An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
جان کیری، خصوصی صدارتی نمائندہ برائے موسمیاتی امور
8 اپریل، 2021

نئی دہلی، انڈیا

جان کیری: میں اپنی بات کا آغاز یہ کہتے ہوئے کروں گا کہ میرا دورہ نہایت عمدہ رہا۔ یہ واقعتاً ایک مفید دورہ تھا۔ میں آپ کے ساتھ بات چیت اور آپ کے سوالات کا جواب دینے کا منتظر ہوں۔

کیا آپ کو پہلے میری بات سنائی دی؟

میں نے یہ کہا تھا کہ میں سمجھتا ہوں میرا انڈیا کا دورہ بہت تعمیری رہا اور میری اہم وزرا کے ساتھ اچھی ملاقاتیں ہوئیں جن میں وزیر ماحولیات، وزیر توانائی، وزیر بجلی، وزیر خزانہ اور وزیر برائے خارجہ امور شامل ہیں۔ میں امیتابھ کانت اور این آئی ٹی آئی (آیوگ) کے لوگوں سے بھی ملا۔ اس طرح ہم سبھی کو درپیش وسیع تر مسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر حالیہ سوچ اور اس حوالے سے ہمارے مستقبل کے اقدامات کے تناظر میں ہماری بہت اچھی بات چیت ہوئی۔

اس دورے کا سبب بننے والی بنیادی بات یہ ہے کہ صدربائیڈن موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور انداز میں اقدامات اٹھانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسے اپنی انتظامیہ کی سب سے بڑی ترجیحات میں رکھا ہے۔ یہ چار بڑی ترجیحات میں سے ایک ہے جن میں کوویڈ-19، معیشت، امریکی سماج میں پیدا ہونے والی نسلی تقسیم کو ختم کرنا اور موسمیاتی مسئلہ شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ کُلی طور پر ہماری معاشی بحالی سے جڑا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے نوکریوں، نئی ٹیکنالوجی کی تیاری، ایک نئی معیشت کی جانب منتقلی اور نئی توانائی کی معیشت تخلیق کرنے کے حوالے سے ایک بڑا معاشی موقع ہے اور ہم اس بارے میں بہت پُرجوش ہیں۔

انڈیا ہمارا ایک اہم شراکت دار ہے۔ یہ ناصرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ یہ اپنی اقدار کے اعتبار سے بھی ایک ایسا ملک ہے جسے اس زمین، اس کے ماحول اور گردوپیش سے ہمارے تعلق کی بے حد فکر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کو اس حوالے سے ذمہ داری کا بے حد احساس ہے جس سے ہمارے خیال میں دونوں ممالک کے مابین ایک نہایت اہم شراکت کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے لوگ اختراعی اور کاروباری سوچ کے حامل ہیں جو ہمیشہ نئی سے نئی چیز دریافت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ تحقیق و ترقی، نئی اشیا کی تخلیق، مسائل کے نئے حل اور میں سمجھتا ہوں کہ شراکت کی بدولت ایک ایسا ملک جس کے سامنے بہت بڑے ترقیاتی مسائل ہوں، دوسرے ایسے ملک کے ساتھ جُڑت قائم کر سکتا ہے جو ترقی یافتہ ہو مگر اسے اپنے بنیادی ڈھانچے کو نئے خطوط پر استوار کرنے اور دیگر امور سے متعلق بڑے مسائل کا سامنا ہو۔ لہٰذا ہمارے مابین بہت کچھ مشترک ہے اور ہم یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کام کرنے کے شدت سے متمنی ہیں۔

لہٰذا اس معاملے پر ـــ

صحافی: سہ پہر بخیر۔ میرا نام اندرانی باگچی ہے اور میرا تعلق دی ٹائمز آف انڈیا سے ہے۔

آپ نے سی ای آر اے ویک میں اپنی گفتگو کے دوران ارنسٹ مونیز کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک بات کہی تھی۔ آپ نے انڈیا میں قابل تجدید توانائی کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کی غرض سے ایک کنسورشیم قائم کرنے کا تذکرہ کیا۔ یہ کنسورشیم کون بنائے گا؟ کون سے ممالک اس میں مالی وسائل دینے پر رضامند ہو سکتے ہیں؟

