وائٹ ہاؤس
18 فروری، 2023
12:44 دوپہر
نائب صدر: شکریہ۔ شکریہ کرسٹوف۔ شکریہ کرسٹوف۔ آپ کا شکریہ۔
میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں دوبارہ آمد کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں۔
جیسا کہ ہم میں بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا، گزشتہ برس اسی سٹیج پر میں نے خبردار کیا تھا کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ ہو سکتا ہے۔ آئیے یاد کریں، اس وقت بہت سے لوگوں کو یہ سوچ کر حیرانی تھی کہ ہم سب اس کا جواب کیسے دیں گے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ کیا روس کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا نیٹو ہمارا ساتھ دے گا؟ کیا نیٹو میں پھوٹ پڑ جائے گی؟ اور کیا نیٹو اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گا؟
ساتھیو، آج، ایک سال کے بعد ہمیں ان سوالوں کے جواب معلوم ہیں۔
کیئو ابھی تک قائم ہے۔ (تالیاں)، روس، روس کمزور پڑ چکا ہے۔
ماورائے اوقیانوس اتحاد پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ (تالیاں) اور سب سے اہم بات یہ کہ یوکرین کے لوگوں کا جذبہ قائم ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی قیادت میں ہمارے ملک نے فیصلہ کن قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔
جیسا کہ صدر بائیڈن اکثر کہتے ہیں، امریکہ مقصد کے حصول تک یوکرین کی مدد کرتا رہے گا۔ ہمارے قدم متزلزل نہیں ہوں گے۔
آج، میں اس میونخ سکیورٹی کانفرنس میں یہ بتاؤں گی کہ ہمارا کیا کچھ داؤ پر لگا ہے۔ اس میں اخلاقی مفاد، تزویراتی مفاد، امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یوکرین کی اہمیت خاص طور پر نمایاں ہیں۔
پہلی بات یہ کہ بلا اشتعال شروع کی جانے والی اس جنگ کے آغاز سے ہی ہم نے روس کی افواج کو خوفناک مظالم اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے دیکھا ہے۔ ان کے اقدامات ہماری مشترکہ اقدار اور ہماری مشترکہ انسانیت پر حملہ ہیں۔
واضح رہے کہ روس کی افواج نے شہری آبادی کے خلاف ایک وسیع اور منظم حملہ کرتے ہوئے قتل، تشدد، جنسی زیادتی اور ملک بدری کے ہولناک افعال کا ارتکاب کیا ہے۔
روس کے حکام نے بچوں سمیت ہزاروں لوگوں کو یوکرین سے جبراً روس بھیجا ہے۔ انہوں نے بچوں کو ظالمانہ طور پر ان کے والدین سے علیحدہ کر دیا ہے۔
ہم سب نے میریوپول کے تھیٹر کے مناظر دیکھے ہیں جہاں سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا گیا۔
اس حاملہ ماں کی تصویر پر غور کیجیے جسے ایک زچہ بچہ ہسپتال پر حملے میں ہلاک کر دیا گیا جو وہاں اپنے بچے کو جنم دینے والی تھی۔
بوچا کے مناظر پر غور کیجیے۔ شہریوں کو بے حسی سے قتل کیا گیا۔ ان کی لاشیں سڑکوں پر چھوڑ دی گئیں۔ ہلاک ہونے والے موٹرسائیکل سوار کی ہولناک تصویر پر غور کیجیے۔
اس چار سالہ بچی کے بارے میں سوچیے جس کے بارے میں حالیہ دنوں اقوام متحدہ کو بتایا گیا کہ اسے روس کے فوجی نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ چار سالہ بچی۔
یہ وحشیانہ اور غیرانسانی افعال ہیں۔
امریکہ کی نائب صدر بننے سے بہت پہلے میں نے اپنے کیریئر کا بڑا حصہ بطور وکیل کام کرتے گزارا۔ میں نے نوجوان وکیل کی حیثیت سے عدالت میں کام شروع کیا تھا اور بعد ازاں کیلی فورنیا کے محکمہ انصاف کی سربراہی کی۔ میں حقائق جمع کرنے اور انہیں قانون کے سامنے رکھنے کی اہمیت سے براہ راست واقف ہوں۔
