An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

امریکی محکمہ خارجہ
ترجمان کا دفتر
واشنگٹن، ڈی سی
یکم نومبر 2021
گلاسگو، برطانیہ

وزیر خارجہ بلنکن: سہ پہر بخیر۔ میرے لیے یہاں کوپ26 کے امریکن سنٹر کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر آپ سب کے ساتھ شامل ہونا بہت خوشی کی بات ہے۔ اور میں امریکی حکومت کے اُن تمام اداروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس سب کچھ کو ممکن بنایا۔

اگلے دو ہفتوں کے دوران ہم موسمیاتی بحران پر اپنے ردعمل کو تیزتر کرنے کے لیے یہاں گلاسگو میں سینکڑوں لوگوں کو اور  آن لائن ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرکے درجنوں مذاکرات کی میزبانی کریں گے۔

 جیسا کہ آپ نے اس ویڈیو میں دیکھا، آب و ہوا کے بحران سے نمٹنا امریکی حکومت کے کسی واحد ادارے یا محکمے کی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی اکیلے ہماری معیشت، ہمارے بنیادی ڈھانچے، یا ہماری قومی سلامتی کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ  یہ ان سب کے لیے اور اس سے بھی بڑھکر زیادہ [شعبوں] کے لیے خطرہ ہے۔

گزشتہ ہفتے میں ہمیں اس حقیقت کی دو بہت ہی تلخ یاد دہانیاں موصول ہوئیں۔ پہلی یاد دہانی امریکی قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کی ایک جامع رپورٹ تھی۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح علاقائی عدم استحکام کو جنم دے رہی ہے اور خوراک اور پانی کے عدم تحفظ سے لے کر ہجرت کے نمونوں تک، انسانی زندگی کے تقریباً ہر ایک پہلو پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ میں دنیا بھر کے اپنے رفقائے کار کے ساتھ اپنی گفتگوؤں سے اس امر کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ یہ روز افزوں کی ایسی جدوجہدیں ہیں جن سے وہ اپنے اپنے ممالک میں روزمرہ کی بنیادوں پر نبرد آزما رہتے ہیں۔ اور ہم اپنے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی دیکھ رہے ہیں جن میں کچھ جگہوں پر خشک سالی، کچھ جگہوں پر سیلاب، زیادہ شدید طوفان، طویل اور زیادہ نقصان دہ جنگلی حیات کے موسم – معاف کیجئے گا جنگل کی آگوں کے موسم شامل ہیں۔

 دوسری حالیہ یاد دہانی اقوام متحدہ کی سالانہ ایمیشن گیپ رپورٹ تھی جس میں دنیا کے کمزور ترین لوگوں اور کمیونٹیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بحث کی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ مائکروفون کا کوئی مسئلہ ہے؟ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر ہم عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم موسمیاتی تباہی کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس فیصلہ کن دہائی میں اپنے عزائم اور عمل دونوں کو مضبوط کرنے کے کام کرنا ہوں گے۔

برسوں سے امریکی گورنروں، میئروں، فعال کارکنوں، کاروباری رہنماؤں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے امریکی ان اخراجوں کو کم کرنے اور دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی رابطہ کاری سے لچک پیدا کرنے کا مشکل کام  روزانہ کی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر، صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے 17 [ممالک] سمیت، 40 عالمی رہنماؤں کا موسمیاتی سربراہی اجلاس بلایا۔ وہاں انہوں نے امریکہ کی طرف سے ایک جرات مندانہ نئے وعدے کا اعلان کیا یعنی 2030 تک اخراجوں میں 50-52 فیصد کمی۔ یہ ہدف ہمیں 2050 تک نیٹ زیرو [صفر اخراجوں] تک پہنچنے کی راہ پر ڈال دے گا۔

اس سلسلے میں موسمیات کے بارے میں خصوصی صدارتی ایلچی، جان کیری مزید بات کریں گے کہ یہاں گلاسگو میں ہم اس منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا راستہ کیسے طے کریں گے۔

صدر بائیڈن نے اپنی ٹیم کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ موسمیاتی کارروائی کو نہ صرف ہماری ملکی پالیسی میں، جس پر موسمیات کی قومی مشیر، جینا میکارتھی تھوڑی دیر بعد بات کریں گیں بلکہ ہر اُس کام سے بھی مربوط بنائے جو ہم امریکی حکومت میں کرتے ہیں۔ اور اس میں ہماری قومی سلامتی اور ہماری خارجہ پالیسی بھی شامل ہے۔ جان کیری اور ان کی شاندار ٹیم کی قیادت کی بدولت محکمہ خارجہ میں یہ عمل عمدہ طریقے سے رواں دواں ہے۔ ہم نے فارن سروس میں نئے عہدے تخلیق کیے ہیں جو کل وقتی موسمیاتی مسائل کے لیے وقف ہوں گے۔ بھارت اور برازیل سمیت بیرونی ممالک میں اہم سفارت خانوں میں اور ہر ایک علاقائی بیورو میں ایک عہدہ تخلیق کیا جائے گا۔ ہم دنیا بھر کے افسران کو موسمیاتی سفارت کاری کے بارے میں تعلیم اور تربیت دینے کے لیے فنڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 یہاں کوپ26 میں یہ موسمیاتی سفارت کاری جاری رہے گی۔ خصوصی ایلچی کیری اس بابت زیادہ تفصیل سے بات کریں گے کہ ہم یہاں کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ مگر فی الحال میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور زبردست پیش رفت کر رہے ہیں۔  گزشتہ چند مہینوں میں ہم نے آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے [دوسرے] ممالک کی طرف سے پیش کیے گئے مضبوط ترین اور ٹھوس وعدوں کو متحرک کیا ہے۔ ہم نے عزائم کے فرق کو کافی حد تک کم کیا ہے۔ مزید ممالک دلیرانہ اہداف مقرر کر رہے ہیں، اور وہ اس [منزل] کے قریب ہیں جہاں ہمیں پہنچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں ابھی بھی کافی کام کرنا ہے۔

