امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
برائے فوری اجراء
17 مارچ، 2022
پریس بریفنگ روم
واشنگٹن، ڈی سی
وزیر خارجہ بلنکن: سبھی کو سہ پہر بخیر۔
تین ہفتے پہلے روس نے یوکرین کے خلاف اپنی بلااشتعال جنگ شروع کی۔
اس جنگ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں سمیت بہت سے عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
شہری تنصیبات پر روس کے حملے جاری ہیں جن میں صرف اسی ہفتے ہی ایک ہسپتال، تین سکولوں اور یوکرین کے علاقے لوہانسک میں نابینا بچوں کے ایک بورڈنگ سکول کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ روز روس کی افواج نے میریوپول میں ایک تھیٹر پر بمباری کی جہاں سیکڑوں لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔
اس عمارت کے دروازے کی جانب آنے والے راستے پر روسی زبان میں بہت بڑے حروف میں ”بچے” لکھا گیا تھا تاکہ فضا سے بھی نظر آ سکے کہ اس عمارت میں بچے موجود ہیں۔
روس کی افواج نے روٹی حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے 10 عام شہریوں پر بھی فائرنگ کی۔
یہ واقعات فوج پر نہیں بلکہ یوکرین بھر میں رہائشی عمارتوں، چوراہوں اور گزشتہ ہفتے میریوپول میں زچہ بچہ کے ہسپتال جیسی جگہوں پرعام شہریوں پر ہونے والے حملوں کے بہت سے واقعات کی چند مثالیں ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہم میں سے جس نے بھی یہ مناظر دیکھے ہیں وہ کبھی انہیں بھلا پائے گا۔
ہم اس سے پہلے گروزنی اور الیپو میں بھی روس کی جانب سے ایسی ہی جنگی کارروائیاں دیکھ چکے ہیں۔ انہوں ںے لوگوں کا عزم توڑنے کے لیے زوردار بمباری کی۔
گزشتہ روز صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی رائے میں یوکرین میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔
ذاتی طور پر میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا جنگی جرم ہے۔
گزشتہ تین ہفتوں میں ہونے والی تمام تر تباہی کے بعد میرے لیے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے کہ روس جنگی جرائم کا ارتکاب نہیں کر رہا۔
ماسکو کی اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ایندھن کی ترسیل کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ جنگ عالمی معیشت اور کووڈ۔19 کے خلاف جنگ پر کیسے اثرانداز ہو گی۔
یہ ایسے سنجیدہ مسائل ہیں جن سے عالمی برادری کو فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ان مسائل کا حل مزید مشکل بنا رہی ہے۔
اس طرح روس کے اقدامات کرہ ارض پر ہر جگہ ہر فرد پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
یہ اثر ہم یہاں اس کمرے میں بھی محسوس کر رہے ہیں۔
آج یہاں فاکس نیوز کے بینجمن ہال کے لیے بھی ایک نشست مخصوص ہونی چاہیے جو اس وقت شدید زخمی ہو گئے تھے جب ان کی گاڑی کیئو کے قریب روس کے حملے کی زد میں آئی تھی۔
مجھ سمیت ہم میں بہت سے لوگ بین کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں جو سفارتی دوروں میں بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک رپورٹر ہیں اور ہمیشہ مشکل سوالات پوچھتے ہیں۔ وہ بہت اچھی شخصیت کے مالک بھی ہیں۔
ہماری ہمدردیاں ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ ہیں جن میں ان کے تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔
فاکس نیوز میں بین کے دو ساتھی پیئر زوکچیفسکی اور ساشا کوفشینووا اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ٹائم میگزین کی جانب سے ذمہ داریاں انجام دینے والے رپورٹر برینٹ ریناؤڈ اس سے ایک روز قبل ایک علیحدہ حملے میں مارے گئے۔
میں جانتا ہوں کہ یہاں موجود ہر فرد ان جانی نقصانات پر بہت دکھی ہے۔
جنگ کی کوریج کرنا ایک اہم کام ہے۔ ایسے صحافی اپنے کام کے ذریعے یہ یقینی بناتے ہیں کہ دنیا کو علم ہو کہ جب فوجیں حرکت میں آتی ہیں اور بم برسنا شروع ہوتے ہیں تو دراصل کیا ہوتا ہے۔
اس کام کے لیے غیرمعمولی جرات بھی درکار ہے۔ ایسے لوگ اُس وقت جنگ زدہ علاقے میں جاتے ہیں جب قابل فہم طور پر دوسروں کو جلد از جلد وہاں سے نکلنے کی فکر ہوتی ہے۔
اسی لیے یقیناً یہ ناصرف ان لوگوں کے اہلخانہ اور دوستوں کے لیے بلکہ ان کے ساتھیوں، ان کے پیشے اور ان کے قارئین اور ناظرین کے لیے بھی بہت بڑے نقصانات ہیں جنہیں انہی جیسے لوگوں کی بدولت دنیا میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہی ملتی ہے۔
