امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
وزیر خارجہ اینٹںی جے بلنکن کا خطاب
24 فروری، 2023
نیویارک سٹٰی، نیویارک
وزیر خارجہ بلنکن: جناب صدر، جناب سیکرٹری جنرل، کونسل میں میرے ساتھی ارکان۔
ایک سال اور ایک ہفتہ پہلے 17 فروری 2022 کو میں نے اس کونسل کو متنبہ کیا تھا کہ روس یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس موقع پر میں نے کہا تھا کہ روس پہلے بہانہ گھڑے گا اور پھر کیئو سمیت طے شدہ اہداف پر میزائلوں، ٹینکوں اور فوجیوں کے ذریعے چڑھائی کرے گا اور انہیں سائبر حملوں سے نشانہ بنائے گا۔ اس کا مقصد یوکرین کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔
کونسل میں روس کے نمائندے نے، وہی نمایندے جو آج یہاں بات کریں گے، ان باتوں کو ”بے بنیاد الزامات” قرار دیا۔
اس سے سات روز کے بعد 24 فروری 2022 کو روس نے بڑے پیمانے پر حملہ شروع کر دیا۔
یوکرین کے محافظوں کی شدید مزاحمت کے باعث صدر پیوٹن یوکرین کو فتح کرنے، اس کی آزاد ملک کی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے روس کا حصہ بنانے کے اپنے بنیادی مقصد میں ناکام رہے۔
اس کے بعد انہوں نے 2014 میں کرائمیا میں استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے یوکرین کے چار مقبوضہ علاقوں میں راتوں رات ریفرنڈم کرایا، یوکرین کے لوگوں کو ملک بدر کیا، روس کے لوگوں کو ان علاقوں میں لائے، لوگوں سے بندوق کی نوک پر جعلی ووٹ ڈلوائے اور پھر نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کر کے یہ دعویٰ کیا کہ ان علاقوں کے لوگوں نے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں قریباً متفقہ رائے دی ہے۔
جب صدر پیوٹن یوکرین کی فوج کو توڑنے میں ناکام رہے تو انہوں نے یوکرین کے لوگوں کے جذبے کو کچلنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ گزشتہ سال کے دوران روس نے یوکرین کے ہزاروں مردوخواتین اور بچوں کو ہلاک کیا، 13 ملین لوگوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ملک میں توانائی کے نصف سے زیادہ نظام کو تباہ کیا، 700 سے زیادہ ہسپتالوں 2,600 سے زیادہ سکولوں پر بم برسائے اور یوکرین کے کم از کم 6,000 سے زیادہ بچوں کو اغوا کر کے انہیں روس منتقل کیا جن میں سے بعض کی عمر محض چار ماہ تھی۔
اس کے باوجود یوکرین کے لوگوں کا عزم ناصرف قائم ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔
جب یوکرین نے اپنے وسیع علاقوں کا قبضہ واپس لینے کے لیے جوابی حملہ شروع کیا تو صدر پیوٹن نے مزید 300,000 فوج یوکرین بھیج دی اور روس کے مزید نوجوانوں کو جنگی ایندھن کے طور پر اپنی اس مہم میں جھونک دیا۔ انہوں نے ویگنر گروپ کے کرائے کے سپاہیوں کو یوکرین میں بے لگام چھوڑا جو اس سے پہلے افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں لوگوں پر مظالم ڈھا چکے ہیں۔
یقیناً پچھلے برس کی محض یہی کہانی نہیں ہے۔
یوکرین کے لوگوں کی بھی ایک کہانی ہے۔ تعداد میں کہیں کم ہونے کے باوجود انہوں نے بہادری سے اپنے ملک، اپنی آزادی اور اپنے مستقبل کا تعین خود کرنے کے حق کا دفاع کیا۔ انہوں نے ماسکو کے بے رحمانہ حملے کے سامنے ایک دوسرے کی مدد کے لیے متاثر کن اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
اساتذہ اور مقامی لوگوں نے بچوں کو بنکروں میں تعلیم دی۔ شہری کارکنوں نے رہائشیوں کے لیے حرارت اور بجلی بحال کرنے کے لیے عمارتوں کی مرمت کی۔ ہمسایوں نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا۔
اسی طرح عالمی برادری کے متحدہ اقدامات کی بھی ایک کہانی ہے۔