یوکرین میں روس کے اقدامات کے معاملے میں ہم نے شہادتوں کا جائزہ لیا ہے۔ ہم قانونی معیارات سے واقف ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ (تالیاں)
امریکہ نے باقاعدہ طور پر تعین کیا ہے کہ روس نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔
میں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے تمام لوگوں اور ان کا ساتھ دینے والے بالادست حکام سے کہتی ہوں کہ آپ کا احتساب ہو گا۔
ان مسلم حقائق کے ہوتے ہوئے میں یہاں میونخ میں آپ سب لوگوں سے کہتی ہوں کہ آئیے احتساب کے لیے اپنے عزم کی تجدید کریں۔ آئیے قانون کی حکمرانی کے لیے اپنے عزم کی تجدید کریں۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو ہم یوکرین میں اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تحقیقات کی حمایت کرتے رہیں گے کیونکہ انصاف ہونا چاہیے۔
آئیے معلوم و نامعلوم تمام متاثرین کے لیے اس عزم پر اتفاق کریں کہ انصاف ہونا چاہیے اور یہی ہمارا اخلاقی مفاد ہے۔
اس میں ہمارا ایک اہم تزویراتی مفاد بھی ہے۔ یوکرین میں جنگ کے وسیع عالمی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جس دنیا میں ایک ملک دوسرے ملک کی خودمختاری اور زمینی سالمیت کو پامال کرے وہاں کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہوتا (تالیاں)، جہاں انسانیت کے خلاف جرائم پر کھلی چھوٹ ہو اور جہاں سامراجی عزائم کے حامل کسی ملک پر کوئی روک ٹوک نہ ہو وہاں سبھی غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔
روس کے حملے کے خلاف ہمارا ردعمل بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو قائم رکھنے کے ہمارے اجتماعی عزم کا عکاس ہے۔ یہ ایسے قوانین اور اصول ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اب تک ناصرف امریکہ یا یورپ کے لوگوں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو بے مثال سلامتی اور خوشحالی مہیا کی ہے۔
ان اصولوں کے مطابق خودمختار ممالک کو پرامن طور سے رہنے کا حق ہے، سرحدیں بزور طاقت تبدیل نہیں کی جانی چاہئیں، حکومتوں کو ناقابل انتقال انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے اور قانون کی حکمرانی قائم رہنی چاہیے۔
درحقیقت، یہ تنازع ان قوانین اور اصولوں کے دفاع اور انہیں قائم رکھنے کے لیے ہمارے عزم کا امتحان ہے۔ ہم اس امتحان میں مضبوط ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں مضبوط رہنا ہے۔ اگر پیوٹن ان بنیادی اصولوں پر اپنے حملے میں کامیابی حاصل کرتے تو دیگر ممالک کو بھی ان کی متشدد مثال کے مطابق دوسروں پر حملہ کرنے کے لیے ہلہ شیری مل جاتی۔ ایسے میں دوسری آمرانہ طاقتیں بھی جبر۔ غلط اطلاعات کے پھیلاؤ حتیٰ کہ وحشیانہ طاقت کے ذریعے دنیا سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتیں۔ ایسے میں یہ عالمی نظام خطرے سے دوچار ہو جاتا جس پر ہم سب کا انحصار ہے۔
لہٰذا عالمگیر سلامتی اور خوشحالی کے لیے ہمارا ایک فیصلہ کن مقصد یہ ہے کہ ہمیں قوانین کی بنیاد پر بنائے گئے بین الاقوامی نظام کو قائم رکھنا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس پر متفق ہیں۔
غور کیجیے کہ اقوام متحدہ میں 140 ممالک نے اس کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کا دفاع کرتے ہوئے روس کی جارحیت کی مذمت اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت میں ووٹ دیا۔