ہمارے ماہرین یوکرین میں کیے جانے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تفصیلات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔
اسی ہفتے سینیٹ کی جانب سے گلوبل کریمینل جسٹس کے لیے ہماری خصوصی سفیر کی حیثیت سے تقرری کی مںظوری حاصل کرنے والی بیتھ وین سکاک دفتر خارجہ میں اس کام کی قیادت کریں گی۔
ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ ہماری تحقیقات کے ذریعے جنگی جرائم کی تفتیش کی عالمی کوششوں میں مدد ملے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب ممکن ہو سکے۔
میں یہ بھی کہوں گا کہ یوکرین کی مدد کے مقصد سے کی جانے والی متعدد دیگر تقرریاں بھی سینیٹ سے منظوری کی منتظر ہیں جن میں آبادی، مہاجرین و مہاجرت کے امور سے متعلق معاون وزیر خارجہ، عالمی سلامتی اور جوہری اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے امور سے متعلق معاون وزیر خارجہ اور ہماری پابندیوں کی پالیسی سے متعلق رابطہ کار کے عہدے شامل ہیں۔
اسی لیے میں سینیٹ پر زور دیتا ہوں کہ وہ جتنا جلد ہو سکے ان نامزدگیوں کی منظوری دے تاکہ وہ جلد از جلد اپنا کام شروع کر سکیں۔
چند ہفتے قبل، روس کا حملہ شروع ہونے سے چند ہی ہفتے پہلے، میں یہ واضح کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گیا تھا کہ ہمارے خیال میں کیا ہونے جا رہا ہے۔
اسی طرح آج پھر ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ روس کا آئندہ اقدام کیا ہو سکتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ماسکو کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور پھر اس کارروائی کا جھوٹا الزام دوسروں پر عائد کر دے گا تاکہ یوکرین کے خلاف اپنے بڑھتے ہوئے حملوں کا جواز گھڑ سکے۔
بڑے پیمانے پر فوج کے استعمال کا جواز پیدا کرنے کے لیے دوسروں کے نام پر جعلی کارروائیاں کرنا اور جھوٹے بیانیے گھڑنا ایک ایسی چال ہے جو روس جارجیا سمیت متعدد جگہوں پر پہلے بھی چل چکا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ روس نجی عسکری گروہوں اور بیرون ملک سے اپنے کرائے کے سپاہیوں کو یوکرین میں لائے گا۔
صدر پیوٹن نے اس کا اعتراف بھی کیا جب گزشتہ ہفتے کے اختتام پر انہوں نے مشرق وسطیٰ اور دیگر جگہوں سے مزید فورسز کو بھرتی کرنے کی منظوری دی۔ یہ اس بات کا ایک اور اشارہ ہے کہ ان کی جنگی کوشش کے وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں جن کی انہوں نے امید باندھی تھی۔
ممکنہ طور پر وہ مقامی حکام کو اغوا کر کے ان کی جگہ اپنے کٹھ پتلی افراد کو بٹھا دیں گے۔
یہ کام بھی پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
کئی روز پہلے میریوپول کے میئر کو سڑک سے اٹھایا گیا اور گزشتہ روز قیدیوں کے تبادلے میں ان کی رہائی عمل میں آئی۔
جنوبی یوکرین میں ایک اور شہر کے میئر کو بھی اغوا کیا گیا۔ ان کی رہائی تاحال عمل میں نہیں آئی۔
یہ دہشت گرد چال ہے، حکام کو پکڑو، مقامی حکومتوں کو معزول کرو اور ان کی جگہ اپنے آلہ کاروں کو بٹھا دو۔
یوکرین کے شہروں کو تباہ کرنے کے بعد ماسکو مقامی سرکاری حکام کو روس سے لائے گئے اپنے حکام سے تبدیل کر سکتا ہے اور مقامی لوگوں کو اپنی بقا کے لیے ماسکو پر انحصار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایسے اقدامات میں اضافہ کر سکتا ہے جنہیں وہ ”معاشی مدد” کہتا ہے۔
یہ ویسا ہی اقدام ہے جیسا اس نے جارجیا میں کیا تھا۔
یوکرین پر صدر پیوٹن کے حملے کا نتیجہ ویسا نہیں نکلا جیسی انہوں نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
یوکرین کے لوگوں نے روس کی فوج کا خیرمقدم نہیں کیا۔ انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔
اس سے برعکس، وہ اپنے گھروں، اپنے خاندانوں اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے غیرمعمولی جرات سے لڑ رہے ہیں۔
روس کو جن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور اسے عالمی معیشت سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
اس کی اپنی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے۔
سیکڑوں کاروباری ادارے اپنا کام بند کر چکے ہیں۔
چند ہی ہفتوں میں صدر پیوٹن نے روس کے لوگوں کو دنیا کے ساتھ چلنے اور معاشی مواقع فراہم کرنے کے لیے کی جانے والی 30 سالہ محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔
کریملن میں طاقت کے بدعنوان مرکز سے تعلق رکھنے والے درجنوں لوگوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ ان میں بہت سے لوگ اپنی بڑی بڑی پرتعیش کشتیاں اور مہنگے گھر کھو چکے ہیں۔
صدر پیوٹن نے ان پابندیوں کا مذاق اڑایا اور ملک چھوڑنے والے روسی شہریوں کو برا بھلا کہتے ہوئے ان پر طنز کیا کہ وہ ”بطخ اور کستورا مچھلی” کھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اسی دوران وہ خود اپنے محلات میں بیٹھے ہیں اور انہوں نے روس کے لوگوں سے چھینی گئی اربوں ڈالر دولت اپنے پاس جمع کر رکھی ہے۔ عام لوگ روزمرہ اخراجات کے لیے رقم حاصل کرنے کی غرض سے بینکوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں اور اپنے سامنے دکانوں کو بند پاتے ہیں جبکہ روبل کی قدر تیزی سے گر رہی ہے۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ روس کے جرات مند لوگ جنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس پر انہیں مارا پیٹا اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔
روس کے صحافی ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اطلاعاتی اداروں سے مستعفی ہو رہے ہیں کیونکہ وہ کریملن کے جھوٹ کو مزید نہیں چھپا سکتے۔
اس کے باوجود صدر پیوٹن اپنے اقدامات سے باز نہیں آ رہے اور درحقیقت شاید مایوسی کے عالم میں مزید بے دھڑک اقدامات کر رہے ہیں۔
اسی لیے گزشتہ روز صدر بائیڈن نے مںظوری دی، معاف کیجیے منظوری نہیں بلکہ اعلان کیا کہ امریکہ یوکرین کو مزید 800 ملین ڈالر کی دفاعی امداد فراہم کرے گا۔
اس سے یوکرین میں اگلے محاذ پر لڑنے والوں کے لیے موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی امداد کا حجم دو بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا جن میں سے ایک بلین ڈالر گزشتہ ہفتے ہی دیے گئے ہیں۔
ہم اس سلسلے میں کانگریس کی پرعزم اور فیاضانہ شراکت کے مشکور ہیں جس نے اسی ہفتے یوکرین کے لیے فوری مدد کی غرض سے 13 بلین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل جاری کیے۔
ہم یوکرین کی مدد کرنے اور کریملن کے خلاف تادیبی اقدامات کے لیے اپنے قانون سازوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔
جیسا کہ صدر بائیڈن نے بیان کیا، یوکرین کے لیے اس نئی دفاعی امداد میں 800 طیارہ شکن نظام شامل ہیں تاکہ یوکرین کو مزید تباہ کرنے سے پہلے روس کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے والے 9000 بکتر بند شکن نظام، مشین گنوں اور گرینیڈ لانچروں سمیت 7000 چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود کے 20 ملین راؤنڈ بھی شامل ہیں۔
ہم صدر زیلنسکی کی درخواست پر یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے طیارہ شکن نظام اور گولہ بارود حاصل کرنے میں بھی مدد دے رہے ہیں۔
میرا یوکرین کے وزیر خارجہ کولیبا سے تقریباً روزانہ رابطہ ہوتا ہے اور میں یوکرین کی انتہائی فوری ضروریات کو جلد از جلد پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں۔
ہمارے اتحادی اور شراکت دار بھی یوکرین کے لیے بھیجی جانے والی اہم دفاعی امداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔
میں ںے ایک درجن سے زیادہ ممالک کو امریکہ میں تیار کردہ جنگی سازوسامان فراہم کرنے کی منظوری دی ہے اور دنیا بھر میں مزید درجنوں ممالک نے یوکرین کو اپنی جانب سے دفاعی امداد مہیا کی ہے۔
میں یہ بھی کہوں گا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے یوکرین کو مہیا کی جانے والے امداد کے علاوہ ہم دیگر اداروں سے بھی مدد بھیج رہے ہیں جن میں ہماری ڈپلومیٹک سکیورٹی سروس کی جانب سے فراہم کردہ 10 ملین ڈالر مالیت کی بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
گزشتہ روز میں نے پچھلے تین ہفتوں میں یوکرین سے جان بچا کر نکلنے والے تین ملین سے زیادہ پناہ گزینوں کی مدد کے لیے مزید 186 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں مہاجرین کا تیزترین رفتار سے بڑھتا ہوا بحران ہے جبکہ یوکرین میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے لوگ اس کے علاوہ ہیں۔
اس طرح گزشتہ مہینے سے اب تک یوکرین کے لیے ہماری انسانی امداد کا حجم 293 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
کانگریس یوکرین کے لیے جو 13 بلین ڈالر دے رہی ہے اس میں 4 بلین سے زیادہ رقم انسانی امداد کی فراہمی پر خرچ ہو گی۔
