An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
26 مارچ، 2022
صدر بائیڈن کا خطاب
دی رائل کیسل اِن وارسا
وارسا، پولینڈ

6:16 سہ پہر

صدر: شکریہ، شکریہ، شکریہ۔ اگر آپ کے پاس نشست ہے تو براہ مہربانی بیٹھ جائیں۔ (قہقہہ) اگر نہیں ہے تو سٹیج پر آ جائیں۔

آپ کا بہت شکریہ۔ یہاں موجودگی میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ جناب صدر، انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ وہاں کہیں موجود ہیں۔ آپ وہاں ہیں۔ شکریہ جناب صدر۔

”خوفزدہ مت ہوں۔” یہ اکتوبر 1978 میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ کے اپنے انتخاب کے بعد لوگوں سے اپنے پہلے خطاب کے پہلے الفاظ تھے۔ یہی وہ الفاظ تھے جنہوں نے پوپ جان پال دوم کے نظریے کو واضح کرنا تھا اور یہی وہ الفاظ تھے جنہوں نے آنے والے وقت میں دنیا کو تبدیل کرنا تھا۔

جان پال نے جون 1979 میں پوپ کی حیثیت سے اپنے ملک کے پہلے دورے میں یہاں وارسا میں کھڑے ہو کر یہ پیغام دیا۔ یہ طاقت سے متعلق پیغام تھا، ایمان کی طاقت، مشکل حالات میں استقامت برقرار رکھنے کی طاقت اور لوگوں کی طاقت۔

حکومت کے ظالمانہ اور سفاکانہ نظام کے سامنے یہ وہ پیغام تھا جس نے 30 سال پہلے یورپ کے مرکزی اور مشرقی علاقے میں سوویت جبر کے خاتمے میں مدد دی۔ یہی وہ پیغام ہے جو اس ناجائز جنگ میں ڈھائے جانے والے ظلم اور سفاکیت پر غالب آئے گا۔

1979 میں جب جان پال نے یہ پیغام دیا تو اس وقت سوویت یونین آہنی پردے کے پیچھے بزور طاقت حکمرانی کر رہا تھا۔

پھر اس سے ایک سال کے بعد پولینڈ میں یکجہتی تحریک نے جنم لیا۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ وہ آج رات یہاں نہیں ہو سکتے لیکن امریکہ اور دنیا بھر میں ہم سب لیک ویلیسا کے مشکور ہیں۔ (تالیاں)

اس سے مجھے فلسفی کیئرکگارڈ کا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ ”یقین تاریکی میں زیادہ اچھا دیکھ سکتا ہے۔” اُس وقت تاریکی کا دور تھا۔

دس سال کے بعد سوویت یونین ٹوٹ گیا اور پولینڈ اور وسطی و مشرقی یورپ نے جلد آزاد ہو جانا تھا۔ آزادi کی جنگ میں کچھ بھی سادہ اور آسان نہیں تھا۔ یہ ایک طویل، دردناک اور کڑی جنگ تھی جو دنوں اور مہینوں نہیں بلکہ برسوں اور دہائیوں تک لڑی گئی۔

تاہم، ہم آزادی کی عظیم جنگ میں نئے ہو کر سامنے آئے۔ یہ جمہوریت اور آمریت کے مابین جنگ ہے، یہ آزادی اور جبر کے درمیان جنگ ہے، یہ قانون کی بنیاد پر چلنے والے نظام اور ظالم طاقت کے ذریعے کی جانے والی حکمرانی کے مابین جنگ ہے۔

اس جنگ میں ہمیں اپنی سوچ واضح رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ دنوں یا مہینوں میں نہیں جیتی جا سکتی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں خود کو آنے والے وقت میں ایک طویل جنگ کے لیے تیار کرنا ہو گا۔

جناب صدر، جناب وزیراعظم، جناب میئر، ارکان پارلیمںٹ، ممتاز مہمانان اور پولینڈ کے عوام اور میرے خیال میں یہاں یوکرین سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ بھی موجود ہیں۔ آپ سے مجھے یہ کہنا ہے کہ (تالیاں) ہم اس شہر میں رائل کیسل میں جمع ہوئے ہیں جس کا ناصرف یورپ بلکہ پوری انسانیت کی جانب سے آزادی کی جستجو کے نہ ختم ہونے والے سفر میں ایک مقدس مقام ہے۔

