امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کی گفتگو
کامن ویلتھ پارلیمنٹری آفسز
میلبورن، آسٹریلیا
11 فروری، 2022
وزیر خارجہ پیئن: اچھا، ساتھیو، مجھے آپ اور آپ کے ساتھیوں کا میلبورن اور آسٹریلیا میں خیرمقدم کر کے جو خوشی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ میں اپنی بات کے آغاز پر میلبورن میں اس زمین کے روایتی مالکوں یعنی وورنجری باشندوں سے اظہار تشکر کرنا چاہتی ہوں، جس پر آج ہم آپس میں مِل رہے ہیں اور ان کے ماضی کے اجداد، موجودہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کو تعظیم پیش کرتی ہوں۔
میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی کہ مجھے وزیر خارجہ جے شنکر، وزیر ہایاشی اور سیکرٹری بلنکن کا کواڈ کی ان نہایت اہم اور مشترکہ کوششوں کے آئندہ مرحلے کے لیے خیرمقدم کر کے کتنی خوشی ہوئی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور اس حوالے سے ہمارے ہر کام سے واضح ہے، کواڈ کُھلے پن، شفافیت اور کووڈ۔19 کے ہوتے ہوئے علاقائی سطح پر بحالی اور علاقائی سلامتی میں مدد دینے کے لیے عملی تعاون کے لیے وقف شراکت ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ چار عظیم جمہوریتیں ہند۔ الکاہل سے تعلق رکھنے والے شراکت دار ممالک کی ترجیحات میں معاونت کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
آسٹریلیا کے لیے انڈیا، جاپان اور امریکہ قریب ترین شراکت داروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہند۔ الکاہل میں تزویراتی مسابقت کے جواب میں ہم خطے بھر کے ممالک کی دلچسپی کے اہم ترین امور پر اپنے اقدامات کو واضح کرنے اور مربوط بنانے کے لیے اکٹھے کام کر رہے ہیں جبکہ اس دوران ہماری توجہ ان ممالک کی ضروریات اور ترجیحات پر مرکوز ہے۔ ہمارا مقصد اپنے خطے کو تزویراتی راہیں دکھانا اور تمام ممالک کو مسائل سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔
ساتھیو، ہم کووڈ۔19 وباء کے تیسرے سال میں داخل ہو رہے ہیں اور اس تناظر میں ہم خطے کے ممالک کی مدد کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں گے تاکہ زندگیوں اور کاروبار کو تحفظ مل سکے۔ مجموعی طور پر ہم نے اس خطے کے ممالک کو ویکسین کی 500 ملین سے زیادہ خوراکیں مہیا کی ہیں جو کہ عالمی سطح پر ویکسین کی 1.3 بلین خوراکیں عطیہ کرنے کے ہمارے وعدے کا ایک حصہ ہے۔ مگر ہماری مدد ویکسین کی خوراکیں دینے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہم لوگوں کو محفوظ طریقے سے ویکسین لگانے میں مدد دے رہے ہیں۔ ہم انڈیا میں ویکسین کی مزید ایک بلین خوراکوں کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
آج ہم نے بہت سے امور پر بات کرنا ہے۔ ہم یہ تبادلہ خیال کریں گے کہ انسانی امداد اور قدرتی آفات میں تحفظ کی فراہمی، سمندری سلامتی، غلط اطلاعات کے پھیلاؤ سے نمٹنے، غیرقانونی سائبر سرگرمیوں پر قابو پانے، انسداد دہشت گردی اور یقیناً موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے جیسے دیگر مسائل پر ہم اپنے باہمی تعاون کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
کواڈ کی حیثیت سے ہم آسیان کی مرکزیت کی حمایت کرتے رہیں گے جس میں ہند۔ الکاہل میں آسیان کے نقطہء نظر کے عملی طور پر اطلاق میں تعاون بھی شامل ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ ہمارا مقصد واضح ہے۔ ہمیں ایک کھلے، جامع اور مضبوط خطہء ہند۔ الکاہل کے لیے کام کرنا ہے جو ایسا خطہ ہو جہاں، جیسا کہ میں نے کہا، خودمختار ممالک کسی طرح کے جبر سے بے نیاز ہو کر اپنی تزویراتی راہ کا انتخاب کر سکیں تاکہ ان کے لوگوں کو خوشحالی میسر آئے۔
لہٰذا میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ مجھے ہماری بات چیت شروع ہونے کا انتظار ہے اور اب مجھے اپنے بہت اچھے دوست ڈاکٹر جے شنکر کو بات کی دعوت دینے ہوئے خوشی ہے۔