یورپ میں یوکرین کے ہمسائے فیاضانہ انداز میں مہجرین کا خیرمقدم کر رہے ہیں اور انہیں مدد مہیا کر رہے ہیں۔ امریکہ اس بہت بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان حکومتوں اور امدادی اداروں کی معاونت کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔
ہمارے اور ہمارے اتحادیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان تمام اقدامات کا ایک ہی مقصد ہے کہ جنگ کو بند کرایا جائے۔
یوکرین کو دی جانے والی ہماری امداد اور ماسکو کے خلاف ہمارے مالیاتی اور معاشی اقدامات سے سفارتی بات چیت میں یوکرین کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔
ہم مذاکرات کے لیے تیار رہنے اور کریملن کی جانب سے جاری وحشیانہ جارحیت کا سامنا کرتے ہوئے سفارتی راہ اختیار کرنے پر یوکرین کی ستائش کرتے ہیں۔
ہم جس طرح ممکن ہوا یوکرین کی سفارتی کوششوں میں اس کی مدد کریں گے۔
ہم تمام ممالک اور خاص طور پر روس کے براہ راست زیراثر ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ماسکو کو اس کی شروع کردہ جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنا ہر ممکن رسوخ استعمال کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خاص طور پر یہ چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صدر پیوٹن پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے اور اُن عالمگیر قوانین اور اصولوں کا دفاع کرے جن کی حمایت کا کا وہ اقرار کرتا ہے۔
تاہم یوں دکھائی دیتا ہے کہ چین اس جارحیت کی مذمت سے انکار کر کے اور خود کو ایک غیرجانبدار ثالث کے طور پر ظاہر کر کے اس سے مختلف سمت میں چل رہا ہے اور ہمیں تشویش ہے کہ وہ روس کو براہ راست فوجی سازوسامان دینے پر غور کر رہا ہے جسے یوکرین میں استعمال کیا جائے گا۔
صدر بائیڈن کل صدر ژی سے بات کر کے یہ واضح کریں گے کہ چین کو روس کی جارحیت کی حمایت کرنے کی قیمت چکانا پڑے گی اور ہم اس کے خلاف تادیبی اقدامات سے نہیں ہچکچائیں گے۔
میں یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ روز صدر زیلنسکی کا کانگریس اور امریکہ کے لوگوں کے لیے پیغام نہایت زور دار تھا۔
انہوں نے ہم سے مزید مدد مانگی اور ہم انہیں یہ مدد دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے لوگ اپنے لیے وہی کچھ چاہتے ہیں جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں جمہوریت، خودمختاری اور آزادی ہیں۔
جس کسی نے بھی گزشتہ تین ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے اسے ان آدرشوں سے یوکرین کی مضبوط وابستگی پر کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔
ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے جو اپنے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہے۔
ہم روس کے خلاف تادیبی اقدامات میں اضافہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ اپنی شروع کردہ جنگ بند نہیں کر دیتا۔
ہم یوکرین کے لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے امداد جاری رکھیں گے جو روس کی جارحیت کے ہولناک نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مجھے آپ سے چند سوالات لے کر خوشی ہو گی۔
مسٹر پرائس: پال۔
سوال: جناب، یوکرین اور روس کے مابین بات چیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا دونوں ممالک کوئی پیش رفت کر رہے ہیں؟ صدر زیلنسکی کی باتوں سے یوں لگتا ہے کہ وہ کچھ معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ بلنکن: جیسا کہ میں نے کہا، ہم یوکرین کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں، جس طرح کہ میرا وزیر خارجہ کولیبا سے رابطہ ہے۔ ہم ایسے دیگر ممالک سے بھی قریبی رابطے میں ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح اس مسئلے پر کسی ممکنہ سفارتی بات چیت سے تعلق ہو سکتا ہے۔
اب تک کی صورتحال پر مجھے یہ کہنا ہے کہ ایک جانب ہم یوکرین کو سراہتے ہیں کہ اس نے ایسے حالات میں سفارتی بات چیت کا راستہ اختیار کیا ہے جب اس پر روزانہ ہر لمحے بمباری ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ مجھے روس کی جانب سے اس جنگ کو سفارتی ذریعے سے ختم کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی بامعنی کوششیں ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
