وائٹ ہاؤس
واشنگٹن، ڈی سی
28 اپریل، 2021
(خارجہ پالیسی سے متعلق اقتباسات)
دیکھیے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں اس قدر مصروف ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہم اکیسویں صدی میں کامیابی کے لیے باقی دنیا کے ساتھ درپیش مقابلے کو بھول جائیں۔ جیسا کہ وزیر خارجہ بلنکن آپ کو بتا سکتے ہیں، میں نے صدر شی کے ساتھ بہت سا وقت گزارا، ان کے ساتھ 17,000 میل سے زیادہ کا سفر کیا اور ان کے ساتھ نجی طور پر 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک تبادلہ خیال کیا۔ جب انہوں نے مجھے مبارک دینے کے لیے فون کیا تو ہماری بات چیت دو گھنٹے تک جاری رہی۔
وہ اپنے ملک کو دنیا میں سب سے اہم اور باوقعت بنانے کے لیے شدت سے سرگرم ہیں۔ وہ اور دوسرے مطلق العنان حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں جمہوریت آمریتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ اسے اتفاق رائے تک پہنچنے میں بہت سا وقت درکار ہوتا ہے۔ میرے خیال میں مستقبل میں یہ مقابلہ جیتنے کے لیے ہمیں اپنے خاندانوں اور اپنے بچوں پر ایک مرتبہ ایسے انداز میں خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہے جس سے ان کی زندگیاں بدل جائیں۔
٭٭٭٭
میں نے کئی بار کہا ہے کہ ہماری طاقت کی مثال نہیں بلکہ ہماری مثال کی طاقت ہی ہماری سب سے بڑی قوت ہے۔
عالمی رہنماؤں سے میری بات چیت، میں نے 38 سے زیادہ رہنماؤں سے بات کی ہے [ بلکہ] ان کی تعداد اب 40 ہو گئی ہے۔ میں نے انہیں یہ بتا دیا ہے۔ میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے جواب میں کیا کہا؟ میں نے ان میں سے بیشتر کے منہ سے کیا بات سنی؟ وہ کہتے ہیں کہ ”ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ مگر کتنے عرصے کے لیے؟ مگر کتنے عرصہ کے لیے؟”
میرے ہموطن امریکیو، ہم نے صرف یہ ثابت نہیں کرنا کہ ہم واپس آ چکے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ہم یہیں رہیں گے اور یہ کہ ہم اکیلے آگے نہیں بڑھیں گے۔
ہم اپنے اتحادیوں کے تعاون سے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے یہ کام کریں گے۔ کوئی ایک ملک دہشت گردی سے جوہری پھیلاؤ، بڑے پیمانے پر مہاجرت، سائبر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی تک اور ہمیں درپیش وباؤں سمیت اس دور کے تمام بحرانوں سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔
ہمارے پاس اتنی اونچی کوئی دیوار نہیں جو کسی بھی وائرس کو ملک میں داخل ہونے سے روک سکے۔ جوں جوں ہمارے ہاں اپنی ضروریات کے مطابق ویکسین مہیا ہوتی چلی جائے گی ــ [بلکہ] ہم اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو گئے ہیں – ہم دوسرے ممالک کو ویکسین کی فراہمی کا مرکز بنتے چلے جائیں گے جیسا کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ میں جمہوریت کا مرکز تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی ہمارے اکیلے [ملک] کی جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک عالمگیر جنگ ہے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں امریکہ دنیا بھر میں کاربن کے 15 فیصد سے بھی کم اخراجوں کا ذمہ دار ہے۔ کاربن کے 85 فیصد بقیہ اخراجوں کی ذمہ دار دنیا ہے۔
اسی لیے میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اپنا وعدہ پورا کیا۔
میں نے چین سے روس اور بھارت سے یورپی یونین تک دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کے ساتھ یہاں امریکہ میں موسمیاتی مسئلے پر ایک کانفرنس کے انعقاد کا وعدہ پورا کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں اپنی صدارت کے پہلے 100 دنوں میں یہ کام کروں گا۔ میں اس کے بارے میں کُھل کر بات کرنا چاہتا ہوں۔