یقیناً ہم نے شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک کو روس کی ظالمانہ جنگ میں مدد دینے کے لیے اسے ہتھیار فراہم کرتے بھی دیکھا۔
ہم اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ بیجنگ نے اس جنگ کے آغاز کے بعد ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط بنائے ہیں۔
چین کی جانب سے روس کو مہلک مدد فراہم کرنے کا کوئی بھی اقدام جارحیت میں اضافے کا باعث بنے گا، اس سے ہلاکتیں جاری رہیں گی اور قوانین کی بنیاد پر قائم نظام مزید کمزور پڑ جائے گا۔
میں ایک مرتبہ پھر کہوں گی کہ امریکہ یوکرین کی بھرپور مدد جاری رکھے گا اور جب تک ضرورت ہوئی ہم اس کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
امریکہ کے لوگ یوکرین کے لوگوں کے عزم، ان کی مضبوطی اور راست بازی، آزادی کے لیے لڑنے پر ان کی آمادگی اور صدر زیلنسکی کی غیرمعمولی استقامت اور قیادت کا احترام کرتے ہیں۔
درحقیقت میونخ میں امریکی کانگریس کے ممتاز ارکان میرے ساتھ موجود ہیں۔ ان میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ ان میں امریکہ کے ایوان نمائندگان اور امریکی سینیٹ کے ارکان بھی ہیں۔ یہ سب لوگ یہاں اس لیے موجود ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
یوکرین کے لیے امریکہ کی حمایت میں ان لوگوں کی قیادت کا اہم کردار ہے۔ صدر بائیڈن اور میں جانتے ہیں کہ یوکرین کے لیے ان کی مدد جاری رہے گی۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یوکرین کو اوقیانوس کے آر پار متحدہ ممالک کی حمایت ملتی رہے گی۔ (تالیاں)
پیوٹن نے سوچا کہ وہ نیٹو کو تقسیم کر سکتے ہیں۔ یاد کیجیے کہ ایک سال پہلے ہم کہاں کھڑے تھے۔ پیوٹن کو اس میں ناکامی ہوئی ہے۔
نیٹو اتحاد اب پہلے سے کہیں زیادہ بہتر حالت میں ہے اور نیٹو اور اس کے آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکہ کا عزم انتہائی مضبوط ہے۔
گزشتہ برس کے عرصہ میں ہمارے اقدامات پر نظر ڈالیے۔ ہمارے کثیرفریقی تعاون کو دیکھیے۔ باہم مل کر ہم نے یوکرین کو تاریخی مدد فراہم کی۔ متحدہ حیثیت میں ہم نے روس کو تزویراتی ناکامی سے دوچار کیا۔ اکٹھے ہو کر ہم نے روس پر بے مثال پابندیاں عائد کیں۔ اجتماعی طور پر ہم نے توانائی کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے اور اپنے مشترکہ دفاع کو مزید مضبوط بنایا۔
ہم اپنی مشترکہ اقدار، اپنے مشترکہ مفادات اور اپنی مشترکہ انسانیت کی خاطر اکٹھے ہوئے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ یہ اتحاد پائیدار ہو گا۔
مجھے مستقبل کے حوالے سے بھی کوئی مغالطہ نہیں۔ یوکرین کو ابھی مزید تاریک حالات دیکھنا پڑیں گے۔ جنگ کی روزانہ اذیت ابھی جاری رہے گی۔
افریقہ سے جنوب مشرقی ایشیا اور غرب الہند تک کے ممالک اس جنگ کے اثرات محسوس کرتے رہیں گے۔
تاہم اگر پیوٹن یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری ناکامی کا انتظار کریں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ وقت ان کے ساتھ نہیں ہے۔
یقیناً یوکرین کے لوگوں کی آزمائش جاری رہے گی جس کا وہ گزشتہ برس سامنا کرتے آئے ہیں۔ اوقیانوس کے آر پار اتحاد کی آزمائش بھی جاری رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ یوکرین اس امتحان میں پورا اترے گا اور امریکہ اور یورپ بھی اس آزمائش میں سرخرو ہوں گے۔