ہم سفارت کاری، جنگ بندی اور یقیناً روس کی افواج کی واپسی کے ذریعے کشیدگی میں کمی لانے کے لیے یوکرین کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم فرانس، جرمنی، اسرائیل، ترکی اور دیگر ممالک کی جانب سے اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کو بھی سراہتے ہیں۔ تاہم میں دوبارہ کہوں گا کہ سفارتی عمل کا تقاضا ہوتا ہے کہ دونوں فریقین باہم مل کر نیک نیتی سے کشیدگی میں کمی لانے کی کوششیں کریں اور جہاں میں موجود ہوں وہاں سے مجھے اس وقت ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ پیوٹن یہ جنگ بند کرنے پر آمادہ ہیں۔
اس سے برعکس، مثال کے طور پر اگر آپ ان کی تازہ ترین باتیں سنیں جو انہوں نے گزشتہ روز کی ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے الٹی سمت میں جا رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کے الفاظ کی پروا نہیں۔ ہماری توجہ ان کے اقدامات پر ہے اور ہم روس کی جانب سے روزانہ اور ہر لمحے اٹھائے گئے اقدامات کو دیکھیں تو یہ جنگ کو بند کرنے کی کسی سنجیدہ سفارتی کوشش سے بالکل برعکس ہیں۔
ہم روس کی جانب سے کشیدگی ختم کرنے، اس کی جانب سے یوکرین میں تشدد کا ارتکاب روکنے اور نیک نیتی سے بات چیت میں شامل ہونے کے منتظر ہیں۔ ہم یوکرین کی جانب سے ایسی کسی بھی کوشش کی حمایت کریں گے۔ ہم ان کی مدد کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ اگر کوئی بامعنی بات چیت ہوتی ہے اور اگر سفارتی عمل آگے بڑھتا ہے تو اس میں یوکرین کی پوزیشن مضبوط ہو۔ اسی مقصد کے لیے ہم یوکرین کو مدد دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ روس پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔
مسٹر پرائس: کائلی۔
سوال: جناب وزیر خارجہ، آپ کا شکریہ۔ آپ کا محکمہ تصدیق کر رہا ہے کہ آج یوکرین میں امریکہ کے ایک شہری کی موت واقع ہو گئی ہے۔ کیا آپ اس واقعے سے متعلق ہمیں کوئی مزید تفصیلات بتا سکتے ہیں کہ وہ شخص کون تھا اور کیا اس کی ہلاکت پر روس کو کسی طرح کے خاص نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ہفتے کے آغاز پر آپ نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی نہ کسی طور یوکرین قائم رہے گا اور ایسا وقت بھی آئے گا کہ پیوٹن نہیں رہیں گے۔ لیکن ہم روزانہ یوکرین کے لوگوں کو ہلاک ہوتا اور ان کے شہروں کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں آپ یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پیوٹن کو روس کے رہنما کی حیثیت سے ہٹا دیا جانا چاہیے؟ شکریہ۔
وزیر خارجہ بلنکن: کائلی، جہاں تک امریکہ کے شہری کا معاملہ ہے تو میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ یوکرین میں امریکہ کا ایک شہری ہلاک ہوا ہے۔ میرے پاس اس حوالے سے آپ کو بتانے کے لیے مزید تفصیلات نہیں ہیں لیکن میں اس واقعے کی تصدیق ضرور کر سکتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ میرے خیال میں یہ بات ناصرف مجھ پر بالکل واضح ہے بلکہ دنیا بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ ولاڈیمیر پیوٹن سے پہلے بھی آزاد یوکرین موجود تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ موجودہ صورتحال ہولناک طور سے کچھ عرصہ جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن جب یہ وقت گزر جائے گا تو آزاد یوکرین اپنی جگہ موجود ہو گا اور ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب پیوٹن اپنی جگہ پر نہیں ہوں گے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس عرصہ میں ہمیں کتنی موت اور تباہی دیکھنا پڑے گی۔ ہم روس کی شروع کردہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے یوکرین کی مدد کی جا رہی ہے اور اسی لیے روس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور اسی لیے ہم دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ دنیا یہ دیکھ چکی ہے۔ دنیا نے یوکرین کے لوگوں کا اپنے ملک، اپنے مستقبل اور اپنی آزادی کو قائم رکھنے کے لیے لامحدود عزم دیکھ لیا ہے۔ ولاڈیمیر پیوٹن اس عزم کو جھکانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ تاہم جیسا کہ میں نے کہا، کچھ عرصہ یہ صورتحال جاری رہ سکتی ہے اور ہم جتنا جلد ہو سکے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
سوال: کیا پیوٹن کو روس کے رہنما کی حیثیت سے برقرار رہنا چاہیے؟
