وائٹ ہاؤس
واشنگٹن، ڈی سی
19 فروری 2021
ایسٹ روم
دن کے 11 بجکر 17 منٹ ای ایس ٹی
صدر: شکریہ سفیر صاحب۔ اینگلا اور ایمینوئل کی صحبت میں شامل ہونا بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ واشنگٹن کے حوالے سے ہم نے صبح کا کچھ وقت اکٹھے گزارا۔ تاہم میں سب کو ہیلو کہنا چاہتا ہوں اورمیونخ کانفرنس میں اس خصوصی اجلاس کی میزبانی کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
جیسا کہ آپ نے ذکر کیا، کئی دہائیوں سے میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک ہوتا چلا آ رہا ہوں — امریکی سینیٹر کی حیثیت سے دونوں پارٹیوں کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بحراوقیانوس کے آرپار کی شراکت داری کی اہمیت کی تصدیق کرنے کے لیے؛ تین مرتبہ امریکہ کے نائب صدر کی حیثیت سے جس میں اوباما – بائیڈن انتظامیہ میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی مہینوں میں پہلی بین الاقوامی خارجہ پالیسی پر [میری] تقریر بھی شامل ہے۔
اور جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی، دو برس قبل جب میں نے میونخ میں آخری بار تقریر کی تھی، [تب] میں ایک عام شہری تھا؛ میں ایک پروفیسر تھا، ایک منتخب عہدیدار نہیں تھا۔ مگر میں نے اس وقت کہا تھا، “ہم واپس آئیں گے۔” اور میں اپنے قول کا پکا ہوں۔ امریکہ واپس آ گیا ہے۔
آج میں امریکہ کے صدر کی حیثیت سے، اپنی انتظامیہ کے آغاز پر تقریر کر رہا ہوں اور میں دنیا کو ایک واضح پیغام دے رہا ہوں: امریکہ واپس آ گیا ہے۔ بحراوقیانوس کے آرپار کا اتحاد واپس آ گیا ہے۔ اور ہم پیچھے نہیں دیکھ رہے؛ ہم مل کر آگے دیکھ رہے ہیں۔
اس کا لب لباب یہ ہے: بحراوقیانوس کے آرپار کا اتحاد ایک مضبوط بنیاد ہے– ایک ایسی مضبوط بنیاد جس پر ہماری اجتماعی سلامتی اور ہماری مشترکہ خوشحالی کی [عمارتیں] تعمیر ہوئی ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے درمیان شراکت، میری نظر میں، اُن تمام کامیابیوں کا مرکزی ستون ہے اور رہنا چاہیے جنہیں اکیسویں صدی میں اسی طرح حاصل کرنے کی ہمیں امید ہے جیسا کہ ہم نے انہیں بیسویں صدی میں حاصل کیا تھا۔
ہمیں آجکل جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ مختلف ہیں۔ ہم تبدیلی کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ جب میں نے آپ سے سینیٹر کی حیثیت سے بات کی تھی، بلکہ نائب صدر کی حیثیت سے بھی بات کی تھی،[اس کے بعد سے] عالمی حرکیات بدل چکی ہیں۔ نئے بحران ہماری توجہ کے متقاضی ہیں۔ اور ہم اُن ممالک کے مابین مقابلے پر ہی توجہ مرکوز نہیں کر سکتے جو دنیا کو تقسیم کرتے ہیں، یا صرف اُن عالمی چیلنجوں پر، جن سے اگر ہم تعاون کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہم سب کے اکٹھے ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔ اپنے حلیفوں اور شراکت داروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتنے ہوئے، ہمیں دونوں کام کرنے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شک و شبہ باقی رہتا ہے تو میں اسے دور کیے دیتا ہوں: ہمیں جن گونا گوں چیلنجوں کا سامنا ہے اُن کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور — روم سے لے کر ریگا تک — پورے براعظم پر پھیلے اپنے شراکت کاروں کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کرے گا۔
ہم ایک ایسے یورپ کی منزل کی حمایت کرتے رہیں گے جو ایک اکائی ہو، آزاد اور پرامن ہو۔ امریکہ اپنے نیٹو اتحاد کے ساتھ مکمل طور پر پرعزم ہے اور میں فوجی صلاحیتوں میں بڑھتی ہوئی یورپی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہوں جس سے ہمارا مشترکہ دفاع مستحکم ہورہا ہے۔