متعدد مواقع پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بڑی اکثریت نے روس کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کی مذمت میں ووٹ دیا اور یوکرین کے علاقے پر قبضہ کرنے کی اس کی غیرقانونی کوششوں کو مسترد کیا۔ گزشتہ روز 141 ممالک نے جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے بنیادی اصولوں کی توثیق نو، روس کے مظالم کی مذمت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مطابقت سے منصفانہ اور جامع امن کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔
جب صدر پیوٹن نے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور اقوام متحدہ کی تخلیق کے بعد اب تک کے بدترین عالمگیر غذائی بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو عالمی برادری نے اس پر فوری ردعمل دیا۔
گزشتہ مئی میں امریکہ کے زیرصدارت غذائی تحفظ کے بارے میں اجلاس کے بعد 100 سے زیادہ ممالک نے بھوک کا خاتمہ کرنے کے لیے ٹھوس وعدے کیے۔ سیکرٹری جنرل گوتیرش اور ترکیہ کی بھرپور کاوشوں کی بدولت بحیرہ اسود کے راست اناج کی ترسیل کے اقدام کے ذریعے یوکرین کی بندرگاہوں پر روس کی گرفت کمزور پڑی اور دنیا میں اناج کی قیمت میں کمی آئی۔ اب ماسکو ایک مرتبہ پھر اس کی پیداوار کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے تو ہمیں اس اقدام میں توسیع کو یقینی بنانا ہے۔
جب صدر پیوٹن نے توانائی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی تو ہم نے دنیا بھر سے قدرتی گیس کی فراہمی شروع کر دی تاکہ روس کے حملے کا سامنا کرنے والے ممالک اپنے لوگوں کو حرارت مہیا کر سکیں۔ یورپ نے روس سے آنے والی توانائی پر اپنا انحصار ختم کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کیے۔
روس کی جنگ میں یوکرین سے زیادہ کسی ملک نے مشکلات نہیں جھیلیں لیکن اس جنگ سے تقریباً ہر ملک متاثر ہوا۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے ممالک یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیونکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ اگر ہم نے یوکرین کو اکیلا چھوڑ دیا تو گویا ہم اقوام متحدہ کے چارٹر اور ان اصولوں اور قوانین کو چھوڑ دیں گے جو تمام ممالک کو محفوظ و مامون بناتے ہیں۔
طاقت کے زور پر زمینی قبضہ ناقابل قبول ہے۔
کسی ملک کی سرحدوں کو ختم کرنا ناقابل قبول ہے۔
جنگ میں عام شہریوں کو ہدف بنانا ناقابل قبول ہے۔
جارحیت پر مبنی جنگیں ناقابل قبول ہیں۔
اگر ہم ان بنیادی اصولوں کا دفاع نہیں کرتے تو دنیا میں طاقت کا قانون چلے گا اور طاقتور ممالک کمزوروں پر غلبہ پا لیں گے۔ یہ ادارہ اسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا کہ دنیا ایسی صورت اختیار نہ کرے۔ اس کونسل کے ارکان کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس حالت تک پہنچنے سے بچائیں۔ ہم تین طریقوں سے یہ کام کر سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ ہمیں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے کوششیں کرنا ہیں۔
اب میں توقع رکھتا ہوں کہ بہت سے ممالک آج امن کی بات کریں گے۔
یوکرین کے لوگوں سے زیادہ کوئی امن نہیں چاہتا۔ امریکہ نے بہت پہلے اور اس جنگ سے بھی پہلے واضح کر دیا تھا کہ ہم یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے کسی بھی بامعنی سفارتی کوشش میں شمولیت کے لیے تیار ہیں۔
تاہم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امن کی نوعیت ہی اہم ہوتی ہے۔
امن کو منصفانہ بنانے کے لیے ان اصولوں کو قائم رکھنا ضروری ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد ہیں۔ ان میں خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی شامل ہیں۔
دیرپا امن کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ روس کو وقفہ لینے، خود کو ازسرنو تیار کرنے اور چند مہینوں یا چند سال میں دوبارہ جنگ کرنے کا موقع نہ ملے۔
