امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
14 اپریل 2021
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت
نیٹو ہیڈکوارٹرز
برسلز، بیلجیم
اقتباسات
نگران: سہ پہر بخیر۔ سیکرٹری جنرل، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے ساتھ اس پریس کانفرنس کے لیے نیٹو کے ہیڈکوارٹرز میں خوش آمدید۔ یہ حضرات مختصر تعارفی خطاب کریں گے جس کے بعد ہم چند سوالات لیں گے۔ جنابِ سیکرٹری جنرل۔
سیکرٹری جنرل سٹولٹنبرگ: سہ پہر بخیر۔ ہمارا نیٹو کے وزرائے خارجہ و دفاع کا ایک اہم مشترکہ اجلاس ابھی ختم ہوا ہے۔ وزیر خارجہ ٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن یہاں برسلز میں ہمارے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ ٹونی اور لائیڈ، میں نیٹو، ہمارے ماورائے اوقیانوس رشتے سے آپ کی ذاتی طور پر مضبوط وابستگی کا بہت مشکور ہوں۔ آج آپ کی یہاں موجودگی ہمارے ماورائے اوقیانوس تعلق کی اہمیت اور امریکہ کی اپنے نیٹو اتحادیوں سے مشاورت کے عہد کا متسلسل اظہار ہے۔
آج ہم نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے مستقبل پر اکٹھے فیصلہ لیا۔ ہم قریباً 20 سال سے افغانستان میں ہیں۔ اس کا آغاز نائن الیون کے ہولناک حملوں کے بعد ہمارے امریکی کی حمایت میں پہلی مرتبہ اپنے قیام کے معاہدے کے آرٹیکل 5 سے رجوع کرنے سے ہوا تھا۔
ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہم نے اس کی بھاری جانی و مالی قیمت ادا کی۔ اتحادی اور بہت سے شراکت دار ممالک اور افغانستان کے ہزاروں فوجیوں نے اس کی انتہائی قیمت چکائی ہے۔ بہت سے ایسے تھے جو زخمی ہوئے۔ ہم اس جنگ میں خدمات انجام دینے والے تمام لوگوں کے مشکور ہیں اور اپنی مشترکہ سلامتی کے لیے بہت بڑی قربانی دینے والے تمام لوگوں کی تعظیم کرتے ہیں۔
ہم نے مل کر افغانستان کو اپنے ملکوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ بننے سے روکا۔ نائن الیون کے بعد اتحادیوں کی سرزمین پر ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا جسے افغانستان میں منظم کیا گیا ہو۔ ہم ںے افغان سکیورٹی فورسز کی تشکیل میں مدد دی۔ بہت بڑی بہادری اور پیشہ وارانہ صلاحیت کی بدولت انہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران ملک بھر میں سکیورٹی فراہم کی ہے۔ عالمگیر عسکری موجودگی کی قریباً دو دہائیوں میں ہم نے افغان عوام کو سماجی ترقی کے حصول میں بھی مدد دی۔
ایک سال پہلے ہم نے امریکہ۔طالبان معاہدے اور امریکہ۔ افغانستان مشترکہ اعلامیے کا خیرمقدم کیا۔ اس کے بعد اب تک ہم امن عمل کے مطابق اپنے فوجیوں کی موجودگی میں بتدریج کمی لائے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں ہمارے فوجیوں کی تعداد قریباً 10 ہزار ہے جن میں اکثریت غیرامریکیوں کی ہے اور ان کا تعلق شراکت دار ممالک سے ہے۔
گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں ہم افغانستان میں اپنی موجودگی پر اتحادی ممالک سے مشاورت کرتے چلے آئے ہیں۔ افغانستان سے واپسی کے امریکی فیصلے کی روشنی میں آج نیٹو کے وزرائے خارجہ و دفاع نے مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا کہ ہم یکم مئی سے نیٹو کے ریزولوٹ سپورٹ مشن میں خدمات انجام دینے والی فورسز کا انخلا شروع کریں گے۔ ہمارا انخلا منظم، مربوط اور سوچا سمجھا ہو گا۔ ہم نے چند ہی ماہ میں اپنے تمام فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلانے کا منصوبہ بندی کی ہے۔ اس عرصہ کے دوران طالبان کی جانب سے ہمارے فوجی دستوں پر کسی بھی حملے کا بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