مسٹر پرائس: کائلی، ہم کوشش اور حالات میں تبدیلی لانے کے لیے پیش رفت کریں گے۔
کونر۔
سوال: جناب وزیر خارجہ۔ آپ نے روس کی دہشت گرد چالوں کے بارے میں بتایا۔ کیا دفتر خارجہ روس کو ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کروانے والے ملک کے طور پر پابندیوں کے لیے نامزد کرے گا؟
دوسری بات یہ کہ آپ نے جو کچھ بتایا اور صدر نے حالیہ دنوں میں مجرم، قاتل آمر اور حقیقی غنڈے جیسے جو الفاظ استعمال کیے، انہیں مدنظر رکھتے ہوئے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جب تک ولاڈیمیر پیوٹن اقتدار میں ہیں اس وقت تک امریکہ اور روس کے مابین تعلقات کبھی معمول پر آ سکیں گے؟
وزیر خارجہ بلنکن: ہماری پہلی توجہ اس بات پر ہے کہ اس جنگ اور یوکرین پر روس کی جارحیت کے نتیجے میں یوکرین کے لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔ ہماری توجہ اسی پر ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہم صورتحال کا بالاحتیاط جائزہ لے رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے اور خاص طور پر یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا روس کی جانب سے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے یا نہیں۔
دوسرے اقدامات کے علاوہ شہریوں کو جان بوجھ کر ہلاک کیا جانا بھی جنگی جرم ہے۔ آپ نے گزشتہ روز صدر بائیڈن کی بات سنی ہو گی۔ آپ چند منٹ پہلے اس حوالے سے میری بات بھی سن چکے ہیں۔ اسی لیے ہم تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ ہم بہت سے حلقوں، اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ایسے واقعات کی شہادتیں جمع کرنے اور انہیں ترتیب دینے کوششوں کا خیرمقدم کریں گے اور پھر کسی نہ کسی انداز میں ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب کریں گے۔
جہاں تک روس کے دیگر اقدامات کی بنیاد پر اس کے خلاف پابندیوں کا معاملہ ہے تو ہم اس کے ہر پہلو کا جائزہ لیں گے۔
مسٹر پرائس: یولیا یارمولینکو۔
سوال: دوسرے سوال کا جواب؟ میں معذرت چاہتی ہوں۔
وزیر خارجہ بلنکن: میں معذرت چاہتا ہوں، مجھے یاد دلائیے۔
سوال: جب تک پیوٹن برسراقتدار ہیں کیا اس دوران روس اور امریکہ کے مابین تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں؟
وزیر خارجہ بلنکن: میں دوبارہ کہوں گا کہ ہماری توجہ یہ جنگ بند کرنے پر مرکوز ہے۔ میں مستقبل کے بارے میں اندازے پر مبنی کوئی بات نہیں کہنا چاہتا لیکن جارحیت پر مبنی اس جنگ پر کسی نہ کسی طرح احتساب ہونا ہے۔
مسٹر پرائس: یولیا یارمولینکو، وی او اے یوکرین۔
سوال: شکریہ۔ اگر یوکرین اور روس کے مابین ممکنہ بات چیت کو دیکھا جائے تو اگر روس حملے بند کرنے اور اپنی افواج یوکرین سے نکالنے پر رضامند ہو جائے تو سلامتی کے حوالے سے ایسا کیا انتظام کیا جائے گا کہ جس سے یہ ضمانت مل سکے کہ روس یوکرین پر دوبارہ جارحیت نہیں کرے گا؟ اگر اس سلسلے میں یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہیں دی جاتی تو اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟
ایک اور سوال۔ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ یوکرین سے آنے والے مہاجرین کا کھلے دل سے خیرمقدم کرے گا جبکہ اب تک یوکرین کے ایسے شہریوں کے لیے کوئی سرکاری ویزا یا کوئی دوسرا پروگرام شروع نہیں ہوا جو جنگ میں جان بچا کر ملک سے نکل رہے ہیں یا جو اپنے خاندانوں سے ملنے کے لیے امریکہ آنا چاہتے ہیں۔ کیا دفتر خارجہ یوکرین کے مہاجرین کے لیے کسی خصوصی اور فوری نوعیت کے پروگرام پر کام کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ پروگرام کب شروع کیا جا سکتا ہے؟
وزیر خارجہ بلنکن: شکریہ۔ جہاں تک سفارتی عمل کی بات ہے تو میں یہ اندازہ قائم نہیں کروں گا کہ ایسی کوئی بات چیت ہوئی تو یہ کس طرف جا سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہم یوکرین کی جمہوری طور سے منتخب کردہ حکومت کے ہر اقدام کی پوری طرح اور بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اس جنگ کو سفارتی ذریعے سے جلد از جلد ختم کرنے کے لیے یوکرین کی جانب سے جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا ہم بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے یوکرین کو کشیدگی کا خاتمہ درکار ہے۔ یوکرین کے لیے ضروری ہے کہ روس کی افواج ملک سے نکل جائیں۔ اسے اپنی بنیادی آزادی اور خودمختاری واپس چاہیے لیکن میں یہ یوکرین سے تعلق رکھنے والے اپنے شراکت داروں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ آیا سفارتی بات چیت مفید ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ ہم ہرممکن طور سے ان کی مدد کریں گے۔