کئی نسلوں سے وارسا وہاں کھڑا ہوتا چلا آیا ہے جہاں آزادی کو چیلنج کیا گیا اور آزادی غالب آئی ہے۔

درحقیقت یہ وارسا ہی تھا جہاں چیکو سلواکیہ سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان مہاجر اپنا ملک چھوڑ کر آئی اور اس نے تقریر کی اور منحرفین کے ساتھ یکجا ہو کر کھڑی ہوئی۔

اس کا نام میڈیلین کوربل البرائٹ تھا۔ وہ (تالیاں) دنیا میں آزادی کی سرگرم ترین حامی بن گئیں۔ وہ ایک ایسی دوست تھیں جن کے ساتھ میں نے کام کیا۔ امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ۔ ان کا تین روز قبل انتقال ہوا ہے۔

وہ زندگی بھر ناگزیر جمہوری اصولوں کے لیے لڑتی رہیں۔ اب جمہوریت اور آزادی کی دائمی جدوجہد میں یوکرین اور اس کے لوگ دوسری اقوام کے دفاع کے لیے اگلی صفوں میں لڑ رہے ہیں۔

ان لوگوں کی دلیرانہ مزاحمت ان اہم جمہوری اصولوں کے لیے لڑی جانے والی ایک بڑی جنگ کا حصہ ہے جو تمام آزاد لوگوں کو باہم متحد رکھتے ہیں۔ ان اصولوں میں قانون کی حکمرانی، آزادانہ و منصفانہ انتخابات، بولنے، لکھنے اور اجتماع کی آزادی، اپنی مرضی سے عبادت کی آزادی اور صحافت کی آزادی شامل ہیں۔

ایک آزاد معاشرے میں یہ اصول لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔ (تالیاں) تاہم یہ اصول ہمیشہ سے محاصرے میں رہے ہیں۔ ان کے خلاف ہمیشہ جنگ ہوتی رہی ہے۔ ہر نسل کو جمہوریت کے مہلک دشمنوں کو شکست دینے کی جنگ لڑنا پڑی ہے۔ دنیا ایسی ہی ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں دنیا خامیوں سے پاک نہیں ہے۔ دنیا میں چند لوگ اپنے لالچ اور عزائم کے تحت ہمیشہ بہت سے لوگوں کی زندگیوں اور آزادیوں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔

یوکرین کے لوگوں کے لیے میرا پیغام وہ ہے جو میں ںے آج یوکرین کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو دیا ہے جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ آج رات یہاں موجود ہیں۔ میرا پیغام یہ ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بس۔ (تالیاں)

آج کیئو، میریوپول اور خارکیئو میں لڑی جانے والی جنگ اس طویل جدوجہد کا تازہ ترین معرکہ ہے۔ یہ جنگ 1956 میں ہنگری میں، اس کے بعد پھر 1956 میں پولینڈ میں اور دوبارہ 1981 میں اور 1968 میں چیکوسلواکیہ میں لڑی گئی۔

سوویت ٹینکوں نے جمہوری تحریکوں کو کچلا لیکن یہ مزاحمت جاری رہی یہاں تک کہ 1989 میں دیوار برلن اور سوویت غلبے کی تمام دیواریں گر گئی۔ یہ دیواریں گر گئیں اور لوگ غالب آئے۔ (تالیاں)

تاہم سرد جنگ ختم ہونے سے جمہوریت کے لیے لڑی جانے والی جنگ ختم نہ ہو سکی اور نہیں ہوئی۔

گزشتہ تیس برس میں آمرانہ قوتوں نے دنیا بھر میں دوبارہ زور پکڑ لیا ہے۔ اس کی علامات جانی پہچانی ہیں جیسا کہ قانون کی حکمرانی کی توہین، جمہوری آزادی کی توہین، سچائی کی توہین۔

آج روس نے جمہوریت کا گلا گھونٹا ہے اور وہ ناصرف اپنے ہاں بلکہ ہر جگہ یہی کچھ کرنا چاہتا ہے۔ نسلی یکجہتی کے جھوٹے دعوں کے تحت اس نے اپنے ہمسایہ ممالک پر حملہ کیا۔

پیوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ یوکرین کو ‘نازیوں سے پاک’ کر رہے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ انہوں نے محض منہ پھٹ انداز میں یہ دعویٰ کیا ہے۔ وہ یہ بات جانتے ہیں۔ یہ بات بیہودہ بھی ہے۔

صدر زیلنسکی کا انتخاب جمہوری طور پر عمل میں آیا۔ وہ یہودی ہیں۔ ان کے والد نازی ہولوکاسٹ کے متاثرین میں شامل ہیں۔ پیوٹن اپنے پیشرو تمام آمروں کی طرح بے باکانہ طور سے یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کے زور پر سب کچھ ممکن ہے۔

میرے اپنے ملک میں ایک سابق صدر نے، جن کا نام ابراہم لنکن تھا، خانہ جنگی کے دوران ہمارے اتحاد کو بچانے کے لیے مزاحمتی آواز بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”آئیے اس بات پر ایمان رکھیں کہ اچھائی ہی انسان کو طاقتور بناتی ہے۔” ”اچھائی ہی طاقت ہے۔” (تالیاں)

آئیے آج یہ جنگ دوبارہ لڑیں۔ آئیے جمہوریتوں کی طاقت کو ایسے عمل میں تبدیل کریں جو آمریتوں کے سامنے مزاحم ہو۔ آئیے یہ بات یاد رکھیں کہ اس لمحے ہمیں جو امتحادن درپیش ہے وہ انسانوں کو ہمیشہ سے درپیش رہا ہے۔

کریملن نیٹو میں وسعت کو روس کو غیرمستحکم کرنے کے سامراجی منصوبے کے طور پر دِکھاتا ہے۔ یہ مطلق غلط بات ہے۔ نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے۔ اس نے کبھی روس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

حالیہ بحران کے عروج پر پہنچنے سے پہلے امریکہ اور نیٹو نے روس کو جنگ سے روکنے کے لیے مہینوں کام کیا۔ میں نے پیوٹن سے ذاتی طور پر ملاقات کی اور فون پر بھی کئی مرتبہ بات کی۔

ہم نے بارہا روس کو سفارتی بات چیت کی پیشکش کی اور یورپ کی سلامتی کو مضبوط کرنے، شفافیت میں اضافے اور تمام اطرف میں اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔

لیکن پیوٹن اور روس نے ہر بات چیت میں ہر طرح کی تجاویز کے بارے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور ان کے جواب میں جھوٹ بولتے اور الٹی میٹم دیتے رہے۔ روس شروع سے ہی تشدد چاہتا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ جب ہم یہ کہے جا رہے تھے کہ ”وہ سرحد عبور کریں گے، وہ حملہ کریں گے” تو آپ میں تمام لوگ میری بات کا یقین نہیں کر رہے تھے۔

انہوں نے تواتر سے یہ دعویٰ کیا کہ ”جنگ میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں۔” انہوں نے اس بات کی ضمانت دی کہ وہ اپنی فوجوں کو حرکت نہیں دیں گے۔

وہ متواتر یہی کہتے رہے کہ وہ یوکرین پر حملہ نہیں کریں گے۔

وہ مسلسل کہتے رہے کہ یوکرین کی سرحد پر موجود ایک لاکھ 80 ہزار فوج لڑنے کے لیے نہیں بلکہ ”تربیتی مقاصد” کے لیے جمع کی گئی ہے۔

روس کی یہ سوچی سمجھی جنگ بلاجواز اور بلااشتعال ہے۔ یہ انسان کی ایک قدیم ترین ہیجانی کیفیت کی مثال ہے کہ مطلق طاقت کے مظاہرے اور تسلط جمانے کے لیے سفاکانہ طاقت اور جھوٹی اطلاعات سے کام لیا جائے۔

یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد قانون کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی نظام کو براہ راست خطرہ ہے۔

اس سے جنگ کی ویسی ہی دہائیاں واپس آنے کا خطرہ ہے جنہوں ںے قانون کی بنیاد پر کام کرنے والے بین الاقوامی نظام کے قیام سے پہلے یورپ کو تاراج کر دیا تھا۔ ہم اس دور میں واپس نہیں جا سکتے۔ ہم نہیں جا سکتے۔