ہم اکٹھے افغانستان گئے تھے، ہم نے وہاں ایک جیسا کام کیا اور ہم اکٹھے وہاں سے واپس آ رہے ہیں۔ یہ آسان فیصلہ نہیں ہے اور اس میں خطرات بھی ہیں۔ جیسا کہ میں کئی مہینوں سے کہتا چلا آیا ہوں، ہمیں دہری مشکل کا سامنا ہے کیونکہ منظم انداز میں انخلا سے ہٹ کر دیکھا جائے تو دوسری صورت ایک طویل مدتی اور غیرمتعین عسکری ذمہ داری ہو گی جس میں ممکنہ طور پر نیٹو کے مزید فوجی درکار ہوں گے۔
یہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلق کا اختتام نہیں بلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ نیٹو اتحادی اور شراکت دار افغان عوام کا ساتھ دیتے رہیں گے مگر تشدد کے خاتمے، تمام افغانوں خصوصاً خواتین بچوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ، قانون کی حکمرانی اور افغانستان کو مستقبل میں دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ بننے سے روکنے کے لیے ملک میں پائیدار امن لانا اب افغان عوام کی ذمہ داری ہے۔
آج نیٹو کے وزرا نے یوکرین میں اور اس کی سرحدوں پر روس کی جانب سے فوجی طاقت میں اضافے پر بھی بات کی۔ یہ 2014 میں روس کی جانب سے کرائمیا کے غیرقانونی الحاق سے اب تک روسی فوجی دستوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے اور یہ روس کے جارحانہ اقدامات کا ایک وسیع تر نمونہ ہے جس پر نہایت سنگین خدشات ابھر رہے ہیں۔ اتحادی ممالک یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کرتے ہیں ار ہم روس سے کہتے ہیں کہ وہ موجودہ صورتحال کی شدت میں فوری کمی لائے، جارحانہ اشتعال انگیز اقدامات بند کرے اور عالمی برادری کے ساتھ اپنے وعدوں کا پاس کرے۔
آج کا اجلاس اتحاد کا ایک اہم مظاہرہ ہے اور اس پیچیدہ اور مزید مسابقتی دنیا میں ہمیں ناصرف گزشتہ بلکہ آج اور کل کے تمام مسائل کا سامنا کرنے کے لیے نیٹو کو مضبوط بنانے کا عمل جاری رکھنا ہے۔ لہٰذا ٹونی اور لائیڈ، آپ کے ساتھ یہاں موجودگی میرے لیے بہت اچھا موقع ہے۔ اب میں آپ کو بات کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ جینز۔ سیکرٹری آسٹن، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ سبھی کو سہ پہر بخیر۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے پہلے دورے سے چند ہی ہفتوں کے بعد خاص طور پر ہمارے اتحاد کی تاریخ کے ایسے اہم دن پر یہاں نیٹو کے دفتر میں دوبارہ آمد میرے لیے بہت خوشی کا موقع ہے۔
بیس سال پہلے امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کے بعد اس اتحاد نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 5 سے رجوع کیا۔ ایک اتحادی پر حملہ گویا سبھی پر حملہ ہے۔ ہم القاعدہ کو ختم کرنے اور افغانستان میں منصوبہ بندی سے اپنے ممالک پر مستقبل میں ممکنہ دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے افغانستان گئے۔ اب ہم اکٹھے افغانستان سے انخلا کریں گے اور اپنے فوجیوں کو واپس لائیں گے۔
صدر بائیڈن نے کچھ ہی دیر پہلے امریکہ کے عوام سے خطاب میں اس حوالے سے ہمارے منصوبے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
جیسا کہ آپ نے سنا اور دیکھا ہے، ہم یکم مئی سے اپنے فوجی دستوں کا انخلا شروع کریں گے اور یہ کام اس سال نائن الیون کی 20 ویں برسی سے پہلے مکمل کر لیں گے۔
ہم سالہا سال تک یہ کہتے رہے کہ کسی موقع پر ہم افغانستان سے نکل جائیں گے اور اب وہ وقت آ گیا ہے۔ افغانستان میں القاعدہ سے لاحق خطرے کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ اسامہ بن لادن انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ہم نے اپنا اصل مقصد حاصل کر لیا ہے۔