جان کیری: شکریہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے بہت سے ممالک ہیں جو اس میں سرمایہ کاری پر تیار ہوں گے اور یقیناً وہ اس کے لیے اچھی شرائط چاہیں گے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ 450 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کے حصول کا عمل تیز کرنے کی ابتدائی کوشش ایک غیرمعمولی ہدف ہے جسے وزیراعظم مودی نے مقرر کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک زبردست ہدف ہے۔ ہم اس ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت بہتر بنانے میں اپنی جانب سے سہولت کی فراہمی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ اس شراکت کا ایک حصہ ہے جس تک ہم پہنچے ہیں اور گزشتہ روز ہماری بات چیت میں بھی اس پر اتفاق پایا گیا جہاں ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کیا اور اس دوران ٹیکنالوجی اور اس کے مالیاتی اجزا پر این 450 سے کام لینے پر خاص طور سے بات چیت کی۔

میں متحدہ عرب امارات سے یہاں آیا ہوں جہاں ہم نے اپنے ملک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر پہلی بات چیت کی۔ اس میں بہت سے دوسرے ممالک، خطے کے بہت سے ممالک شامل تھے۔ سوڈان، مراکش، مصر، عراق، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات وغیرہ سبھی گلاسگو میں سنجیدہ کوششوں اور ماحول کے لیے مضر گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور نئی ٹیکنالوجی کی تیاری پر پیش رفت کی فوری ضرورت سے متعلق بات چیت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات اس معاملے میں انڈیا کے ساتھ مل کر پہلے ہی متعدد اقدامات کر رہا ہے اور وہ ہمارے ساتھ شراکت قائم کرنے میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ میری دوسرے ممالک سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ میں ان کے نام نہیں لوں گا کیونکہ اس کا فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے مگر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ان میں بعض یورپی ممالک ہیں اور کچھ ممالک کا تعلق ہمارے براعظم سے ہے جو ہمیں مدد دینے کی کوشش کرنے پر تیار ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں مودی حکومت کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے ذریعے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات چیت پہلے ہی شروع ہو چکی ہے، لیکن ہم آئندہ ہفتوں میں بہت تیزی سے اس پر پیش رفت کی کوشش جاری رکھیں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ گلاسگو کانفرنس اور 2030 تک نتائج کے حصول کا وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ہم 2020 اور 2030 کے درمیانی عرصہ کو ایک اہم اور فیصلہ کن دہائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے ہرممکن قدم اٹھانا ہے کہ عالمی حدت کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھا جائے اور یہی وہ عرصہ جس میں ہم وہ راہ عمل متعین کریں گے جو ہمیں 2050 تک ماحول کو مضر گیسوں کے وجود سے یکسر پاک کرنے کی جانب لے جاتی ہے۔ تاہم اس سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ تصور یہ ہے کہ 2020 اور 2030 کے درمیانی عرصہ میں ہمیں عملی قدم اٹھانا ہے (ناقابل سماعت) کیونکہ اگر ہم اس دوران خاطرخواہ کام نہیں کرتے تو پھر دیگر اہداف کا حصول ناممکن ہو گا۔ ہمارے پاس 1.5 کی حد برقرار رکھنے کی اہلیت نہیں ہے اور ہمارے پاس ہدف تک پہنچنے کی اہلیت بھی نہیں ہے (ناقابل سماعت)۔ لہٰذا کچھ کرنے کا وقت یہی ہے۔ اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ہنگامی نوعیت کا کام ہے۔ وزیراعظم مودی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ وہ عملی قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہم، صدر بائیڈن بھی یہی عزم رکھتے ہیں۔

صحافی: میرا نام گوراو سینی ہے اور میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی نمائندگی کرتا ہوں۔ کیا آپ انڈیا کے وزیر توانئی کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمیں ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی شمولیت اور ان کے اخراج میں توازن لانے کی بات کرنے کے بجائے ماحول میں شامل ہونے والی کاربن سے زیادہ مقدار میں اس کے اخراج پر توجہ دینا چاہیے؟ (ناقابل سماعت)

