An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
واشنگٹن، ڈی سی
تقریر
24 مارچ 2021

نیٹو ہیڈکوارٹر ایگورا
برسلز، بلجیئم

وزیرخارجہ بلنکن: سہ پہر کا سلام

چند ہفتے قبل، وزیر خارجہ بننے کے کچھ زیادہ دیر بعد نہیں، میں نے امریکی عوام سے براہ راست بات کی۔ میں نے کہا میرا پہلا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اُن کے لیے کامیابی سے کام کرے – یعنی یہ اُن کی زندگیوں کو زیادہ محفوظ بنائے، اُن کے لیے اور اُن کی کمیونٹیوں کے لیے مواقع پیدا کرے، اور اُن عالمگیر چیلنجوں سے نمٹے جو اُن کے مستقبلوں کی روز افزوں صورت گری کرتے ہیں۔

اور میں نے کہا کہ ایک بنیادی طریقہ جس کے ذریعے ہم امریکی عوام کے لیے کامیابیاں لے کر آئیں گے وہ یہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں اپنے اتحادوں اور شراکت داریوں کا اعادہ کریں گے اور انہیں دوبارہ مضبوط بنائیں گے۔

اسی لیے میں اس ہفتے برسلز آیا ہوں۔ میں اس وقت آپ سے نیٹو کے ہیڈکوارٹر سے بات کر رہا ہوں۔ [نیٹو ہی] اتحاد کا وہ معاہدہ ہے جس نے یورپ اور شمالی امریکہ کی سلامتی اور آزادی کا تقریباً 75 برس تک دفاع کیا ہے۔

امریکی چند ایک چیزوں کے بارے میں متفق نہیں، مگر اتحادوں اور شراکت داریوں کی قدروقیمت اُن میں شامل نہیں ہے … یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ وہ جب اُن خطرات پر نظر ڈالتے ہیں جو ہمیں درپیش ہیں – جیسا کہ آب و ہوا کی تبدیلی، کووڈ-19 وبا، معاشی عدم مساوات، دن بدن منہ زور ہوتا ہوا چین – تو وہ جان جاتے ہیں کہ اکیلے کوشش کرنے کی بجائے امریکہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اِن سے آسانی سے نمٹ سکتا ہے۔

اور ہمارے سب اتحادی بھی یہی بات کہہ سکتے ہیں۔

آج دنیا دہائیوں پہلے اس وقت کی نسبت بہت مختلف دکھائی دیتی ہے [جب] ہم نے اپنے بہت سے اتحاد تشکیل دیئے تھے – بلکہ یہ چار سال پہلے سے بھی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ خطرات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ مقابلہ سخت ہو گیا ہے۔ طاقت کی حرکیات بدل چکی ہیں۔ ہمارے اتحادوں پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے – اور یہی بات ایک دوسرے پر اعتماد اور ہماری وابستگیوں کی مضبوطیوں پر بھی صادق آتی ہے۔ سب [اتحاد] بلکہ ہمارے اتحادوں کے اندر بھی، ہم اُن خطرات کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھتے جو ہمیں درپیش ہیں یا یہ کہ اِن [خطرات] سے کیسے نمٹنا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی ہماری مشترکہ اقدار کو چیلنج کیا جا رہا ہے – ایسا نہ صرف ہمارے ممالک سے باہر ہو رہا ہے، بلکہ اندر سے بھی ہو رہا ہے۔ اور نئے خطرات ہماری اُن صلاحیتوں کو پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں جن کی ہمیں ان کے خلاف دفاع کرنے کے لیے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے باوجود اس حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ ہمیں اتحادوں کی ضرورت ہے بلکہ بہت زیادہ ضرورت ہے، ممکن ہے کہ اتنی زیادہ [ضرورت] پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ ہمیں جو چیلنج آج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہم اِن اتحادوں کو اپنائیں اِن کی تجدید کریں اور اپنے [ملکوں] کے عوام کے لیے آج بھی انہیں کامیاب بنانا جاری رکھیں جیسا کہ وہ ماضی میں رہے ہیں۔