اگر بات چیت کے عمل میں کسی طرح کے معاملات پر ہماری مدد کی ضرورت پڑی تو ہم دیکھیں کہ انہیں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم وہ کام پورا کرنا چاہتے ہیں جو ہم اس وقت کر رہے ہیں یعنی یوکرین کی حکومت اور یوکرین کے عوام کی مدد کرنا اور روس پر دباؤ ڈالنا۔ اگر بالاآخر اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی عمل شروع ہو جاتا ہے اور ہم سفارت کاری میں مدد دینے اور یوکرین کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو یقیناً کریں گے۔
پناہ گزینوں کے معاملے میں مجھے چند باتیں واضح کرنا ہیں۔ پہلی یہ کہ جیسا میں نے کہا، یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں مہاجرین کا سب سے بڑا بحران ہے۔ مہاجرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور یقیناً، بعض اوقات ایک چیز ان اعدادوشمار میں چھپ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس بحران میں انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں اور تبدیل ہو رہی ہیں، شاید ہمیشہ کے لیے نہیں لیکن ان کی زندگیوں پر اس بحران کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
چند ہفتے پہلے جب میں نے پولینڈ اور یوکرین کی سرحد کا دورہ کیا تو وہاں میں نے براہ راست ایسے لوگوں کی باتیں سنیں جو روس کے حملے میں جانیں بچانے کے لیے سرحد پار کر کے آئے تھے۔ ایسے لوگوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے جبکہ مرد لڑنے کے لیے یوکرین میں ہی رہ گئے ہیں۔
ہم نے یوکرین پر اس جنگ کے اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہم یوکرین کے ہمسایہ ممالک پولیںڈ، مولڈووا، رومانیہ اور دیگر میں اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک کی فیاضی غیرمعمولی ہے۔ تاہم یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ مسئلہ گھمبیر ہو رہا ہے۔ آج صبح میں نے جی7 میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کی اور اس دوران ان مہاجرین کو سنبھالنے کے لیے مربوط طریقہ کار اختیار کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
امریکہ پہلے ہی یوکرین کو سب سے زیادہ انسانی امداد دے رہا ہے اور بدستور دیتا رہے گا۔ حالیہ دنوں اس کے لیے منظور کی جانے والی امداد میں چار ارب ڈالر انسانی امداد کی مد میں دیے گئے ہیں جو براہ راست یوکرین کو ملیں گے۔ اس سے یوکرین کے ہمسایہ ممالک کی مدد بھی کی جائے گی جو مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہم اس کوشش میں مدد دینے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے ‘یواین ایچ سی آر’ کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں ہیں۔
آخر میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین کے لوگوں کو یہاں امریکہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملانے کے لیے اور ایسے دیگر معاملات میں ہم براہ راست کیا کر سکتے ہیں اور اس کوشش میں کیسے مدد دے سکتے ہیں۔
اس بارے میں مجھے آخری بات یہ کہنا ہے کہ امریکہ میں مہاجرین کو داخلے کی اجازت دینے سے متعلق ایک طریقہ کار موجود ہے تاہم اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن اگر لوگ مہاجر کی حیثیت سے امریکہ آنے کی درخواست دیں تو یقیناً ہم اس پر کام کریں گے۔ لیکن ابھی ہم ایسے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں جو ہم مختصرمدتی طور پر اٹھا سکتے ہیں۔
آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں، کم از کم ابتدائی طور پر ہمیں نظر آ رہا ہے کہ یوکرین سے آنے والے بہت سے لوگ قابل فہم طور پر اپنے گھر سے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہوا اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔ وہ اس لیے بھی اپنے گھروں سے قریب رہنا چاہتے ہیں کیونکہ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، بہت سی خواتین اور بچے اپنے شوہر، والد اور بھائیوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ جتنا جلد ممکن ہو ان سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں اسی لیے ایسے مہاجرین اپنے ملک کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم مہاجرین کی تعداد میں اضافے اور ہمارے یورپی شراکت داروں پر ان کا بوجھ بڑھنے کی صورت میں یقیناً ہم ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کریں گے۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے پاس اس بارے میں کہنے کے لیے مزید باتیں ہوں گی۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر اس وقت ہماری بھرپور توجہ ہے۔