جان کیری: لوگ 2050 کے لیے جس ہدف کی بات کر رہے ہیں وہ اس عرصہ کے دوران ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی شمولیت اور ان کے اخراج میں توازن سے متعلق ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کسی مرحلے پر ہم ماحول سے کاربن کو مکمل طور پر خارج کرنے کے قابل ہوں گے اور جب ہمارے پاس صلاحیت ہو گی تو ہمیں کسی مرحلے پر ماحول میں شامل ہونے والی کاربن سے بڑی مقدار کو ماحول سے خارج کرنے کی ضرورت ہو گی۔ جی بالکل ٹھیک بات ہے۔ اگر ہم 2050 میں اول الذکر ہدف حاصل کر لیتے ہیں تو تب بھی ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے کا ہمارا کام باقی ہو گا کیونکہ 2050 تک ہم ماحول میں کاربن کی شمولیت اور اس کے اخراج کے مابین توازن قائم کر لیتے ہیں تو تب بھی اس کی بڑٰی مقدار ماحول میں بدستور موجود ہو گی اور تب بھی ہمیں نقصان ہو رہا ہو گا اور اب اس میں میتھین گیس بھی شامل ہو رہی ہے۔ میتھین بہت خطرناک شرح سے فضا کا حصہ بن رہی ہے کیونکہ یہ ہر جگہ فضائی حدت میں بیس فیصد زیادہ اضافہ کرتی ہے، میں نے اس حوالے سے بہت سے اعدادوشمار دیکھے ہیں، مگر جو بنیادی بات سنی ہے وہ یہ کہ میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 20 گنا زیادہ خطرناک ہے۔ یہ زیادہ دیر فضا میں نہیں رہتی مگر اس سے ہونے والا نقصان دوسری گیسوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اب ایسا ہو رہا ہے کیونکہ الاسکا میں مستقل طور سے منجمد سمجھی جانے والی برف پگھل رہی ہے۔ سائبیریا میں ٹنڈرا کا خطہ پگھل رہا ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کو صرف میتھین سے لاحق خطرات دوسری گرین ہاؤس گیسوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا ہمارا مقصد ماحول کو صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرنا نہیں۔ ہماری توجہ تمام گرین ہاؤس گیسوں پر ہے جن میں میتھین شاید سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔

صحافی: میرا نام جیاشری نندی ہے اور میں ہندوستان ٹائمز کی نمائندگی کرتی ہوں۔ میرے پاس اس موضوع سے متعلق چند سوالات ہیں۔ پہلا یہ کہ آیا آپ کی انڈیا کے حکام سے کاربن کی مارکیٹوں یا کاربن کی تجارت کے حوالے سے کوئی بات چیت ہوئی؟ اور کیا آپ کی ماحول میں کاربن کی شمولیت اور اخراج میں توازن لانے کے ہدف سے متعلق یعنی پہلے 2030 کے اہداف اور پھر اس ہدف تک پہنچنے سے متعلق کوئی بات چیت ہوئی ہے؟

جان کیری: کس بارے میں کون سی بات چیت؟

صحافی: انڈیا کے حکام کے ساتھ، آپ کے انڈٰین ہم منصبوں کے ساتھ۔

جان کیری: کس بارے میں؟

ٹھیک ہے۔ یہ بنیادی سوال ہے۔

جی، بہت تفصیلی اور زیادہ بات نہیں ہوئی، مگر دونوں ممالک اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کاربن کی مارکیٹ موجود ہے اور اسے موجود رہنا چاہیے۔ ہمیں اسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ صدر بائیڈن سمجھتے ہیں کہ کسی مرحلے پر ہمیں کاربن پر کوئی قیمت مقرر کرنا ہو گی جو موثر ہو۔ انہوں نے ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ یا اعلان نہیں کیا مگر ہم سب جانتے ہیں کہ کاربن پر قیمت مقرر کرنا اس گیس کے اخراج میں کمی لانے کا موثر ترین طریقہ ہے۔ آپ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ آپ نے گیس پر قیمت مقرر کر رکھی ہے، آپ نے کوئلے پر قیمت مقرر کر رکھی ہے اور اس کا کچھ فائدہ بھی ہے مگر کسی نے ابھی تک کسی چیز پر حقیقی قیمت مقرر نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ قیمتیں اس قدر کم ہیں کہ اس سے ہمیں عالمی سطح پر ماحول کے تحفظ میں وہ فائدہ نہیں ہوتا جس کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر بات ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ مہینوں میں اس پر مزید بہت سی بات چیت ہو گی کہ ہمیں اس حوالے سے کون سے ذرائع میسر ہیں اور یقیناً کاربن کی مارکیٹ ایسا ایک اہم ذریعہ ہے۔