میں نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی کہ دنیا دیکھ سکے کہ ہمارے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ہم دنیا کو بچانے کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہیں تو ہم لاکھوں نوکریاں اور معاشی ترقی کے مواقع تخلیق کر سکتے ہیں اور ہمارے پاس دنیا بھر میں قریباً ہر ایک کا معیار زندگی بلند کرنے کا موقع ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نے ان میں سے کسی کو دیکھا ہو، اور اگر آپ سبھی مصروف تھے، مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، [اور] درحقیقت ہرملک نے یہ بات کہی، حتیٰ کہ انہوں نے بھی جو اس مسئلے کے حل میں اپنا جائز کردار ادا نہیں کر رہے۔
میں آج جس سرمایہ کاری کی تجویز پیش کر رہا ہوں میں سمجھتا ہوں اس سے ہماری خارجہ پالیسی کو آگے بڑہانے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس کا مطلب یہ یقینی بنانا ہے کہ عالمی معیشت میں چین سمیت ہر ملک قوانین کے مطابق چلے۔ صدر شی کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ ہم مقابلے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ہم جھگڑا نہیں چاہتے۔
لیکن میں نے ان پر یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی ہے کہ ہم امریکہ کے ہر طبقے کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ امریکہ ریاست کی جانب سے ریاستی عملداری میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں اور ریاستی ملکیتی کاروباروں کے لیے امدادی قیمتوں کی فراہمی، امریکی ساختہ ٹیکنالوجیوں اور املاکِ دانش کی چوری جیسے ناجائز تجارتی اقدامات کی مخالفت کرے گا۔ ان سے امریکہ کے محنت کشوں اور امریکی صنعتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
میں نے صدر شی کو یہ بھی بتایا کہ نیٹو اور یورپ کی طرح ہم بحرہند و بحرالکاہل میں اپنی موثر عسکری موجودگی برقرار رکھیں گے۔ ہمارا مقصد جنگ شروع کرنا نہیں بلکہ جنگ کو روکنا ہے۔
میں نے انہیں وہی بات بتائی جو میں نے دنیا کے بہت سے رہنماؤں سے کی ہے کہ امریکہ اپنے وعدوں سے نہیں پھِرے گا۔ امریکہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے سلسلے میں اپنے عہد اور اپنے اتحادوں سے کیے گئے وعدوں پر پورا اترے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب بنیادی انسانی حقوق اس قدر دیدہ دلیری سے پامال کیے جا رہے ہوں تو کوئی ذمہ دار امریکی صدر خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ امریکہ کو اپنے ملک کی اقدار کی روح کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے۔
امریکہ ایک نظریہ ہے، تاریخ کا ایک منفرد ترین نظریہ کہ ہم سب کو برابر حیثیت میں تخلیق کیا گیا ہے۔ ہم اس اصول سے منہ نہیں پھیر سکتے۔ درحقیقت ہم یہ کہہ سکتے ہیں، “ہم امریکہ کے اسی نظریے پر عمل پیرا ہیں۔”
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو میں جانتا ہوں آپ میں سے بعض لوگوں کو اس پر تشویش ہو گی، مگر میں نے پیوتن (روس کے صدر ولادیمیر) پر پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ ہم باہمی تعلقات میں تناؤ نہیں چاہتے، لیکن اگر روس نے کچھ غلط کیا تو اس کے نتائج بھی ہوں گے۔ ایسا ہی ہوا اور اسی لیے میں نے اپنے انتخابات میں مداخلت اور ہماری حکومت اور ہمارے کاروباروں پر روس کے سائبر حملوں کا براہ راست اور متناسب جواب دیا۔
انہوں ںے یہ دونوں کام کیے اور میں نے انہیں بتایا کہ ہم اس کا جواب دیں گے اور ہم نے دیا بھی ہے۔ لیکن جب باہمی مفاد کا معاملہ ہو تو ہم ایک دوسرے سے تعاون بھی کر سکتے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں پر نیو سٹارٹ معاہدے کو توسیع دے کر ہم نے یہی کچھ کیا اور ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی اکٹھے کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہم جواب دیں گے۔
