امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
تقریر
7 جولائی 2023
محکمہ خارجہ
واشنگٹن، ڈی سی
وزیر خارجہ بلنکن: آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ساتھیو، آپ کو صدر بائیڈن کی طرف سے خوش آمدید۔ سنتھیٹک دواؤں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے عالمی اتحاد کے آغاز پر خوش آمدید۔ ہم 80 سے زائد ممالک کے اعلٰی حکومتی عہدیداروں کے مشکور ہونے کے ساتھ ساتھ درجن سے زیادہ علاقائی اور بین الاقوام تنظیموں کے اُن لیڈروں کے بھی مشکور ہیں جو ہمارے ساتھ شامل ہیں (ناقابل سماعت)۔
امریکہ میں ہم اسے شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ 18 سے 49 برس کے امریکیوں کی سب بڑی قاتل سنتھیٹک ادویات ہیں۔ یہ حقیقت بیٹھ کر [غور کرنے کے] قابل ہے۔ 18 سے 49 برس کے امریکیوں کی سب بڑی قاتل یعنی سنتھیٹک ادویات بالخصوص فینٹانیل ہے۔ گزشتہ برس تقریباً 110,000 امریکی [سنتھیٹک] ادویات کی زائد مقدار استعمال کرنے سے ہلاک ہوئے۔ اِن اموات میں سے دو تہائی اموات اوپیائڈز [مسکن دواؤں] سے ہوئیں۔ اِن اموات سے افراد، خاندانوں، کمیونٹیوں کا اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے نقصان اٹھانے والوں کا درد ناقابل بیان ہے۔ اس سے وسیع پیمانے پر معاشی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ ہماری کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں امریکہ میں تقریباً 1.5 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمارا صحت عامہ کا نظام، ہمارا فوجداری انصاف کا نظام سب اِس کی قیمت چکا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں امریکہ میں صدر بائیڈن نے اس وبا کے دو اہم محرکات یعنی نشے کی لت کو لاعلاج چھوڑے جانے اور منشیات کی سمگلنگ سے نمٹنے کو اولین ترجیح بنایا ہے۔ 2022 میں ہماری انتظامیہ نے منشیات پر قابو پانے کی ایک قومی حکمت عملی جاری کی جس میں امریکہ میں پہلی مرتبہ نقصان کو کم کرنے کی کوششوں کو اپنایا گیا۔ اس کے تحت لوگ جہاں ہیں وہاں اُن سے ملا جاتا ہے اور اُن کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور اُن کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ امریکہ اس چیلنج کا سامنا کرنے والا اکیلا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 34 ملین سے زائد افراد ہ میتھم فیٹامین یا دیگر سینتھیٹک محرکات استعمال کرتے ہیں۔ اور ہر خطے کو دیگر سنتھیٹک دواؤں میں خطرناک حد تک اضافے کا سامنا ہے۔ افریقہ میں یہ ٹراماڈول ہے؛ مشرق وسطی میں جعلی کیپٹاگون گولیاں؛ ایشیا میں کیٹامین [ہے۔]
جن اہم وجوہات کی وجہ سے ہم یہاں اکٹھا ہونا چاہتے تھے اُن میں ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اگر غیرمعمولی طور پر نشہ آور اور مہلک سنتھیٹک دوا فینٹانیل کی بات کی جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک بڑے خطرے کا پتہ دیتا ہے۔ امریکہ میں [سنتھیٹک دواؤں کی] مارکیٹ میں طلب پوری ہو جانے کے بعد جرائم پیشہ بین الاقوامی گروہ اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے دوسرے جگہوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری عجلت سے کام نہ لیا تو دنیا بھر میں مزید کمیونٹیوں کو وہ تباہکن قیمتیں چکانا پڑیں گیں جو بہت سے امریکی شہر اور بہت سے امریکی قصبے پہلے ہی سے چکا رہے ہیں۔
سنتھیٹک دواؤں کی سمگلنگ کرنے والی مجرمانہ تنظیمیں ہمارے باہم مربوط عالمی نظام میں کمزور پہلووں کا استحصال کرنے میں انتہائی ماہر ہیں۔ جب ایک حکومت جارحانہ طریقے سے [سنتھیٹک دواؤں میں استعمال ہونے والے] کیمیکل پر پابندی لگاتی ہے تو سمگلر اسے کسی دوسری جگہ سے خرید لیتے ہیں۔ جب کوئی ایک ملک اسے لے جانے کے راستے کو بند کرتا ہے تو سمگلر تیزی سے کسی دوسرے ملک میں یہ راستے نکال لیتے ہیں۔ یہ اس مسئلے کا بیان ہے جسے کوئی بھی ملک تنہا حل نہیں کر سکتا۔ اسی لیے ہم یہ عالمی اتحاد بنا رہے ہیں۔