صحافی: میرا نام سوہاسنی حیدر ہے اور میں دی ہندو کی نمائندہ ہوں۔ آپ کا شکریہ۔ جناب کیری آپ اگست 2016 میں بھی یہاں آئے تھے اور اس دوران آپ کی انڈیا کی حکومت سے اسی طرح کی بات چیت ہوئی تھی۔ اس وقت آپ پیرس معاہدے سے پہلے کے معاملات پر بات کر رہے تھے۔ درحقیقت انڈیا کی پیرس معاہدے میں شمولیت امریکہ کی جانب سے مخصوص یقین دہانیوں کی بنیاد پر تھی جن کا تعلق موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی سے ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے ایسی بہت سی یقین دہانیاں منسوخ کر دیں جن میں موسمیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت خاص طور پر اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے بارے میں ایسی باتیں بھی کہی گئیں کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک ہے اور ان یقین دہانیوں کا حق دار نہیں ہے جو اس سے کی گئی تھیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ یہ بات کرتے ہیں کہ اس معاملے میں وقت کی خاص اہمیت ہے تو پھر گزشتہ چار سال میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدام کی قیادت سے متعلق امریکہ کی کوششوں کو کتنا نقصان پہنچا ہے؟ آپ اس کے ازالے کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں۔ یہ بات میرے علم میں ہے کہ وزیر خارجہ نے آپ کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنی ٹویٹس میں کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے وعدے کی جانب پلٹنا چاہیے جس کی رو سے ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو 100 ارب ڈالر دینا تھے۔ آپ کے خیال میں گزشتہ چار سال میں ہونے والے نقصان کا کتنا جلد ازالہ ہو سکتا ہے؟

جان کیری: آپ اور دنیا بھر کے لوگوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا ازالہ کتنا جلد ممکن ہے۔ یہ فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہم اچھی نیت سے قدم اٹھا سکتے ہیں اور اپنی کہی باتوں پر عمل کر کے امریکہ کی ساکھ بحال کر سکتے ہیں۔

اب ہم نے اعلان کیا، صدر اوبامہ اور نائب صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے تین بلین ڈالر فنڈ دے گا (ناقابل سماعت) ہم نے بجٹ دورانیے کے دوران فوری طور پر ایک ارب ڈالر جاری کرنے کا انتظام کیا مگر آئندہ دورانیوں میں ایسا نہ کر سکے اور پھر یہ ٹرمپ نامی ہمارے دوست آ گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ جانتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا اور سائنس سے منہ موڑ لیا اور وہ صرف ایک ہی ملک کے رہنما بن گئے جس نے معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ سائنس اور معقولیت کی راہ چھوڑ کر امریکہ کے عوام کو غلط طور سے بتایا گیا کہ پیرس معاہدے کی صورت میں امریکہ پر بہت بڑا بوجھ آ گیا ہے۔ کیا آپ کو اصل صورتحال کا علم ہے؟ پیرس معاہدے نے امریکہ پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ ہر ملک نے اس معاہدے میں اپنا مںصوبہ پیش کیا تھا۔ ہر ملک نے خود فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ ہم نے ماحولیات سے متعلق تمام لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا، اس میں مذہبی بنیاد پر کام کرنے والوں کے علاوہ بڑے کاروبار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہیں جن کے ساتھ مل کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی گئی کہ کیا کچھ ہو سکتا ہے اور ہم یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟

چنانچہ جب ہم نے پیرس معاہدہ کیا تو مجھے یاد ہے کہ ہم نے معاہدے کی منظوری کے فوری بعد ہونے والے اجلاس میں مندوبین سے کہا کہ ہم یہ سوچ کر یہاں سے نہیں جا رہے کہ ہم نے زمین کا درجہ حرارت دو درجے کی حد میں رکھ لیا ہے۔ اس وقت ہمارے ساتھ 196 ممالک تھے جنہوں نے دنیا کو یہی پیغام دیا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے یہ کچھ کر رہے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ افسوس کی بات ہے کہ اگر ہر ملک وہی کچھ کرتا جو اس نے پیرس معاہدے کے موقع پر کہا تھا تو ہم اب بھی دنیا کا درجہ حرارت 3.7 ڈگری تک ہی بڑھتا دیکھتے۔ ہم وہ سب کچھ نہیں کر رہے جو کرنے کا وعدہ ہم نے پیرس میں کیا تھا۔ لہٰذا عملی طور پر دیکھا جائے تواب ہم چار یا 4.5 ڈگری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں درست طور سے نہیں جانتا۔ کوئی اس بارے میں آپ کو بالکل درست طور سے نہیں بتا سکتا کہ اس وقت کیا صورتحال ہے۔ تاہم آپ یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ ہم واضح طور پر بہت بڑے نقصان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

لہٰذا یہ ہنگامی صورتحال ہے۔ اسی لیے گلاسگو میں ہمیں بڑا قدم اٹھانا ہے۔ ہمیں کچھ ایسا کرنا ہے جس سے صورتحال میں نمایاں بہتری آئے۔ اسی لیے 2050 تک ماحول میں مضر گیسوں کی شمولیت اور اخراج میں توازن لانا ہی کافی نہیں ہے۔ لہٰذا آپ گلاسگو میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہمیں 30 سال میں کرنا ہے کیونکہ اگر آپ وہ سب کچھ نہیں کرتے جو ہمیں 2020 اور 2030 کے درمیان کرنا ہے تو پھر آپ وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جو آپ کو 1.5 ڈگری کے ہدف تک پہنچنے یا اسے برقرار رکھنے یا ماحول سے کاربن کے مکمل خاتمے کے لیے کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ محض سائنسی طور پر یہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے کسی معجزانہ دریافت کی ضرورت ہے جو تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول سے کھینچ لے اور آپ کو ذخیرہ (مہینوں کا) فراہم کرے یا بالکل ہی نئی طرز کے ایندھن تیار کر دے ــ جو کہ ممکن ہے۔ تاہم آپ کسی معجزے یا ایسی کسی اور چیز پر انحصار نہیں کر سکتے۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے اور اگر ہم اکٹھے نہ ہوئے اور اپنے عزائم بلند نہ کیے تو پھر یہی کر رہے ہوں گے۔

لہٰذا امریکہ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے واپس آ گیا ہے۔ امریکہ کو اندازہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ ہم عاجزانہ طور سے واپس آئے ہیں۔ ہم نے یہ جانتے ہوئے واپسی اختیار کی ہے کہ گزشتہ چار سال لوگوں کے لیے مایوس کن تھے۔ مگر ہم اس احساس کے ساتھ بھی واپس آئے ہیں کہ امریکہ بھر میں گورنروں، شہروں کے ناظمین اور پورے امریکہ نے پیرس معاہدے میں شمولیت قائم رکھنے کے لیے کڑی محنت کی۔ آپ کے لیے یہ بات یاد رکھنا بہت اہم ہے۔ ہماری 37 ریاستوں میں قابل تجدید توانائی کے استعمال سے متعلق قوانین بنائے گئے ہیں اور اس طرح 37 گورنروں نے ان قوانین پر عمل کیا ہے جن میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔ چنانچہ ہم نے کسی نہ کسی طور ماحول سے مضر گیسوں کے اخراج کا کام جاری رکھا۔ ہمارے شہروں کے ہزار سے زیادہ میئر بھی اس میں شامل تھے۔ امریکہ میں ہر بڑے شہر کے میئر نے کہا کہ ہم پیرس معاہدے سے دستبردار نہیں ہو رہے، ہم بدستور اس معاہدے پر کاربند ہیں۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے تو معاہدے سے دستبرداری اختیار کی مگر امریکہ کے عوام کی اکثریت بدستور اس کا حصہ رہی۔ اس طرح ان کی دستبرداری سے ہمیں نقصان ہوا مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے عوام نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ہمیں اپنی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

