Homeاُردو ...وزیر خارجہ بلنکن کا دفتر خارجہ میں روسی زبان کے ٹیلی گرام چینل کی میزبان اینڈریا کیلن کو انٹرویو hide وزیر خارجہ بلنکن کا دفتر خارجہ میں روسی زبان کے ٹیلی گرام چینل کی میزبان اینڈریا کیلن کو انٹرویو اُردو ترجمہ امریکی دفتر خارجہ ترجمان کا دفتر وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن کا انٹرویو برسلز، بیلجیئم سوال: جناب وزیر خارجہ بلنکن، ہمارے یوایس اے پو رَسکی ٹیلی گرام چینل کے صارفین کے سوالات کا جواب دینے کے لیے آج ہمارے ساتھ موجودگی پر آپ کا شکریہ۔ ہمارے پاس پہلا سوال ٹی وی ڈوزڈ سے وابستہ ایک غیرجانبدار روسی صحافی ایکاتیرینا کوتریکازے کی جانب سے آیا ہے۔ وہ پوچھتی ہیں کہ ”صدر زیلنسکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کیا اور اس دوران ان کا لب و لہجہ بہت سخت تھا۔ انہوں ںے اس ادارے پر الزام لگایا کہ اس کی کارروائی بے معنی ہے اور یہ کمزور ادارہ ہے۔ ان کی بات میں وزن ہے۔ ایسی سلامتی کونسل کا کیا مقصد ہے جو سلامتی ہی مہیا نہ کر سکے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روس کو اس ادارے سے خارج کر دیا جائے۔ کیا آپ زیلنسکی کی بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کیا مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات لانا ممکن ہے؟” وزیر خارجہ بلنکن: صدر زیلنسکی درست کہہ رہے ہیں کہ سلامتی کونسل کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ایک مستقل رکن جس کی پہلی ذمہ داری عالمی امن اور سلامتی قائم رکھنا ہے وہ خود یوکرین پر جارحیت کے ذریعے عالمی امن اور سلامتی کی سنگین پامالی میں ملوث ہے۔ یہ ملک روس ہے۔ اسی لیے یہ بڑی حد تک ایک بنیادی مسئلہ ہے علاوہ ازیں میرے خیال میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے بحیثیت مجموعی بھرپور انداز میں اکٹھے ہو کر یوکرین کی حمایت اور روس کی جارحیت کی مخالفت کی ہے۔ 141 ممالک نے یوکرین پر روس کے اقدامات کے خلاف ووٹ دیا۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ بذات خود آگے آ رہی ہے اور انسانی حقوق کونسل میں بھی یہی دیکھنے کو ملا ہے جہاں یوکرین میں روس کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا جا چکا ہے۔ تاہم سلامتی کونسل میں بذات خود ایک مسئلہ ہے اور یہی حقیقی مسئلہ ہے۔ جب تک روس اس کونسل کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے نہیں چلے گا اس وقت تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔ سوال: شکریہ۔ اگلا سوال یو اے ٹی وی کے وٹالی سائزوو کی جانب سے آیا ہے۔ وٹالی پوچھتے ہیں کہ ”اگر یوکرین کا روس کے ساتھ کوئی امن معاہدہ ہو جاتا ہے تو کیا امریکہ یوکرین میں سلامتی کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہے؟” وزیر خارجہ بلنکن: ہم اپنے یوکرینی شراکت داروں کے ساتھ ہر سطح پر مستقل رابطے میں ہیں اور ان سے دیگر معاملات کے علاوہ اس موضوع پر بھی بات چیت ہو رہی ہے کہ اگر اس مسئلے کا کوئی مذاکراتی حل سامنے آتا ہے تو یہ یقینی بنانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں کہ یوکرین پر دوبارہ ایسا حملہ نہ ہو اور اور یوکرین مستقبل میں اپنا دفاع کرنے کے قابل ہو اور مستقبل میں روس کی کسی جارحیت کو روک سکے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ اس میں کیا کچھ ہو سکتا ہے تاہم بہت سے ممالک یوکرین کے ساتھ بالکل یہی بات کر رہے ہیں۔ ہم اپنی ہرممکن اہلیت سے کام لیتے ہوئے یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب روس کی جارحیت ختم ہو جائے اور روس کی خودمختاری اور آزادی پوری طرح بحال ہو جائے تو ایسا دوبارہ نہ ہونے پائے۔ سوال: اگلا سوال لوری شیکو کریں گے جن کا تعلق ڈوئچے ویلے سے ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ”گزشتہ روز آپ نے یوکرین کے لیے 100 ملین ڈالر کی اضافی دفاعی امداد کا اعلان کیا۔ آپ نے کہا کہ اس میں بکتر بند شکن نظام بھی شامل ہوں گے۔ یوکرین پہلے ہی بڑی تعداد میں ٹینک شکن ہتھیار حاصل کر چکا ہے جبکہ خارکیئو، مائیکولائیو جیسے اس کے بڑے شہروں کو ٹینکوں یا دیگر بکتر بند گاڑیوں سے نہیں بلکہ جنگی طیاروں، توپخانے اور میزائلوں سے خطرہ لاحق ہے۔ کیا امریکہ انہیں اس طرح کے ہتھیاروں سے بچاؤ کے نظام مہیا کرنے یا ان کی فراہمی میں مدد دینے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں فضائی دفاع کا بہتر طور سے دفاع کرنے والے نظام، توپ خانہ یا جیٹ شامل ہوں؟” وزیر خارجہ بلنکن: ہم اور دنیا بھر کے بہت سے ممالک، خاص طور پر یورپی ممالک کئی ماہ سے یوکرین کو ناصرف ٹینکوں کو روکنے والے بکتر بند شکن نظام مہیا کرتے چلے آئے ہیں بلکہ انہیں ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں سے نمٹنے کے لیے فضائی دفاعی نظام بھی دیے گئے ہیں۔ یوکرین کی فورسز نے اپنی غیرمعمولی جرات کے باعث ایسے نظام موثر انداز میں استعمال کر کے روس کی جارحیت کا راستہ روکا ہے اور اسے پیچھے دھکیلا ہے۔ روس نے کیئو یا کیئو کے مضافات کو اپنی مرضی سے نہیں چھوڑا بلکہ اسے یوکرین کی فوج نے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور یہ فوج ایسے بہت سے دفاعی نظام استعمال کر رہی ہے جو ہم نے ہی اسے مہیا کیے ہیں۔ ہماری توجہ یہ یقینی بنانے پر مرکوز ہے کہ ہم یوکرین کو ایسے دفاعی نظام مہیا کریں جنہیں وہ فوری طور پر اور موثر انداز میں استعمال کر سکتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم انہیں دیگر نظام فراہم کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں جن میں بعض پہلے سے زیادہ بڑے اور جدید ہیں اور وہ آئندہ مفید اور اہم ثابت ہو سکتے ہیں تاہم اس کے لیے یوکرین کی افواج کو تربیت کی بھی ضرورت ہو گی کیونکہ بعض نظام ایسے ہیں جنہیں ان کے حوالے کر کے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اسے فوری طور پر استعمال کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ ایسے دفاعی نظام تربیت اور دیکھ بھال کا تقاضا کرتے ہیں۔ لہٰذا ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ یوکرین کی فوج کون سے ہتھیاروں کو فوری طور پر اور موثر انداز میں استعمال کر سکتی ہے لیکن ہم طویل مدتی تناظر میں یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ درست انداز میں تربیت اور مناسب مدد اور دیکھ بھال کے ذریعے کیا کچھ استعمال کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہم یہ تمام باتیں مدنظر رکھے ہوئے ہیں۔ سوال: ٹھیک ہے۔ ہمارا آخری سوال کرنٹ ٹائم ٹی وی کی جانب سے آیا ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ ”روس کے بیشتر شہری یوکرین میں جاری جنگ کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ روس میں اس وقت غیرجانبدار میڈیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کریملن کے بہت سے نقادوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں میں نام نہاد خصوصی فوجی کارروائی کے حق میں وسیع حمایت دکھائی جاتی ہے اور اس طرح روس کے معاشرے پر مجموعی طور پر جنگ کا ذمہ دار ہونے کا الزام آتا ہے۔ کرنٹ ٹائم کی جانب سے روس کے لوگوں سے کی گئی ابت چیت کے دوران یہ سامنے آیا کہ بہت سے شہری اس جنگ کی حقیقی صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں یا یوکرین میں اپنی فوج کے اقدامات کے حامی ہیں۔ اس تناظر میں آپ روس کے لوگوں کو کیا پیغام دیتے ہیں۔ وزیر خارجہ بلنکن: میری خواہش ہے کہ میں موثر انداز میں روس کے لوگوں کو پیغام دے سکوں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ میں روس کے ٹیلی ویژن پر بات نہیں کر سکتا۔ وہاں بیشتر سوشل میڈیا بند ہے یا اگر میں اس پر بات کروں تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ روس کے لوگوں کے سامنے صبح، دوپہر اور شام مسلسل ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جو حقائق کا عکاس نہیں ہوتا، اس سے سچائی ظاہر نہیں ہوتی اور اس سے انہیں حقائق کو مدنظر رکھ کر صورتحال کا خود اندازہ لگانے میں مدد نہیں ملتی۔ چونکہ ہم سب اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اندازہ لگاتے ہیں اور خود نتائج اخذ کرتے ہیں اور جب تک ہمارے پاس اس حوالے سے حقائق موجود نہ ہوں تو یہ اندازے اور نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اور المناک طور پر روس کے لوگوں کو حقائق تک رسائی نہیں مل رہی۔ لیکن اگر میں روس کے لوگوں سے بات کر سکتا اور مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ میری بات سن سکتے ہیں تو میرے خیال میرا ان سے سوال یہ ہوتا کہ: یوکرین کے خلاف روس کی یہ جنگ اور یہ جارحیت آپ کی زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہو رہی ہے؟ اس سے آپ کی وہ ضروریات کیسے پوری ہو رہی ہیں جو امریکہ، یورپ، یوکرین اور پوری دنیا کے لوگوں کی بھی ضروریات ہیں جن میں بچوں کو سکول بھیجنا، خوراک کا انتظام کرنا، بچت کرنا اور ایک بہتر مستقبل بنانا شامل ہیں؟ اس جنگ سے آپ کو اپنی یہ ضروریات پوری کرنے میں کیا مدد مل رہی ہے؟ اس کا دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں جیسی آپ کی ضروریات کی تکمیل سے کیا تعلق ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجھے روس کے لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع ملتا تو میں وہ بات بھی کہتا جو صدر بائیڈن نے یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے صدر پیوٹن کو تواتر سے کہی تھی کہ روس کے ساتھ پہلے سے زیادہ مستحکم اور قابل اعتبار تعلقات کا قیام امریکہ کی اہم ترجیح ہے۔ کسی ملک پر بلااشتعال اور سوچے سمجھے انداز میں حملہ کرنے سے استحکام اور اعتبار کیسے ممکن ہے؟ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن پر ہم اکٹھے کام کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے۔ ان میں کووڈ۔19 سے نمٹنے، معاشی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی سے لاحق موجودہ مسائل پر قابو پانے جیسے کام شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ مسائل امریکہ، روس اور دنیا بھر کے لوگوں کو یکساں طور سے متاثر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنا وقت انہی مسائل پر صرف کرنا چاہیے۔ لیکن المناک طور سے اور کسی وجہ کے بغیر ولاڈیمیر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اب دنیا کی توجہ اسی مسئلے پر مرکوز ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اسی مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا بھر سے ممالک اکٹھے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ میں 141 ممالک یوکرین کے لوگوں کے حق میں کھڑے ہوئے اور روس کی جارحیت کو مسترد کیا۔ اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ پیغام روس کے لوگوں تک پہنچے کہ انہیں اس جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ المناک طور سے یہ جنگ ولاڈیمیر پیوٹن کا انتخاب ہے اور یہ ایسا انتخاب ہے جس سے روس کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئے گی اور بدقسمتی سے المناک طور پر یہ جنگ یوکرین کے لوگوں کی زندگیوں کو ہر انداز میں تباہ کر رہی ہے۔ اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-with-andrea-kalan-of-the-state-departments-russian-language-telegram-channel/ یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