An official website of the United States Government Here's how you know

Official websites use .gov

A .gov website belongs to an official government organization in the United States.

Secure .gov websites use HTTPS

A lock ( ) or https:// means you’ve safely connected to the .gov website. Share sensitive information only on official, secure websites.

وائٹ ہاؤس
21 ستمبر، 2021
ایئرفورس ون پر
واشنگٹن کو واپسی
2:36 سہ پہر

مس ساکی: ہمارے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دورے کے بعد نیویارک سے واشنگٹن واپسی کی پرواز پر خوش آمدید۔

میں یہ بتانا چاہتی تھی کہ صدر نے جہاز پر سوار ہونے کے بعد وزیراعظم ٹروڈو سے فون پر بات کی اور انہیں انتخابات میں دوبارہ کامیابی پر مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر صدر نے انہیں پیغام دیا کہ وہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

میں جانتی ہوں کہ یہ مختصر فاصلے کی پرواز ہے اس لیے آئیے اب آپ کے سوالات لیتے ہیں۔

سوال: مجھے جلدی سے دو سوال پوچھنا ہیں۔ میرا پہلا سوال ہیٹی سے سرحد پار کر کے آنے والوں کو سرحد پر پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ہے۔ ابتدا میں ہم نے دیکھا کہ مایورکاس نے ایک بیان دیا اور اس کے بعد گزشتہ رات پیش رفت شروع ہوئی۔ اب وہ نائب صدر کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ کیا آپ وضاحت کر سکتی ہیں کہ یہ معاملہ کون سا رخ اختیار کررہا ہے اور امریکی انتظامیہ کو اس سے کیا سیکھنے کی امید ہے؟

مس ساکی: یقیناً، جب گزشتہ روز صبح وزیر خارجہ نے اس معاملے پر بات کی تو اس وقت تک انہوں نے ان واقعات کی تصاویر نہیں دیکھی تھیں۔ جیسا کہ آپ سبھی کو یاد ہو گا یہ گزشتہ روز میری بریفنگ سے کچھ ہی دیر پہلے سامنے آنا شروع ہوئیں اور انہوں نے تقریباً اسی وقت صحافیوں سے بات کی تھی۔

جب انہیں یہ تصاویر اور ان واقعات کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا، جیسا کہ آپ نے گزشتہ رات اور پھر آج صبح ان کا اس بارے میں بیان بھی دیکھا ہو گا، تو یہ صورتحال ان کے لیے دہشت ناک تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات بحیثیت ملک ہمارے کردار اور بائیڈن۔ ہیرس انتظامیہ کی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتے۔

میں یہ بھی کہوں گی کہ انہوں نے گزشتہ رات اپنے بیان میں یہ پیغام دیا کہ ان واقعات کی تحقیقات ہوں گی اور وہ مزید سکیورٹی اہلکاروں کو سرحد پر بھی بھیجیں گے۔

لہٰذا آج نائب صدر کے ساتھ ان کی ملاقات کے حوالے سے مجھے یہ کہنا ہے کہ اس کا مقصد تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔

سوال: اس موقع پر کیا صدر نے بھی وہ تصاویر دیکھی ہیں یا انہیں گزشتہ روز پیدا ہونے والی تمام صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے؟

مس ساکی: جی ہاں۔ وہ اس سے آگاہ ہیں اور انہیں صورتحال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

سوال: کیا انہوں نے تصاویر بھی دیکھی ہیں؟

مس ساکی: میرا خیال ہے کہ انہوں نے دیکھی ہیں۔

سوال: ٹھیک ہے۔ تصاویر دیکھ کر ان کا ردعمل کیا تھا؟

مس ساکی: میرا خیال ہے کہ گزشتہ روز مجھ سے یہی سوال پوچھا گیا تھا جہاں ـــ یا میں سمجھتی ہوں کہ میں نے ـــ یا گزشتہ رات۔

آپ جانتے ہیں کہ وہ ان ویڈیوز اور تصاویر کو ہولناک سمجھتے ہیں۔ یہ بحیثیت ملک ہمارے کردار کی عکاسی نہیں کرتیں۔ انہیں ان واقعات کی تحقیقات کا اعلان سن کر خوشی ہوئی۔ وہ یقیناً تحقیقات کے حامی ہیں۔ جب تحقیقات مکمل ہو جائیں گی تو دیکھا جائے گا کہ اب کون سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

سوال: کیا صدر سمجھتے ہیں کہ ان سرحدی ایجنٹوں کو کسی طرح کی سزا دی جانی چاہئیے یا وہ صرف تحقیقات کا انتظار کر رہے ہیں؟

مس ساکی: اس معاملے میں ایک طریقہ کار پر عمل ہو رہا ہے۔ یقیناً ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تحقیقات جلد مکمل ہو جائیں گی۔ جیسا کہ گزشتہ رات وزیر خارجہ کے بیان سے بھی واضح ہے، ان تحقیقات سے ہی یہ تعین ہو گا کہ کون سا انضباطی قدم اٹھایا جانا چاہیے۔