ایران اور شمالی کوریا کے مسئلے اور ان کے جوہری ہتھیاروں سے امریکہ اور دنیا کی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات پر ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ان ممالک سے درپیش خطرات کو سفارت کاری اور کڑے اقدامات کے ذریعے روکا جا سکے۔ امریکہ کے قائدانہ کردار کا مطلب افغانستان میں جنگ کو ہمیشہ کے لیے روکنا ہے۔
بلامبالغہ ہمارے پاس دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی لڑاکا فوج ہے۔ میں 40 سال میں وہ پہلا صدر ہوں جو یہ بات جانتا ہے کہ اپنے بیٹے کے میدان جنگ میں ہونے پر کس طرح کے احساس ہوتے ہیں۔ آج ہماری فوج کے ارکان اسی جگہ جنگ لڑ رہے ہیں جہاں ان کے والدین نے لڑی تھی۔ افغانستان میں ہماری فوج کے ایسے ارکان بھی تعینات ہیں جو نائن الیون کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
جیسا کہ ہمیں یہاں ہونے والے مباحث یاد ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا مقصد کسی ملک کی تعمیر کے لیے کئی نسلوں تک جاری مہم شروع کرنا نہیں تھا۔ ہم اُن دہشت گردوں کو پکڑنے افغانستان گئے جنہوں ںے ہم پر نائن الیون کا حملہ کیا تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے جہنم کے دروازوں تک اس کا پیچھا کریں گے۔ اگر آپ بالائی کنڑ وادی میں گئے ہوں تو آپ نے جہنم کے دروازوں جیسے حالات دیکھے ہوں گے۔
ہم نے بن لادن کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ ہم نے القاعدہ سے لاحق خطرے اور افغانستان میں جنم لینے والے خطرات کا زور توڑا۔ 20 سال تک مالی وسائل خرچ کرنے، بہادری کے مظاہرے اور قربانیاں دینے کے بعد اب ان فوجیوں کو وطن واپس لانے کا وقت ہے۔
ایسا کرتے ہوئے بھی ہم اپنے وطن کو مستقبل میں لاحق ہونے والے ممکنہ خطرات کو کچلنے کے لیے اپنی فضائی اہلیت برقرار رکھیں گے۔ یاد رہے کہ 20 سال میں دہشت گردی پہلے سے زیادہ پھیل گئی ہے۔ یہ خطرہ افغانستان سے نکل کر بہت دور تک پھیل چکا ہے۔ آپ میں وہ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں جو انٹیلی جنس، خارجہ تعلقات اور دفاعی کمیٹیوں کا حصہ رہے ہیں۔ ہمیں امریکہ کو ہر جگہ سے درپیش خطرات کے خلاف چوکس رہنا ہے۔ یمن، شام، صومالیہ اور افریقہ و مشرقی وسطیٰ کے علاقوں اور دیگر جگہوں پر القاعدہ اور داعش کا خطرہ موجود ہے۔
٭٭٭٭
۔۔۔ امیگریشن ہمیشہ امریکہ کے لیے ضروری رہی ہے۔ آئیے امیگریشن کے خلاف اپنی تھکا دینے والی جنگ کو ختم کریں۔
30 سال سے زیادہ عرصے تک سیاست دانوں نے امیگریشن کے شعبے میں اصلاحات کی بات کی مگر ہم نے عملی طور پر اس معاملے میں کچھ نہیں کیا۔ اب اس مسئلے کو حل کرنے کا وقت ہے۔ اپنی صدارت کے پہلے ہی دن میں نے امیگریشن سے متعلق ایک جامع مسودہ قانون کانگریس کو بھیجنے کا وعدہ پورا کیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سرحد کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے تو اسے منظور کیجیے کیونکہ اس میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سرحدی سلامتی برقرار رکھنے کے لیے بھاری رقم رکھی گئی ہے۔ اگر آپ شہریت دینے کے راستے کو بہتر سمجھتے ہیں تو اسے منظور کیجیے۔ امریکہ میں 11 ملین سے زیادہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس یہاں قانونی حیثیت سے قیام کرنے کی دستاویزات نہیں ہیں اور ان کی بڑی اکثریت ویزوں کی معیاد ختم ہونے کے باوجود یہاں رہ رہی ہے۔ اس قانون کو منظور کیجیے۔
