امریکی دفتر خارجہ
ترجمان کا دفتر
22 دسمبر، 2022
پریس بریفنگ روم
وزیر خارجہ بلنکن: آپ سبھی کو آج سہ پہر یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
اپنی انتظامیہ کے پہلے سال میں ہم نے اپنی توجہ امریکہ کے اتحادوں اور شراکتوں کی تشکیل نو اور انہیں دوبارہ مضبوط بنانے، انہیں باہمی طور پر اور مشترکہ مقصد کے لیے کام کرنے والے نئے اتحادوں کی صورت میں اکٹھا کرنے پر مرکوز کی۔ جیسا کہ آپ سبھی نے دیکھا، ہم نے نیٹو، یورپی یونین، اقوام متحدہ، جی7، آسیان اور او ای سی ڈی کے ساتھ اپنے تعلق کو دوبارہ مضبوط بنایا۔ ہم نے کواڈ کو پہلے سے بہتر اور مضبوط کیا۔ ہم نے ممالک کے بہت سے دیگر گروہوں کے علاوہ ‘اے یوکے یو ایس’ اور امریکہ۔یورپی یونین تجارتی و ٹیکنالوجی کونسل کو تخلیق کیا۔
ایسے اقدامات کی وجہ سیدھی سادہ تھی کہ جب ہم امریکہ کے لوگوں کی زندگیوں پر واقعتاً اثر انداز ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے ممالک کے ساتھ مل کر چلتے ہیں جن کے مفادات اور اقدار ہم سے مماثل ہیں تو پھر ہم ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بنیادی طور پر بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
دوسرے سال ہم نے یہ ثابت کیا کہ کیسے یہ ایک دانشمندانہ اور اہم اقدام تھا۔ خواہ ہم اپنے تزویراتی حریفوں کی جانب سے لاحق خطرات اور خدشات سے نمٹ رہے ہوں، موسمیاتی بحران اور وباء جیسے عالمگیر مسائل سے نبرد آزما ہوں یا امریکہ کے لوگوں کی زندگیوں میں واضح تبدیلی لانے کے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہوں، ہمارے اتحاد اور ہماری شراکتیں اہم فرق پیدا کرتی ہیں اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔
ہم نے دنیا بھر کے معاملات میں اپنی شمولیت کو وسیع اور گہرا کرنے کے لیے مسلسل انتھک کام کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے براعظم ہائے امریکہ کی کانفرنس، امریکہ۔افریقہ رہنماؤں کی کانفرنس، امریکہ اور الکاہل کے جزائر پر مشتمل ممالک کی پہلی کانفرنس اور امریکہ۔آسیان خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
ہم نے اپنی معاشی طاقت میں بے مثال سرمایہ کاری اور اندرون ملک ٹیکنالوجی کی برتری کی بدولت بے پایاں طاقت اور ساکھ حاصل کی۔ اس حوالے سے بنیادی ڈھانچے سے متعلق دوطرفہ قانون، دی چِپس ایکٹ اور افراط زر میں کمی کے قانون سے مدد لی گئی۔
چنانچہ آج میں آپ کی اجازت سے چند منٹ اُن چار اہم معاملات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جہاں 2022 میں ہماری سفارت کاری مطلوبہ نتائج کے حصول میں کامیاب رہی۔
پہلی بات یہ کہ، ہم نے یہ یقینی بنانے کے لیے دنیا کو اکٹھا کیا کہ یوکرین پر روس کی جنگ ایک تزویراتی ناکامی ثابت ہو۔ 24 فروری سے اب تک ہم نے سلامتی کے فروغ اور اپنے ملک کی جمہوریت، خودمختاری اور آزادی کے دفاع میں لڑنے والے یوکرین کے لوگوں کو معاشی اور انسانی امداد پہنچانے کے لیے اپنے درجنوں اتحادیوں اور شراکت داروں کو جمع کیا۔ یوکرین کے لیے ہماری مجموعی امداد بشمول گزشتہ روز صدر کی جانب سے اعلان کردہ مزید 1.85 بلین ڈالر کی دفاعی امداد، کی بدولت یوکرین کے جنگجوؤں کو روس کی فوج پر جوابی حملے کرنے، اپنے لوگوں کو آزاد کرانے اور اپنا مزید علاقہ واپس لینے میں مدد مل رہی ہے۔
نیٹو اس سے پہلے کبھی اس قدار مضبوط اور متحد نہیں تھا۔ اس اتحاد نے نیا تزویراتی تصور اپنایا اور ہمارے مجموعی دفاع میں مزید افواج اور وسائل شامل کیے۔ ہم نے نیٹو کے مشرقی پہلو پر افواج کی تعداد میں دو گنا اضافہ کیا ہم نے بالٹک خطے میں تعینات فوج کی تعداد بڑھائی۔ اب ہم فن لینڈ اور سویڈن کو اتحاد کے نئے ارکان کے طور پر اپنے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔
ہم نے صدر پیوٹن اور اس جنگ میں ان کے مددگاروں پر اب تک کی سخت ترین پابندیاں اور معاشی رکاوٹیں عائد کیں جن کی بدولت روسی فوج کی اس جنگ کے لیے درکار مالی وسائل، سازوسامان اور ٹیکنالوجی تک رسائی نمایاں طور سے محدود ہوئی۔ روس کی جنگی صلاحیت ہر اعتبار سے مشکلات کا شکار ہے۔ امریکہ کی سفارتی قیادت نے اس بامقصد اور عملی اتحاد کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے میں ناگزیر کردار ادا کیا ہے۔ اسی دوران ہم نے روس کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں تنہا کرنے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کردہ اصولوں کے لیے عالمگیر حمایت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی سفارتی طاقت سے کام لیا۔ صدر پیوٹن ان اصولوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب ہم جانتے ہیں کہ یوکرین کے لوگوں کو سردی کے سخت موسم کا سامنا ہے جبکہ صدر پیوٹن یوکرین کے مردوخواتین، بچوں اور بوڑھوں کو سردی سے ہلاک کرنے کی نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ہم یوکرین کے توانائی کے ڈھانچے کی مرمت، اسے تبدیل کرنے اور اسے تحفظ دینے کے لیے جی7 اور اپنے دیگر اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ اس سلسلے میں یوکرین کے فضائی دفاع کو پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹری جیسے نظام کے ذریعے مضبوط بنانا بھی شامل ہے جس کی فراہمی کا اعلان صدر بائیڈن نے گزشتہ روز کیا ہے۔
ہم مقاصد کے حصول تک یوکرین کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ صدر بائیڈن نے یہ پیغام ذاتی طور پر صدر زیلنسکی کو پہنچایا جب وہ وائٹ ہاؤس میں ان کی میزبانی کر رہے تھے۔ اس عزم کو کانگریس کی مضبوط اور پرجوش دوطرفہ حمایت حاصل ہے جس کا بھرپور مظاہرہ گزشتہ رات دیکھنے کو ملا۔
یوکرین کے ساتھ اس تعاون کو برقرار رکھا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ صدر پیوٹن بامعنی سفارت کاری میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ ہم صدر زیلنسکی سے متفق ہیں کہ سفارت کاری روس کی جنگ کے یقینی خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ جب تک صدر پیوٹن اپنی راہ تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک منصفانہ اور دیرپا امن کے امکانات کو بہتر بنانے اور بامعنی سفارت کاری کے امکانات کو واقعتاً فروغ دینے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم یوکرین کے لیے اپنی بھرپور مدد جاری رکھیں۔
دوسری بات یہ کہ ہم نے پیپلز ریپبلک آف چائنا کے معاملے پر اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اپنی تزویراتی ہم آہنگی قائم کرنے کی رفتار بڑھائی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں روس ایک آزاد اور کھلے بین الاقوامی نظام کے لیے فوری خطرہ پیدا کر رہا ہے وہیں پیپلز ریپبلک آف چائنا ہمارا واحد حریف ہے جو بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو چاہتا ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کے لیے درکار معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کی طاقت بھی موجود ہے۔
میں نے اس سال مئی میں پیپلز ریپبلک آف چائنا کی جانب سے درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی بیان کی تھی جو یہ ہے کہ ہمیں اندرون ملک اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے، اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے اور چین کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ہم اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں اور مستقبل سے متعلق اپنے تصور کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ہماری سفارت کاری نے اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ہم نے آزاد اور کھلے ہند۔الکاہل کے لیے مثبت تصور پیش کیا جو اس خطے کے اندر اور باہر ہمارے بہت سے شراکت داروں کے تصورات کا عکاس ہے اور اس کی بدولت انہیں اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ مل کر ہم نے پیپلز ریپبلک آف چائنا کی جانب سے درپیش معاشی جبر سے لے کر انسانی حقوق تک بہت سے مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی کو بہتر بنایا۔ ہم نے سرمایہ کاری کی جانچ اور حساس اور نئی ٹیکنالوجی پر برآمدی کنٹرول کے لیے اپنے تعاون کو مزید مضبوط کیا۔