آج میں یہ طریقہ بیان کروں گا کہ ایسا کس طرح کیا جائے۔

میں سب سے پہلے ہمیں جو مشترکہ خطرات درپیش ہیں اُن کی وضاحت کروں گا۔ اس کے بعد میں بات کروں گا کہ اپنے اتحادوں کا اعادہ کرنے اور دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ [ہمارے اتحاد] نہ صرف اِن خطرات کے خلاف دفاع کرسکیں بلکہ وہ ہمارے مشترکہ مفادات اور اقدار کا تحفظ بھی کر سکیں۔ اور آخر میں، میں یہ بھی بیان کروں گا کہ ہمارے اتحادی امریکہ سے کیا توقعات رکھ سکتے ہیں اور اس کے جواب میں ہم اپنے اتحادیوں سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔

اس کا آغاز اُن فوری خطرات کی نشاندہی سے ہوتا ہے جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔

جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں، اس کے تین زمرے ہیں۔

پہلے [زمرے] میں دوسرے ممالک سے لاحق فوجی خطرات آتے ہیں۔ ہم اسے چین کی بحری جہاز رانی کی آزادی کو خطرات سے دوچار کرنے، بحیرہ جنوبی چین کی عسکریت سازی کرنے، روزافزوں فوجی صلاحیتوں کے ساتھ پورے بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک کو ہدف بنانے کی کوششوں میں دیکھتے ہیں۔ بیجنگ کے فوجی عزائم ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ جدید ٹکنالوجی کی حقیقتوں کے ساتھ مل کر یہ چیلنج، جو کبھی آدھی دنیا کی دوری پر دکھائی دیتے تھے اب دور نہیں رہے۔ ہمیں یہ چیز اُن نئی فوجی صلاحیتوں اور حکمت عملیوں میں بھی دکھائی دیتی ہے جو روس نے ہمارے اتحادوں کو چیلنج کرنے اور قواعد پر مبنی اُس نظام کو نقصان پہنچانے کی خاطر بنائی ہیں جو ہماری اجتماعی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ ان میں مشرقی یوکرین میں ماسکو کی جارحیت، اس کا افواج میں اضافہ، وسیع پیمانے پر کی جانے والی مشقیں، بالٹک اور بحیرہ اسود، مشرقی بحیرہ روم، بالائی شمال کے سمندر میں دھمکی آمیز کاروائیاں، اس کا جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانا، اور نیٹو [ممالک] کی سرزمین پر ناقدین کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شامل ہے۔

چین اور روس کے علاوہ، ایران اور شمالی کوریا جیسے علاقائی کردار اُن جوہری اور میزائلوں کی صلاحیتوں کے حصول میں لگے ہوئے ہیں جن سے امریکی اتحادیوں اور حلیفوں کو خطرات لاحق ہیں۔

دوسرے زمرے کا تعلق انہی میں سے بہت سے ممالک کے غیرفوجی خطرات سے ہے [یعنی] ٹیکنالوجی، معاشی اور ایسے معلوماتی حربے جو ہماری سلامتی کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔ ان میں ہماری جمہوریتوں پر عدم اعتماد کو بڑھانے کے لیے گمراہ کن معلومات کا استعمال اور بدعنوانی کو ہتھیار کی شکل دینا، اور وہ سائبرحملے بھی شامل ہیں جو ہمارے انتہائی اہم بنیادی ڈھانچوں کو نشانہ بناتے ہیں اور املاکِ دانش چراتے ہیں۔ چین کے آسٹریلیا کے صریحی معاشی جبر سے لے کر روس کے انتخابات اور محفوظ اور موثر ویکسینوں پر اعتماد کو کم کرنے کے لیے گمراہ کن معلومات کا استعمال – اِن تمام جارحانہ اقدامات سے نہ صرف ہمارے انفرادی ممالک بلکہ ہماری مشترکہ اقدار کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

اور تیسرے زمرے کا تعلق موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 جیسے عالمی بحرانوں سے ہے۔ اِن خطرات کا تعلق مخصوص حکومتوں سے نہیں ہے بلکہ یہ عالمگیر ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطحیں، دن بدن بڑھتے ہوئے شدید طوفان، فوجی تیاری سے لے کر انسانی ہجرت کے نمونوں اور غذائی سلامتی تک ہر ایک چیز کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسا کہ کووڈ-19 عالمگیر وبا نے بہت حد تک یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری صحت کی سلامتی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور یہ اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کہ ہماری کوئی کمزور ترین کڑی مضبوط ہے۔

ہمیں عالمی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے جو انہی زمروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اگرچہ ہم دہشت گردی کے خطرے میں خاطرخواہ کمی لے کر آئے ہیں، تاہم یہ اب بھی اہم ہے۔ بالخصوص [ایسے حالات میں] جب گروپوں اور افراد کو حکومتوں کی حمایت اور محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوتی ہیں یا انہیں ایسے علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں مل جاتی ہیں جہاں حکومتوں کی عملداری نہیں ہوتی۔