ہم تین بنیادی شعبوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اِن میں پہلا سنتھیٹک دواؤں کی غیر قانونی تیاری اور سمگلنگ کو روکنا ہے۔ دوسرا ابھرتے ہوئے خطرات اور استعمال کے نمونوں کا پتہ چلانا ہے۔ اور تیسرا منشیات کے استعمال کو روکنے اور کم کرنے، زندگیاں بچانے اور منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کی بحالی میں مدد کرنے کے لیے صحتِ عامہ کی سہولتوں اور خدمات کو میں اضافہ کرنا ہے۔
آج ہم یہ کام یقینی طور پر ابتدا سے نہیں کر رہے۔ برسوں سے حکومتیں، علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں، صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکن، اور کمیونٹیاں اِن ترجیحات میں سے ہر ایک ترجیح کے اختراعی حل نکالتی چلی آ رہی ہیں۔ مغربی نصف کرے کے ممالک سامنے آنے والی نئی سینتھیٹک دواؤں کے استعمال کا پتہ چلانے کے لیے ابتدائی انتباہی نظام تیار کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی براعظموں کے ممالک کی تنظیم کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
یورپ کے ممالک کی طرف سے تیار کی جانے والی اور گھر پر استعمال ہونے والی نالاکسون کِٹیں وسطی ایشیا اور دیگر خطوں کے ممالک استعمال کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ [سنتھیٹک دواؤں میں استعمال ہونے والے] کیمیکلز کے بارے میں انٹیلی جنس شیئرنگ کو فروغ دے رہا ہے تاکہ حکومتوں کو [یہ کیمیکل] پکڑنے اور [ملزموں پر] مقدمات چلانے میں تعاون کرنے میں مدد مل سکے۔ اس اتحاد کا مقصد اِس طرح کی اور دیگر اہم کاوشوں کو آگے بڑہانا ہے نہ کہ اِن کی جگہ لینا ہے۔ اس میں امریکہ میں کی جانے والی کاوشوں سمیت سیکھے جانے والے مشترکہ اسباق بھی شامل ہیں۔
میں صرف ایک مثال دوں گا۔ اپریل میں ہم نے ڈینور، کولوراڈو میں امريکی براعظموں کے شہروں کے حکام کے پہلے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی۔ ہم نے اپنے پورے نصف کرے سے 250 سے زیادہ میئروں، گورنروں، قبائلی اور آبائی حکام، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے رہنماؤں کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔
میں نے جن اجلاسوں میں شرکت کی اِن میں سے ایک اجلاس میں فینٹا نیل کی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے مقامی سطح پر کی جانے والی کاوشوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ڈینور شہر کی کرائم لیب کے حکام نے بتایا کہ وہ نئی سنتھیٹک دواؤں اور اِن کے زيادہ مقدار کے استعمال کی صورت حال پر کس طرح نظر رکھتے ہیں۔
کینیڈا، ایکواڈور اور میکسیکو کے میئروں نے سنتھیٹک دواؤں کے استعمال میں اضافے سے نمٹنے کے لیے اپنی اپنی حکمت عملیوں پر بات کی۔
یہ بالکل اسی قسم کا تعاون ہے جسے ہم اِس عالمی اتحاد کے ذریعے فروغ دیں گے۔ اس کے ساتھ ہم دیگر بہترین رضاکارانہ طریقوں کو بھی بھرپور طریقے سے اپنائیں گے جیسا کہ حکومتوں اور نجی شعبے کے درمیان معلومات کے بہتر تبادلے، بہتر لیبلنگ اور “اپنے صارف کو جاننے” کے طریقہائے کار ہیں۔ [ان کا مقصد] کیمیکلز کو سنتھیٹک دواؤں کی تیاری میں استعمال کر کے غیرقانونی طور پر استعمال کرنے کو روکنے میں مدد کرنا ہے۔
آج ہم نے اس وزارتی اجلاس کے علاوہ ماہرین کے تین پینلوں کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اِن پینلوں کے مباحثے سے الگ الگ ورکنگ گروپوں کے اہداف طے کرنے میں مدد ملے گی۔ اتحاد کی ہر بنیادی اور بڑی کوشش کے لیے ایک علیحدہ ورکنگ گروپ ہوگا جو آنے والے مہینوں میں شراکت کاری کے کام کو آگے لے کر چلے گا۔
اس کے بعد ستمبر میں ہمارا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے موقع پر علیحدہ سے اس اتحاد کے ایک شخصی اجلاس کی میزبانی کرنے کا ارادہ بھی ہے جہاں یہ ورکنگ گروپ اپنی پیشرفت کے بارے میں رپورٹ پیش کریں گے اور مستقبل کی راہ متعین کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔
ہر قدم پر ہماری توجہ عملی پالیسیاں تیار کرنے، سنتھیٹک دواؤں سے پیدا ہونے والے صحت عامہ اور عوامی سلامتی کے خطرات کو کم کرنے، اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر مرکوز رہے گی (ناقابل سماعت) حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہنا ہی کافی نہیں۔
