امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
وزیر خارجہ اینتھنی جے بلنکن کا خطاب
واشنگٹن، ڈی سی
17 فروری 2021
وزیر خارجہ راب: فضیلت مآب جناب جیرینڈی، آپ نے جو کچھ کہا اس پر میں آپ کا مشکور ہوں۔ اب میں امریکہ کے وزیر خارجہ فضیلت مآب جناب اینتھنی جے بلنکن کو گفتگو کے لیے کہوں گا۔ جناب بات کیجیے۔
وزیر خارجہ بلنکن: ڈومینیک، آپ کا بہت شکریہ اور آج آپ کے ساتھ موجودگی بہت اچھی بات ہے۔ میں تیونس سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بہت مدلل بات کی اور میں اس واقعتاً عالمگیر مسئلے پر سیکرٹری جنرل گوتیخش کے قائدانہ کردار پر ان کا مشکور ہوں۔
جنابِ راب، خاص طور پر ویکسین تک رسائی میں رکاوٹوں بشمول جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ایسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں اکٹھا کرنے پر آپ کا شکریہ۔ ہم سبھی جانتے ہیں اور ہم سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وبا نے بہت سے خاندانوں اور سماجی گروہوں کو خوفناک نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے پہلے اور خاص طور پر انسان ہونے کے ناطے ہماری ہمدردیاں ان سب لوگوں کے ساتھ ہیں۔
انتھک عالمگیر کوششوں ــ سائنس دانوں، ڈاکٹروں اور ماہرین صحت کی ــ کے نتیجے میں متعدد محفوظ اور موثر ویکسین، طریقہ ہائے علاج و تشخیص سامنے آ چکے ہیں اور یہ غیرمعمولی کامیابیاں ہیں۔ نجی شعبے اور حکومتوں کے مابین تعاون کی بدولت عالمگیر سطح پر کوویڈ-19 کی محفوظ اور موثر ویکسین کی تیاری کی صلاحیت وسیع ہو رہی ہے ــ مگر اس کی رفتار عالمگیر ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
امریکہ اس کی تیاری اور تقسیم کی صلاحیت بڑھانے اور پسماندہ آبادیوں سمیت لوگوں کی اس تک رسائی میں اضافے کے لیے دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرے گا۔
یہاں میں بتاؤں گا کہ ہم نے اس وبا کو ختم کرنے میں مدد دینے کے لیے اور کون سا منصوبہ بنایا ہے۔ جیسا کہ آپ میں بعض لوگ دیکھ چکے ہوں گے کہ صدر بائیڈن کی قومی سلامتی سے متعلق پہلی یادداشت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ امریکہ ایک مرتبہ پھر صحت کے شعبے میں عالمی رہنما کے طور پر کام کرے گا۔ امریکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کثیر ملکی نظریہ، اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت لازمی اہمیت رکھتے ہیں ــ کوویڈ۔19 کے خلاف صحت اور امداد سے متعلق ایک موثر عالمگیر ردعمل کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں صحت کے حوالے سے مضبوط عالمگیر صلاحیت اور تحفظ کے سلسلے میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ کوویڈ۔19 سے نمٹنا ہمارے سامنے فوری نوعیت کا مسئلہ ہے، ہمیں ایک طویل مدتی مسئلہ درپیش ہے لیکن مستقبل کے لیے عالمگیر صحت کا ہر ممکن حد تک مضبوط ترین ڈھانچہ قائم کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔
جمہوریہ کانگو اور گنی میں ایبولا کی ایک اور وبا پھوٹنے کی خبر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
اس کے لیے ہمیں دلیرانہ سوچ اپنانا ہے۔ ہمیں کوویڈ-19 کو شکست دینا اور مسقبل میں وباؤں کو روکنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم ڈبلیو ایچ او کو مضبوط بنانے اور اس میں اصلاحات لانے، تحفظ صحت کے عالمگیر ایجنڈے کی معاونت، حیاتیاتی خطرات کے مقابلے کی مستحکم تیاری اور وباؤں کے خلاف انتباہی نظام تخلقیق کرنے کے لیے دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ یہ نظام ہمیں بیماری کی جانچ، اس کا کھوج لگانے اور زندگیاں بچانے کے لیے درکار پی پی ای کے ذریعے مزید سرعت کے ساتھ اقدامات میں مدد دے گا۔
