امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
ماحول کے لیے خصوصی صدارتی نمائندے جان کیری کا افتتاحی خطاب
25 جنوری 2021
میزبان: خوش آمدید جناب کیری۔ ہم عالمی رہنماؤں کے اس ورچوئل اجلاس میں آپ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ آپ کی ہمارے ساتھ موجودگی واقعی بہت عمدہ بات ہے۔ براہ مہربانی کیا آپ ہمیں امریکہ کے نئے عزائم سے آگاہ کریں گے؟
سیکرٹری کیری: بالکل، آپ کا شکریہ اور میں آپ کے ساتھ موجودگی کو اپنے لیے خاص سمجھتا ہوں۔ میں اس اہم اور بروقت اجلاس کے انعقاد پر وزیراعظم رُٹے اور نیدرلینڈز کی حکومت کے شکریے سے اپنی بات شروع کرنا چاہوں گا۔ مجھے اس اجلاس میں شرکت پر واقعی خوشی ہوئی ہے۔ مزید برآں، اگر اجازت ہو تو میں سیکرٹری جنرل گوتیخش کی ماحولیاتی تبدیلی کے لیے انتھک قیادت پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور یقیناً اپنے دوست بان کی مون کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے پیرس معاہدے پر بات چیت کے دوران اہم کردار ادا کیا اور اس کا نفاذ ممکن بنایا۔ وہ ناصرف ماحول کے حوالے سے بلکہ بہت سی دیگر چیزوں اور مسائل پر بھی ہمارے شراکت دار رہے ہیں۔
تین سال پہلے سائنس دانوں نے ہمیں واضح طور پر متنبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین نتائج سے بچنے کے لیے بارہ سال ہیں۔ اب ہمارے پاس نو برس باقی رہ گئے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میرا ملک ان میں تین سال غیرحاضر رہا۔ امریکہ میں ہم نے ایک سال میں تین طوفانوں پر 265 بلین ڈالر خرچ کیے ــ محض ان طوفانوں کے بعد صفائی پر۔ گزشتہ سال ایک طوفان پر ہمارے 55 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نقصان سے بچنا یا اس کی شدت کم سے کم رکھنا اس کے اثرات کا ازالہ کرنے کی نسبت کہیں سستا کام ہے۔
میرے خیال میں بلا شبہ اب ہر شخص اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے ہنگامی صورتحال سمجھا جائے جیسا کہ یہ ہے اور پیرس معاہدے کے مطابق زمین کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک بڑھنے سے روکنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ 1.5 کو ایک اہم ہندسہ قرار دینے پر سائنس دانوں کا اتفاق پہلے سے بڑھتا جا رہا ہے۔ درجہ حرارت میں 3.7 سے 4.5 سینٹی گریڈ تک اضافہ زمین کو انتہائی کمزور اور غریب ترین لوگوں کے لیے ناقابل سکونت بنا رہا ہے اور اس وقت ہم بالکل اسی راہ پر چل رہے ہیں۔
لہٰذا ہماری فہم عامہ اور عقلِ سلیم ماحول کے لیے مضر گیسوں کے اخراج میں فوری کمی کا تقاضا کرتی ہے۔ صدر بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو اپنی انتظامیہ کی اول ترجیح بنایا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ہمارے پاس ایسا صدر ہے جو رہنمائی کرتا ہے، سچ بتاتا ہے اور اس مسئلے کے بارے میں تشویش رکھتا ہے۔ صدر بائیڈن جانتے ہیں کہ ہمیں ایسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بے مثل انداز میں متحرک ہونا ہے جو تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس اس پر قابو پانے کے لیے محدود وقت ہی بچا ہے۔
اسی لیے امریکہ نے پیرس معاہدے میں فوری دوبارہ شمولیت اختیار کی اور ہم یہ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ سی او پی 26 پُرامید ماحولیاتی اقدام کا سبب بنے جس میں ماحول کے لیے مضر گیسوں کا اخراج کرنے والے تمام ممالک نمایاں طور سے اپنے عزائم کا اظہار کریں اور جس میں ہم کمزور ترین ممالک کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد دیں۔