جب ہمارے یہ بہت سے اتحاد بنے اس وقت ہمارے ذہنوں میں یہ خطرات نہیں تھے۔ کچھ کا تو بالکل وجود ہی نہیں تھا۔ مگر ہمارے اتحادوں کی یہی ایک بڑی طاقت ہے کہ اُن کو حالات کے مطابق ڈھلنے والا بنایا گیا تھا [تاکہ] ابھرتے ہوئے نئے چیلنجوں کے مطابق اُن کا ارتقا ہوتا رہے۔

لہذا ہم آج [جدید تقاضوں کے مطابق] اِن کو ان طریقوں سے ڈھال سکتے ہیں۔

پہلے ہمیں اپنے اتحادوں – اور اُن مشترکہ اقدار کے ساتھ وابستگی کا دوبارہ عہد کرنا ہوگا جو انہیں برقرار رکھتے ہیں۔

جب 11 ستمبر کو امریکہ پر حملہ ہوا تو ہمارے نیٹو کے اتحادیوں نے فوری اور متفقہ طور پر شق 5 کو متحرک کیا [یعنی] ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا گیا۔ ابھی تک یہ تاریخ کا واحد موقع ہے جب شق 5 کو متحرک کیا گیا – اور اس کا تعلق امریکہ کے تحفظ کرنے سے تھا۔ ہم اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔ اور آج ہمارے اتحادی ہم سے بھی یہی توقع کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے گزشتہ ماہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا ہمارا آپ کے ساتھ ایک غیرمتزلزل عہد ہے [یعنی] امریکہ نیٹو کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے جس میں شق 5 بھی شامل ہے۔

یہی وہ عہد ہے جس کا ہم نے اس ہفتے نیٹو کے اپنے اتحادیوں سے ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔

وزیر دفاع اور میں نے جاپان اور جنوبی کوریا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ اسی عہد کا اظہار کیا۔ وہاں ہم نے بانٹ کر بوجھ اٹھانے والے اُن سمجھوتوں پر مذاکرات مکمل کیے جو آنے والے کئی برسوں تک آزاد، کھلے بحرہند و بحرالکاہل میں امن اور خوشحالی برقرار رکھنے میں مدد کریں گے۔

ہمارے اتحاد مشترکہ اقدار کے دفاع کے لیے بنائے گئے تھے۔ لہذا اپنے عزم کی تجدید کے لیے ان اقدار کے اعادے اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد بننے کی ضرورت ہے جن کے تحفظ کا ہم عہد کرتے ہیں [یعنی] ایک آزاد اور کھلا اصولوں پر مبنی نظام۔ اس محاذ پر ہمارے کرنے کا کام ہمارے لیے تیار ہے۔ حقیقت میں امریکہ سمیت، دنیا کی ہر ایک جمہوریت اس وقت چیلنجوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ہمیں شدید عدم مساوات، نظاماتی نسل پرستی، سیاسی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک چیز ہماری جمہوریت کو عدم استحکام سے دوچار کرتی ہے۔

یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم وہ دکھائیں جو نظام کی ہمیشہ سے سب سے بڑی طاقت چلی آ رہی ہے [یعنی] ہمارے شہری، اور ہمارے معاشروں اور اداروں کو بہتر بنانے کے لیے وہ اعتماد جو ہم اُن پر کرتے ہیں۔ ہماری جمہوریتوں کو سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں کہ یہ عیب دار ہیں – وہ تو یہ ہمیشہ رہی ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہمارے شہری کہیں جمہوریت کی ان خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت پر اعتماد نہ کھو بیٹھیں۔ [ہمیں] زیادہ کامل ملک بنانے کے اپنے بنیادی وعدے کی تکمیل کرنا ہے۔ جمہوری نظاموں کو آمریتوں سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ اپنی خامیوں کا سامنا کرنے کی ہماری صلاحیت اور آمادگی ہے – نہ کہ ان کے وجود کے انکار کے بہانے بنانا، اُن کو نظرانداز کرنا، ان سے چشم پوشی کرنا۔