ہم نہیں سمجھتے کہ افغانستان میں لامحدود مدت کے لیے فوج رکھنے سے امریکہ، نیٹو اور ہمارے اتحادیوں کو کوئی فائدہ ہو گا۔ گزشتہ 20 سال میں دنیا ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور جیسا کہ آپ نے صدر کو کہتے سنا، ہمیں اپنی حکمت عملی کو 2001 کے بجائے 2021 کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ترتیب دینا ہے اور ایسے مسائل کا مقابلہ کرنا ہے جو اب ہماری توجہ اور وسائل کا تقاضا کر رہے ہیں۔
امریکہ اور ہمارے اتحادی اپنے آئندہ اقدامات پر اکٹھے کام کریں گے۔ جیسا کہ سیکرٹری جنرل نے بتایا، ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ ”ہم اکٹھے افغانستان جائیں گے، اکٹھے کام کریں گے اور اکٹھے واپس آئیں گے”۔ آج ہم نے ”اکٹھے واپسی” شروع کر دی ہے۔ ہم ذمہ دارانہ انداز میں، سوچ سمجھ کر اور محفوظ طور سے اپنے فوجی واپس لائیں گے۔
میں واضح کر دوں کہ اگرچہ ہمارے فوجی واپس آ رہے ہیں، لیکن ہمارا افغانستان سے اتحاد برقرار ہے اور امریکہ ایک ملک کی حیثیت سے افغان عوام اور ان کے منتخب رہنماؤں کی معاونت اور حمایت جاری رکھے گا۔
ہم افغانستان میں دہشت گردی کے خطرے کے دوبارہ ظہور کے کسی امکان بارے بھی چوکس رہیں گے۔ ہم اس حوالے سے صورتحال قابو میں رکھنے کے لیے اپنی انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کو ازسرنو منظم کریں گے۔ ہم القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کو افغان سرزمین ہمارے خلاف حملوں کی بنیاد کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کے لیے طالبان کے وعدوں پر ان سے جواب طلبی بھی کریں گے۔
ہم افغان حکومت اور طالبان کے مابین ایک پائیدار اور منصفانہ سیاسی تصفیے کے لیے کوشش کریں گے۔ ہم ایسے ممالک سے بھی مدد لیں گے جن کا مفاد افغانستان کے مستحکم مستقبل سے جڑا ہے اور انہیں نیٹو کی جانب سے سالہا سال تک قیام امن کی ذمہ داری نبھانے کے بعد اب اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ہم افغان حکومت کی مدد اور افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت جاری رکھیں گے جنہوں نے اپنے ملک کے لیے جنگ لڑنے کی بھاری قیمت چکائی ہے اور بدستور بہادری سے لڑ رہے ہیں۔
ہم افغان عوام کی بہبود کے لیے مالی وسائل کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ ہم افغان عوام کی حالیہ برسوں میں حاصل شدہ کامیابیوں کا تحفظ کرنے اور انہیں مزید ترقی دینے کے لیے اپنے سفارتی اور ترقیاتی وسائل سے مدد فراہم کریں گے۔ ہم افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور سیاسی تصفیے کے لیے جاری بات چیت میں اپنی بامعنی شرکت اور معاشرے میں اپنی مساوی نمائندگی کے لیے آواز اٹھانے والی اقلیتوں کی حمایت جاری رکھیں گے اور ضرورت مندوں کو وقیع مدد فراہم کرتے رہیں گے۔
مختصراً کہا جائے تو ہمارا اپنے فوجی دستے واپس بلانے کا مطلب افغانستان سے اپنے تعلقات یا اس کے لیے اپنی مدد کا خاتمہ کرنا ہرگز نہیں۔ جیسا کہ جینز نے کہا، یہ باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے جس کی بنیاد سفارت کاری پر ہو گی جس طرح ہم نے دیگر ممالک سے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ بالاآخر افغانستان کا مستقبل افغان عوام کے ہاتھوں میں ہونا ہے لیکن افغانستان کے لیے ہماری مدد، ہمارا ساتھ اور ہمارا عزم بدستور برقرار رہے گا۔
