امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
13 ستمبر، 2021
2172 رے برن ہاؤس بلڈنگ
واشنگٹن، ڈٰی سی
وزیر خارجہ بلنکن: جناب چیئرمین، آپ کا بہت شکریہ۔ آج یہاں مدعو کرنے پر میں جناب چیئرمین، رینکنگ ممبر میکال کا مشکور ہوں۔ میں افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی پر تبادلہ خیال کا موقع ملنے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس موقع پر ہم یہ بات بھی کریں گے کہ افغانستان کے حوالے سے اس وقت ہماری پالیسی کیا ہے، ہم کیسے (ناقابل سماعت) اور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ہم کہاں ہوں گے۔
گزشتہ 20 سال سے کانگریس نے افغانستان میں ہمارے مشن کی نگرانی کی اور اس کے لیے مالی وسائل مہیا کیے ہیں۔ ماضی میں جب صدر بائیڈن سینیٹر تھے تو ان کے عملے کے رکن کی حیثیت سے میں خود یہ دیکھ چکا ہوں کہ کانگریس اس معاملے میں کس قدر قابل قدر شراکت دار رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی نامزدگی کے موقع پر کہا، میں خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کانگریس کے روایتی کردار پر بھرپور یقین رکھتا ہوں۔ میں مستقبل میں افغانستان میں آپ کے ساتھ کام کرنے اور امریکی عوام کے مفادات کی تکمیل کا عزم رکھتا ہوں۔
9/11 کی 20 ویں برسی کے موقع پر اس واقعے میں جانیں دینے والے قریباً 3,000 مرد، خواتین اور بچوں کو تعظیم پیش کرتے ہوئے ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ ہم پہلی مرتبہ افغانستان میں کیوں گئے تھے اور اس کا سبب ہم پر حملہ کرنے والے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور یہ یقینی بنانا تھا کہ ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔ ہم نے بہت پہلے یہ مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ اسامہ بن لادن ایک دہائی پہلے 2011 میں ہلاک ہو گیا تھا۔ القاعدہ کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر نقصان پہنچا جن میں اس کی بیرون ملک کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان کے ارتکاب کی اہلیت بھی شامل ہے۔ 20 سال میں امریکہ نے 2,641 جانیں گنوائیں، ہمارے 20,000 لوگ زخمی ہوئے، ہم نے افغانستان میں 2 ٹریلین ڈالر خرچ کیے اور اب امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کا وقت تھا۔
جنوری میں جب صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالا تو انہیں اپنے پیشرو کی جانب سے طالبان کے ساتھ کیا گیا ایک معاہدہ ورثے میں ملا جس کی رو سے امریکہ کو اس سال یکم مئی تک افغانستان سے اپنی تمام بقیہ افواج واپس بلانا تھیں۔ اس معاہدے میں سابقہ امریکی انتظامیہ نے افغان حکومت پر 5,000 طالبان قیدی رہا کرنے پر زور دیا جن میں ان کے بعض اعلیٰ سطحی جنگی کمانڈر بھی شامل تھے۔ اسی دوران امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں ہماری افواج کی تعداد کم کر کے 2,500 کر دی۔
اس اقدام کے جواب میں طالبان نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر حملے روکنے اور افغانستان کے بڑے شہروں کے لیے خطرہ بننے سے باز رہنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم طالبان نے شہروں سے باہر دور دراز بیرونی چوکیوں، شہروں میں داخلے کے مقامات، دیہات اور اضلاع نیز انہیں باہم جوڑنے والی بڑی سڑکوں کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔
جنوری 2021 تک طالبان 9/11 کے بعد مضبوط ترین جنگی پوزیشن میں آ گئے تھے اور وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 2001 کے بعد کم ترین سطح پر تھی۔
نتیجتاً صدر بائیڈن کو عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا جنگ ختم کی جائے یا اسے بڑھایا جائے۔ اگر وہ اپنے پیشرو کے وعدوں کو پورا نہ کرتے تو ہماری افواج اور ہمارے اتحادیوں پر حملے جاری رہتے اور افغانستان بھر میں بڑے شہروں پر طالبان کا حملہ شروع ہو جاتا۔ ایسے میں ہمیں اپنے دفاع اور طالبان کو ملک پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں مزید فوج افغانستان بھیجنا پڑتی جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتیں بھی ہوتیں۔ نتیجتاً زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ افغانستان کے حالات جوں کے توں رہتے اور ہم بدستور حملوں کی زد میں ہوتے ہوئے لامحدود مدت تک افغانستان میں پھنسے رہتے۔