سوال: جین، صدر کی اقوام متحدہ میں تقریر کو دیکھا جائے تو انہوں نے اس میں لفظ ”چین” استعمال نہیں کیا۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ اس تقریر میں ”چین” کا نام دانستہ طور پر کیوں نہیں ڈالا گیا؟

مس ساکی: میں یہ کہوں گی کہ سب سے پہلے تو ان کی تقریر سے یہ بات واضح تھی کہ صدر اتحاد بنانے کی اہمیت اور دنیا کو درپیش بہت سے مسائل سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کرنے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں اور میں اچھی طرح جانتی ہوں ــــ وہ جانتے ہیں کہ جی7 سمیت دنیا بھر میں ہمارے بہت سے شراکت دار چین کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے ہمیں بہت بڑا مقابلہ درپیش ہے تاہم وہ ایسا ملک نہیں ہے جس سے ہمیں جنگ کرنا ہے۔

اسی لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس کا مقصد ایسے بڑے مسائل سے متعلق امریکہ کا فعال ایجنڈا پیش کرنا ہے جن پر ہم چین کے ساتھ مل کر بھی اکٹھے کام کر سکتے ہیں۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اور دنیا بھر میں سائبر خطرات اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا شامل ہیں۔ یقیناً انہوں نے اپنی تقریر میں بھی یہ واضح کر دیا ـــ اور وہ کسی ایک ملک کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ ہر اس ملک کی بات کر رہے تھے جو اس ہدف تک نہیں پہنچتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت اور انسانی حقوق کے معیارات اونچے رکھیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ایسا پیغام ہے جو ہر سننے والے تک پہنچنا چاہیے۔

سوال: کیا آپ کے پاس میکخواں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں کوئی تازہ ترین معلومات ہیں؟

مس ساکی: یہ بہت جلد ہو گی۔ ہم اس بات چیت کی تفصیلات طے کرنے کے لیے میکخواں کی ٹیم سے رابطے میں ہیں۔ صدر بائیڈن دونوں ممالک کے مابین شراکت کی توثیق، دیرینہ اتحاد اور ہند۔الکاہل میں سلامتی کے معاملات سمیت بہت سے اہم امور پر اکٹھے کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کے منتظر ہیں۔

سوال: وزیراعظم جانسن نے آج کی ملاقات کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر دوطرفہ تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے تندہی سے مصروف ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

مس ساکی: میرا خیال ہے کہ ــ میں یہ کہوں گی کہ صدر کے نکتہ نظر سے اس ملاقات کی بنیادی بات یہ ہو گی کہ بہت سے مسائل پر دونوں ممالک اکٹھے کام کریں۔ ان میں وباء پر قابو پانا، عالمی معیشت کو لاحق مسائل سے نمٹنا اور سلامتی سے متعلق ایسے امور بھی شامل ہیں جن پر ہم کئی دہائیوں سے اکٹھے کام کرتے چلے آئے ہیں۔ جہاں تک تجارتی معاہدے کی بات ہے تو اس بارے میں بتانے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔

سوال: (ناقابل سماعت) تو کیا یہ ایجنڈے پر نہیں ہے؟

مس ساکی: میں ایک مرتبہ پھر کہوں گی کہ میرے خیال میں یہ باتیں جو میں نے ابھی کہیں ہیں، یہی اس ملاقات کی بنیادی باتیں ہوگی تاہم وزیراعظم اس دوران تجارت سمیت بہت سے دیگر امور پر بھی بات کر سکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے۔

سوال: میرا سوال بھی سرحدی صورتحال کے حوالے سے ہے۔ کیا آپ سرحد پر ہیٹی سے آنے والے مہاجرین کی صورتحال پر وائٹ ہاؤس کی میکسیکو کی حکومت کے ساتھ بات چیت کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں؟ کیا بائیڈن انتظامیہ نے ہیٹی کے مہاجرین کی بابت میکسیکو کی حکومت سے کوئی خاص بات کہی ہے؟

مس ساکی: یقیناً ہم مشکل سرحدی صورتحال بشمول سرحد پار کر کے امریکہ آ جانے والے ہیٹی کے بہت سے لوگوں کے معاملے سے نمٹنے کے لیے میکسیکو کی حکومت سے قریبی رابطے میں رہیں گے۔

تاہم یہ کسی ایک ملک یا کسی ایک ملک سے آنے والے لوگوں کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ میکسیکو کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر جاری وسیع تر بات چیت کا ایک حصہ ہو گا کہ ہم سرحد پر مہاجرت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر اپنا کام کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔

تاہم میرے پاس اس بات چیت کے حوالے سے کوئی خاص تفصیلات نہیں ہیں۔

سوال: مجھے ایران کے بارے میں دو سوالات کرنا ہیں۔ پہلا یہ کہ آج وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتوں میں جوہری مسئلے پر بات چیت جاری رکھنے کی توقع کر رہے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا سوال اقوام متحدہ میں ایران کے صدر سے متعلق ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دنیا کے ممالک سے جنگ کا نیا طریقہ وضع کیا ہے اور ہم امریکہ کی حکومت کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ ان باتوں پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے صدر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاسوں سے خطاب کرنے والے ایرانی صدور کے مقابلے میں زیادہ سخت زبان استعمال کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں جوہری بات چیت کا کیا ہو گا؟