پہلی مرتبہ نیٹو کے تزویراتی تصور میں اوقیانوس کے آر پار سلامتی کو پیپلز ریپبلک آف چائنا کی جانب سے لاحق مسائل سے نمٹنے کا عزم کیا گیا۔ ہم نے آسٹریلیا، جاپان، جمہوریہ کوریا، نیوزی لینڈ اور الکاہل میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنایا۔
ہم آبنائے تائیوان میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم میں متحد ہیں اور شِنگ جینگ اور تبت میں پیپلز ریپبلک آف چائنا کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں اور ہانگ کانگ میں آزادیء اظہار اور آزادیء صحافت کے خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ اقدامات کر رہے ہیں۔
پیپلز ریپبلک آف چائنا کے ساتھ بھرپور مسابقت میں بھی ہم نے اسے تنازعے کی صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے بالاحتیاط کام کیا ہے۔ ہم اس تعلق کو ذمہ دارانہ طریقے سے سنبھالے رہیں گے، بالی میں صدر بائیڈن اور صدر ژی کے مابین ہونے والی مخلصانہ اور مفید بات چیت کو آگے بڑھائیں گے اور میں آئندہ برس کے آغاز میں پیپلز ریپبلک آف چائنا کے اپنے دورے میں اس بات چیت پر مزید پیش رفت کا منتظر ہوں۔ ہم ناصرف اپنے لوگوں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کی بہتری کے لیے ایسے امور پر باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرتے رہیں گے جو امریکہ اور چین کے اکٹھے کام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہم نے دنیا کے بہت سے ممالک کو درپیش مشترکہ عالمگیر مسائل کو حل کرنے کے لیے وسیع البنیاد اتحادوں کو متحرک کیا ہے۔ ان میں غذائی تحفظ، صحت، توانائی، موسمیاتی تبدیلی اورشمولیتی معاشی ترقی ایسے مسائل ہیں جن کا امریکہ کے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار پر حقیقی اثر پڑ رہا ہے اور ہم اکیلے ان مسائل کو موثر طور سے حل نہیں کر سکتے۔
ہم نے کووڈ، موسمیاتی تبدیلی اور صدر پیوٹن کی جنگ کے نتیجے میں بدترین صورت اختیار کر جانے والے تنازعے سے جنم لینے والے عالمگیر غذائی تحفظ کے بے مثل بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی اقدامات کی قیادت کی ہے۔
2022 میں ہی ہم نے انسانی امداد اور غذائی تحفظ میں معاونت کے لیے 11 ارب ڈالر مہیا کیے۔ ہم نے غذائی تحفظ سے متعلق وزارتی اجلاس اور افریقن یونین اور یورپی یونین کے ساتھ کانفرنسوں کا انعقاد کیا تاکہ زندگیوں کو فوری تحٖظ دینے کے لیے درکار وسائل جمع کیے جا سکیں اور ممالک کو مستحکم اور پائیدار زرعی پیداوار کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد مل سکے۔
ہم نے کووڈ۔19 وباء کے کڑے مرحلے کا خاتمہ کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور اس سلسلے میں عالمگیر اقدامات کے لیے قریباً 20 ارب ڈالر مہیا کیے اور 115 سے زیادہ ممالک میں محفوظ و موثر ویکسین کی 670 ملین سے زیادہ خوراکیں تقسیم کیں۔
ہم نے ایک عالمگیر عملی منصوبہ شروع کیا اور اس کی قیادت کی جس کے ذریعے لوگوں کو ویکسین لگانے، طبی سازوسامان کی ترسیل کے نظام کو مدد دینے اور وبا کے حوالے سے غلط اور گمراہ کن معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے درجنوں ممالک کو اکٹھا کیا گیا۔
ہم نے یہ یقینی بنانے کے اقدامات بھی کیے کہ دنیا مستقبل کی وباؤں کی روک تھام، ان کی نشاندہی اور ان کے خلاف اقدامات کے لیے بہتر طور سے تیار ہو۔ ہم نے ممالک کو وباء سے نمٹنے کی تیاری میں مدد دینے کے لیے جی20 ممالک کے ساتھ مل کر ورلڈ بینک کا ایک نیا فنڈ قائم کیا۔ ہم آئندہ پانچ برس کے دوران لاطینی امریکہ میں 500,000 طبی کارکنوں کو تربیت دیں گے۔ 2025 تک ہم افریقہ میں طبی کارکنوں پر چار ارب ڈالر خرچ کریں گے۔