مزید برآں اس مرتبہ صدر بائیڈن نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کریں گے اور انہوں ںے صدر بنتے ہی ایسا کیا۔ انہوں نے فوری طور پر انتظامی احکامات جاری کیے جن سے ڈونلڈ ٹرمپ کے برے اقدامات کو واپس پھیرا گیا، ان احکامات کی بدولت ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے لائحہ عمل کو عملی صورت دینے میں مدد ملی، موٹرگاڑیوں سے متعلق معیارات کا نفاذ اور دیگر اقدامات ممکن ہوئے۔ وہ اس رقم کے دوبارہ اجرا کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں جس کا ہم نے پانچ سال پہلے وعدہ کیا تھا۔

لہٰذا وہ بجٹ میں 2 بلین ڈالر رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو ہم پر واجب الادا ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حکومت کی جانب سے بھی رقم جاری کریں گے جو آنے والے برسوں میں اضافی مالی وسائل کے طور پر رکھی جائے گی، اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریاں پورا کرنا اور وعدوں پر دوسروں کا اعتبار قائم رکھنا اسی کو کہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انڈیا اور دنیا بھر کے عوام یہ جان لیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔ وہ یہاں رہے ہیں، وہ دوڑ ہار چکے ہیں۔ صدر بائیڈن اس اوبامہ انتظامیہ کا حصہ تھے جس نے پیرس معاہدہ ممکن بنایا اور ہم کوشش اور مدد کریں گے کیونکہ گلاسگو کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ملک کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ آپ کے سوال کا طویل جواب تھا مگر لوگوں کے لیے یہ جاننا واقعتاً اہم ہے کہ اس معاملے میں کیا کچھ ہوا۔

صحافی: میرا نام انوبھتی وشنوئی ہے اور میرا تعلق دی اکنامک ٹائمز سے ہے۔ جناب کیری، انڈیا سے کاربن کی فضا میں شمولیت اور اخراج میں توازن لانے سے متعلق اس کے ہدف کے بارے میں نئی توقع رکھی جا رہی ہے۔ چونکہ انڈیا تاحال ترقی پذیر معیشت ہے تو کیا اس توقع کو مبنی برحقیقت کہا جا سکتا ہے؟ ہم اس ہدف سے کئی سال پیچھے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انڈٰیا سے عملی طور پر اس کی کوئی توقع رکھی جا سکتی ہے؟

جان کیری: کیا میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ توقع رکھی جا سکتی ہے؟ جی ہاں۔ کیا میں یہاں بیٹھا یہ کہہ رہا ہوں کہ انڈیا کو بہرصورت یہی کچھ کرنا ہے؟ نہیں۔ میں نے وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں یہ بات نہیں کی۔ انہیں اس مسئلے کا اندازہ ہے۔ انڈیا کو اس مسئلے کا اندازہ ہے۔ اگر انڈیا ایسا کہنا چاہے تو بہت اچھی بات ہو گی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ اس ضمن میں قطعی تقاضا ہے کہ انڈیا ہمارے اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے بالکل وہی کچھ کرے جس کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ دنیا کے بہت سے ممالک سے بہتر پوزیشن میں ہو گا۔ اس وقت انڈیا کے پاس 450 گیگا واٹ کا منصوبہ ہے۔ اگر 450 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کا حصول اور اس سے کام لینا ممکن ہو جاتا ہے تو انڈیا ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو 1.5 ڈگری کے ہدف کو قائم رکھنے میں مدد دے رہے ہوں گے۔

میں ںے کچھ دیر پہلے اس بات پر زور دیا تھا کہ وعدہ کرنے سے بھی زیادہ اہم بات کیا ہے ۔۔ ہم وعدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ بہت سے ممالک وعدہ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی کے لیے اس ہدف تک پہنچنے میں مددگار ہو گا۔ مگر 2020 سے 2030 کے عرصہ میں عملی اقدامات اٹھانا اس سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جیسا میں نے کہا، اگر آپ اس وقت عملی قدم اٹھانے والے ممالک میں شامل نہیں ہیں تو پھر آپ 2050 کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ آئندہ مہینوں میں ہمارے سامنے یہی کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو 2020 اور 2030 کے درمیانی عرصہ میں اٹھائے جانے والے اقدامات میں شامل کیا جائے۔ صدر بائیڈن اپنی بلائی گئی کانفرنس کے ذریعے یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ دنیا کے ممالک سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے عزائم بلند کریں اور یہ پیرس معاہدے کا حصہ ہے جہاں ہم دوبارہ جائیں گے اور اندازہ لگائیں گے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس عزم میں اضافے کے لیے ہم اس کانفرنس کے بعد ملاقاتیں بھی کریں گے۔ لہٰذا اس کانفرنس میں دنیا کی بڑی معیشتیں ورچوئل طور سے ایک جگہ اکٹھی ہوں گی اور ہر سربراہ ریاست کو اپنے منصوبوں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔ اس موقع پر یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ اپنے عزائم میں اضافہ کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا بہت اہم ہے۔

