امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
5 اپریل 2021
وزیر خارجہ اینٹںی جے بلنکن کی ذرائع ابلاغ سے بات چیت
بین فرینکلن روم
واشنگٹن، ڈی سی
وزیر خارجہ بلنکن: سہ پہر بخیر۔
فروری 2020 میں امریکہ میں کوویڈ-19 سے ہونے والی پہلی موت سے اب تک اس وبا میں 550,000 امریکیوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ 30 ملین سے زیادہ امریکی شہری اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں امریکیوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے جنہیں انہیں الوداع کرنے کا موقع بھی نہیں ملا۔
کوئی بھی اس وائرس سے محفوظ نہیں ہے۔ اس نے رنگ دار لوگوں کو خاص شدت سے نشانہ بنایا، انہیں تباہ کیا اور ہمارے ملک کی نسلی و معاشی تقسیم کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔
کوویڈ-19 سے بڑے پیمانے پر ہونے والا طبی نقصان اور اموات اس وبا کے معاشی اور سماجی اثرات سے مماثل ہیں۔ ریسٹورنٹ، بار اور سینما گھروں کو تالے لگ گئے ہیں جن میں بہت سے ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ لاکھوں بچے سکول جانے کے بجائے گھروں پر رہنے پر مجبور ہیں اور ان کا قیمتی تعلیمی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اسی طرح اپنے بچوں اور معمر والدین کی نگہداشت کرنے والی لاکھوں خواتین کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔
انہی تمام وجوہات کی بنا پر کوویڈ-19 کو روکنا بائیڈن۔ہیرس انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ بصورت دیگر کورونا وائرس پھیلتا رہے گا جس سے لوگوں کی زندگیاں اور روزگار خطرے میں ہوں گے اور ہماری معیشت کا پہیہ رک جائے گا۔ اس وبا کے خاتمے تک امریکی عوام کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر تو درکنار ہم پوری طرح بحال بھی نہیں ہو سکتے۔
روزِ اول سے ہی امریکی انتظامیہ نے زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو جتنا جلد ممکن ہو ویکسین لگانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ صدر بائیڈن نے 100 ایام میں 100 ملین ویکسین دینے کا ہدف مقرر کیا۔ ہم نے 58ویں روز یہ ہدف حاصل کر لیا۔ اب ہم 100 دن میں 200 ملین ویکسین لگانے کے نئے ہدف کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انتظامیہ تیزی سے ملک بھر میں ویکسین لگانے کے نئے مراکز قائم کر رہی ہے جس سے 19 اپریل تک 90 فیصد امریکیوں کو اپنے گھر سے پانچ میل کے فاصلے پر ویکسین کی سہولت میسر آئے گی۔ یہ ہدف آج سے دو ہفتے بعد پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم تیزرفتاری سے ویکیسن بھی بناتے چلے آ رہے ہیں۔ مئی کے اختتام تک ہمارے پاس امریکہ میں تمام بالغوں کے لیے خاطرخواہ مقدار میں ویکسین دستیاب ہو گی۔ اب تک ویکسین کی افادیت کے بارے میں اطلاعات نہایت تسلی بخش رہی ہیں۔
یہ حقیقت امریکی عوام کے لیے امید اور فخر کا باعث ہو سکتی ہے کہ ہم اندرون ملک اس وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت اچھی پیش رفت کر رہے ہیں۔ اس کا کریڈٹ ہمارے طبی کارکنوں، سائنس دانوں اور ہماری حکومت کو جاتا ہے۔
ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا۔ ہم آرام سے بیٹھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ابھی امریکیوں کو چاہیے کہ ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور جب باری آئے تو ویکسین لگوائیں۔ اپنے لیے، اپنے اہلخانہ کے لیے، اپنے ہمسایوں اور ان لوگوں کے لیے یہ سب کچھ کریں جو شاید آپ سے کبھی نہ ملے ہوں مگر آپ کے اقدامات سے ان کی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ کوویڈ کو روکنے میں ایک اور بات خاص اہمیت رکھتی ہے اور آج ہم یہاں اسی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں اندرون ملک یہ وبا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک یہ دنیا بھر میں ختم نہیں ہو جاتی۔
میں چند لمحے اس پر بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اسے سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم کل ہی امریکہ کے تمام 332 ملین شہریوں کو ویکسین لگا دیں تو تب بھی ہم اس وائرس سے پوری طرح محفوظ نہیں ہوں گے۔ جب تک دنیا بھر میں اس وائرس کی افزائش ہو رہی ہے اور اس کی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں اس وقت تک ہم محفوظ نہیں ہیں۔ وائرس کی یہ اقسام باآسانی ہمارے ملک دوبارہ پھیل سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنی معیشت کو دوبارہ پوری طرح کھولنے یا دوبارہ سفر شروع کرنے کے خواہش مند ہیں تو ہم محفوظ نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اگر تاحال دوسرے ممالک کی معیشتوں کو کوویڈ کے اثرات کے باعث دوبارہ ترقی میں مشکلات کا سامنا ہے تو اس سے ہماری معاشی بحالی بھی متاثر ہو گی۔