میں گزشتہ بیس برس میں افغانستان میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کی غیرمعمولی جرات اور قوت کا اعتراف کرنا چاہوں گا۔ اپنے عروج پر انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس میں نیٹو اور شراکت داروں سمیت 50 ممالک کے فوجی شامل تھے۔ آج ریزولوٹ سپورٹ میں نیٹو اور شراکت داروں سمیت 35 ممالک کے فوجی شامل ہیں۔ ہمارے فوجیوں نے اپنی جانوں کا خطرہ مول لیا، اس کوشش میں جانیں گنوائیں، مگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب رہے جو ہم نے ان کی بدولت حاصل کرنا تھا اور ہم ان کی خدمات اور قربانیوں کی تعظیم کرتے ہیں۔
مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اس راہ میں ہر مرحلے پر اپنے نیٹو اتحادیوں کی یکجہتی کو کبھی نہیں بھولے گا۔ ہم نے ایک اتحاد کے طور پر اکٹھے کام کرتے ہوئے جو کچھ حاصل کیا وہ کوئی اکیلا ملک کبھی حاصل نہ کر پاتا۔ جیسا کہ میرے دوست سیکرٹری آسٹن تصدیق کر سکتے ہیں، افغانستان میں ان سالوں میں ہماری افواج اور ہمارے ممالک اس انداز میں ڈھل گئے ہیں جس کا عملی مظاہرہ آنے والے وقت میں طویل عرصہ تک ہوتا رہے گا۔
اس سے ہٹ کر، جیسا کہ سیکرٹری جنرل نے بتایا، ہم نے آج کچھ وقت روس اور یوکرین کی سرحد پر اس کے اقدامات بارے سنگین خدشات پر تبادلہ خیال میں بھی صرف کیا۔ 2014 کے بعد یہ وہاں روسی افواج کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ شمالی اوقیانوس کونسل کے اجلاس میں ہر اتحادی کا موقف سنتے ہوئے جو بات میرے لیے حیران کن تھی وہ یہ کہ ہم میں تمام تیس نمائندوں نے ایک جیسے خدشات اور اس عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ روس کو تناؤ میں اضافے کے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔
آج یہاں نیٹو کے اجلاس میں ہماری بات چیت اس جامع منصوبہ بندی کا محض آغاز ہے جو ہمارے ممالک آئندہ کئی مہینوں میں باہم مل کر کریں گے۔ ہم اپنے اتحادیوں کے مشکور ہیں، جناب سیکرٹری جنرل ہم اکٹھے اس تاریخی تبدیلی کا بیڑا اٹھاتے ہوئے آپ کے قائدانہ کردار کے مشکور ہیں۔
شکریہ۔
سیکرٹری آسٹن: سیکرٹری جنرل سٹولٹنبرگ، آج ہونے والی مفید بات چیت پر آپ کا شکریہ۔ میں آج اپنے دوست اور ساتھی وزیر خارجہ بلنکن کی اپنے ساتھ موجودگی پر ان کا شکرگزار ہوں۔
میں اپنے نیٹو اتحادیوں اور شراکت داروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں اپنا جائزہ مکمل کرنے اور 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے تمام امریکی افواج کے انخلا سے متعلق صدر کے فیصلے کی وضاحت کے لیے وقت دیا۔ میں ان کے فیصلے کی پوری طرح حمایت کرتا ہوں۔ ہمارے فوجیوں نے افغانستان میں وہ مقصد حاصل کیا جس کے لیے انہیں وہاں بھیجا گیا تھا اور وہ اس پر فخر کر سکتے ہیں۔ ریزولوٹ سپورٹ اور افغان شراکت داروں کے ہمراہ ان کی خدمات اور قربانیوں کی بدولت ہمارے ممالک کو القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے لاحق خطرے کا بڑی حد تک تدارک ممکن ہوا۔ ان بہادر مردوخواتین نے افغانستان میں معاشی، شہری اور سیاسی ترقی بھی ممکن بنائی۔
اسی لیے آج افغان عوام اپنی سڑکوں پر خود پہرہ دیتے ہیں، اپنے مفادات کا خود تحفظ کرتے ہیں، اپنے رہنماؤں کا خود انتخاب کرتے ہیں جن میں بہت سی خواتین ہیں، وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں نجی کاروباروں کے مالک ہیں اور انہیں چلاتے ہیں۔ وہاں اب بھی بہت سا تشدد ہے اور ہم جانتے ہیں کہ طالبان ایسی بہت سی ترقی کا پہیہ موڑنے کی کوشش کریں گے۔ اسی لیے ہم ایک ایسے مذاکراتی و سیاسی تصفیے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کی خلوص دل سے حمایت کرتے ہیں جس کی افغان عوام خود منظوری دیں۔
