۔

ذرا دیکھیے کہ ہم نے کیسا کام کیا ہے۔ امریکہ دیکھے کہ اس نے کیسا کام کیا ہے۔ اس ملک میں جب ہم کوئی کام کرنے اور اسے مل کر انجام دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو سب کچھ ہماری دسترس میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اکٹھے کوئی کام کرنے کا ذہن بنا لیں تو پھر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم یہی کچھ کرنے جا رہے ہیں کہ ہم نے امریکہ میں یہ مسئلہ حل کرنا ہے جو ہم اچھے انداز میں کر رہے ہیں اور دیگر جمہوریتوں کو منظم کر کے باقی دنیا کو بھی اس مسئلے کے حل میں مدد دینا ہے۔

میں آپ سبھی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ خدا آپ پر رحمت کرے۔ خدا ہماری افواج کا تحفظ کرے۔ آپ کا بہت شکریہ۔

سوال: جناب صدر، ہفتے کے اختتام پر تشدد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کیا آپ جنگ بندی پر اصرار نہیں کریں گے؟

صدر بائیڈن: میں ایک گھنٹے میں وزیراعظم سے بات کروں گا۔ اس کے بعد ہی میں آپ کے سوالات کا جواب دے سکوں گا۔ شکریہ۔

1:39 دوپہر


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/05/17/remarks-by-president-biden-on-the-covid-19-response-and-the-vaccination-program-4/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future