اس معاملے میں ہم قومی طور پر متعین شدہ ایک ایسے نئے امریکی کردار کی تیاری کے لیے پہلے ہی اپنا کام شروع کر چکے ہیں جو اس مسئلے کی ہنگامی نوعیت سے مطابقت رکھتا ہے اور ہم جتنا جلد ہو سکے اپنے این ڈی سی کے اعلان کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اندرون ملک اور کوویڈ کے بعد اس معاملے میں بہترین لانے کے لیے اپنی کوششوں کے طور پر بھی ماحولیاتی اقدام کے حوالے سے نمایاں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر ہم ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے مالیاتی وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں۔ طویل مدتی تناظر میں 2050 سے پہلے اور 1.5 ڈگری کی حد کو اپنی رسائی میں رکھتے ہوئے ماحول سے مضر گیسوں کا مکمل اخراج (نیٹ زیرو) ماحولیاتی بہتری اور اس معاملے میں موافق طریقے اختیار کرنے کے حوالے سے بدستور بہترین حکمت عملی ہیں۔ انتہائی امیرترین اور باوسائل ممالک کے علاوہ تین یا چار ڈگری درجہ حرارت والی دنیا میں کسی اور ملک کے لیے موافق طریقےاپنانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے ایسے اثرات سے تحفظ دینے کے طریقوں میں بھی مضبوطی لانا ہے جن کے باعث پہلے ہی ماحول میں موجود مضر گیسوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اب بڑھی ہوئی عالمی حدت کے باعث ایسے بعض اثرات ناگزیر ہیں، تاہم اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کے لیے دلیرانہ اور فوری اقدام نہیں کرتے تو ممکنہ طور پر ہر فرد کی معاشی ترقی میں ڈرامائی پس قدمی دیکھیں گے۔ غریب اور ماحول کی شدت کے سامنے کمزور معاشرے یقینی طور پر اس کی سب سے بھاری قیمت چکائیں گے۔
اسی لیے امریکہ اولوالعزمی، مضبوطی اور صاف ماحول سے موافقت کے حامل طریقہ ہائے کار اختیار کرنے کے لیے تین محاذوں پر کام کرے گا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی خدشے کو بہتر طور سے سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی اختراع اور ماحول سے متعلق معلومات اور اطلاعات سے کام لیا جائے گا۔ ہم ماحول دوست طریقہ ہائے کار اختیار کرنے اور تحفظ ماحول کے مضبوط اقدامات کے لیے مالیات بشمول رعایتی مالیات کی فراہمی میں نمایاں اضافہ کریں گے۔ ہم ماحول دوست اقدامات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے دوطرفہ اور کثیرملکی اداروں کے ساتھ کام کریں گے۔ ہم امریکہ میں، ہر جگہ اور ترقی پذیر ممالک میں کاروباری طبقے اور اس پر انحصار کرنے والے لوگوں میں بڑے پیمانے پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ کام کریں گے۔
ہماری پوری انتظامیہ اس بات پر اچھی طرح یقین رکھتی ہے، ہر ادارہ اب ہماری ماحولیاتی ٹیم کا حصہ ہے اور مل جل کر ہی ہم ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ زندگیاں بچانے اور آنے والی نسلوں اور اس وقت نہایت مشکل حالات میں رہنے والوں کے مستقبل کی بابت ہم پر عائد ہونے والی ذمہ داری کے حوالے سے ایسا کرنا بے حد اہم ہے۔
لہٰذا ہمیں خوشی ہے کہ ہم واپس آئے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم گزشتہ چار سال کی غیرحاضری کے باعث عاجزانہ طور سے واپس آئے ہیں اور صورتحال کو درست کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔
میزبان: جناب کیری، آپ کی واپسی نہایت عمدہ بات ہے۔ آپ کا بے حد شکریہ اور ماحولیاتی بہتری کے لیے امریکہ کے عزم کی بحالی پر ہم اس کے مشکور ہیں۔ آپ کا بے حد شکریہ۔
اصل عبارت پڑھیے: https://www.state.gov/opening-statement-at-climate-adaptation-summit-2021/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