آپ کو علم ہے، میں اور امریکہ، اور ہم سب اس شق کو قائم رکھیں گے — ہم شق 5 پر یقین قائم رکھیں گے۔ یہ ایک ضمانت ہے۔ کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ ہے۔ یہ ہمارا غیرمتزلزل عہد ہے۔ نائن الیون کے امریکہ پر حملے کے بعد صرف ایک مرتبہ شق 5 کو بروئے کار لایا گیا۔ ہمارے اتحادی، [یعنی] آپ، القاعدہ کے خلاف لڑائی میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے، اور امریکہ نے افغانستان میں مستقبل کی راہ پر چلنے میں اپنے نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی صلاح مشورے کا وعدہ کیا۔
میری انتظامیہ اُس سفارتی پروس — [یعنی] عمل کی، جو جاری ہے اور اس جنگ کو بند کرنے کی پرزور حمایت کرتی ہے جس کے 20 سال پورے ہونے والے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے بدستور پرعزم ہیں کہ افغانستان دوبارہ کبھی بھی امریکہ اور ہمارے شراکت داروں اور ہمارے مفادات کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے اڈے فراہم نہ کرے۔
ہمارے یورپی شراکت کار بھی داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اسی ہفتے نیٹو کے وزرائے دفاع نے عراق میں ایک خاصے بڑے آُس تربیتی اور مشاورتی مشن کی توثیق کی ہے جو داعش کے خلاف جاری لڑائی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہم داعش کو مشرق وسطی میں، یورپ میں، امریکہ میں اور دیگر مقامات پر دوبارہ تشکیل پانے اور دوبارہ جمع ہونے اور لوگوں کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اور ایسے میں جب کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنی فوجی موجودگی کے تفصیلی جائزے کے عمل سے گزر رہا ہے، میں نے جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو روک دینے کا حکم دیا ہے۔ میں جرمنی میں رکھی جانے والی امریکی افواج کی تعداد پر پچھلی انتظامیہ کی عائدہ کردہ حد کو بھی ختم کر رہا ہوں۔
میں جانتا ہوں — میں جانتا ہوں کہ گزشتہ چند برسوں میں بحراوقیانوس کے آرپار کی ہماری شراکت داری تناؤ کا شکار رہی اور آزمائش کے دور سے گزری، مگر امریکہ پرعزم ہے — یورپ کے ساتھ دوبارہ کام کرنے میں، آپ کے ساتھ مشورہ کرنے میں، قابل بھروسہ قیادت کی اپنی پوزیشن دوبارہ حاصل کرنے میں — پرعزم ہے۔
آج صبح، جیسا کہ حوالہ دیا گیا ہے، میں نے جی سیون رہنماؤں کے پہلے اجلاس میں شرکت کی جہاں میں نے کووڈ-19، عالمی معاشی بحران، تیزتر ہوتے ہوئے آب و ہوا کے بحران اور کئی ایک اور [مسائل] سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت کے بارے میں بات کی۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کا انحصار ایک بنیادی تزویراتی تجویز پر ہے، اور وہ ہے: امریکہ کو بہرصورت امریکہ کی پائیدار برتریوں کی تجدید کرنا چاہیے تا کہ ہم آج کے چیلنجوں کا مقابلہ طاقت کے مقام سے کر سکیں۔ اس کا مطلب ہے اپنی معاشی بنیادوں کو بہتر بنانا؛ بین الاقوامی اداروں میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنا؛ ملک میں اپنی اقدار کو بلندی پر لے جانا، اور دنیا بھر میں ان کے دفاع کے لیے آواز اٹھانا؛ سفارت کاری کے ذریعے قیادت کرتے ہوئے اپنی فوجی صلاحیتوں کو جدید بنانا؛ امریکہ کے اتحادوں اور شراکت داریوں کے اُس نیٹ ورک کو دوبارہ طاقتور بنانا جو دنیا کو تمام قوموں کے لیے محفوظ سے محفوظ تر بنا چکا ہے۔
آپ جانتے ہیں، مجھے امید ہے کہ ہماری ساتھی جمہوریتیں اس اہم کام میں ہمارا ساتھ دیں گی۔ ہماری شراکت داریاں سالہا سال سے قائم چلی آ رہی ہیں اور پھل پھول رہی ہیں کیونکہ اُن کی جڑیں ہماری مشترکہ جمہوری اقدار کی فراوانی میں پیوست ہیں۔ اُن کی نوعیت کاروباری نہیں ہے۔ اُن کی نوعیت ہتھیانے والی نہیں ہے۔ اُن کی تعمیر ایک ایسے مستقبل کے تصور پر ہوئی ہے جس میں ہر ایک آواز اہم ہے، جہاں سب کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے اور قانون کی حکمرانی کو مقدم رکھا جاتا ہے۔