لہٰذا میرا آخری نکتہ یہ ہے کہ امریکہ انسانی وقار، قوانین، اصولوں اور آزادی کے دفاع میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔ ہمارا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے اس لیے ہمیں اپنی بہترین کوشش کرنا ہے۔
امریکہ کے لوگ آزادی کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم خودمختاری اور قانون کی بنیادی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ انصاف کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
ساتھیو، میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب جانتے ہیں جب آنے والی نسلیں پیچھے مڑ کر اس وقت پر نظر ڈالیں گی تو انہیں اندازہ ہو گا کہ ہم جانتے تھے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہم نے وقت کے تقاضوں کو پورا کیا۔
اسی لیے میں آپ سے کہتی ہوں کہ، امریکہ کو اس اعلیٰ جدوجہد میں آپ کا شراکت دار ہونے پر فخر ہے۔
شکریہ۔ (تالیاں)
سفیر ہوئسگن: محترمہ نائب صدر، اس نہایت موثر تقریر، اوقیانوس کے آر پار اتحاد کے لیے اس عزم اور یوکرین کی حمایت کے اس عہد پر آپ کا شکریہ۔ یوکرین کے بہت سے نمائندے بھی ہمارے ساتھ یہاں موجود ہیں اور آپ نے جو کچھ کہا اس سے یقیناً ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
مجھے آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ نے امریکہ کی حمایت کی تصدیق کی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ آئندہ سال امریکہ انتخابی مہم میں مصروف ہو گا۔ ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ نتائج کیا ہوں گے۔ آپ نے کہا کہ پیوٹن آپ کی ناکامی کے منتظر ہیں اور یہ کہ آخر میں وہ خود ناکام رہیں گے۔ آپ یہ بات کس قدر یقین سے کہہ سکتی ہیں؟
نائب صدر: شکریہ کرسٹوف، جیسا کہ میں ںے کہا، مجھے یقین ہے اور میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ امریکہ کے لوگ جانتے ہیں ان کا کیا کچھ داؤ پر لگا ہے۔ اس میں ہمارے اخلاقی اور تزویراتی مفادات داؤ پر لگے ہیں۔
میں آپ کو بتاؤں گی، میں امریکی بھر میں گئی اور میں نے ایسی جگہوں پر یوکرین کے جھنڈے لہراتے دیکھے جن کے بارے میں آپ نے شاید کبھی نہیں سنا ہو گا۔ میں نے دکانوں کے سامنے اور گھروں کے سامنے یوکرین کے جھنڈے دیکھے۔ میں نے لوگوں کو فخریہ طور پر یوکرین کے جھنڈے کے رنگ والے لباس میں ملبوس دیکھا۔ امریکہ کے لوگ بوچا کی تصاویر دیکھ چکے ہیں۔
امریکہ کے لوگ آزادی کی جنگ لڑنے میں انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی بنیاد اور ہمارے اصولوں اور اقدار میں شامل ہے۔
میں اپنے ملک کی تاریخ کو مدنظر رکھ کر سوچتی ہوں کہ اس معاملے پر امریکہ کہاں جا رہا ہے۔ یہ جاننے کے لیے آپ کو دیکھنا ہو گا کہ ایک سال پہلے ہم کہاں تھے اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں اسے امریکہ کی جانب سے یوکرین کو توپخانے سے فضائی دفاع کے نظام اور سٹنگر میزائلوں سے لے کر ابراہم ٹینکوں، ہیمار اور جیولن میزائلوں تک ہر طرح کے اسلحے کی فراہمی کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔
میں اسے امریکی کانگریس کے تناظر میں دیکھتی ہوں جس کے ارکان یہاں بھی موجود ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے لیے امریکہ کا اب تک کا سب سے بڑا دوجماعتی اور دوایوانی وفد ہے۔ (تالیاں)