تاہم آج صدر نے ہمیں ایک نیا کام سونپا ہے کہ اپنی افواج کو ذمہ درانہ طریقے سے واپس بلایا جائے اور اپنے افغان شراکت داروں کے ساتھ نیا تعلق قائم کیا جائے۔ اتحاد اور اتحادیوں کی فراہم کردہ تربیت کی بدولت افغان سکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کے تحفظ اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے پہلے سے کہیں بہتر طور سے تیار ہیں۔ ہم ان کوششوں میں ان کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم افغان ایئرفورس اور سپیشل مشن ونگ جیسی اہم صلاحیتوں کے حصول کے لیے افغانستان کی مالی مدد کرتے رہیں گے اور افغان سکیورٹی فورسز کی تنخواہوں کی ادائیگی جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم خطے (ناقابل سماعت) برقرار رکھنے کے لیے ان کے ساتھ اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ کام جاری رکھیں گے، جو اس بات کی یقین دہانی کے لیے کافی ہو کہ افغانستان ہماری سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرنے والے دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں بن سکے گا۔
میں فوجیوں کی واپسی یا فوجی اصطلاح میں ”پسپائی” اختیار کرنے سے متعلق ایک یا دو باتیں جانتا ہوں۔ یہ بہترین حالات میں بھی بہت مشکل کام ہوتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ ہمارے فوجی اور ہمارے حکام اس نئے مشن کو ویسی ہی مہارت اور ویسے ہی پیشہ وارانہ انداز میں مکمل کریں گے جس کا مظاہرہ انہوں نے افغانستان میں دیگر امور کی انجام دہی میں کیا ہے۔ وہ یہ کام بحفاظت، منظم انداز میں اور سوچ سمجھ کر کریں گے۔ وہ یہ کام اپنے اتحادیوں کے ہمقدم ہو کر کریں گے۔
جیسا کہ آپ نے آج شام یہ بات متعدد مرتبہ سنی ہے، ہم سب نے کہا ہے کہ ہم اکٹھے افغانستان گئے تھے، وہاں اکٹھے کام کیا اور اب ہم اکٹھے وہاں سے واپس آئیں گے۔ مجھے اس میں یہ اضافہ کرنا ہے کہ اگر طالبان نے واپسی کے اس عمل میں ہم ہماری یا ہمارے اتحادیوں کی افواج پر حملہ کیا تو ہم اس کا بھرپور طاقت سے جواب دیں گے۔
میں سمجھتا ہوں یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ صدر کے فیصلے نے ہمیں مستقبل کے دشمنوں کو روکنے اور اگر ضروری ہوا تو انہیں شکست دینے پر اپنی توجہ ازسرنو مرکوز کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم اپنے اتحادوں اور اپنی شراکتوں کو دوبارہ مضبوط بنا کر یہ کام کریں گے جن کی ایک مثال نیٹو ہے اور قوانین کی بنیاد پر عالمی نظام کو پُروثوق طور سے کمزور کرنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں گے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، عوامی جمہوریہ چین ہمارا سب سے بڑا حریف ہے جو عالمی نظام کی تشکیل نو چاہتا ہے۔ اسی طرح میں نے روس سے کہا ہے کہ وہ یوکرین کی زمینی سالمیت کا احترام کرے۔ ہم یوکرین کو اس کی دفاعی ضروریات کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے افغانستان میں خدمات انجام دیں۔ ہم سبھی نے یہاں تک پہنچنے کے لیے جو قربانیاں دی ہیں ان سے میں اچھی طرح آگاہ ہوں۔ میں ان لوگوں کے غم اور انہیں تاحال درپیش مسائل میں ان کی ثابت قدمی سے حمایت کا وعدہ کرتا ہوں جن کے عزیزوں نے جانیں دیں اور جن کی زندگیاں جنگ نے ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیں۔ ہم آپ کی عزت اور جانے والوں کی یاد کی تعظیم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر کا فیصلہ بالکل اسی کی تصدیق کرتا ہے۔
آپ کا بہت شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-secretary-of-defense-lloyd-j-austin-and-nato-secretary-general-jens-stoltenberg-at-a-joint-press-availability/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