اس خطرے کی شدت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی یورپ نے اس قدر فوری، طاقتور، متحدہ، بے مثل اور زبردست ردعمل دیا۔

روس کے خلاف فوری اور تادیبی کارروائی ہی وہ واحد چیز ہے جو اسے اپنی راہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

مغرب نے اس حملے کے بعد چند ہی روز میں مشترکہ طور پر روس کے خلاف پابندیاں عائد کیں جن کا مقصد اس کی معیشت کو نقصان پہنچانا تھا۔

اب روس کے مرکزی بینک کو عالمگیر مالیاتی نظام سے منقطع کیا جا چکا ہے اور کریملن کو اُن جنگی مالی وسائل تک رسائی نہیں رہی جو اس نے دنیا بھر میں جمع کیے تھے۔

ہمارا مقصد روس سے توانائی کی امریکہ میں درآمد روک کر اس کی معیشت کے قلب پر وار کرنا ہے۔

اب تک امریکہ روس کے 140 امراء اور ان کے خاندان کے ارکان پر پابندیاں عائد کر چکا ہے اور ان کے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ اثاثے ضبط کر چکا ہے جن میں پرتعیش کشتیاں، بیش قیمت اپارٹمنٹ اور ان کے محلات شامل ہیں۔

ہم روس کے 400 سے زیادہ سرکاری حکام پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں جن میں اس جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والے اہم لوگ بھی شامل ہیں۔

ان حکام اور امراء نے کریملن سے وابستہ بدعنوانی کے ذریعے بے پایاں فوائد سمیٹے ہیں اور اب انہیں اس کی قیمت چکانا ہو گی۔

نجی شعبہ بھی اس سمت میں اچھے انداز میں کام کر رہا ہے۔ 400 سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں روس میں اپنے کاروبار بند کر چکی ہیں اور تیل کمپنیوں سے لے کر میکڈونلڈ تک بہت سے کاروباری اداروں نے روس کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔

ان بے مثل پابندیوں کے نتیجے میں روبل فوری طور پر تقریباً ردی ہو گیا ہے۔ روس کی معیشت (تالیاں) ویسے یہ سچ بات ہے۔ اب 200 روبل کی قدر ایک ڈالر کے برابر ہے۔

آنے والے برسوں میں روس کی معیشت نصف رہ جائے گی۔ اس حملے سے پہلے روس کی معیشت اپنے حجم کے اعتبار سے دنیا میں 11ویں نمبر پر تھی۔ جلد ہی یہ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کا حصہ بھی نہیں رہے گی۔ (تالیاں)

اکٹھی عائد کی جانے والی یہ پابندیاں معاشی سیاسی تدبیر کی ایک نئی قِسم ہیں جس میں مخالفین کی جنگی طاقت کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

یہ بین الاقوامی پابندیان روس کی طاقت، اس کی اپنی فوج کو تازہ دم رکھنے کی صلاحیت اور اپنی طاقت کے اظہار کی اہلیت کو ختم کر رہی ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار ولاڈیمیر پیوٹن ہیں۔

ان معاشی پابندیوں کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا یوکرین کے لوگوں کی مدد کے لیے بھی اکٹھی ہوئی ہے جو انہیں غیرمعمولی درجے کی عسکری، معاشی اور انسانی امداد فراہم کر رہی ہے۔

اس حملے سے پہلے، روس کے سرحد عبور کرنے سے پہلے کئی سال تک امریکہ نے یوکرین کو 650 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت دفاعی وسائل مہیا کیے جن میں طیارہ شکن اور بکتر بند شکن اسلحہ شامل ہے۔

حملے کے بعد اب تک امریکہ اسے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی مد میں مزید 1.35 بلین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔

یوکرین کے لوگوں کی جرات اور بہادری کی بدولت (تالیاں)، ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے انہیں جو اسلحہ بھیجا ہے وہ یوکرین کی زمین اور فضائی حدود کے دفاع کے لیے بھرپور انداز میں کام آیا ہے۔ یوکرین کی دفاعی مدد کے لیے ہمارے اتحادی اور شراکت دار ممالک بھی آگے آئے ہیں۔