ہمیں ایک دوسرے کو اُن اقدار پر پرکھنا ہے جو ہمارے اتحادوں کا محور ہیں اور ہمیں دنیا میں جمہوری مندی کا سامنا بھی کرنا ہے۔ جب ملک جمہوریت اور انسانی حقوق سے پیچھے ہٹیں تو ہم سب کو بہرصورت آواز اٹھانا ہوگی۔ جمہوریتیں یہی کام کرتی ہیں۔ ہم کھلے بندوں چیلنجوں سے نمٹتے ہیں۔ اور ہمیں درست سمت میں دوبارہ چلنے میں پابندیوں کے بغیر اور آزاد پریس، انسداد بدعنوانی کے اداروں، اور قانون کی حکمرانی کا تحفظ کرنے والے اداروں کے ذریعے اِن ممالک کی مدد بھی کرنا چاہیے۔

یہ بھی وہ کچھ ہے جس کا مطلب اپنے اتحادوں کے ساتھ ایک بار پھر عہد کرنا ہے۔

دوسرا، ہمیں اپنے اتحادوں کو جدید بنانا ہے۔

اس کی شروعات ہماری فوجی صلاحیتوں اور تیاریوں کو بہتر بنانے سے ہوتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہم مضبوط اور قابل اعتماد فوجی مزاحمت کو برقرار رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ روس کی جدید کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری تزویراتی جوہری مزاحمت، سلامت، محفوظ اور موثر رہے۔ یہ اقدام ہمارے اتحادیوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو مستحکم اور قابل اعتماد رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے حالانکہ ہم اپنی قومی سلامتی میں جوہری ہتھیاروں کے کردار کو مزید کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ہم خطے میں سکیورٹی کے پیچیدہ چیلنجوں کے ایک وسیع سلسلے سے نمٹنے کے لیے اپنے بحرہند و بحر الکاہل کے اتحادیوں کے ساتھ بھی مل کر کام کریں گے۔

ہمیں معاشی، تکنیکی اور معلوماتی شعبوں میں موجود خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اور ہم صرف دفاع کا کام ہی نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں ایک مثبت نقطہ نظر بھی اپنانا ہوگا۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے حلیفوں پر دباؤ ڈالنے اور ہمارے درمیان فاصلے پیدا کرنے کے لیے بیجنگ اور ماسکو کس طرح انتہائی اہم وسائل، منڈیوں اور ٹیکنالوجیوں تک رسائی کا دن بدن بڑھتا ہوا استعمال کر رہے ہیں۔ یقیناً ہر ملک کو اپنا فیصلہ خود کرنا ہے۔ لیکن ہمیں معاشی جبر کو دباؤں کی دیگر شکلوں سے علیحدہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم میں سے کسی ایک پر جبر کیا جائے تو ہمیں اس کا جواب اتحادیوں کے طور پر دینا چاہیے اور یہ یقینی بنا کر اپنی کمزوریوں میں کمی لانا چاہیے کہ ہماری معیشتیں ہمارے بڑے مسابقین کی نسبت ایک دوسرے کی معیشتوں کے ساتھ زیادہ مربوط ہوں۔ اس کا مطلب جدید اختراعات کو ترقی دینے کے لیے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ حساس رسدی سلسلے مستحکم ہوں، اور اُن کو قیمتیں چکانے پر مجبور کرنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہے جو قانون توڑتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ہم یہ کام کریں گے تو مزید ممالک اُن کھلی اور محفوظ جگہوں کا انتخاب کریں گے جنہیں ہم نے اکٹھے مل کر بنایا ہوگا۔

ہمیں بین الاقوامی خطرات، بالخصوص ماحولیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی اہلیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ یہ چیلنج اتنے بڑے ہیں، اور اِن سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات اتنے دور رس ہیں کہ اِن سے نمٹنے کے عمل کو حقیقی معنوں میں ہر اس کام سے مربوط کیا جائے جو ہم کرتے ہیں یا شراکت کاروں کے ایک وسیع سلسلے کے مابین جس کی رابطہ کاری کرتے ہیں۔

تیسرا، ہمیں حلیفوں اور شراکت داروں کے وسیع اتحاد بنانے چاہیئیں۔

اکثر ہم اپنے اتحادوں اور شراکت داریوں کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں بانٹے رکھتے ہیں۔ ہم انہیں یکجا کرنے کے لیے کافی کام نہیں کرتے۔۔ حالانکہ ہمیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی قوتوں اور صلاحیتوں کی تکمیل کرنے والے جتنے زیادہ ممالک مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے متحدہ ہو سکتے ہوں، اتنا ہی بہتر ہے۔