وزیر برائے خارجہ امور جے شنکر: میں میریس، اپنے عزیر ساتھیوں اور ان کی ٹیموں کا مشکور ہوں۔ کواڈ وزرائے خارجہ کے چوتھے اجلاس کے لیے آسٹریلیا آنا میرے لیے نہایت خوشی کا باعث ہے اور میں اس حقیقت کی بھی قدر کرتا ہو کہ یہ ہم سب کے لیے باہم ملاقاتوں کا موقع بھی ہے۔ میریس، میں اس خوبصورت شہر میلبورن میں ہماری میزبانی کرنے پر آسٹریلیا کی حکومت اور آپ کی گرمجوش مہمان نوازی کی تہہ دل سے قدر کرتا ہوں۔ مجھے پہلی مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔
فروری 2021 میں ہماری آخری ملاقات کے بعد اب عالمی جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی معاشی منظرنامہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ بڑی جمہوریتوں کی حیثیت سے ہم جبر سے پاک اور قانون کی بنیاد پر عالمی نظام کو قائم رکھنے کے اپنے مشترکہ تصور کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جس کی بنیاد علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام، قانون، شفافیت، عالمی پانیوں میں نقل حرکت کی آزادی اور تنازعات کے پُرامن حل پر ہے۔
کواڈ کے ڈھانچے کے تحت ہمارا باہمی ربط بہت مفید رہا ہے۔ گزشتہ سال ملکی سربراہوں کی سطح پر دو کانفرنسوں کے ذریعے اس نے مضبوطی اور رفتار پکڑی ہے۔ ہم نے ایک پُرعزم اور تعمیری ایجنڈا اپنایا ہے جس میں اِس دور کے بہت سے نمایاں مسائل کا حل موجود ہے۔ ان میں خطہء ہند۔ الکاہل کے مسائل خاص طور پر اہم ہیں۔ یہ بات سربراہ کانفرنس کے موقع پر ہمارے رہنماؤں کی مثبت سوچ اور اس موقع پر ان کی بیان کردہ تمناؤں سے پوری طرح عیاں تھی۔
اِس وقت جبکہ وباء ہم پر اثرانداز ہو رہی ہے، ہمیں عالمگیر تحفظ صحت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مجموعی کوششیں کرنا ہیں۔ ویکسین کی فراہمی سے متعلق کواڈ کا اقدام اور جیسا کہ محترمہ وزیر خارجہ نے بتایا، ہماری جانب سے ویکسین کی مجموعی فراہمی ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ہند۔ الکاہل کے ممالک کے لیے بہت اہم رہی ہے۔ ہم تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام مضبوط بنانے، بااعتماد ٹیکنالوجی کی دستیابی، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدام اور تعلیمی (ناقابل سماعت) کے لیے دوررس اقدامات اور کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس انسانی امداد مہیا کرنے اور قدرتی آفات سے بچاؤ میں مدد دینے نیز دہشت گردی، سائبر سکیورٹی، سمندری سلامتی اور غلط اطلاعات کے پھیلاؤ جیسے عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کی خاصی گنجائش موجود ہے۔
انڈیا دوطرفہ تعاون کے طریقہ ہائے کار کے ذریعے ہند۔ الکاہل سے متعلق ایک مستعد اور کثیر رخی حکمت عملی سے کام لے رہا ہے اور اس کے ساتھ آسیان جیسی علاقائی تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کر رہا ہے جس کی ہند۔ الکاہل کے حوالے سےمرکزیت کا ہم نے اعتراف کیا ہے۔ خطے سے باہر کے ممالک کی جانب سے ہند۔ الکاہل پر توجہ میں اضافہ ہوتے دیکھنا خوش آئند ہے۔ میں آج ہونے والی ہماری بات چیت کا منتظر ہوں اور میریس، میں یہ موقع مہیا کرنے پر ایک مرتبہ پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں (ناقابل سماعت)۔
وزیر خارجہ پیئن: جے، آپ کا بہت شکریہ۔ اب ہم وزیر خارجہ ہایاشی کے خیالات سنیں گے۔
وزیر خارجہ ہایاشی: آپ کا بہت شکریہ، مجھے جاپانی زبان میں بات کرنے کی اجازت دیجیے، اگر آپ کو میری بات سمجھ نہ آئے تو میں معذرت چاہوں گا۔
(جاپانی زبان میں)
وزیر خارجہ پیئن: آپ کا بہت شکریہ۔ میں آپ کی باتوں کی قدر کرتی ہوں اور آپ کی یہاں موجودگی ہمارے لیے بہت خوشی کا باعث ہے۔ وزیر خارجہ بلنکن؟
وزیر خارجہ بلنکن: میریس، آپ کا بہت شکریہ۔ ہمیں اس شاندار شہر میں ایک جگہ اکٹھا کرنے پر میں آپ کا مشکور ہوں جسے مجھے گزشتہ 24 گھنٹے میں دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ موجودگی میرے لیے بے حد خوشی کا باعث ہے۔ میں آپ تینوں کو سننے کے بعد یہی کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ کہا گیا میں اس سے شدید اتفاق کرتا ہوں۔ (قہقہہ)