تاہم جیسا کہ میں نے واضح کیا ہے، یورپ میں امریکہ کی افواج روس کی فوج سے لڑنے کے لیے موجود نہیں ہیں بلکہ یہاں امریکہ کی فوجی موجودگی کا مقصد اپنے نیٹو اتحادیوں کی حفاظت کرنا ہے۔

گزشتہ روز میں ںے ان فوجیوں سے ملاقات کی جو نیٹو کا اگلے مورچوں میں دفاع مضبوط بنانے کے لیے ہمارے پولینڈ کے اتحادیوں کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد روس پر یہ واضح کرنا ہے کہ وہ نیٹو کی سرزمین پر ایک انچ بھی آگے بڑھنے کے بارے میں مت سوچے۔

ہماری ایک مقدس ذمہ داری ہے (تالیاں)، نیٹو کے آرٹیکل 5 کے تحت یہ ہماری مقدس ذمہ داری ہے کہ ہم نے نیٹو کی سرزمین کے ہر انچ کا اپنی مجموعی طاقت کے ذریعے دفاع کرنا ہے۔

آج میں نے آپ کے نیشنل سٹیڈیم کا دورہ کیا جہاں یوکرین سے آنے والے ہزاروں پناہ گزین اس مشکل ترین سوال کا جواب پانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی انسان کو درپیش ہو سکتا ہے کہ ”میرے خدا، میرے ساتھ کیا ہو گا؟ میرے خاندان کے ساتھ کیا ہو گا؟”

میں نے بہت سی ماؤں کو گلے لگایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، ان کے چھوٹے بچے یہ نہیں سمجھ پاتے کہ آیا انہیں مسکرانا ہے یا رونا ہے۔ انگریزی زبان سے قدرے واقفیت رکھنے والی ایک چھوٹی سی بچی نے مجھے کہا ”جناب صدر کیا میرے بھائی اور میرے والد خیریت سے ہوں گے؟ کیا میں انہیں دوبارہ دیکھ پاؤں گی؟ بہت سی خواتین اپنے شوہروں، والد، بھائیوں اور بہنوں کے بغیر یہاں موجود ہیں۔ ان کے یہ مرد رشتہ دار اپنے ملک کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

جس طرح انہوں نے میرے ہاتھ کو تھاما اور چھوٹے بچے میری ٹانگ سے لپٹ گئے تو مجھے ان کی آنکھوں میں دکھائی دینے والے جذبات کو محسوس کرنے کے لیے ان کی زبان میں کہنا سننا نہیں پڑا۔ یہ لوگ بے تابانہ امید کے ساتھ دعا کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ عارضی ہو، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں وہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھروں سے دور نہ ہو جائیں۔ یہ لوگ مضمحل کر دینے والی اداسی کا شکار ہیں جو ہر جگہ طاری ہو رہی ہے۔

تاہم میں وارسا اور پورے پولینڈ کے لوگوں کی فیاضی دیکھ کر بھی متاثر ہوا جو یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے پوری ہمدردی سے اپنے دل کھول رہے ہیں۔ (تالیاں)

میں میئر سے کہہ رہا تھا کہ یہاں کے لوگ یوکرین کے مہاجرین کی مدد کے لیے اپنے دل اور گھروں کے دروازے کھول رہے ہیں۔ میں اپنے دوست اور بہت بڑے امریکی باورچی ہوزے اینڈریز اور ان کی ٹیم کا بھی مشکور ہوں جو ان لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں جو آزاد زندگی جینا چاہتے ہیں۔

تاہم ان مہاجرین کی مدد کرنا ایسا کام نہیں جو صرف پولینڈ یا کسی اور ملک کو اکیلے کرنا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتوں پر ان لوگوں کی مدد کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ یوکرین کے لوگ بھروسہ رکھ سکتے ہیں کہ امریکہ یہ ذمہ داری پوری کرے گا۔

دو روز پہلے میں نے اعلان کیا کہ ہم یوکرین سے آنے والے ایک لاکھ پناہ گزینوں کا اپنے ملک میں خیرمقدم کریں گے۔ ہم پہلے ہی ہر ہفتے دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے آٹھ ہزار لوگوں کو امریکہ میں پناہ دے رہے ہیں۔

ہم یوکرین کو تقریباً 300 ملین ڈالر کی انسانی امداد دیں گے، اسے ہزاروں ٹن خوراک، پانی، ادویات اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا مہیا کریں گے۔