اس میں کچھ بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا — [یعنی] ہم میں سے کوئی بھی اس تقسیم [تصور] میں کامیاب نہیں ہوا۔ ہم اس کے لیے کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور بہت ساری جگہوں پر، بشمول یورپ اور امریکہ، جمہوری پیشرفت حملوں کی زد میں ہے۔
میں جانتا ہوں — [یعنی] میں آپ میں سے بہت سے لوگوں کو طویل عرصے سے جانتا ہوں اور آپ کو علم ہے کہ میں اپنے دل کی بات کرتا ہوں، لہذا میں آپ سب کے ساتھ ایک سیدھی سادی سچی بات کرتا ہوں: ہم اپنی دنیا کے مستقبل اور سمت کے حوالے سے ایک بنیادی مباحثے کے عین بیچ میں کھڑے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کے درمیان ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف وہ ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے لیے — چوتھے صنعتی انقلاب سے لے کر ایک عالمگیر وبا تک — اس وقت درپیش تمام چیلنجوں کے پیش نظر آگے بڑھنے کا بہترین راستہ مطلق العنانی ہے، وہ یہی دلیل دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ضروری — [یعنی] اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جمہوریت ضروری ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جب مؤرخین اس لمحے کا جائزہ لیں گے اور اس کے بارے میں لکھیں گے تو اس کی حیثیت ایک اہم موڑ کی سی ہوگی۔ اور مجھے — اور میرے وجود کے ذرے ذرے کو – یقین ہے کہ جمہوریت غالب آ کر رہے گی اور اسے بہرصورت غالب آنا چاہیے۔ ہمیں اس امر کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے کہ جمہوریتیں اب بھی اس بدلی ہوئی دنیا میں ہمارے لوگوں کے حق میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ میری نظر میں زبردست تحرک پیدا کرنے والا ہمارا یہی مشن ہے۔
جمہوریت حادثاتی طور پر پیدا نہیں ہوتی۔ ہمیں اس کا دفاع کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے لڑنا پڑتا ہے، اسے مضبوط بنانا پڑتا ہے، اس کی تجدید کرنی ہوتی ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارا نمونہ ہماری تاریخ کی کوئی یادگار نہیں ہے؛ یہ ہمارے مستقبل کے وعدے کو دوبارہ پختہ کرنے کا واحد بہترین ذریعہ ہے۔ اور اگر ہم طاقت اور اعتماد کے ساتھ اپنے جمہوری شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے، تو میں جانتا ہوں کہ ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کریں گے اور ہر چیلنج کرنے والے کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
آپ کو علم ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ طویل مدتی تزویراتی مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امن، سلامتی اور اپنی مشترکہ اقدار کا دفاع کرنے اور پورے بحرالکاہل میں ہماری خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے، امریکہ، یورپ اور ایشیا جس طرح مل کر کام کریں گے اُس کا شمار اُن اہم کوششوں میں ہوگا جو ہم کریں گے۔ چین کے ساتھ مقابلہ سخت ہوگا، اور مجھے یہی توقع ہے، اور اس کا میں خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ میں [اس] عالمی نظام پر یقین رکھتا ہوں جس کی تشکیل کے لیے یورپ اور امریکہ نے بحرہند و بحرالکاہل میں اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر گزشتہ 70 سال کے دوران سخت محنت کی ہے۔