اس بات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ہم افغانستان میں مزید قیام کرتے تو اس کی سکیورٹی فورسز یا افغان حکومت مزید مضبوط یا اپنا دفاع خود کرنے کے قابل ہو جاتی۔ اگر وہاں 20 سال گزارنے اور امداد، سازوسامان اور تربیت کی مد میں اربوں ڈالر خرچ کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو ایک اور سال یا مزید پانچ یا دس سال وہاں رہنے سے کیا حاصل ہو جاتا؟
اس سے برعکس چین اور روس جیسے ہمارے تزویراتی حریف یا ایران اور شمالی کوریا جیسے مخالفین یہ چاہتے کہ امریکہ اپنی 20 سالہ جنگ کو نئے سرے سے شروع کرے اور ایک اور دہائی تک افغانستان میں پھنسا رہے۔
صدر کے فیصلے سے پہلے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے خیالات سے آگاہی اور انہیں اپنی سوچ سے مطلع کرنے کے لیے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ جب صدر نے افغانستان سے واپسی کا اعلان کیا تو نیٹو نے فوری اور متفقہ طور پر اس فیصلے کو قبول کیا۔ افغانستان سے واپسی کے فیصلے پر ہم سبھی متفق تھے۔
اسی طرح ہم نے افغانستان میں امریکیوں کے تحفظ پر بھرپور توجہ دی۔ مارچ میں ہم نے ان پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ مارچ اور اگست کے درمیان ہم نے مجموعی طور پر 19 ایسے مخصوص انتباہی پیغامات بھیجے اور ان لوگوں کو واپسی کے لیے جہاز کی ٹکٹوں کے لیے مالی معاونت سمیت ہر طرح کی مدد دینے کی پیشکش کی۔
اس کوشش کے باوجود جب انخلاء کا آغاز ہوا تو ہزاروں امریکی شہری افغانستان میں موجود تھے جن میں سے تقریباً تمام کو 31 اگست تک وہاں سے نکالا جا چکا ہے۔ ان میں بہت سے دہری شہریت کے مالک بھی تھے جو سالہا سال، دہائیوں اور کئی نسلوں سے افغانستان میں رہ رہے تھے۔ وہ جس جگہ کو اپنا گھر سمجھتے تھے اسے چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کا فیصلہ نہایت تکلیف دہ تھا۔
اپریل میں ہم نے اپنے سفارت خانے کے عملے میں کمی کرنا شروع کی اور غیرضروری عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
ہم نے اس وقت کو ایسے افغانوں کے لیے تارکین وطن کے خصوصی ویزے کے اہتمام کی رفتار نمایاں طور پر تیز کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جنہوں نے گزشتہ 20 سال میں ہمارے ساتھ کام کیا تھا اور اس عرصہ میں ہمارا ساتھ دیتے رہے تھے۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں ایک پروگرام ورثے میں ملا تھا جس میں 14 مراحل پر مشتمل ایک طریقہ کار بھی شامل تھا جس کی بنیاد کانگریس کی جانب سے نافذ کردہ قانونی فریم ورک پر تھی اور اس میں بہت سے حکومتی ادارے بھی شامل تھے جبکہ ہمارے پاس تارکین وطن کے خصوصی ویزے (ایس آئی وی) کی 17,000 درخواستیں پہلے سے موجود تھیں۔ مارچ 2020 کے بعد نو مہینے تک کابل میں ایس آئی وی پروگرام کے لیے ایک بھی انٹرویو نہیں ہوا تھا۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام تعطل کا شکار تھا۔
حکومت سنبھالنے کے بعد دو ہی ہفتوں میں ہم نے کابل میں ایس آئی وی انٹرویو لینے کا عمل دوبارہ شروع کیا۔ 4 فروری کو صدر بائیڈن کے ایک ابتدائی انتظامی حکم کے ذریعے ہمیں ایس آئی وی پروگرام کا فوری جائزہ لینے کی ہدایت دی گئی تاکہ اس پر عملدرآمد میں غیرضروری تاخیر کی وجوہات کی نشاندہی کی جائے اور ایس آئی وی درخواستوں پر مزید تیزی سے کارروائی کے طریقے ڈھونڈے جائیں۔
میں نے اس سال موسم بہار میں اس پروگرام کے لیے بڑی مقدار میں اضافی وسائل مختص کرنے، واشنگٹن میں درخواستوں پر کارروائی کرنے والے لوگوں کی تعداد 10 سے بڑھا کر 50 کرنے اور کابل میں ہمارے سفارت خانے میں ایس آئی وی درخواستوں پر فیصلہ کرنے والے عملے کی تعداد دگنی کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ واپسی کا حکم ملنے کے بعد ہمارے سفارت خانے کا بہت سا عملہ امریکہ جا چکا تھا اس لیے ہم نے ایس آئی وی درخواستوں پر کارروائی کے لیے مزید قونصلر افسر کابل بھیجے۔