کوویڈ کی وبا کے ہر جگہ خاتمے کے لیے پوری دنیا کو اکٹھا ہونا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کو عملی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔
روئے زمیں پر کوئی ایسا ملک نہیں جو اس وبا کے پوری طرح خاتمے کے لیے ویکسین کی تیاری اور حکومتوں، کاروباروں اور عالمی اداروں کو صحت عامہ کے لیے بڑے پیمانے پر پائیدار کوشش کے لیے اکٹھا کرنے میں وہ کردار ادا کر سکتا ہو جو امریکہ کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس میں انتظام و انصرام، مالیات، اشیا کی ترسیل کا انتظام، چیزوں کی تیاری اور نچلی سطح پر کام کرنے والے ان طبی کارکنوں کے ساتھ ربط کا قیام شامل ہو گا جن کے ذریعے لوگوں تک طبی خدمات کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے زوردار سفارت کاری درکار ہو گی۔
اس سے پہلے دنیا کو یہ تجربہ نہیں ہوا۔ یہ وقت امریکہ کے قائدانہ کردار کا تقاضا کرتا ہے۔
اب تک بائیڈن-ہیرس انتظامیہ کی بنیادی توجہ امریکیوں کو ویکسین لگانے اور اندرون ملک کوویڈ کے پھیلاؤ کو سست کرنےاور بالاآخر اسے روکنے پر مرکوز رہی ہے۔ دفتر خارجہ میں ہم نے امریکہ میں کام کرنے والے اپنے عملے اور دنیا بھر میں امریکہ کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں خدمات انجام دینے والوں کو ویکسین لگانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
یہ ممکنہ بہترین اقدام ہے۔ امریکی عوام کی خدمت ہماری پہلی اور نمایاں ترین ترجیح ہے۔ مزید برآں ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکہ میں کوویڈ متاثرین کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے بہت زیادہ تھی۔ اسی لیے اندرون ملک اس وبا کا پھیلاؤ روکنا ہمارے لوگوں اور دنیا بھر کے لیے ضروری تھا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ دوسرے ممالک کو تحفظ دینے کے لیے امریکہ میں وائرس پر قابو پائیں۔
تاہم بہت جلد امریکہ کو اپنا کام آگے بڑھانے اور دنیا بھر میں اس وبا کے خلاف خاص کوششوں کی ضرورت ہو گی کیونکہ امریکی شہریوں کی اس بیماری سے طویل مدتی حفاظت دنیا بھر میں کوویڈ کے خاتمے سے مشروط ہے۔
مزید برآں ہم دنیا کے لیے اس وبا کے خلاف بھرپور اقدام کرنا چاہتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی ایک مہلک ترین وبا کو خاتمے کے قریب لا کر ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ امریکہ کی قیات اور ہنر سے کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ آئیے اسے کوویڈ-19 کے خاتمے کی داستان بنا دیں۔
اس حوالے سے ہم پہلے ہی بعض اہم اقدامات کر چکے ہیں۔
ہم نے اپنی حکومت کے پہلے ہی دن عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ ادارے میں رہ کر ہم ایسی اصلاحات کے لیے زور دے سکتے ہیں تاکہ ہمارے لیے اگلے حیاتیاتی خطرے کو روکنا، اس کی نشاندہی اور اس کے خلاف تیزتر اقدام ممکن ہو۔ کانگریس نے حال ہی میں کوویڈ کے خلاف امریکہ کے عالمگیر اقدام کے لیے 11 بلین ڈالر سے زیادہ مالی وسائل مہیا کیے ہیں جنہیں ہم کئی انداز میں استعمال کریں گے۔ ان میں ویکسین تک وسیع اور مساوی رسائی کے ذریعے زندگیوں کا تحفظ، کوویڈ کے ثانوی اثرات جیسے بھوک میں کمی لانے کے لیے امداد کی فراہمی اور دنیا بھر کے ممالک کو وبا کا بہتر طور سے مقابلہ کرنے میں مدد دینا شامل ہے۔
یہ امریکہ کے قائدانہ کردار کی طویل روایت کا تسلسل ہے۔ امریکہ اب تک عالمگیر صحت کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک ہے۔ اس میں گلوبل فنڈ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے اداروں اور عالمگیر صحت کے حوالے سے ہمارے اپنے نمایاں پروگراموں جیسا کہ ‘پیپفار’ کے ذریعے کی جانے والی عالمگیر کوششوں میں مالی وسائل کی فراہمی شامل ہے۔ پیپفار پروگرام کی بدولت دنیا میں ایڈز سے پاک پہلی نسل کا ہدف حاصل ہونے کو ہے۔