مس ساکی: ہمارے دروازے سفارت کاری کے لیے کھلے ہیں۔ یقیناً ان کے ہاں سیاسی انتخابات ہوئے ہیں جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ بات چیت میں ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ گفت و شنید ہی آگے بڑھنے کی بہترین راہ ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہم بات چیت دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ میرے پاس اس حوالے سے آپ کو بتانے کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے مگر یقیناً ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں اور میں توقع رکھتی ہوں کہ دفتر خارجہ آئندہ اقدامات کے حوالے سے ہمیں تازہ ترین اطلاعات سے آگاہ کرے گا۔

جہاں تک ایرانی قیادت کی باتوں کا تعلق ہے تو ان کی اپنی سیاست ہے اور یہ ہم انہی پر چھوڑتے ہیں۔

سوال: جین، آپ لوگوں نے آئندہ مالی سال میں 125,000 مہاجرین کو امریکہ میں قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس سال یہ تعداد 8,000 سے بھی کم رہی۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے اور آپ اس میں کیسے تبدیلی لائیں گے۔ آپ مہاجرین کو امریکہ میں داخلہ دینے کے حوالے سے طے شدہ عددی حد تک کیسے پہنچیں گے؟

مس ساکی: یقیناً، ہمارا ہمیشہ سے یہی ارادہ رہا ہے ــ اگرچہ میں سمجھتی ہوں کہ آپ اس حوالے سے مخصوص اقدامات اور کانگریس کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ اس عمل میں ایک اور قدم ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ یہ بات جانتے تھے کہ جب ہم نے اس مالی سال اور آئندہ مالی سال میں یہاں آںے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ کیا ہے تو اس حوالے سے کام کرنے والے نظام متحرک کرنے میں کچھ وقت درکار ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ معاملہ کووڈ کے باعث بھی متاثر ہوا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مہاجرین کے لیے کام کرنے والی بہت سی اہم تنظیموں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کے لیے عملے اور مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کے ساتھ ہمارا قریبی اشتراک ہے تاہم گزشتہ چند سال میں ان کا کام محدود ہو گیا تھا۔ اسی لیے ہم جانتے ہیں کہ اس میں کچھ وقت درکار ہو گا۔

یقیناً گزشتہ چند مہینے اس حوالے سے بہت اہم تھے اور ہمیں اس معاملے میں پیش رفت کو دیکھ کر خوشی ہے اور ہم آئندہ سال مہاجرین کی امریکہ آمد کے حوالے سے مخصوص عددی حد تک پہنچنے کے خواہاں ہیں۔

سوال: روم اور گلاسگو کی بات کی جائے تو کیا صدر ژی نے آپ کو بتایا ہے کہ وہ بھی ان مواقع پر شریک ہوں گے اور کیا آپ لوگ بھی ان اجلاسوں میں ان سے ملاقات کرنا چاہیں گے؟

مس ساکی: اس وقت میرے پاس چین کے صدر کے سفری شیڈول کے بارے میں کوئی نئی معلومات نہیں ہیں۔

سوال: (ناقابل سماعت) انہوں نے آپ کو کیا بتایا ہو گا؟

مس ساکی: صدر نے یقیناً، دو ہفتے پہلے ـــ میرا خیال ہے کہ یہ دو ہفتے پہلے کی بات ہے ـــ انہوں ںے 90 منٹ تک فون پر بات کی تھی۔ انہوں ںے اعلیٰ سطح پر باہم رابطے رکھنے پر بات کی تھی۔ تاہم میرے پاس آپ کے لیے ان کے سفری شیڈول کی بابت کوئی معلومات نہیں ہیں۔

سوال: آج صبح یا اس دوپہر کو موریسن کے ساتھ ملاقات میں ‘اے یو کے یو ایس’ معاہدے اور فرانس کے ساتھ معاہدے کے خاتمے کی بابت بھی کوئی بات ہوئی؟ یا اس دوران ان معاملات پر بات چیت سے اجتناب برتا گیا؟

مس ساکی: میرے پاس آپ کے لیے اس ملاقات کے حوالے سے کوئی مزید تفصیلات نہیں ہیں۔ تاہم میں آپ کے لیے اسے دہرا سکتی ہوں اور یہ بات صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ ہند۔الکاہل کے معاملے پر فرانس سمیت بہت سے ممالک سے باہمی تعلقات قائم رکھنا اہم ہے جن میں ‘اے یو کے یو ایس” کے ارکان اور ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو اس کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطرہ سلامتی کے حوالے سے دنیا کی ایک اہم ترجیح ہے۔

میں جانتی ہوں کہ وہ آنے والے دنوں میں صدر میکخواں سے بات چیت کے منتظر ہیں۔


اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/press-briefings/2021/09/21/press-gaggle-by-press-secretary-jen-psaki-en-route-washington-d-c/

یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔

U.S. Department of State

The Lessons of 1989: Freedom and Our Future