میں نے برسلز میں اعلان کیا کہ امریکہ مزید انسانی امداد کے طور پر ایک بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے وسائل مہیا کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے ہمیں بتایا ہے کہ نمایاں رکاوٹوں کے باوجود یوکرین کے بڑے شہروں میں کچھ نہ کچھ امداد پہنچ رہی ہے تاہم میریوپول کے لوگوں کو تاحال اس امداد تک رسائی نہیں ملی کیونکہ روس کی افواج امدادی سامان کو روک رہی ہیں۔

لیکن ہم یوکرین میں اور یوکرین سے جان بچا کر دوسرے ممالک میں آنے والے لوگوں کو ہر جگہ انسانی امداد پہنچانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

ولاڈیمیر پیوٹن کی سفاکیت کے باوجود اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جنگ پہلے ہی روس کے لیے تزویراتی ناکامی بن چکی ہے۔ (تالیاں) میں خود اپنے بچوں کو کھو چکا ہوں اور اسی لیے جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اپنے اہلخانہ کو کھو دیا ہے انہیں کوئی تسلی نہیں دی جا سکتی۔

تاہم پیوٹن نے سوچا کہ یوکرین کے لوگ ان کی اطاعت قبول کر لیں گے اور جنگ نہیں لڑیں گے۔ لیکن وہ تاریخ سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اس کے بجائے روس کی افواج کو یوکرین کے لوگوں کی جانب سے دلیرانہ اور کڑی مزاحمت کا سامنا ہوا۔

روس کے سفاکانہ جنگی اقدامات نے یوکرین کے عزم کو توڑنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔ (تالیاں)

نیٹو تقسیم نہیں ہوا بلکہ مغرب اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور متحد ہے۔ (تالیاں)

روس اپنی سرحدوں پر نیٹو کی موجودگی نہیں چاہتا لیکن اب اس کی سرحدوں پر نیٹوکی فوج مضبوط طور سے اور بڑی تعداد میں کھڑی ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی بھی نیٹو کے اپنے دیگر ارکان کے ساتھ موجود ہیں۔

درحقیقت (تالیاں) روس نے وہ کچھ کیا ہے جو مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا۔ دنیا کی جمہوریتوں کو چند ہی مہینوں میں نئی توانائی اور وہ مقصد اور اتحاد مل گیا ہے جس کے حصول میں پہلے ہمیں کئی سال لگے تھے۔

ہم محض یوکرین میں روس کے اقدامات کے باعث ہی اپنی جمہوریت کے ثمرات کو یاد نہیں کر رہے۔ خود کریملن احتجاج کرنے والے مظاہرین کو قید خانوں میں ڈال رہا ہے۔ مبینہ طور پر دو لاکھ لوگ پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ روس کے اعلیٰ دماغ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آزاد اطلاعاتی اداروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ ریاستی ملکیت میں چلنے والے تمام اطلاعاتی اداروں کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ان پر روس کی فوج کی جانب سے یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنائے جانے، اجتماعی قبروں اور لوگوں کو بھوکا مارنے کے مناظر روکے جا رہے ہیں۔

کیا یہ حیران کن بات ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، روس کے دو لاکھ شہری ایک ہی مہینے میں اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں؟ اس قدر کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ ملک سے چلے گئے ہیں جس پر مجھے روس کے لوگوں کو ایک پیغام دینا ہے:

میں نے کئی دہائیوں تک روس کے رہنماؤں کے ساتھ کام کیا ہے۔ میں سوویت وزیراعظم الیکسی کوسیجن کے دور سے وہاں کے رہنماؤں کے ساتھ کام کرتا چلا آیا ہوں جب میں نے سرد جنگ کے عروج میں ان کے ساتھ ضبط اسلحہ کے معاملے پر مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔

روس کے لوگو، میں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ براہ راست اور دیانت دارانہ طور سے بات کی ہے۔

اگر آپ میری بات سن سکتے ہیں تو مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ لوگ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔

میں اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ آپ معصوم بچوں یا معمر لوگوں کی ہلاکت چاہتے ہیں یا آپ کو ہسپتالوں، سکولوں، اور زچہ بچہ وارڈوں کی روس کے میزائلوں اور بموں سے تباہی قبول ہے یا آپ شہروں کا محاصرہ چاہتے ہیں تاکہ لوگ وہاں سے نکل نہ سکیں یا آپ انہیں مدد کے حصول سے روکنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے بھوکا مارنا چاہتے ہیں۔

لاکھوں خاندان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں جن میں یوکرین میں بچوں کی نصف آبادی بھی شامل ہے۔ عظیم قوم دوسروں سے ایسا سلوک نہیں کرتی۔

آپ تمام لوگوں، روس کے لوگوں اور یورپ بھر کے لوگوں کو 30 کی دہائی کے اواخر اور 40 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں دوسری عالمی جنگ کے حالات یاد ہوں گے۔ یہ باتیں اس علاقے میں بہت سے معمر والدین کے اذہان میں اب بھی تازہ ہیں۔

آپ کی نسل کو جو بھی تجربہ ہوا، خواہ آپ نے لینن گراڈ کے محاصرے کا تجربہ کیا ہو یا اس کے بارے میں اپنے والدین یا ان کے والدین سے سنا ہو، جب ٹرینوں کے سٹیشن خوفزدہ خاندانوں سے بھرے ہوئے تھے جو اپنے گھر بار چھوڑ کر جا رہے تھے، جب لوگوں کی راتیں تہہ خانوں اور گوداموں میں پناہ لیے گزرتی تھیں اور جب صبح کے وقت لوگ اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے ہوتے تھے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ماضی کی یادیں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس کی فوج اب یوکرین میں بالکل وہی کچھ کر رہی ہے جس کا آپ لوگوں نے ماضی میں مشاہدہ کیا یا اس کے بارے میں سن رکھا ہے۔

یہ 26 مارچ، 2022 ہے۔ چند ہی روز پہلے آپ ایسی امیدوں اور ایسے خوابوں سے معمور 21ویں صدی کی قوم تھے جو دنیا میں تمام لوگ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے سوچتے اور دیکھتے ہیں۔

اب ولاڈیمیر پیوٹن کی جارحیت نے آپ کو کاٹ دیا ہے، روس کے لوگوں کو باقی دنیا سے علیحدہ کر دیا ہے اور روس 19ویں صدی کی جانب واپس جا رہا ہے۔

آپ ایسے لوگ نہیں ہیں۔ آپ کو اپنے خاندانوں اور اپنے بچوں کو ماضی کی جانب واپس نہیں لے جانا۔ میں آپ کو سچائی بتا رہا ہوں۔ آپ، روس کے لوگوں کو یہ جنگ نہیں لڑنی چاہیے۔

پیوٹن یہ جنگ بند کر سکتے ہیں اور انہیں بند کرنا ہو گی۔ امریکہ کے لوگ آپ اور یوکرین کے بہادر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو امن چاہتے ہیں۔

باقی یورپ کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ آزادی کی نئی جنگ میں کچھ چیزیں بالکل واضح ہو چکی ہیں۔

پہلی بات یہ کہ یورپ کو روس سے حاصل ہونے والے معدنی ایندھن پر اپنا انحصار ختم کرنا ہو گا۔ امریکہ اس معاملے میں آپ کی مدد کرے گا۔ (تالیاں)۔ اسی لیے میں نے گزشتہ روز برسلز میں یورپی کمیشن کے صدر کے ساتھ ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد یورپ کو توانائی کے بحران پر فوری طور پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔

معاشی تحفظ، قومی سلامتی اور زمین کی بقاء سے متعلق طویل مدتی معاملے کے طور پر ہم سب کو جتنا جلد ہو سکے ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم سب مل کر کام کریں گے تاکہ آئندہ کوئی ملک اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے کسی جابر کی خواہشات کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ ہو۔ اس صورتحال کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس صورتحال کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ ہمیں روس کے لوگوں کو آزادانہ موقع دینے کے لیے کریملن کی بدعنوانی کے خلاف لڑنا ہے۔

آخری اور انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں دنیا کے جمہوری ممالک کے طور پر آپس میں پوری طرح متحد رہنا ہے۔