ایسا امن جس میں روس کی جانب سے بزور طاقت زمینی قبضے کو تسلیم کیا جائے گا وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو کمزور کر دے گا اور ہر جگہ مستقبل کے جارحین کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ بلا خوف و خطر دوسرے ملکوں پر حملہ کر سکتے ہیں۔
صدر زیلنسکی نے منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے دس نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس سے برعکس صدر پیوٹن نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک یوکرین ”نئی علاقائی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرتا” اس وقت تک کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنے سفاکانہ اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس کونسل کے ارکان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ ہر طرح کا امن منصفانہ اور دیرپا ہو۔
کونسل کے ارکان کو عارضی یا غیرمشروط جنگ بندی کی باتوں سے بیوقوف نہیں بننا چاہیے۔ روس جنگ میں ہر وقفے کو اپنے زیرتسلط علاقوں پر غیرقانونی قبضے کو مستحکم کرنے اور اپنی افواج کو مزید حملوں کے لیے تازہ دم کرنے کی غرض سے استعمال کرے گا۔ 2015 میں جب روس نے یوکرین پر پہلی مرتبہ حملہ کیا تو یہی کچھ ہوا تھا۔ ذرا غور کیجیے کہ اس کے کون سے نتائج برآمد ہوئے تھے۔
اس کونسل کے ارکان کو ایسے مطالبات کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے جن میں کہا جائے کہ دونوں فریقین جنگ کو روک دیں یا دوسرے ممالک سے کہا جائے کہ وہ امن قائم کرنے کی خاطر یوکرین کی مدد کرنا بند کر دیں۔
اس کونسل کے کسی رکن کو یوکرین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف روس کی جنگ کی حمایت کرتے ہوئے امن کے لیے نہیں کہنا چاہیے۔
اس جنگ میں ایک جارح اور دوسرا متاثرہ فریق ہے۔
روس یوکرین کو تسخیر کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔ یوکرین کے لوگ اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
اگر روس لڑنا بند کر دے اور یوکرین سے نکل جائے تو جنگ ختم ہو جائے گی۔ اگر یوکرین لڑنا بند کر دے تو یوکرین ختم ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص یعنی ولاڈیمیر پیوٹن نے یہ جنگ شروع کی تھی اور وہی اسے ختم کر سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اگرچہ ہم یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو ختم کرانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاہم اس کونسل کے ارکان کو چاہیے کہ وہ عالمی امن اور سلامتی کو لاحق دیگر مسائل پر قابو پانے کا کام بھی جاری رکھیں۔
بعض ممالک ہمارے سامنے ان خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ یوکرین کا ساتھ دینے اور روس سے جواب طلبی کے باعث توجہ اور وسائل کو دوسرے ضرورت مندوں کی جانب مرکوز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ میں ان ممالک سے کہوں گا کہ ہمارے اقدامات پر نظر ڈالیں۔ جب آپ روس اور اس کے حامیوں کو یہ کہتا سنتے ہیں کہ یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک باقی دنیا کو نظرانداز کر رہے ہیں تو ماسکو کے اقدامات پر نظر ڈالیں۔
اعدادوشمار کا موازنہ کریں۔ امریکہ کی جانب سے گزشتہ برس دنیا بھر میں بھوک پر قابو پانے کے لیے دی جانے والی 13.5 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ عالمی پروگرام برائے خوراک کے بجٹ کا 40 فیصد سے زیادہ ہم نے ہی مہیا کیا ہے۔ اس بجٹ میں روس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے روس سے نو گنا زیادہ وسائل مہیا کرتا ہے۔ ہم یونیسف کو روس سے 390 گنا زیادہ مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے کو روس کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ مالی مدد دیتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعادہ بھی کرنا ہو گا جو ”انسان کے وقار اور قدر” کو قائم رکھنے کے لیے کہتا ہے۔
