An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
برائے فوری اجرا
19 جنوری 2021
واشنگٹن ڈی سی

نامزد وزیر خارجہ بلنکن: جناب چیئرمین، آپ کا بے حد شکریہ۔ مجھے آج یہاں آنے کا موقع دینے پر میں آپ کا، رینکنگ ممبر مینینڈز اور اس کمیٹی کے تمام ارکان کا مشکور ہوں اور اس وقت یہ سماعت ممکن بنانے کے لیے آپ نے جو کچھ کیا اس کو بھرپور طور سے سراہتا ہوں۔

اپنا اس قدر اچھا تعارف کرانے پر میں سینیٹر ڈربن کا ان کی غیرموجودگی میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

منتخب صدر بائیڈن کے نامزد وزیر خارجہ کی حیثیت سے اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونا واقعتاً میرے لیے زندگی بھر کا اعزاز ہے اور یہ اعزاز دو وجوہات کی بنا پر میرے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔

پہلی، جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے، مجھے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چھ سال تک اس کمیٹی کے سٹاف ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے اور امریکی سفارت کاری کو آگے بڑھانے اور امریکی عوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے سینیٹرز کے ممتاز گروہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں متعدد آج بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔

اس تجربے نے میرے دل میں اس کمیٹی کے لیے دائمی احترام پیدا کیا ہے جس کی وجہ اس کی عمدہ ترین دو جماعتی روایات، اس کے ارکان اور عملے کی قابلیت اور دنیا بھر میں امریکہ کی قیادت کو مضبوط بنانے کے لیے اس کا لازمی نوعیت کا کام ہے۔

اگر مجھے اس عہدے کے لیے اپنی توثیق کا اعزاز حاصل ہوا تو گزشتہ برسوں میں اس کمیٹی کے ساتھ کام کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اسباق ہمارے آئندہ مشترکہ کام کے حوالے سے میرے طریق عمل کی رہنمائی کریں گے۔

میرے لیے اس کی اہمیت کا دوسرا نکتہ قدرے مزید ذاتی نوعیت کا ہے۔ نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے میری توثیق کے علاوہ اس کمیٹی نے میری اہلیہ ایون رائن کی بھی توثیق کی جو آج میرے ساتھ یہاں معاون وزیر خارجہ برائے تعلیمی و ثقافتی امور کی حیثیت سے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کمیٹی نے میرے چچا ایلن بلنکن کی بیلجیم کے لیے سفیر اور میرے والد ڈونلڈ بلنکن کی ہنگری کے لیے امریکہ کے سفیر کے طور پر نامزدگی کی۔ مجھے امید ہے کہ آج یہ سلسلہ قائم رہے گا۔ (قہقہہ)

میرا خاندان ــ خاص طور پر میری اہلیہ اور ہمارے بچے جان اور لائلا ــ میرے لیے سب سے بڑی رحمت ہیں۔ عوامی خدمت کی ہماری روایت ہمارے لیے بے پایاں فخر کا باعث ہے۔

میں اس روایت کو ایک مقدس فرض کے طور پر دیکھتا ہوں ــ یہ ہمارے خاندان پر اس قوم کا قرض چکانے جیسا معاملہ ہے جس نے کئی نسلوں تک میرے بہت سے رشتہ داروں کو پناہ اور غیرمعمولی مواقع مہیا کیے۔

میرے دادا مورس بلنکن نے روس میں ہونے والے قتل عام سے جان بچا کر امریکہ میں پناہ لی۔

میرے والد کی اہلیہ ویرا بلنکن نے ہنگری میں کمیونسٹ حکومت سے جان بچا کر امریکہ میں پناہ حاصل کی۔

میرے مرحوم سوتیلے والد سیموئل پیسار نے ہولوکاسٹ کی ہولناکیاں جھیلنے کے بعد امریکہ میں پناہ لی۔

سیم چار سال نظربندی کیمپوں میں گزارنے کے بعد اپنے قریبی اہلخانہ اور پولینڈ کے علاقے بیلے سٹوک میں 900 بچوں کے سکول میں زندہ بچ رہنے والے واحد فرد تھے۔

جنگ کے اختتام پر وہ بویریا کے جنگلوں میں قیدیوں کے قافلے سے فرار ہو گئے۔ وہ جہاں چھپے ہوئے تھے وہاں انہیں ایک ٹینک کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ جب انہوں نے باہر دیکھا تو انہیں ڈراؤنے آئرن کراس کے بجائے پانچ کونوں والا سفید ستارہ دکھائی دیا۔