موسمیاتی مسئلے پر ہم نے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی اور ماحول کی حدت کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کی رفتار بڑھانے کے لیے اندرون و بیرون ملک تاریخی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ہم اسے امریکی لوگوں کے لیے اچھی اجرت والی نوکریوں کی تخلیق کا ایک ایسا موقع بھی سمجھتے ہیں جو کئی نسلوں کے بعد آتا ہے۔
ہم نے اپنی معیشتوں کو مزید مستحکم، پائیدار، خوشحال اور شمولیتی بنانے کے لیے نئی علاقائی شراکتیں قائم کیں جن میں ‘ہند۔الکاہل معاشی فریم ورک برائے خوشحالی’، جس کے رکن ممالک عالمگیر جی ڈی پی کا 40 فیصد پیدا کرتے ہیں، اور ‘معاشی خوشحالی کے لیے براعظم ہائے امریکہ کی شراکت’ بھی شامل ہے۔
جی7 ممالک کے تعاون سے ہم نے عالمگیر بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کی شراکت (پی جی آئی آئی) شروع کی جس کا مقصد کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ معیار کے شفاف متبادل مہیا کرنا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ ہم نے امن کو فروغ دینے اور جنگوں کی روک تھام اور انہیں محدود کرنے کے لیے امریکہ کی سفارتی کی طاقت سے کام لیا۔ میں نے اسرائیل، مراکش، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ مل کر تاریخی ‘نیگیو’ کانفرنس میں شرکت کی جس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو یکجا کرنا اور حالات معمول پر لانا ہے۔
ہم نے اسرائیل اور لبنان کے مابین سمندری حدود پر طویل عرصہ سے جاری تنازع حل کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر ثالثی کی۔ ہم نے افریقہ کی قیادت میں ہونے والی بات چیت میں تعاون کیا جس کے نتیجے میں ایتھوپیا اور ٹیگرے کی افواج کے مابین دشمنی کے خاتمے میں مدد ملی۔ ہم نے سوڈان کو شہریوں کے زیرقیادت جمہوریت کی راہ پر واپس ڈالنے کے لیے ایک معاہدہ کرانے میں بھی مدد دی۔ ہم نے یمن میں جنگ بندی ممکن بنانے اور بعدازاں اسے توسیع دینے میں بھی کردار ادا کیا۔
ہم روس، ایران، وینزویلا، برما، افغانستان، ہیٹی اور دیگر ممالک میں ناجائز طور پر قید امریکی شہریوں کو وطن واپس لائے۔ ہم نے ایسے امریکیوں کی واپسی کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کام کیا جنہیں دنیا بھر میں غیرقانونی طور پر قید رکھا گیا تھا۔ ہم آئندہ اس گھناؤنے عمل کو روکنے کے لیے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
2023 کی جانب جاتے ہوئے ہم ان ترجیحات اور دیگر مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے تمام سفارتی ذرائع سے کام لیں گے۔ ان مقاصد میں افغانستان کے عوام خصوصاً ان لوگوں کے ساتھ اپنے وعدے پورے کرنا بھی شامل ہے جنہوں نے وہاں 20 سالہ امریکی مشن میں تعاون کیا۔ اس کے علاوہ ہم افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے بھی کھڑے ہوں گے۔
ہم فینٹانائل اور دیگر سنتھیٹک منشیات کی لعنت سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے پر بھی بھرپور توجہ دیں گے۔
میں نے اپنی زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز رکھی کہ ہم نے دور حاضر کے سب سے بڑے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے 2022 میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کیسے کام کیا۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے بھی ہم نے یہ یقینی بنانے کے لیے بڑے اقدامات کیے کہ دفتر خارجہ حال اور مستقبل کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر طور سے تیار ہو۔
ہم نے دفتر خارجہ میں سائبر سپیس اور ڈیجیٹل پالیسی سے متعلق نیا دفتر قائم کیا۔ ہم نے کانگریس کو عالمگیر تحفظِ صحت اور سفارت کاری پر ایک نیا دفتر قائم کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ ہم نے پیپلز ریپبلک آف چائنا کے حوالے سے معاملات پر پیش رفت کرنے اور اس کے حوالے سے اپنی پالیسی کو مربوط بنانے کے لیے چائنا ہاؤس قائم کیا۔ ہم نے ہند۔الکاہل میں اپنی سفارتی موجودگی کو وسعت دی اور ایک دہائی کے عرصہ میں خارجہ اور سول سروس کے حکام کی سب سے بڑی تعداد کو اس خطے میں تعینات کیا۔ ہم نے ایسی افرادی قوت کو متوجہ کرنے اور اسے تربیت دینے کے لیے بھی نمایاں اقدامات کیے جو ہمارے ملک کی ایک سب سے بڑی طاقت یعنی ‘تنوع’ کا اظہار ہے۔