گزشتہ برس کے عرصہ میں دونوں جماعتوں کی حمایت سے کانگریس نے یوکرین کے لیے بھرپور امدادی اقدامات کیے ہیں اور گزشتہ برس کے اختتام تک اس کی مدد کے لیے مزید 45 ارب ڈالر مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔
یوکرین کی میدان جنگ میں صلاحیت کو مضبوط بنانا ہماری ترجیح اور ہمارا عزم ہے۔ ہمارا یہ وعدہ صرف یوکرین کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ یہ اپنی اقدار اور اپنے اصولوں کے لیے ہمارا عہد بھی ہے جنہیں ہم بحیثیت ملک و قوم عزیز رکھتے ہیں۔ میرے لیے یہاں اپنے اتحاد یعنی یورپ اور ہمارے میزبان جرمنی کے اقدامات کی اہمیت کو بیان کرنا بھی ضروری ہے۔
گزشتہ روز میں ںے چانسلر شولز سے ملاقات کی۔ ہم نے اجتماعی طور پر جو کچھ کیا ہے، میرے خیال میں ہم اپنی اقدار اور اپنے اخلاقی و تزویراتی مفادات کے بارے میں سمجھ بوجھ کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے وسائل مہیا کرنے اور انہیں ایسے ذرائع سے باہم مربوط کرنے میں بھی اکٹھے ہیں جن کے ذریعے میں سمجھتی ہوں کہ یوکرین کو اپنی جنگ لڑنے میں بہترین طور سے مدد دی جا سکتی ہے۔
سفیر ہوئسگن: شکریہ۔ ان تمام باتوں کے لیے بہت شکریہ۔
باہر کے لوگ اس سے یہ تاثر لیتے ہیں کہ یہ تعلق، اوقیانوس کے آر پار تعلقات، یورپی ممالک، جرمنی اور امریکی انتظامیہ کے مابین تعلقات پہلے کی طرح مضبوط ہیں۔ اس کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔
تاہم اس کے باوجود اگر اجازت ہو تو مجھے آئی آر اے کا تذکرہ کرنا ہے اور ۔۔۔
نائب صدر: جی افراط زر میں کمی کا قانون۔
سفیر ہوئسگن: اس سے اوقیانوس کی اِس جانب بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ تاہم ارکان کانگریس نے ہمیں ہماری سمت میں سی بی اے ایم کے بارے میں بھی یاد دلایا ہے۔
نائب صدر: جی۔
سفیر ہوئسگن: ہم بہت سے اہم معاملات پر اوقیانوس کے آر پار اختلافات پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں کاروبار اور تجارتی امور بہت اہم ہیں۔ آپ کسی قدر پراعتماد ہیں کہ یہ اختلافات حل ہو سکتے ہیں اور ان سے اس شاندار اور مطلق ضروری اور قریبی ماورائے اقیانوس تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔”
نائب صدر: مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے اس اہم موضوع پر بات کی۔ میں اپنی بات کا آغاز افراط زر میں کمی کے قانون کے پیچھے کارفرما جذبے اور اس کی تشکیل کے ارادے سے کروں گی۔
موسمیاتی بحران پر قابو پانا اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری لینا ہمارے لیے بہت اہم ہے جو کہ ایک عالمگیر نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس لیے یورپ میں ہمارے دوست سالہا سال سے ہمیں اس معاملے میں آگے بڑھ کر مزید اقدامات کرنے کو کہتے رہے ہیں۔
لہٰذا صدر بائیڈن کی قیادت میں ہمیں فخر ہے کہ امریکہ نے موسمیاتی بحران کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جتنی بڑی مقدار میں وسائل مختص کیے ہیں اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم کانگریس کے تعاون سے اس کوشش کے لیے 370 بلین ڈالر مختص کر چکے ہیں۔
جب میں اپنے دوستوں اور باہمی رابطے اور باہم انحصار پر اس کے اثرات کے بارے میں سوچتی ہوں تو یہ سرمایہ کاری بڑی حد تک دو طرح سے عالمگیر اثرات کی حامل ہو گی۔