ہم تحفظ صحت کے ایک ایسے پائیدار مالیاتی طریقہ کار کی تخلیق کا عمل آگے بڑھانا چاہتے ہیں جس کی طویل عرصہ سے ضرورت تھی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم مستقبل میں آنے والی وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کو اس سے زیادہ تیار کر سکیں جتنی وہ حالیہ وبا کے موقع پر تھی۔
ہم ڈبلیو ایچ او، کوویڈ۔19 ویکسین تک عالمگیر رسائی کے مرکز اور کوویڈ-19 کے مقابلے کے ذرائع کی تیاری میں تیزی لانے کے لیے قائم کردہ عالمگیر اشتراک کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ہم اے سی ٹی سہولیاتی کونسل میں اپنی نمائندگی مشاہدہ کار کے درجے سے بڑھا کر شریک کے درجے تک لے گئے ہیں۔
ہم نے گاوی ویکسین اتحاد کے ذریعے کوویکس کو ٹھوس مالی معاونت مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ہم کوویڈ-19 کے خلاف عالمگیر ردعمل میں شامل دیگر کثیرملکی اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کریں گے ــ مثال کے طور پر ان میں وبا کے خلاف تیاری کے لیے اختراعات سے متعلق اتحاد اور ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کے خلاف جنگ کے لیے عالمگیر فنڈ شامل ہیں۔
ہمارے ان عزائم کی بنیاد ایک طویل روایت پر قائم ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ نے دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں معاونت کے لیے 140 بلین ڈالر سے زیادہ مالی مدد مہیا کی ہے۔ اب ہم کوویڈ-19 کے خلاف عالمگیر ردعمل میں معاونت فراہم کرنے والا واحد سب سے بڑا ملک ہیں۔
آج مجھے یہ تصدیق کرتے ہوئے خوشی ہے کہ اس مہینے کے آخر تک امریکہ ڈبلیو ایچ او کو اپنی متعین اور موجودہ ذمہ داریوں کے حوالے سے 200 ملین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل مہیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ڈبلیو ایچ او کے رکن کی حییت سے اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس سے یہ امر یقینی بنانے کے لیے ہمارے نئے عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ اگرچہ ہم مستقبل میں ڈبلیو ایچ او میں اصلاح کے لیے کام کر رہے ہیں تاہم اس کے باوجود اس ادارے کے پاس وبا کے خلاف عالمگیر اقدام میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے درکار معاونت موجود ہے۔
ہر ملک کو اپنا کردار ادا کرنے اور کوویڈ-19 کے خلاف ردعمل میں مدد دینے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے ہی حکومتوں، عالمی اداروں اور این جی اوز کو دنیا بھر میں کوویڈ-19 کے ابتدائی اور ثانوی اثرات کی شدت میں کمی لانے میں مدد کی کوشش کے طور پر ہنگامی معیشت، صحت اور انسانی امداد کے شعبے میں 1.6 بلین ڈالر سے زیادہ مالی معاونت کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ مالی سال 2020 سے 2023 کے عرصہ میں گاوی کی بیماریوں سے حفاظت کی وسیع تر کوششوں میں مدد کے لیے دیے جانے والے 1.16 بلین ڈالر کے وعدے کے علاوہ ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے ہمارے لیے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ اس وبا نے سب سے زیادہ کسے نقصان پہنچایا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے ہمیں کہا ہے کہ کوویڈ-19 کے خلاف اقدامات اور اس وبا کے بعد بحالی کے عمل میں خواتین اور لڑکیوں کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ ہم سب ایسے اعدادوشمار دیکھ چکے ہیں کہ وبا کے دوران جب خاندانوں کو ایک دوسرے کے قریب رہنا پڑا تو صنفی عدم مساوات بشمول صنفی بنیاد پر تشدد میں بھی نمایاں شدت آئی۔