ایسے بہت سے اقدامات بشمول کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بدولت مئی تک ہم تارکین وطن کے خصوصی ویزے پر کارروائی کے اوسط وقت میں ایک سال سے زیادہ عرصہ کی کمی لے آئے۔ جون میں کابل میں ہمارے سفارت خانے میں کووڈ پھیلنے کے دوران بھی ہم نے ویزوں کے اجرا کا عمل جاری رکھا۔ اس طرح مارچ میں ہم ہر ہفتے تارکین وطن کے لیے 100 خصوصی ویزے جاری کر رہے تھے تو اگست میں جب ہماری انخلاء اور منتقلی کی کوششیں شروع ہوئیں تو یہ تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔
افغان سکیورٹی فورسز اور حکومت کی اچانک ناکامی کے نتیجے میں ہنگامی انخلاء کا عمل اور بھی تیز ہو گیا۔ سال بھر ہم ان کی مزاحمتی قوت کا اندازہ لگاتے چلے آئے تھے اور ہم نے بہت سے ممکنہ حالات مدنظر رکھے ہوئے تھے۔ ہمارے انتہائی مایوس کن اندازوں میں بھی یہ پیش بینی نہیں کی گئی تھی کہ کابل میں سرکاری فورسز امریکی افواج کی موجودگی کے دوران ہی ڈھیر ہو جائیں گی۔ جیسا کہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مِلی نے کہا ”مجھے یا کسی اور کو 11 روز میں اس فوج اور اس حکومت کے یوں ڈھیر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔”
اس کے باوجود ہم نے بہت سے امکانات کے حوالے سے منصوبہ بندی اور اس پر کام کیا تھا۔ اسی منصوبہ بندی کی بدولت ہم اپنے سفارتی عملے کی تعداد میں کمی لانے اور اپنے بقیہ اہلکاروں کو 48 گھنٹوں میں ایئرپورٹ پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ اسی لیے صدر بائیڈن کے حکم پر تیار کھڑی فوج ایئرپورٹ کے تحفظ اور 72 گھنٹے کے اندر انخلاء کا عمل شروع کرنے میں کامیاب ہوئی۔
افغانستان سے انخلاء بذات خود ایک غیرمعمولی کام تھا جو ہمارے سفارت کاروں، ہماری فوج اور ہمارے انٹیلی جنس اہلکاروں نے انتہائی مشکل حالات میں انجام دیا۔ انہوں نے امریکی شہریوں، ہماری مدد کرنے والے افغانوں، ہمارے اتحادیوں اور شراکت دار ممالک کے شہریوں اور غیرمحفوظ افغانوں کو جہازوں میں سوار کرانے، انہیں ملک سے نکالنے اور انہیں امریکہ یا ایسے عبوری مقامات پر پہنچانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کیا جہاں ان کا قیام ہمارے سفارت کاروں نے بہت سے ممالک کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ممکن بنایا تھا۔ ہماری قونصلر ٹیم نے ایسے امریکیوں تک رسائی کے لیے چوبیس گھنٹے کام کیا جو تاحال افغانستان میں ہو سکتے تھے اور ان ہفتوں میں ایسے لوگوں سے 55,000 مرتبہ فون پر رابطے کیے، 33,000 ای میل بھیجیں اور تاحال یہ کام کر رہی ہے۔ ان بہادرانہ کوششوں میں آئی ایس آئی ایس کے حملے میں حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کام کرنے والے ہمارے 13 فوجی ہلاک اور 20 زخمی ہوئے جبکہ بہت سے افغان شہری بھی ہلاک و زخمی ہو گئے۔ امریکہ کی فوج کے ان ارکان نے دوسروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
آخر میں ہم نے فضائی راستے سے لوگوں کےانخلاء کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی مکمل کی جس میں 124,000 لوگوں کو بحفاظت نکالا گیا۔
31 اگست کو کابل میں امریکی فوج کا افغان مشن باقاعدہ طور پر ختم ہو گیا اور ایک نیا سفارتی مشن شروع ہوا۔
میں ان دو درجن سے زیادہ ممالک کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جنہوں ںے لوگوں کی منتقلی کی کوشش میں ہماری مدد کی۔ ان میں بعض نے ایسے لوگوں کو عبوری قیام میں سہولت دی، بعض ممالک طویل عرصہ کے لیے افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
میں کانگریس کی غیرمعمولی کوششوں کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں چند مثالیں پیش کروں گا۔ کانگریس کے رکن فٹز پیٹرک نے ایک افغان خاندان کو نیوجرسی میں اپنے عزیزوں سے ملانے کے لیے دفتر خارجہ کے ساتھ کام کیا۔ کانگریس کے رکن کیٹنگ نے وائس آف امریکہ کے ایک رپورٹر اور اس کے اہلخانہ کو ایئرپورٹ پر پہنچانے کے لیے وہاں موجود ہمارے لوگوں کی مدد کی۔ کانگریس کے رکن ایسا اور خاتون رکن جیکبز نے اپنی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے افغانوں کی جانب توجہ دلائی جو قانونی طور پر امریکہ کے مستقل رہائشی تھے یا جنہیں افغانستان میں شدید خطرہ لاحق تھا۔ آپ کی ای میلز اور ٹیلی فون کالز نے لوگوں کو وہاں سے نکالنے میں واقعتاً اہم کردار ادا کیا اور ہم آپ کی جانب سے مہیا کی جانے والی فہرستوں اور معلومات کو اس مشن کے اگلے مرحلے میں بھی استعمال کرتے رہیں گے۔