پہلی بات یہ کہ، افسوسناک طور سے امریکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ہمیں ناصرف اپنے ملک کے لوگوں کی صحت اور بہبود کے لیے کاربن کے اخراج میں کمی لانا ہے بلکہ ہمیں دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اس کے اثرات سے بچانا ہے۔ اسی لیے یہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے کی جانے والی ایک تاریخی اور نہایت اہم سرمایہ کاری ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، جس طرح ہمارے بہت سے یورپی دوستوں اور دنیا بھر کے دیگر لوگوں نے کیا ہے، ہم نے دورانیوں کی بنیاد پر اپنے لیے کڑے معیارات طے کیے ہیں اور اس کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا ہے۔
اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہم اختراع کی رفتار تیز کرنے کے لیے اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے بہت پرجوش ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہم نئی اور ماحول دوست معیشت تخلیق کریں گے۔ اگر آپ ماحول دوست توانائی کے لیے تحقیق، ترقی اور اختراع کے لیے سائنس دانوں اور ماہرین علم کو مدد دینے کی غرض سے نجی شعبے پر سرمایہ کاری کے لیے ہمارے کردار کو دیکھیں تو اس کے عالمگیر اثرات ہوں گے۔ لہٰذا ہم اسی طرح سوچتے ہیں۔
لیکن آپ نے جو بات کی ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے امور حل طلب ہیں اور ہمیں اس حوالے سے دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی مشاورت کرنا ہے۔ ہم نے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جسے امریکہ۔یورپی یونین ٹاسک فورس کا نام دیا گیا ہے اور یہ اس حوالے سے بعض مخصوص خدشات پر قریبی رابطوں اور مشاورت میں مصروف ہے۔ اس معاملے پر ممالک کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے۔
میں نے گزشتہ روز صدر میکخواں اور چانسلر شولز سے ملاقات کی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم اس معاملے میں قدرے پیش رفت دیکھ رہے ہیں اور یہ کام جاری رہے گا۔
سفیر ہوئسگن: اس یقین دہانی کا شکریہ کیونکہ ہم اس وقت ایسے تنازعات میں الجھنا نہیں چاہتے۔
اگر وقت ہو تو میں ایک آٰخری سوال کرنا چاہوں گا۔
یقیناً یہ میونخ سکیورٹی کانفرنس یوکرین کے لیے مخصوص ہے اور اس کا مقصد یوکرین کی مدد کرنا اور اوقیانوس کے آر پار اتحاد کی توثیق کرنا ہے، لیکن ہم نے اس سال کانفرنس کے شرکا کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے دنیا کے جنوبی حصے کے ممالک کے نمائندوں کو بھی بہت بڑی تعداد میں مدعو کیا ہے کیونکہ اب جبکہ ہمارے مابین یہ اتحاد موجود ہے، جب آپ دنیا کے جنوبی حصے کے ممالک سے تعلق رکھنے والے نمائندوں سے بات کرتے ہیں، اور ہم نے آج صبح ان کی باتیں سنی ہیں، تو بہت سے ممالک ایسے ہیں جو ایک جانب ہو کر بیٹھے ہیں۔ یہ ممالک اس مسئلے کو امریکہ اور روس کے درمیان یا نیٹو اور یورپی یونین کے ممالک کی روس کے ساتھ مخاصمت سمجھتے ہیں اور اس کے نتائج بھی محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اس معاملے سے پر تمام فریقین سے برابر فاصلہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور جیسا کہ آپ نے بتایا ہمیں کیوں 141 ووٹ ملے۔
جب آپ دنیا کے جنوبی حصے سے شراکت داروں کی اہمیت پر بات کرتے ہیں تو وہ غیرحاضر ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کا کہنا ہے یہ سب ختم کیا جائے۔ ہم کسی ایک فریق کی حمایت کرنا نہیں چاہتے۔ ہم جو بات کر رہے ہیں اس کا تعلق مشرق مغرب سے نہیں ہے بلکہ یہ قوانین کی بنیاد پر قائم عالمی نظام ہے جس کا آپ نے تذکرہ کیا۔ ہمیں ان لوگوں کو قائل کرنے کے اقدامات کرنا پڑیں گے کیونکہ اس حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔
لہٰذا ہم ان ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے باہم مل کر کیا کر سکتے ہیں جو اب بھی اس معاملے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھے ہیں؟
نائب صدر: ہمیں انہیں اپنا شراکت دار بنانا ہو گا۔
یہاں آتے ہوئے آپ نے اور میں نے اس بارے میں مختصراً بات کی تھی، میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا، اور دوستوں کے سامنے آپ کا شکریہ ادا کروں گی کہ آپ اس مسئلے کو سٹیج پر لائے اور اسے اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کیا۔ میں اتفاق کرتی ہوں کہ یہ ایک اہم موضوع ہے۔
میں نے افریقہ کے بہت سے رہنماؤں، غرب الہند، کیریکوم اور جنوب مشرقی ایشیا کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور میں سمجھتی ہوں کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر ان کی رائے ہر سطح پر سنی جائے تو وہ درست ہوتے ہیں۔ وہ اس تنازعے کے اپنے ممالک پر ہونے والے اثرات کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ یوکرین پر روس کے حملے کے افریقی ممالک میں غذا اور توانائی کے عدم تحفظ کی صورت میں اثرات کو دیکھیں۔ یہ ممالک خوراک اور توانائی کے بہت بڑے درآمد کنندہ ہیں۔ اسی لیے جب ان چیزوں کی ترسیل میں کمی آتی ہے تو اس سے ان ممالک پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتی ہوںکہ ہمارے لیے ان ممالک پر روس کی جنگ کے اثرات کو سمجھنا بہت اہم ہے۔
میں اس معاملے کو ان ممالک میں درپیش موسمیاتی بحران کے تناظر میں بھی دیکھتی ہوں۔ ہم گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں اور اس کے اثرات بالکل واضح ہیں۔
میں کیریکوم ممالک اور غرب الہند میں جزائر پر مشتمل ممالک کے رہنماؤں سے ملی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لیے زمین کے کٹاؤ، شدید موسمی واقعات، سیاحت میں کمی اور جی ڈی پی میں انحطاط کا کیا مطلب ہے۔
اسی لیے جب ہم ان کے ساتھ شراکت داروں کی حیثیت سے بات کریں تو ہمیں یہ معاملات مدنطر رکھنا چاہئیں۔ اس میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں پر متحدہ طور سے قائم رہنے کے لیے ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔
میرے دوست اور گھانا کے صدر نے گزشتہ روز بات کی اور میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے بالکل درست کہا کہ ‘ہمیں ”ہم بمقابلہ وہ” کی سوچ کو ترک کرنے اور اپنے تعلقات کو مختلف انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے’۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے یہ موضوع اٹھایا اور آپ بجا طور سے اسے اس قدر بھرپور اہمیت دے رہے ہیں۔
سفیر ہوئسگن: شکریہ۔ ان تمام باتوں کے لیے بہت شکریہ۔ ہمارا یہ موضوع برقرار رہے گا۔ ہم آئندہ برس بھی اس پر بات کریں گے۔ محترمہ نائب صدر، کیا ہم پہلے ہی ہوٹل کا کمرہ مخصوص کر سکتے ہیں تاکہ آپ آئندہ سال بھی یہاں آ سکیں؟
نائب صدر: (قہقہہ)
سفیر ہوئسگن: یہاں آنے کا شکریہ۔
نائب صدر: شکریہ۔ (تالیاں)
اختتام:
01:16 دوپہر
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2023/02/18/remarks-by-vice-president-harris-at-the-munich-security-conference-2/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