ہمیں روس کی جانب سے وسیع پیمانے پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شہادتیں بھی جمع کرنا ہوں گی۔ ان میں سزائے موت، تشدد، جنسی زیادتی اور تشدد اور یوکرین کے ہزاروں شہریوں کی روس میں منتقلی جیسے مظالم شامل ہیں۔
ہمیں روس کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تفصیلات بھی جمع کرتے رہنا ہے اور اس شہادت کو تفتیش کاروں اور قانون دانوں کو دکھانا ہے تاکہ ان مظالم کا ارتکاب کرنے والوں سے جواب طلبی کی جا سکے۔
روز بروز روس کے مظالم دیکھنے کے بعد دہشت کے سامنے گنگ ہو جانا یا صدمہ اور غصہ محسوس کرنے کی صلاحیت کھو دینا آسان ہے۔ لیکن ہم روس کے مظالم کو معمول کا عمل بننے نہیں دیں گے۔
بوچا میں جو کچھ ہوا وہ معمولی بات نہیں تھی۔ میریوپول میں جو کچھ ہوا وہ معمولی نہیں تھا۔ ارپن میں جو کچھ ہوا اسے معمولی نہیں کہا جا سکتا۔ سکولوں ہسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کو بمباری کے ذریعے ملبے کا ڈھیر بنانا معمول کی بات نہیں ہے۔ یوکرین کے بچوں کو ان کے والدین سے چھین لینا اور انہیں روس کے لوگوں کے حوالے کر دینا معمول کی بات نہیں کہی جا سکتی۔
ہمیں انسانی زندگی کے بارے میں صدر پیوٹن کی سی سنگدلانہ لاپروائی اختیار نہیں کرنی۔
ہمیں خود کو یہ یاد دلانا ہے کہ اس شدید جنگ اور دنیا بھر میں ہونے والی تمام جنگوں سے انسان ہی متاثر ہوتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں نے جنگ سے متاثرہ یوکرین کے بچوں کی بنائی تصاویر کی نمائش دیکھی۔
اس موقع پر میں نے ویرونیکا نامی ایک دس سالہ بچی کی بنائی ہوئی تصویر کو دیکھا۔ گزشتہ اپریل میں روس کی فوجوں نے سولیڈار میں اس کے گھر پر بم برسائے جس کے نتیجے میں اس کا پورا خاندان ہلاک ہو گیا تھا۔ جب سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچنے والوں نے اسے ملبے سے نکالا تو بم کا ایک ٹکڑا اس کی کھوپڑی میں پیوست تھا۔ اس کا بایاں انگوٹھا کٹ چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کی زندگی تو بچا لی لیکن حملے میں اس کا دایاں ہاتھ تقریباً ناکارہ ہو گیا اور وہ اپنی بائیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔
ویرونیکا نے اپنی تصویر میں خود کو روشن گلابی اور نارنجی لباس پہنے اور ہاتھ میں گلدستہ تھامے دکھایا ہے۔ اس کے قریب ایک عمارت بھی نظر آتی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اس کے جاننے والے وہ تمام لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں جو جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔
ہم، امریکہ کے لوگ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آغاز بھی اسی سے ہوتا ہے۔
اس کونسل میں میرے ساتھیو، اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ یوکرین میں بہت سے لوگ وہی کچھ چاہتے یہں جو یہ کمسن لڑکی ویرونیکا چاہتی ہے۔ وہ ایسی دنیا چاہتی ہے جہاں لوگ اپنے ملک میں امن سے رہ سکیں اور اپنے عزیزوں کو تحفظ دے سکیں۔
ہمارے پاس اختیار ہے، ہمارے پاس موجودہ اور آںے والی نسلوں کے لیے ایسی دنیا تخلیق کرنے کی ذمہ داری ہے۔ ہم کسی ملک کو اسے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہیں دیں گے۔
شکریہ
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-blinkens-remarks-at-the-united-nations-security-council-ministerial-meeting-on-ukraine/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