ہم مستقبل کی دوڑ کے مالک بن سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے لیے ہمیں اُن تاریخی سرمایہ کاریوں اور شراکت داریوں کا واضح ادراک ہونا چاہیے جو اس کے لیے ضروری ہیں۔ ہمیں تحفظ کرنا ہوگا — [یعنی] ہمیں جدت طرازی کو، املاک دانش کو، اور اُس تخلیقی ذہانت کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا جو کھلے جمہوری معاشروں میں نظریات کے آزادانہ تبادلے میں پھلتی پھولتی ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ترقی کے فوائد میں صرف چند لوگ ہی نہیں، بلکہ وسیع اور مساویانہ طریقے سے [زیادہ سے زیادہ لوگ] شامل ہوں۔
ہمیں چینی حکومت کی ان معاشی زیادتیوں اور جبر کی مخالفت کرنا ہوگی جو بین الاقوامی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ سب کو — [یعنی] سب کو ایک جیسے قوانین کے تحت کھیلنا چاہیے۔
امریکی اور یورپی کمپنیوں کو کاروباری حکمرانی — [یعنی] کاروباری حکمرانی کے ڈھانچے کو عوامی سطح پر آشکار کرنے اور بدعنوانی اور اجارہ داری کے طریقوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی خاطر قوانین کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی کمپنیوں پر بھی اسی معیار پر کا اطلاق ہونا چاہیے۔
ہمیں ایسے قوانین وضح کرنے چاہیئیں جو ٹکنالوجی کی پیشرفت اور سائبر سپیس، مصنوعی ذہانت، بائیو ٹکنالوجی میں طرزعمل کے اصولوں کا احاطہ کریں تاکہ انہیں لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے استعمال کیا جا سکے نہ کہ اِنہیں نیچے گرانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ہمیں ایسی جمہوری اقدار کے حق میں کھڑا ہونا چاہیے جو ہمارے لیے اِن میں سے کسی ایک کو حاصل کرنا ممکن بنائیں اور اُن لوگوں کی مخالفت کرنا چاہیے جو جبر کی اجارہ داری قائم کرتے ہیں اور اسے عام کرتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ یہی وہ — [یعنی] یہی وہ طریقہ ہے جس کے تحت ہم روس سے درپیش اِس خطرے سے نمٹنے کے قابل ہوں گے۔ کریملن ہماری جمہوریتوں پر حملہ کرتا ہے اور ہمارے نظام حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے لیے بدعنوانی کو ہتھیار کی شکل دیتا ہے۔ روسی رہنما چاہتے ہیں کہ لوگ سوچیں کہ ہمارا نظام زیادہ بدعنوان ہے یا اتنا ہی بدعنوان ہے جتنا اُن کا ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہ سچ نہیں ہے بشمول روسیوں — [یعنی] روس کے اپنے شہریوں کے۔
پیوٹن یورپین کو کمزور — [یعنی] یورپی پراجیکٹ اور ہمارے نیٹو کے اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ بحراوقیانوس کے اتحاد اور ہمارے عزم کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ کریملن کے لیے بحراوقیانوس کے آرپار ایک مضبوط اور قریبی طور پر متحد کمیونٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے کسی اکیلی ریاست کو ڈرانا اور دھمکیاں دینا کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے– [یعنی] یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کے لیے کھڑا ہونا، یورپ اور امریکہ کے نزیک بدستور ایک انتہائی اہم امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاقبت نا اندیشی سے نمٹنا– [یعنی] روسی عاقبت نااندیشی اور کمپیوٹر نیٹ ورکوں کی ہیکنگ، امریکہ اور یورپ اور پوری دنیا میں ہماری اجتماعی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ روس سے درپیش چیلنج اُن چیلنجوں کے مقابلے میں مختلف ہوں جن کا ہمیں چین کی طرف سے سامنا ہے، مگر وہ اتنے ہی حقیقی ہیں جتنے حقیقی چین کے چیلنج ہیں۔