اُن ممالک [یعنی] آسٹریلیا، بھارت، جاپان، اور امریکہ کے گروپ کے پیچھے یہی نظریہ کارفرما ہے جسے ہم “کواڈ” کہتے ہیں۔ حال ہی میں صدر بائیڈن کی میزبانی میں کواڈ کا سربراہی سطح کا پہلا اجلاس ہوا۔ ہمارا آزاد، کھلے، مشمولہ، صحت مند بحرہند و بحرالکاہل کے ایک ایسے خطے کا مشترکہ تصور ہے جو جبر سے آزاد ہو، اور جس کی جڑیں جمہوری اقدار میں گڑی ہوں۔ ہم ایک اچھی ٹیم ہیں۔ اور ہمارا تعاون مشرقی اور جنوبی چین کے سمندروں کی سلامتی اور ویکسین کی محفوظ، سستی، اور موثر تیاری اور مساویانہ رسائی کے لیے کی جانے والی متوازی کوششوں کو تقویت پہنچائے گا۔

اس کی ایک اور مثال نیٹو اور ای یو کے تعاون میں گہرائی لانا ہے۔ سائبر سکیورٹی، توانائی کی سکیورٹی، صحت کی سکیورٹی، اور انتہائی اہم بنیادی ڈہانچوں کی حفاظت جیسے مسائل پر زیادہ سے زیادہ تعاون آج کل کے خطرات کے خلاف ہماری قوت برداشت اور تیاری میں مدد کرے گا۔ جب ہم اپنی اقدار کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اس سے ہمیں مزید تقویت ملتی ہے۔

شنجیانگ میں ویغوروں کے ساتھ ہونے والے مظالم میں ملوث افراد پر کینیڈا، یورپی یونین اور برطانیہ کے ساتھ مل کر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان پر غور کریں۔ اس کے بعد چین نے یورپی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کی سیاسی و سلامتی کمیٹی کے ممبران، ماہرین تعلیم، اور تھنک ٹینکس کے خلاف جو انتقامی پابندیاں لگائی ہیں وہ اس امر کو اور زیادہ اہم بناتی ہیں کہ ہم مضبوطی سے کھڑے رہیں اور اکھٹے مل کر کھڑے ہوں۔ بصورت دیگر یہ پیغام بھجوانے کا خطرہ مول لیں کہ ڈراؤ دھمکاؤ کامیاب رہتا ہے۔ اس میں یورپ میں نیٹو کے علاوہ ہمارے اُن دیگر شراکت داروں کے ساتھ جڑا رہنا بھی شامل ہے جن میں سے بہت سے اتحاد کی اگلی صفوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

اور ہم قومی حکومتوں کے علاوہ نجی شعبے، سول سوسائٹی، مخیر حضرات، شہروں اور یونیورسٹیوں کو بھی دیکھیں گے۔ عالمی مشترکہ [وسائل] کے تحفظ کے لیے متنوع، وسیع البنیاد تعاون لازمی ہے [یعنی] وہ وسائل جن میں شامل ہونا اور اُن سے فائدہ اٹھانا تمام لوگوں کا حق ہے اور ان میں ہمارے مخالفین کی جانب سے مداخلت کی جا رہی ہے۔

فائیو جی کو دیکھیں جہاں چین کی ٹکنالوجی سنگین نگرانیوں کے خطرات لیے ہوئے ہے۔ ہمیں سویڈن، فن لینڈ، جنوبی کوریا، امریکہ جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کو اکٹھا کرنا چاہیے اور ایک محفوظ اور قابل اعتماد متبادل کو فروغ دینے کے لیے سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کا استعمال کرنا چاہیے۔ ہم نے اُن ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے میں دہائیوں صرف کی ہیں جو دنیا کے ہر حصے میں ہماری اقدارمیں شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان شراکت داریوں میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہے تاکہ ہم ان جیسے نئے چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے جدید طریقوں سے اکٹھے ہوسکیں۔

اس طریقے سے مل کر کام کرتے ہوئے ہمارے اتنا کچھ حاصل کرسکنے کے بارے میں اگر کسی کو بھی کوئی شک ہے تو میں اُن سائنس دانوں کے بے مثال تعاون کی نشاندہی کروں گا جنہوں نے سرحدوں کے آرپار پھیلے اداروں کے ساتھ جینوم کے سینکڑوں سلسلوں کا تبادلہ کیا۔ ریکارڈ وقت میں کی جانے والی یہ ایک ایسی تحقیق تھی جو کووڈ-19 کی کئی ایک محفوظ، موثر ویکسینوں کی دریافت کے لیے ناگزیر تھی۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے منظور کی جانے والی ویکسینوں میں سے سب سے پہلی ویکسین ترکی میں پیدا ہونے والے ایک ڈاکٹر نے دریافت کی، وہ جرمنی میں بڑا ہوا، اور اُس نے اُس یورپی دواساز کمپنی کی ایک شراکت کار کی حیثیت سے بنیاد رکھی جس نے ویکسین تیار کرنے کے لیے ایک امریکی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی۔