ہمیں نجی شعبے کے ساتھ بھی شراکت کرنے کی ضرورت ہے جس میں کیمیکل تیار کرنے والے، شپنگ کمپنیاں، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غیرقانونی تجارت قانونی عالمی تجارت کے ستونوں پر کھڑی ہے۔
زیادہ تر سنتھیٹک دوائیں اُن کیمیکلز سے تیار کی جاتی ہیں جو قانونی طور پر دواسازی، کاسمیٹکس، گھریلو مصنوعات بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ سمگلر سوشل میڈیا پر سنتھیٹک دواؤں کی تشہیر کرتے ہیں، وہ ممکنہ خریداروں سے بات چیت کرنے اور پیسوں کی وصولی کے لیے آن لائن ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں اُن ہسپتالوں اور کلینکوں، ایمرجنسی شعبوں، دماغی صحت کے پیشہ ور افراد، اور صحت عامہ کے دیگر فریقین کے ساتھ بھی شراکت کاری کرنے کی ضرورت ہے جو علاج اور صحت یابی میں معاونت کی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے شب و روز جانیں بچا رہے ہیں۔ ہمیں معاشرے کو بھی ساتھ ملانے کی ضرورت ہے جس میں کمیونٹی کی بنیاد پر قائم وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جو سب سے اگلی صفوں میں رہ کر یہ کام کر رہی ہیں۔
میں نے چند منٹ پہلے امریکی براعظموں کے شہروں کے اُن عہدیداروں کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا تھا جو سنتھیٹک دواؤں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے یہ اختراعی طریقے وضح کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک جو واقعی میرے ساتھ رہيں وہ شانا ڈارلنگ تھیں۔ وہ ڈینور کے صحت عامہ کی عہدیدار ہیں۔
وہ اور ان کی ٹیم ایک شوخ جامنی رنگ کی وین استعمال کرتے ہیں جسے دیکھنے کا مجھے بھی اتفاق ہوا۔ یہ شہر کی پسماندہ بستیوں میں ایک ایسا چلتا پھرتا کلینک ہے جو کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے دروازوں پر جا کر براہ راست خدمات مہیا کرتا ہے۔ یہ لوگ فینٹانیل ٹیسٹ کی سٹرپس اور نالاکسون [کِٹیں] تقسیم کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو انفرادی طور پر علاج اور بحالی صحت کے پروگراموں سے جوڑتے ہیں۔ وہ نئی خطرناک سنتھیٹک دواؤں کے بارے میں بتاتے ہیں۔
شانا نے مجھے بتایا کہ ان میں سے بہت سے متاثرہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی انھی ميں سے ایک تھی۔ وہ 13 سال تک اِس نشے کا مقابلہ کرتی رہی۔ اس نے جیل کے اندر اور باہر وقت گزارا۔ اور اُس نے مجھے بتایا اور میں اُس کے الفاظ نقل کرتا ہوں کہ “میں نے یہ جانا ہے کہ ہارنا اور مایوس ہونا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ مگر میں وہ مدد اور علاج حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کی مجھے ضرورت تھی اور آج میں اسے دوسروں تک پہنچانے کے قابل ہوں۔”
جب ہم بات کرتے ہیں کہ یہ وبا ہر سال لاکھوں جانیں لے رہی ہے اور لاکھوں خاندانوں کو تباہ و برباد کر رہی ہے تو ایسے میں اِن اعداد کے پیچھے موجود انسانوں کا نظروں سے اوجھل ہو جانا ایک آسان سی بات ہوتی ہے۔ تو آئیے یاد رکھیں کہ جہاں اس اتحاد کا تعلق ہمارے شہریوں کی سلامتی، ان کی صحت، ان کی خوشحالی کے تحفظ کے بارے میں ہے وہیں اس کا تعلق لوگوں کی زندگیاں بچانے، ان کے مستقبل کو بچانے سے بھی ہے۔ یہ لوگ ہمارے پڑوسی، ہمارے دوست، ہمارے پیارے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے افراد بھی ہو سکتے ہیں جن کے پاس شانا کی مانند اپنی کمیونٹیوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
میں نہیں سوچ سکتا کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ اہم اور کرنے کا کوئی اور فوری کام ہے۔ اور میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ میں آپ کا اس اجلاس میں شریک ہونے، اس اتحاد میں شامل ہونے، اور ہم مل کر جو کام کریں گے اُس کا شکریہ ادا کر سکوں۔ سب کا شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-opening-remarks-at-a-virtual-ministerial-meeting-to-launch-the-global-coalition-to-address-synthetic-drugs/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