اب میں مختصراً یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں دفتر خارجہ نے کیا کام کیا ہے اور آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ہم کیا کریں گے۔
پہلی بات یہ کہ ہم نے اپنا سفارتی کام کابل سے دوحہ منتقل کر دیا ہے جہاں افغان امور سے متعلق ہماری نئی ٹیم کڑی محنت کر رہی ہے۔ ہمارے بہت سے اہم شراکت دار دوحہ میں ہمارے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہم افغانستان میں موجود بقیہ امریکیوں سمیت ایسے افغانوں اور اپنے اتحادی اور شراکت دار ممالک کے ان شہریوں کی مدد کے لیے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ جمعرات کو قطر ایئرویز کی خصوصی پرواز امریکی شہریوں اور دیگر لوگوں کو لے کر کابل سے روانہ ہوئی اور دوحہ پہنچی۔ جمعے کو امریکی شہریوں اور دیگر لوگوں کو لے کر دوسری پرواز افغانستان سے روانہ ہوئی۔ یہ پروازیں امریکہ، قطر اور ترکی کی مربوط کوشش کا نتیجہ ہیں جس کا مقصد ایئرپورٹ کھولنا اور پروازیں شروع کرنے کے لیے بھرپور سفارتی اقدامات کرنا ہے۔
ان پروازوں کے علاوہ نصف درجن کے قریب امریکی شہری اور قریباً ایک درجن امریکہ کے مستقل رہائشی ہماری مدد سے زمینی راستے کے ذریعے بھی افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔
ہم تاحال افغانستان میں موجود ایسے امریکی شہریوں سے مستقل رابطے میں ہیں جنہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کو ان کی روانگی سے متعلق معاملات دیکھنے کے لیے مخصوص ٹیم کے حوالے کیا گیا ہے تاکہ وہ انہیں خصوصی رہنمائی اور ہدایات فراہم کرے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جمعرات اور جمعے کو روانہ ہونے والی ابتدائی پروازوں پر جانے سے انکار کیا۔ ان میں کچھ لوگوں کو روانگی کی تیاری کے انتظامات کے لیے مزید وقت درکار تھا تو بعض لوگ ابھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنا چاہتے تھے جبکہ بعض لوگ طبی وجوہات کی بنا پر ان پروازوں میں نہیں جا سکے۔
ہم ان لوگوں کی مدد اور ہر ایسے امریکی شہری کی مدد جاری رکھیں گے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں اور ان میں ایسے افغان شہری بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ہمارا خصوصی وعدہ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم نے دیگر ممالک میں کیا جہاں ہم نے اپنا سفارت خانہ خالی کیا اور ان ممالک سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں امریکیوں کو نکالا۔ لیبیا، شام، وینزویلا، یمن اور صومالیہ اس کی نمایاں مثال ہیں۔ اس مشن کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ ہماری توجہ انسداد دہشت گردی پر مرکوز ہے۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ القاعدہ اور داعش خراسان سمیت تمام دہشت گردوں کو بیرون ملک ایسی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں گے جن سے امریکہ یا ہمارے اتحادیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم ان سے جواب طلبی کریں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم محض ان کے وعدے پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ ہم خطرات کو بھانپنے کے لیے چوکس رہیں گے، اگر ضروری ہوا تو ہم ان خطرات کا قلع قمع کرنے کے لیے خطے میں انسداد دہشت گردی کے موثر اقدامات کریں گے اور دنیا بھر میں ہم ایسی تمام جگہوں پر یہی کچھ کرتے ہیں جہاں زمین پرہماری افواج نہیں ہوتیں۔