وہ ٹینک کی جانب بھاگے اور اس کے پاس پہنچ گئے۔ ٹینک کا ڈھکن کھلاجہاں سے ایک افریقی امریکی فوجی نے ان کی جانب دیکھا۔ وہ گھٹنوں کے بل گر گئے اور انگریزی زبان میں یہ چند الفاظ کہے جن سے وہ واقف تھے اور جو انہیں ان کی والدہ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے سکھائے تھے: ‘خدا امریکہ پر رحمت کرے’۔ فوجی نے انہیں اپنے ٹینک میں بٹھا لیا اور اس طرح وہ آزادی اور امریکہ تک پہنچ گئے۔

ہم ایسے ہیں۔خواہ اچھی طرح نہ سہی، مگر ہم دنیا کو یہی کچھ پیش کرتے ہیں اور اپنی بہترین صورت میں ہم اب بھی ایسے ہی ہو سکتے ہیں۔

اگر مجھے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے تو میں اسی تصور کو مدنظر رکھوں گا ــ منتخب صدر بائیڈن نے اکثر اس کا واضح طور سے اظہار کیا اور بلاشبہ انہوں نے یہ اس کمیٹی میں گزارے گئے وقت سے سے سیکھا ہو گا، جیسا کہ انہوں نے کہا، امریکہ ایسا ملک ہے جو ”ہماری طاقت کی مثال سے ہی نہیں بلکہ ہماری مثال کی طاقت سے” بھی قیادت کرتا ہے۔

اگر اس عہدے پر میری توثیق ہوئی تو تین ترجیحات وزیر خارجہ کی حیثیت سے میرے دور کی رہنمائی کریں گی۔

پہلی، میں دفتر خارجہ کو دوبارہ مضبوط بنانے اور اس کے سب سے بڑے اثاثے یعنی خارجہ ملازمت کے افسروں، سرکاری ملازمین اور امریکی سفارت کاری کو طاقت بخشنے والے مقامی عملے کی بہتری کے لیے آپ کے ساتھ کام کروں گا۔

میں اپنے براہ راست تجربے کی بنا پر ان کے جذبے، ان کی توانائی اور ان کی ہمت سے واقف ہوں۔ اکثر اپنے گھر اور اپنے عزیزوں سے دور اور اب وبا کے نتیجے میں بڑھ جانے والے خطرناک حالات میں وہ ہماری پوری معاونت کے حق دار ہیں۔ اگر وزیرخارجہ کی حیثیت سے میری توثیق ہوئی تو انہیں یہ مدد ضرور ملے گی۔

میں ایک ایسا سفارت دستہ قائم کر کے ملکی سلامتی و خوشحالی کو ترقی دینے کے لیے پرعزم ہوں جو اپنی پوری صلاحیت اور پورے تنوع سے امریکہ کی نمائندگی کرے گا۔ ایک مزید متنوع، مشمولی اور غیر جانبدار افرادی قوت بنانے کے لیے ایسے افسر بھرتی کیے جائیں گے، برقرار رکھے جائیں گے اور ترقی پائیں گے جن میں 21ویں صدی کے مسائل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت ہو اور جو اس ملک کی تصویر ہوں جس کی ہم نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے تحفظ اور بہبود میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔ وزیر خارجہ سمیت سبھی جواب دہ ہوں گے۔

دوسری بات یہ کہ حکومت کے سبھی محکموں کے ساتھ اور دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم امریکی سفارت کاری کو دوبارہ مضبوط بنائیں گے تاکہ اس دور کے اہم ترین مسائل سے نمٹا جا سکے۔

جب کبھی اور جہاں کہیں امریکہ کی خوشحالی اور سلامتی کو خطرہ ہوا تو ہم دوبارہ تواتر سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ ہم دنیا کے ساتھ ماضی کے بجائے حال کے تناظر میں معاملہ کریں گے۔ موجودہ دنیا میں قوم پرستی بڑھ رہی ہے، جمہوریت پسپائی اختیار کر رہی ہے، چین، روس اور دوسرے آمرانہ ممالک کی امریکہ دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک مستحکم اور کھلے عالمی نظام کو خطرات لاحق ہیں اور ٹیکنالوجی کا انقلاب ہماری زندگی خصوصاً سائبر دنیا کے ہر پہلو کی تشکیل نو کر رہا ہے۔