جمہوریت، خودمختاری، مساوات اور آزادی کے لیے بڑی بڑی باتیں کافی نہیں ہیں۔ پولینڈ سمیت ہم تمام ممالک کو روزانہ جمہوریت کے لیے کڑی محنت کرنا ہو گی۔ اس میں میرا ملک بھی شامل ہے۔

اسی لیے (تالیاں) اسی لیے میں اِس ہفتے نیٹو، جی7، یورپی یونین اور تمام آزادی پسند ممالک کے لیے ایک واضح طور متعین پیغام لے کر دوبارہ یورپ آیا ہوں اور وہ یہ کہ ہمیں اب عہد کرنا ہو گا ہم طویل عرصہ تک یہ جنگ لڑیں گے۔ ہمیں آج، کل، اس کے بعد اور آنے والے برسوں اور دہائیوں میں بھی متحد رہنا ہے۔ (تالیاں)

ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہمیں اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ لیکن یہ وہ قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنا ہے۔ کیونکہ آمریت سے برآمد ہونے والی تاریکی آزادی کے شعلے کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ہر جگہ آزاد لوگوں کی روحوں کو منور کرتا ہے۔

تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ عظیم ترین ترقی تاریک ترین لمحات کے بعد آتی ہے۔ تاریخ کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ تاریکی کو ختم کرنا اور ترقی کی راہ پر چلنا آج کے دور میں ہمارا ہدف ہے، یہ موجودہ نسل کا ہدف ہے۔

آئیے یاد رکھیں کہ جس ہتھوڑے نے دیوار برلن گرائی اور جس طاقت نے آہنی پردے کو ہٹایا وہ کسی ایک رہنما کے الفاظ نہیں تھے۔ یہ یورپ کے لوگ تھے جنہوں نے خود کو آزاد کرانے کے لیے دہائیوں تک جدوجہد کی۔

ان کی پرخلوص جرات نے امن کے لیے ہونے والے مظاہرے ‘پین یورپین پکنک’ کے لیے آسٹریا اور ہنگری کے مابین سرحدیں کھلوائیں۔ انہوں نے ‘بالٹک وے’ امن مظاہروں کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ وہ یہاں پولینڈ میں یکجہتی کے لیے کھڑے ہوئے۔ مجموعی طور پر یہ لوگوں کی ایک واضح اور ناقابل تردید قوت تھی جس کے سامنے سوویت یونین ٹھہر نہ پایا۔

آج ہم دوبارہ دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین کے بہادر لوگ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کی مجموعی طاقت ایک آمر کے ارادے سے کہیں زیادہ موثر ہے۔ (تالیاں)

لہٰذا آئیے پوپ جان پال کے الفاظ کو اپنائیں اور انہیں عملی جامہ پہنائیں کہ ”کبھی ناامید مت ہوں، کبھی شبے میں نہ رہیں، کبھی تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں اور کبھی بے حوصلہ نہ ہوں۔ کبھی خوفزدہ مت ہوں۔” (تالیاں)

کسی سلطنت کو دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش رکھنے والا آمر آزادی سے لوگوں کی محبت کبھی ختم نہیں کر سکے گا۔ سفاکیت ان لوگوں کی آزادی کی خواہش کو ختم نہیں کر پائے گی۔ یوکرین میں روس کو کبھی فتح نہیں ملے گی کیونکہ آزاد لوگ ناامیدی اور تاریکی کی دنیا میں رہنے سے انکار کرتے ہیں۔

ہمارا مستقبل اس سے مختلف ہو گا، ایک روشن مستقبل جس کی بنیاد جمہوریت اور اصول، امید اور روشنی، شائستگی اور وقار اور آزادی اور امکانات پر ہو گی۔

خدا کے لیے، یہ شخص ہمیشہ برسراقتدار نہیں رہے گا۔

خدا آپ سبھی پر رحمت کرے۔ خدا ہمارے آزادی کی حفاظت کرے۔ (تالیاں) خدا ہمارے فوجیوں کی حفاظت کرے۔ تحمل سے میری بات سننے کا شکریہ۔ شکریہ۔ (تالیاں)۔ شکریہ۔ شکریہ۔

6:43 سہ پہر


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2022/03/26/remarks-by-president-biden-on-the-united-efforts-of-the-free-world-to-support-the-people-of-ukraine/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future