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کے ہم نے کڑی محنت سے جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کے پیچھے کوئی ایک فرد نہیں بلکہ ”ہم” ہیں۔ ان کامیابیوں کا آغاز اُن لوگوں سے ہوتا ہے جو دفتر خارجہ کی اساس ہیں اور خاص طور پر ان میں ہمارے خارجہ اور سول سروس کے حکام اور دنیا بھر کے سفارت خانوں میں کام کرنے والا مقامی عملہ شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن رات اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کیا۔ انہوں آج میرے بیان کردہ امور پر ہی نہیں بلکہ ہماری خارجہ پالیسی کے ہر پہلو پر امریکہ کی حکومت کے ہر محکمے میں ہمارے ساتھیوں اور بیرون ملک ہمارے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
مجھے اپنے ساتھیوں پر بے حد فخر ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا میرے لیے اعزاز ہے۔ میں ان تمام لوگوں کے خاندانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی محبت، تعاون اور قربانیوں نے دفتر خارجہ کے لوگوں کو اس خدمت کی انجام دہی کے قابل بنایا۔
میں کانگریس کی شراکت کا بھی مشکور ہوں۔ گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں ہمارے محکمے اور کانگریس کے مابین 3,200 مواقع پر بات چیت ہوئی۔ ایسے 60 سے زیادہ مواقع پر میں خود بھی شریک تھا۔
میں دونوں جماعتوں کے ارکان کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں ںے اس سال 91 نامزدگیوں کے لیے ہمارے ساتھ کام کیا۔ امید ہے کہ آنے والے ہفتوں میں یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے پاس کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں تو ہم اچھے نتائج دیتے ہیں۔
میں آخر میں آپ سب لوگوں، ہماری پریس کور کے ارکان کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ آپ کا کام ہماری جمہوریت کے لیے ناگزیر اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ آپ کے سوالات کا جواب دینا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا تاہم آپ کی مہیا کردہ درست اطلاعات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ بنیادی اور سادہ سی بات ہے۔ اس سے ہمارے شہریوں کو ایسے عوامل کے بارے میں آگاہی ملتی ہے جو ان کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس سے انہیں اپنے علاقوں، اپنے ملک اور دنیا کے ساتھ بامعنی طور سے چلنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں آزاد اور غیرجانبدار میڈیا کے لیے اس قدر کڑی جدوجہد کرتے ہیں اور اسی لیے میں آپ کے کام کا دلی طور پر شکرگزار ہوں۔
جب میں نے پہلی مرتبہ پر اس عہدے پر کام شروع کیا تو بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر دنیا کی قیادت کر سکتا ہے یا دنیا عالمی معاملات میں ہمارا اہم کردار دیکھنے کی خواہش مند ہے۔
میرے خیال میں 2022 میں ہم نے ان سوالات کا جواب پا لیا ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ تیار ہے اور دور حاضر کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں دنیا کی قیادت کر سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک نے ثابت کیا کہ وہ ایک ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے ہمارے شراکت دار کیوں بننا چاہتے ہیں جو پہلے سے زیادہ آزاد، کھلی، محفوظ اور خوشحال ہو۔
اس کے ساتھ ہی میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر آپ کچھ سوالات کرنا چاہیں تو مجھے جواب دے کر خوشی ہو گی۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-a-press-availability-27/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