ممکن ہے کہ امریکہ کے اتحادی اور شراکت دار آج میرے الفاظ سن رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں، “ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم آپ سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔” کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں کسی حد تک اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

لہذا مجھے اجازت دیں کہ میں اس بات کو واضح کروں کے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ امریکہ کس چیز کا وعدہ کر سکتا ہے۔

جب ہمارے حلیف اپنے منصفانہ حصے کا بوجھ برداشت کریں گے تو وہ فیصلے کرنے میں معقول حد تک منصفانہ عمل دخل کی توقع کر سکیں گے۔ ہم اس کا احترام کریں گے۔ اس کا آغاز اپنے دوستوں کے ساتھ شروع میں اور تواتر سے مشوروں سے ہوتا ہے۔ بائیڈن – ہیرس انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کا یہ ایک کلیدی جزو ہے اور یہ ماضی کے مقابلے میں ایک ایسی تبدیلی ہے جسے ہمارے اتحادی پہلے ہی سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی ستائش کرتے ہیں۔

ہم اپنے اتحادیوں کے زیادہ سے زیادہ تزویراتی صلاحیتیں پیدا کرنے کو ایک اثاثے کے طور پردیکھیں گے نہ کہ ایک خطرے کے طور پر۔ مضبوط اتحادی سے مضبوط اتحاد بنتے ہیں۔ اور جب امریکہ اُن خطرات سے نمٹنے کے لیے جن کا میں نے خاکہ پیش کیا ہے، اپنی تزویراتی صلاحیتوں کو بڑہائے گا تو ایسے میں ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ یہ ہمارے اتحادوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں – اور یہ کہ یہ ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں۔ اس کے بدلے میں ہم یہی بات اپنے حلیفوں سے بھی کہیں گے۔

امریکہ چین [کے معاملے] میں اپنے حلیفوں کو “ہم یا وہ” کے انتخاب کے لیے مجبور نہیں کرے گا۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ بیجنگ کا جابرانہ رویہ ہماری اجتماعی سلامتی اور خوشحالی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور وہ بین الاقوامی نظام اور ہمارے اور ہمارے حلیفوں کی مشترکہ اقدار کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرمی سے کام کر رہا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ممالک جہاں ممکن ہو وہاں بھی چین کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔ امریکہ چین کے ساتھ کام کرے گا۔ ہم ایسا نہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس کی ایک مثال آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کی سلامتی ہے۔

ہمیں علم ہے کہ ہمارے حلیفوں کے چین کے ساتھ جو پیچیدہ تعلقات ہیں وہ ہمیشہ مکمل طور پر ہمارے تعلقات سے مطابقت نہیں رکھیں گے۔ تاہم ہمیں اِن چیلنجوں سے مل کر نمٹنے کے ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ٹکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں اُن فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے حلیفوں کے ساتھ کام کرنا ہے جن کا بیجنگ جابرانہ دباؤ ڈالنے کے لیے غلط استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ اگر ہم بین الاقوامی نظام کے لیے اپنے مثبت نقطہ نظر کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مل کر کام کریں گے – اگر ہم اُس آزاد اور کھلے نظام کے حق میں کھڑے ہوں گے جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ یہ انسانی ہنرمندی، وقار اور روابط کے لیے بہترین حالات مہیا کرتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ ہم چین کو کسی بھی میدان میں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔

ہم ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے لیکن جب ہمارے اتحادی اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کریں گے تو اُس کا ہم اعتراف بھی کریں گے۔ میں صاف بات کروں گا: یہ مسئلہ اکثر متنازعہ رہا ہے، بالخصوص اٹلانٹک کے آر پار کے تعلقات میں۔ ہم دفاعی سرمایہ کاری کو بہتر بنانے میں نیٹو کے بہت سے اپنے اتحادیوں کی نمایاں پیشرفت کو تسلیم کرتے ہیں جس میں 2024ء تک دفاعی اخراجات پر جی ڈی پی کا دو فیصد خرچ کرنے کے ویلز کے وعدوں کو پورا کرنے کی پیشرفت بھی شامل ہے۔ اِن وعدوں پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر ہم بوجھ برداشت کرنے کے بارے میں ایک زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی کوئی واحد رقم نہیں جو کسی ایک ملک کے ہماری اجتماعی سلامتی اور مفادات کا دفاع کرنے کے حصے کا تعین کرتی ہو (فیڈ یہاں رک گئی L) خاص طور پر ایک ایسی دنیا میں جہاں خطرات کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کا فوجی طاقت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بہرصورت ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کیونکہ اتحادیوں کی الگ الگ صلاحیتیں اور تقابلی طاقتیں ہیں، اس لیے وہ مختلف طریقوں سے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے طے شدہ اہداف سے دستبردار ہو جائیں یا ان میں کمی کردیں۔ حقیقت میں جن مشترکہ خطرات کا ہمیں سامنا ہے وہ ہم سے زیادہ کچھ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ہمیں اِن مشکل معاملات پر غور کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے – حتٰی کہ متفق نہ ہونے کی بھی – مگر ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا برتاؤ کرتے ہوئے۔ حالیہ برسوں میں کئی بار، امریکہ میں لگتا ہے کہ ہم یہ بھول گئے کہ ہمارے دوست کون ہیں۔ تاہم اس [صورت حال] میں پہلے ہی تبدیلی آ چکی ہے۔

امریکہ بیرونی ممالک میں تصادموں سے نمٹنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر طاقت کے استعمال میں معاملہ فہمی سے کام لے گا، بالخصوص اپنی فوجی طاقت کے استعمال میں۔ ہم اپنے اصولی عزائم اور اُن خطرات کے درمیان عدم توازن سے گریز کریں گے جو ان [اصولی عزائم ] کو حاصل کرنے کے لیے بڑی حد تک ہم مول لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ جب ہم حد سے زیادہ الجھ جاتے ہیں تو دوسرے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ہماری صلاحیت میں خلل پڑتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر امریکی عوام پر پڑ سکتا ہے۔

آخر میں، ہمارے بعض اتحادی سوچتے ہیں کہ آیا کہ ہماری اُن کی سلامتی کے ساتھ وابستگی پائیدار ہے۔ وہ [جب] ہمیں یہ کہتا ہوا سنتے ہیں کہ “امریکہ واپس آ گیا ہے” تو پوچھتے ہیں کب تک؟

یہ ایک جائز سوال ہے۔ لہذا اس کا یہ جواب ہے۔

اس کی ایک وجہ ہے کہ امریکی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت – جس کا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں سے تعلق ہے – ہمارے اتحادوں کی حمایت کرتی ہے حالانکہ دوسرے بہت سے معاملات میں [لوگ] پارٹی کی سطح پر منقسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں [کے اراکین] نے اپنے اتحادیوں کو مسلسل یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہمارا عزم مصمم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اتحادوں کو ایک بوجھ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا کی تشکیل میں دوسروں کی مدد حاصل کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہمارے مفادات اور ہماری اقدار کی عکاسی کرتی ہو۔

مگر حمایت کو مضبوط رکھنے کے لیے ہمیں جنہیں عالمی سٹیج پر امریکہ کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے، یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے اتحاد امریکی عوام کے لیے کامیابیاں لے کر آئیں۔ ہم اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔

ہمیں نہ صرف عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ہمارے اتحاد کس کے خلاف ہمارا دفاع کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کرنا چاہیے کہ ان کا نصب العین کیا ہے۔ اس کی ایک مثال سب جگہوں پر تمام لوگوں کے ساتھ باوقار سلوک کیا جانا اور اُن کی بنیادی آزادیوں کا احترام کیا جانا ہے۔ محض یہ کہ ہم دنیا کی عکاسی کرنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی بناتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کو اس طرح متشکل کرنے کی کوشش ترک کر دینا چاہیے جیسا کہ یہ ہو سکتی ہے یعنی ایک ایسی دنیا جو زیادہ محفوظ ہو، زیادہ پرامن ہو، زیادہ انصاف پسند ہو اور زیادہ مساویانہ ہو۔ ایک ایسی دنیا جس میں زیادہ سے زیادہ تندرستی، مضبوط جمہوریتیں، اور زیادہ لوگوں کے لیے زیادہ مواقع ہوں۔