ہمیں اقوام متحدہ کی قرارداد 1325 پر عملدرآمد جاری رکھنے اور کونسل کی قرارداد 2475 پر عملدرآمد کی اپنی کوششوں کو دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صنفی بنیاد پر، معذوروں اور دوسرے کمزور اور پسماندہ سماجی گروہوں پر کوویڈ-19 کے منفی اثرات کے معاملے پر سیکرٹری جنرل کی پالیسی سے متعلق ہدایات کی حمایت کرنا ہے۔ ایسے گروہوں کو ‘ہمارے بغیر ہمارے بارے میں کچھ نہیں’ کے اصول پر عمل پیرا ہو کر ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔
دنیا بھر کے ممالک سے ان کی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں کے بارے میں جواب دہی ہونی چاہیے۔ کسی ملک کو کوویڈ-19 کو انسانی حقوق یا بنیادی آزادیوں کی پامالی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہم تمام ممالک سے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ویکسین کے معاملے پر غلط اطلاعات کے مسئلے سے نمٹیں۔ اگر ہم ایسا نہیں ٰکرتے تو گویا اپنے مقصد کو سنگین خطرے سے دوچار کریں گے۔
محفوظ اور موثر ویکسین تک رسائی کو وسعت دیتے ہوئے ہم جانتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں بھی کوویڈ-19 وبا پھوٹنے کا امکان موجود ہے۔ اس وبا کے آغاز سے متعلق جاری ماہرانہ تفتیش ــ اور اس حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ ــ کو غیرجانبدارانہ ہونا چاہیے جس کے نتائج کی بنیاد سائنس اور حقائق پر ہو اور وہ کسی مداخلت سے پاک ہوں۔
اس وبا کو بہتر طور سے سمجھنے اور آئندہ وبا سے نمٹنے کی تیاری کے لیے تمام ممالک کو کوئی وبا پھوٹنے کے ابتدائی ترین ایام سے دستیاب تمام معلومات مہیا کرنا ہوں گی۔ مستقبل کی جانب پیش رفت میں تمام ممالک کو صحت سے متعلق ہنگامی صورتحال کی روک تھام اور اس حوالے سے اقدامات کے لیے ایک شفاف اور موثر عمل میں شرکت کرنا ہو گی تاکہ دنیا ہر ممکن حد تک جلد از جلد زیادہ سے زیادہ معلومات سے آگاہ ہو سکے۔ شفافیت، معلومات کا تبادلہ، عالمی ماہرین کی رسائی ــ یہ ایک واقعتاً عالمگیر نوعیت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری عمومی سوچ کے بنیادی عناصر ہونے چاہئیں۔
قرارداد 2532 کے الفاظ آج بھی اتنے ہی برمحل ہیں جتنے یہ جولائی 2020 میں اس قرارداد کی منظوری کے وقت تھے۔ جنگ، تشدد اور صحت کے کمزور بنیادی ڈھانچے کے نتیجے میں کمزور جنگ زدہ ممالک کو بدستور وباؤں اور ایسی دوسری بیماریوں سے بہت بڑا خطرہ لاحق ہے جنہیں حفاظتی اقدامات کے نتیجے میں روکا جا سکتا ہے۔ اس وبا نے پہلے سے تباہ کن انسانی و سیاسی بحران کو مزید بدتر بنا دیا ہے جس سے اس قدر ضروریات نے جنم لیا ہے جس کی پہلی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ہم جانتے ہیں کہ تشدد اور جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر لوگوں کو ویکسین مہیا کرنے کی مہمات منظم کرنا اور ان پر عملدرآمد بے حد مشکل کام ہو گا۔ مگر ہمیں یہ کام کرنا ہے تاکہ انسانی بحران کو بدترین شکل اختیار کرنے اور وبا کے ثانوی اثرات کو نازک سیاسی حالات پر اثرانداز ہونے سے روکا جا سکے۔
جیسا کہ صدر بائیڈن نے واضح کر دیا ہے، امریکہ عالمگیر بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک شراکت دار کے طور پر کام کرے گا۔ یہ وبا ایسا ہی ایک بحران ہے۔ اس نے ہمیں ناصرف موجودہ بحران سے کامیابی کے ساتھ نکلنے بلکہ مستقبل میں مزید تیار رہنے اور مضبوط ہونے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔
آپ کا شکریہ، میں مشکور ہوں کہ مجھے اس مسئلے پر آپ سبھی کے ساتھ کام کرنے کا اہل سمجھا گیا جس سے ہم سب متاثر ہوئے ہیں۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-remarks-to-the-un-security-council-briefing-on-covid-19-and-vaccine-access/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