آج ہم ایک آزاد اور کُھلے ہند۔ الکاہل کے بارے میں اپنے تصور اور اس تصور کو عملی روپ دینے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایک سال پہلے ہماری چاروں جمہوریتوں نے کواڈ کو حقیقی طور سے دوبارہ مضبوط بنانے کا ہدف طے کیا تھا اور اس کے بعد ہم نے ناصرف اپنے ممالک میں بلکہ اس پورے خطے میں لوگوں کو فوائد پہنچانے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس مختصر وقت میں حاصل کی گئی حقیقی کامیابیاں جائز طور سے گِنوا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں آج کے اجلاس کا مقصد اس پیش رفت کو آگے بڑھانا ہے اور میں جلدی سے ان چند شعبوں کے بارے میں بتانا چاہوں گا جہاں مجھے امید ہے کہ ہم اپنی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
ان میں ایک یہ ہے کہ ہمیں باہم مل کر کووڈ۔19 وباء کا خاتمہ کرنا ہے۔ ہم 2022 کے آخر تک محفوظ و موثر ویکسین کی کم از کم ایک بلین خوراکیں تیار کرنے کے اپنے ہدف کی جانب کامیابی سے پیش رفت کر رہے ہیں جبکہ ویکسین کی 1.2 بلین خوراکوں کے مجموعی عطیے کا وعدہ اس کے علاوہ ہے۔ آج ہم ان اضافی اقدامات پر بات کریں گے جو ہم یہ یقینی بنانے کے لیے اٹھا سکتے ہیں کہ تمام ممالک میں وباء سے بحالی یکساں بنیادوں پر ہو جس میں ویکسین کی تقسیم بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کے لیے مضبوط نظام کیسے قائم کر سکتے ہیں۔
ہم سمندری تعاون، ساحلی سلامتی کو بہتر بنانے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم سلامتی کے شعبے میں (ناقابل سماعت) شراکت داروں کو اکٹھا کرنے پر بات چیت بھی کریں گے جس کی علاقائی استحکام اور تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام مضبوط اور محفوظ بنانے میں خاص اہمیت ہے۔ ہم قانون کی بنیاد پر قائم عالمی نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کے لیے باہم مل کر کام جاری رکھیں گے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے بارے میں ہم سب نے بات کی ہے اور جو دہائیوں تک اس خطے میں سلامتی اور بڑھتی ہوئی خوشحالی کا ضامن رہا ہے۔ اس میں تمام ممالک کے لیے آزادانہ طور پر اور کسی جبر کے بغیر اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا حق اور اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کا حق بھی شامل ہے جو یہاں ہند۔ الکاہل، یورپ اور دنیا میں ہر جگہ تمام ممالک کا یکساں حق ہے۔
یوکرین کو اس وقت روس سے لاحق خطرہ اور بعض ممالک کی جانب سے ماسکو کے خطرناک اقدامات کے لیے حمایت کا اظہار اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ کیسے ان قوانین کو خطرے کا سامنا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کیوں ہمیں ان قوانین کے دفاع کے لیے باہم متحد ہونا ہے۔ ہم ایسے نئے شعبے بھی تلاش کریں گے جہاں ہم اپنی مجموعی طاقتوں سے کام لے سکتے ہیں کیونکہ ہمیں جو مسائل درپیش ہیں وہ اتنے بڑے ہیں کہ انہیں ہم میں سے کوئی ایک ملک اکیلا حل نہیں کر سکتا۔ ہم سب اپنی اپنی تجاویز لے کر آئے ہیں کہ ہم یہ مقصد کیسے حاصل کر سکتے ہیں جن میں نمایاں غیرحکومتی ماہرین اور موجدین کے مابین تعاون بڑھانے سے متعلق میری اپنی ٹیم کے منصوبے بھی شامل ہیں اور ہمارے ممالک کے پاس ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
لہٰذا اس بارے میں بہت کچھ کہا جانا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ چند گھنٹوں میں بہت کچھ کہا جائے گا۔ میریس، ہمیں اکٹھا کرنے پر میں ایک مرتبہ پھر آپ کا مشکور ہوں اور میرے خیال میں ہمارے مابین اچھی بات چیت ہو گی۔
وزیر خارجہ پیئن: شکریہ ٹونی۔ تمام لوگوں کا شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/remarks-february-11-2022-secretary-antony-j-blinken-opening-remarks-at-the-quadrilateral-security-dialogue-meeting-february-11-2022-commonwealth-parliamentary-offices-melbourne-australia-forei/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