چوتھی بات یہ کہ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اپنی بھرپور سفارت کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم نے دنیا کے تقریباً 100 ممالک کے ساتھ مل کر ایک بیان جاری کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی لائے جس میں طالبان کی حکومت سے عالمی برداری کی توقعات بیان کی گئی ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ طالبان لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی دیں گے، انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کریں گے، افغان عوام بشمول عورتوں، لڑکیوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق قائم رکھیں گے، ایک ایسی حکومت بنائیں گے جس میں تمام فریقین کی وسیع تر نمائندگی ہو گی اور انتقامی کارروائیوں سے گریز کریں گے۔ طالبان کو عالمی برادری سے جو قانونی جواز اور حمایت درکار ہے اس کے حصول کا دارومدار ان کے طرزعمل پر ہو گا۔
ہم نے یہ یقینی بنانے کے لیے اہم ممالک کے رابطہ گروہ منظم کیے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان کے معاملے پر یک زبان ہوکر بات کرتی رہے اور ہم وہاں کی حکومت پر اپنا مشترکہ رسوخ استعمال کریں۔
گزشتہ ہفتے میں نے 22 ممالک، نیٹو، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے ایک وزارتی اجلاس کی صدارت کی جس کا مقصد اپنی کوششوں کو باترتیب بنانا تھا۔
پانچویں بات یہ کہ ہم افغان عوام کے لیے انسانی امداد جاری رکھیں گے۔ پابندیوں کے باعث یہ امداد براہ راست افغان حکومت کو نہیں ملے گی بلکہ این جی اوز اور اقوام متحدہ جیسے آزاد اداروں کے ذریعے مہیا کی جائے گی۔
آج ہی ہم نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ افغانستان کے عوام کے لیے نئی انسانی امداد کے طور پر قریباً 64 ملین ڈالر مہیا کر رہا ہے تاکہ صحت اور غذائیت کے حوالے سے ان کی نمایاں ضروریات پوری کی جا سکیں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق خدشات دور کیے جا سکیں اور مزید بچوں بشمول لڑکیوں کو دوبارہ سکول بھیجنے میں مدد دی جا سکے۔ اس اضافی امداد کے بعد اس مالی سال میں افغان عوام کے لیے امریکہ کی مہیا کردہ امداد کا حجم قریباً 330 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
میں نے دوحہ اور ریمسٹائن میں ان جگہوں کادورہ کیا جہاں افغانستان سے انخلاء کرنے والے لوگوں کو ان کی اگلی منزلوں کی جانب بھیجنے سے پہلے ان کے معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ میں نے یہاں اندرون ملک کچھ وقت ڈلس ایکسپو سنٹر میں گزارا جہاں قریباً 45,000 افغانوں کے امریکہ پہنچنے کے بعد انہیں بسانے کی کارروائی ہو رہی ہے۔ ہمارے سفارت کاروں، ہماری فوج اور امریکہ کی حکومت کے غیرفوجی اداروں کے ملازمین نے نہایت مختصر وقت میں یہ کام جس طرح انجام دیا وہ غیرمعمولی بات ہے۔
ان لوگوں نے ایک بہت بڑی ضرورت پوری کی۔ انہوں ںے ہزاروں لوگوں کے لیے خوراک، پانی اور نکاسی آب کا انتظام کیا۔ یہ لوگ طبی نگہداشت فراہم کرنے اور بچوں کی پیدائش کے انتظامات بھی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ان خاندانوں کو آپس میں ملا رہے ہیں جو ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے اور ایسے بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جو اکیلے یہاں پہنچے ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی بین الحکومتی کام اور ہمارے لوگوں کی صلاحیت، دردمندی اور لگن کا بھرپور ثبوت ہے۔
یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اس پر ہم سبھی کو فخر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے اپنی پوری تاریخ میں کیا ہے، امریکی شہری اب افغانستان سے آنے والے خاندانوں کا اپنے علاقوں میں خیرمقدم کر رہے ہیں اور ان کی نئی زندگیوں کی شروعات کے موقع پر انہیں یہاں آباد ہونے میں مدد دے رہے ہیں۔ ہمیں اس پر بھی فخر ہونا چاہیے۔
میری بات سننے کا بہت شکریہ۔ جناب چیئرمین، رینکنگ ممبر میکال، اب میں آپ لوگوں کے سوالات سننے کا منتظر ہوں۔ شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/opening-remarks-by-secretary-antony-j-blinken-before-the-house-committee-on-foreign-affairs/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