اور اس کا تعلق مشرق کو مغرب کے مقابل کھڑا کرنے سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ ہم جھگڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں تمام قومیں کسی تشدد یا جبر کے خطرے کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے راستے کا تعین کرسکیں۔ ہم سرد جنگ کی عکاس [اضطراری] مخالفت اور کٹر بلاکوں کی طرف واپس نہیں جا سکتے اور نہ ہی جانا چاہیے۔ مقابلے کو اُن معاملات میں تعاون کرنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے جو ہم سب کو متاثر کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم ہر جگہ پر کووڈ-19 کو شکست دینے جارہے ہیں تو ہمیں تعاون کرنا ہوگا۔
قومی سلامتی کی میری پہلی صدارتی یاد داشت میں توجہ کووڈ-19 کو شکست دینے اورکسی آنے والی وبائی بیماری کی بہتر روک تھام اور تیاری کی خاطر، بڑھتے ہوئے صحت اور انسانی ردعملوں پر مرکوز کی گئی ہے۔
آج، میں اعلان کر رہا ہوں کہ امریکہ کوویکس کے لیے دو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کر رہا ہے [اور] دو ارب ڈالر کے اضافی وعدے کے ساتھ، دوسروں پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ بھی آگے آئیں۔
اس کے باوجود، جب ہم اس وبائی مرض کے شکنجے سے نکلنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، افریقہ میں ایبولا کا دوبارہ ابھرنا اس بات کی ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ ہمیں بالآخر بیک وقت صحت کی سلامتی کے لیے مالی مدد کرنا چاہیے؛ صحت کے عالمی نظاموں کو مضبوط بنانا چاہیے؛ اور مستقبل کے حیاتیاتی خطرات کی روک تھام، ان کا پتہ لگانے اور ان کے مقابلے کے لیےابتدائی انتباہی نظام بنانے چاہئیں، کیونکہ یہ [خطرات] آتے رہیں گے۔ ہمیں عالمی ادارہ صحت کو مضبوط بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں حیاتیاتی خطرات پر مرکوز اقوام متحدہ کے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو کام کرنے کے لیے تیزی سے حرکت میں آ سکے۔
اسی طرح، ہم آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مزید تاخیر یا برائے نام کوششیں نہیں کرسکتے۔ یہ ایک عالمی، [انسانی] بقا کا بحران ہے، اور ہم سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا — [یعنی] اگر ہم ناکام ہوتے ہیں تو ہم سب کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ہمیں اپنے اخراجوں کو جارحانہ طریقے سے روکنے اور اپنے اہداف پورے کرنے اور اپنی امنگوں میں اضافہ کرنے کے لیے، ایک دوسرے کو جوابدہ ٹھہرانے کی خاطر اپنے وعدوں میں جلدی سے تیزی پیدا کرنا ہوگی۔
اسی لیے، بحیثیت صدر، میں فوری طور پر پیرس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوا، اور آج سے امریکہ ایک بار پھر اُس پیرس معاہدے میں باضابطہ طور پر ایک فریق بن چکا ہے جس کو تشکیل دینے میں ہم نے مدد کی تھی۔
یوم ارض کے موقع پر، میں رہنماؤں کی ایک چوٹی کانفرنس کی میزبانی کروں گا تاکہ سب سے زیادہ اخراجوں کا باعث بننے والوں کی طرف سے زیادہ بامقصد اقدامات کو تحرک دینے میں مدد کی جا سکے [اور اس میں] یہاں امریکہ میں ملک کے اندر آب و ہوا کے اقدامات بھی شامل ہوں گے۔
میں شکر گزار ہوں — [یعنی] میں گذشتہ چار سالوں کی آب و ہوا کے مسائل پر یورپ کی مسلسل قیادت کا شکر گزار ہوں۔ ہمیں مل کر ان تکنیکی جدت طرازیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے صاف توانائی کے مستقبلوں کو تقویت پہنچائیں گیں اور ہمیں عالمی منڈیوں میں صاف توانائی کے حل کی تیاری کے قابل بنائیں گیں۔
جوہری پھیلاؤ کے خطرے میں بھی ہمارے مابین محتاط سفارت کاری اور تعاون کی ضرورت بدستور موجود ہے۔ تزویراتی غلط فہمیوں یا غلطیوں کے خطرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ہمیں شفافیت اور روابط کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی میں آیا — [یعنی] میں نے حلف اٹھایا، امریکہ اور روس نے، دیگر مقابلوں کے باوجود، نئے سٹارٹ معاہدے میں مزید چار [پانچ] سال کی توسیع کی۔
اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام پر، پی فائیو پلس ون کے ساتھ بات چیت پر دوبارہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں مشرق وسطی میں ایران کی غیر مستحکم سرگرمیوں پر بھی بہرصورت توجہ دینا ہوگی، اور جب ہم آگے بڑھیں گے تو اپنے یورپی اور دوسرے شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کریں گے۔
ہم انشقاقی اور تابکار مادے کو حاصل یا استعمال کرنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے بھی اکٹھے مل کر کام کریں گے۔
دیکھیے، امریکہ اور یورپ کو چیلنجوں کے جس سلسلے کا بہرصورت مل کر سامنا کرنا ہے وہ وسیع اور پیچیدہ ہے۔ اور میں بیتاب ہوں — میں بیتاب ہوں — اس کے بعد میں اپنی اچھی دوست اور ممتاز رہنما، چانسلر میرکل سے مل کر آگے بڑھنے کی راہ کے بارے میں اُن کے خیالات سننے کے لیے بیتاب ہوں۔
لہذا مجھے اپنی بات اس پر ختم کرنے دیجیے: ہم ذاتی شکوک و شبہات کو ایک دوسرے کے ساتھ یا وسیع تر دنیا کے ساتھ کام کرنے میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ گزشتہ چار برس مشکل تھے۔ مگر یورپ اور امریکہ کو ایک بار پھر، پُراعتماد طریقے سے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کے ساتھ، اپنی ذاتی تجدید کے ایک عہد کے ساتھ، مل کر اپنے مستقبلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کسی بھی چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ایک دوسرے پر بھروسے اور یورپ اور امریکہ کی صلاحتیوں پر اعتماد کے ساتھ، قیادت کرنا ہوگی۔
میں جانتا ہوں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ ابھی کل ہی — سات ماہ کے بعد، 300 ملین میل کے سفر کے بعد — ناسا نے کامیابی کے ساتھ مریخ پر پرسویئرینس روور کو اتارا ہے۔ یہ ہمارے سیارے سے باہر زندگی کے امکان کے ثبوت اور کائنات کے اسرار کی تلاش کرنے والے تحقیق کے مشن پر ہے جس میں ہمارے یورپی شراکت کاروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔
اگلے چند برسوں میں — “پرسی” (ناقابل سماعت) کال ہے — [یعنی] پرسویئرنس سرخ کرے پر گھوم پھر کر نمونے جمع کرے گا اور ایک جگہ اکٹھے کرے گا تاکہ ایک اور مشن اور روور، جنہیں ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے، سائنسی عجائبات کے اس خزانے کو ہم سب کے لیے زمین پر واپس لا سکے۔
یہ وہ سب کچھ ہے جو ہم اکٹھے مل کر کر سکتے ہیں۔ اگر مریخ تک ہمیں لے جانے اور واپس لانے کی ہماری لامحدود صلاحیت کچھ اور نہیں بھی بتاتی، مگر ہمیں یہ تو بتاتی ہے کہ ہم کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ہم زمین پر ہر ایک چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو علم ہو کہ امریکہ کام کرے گا — [یعنی] ہم اپنے حصے کا کام کریں گے۔ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہم اپنی مشترکہ اقدار کے لیے لڑیں گے۔ ہم تاریخ کے اس نئے لمحے کے چیلنجوں پر پورے اتریں گے۔
امریکہ واپس آ گیا ہے۔ لہذا آئیے اکٹھے ہوں اور اپنے بچوں کے بچوں کو یہ کر کے دکھائیں کہ، جب وہ ہمارے بارے میں پڑھیں، جمہوریت — جمہوریت — جمہوریت چلتی ہے اور کام کرتی ہے، اور ایسا کوئی کام نہیں جو ہم اکٹھے مل کر نہیں کر سکتے۔ لہذا آئیے کام شروع کرتے ہیں۔
آپ سب کا بہت شکریہ۔ آپ کا شکریہ، دوستو۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/02/19/remarks-by-president-biden-at-the-2021-virtual-munich-security-conference/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