 بہت سارے ممالک ابھی تک سامنے نہیں آئے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں موسمیاتی عزائم اورموسمیاتی عملی کارروائی کو کافی حد تک مضبوط کرنے کے اپنے ارادے کو واضح کیے بغیر گلاسگو سے  نہیں جانا چاہیے۔ یہ ایک فیصلہ کن دہائی ہے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔

یقیناً یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ہم کسی اکیلی قومی حکومت کے اقدامات سے حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں راہنمائی جاری رکھنے، مہارت فراہم کرنے، عوام کو تعلیم دینے، ایسے اتحاد بنانے کے لیے سول سوسائٹی کی ضرورت ہے جو ہم جیسے پالیسی سازوں کا محاسبہ کریں۔ ہمیں عملی طور پر تخلیقی اقدامات کی تیاری اور نفاذ جاری رکھنے کے لیے ریاستی اور مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں ایسی سرمایہ کاری کرنے کے لیے کمپنیوں کی ضرورت ہے جو ہمیں خالص صفر اخراجوں کی منزل تک پہنچا دیں۔ یہ کاروبار کے لیے بہترین اور صحیح چیز ہے۔ مستقبل، ماحول دوست معیشت میں موجود ہے اور جو کمپنیاں اس وقت صحیح سرمایہ کاریاں کریں گیں وہ مستقبل میں برسوں تک ان کے انعامات حاصل کرتی رہیں گیں۔

اگلے دو ہفتوں کے دوران امریکن سنٹر حکومت، کاروبار، سول سوسائٹی، ان تمام شعبوں کے لیڈروں کو اکٹھا کرے گا تاکہ وہ سب موسمیاتی کارروائی کی قوتوں میں شامل ہو سکیں۔ ہم [مختلف] موضوعات پر توجہ دیں گے۔ مثال کے طور پر وہ شراکتیں جو ہم کمزور کمیونٹیوں میں [موسمیاتی مسائل برداشت کرنے] کی لچک کو مضبوط کرنے کے لیے کر رہے ہیں؛ وہ اقدامات جو ہم نے استوائی جنگلات کے تحفظ کے لیے شروع کیے ہیں؛ وہ کوششیں جو ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کر رہے ہیں کہ صاف توانائی کے مستقبل کی طرف منتقلی کی جڑیں مساوات سے جڑی ہوں نہ کہ اس کا فائدہ صرف دولت مندوں کو ہی ہو۔

آج یہاں موجود آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی سرگرمی اور قیادت میں اس بات پر زور دیا ہے کہ آب و ہوا کے عمل کا تعلق قربانی سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق موقع سے ہے۔ یہ جدت طرازی سے متعلق ہے۔ یہ خوشحالی کے بارے میں ہے. یہ انصاف کے بارے میں ہے۔ اور یہ ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کے بارے میں ہے جس پر ہم سب فخر کر سکتے ہیں۔ یہ وہ مستقبل ہے جس کے ہمارے بچے اور پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں مستحق ہیں۔ اس لیے مجھے آنے والے مہینوں اور برسوں میں آپ سب کے ساتھ اس جدوجہد میں شامل ہونے پر، یہاں سکاٹ لینڈ میں ہماری پیشرفت کو لے کر آگے چلنے کے لیے مل کر کام کرنے پر، بہت فخر ہے۔

اور اب ایک ایسے شخص کا تعارف کرانا خصوصی اعزاز اور خوشی کی بات ہے جس نے موسمیاتی جنگ کے لیے کئی سال وقف کیے ہیں اور جس نے اس مسئلے کو پوری دنیا میں اٹھانےکے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اس نازک لمحے پر، صدر بائیڈن نے ان پر بھروسہ کیا کہ وہ اس مقصد کے لیے دنیا کو اکٹھا کریں۔ ہم سب آج پہلے کے مقابلے میں اس لیے بہتر ہیں کیونکہ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھے۔ خواتین و حضرات، جان کیری۔ (تالیاں۔)


https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-the-cop26-u-s-center-opening-event/ : اصل عبارت پڑھنے کا لِنک
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future