تاہم ان تبدیلیوں کے باجود میں سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں بدستور پہلے جیسی ہیں۔

امریکہ کی قیادت اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا خود کو منظم نہیں کرتی۔ جب ہم معاملات میں شامل نہیں ہوتے، جب ہم قیادت نہیں کرتے تو دو میں سے کوئی ایک بات ضرور ہوتی ہے کہ یا تو کوئی اور ملک ہماری جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے مگر اس طرح نہیں کہ اس سے ہمارے مفادات اور ہماری اقدار کے فروغ کا امکان ہو، یا شاید کوئی ملک دنیا کی قیادت نہیں کرتا اور اس طرح بدنظمی جنم لیتی ہے۔ دونوں صورتوں میں امریکہ کے عوام کو نقصان ہوتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ انکسار اور اعتماد امریکی قیادت کے سکے کے دو رخ ہونے چاہئیں۔

عاجزی اس لیے اہم ہے کہ ہمیں بیرون ملک خود کو مضبوط بنانے کے لیے اندرون ملک بہت سا کام کرنا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر مسائل کا تعلق ہم سے نہیں ہے خواہ یہ ہمیں ہی متاثر کیوں نہ کریں۔ کوئی واحد ملک، حتیٰ کہ امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی ان مسائل سے پوری طرح اور موثر طور سے نہیں نمٹ سکتا۔

لیکن ہم اعتماد سے بھی چلیں گے، یہ اعتماد کہ امریکہ اپنی بہترین صورت میں اب بھی تمام انسانیت کی بھلائی کی خاطر دوسروں کو متحرک کرنے کےلیے روئے زمیں پر کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان اصولوں کی رہنمائی میں ہم کوویڈ بحران پر قابو پا سکتے ہیں اور پائیں گے جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو لاحق سب سے بڑا مشترکہ خطرہ ہے۔

ہم چین کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں اور دنیا کو یاد دلا سکتے ہیں کہ عوام کے لیے عوام کی حکومت اپنے عوام کو فائدہ دے سکتی ہے۔

ہم موسمی تبدیلی کے موجود خطرے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ہم اپنے بنیادی اتحادوں کو نئی توانائی بخش سکتے ہیں جو کہ دنیا بھر میں ہمارے رسوخ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ باہم مل کر ہم روس، ایران اور شمالی کوریا سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی کہیں بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم دنیا بھر میں جو کچھ کرتے ہیں اس میں ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں اور ہمیں بنانا چاہیے کہ خارجہ پالیسی امریکہ میں کارکن طبقے کے خاندانوں کے فائدے کے لیے کام کر رہی ہے۔

جناب چیئرمین، اگر اجازت ہو تو میں اپنی بات اس ادارے کے بارے میں چند الفاظ پر ختم کروں گا جس کی مضبوطی اور عزم ان ایوانوں پر ہونے والے احمقانہ اور سوزاں حملے کے بعد پوری طرح سامنے آیا۔ نومنتخب صدر اور میں سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ایک شراکت دار کے طور پر کانگریس کا روایتی کردار بحال کرنا ہے۔

حالیہ برسوں میں دونوں جماعتوں کی حکومتوں میں خارجہ پالیسی میں کانگریس کی آواز کمزور اور معدوم ہو گئی ہے۔

اس سے انتظامی شاخ مضبوط نہیں ہوتی، اس سے ہمارا ملک کمزور ہوتا ہے۔

نومنتخب صدر اس بات پر یقین رکھتے ہیں ــ اور میں ان کے ایقان میں شریک ہوں ــ کہ امریکی عوام کی باخبر رضامندی کے بغیر کوئی خارجہ پالیسی پائیدار نہیں رہ سکتی۔ آپ امریکی عوام کے نمائندے ہیں۔ آپ یہ صلاح اور رضامندی مہیا کرتے ہیں۔ ہم اکٹھے کام کر کے ہی انتہائی فوری نوعیت کے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں اور میں یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

اگر میری توثیق ہوتی ہے تو تمام امریکیوں کے لیے آپ میں ہر ایک کے ساتھ کام کرنا میرا عزم ہو گا۔

وقت دینے کا شکریہ۔ میری باتیں توجہ سے سننے کا شکریہ۔ میں آپ کے سوالات کا منتظر ہوں۔


اصل عبارت پڑھیے: https://www.state.gov/opening-remarks-by-secretary-of-state-designate-antony-j-blinken/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future