صحافی: میرا نام اویشک دستیدار ہے اور میں دی انڈین ایکسپریس کا نمائندہ ہوں۔ جناب کیری، میں اسی موضوع سے متعلق ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اب جبکہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بات چیت کر رہے ہیں تو آپ کے خیال میں اس معاملے میں عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے نوجوان کارکنوں کا کردار کس قدر اہم ہے؟ اسی طرح حکومتوں کے لیے یہ یقینی بنانا کتنا اہم ہے کہ ان کے ہاں انسانی حقوق کا تحفظ ہو؟ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے ان نوجوان کارکنوں کی حوصلہ افزائی میں حکومتوں کا کوئی کردار ہے؟ کیونکہ انڈیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو دیشا روی نامی ایسی ہی ایک کارکن کو اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے کسی احتجاج کے لیے ایک آن لائن ٹول کٹ بنائی تھی اور وہ گریٹا تھنبرگ کے ساتھ رابطے میں تھیں۔ لہٰذا اس مسئلے پر ایک نمایاں شخصیت ہونے کے ناطے آپ تحفظ ماحول کے نوجوان کارکنوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومتوں کے کردار کو کتنا اہم دیکھتے ہیں؟

جان کیری: انسانی حقوق امریکہ کے لیے ہمیشہ ایک اہم معاملہ رہے ہیں اور ان کی پاسداری کی کوشش ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ یقیناً گزشتہ چند سال میں اور تاریخی طور پر ہمارے ہاں اندرون ملک بھی مسائل رہے ہیں مگر نوجوان ـــ آپ نے پوچھا کہ نوجوان کتنے اہم ہیں ــ بہت سے بڑوں کو ان کا کام کرنے پر مجبور کرنے میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ نوجوانوں نے یہ ممکن بنایا ہے کہ بڑے لوگ بڑوں کا سا طرزعمل اختیار کریں، حقائق کو دیکھیں، سائنس پر توجہ دی اور کام کریں۔ میں فرائیڈے فار فیوچر یا 350.org اور ایسے بہت سے دیگر گروہوں کا بے حد معترف ہوں۔ ان میں سن رائز موومنٹ نامی گروہ بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے نوجوان لوگ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ایسی سرگرمیوں کو ذاتی طور پر بہت اچھا سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں ایسی چیزوں کو ان جگہوں پر رائے دہندگی کا حصہ بننا چاہیے جہاں لوگوں کو رائے دینے کی اجازت ہے۔ امریکہ میں گزشتہ انتخابات میں لوگوں نے اسی مسئلے پر ووٹ دیے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے غالباً 1970 کے بعد پہلی مرتبہ ماحولیات اور موسمیاتی بحران انتخابی موضوع بنا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے لوگوں کو باہر نکلنے، منظم ہونے اور اس پر ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ دنیا بھر میں اس تحریک کی قیادت نوجوانوں نے کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں اگر ہم نے مناسب اقدامات نہ کیے تو ان کی دنیا اور ان کے مستقبل کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

لہٰذا تاریخی طور پر دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ بہت سے جمہوری اور غیرجمہوری ممالک میں تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو مشرقی یورپ اور دیگر جگہوں پر نوجوان لوگ سوویت یونین کے اقدامات کے مقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں بڑے بھی شامل ہیں جنہوں نے رہنما کردار ادا کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا۔ انسانی روح آزادی، احترام اور وقار کا تقاضا کرتی ہے۔