اگر آپ واقعی یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو جو مسودہ قانون میں نے آپ کو بھجوایا ہے اس پر غور کیجیے۔ ہمیں اس مسئلے کی بنیادی وجہ کو بھی دیکھنا ہے کہ لوگ کیوں اپنے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر ہمیں اپنی جنوبی سرحد پر گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایل سلواڈور سے لوگوں کی امریکہ کی جانب نقل مکانی کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تشدد، بدعنوانی، جرائم پیشہ گروہ، سیاسی عدم استحکام، بھوک، طوفان، زلزلے اور قدرتی آفات اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ جب میں نائب صدر تھا تو صدر نے مجھے مہاجرت کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے درکار مدد کی فراہمی پر توجہ دینے کو کہا۔
اس سے لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے کے بجائے انہیں اپنے ممالک میں ہی رکھنے میں مدد ملی۔ یہ منصوبہ کامیاب ہو رہا تھا مگر گزشتہ امریکی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ پروگرام بحال کر رہا ہوں اور میں نے نائب صدر (کملا) ہیرس سے کہا ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال کے حوالے سے ہماری سفارتی کوشش کی قیادت کریں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ یہ کام کامیابی سے سرانجام دیں گی۔
دیکھیے، اگر آپ کو میرا منصوبہ پسند نہیں تو کم از کم ان چیزوں کو منظور کر لیں جن پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ کانگریس کو بالاخر ڈریمرز کے تحفظ کے لیے اس سال قانون سازی کرنا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کے نزدیک امریکہ ان کا اپنا گھر ہے۔ اس میں عارضی تحفظ کے زمرے کے تحت یہاں موجود مہاجرین کو مستقل تحفظ دینے کا معاملہ بھی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانی و قدرتی وجوہات کی بنا پر ہونے والے تشدد اور قدرتی آفات سے بچ کر یہاں آئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے غیرملکی کارکنوں کو شہریت دینے کا راستہ بھی ڈھونڈنا ہے جو ہمارے لیے خوراک پیدا کرتے ہیں۔ دیکھیے، اس وبا میں اور ہماری پوری تاریخ میں تارکین وطن نے امریکہ کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ ہمارا ملک امیگریشن اصلاحات کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں عملی قدم اٹھانا ہے۔ آئیے اس پر دلائل دیں، بحث مباحثے کریں مگر عملی قدم بھی اٹھائیں۔
٭٭٭٭
آیا ہماری جموریت طویل عرصہ تک برقرار رہے گی؟ یہ سوال بہت پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ یہ اتنا پرانا ہے جتنی پرانی ہماری جمہوریہ ہے۔ یہ سوال آج بھی اہم ہے۔
کیا ہماری جمہوریت ہمیں اپنے اس عہد کے ثمرات پہنچا سکتی ہے کہ خدا کے پرتو کے طور پر مساوی حیثیت سے تخلیق کیے گئے ہم سب لوگوں کو وقار، احترام اور امکان پر مبنی زندگیاں گزارنے کا حق ہے؟ کیا ہماری جمہوریت ہمارے لوگوں کی اہم ترین ضروریات پوری کر سکتی ہے؟ کیا ہماری جمہوریت جھوٹ، غصے، نفرت اور ہمیں تقسیم کرنے والے خدشات پر قابو پا سکتی ہے؟ دنیا کے آمر اور امریکہ کے دشمن شرطیہ طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ہم غصے، اختلاف اور طیش سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ کیپیٹل پر حملہ کرنے والے ہجوم کی تصویروں کو اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی جمہوریت زوال پذیر ہے۔ مگر وہ غلطی پر ہیں۔ آپ یہ بات جانتے ہیں۔ میں یہ جانتا ہوں۔ ہمیں انہیں غلط ثابت کرنا ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت اب بھی کارآمد ہے۔ ہماری حکومت اب بھی کارآمد ہے اور ہم لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
اپنے پہلے 100 دنوں میں ہم نے مل کر جمہوریت کی کامیابی پر اپنے لوگوں کا یقین بحال کرنے کے لیے کام کیا۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.whitehouse.gov/briefing-room/speeches-remarks/2021/04/28/remarks-as-prepared-for-delivery-by-president-biden-address-to-a-joint-session-of-congress/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