مسٹر پرائس: اب ہمارے پاس آخری سوال کے لیے وقت بچا ہے۔ ایںڈریا جلدی سے یہ سوال کریں گی۔
سوال: جناب وزیر خارجہ، آپ نے عام شہریوں پر ہونے والے ہولناک حملوں کا خاکہ کھینچا ہے۔ آپ نے کہا کہ آپ صدر کی اس بات سے متفق ہیں کہ ایسے واقعات جنگی جرائم کی ذیل میں آتے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے بھی گزشتہ ہفتے کہا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونا باقی ہیں لیکن اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب کیسے ہو گا؟ اگر ولاڈیمیر پیوٹن قصور وار ٹھہرائے جاتے ہیں تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہو گی جبکہ وہ ملک کے سربراہ ہیں؟ اس صورت میں کیا ہونا چاہیے (ناقابل سماعت)؟ دنیا کو بتائیے۔
وزیر خارجہ بلنکن: اینڈریا، میں اس حوالے سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور آپ واضح طور پر ٹی وی پر دکھا رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یوکرین سے تباہی کے مناظر سامنے آ رہے ہیں اور ہم روس کے بموں اور گولہ باری سے ملک کی اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہری تنصیبات تباہ کی جا رہی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیکڑوں، ہزاروں عام شہریوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ جی ہاں، میں دوبارہ کہوں گا، جیسا کہ صدر نے گزشتہ روز اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہم جتنی تباہی دیکھ چکے ہیں اس کے بعد اس سے برعکس نتیجہ نکالنا بہت مشکل ہے۔
میں آپ کے سوال کی جانب آؤں گا کہ سب سے پہلے ہماری توجہ شہادتیں جمع کرنے کے اہم ترین کام پر مرکوز ہے، ہمیں یہ تفصیلات مرتب کرنا ہیں کہ یوکرین میں کیا ہوا اور اس سلسلے میں انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور اس معاملے کو دیکھنے والے موزوں اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور ان کی مدد کرنی ہے۔ اسی لیے ہمیں شہادتیں جمع کرنے کے عمل سے گزرنا ہے اور ان شہادتوں کو سمجھنا ہے۔ ہم ایسے واقعات کے ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعے سے کام لیں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے اتحادی اور شراکت دار بھی ان ثبوتوں کو مدنظر رکھ کر یہی کچھ کریں گے۔ میں اس بارے میں قبل ازوقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا یا ذمہ داروں کو کیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ جنگی جرائم کے ذمہ داروں سے جواب طلبی ہو گی۔
سوال: الیپو اور گروزنی میں پیش آنے والے واقعات کے بعد آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ وہ جنگی مجرم کی حیثیت سے تواتر سے یہی کچھ کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ بلنکن: اینڈریا، روس کے حملے سے پہلے جب ہم نے یہ کہا تھا کہ ایسے اقدام کے سنگین نتائج ہوں گے جن میں بے مثل پابندیاں بھی شامل ہیں تو بہت سے لوگوں نے ہماری اس بات پر شبے کا اظہار کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ جب ہم نے کہا کہ ہم یوکرین کو اپنا دفاع کرنے کے لیے پائیدار اور بھرپور مدد فراہم کریں گے تو ہم نے اپنی بات کو سچ ثابت کیا۔ لہٰذا جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ ہر طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب ہو گا اور ان سے جواب طلبی کی جائے گی تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ میری بات پر یقین کریں گی تاہم الفاظ کے بجائے عملی اقدامات کسی عمل کی زیادہ اچھی وضاحت ہوتے ہیں۔
مسٹر پرائس: آپ سبھی کا بہت شکریہ۔
وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا شکریہ۔ آپ کا شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-a-press-availability-16/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