چنانچہ ہم سب کے اس موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا مقصد ایسی دنیا بنانا ہے جہاں سبھی کو خوراک میسر آئے، وہ جہاں رہتے ہیں وہیں رہیں اور انہیں موسمی شدت سے تنگ آ کر نقل مکانی کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری صورت یہ ہو گی کہ آپ کے پاس نہ خوراک ہو اور نہ ہی پانی۔ یا موسمی حالات سے تنگ آئے مہاجرین ہوں جنہیں نئے ٹھکانے کی تلاش ہو کہ ان کے گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ آخر میں انہی دونوں میں کوئی ایک صورت حال درپیش ہو گی۔

دنیا میں پہلے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو موسمی شدت سے تنگ آ کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی اور سے زیادہ نوجوان یہ کہہ رہے ہیں کہ ارے ٹھہرو، آپ لوگوں نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ آپ ہمارے مستقبل چھین رہے ہیں۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر بائیڈن نے نوجوانوں کی آواز سن لی ہے۔ انہوں ںے اسے اپنی صدارتی انتخابی مہم کا بنیادی حصہ بنایا۔ انہوں نے اس حوالے سے اقدامات کو منظم کرنے اور یہ کام کرنے کے لیے ایک خصوصی اقدام کر کے اپنی بات کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک کے لوگوں کا ماحول کو مضر بنانے میں حصہ 0.7 فیصد سے بھی کم ہے مگر وہ عام طور پر 20 سے زیادہ ممالک کے طرزعمل کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ماحول کے لیے مضر 81 فیصد سے زیادہ مادے 20 ممالک خارج کرتے ہیں۔ اسی لیے کیا انہی ممالک پر آگے بڑھنے کی بڑی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر ریو ڈی جنیرو میں پہلی بات چیت کے بعد اب تک اس حوالے سے اپنے تبادلہ خیال میں اسی اصول کو سامنے رکھ کر چلے ہیں۔

تاہم کوئی اس بات کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔ چین ماحول کے لیے مضر گیسیں خارج کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور ہمارا ملک دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ انڈیا اس اعتبار سے تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے بعد روس، انڈونیشیا اور دوسرے ممالک آتے ہیں۔ اسی لیے ہم سب کو اکٹھے ہو کر عملی اقدامات کرنا ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ملک کل تک ماحول کو ضرررساں عناصر سے پوری طرح پاک کرنے کا اپنا ہدف حاصل کر لے تو تب بھی ہمیں وہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے جو ہمیں درکار ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ نہایت ولولہ انگیز تبدیلی ہے۔ یہ میرا آپ سبھی کے لیے پیغام ہے کہ ہم جو معاشی تبدیلی چاہتے ہیں وہ بہت بڑی ہے۔ اس میں بہت سے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس میں توانائی کے گرڈ کی تعمیر، توانائی کی ترسیل کے نئے سلسلوں کے قیام، نئے شمسی پلانٹ تعمیر کرنے، ان چیزوں کے انتظام، شمسی پینل بنانے اور بجلی سے چلنے والے گاڑیاں بنانے کی نوکریاں شامل ہیں۔ یہ طویل فہرست ہے۔ اس میں ماحول دوست مادے سے بنی عمارات تعمیر کرنے کی نوکریاں بھی شامل ہیں۔ یہ ایسی عمارتیں ہوں گی جن میں بہت زیادہ توانائی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہی ہمارا مستقبل ہے۔ اس مستقبل کو پانے کی جدوجہد کرنے والے تمام نوجوانوں کے لیے کئی طرح سے اس کی تشکیل میں مدد دینے کا موقع ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا موقع ہے۔

مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک دن ہماری معیشت کاربن سے بالکل پاک ہو گی۔ تاحال اس معاملے میں اعتماد کی کمی کے سبب میں یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا ہم مطلوبہ رفتار سے اس ہدف تک پہنچ جائیں گے یا نہیں۔ ہمیں یہی مسئلہ درپیش ہے۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس نے ہمیں تباہ کر دینا ہے اور ہم اس کے سامنے بے بس بیٹھے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے جن سے اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ہمیں صرف بڑوں کا سا طرزعمل اختیار کرنا اور یہ کام کر گزرنا ہے۔

آپ کا بہت شکریہ۔ یہاں آنے کا شکریہ۔ میں آپ کی آمد کا قدردان ہوں۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/briefing-with-special-presidential-envoy-for-climate-john-kerry/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future