مختصراً ہمیں ایک ایسا مثبت تصور رکھنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو مشترکہ نصب العین پراکٹھا کر سکتا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے مخالفین پیش نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری سب سے بڑی قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جس سے قابل اعتماد اتحادی بننے کے لیے ہمارا مفاد اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ ہم موثر اتحاد برقرار رکھے بغیر ایک ایسی خارجہ پالیسی کھڑی ہی نہیں کر سکتے جو امریکی عوام کے لیے کامیابیاں لے کر آتی ہو۔ اور ہم یہ ثابت کیے بغیر کہ وہ امریکی عوام کے لیے کس طرح کامیابیاں لے کر آئیں گے، دیرپا اور موثر اتحاد قائم نہیں رکھ سکتے۔

ستر سال قبل، فورٹ ڈِکس، نیوجرسی میں زیرتربیت امریکی فوج کے ایک سپاہی نے ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کو جو اس وقت یورپ میں اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، ایک خط بھیجا۔ اپنے خط میں اس سپاہی نے آئزن ہاور سے پوچھا کہ آیا اُس کی خدمت میں [سپاہی کے الفاظ میں] “مارنے یا مارے جانے” کے علاوہ بھی کچھ ہے۔

آئزن ہاور ایک کہنہ مشق حقیقت پسند تھے۔ وہ جنگ کی تباہی کو قریب سے دیکھ چکے تھے۔ اُن کو ہمارے اتحادیوں کا دفاع کرنے کے لیے امریکی زندگیوں کو زندگی اور موت کے داؤ پر لگانے کے نتائج کے بارے میں بخوبی علم تھا۔ اس کے باوجود جب انہوں نے اِس سپاہی کے خط کا جواب دیا تو انہیں یقین تھا کہ [آئزن ہاور کے الفاظ میں] “حقیقی انسانی مقاصد محض طاقتوروں کی بقا کی نسبت کسی ایسی چیز پر مشتمل ہوتے ہیں جو کہیں زیادہ مالامال اور کہیں زیادہ تعمیری ہوتی ہے۔”

انہوں نے لکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مل کر ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا جس کی جڑیں مشترکہ اقدار میں پیوست ہوں۔ اور یہ الفاظ اُن اقدار سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے جو امریکہ میں ہمارے زندگیوں کی ہر روز رہنمائی کرتی ہیں [اور جیسا کہ] آئزن ہاور نے لکھا، “مسائل کے اُس انبار کو شائستگی، دیانت داری، اور انصاف سے حل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں جو ہمیں مسلسل درپیش رہتے ہیں۔” اس کا مطلب دنیا کے ہر ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہمیں کسی مسئلے سے نمٹنا پڑ جائے تو ہماری وہ اقدار ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائیں جو بیک وقت ہماری عاجزی اور طاقت کا ایک ذریعہ ہیں۔ آئزن ہاور نے سپاہی کو لکھا کہ انہیں امید ہے کہ اُن کے الفاظ “تھوڑی سی امید اور اعتماد” فراہم کریں گے۔

آئزن ہاور ہمیں جو چیلنج درپیش ہیں اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مگر انہیں علم تھا کہ جو بھی نئے خطرات سامنے آئیں گے، ہم اِن کا مقابلہ اپنے اُن شراکت داروں کے ساتھ مل کر کرنا چاہیں گے جن کی اور ہماری اقدار مشترک ہیں۔

گزشتہ برس کا شمار ہماری قوموں کی تاریخ کے مشکل ترین وقتوں میں ہوتا ہے اور ابھی تک ہم اس بحران سے نہیں نکل پائے – حالانکہ ہم امید کی حقیقی وجہ دیکھ رہے ہیں۔ مگر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ تعاون ہمیں تھوڑی سی امید اور تعاون سے کچھ زیادہ فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے [یعنی] اکٹھے مل کر، مشترکہ اقدار کی جڑوں سے جڑے ہوئے، اور نہ صرف اپنے اتحادوں اور شراکت داریوں کی تعمیرِ نو کا عزم کیے ہوئے بلکہ انہیں بہتر طریقے سے دوبارہ تعمیر کرنے کے عزم کے ساتھ بھی۔ اگر ہم یہ کریں گے تو ایسا کوئی چیلنج نہیں ہوگا جس پر ہم قابو نہ پا سکتے ہوں یا قابو نہ پا سکیں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ


اصل عبارت پڑھنے کا لِنک : https://www.state.gov/reaffirming-and-reimagining-americas-alliances/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future