ہم نے کوویکس پروگرام کے لیے بھی 2 بلین ڈالر عطیہ دیا ہے۔ یہ پروگرام کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کو کوویڈ ویکسین فراہم کرے گا۔ ہم نے اس مقصد کے لیے مزید 2 بلین ڈالر بھی مختص کیے ہیں۔ ہم نے اپنے قریب ترین ہمسائے میکسیکو اور کینیڈا کو پہلے ہی ویکسین ادھار دی ہے۔ ہم ہر جگہ ہر ایک کے لیے خاطرخواہ مقدار میں ویکسین کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے اس کی تیاری اور ترسیل کے عمل میں اپنے عالمگیر شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔
اندرون ملک ویکسین کی ترسیل کا انتظام مزید بہتر بناتے ہوئے ہم دوسرے ممالک کی مدد کے لیے ان کے ساتھ مزید اشتراک کے امکانات ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس معاملے میں مزید بہت کچھ کر سکیں گے۔
میں جانتا ہوں کہ بہت سے ممالک امریکہ سے مزید اقدامات کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ان میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں کوویڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامی حالات کی وسعت اور حجم کے سبب مایوسی جنم لے رہی ہے۔ ہم ان کی آواز سن رہے ہیں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہرممکن تیزرفتار سے ان کی جانب آ رہے ہیں۔
ہم ہر قدم پر اپنی بنیادی اقدار سے رہنمائی لیں گے۔
ہم سیاسی فوائد کے لیے ویکسین کی تجارت نہیں کریں گے۔ یہ زندگیاں بچانے کا معاملہ ہے۔
ہم اپنے شراکت دار ممالک کے ساتھ احترام سے پیش آئیں گے۔ ہم بڑے بڑے وعدوں اور بہت کم عملی اقدام کی راہ نہیں اپنائیں گے۔
ہم دوسروں کی مدد کے لیے فراہم کی جانے والی ویکسین کے معاملے میں اعلیٰ معیارات قائم رکھیں گے اور صرف وہی ویکسین مہیا کریں گے جو محفوظ اور موثر ہو۔
ہم مساوات پر مبنی طریقہ کار پر اصرار کریں گے۔ کوویڈ نے پہلے ہی کمزور اور پسماندہ لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کوویڈ کے خلاف ہمارے اقدامات نسلی و صنفی عدم مساوات کو بدتر بنانے کا باعث نہیں بنیں گے۔
ہم شراکت داری سے کام لیں گے، دوسروں کے ساتھ بوجھ بٹائیں گے اور ایک دوسرے کی طاقت سے کام لیں گے۔ ‘کواڈ’ ممالک ــ انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا ــ کے ساتھ چند ہفتے قبل قائم کیا جانے والا ہمارا اشتراک اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ باہم مل کر ہم دنیا بھر میں ویکسین کی تیاری کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں کہ تاکہ مزید بڑی مقدار میں ویکسین میسر آئے اور جلد از جلد لوگوں تک پہنچے۔
جہاں ممکن ہو ہمارے کثیرملکی تعاون سے کام لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے ممالک عموماً ہمارے جیسی اقدار کے مالک ہیں اور ان کا تحفظ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوویکس اقدام واضح طور پر یہ یقینی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک بھی ویکسین حاصل کر سکیں کیونکہ ویکسین کی وسیع پیمانے پر اور مساوی رسائی کی بدولت ہی ہم اس وبا کو ختم کر سکیں گے۔
آخر میں ہم طویل جائزہ لیتے ہوئے موجودہ ہنگامی حالت سے نمٹیں گے۔ ہمیں محض اس وبا کو ختم نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک اور دنیا کو اگلی وبا کے مقابلے کے لیے بہتر طور سے تیار کرنا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہم ایسے اداروں اور طریقہ ہائے کار کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے جو عالمگیر تحفظ صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ اس کام کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو شفافیت، معلومات کے تبادلے اور ہنگامی حالت کے وقت عالمی ماہرین کو اپنے ہاں رسائی دینے کا وعدہ کرنا ہو گا۔ ہمیں مالی معاونت، بڑی تعداد میں مریضوں کے علاج کی صلاحیت اور احتساب کے ایک پائیدار طریقہ کار کی ضرورت ہو گی تاکہ تمام ممالک کسی اگلی وبا کے خاتمے کے لیے مستعدی سے قدم اٹھا سکیں۔ ہم اس وبا کے آغاز کی وجوہات جاننے کے لیے جامع اور شفاف تحقیقات کے لیے زور دینا جاری رکھیں گے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ ایسا کیونکر ہوا، تاکہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچنا ممکن ہو۔
آخری بات یہ کہ یہ کام صدر بائیڈن کے ”بہتر تعمیر نو” کے ایجنڈے کا ایک اہم عنصر ہے۔ ہم نے یہ یقینی بنایا ہے کہ ہم مستقبل میں ایسی وباؤں اور حیاتیاتی خطرات کی بہتر طور سے نشاندہی کرنے، انہیں روکنے، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کے خلاف اقدامات کے قابل ہوں۔ بصورت دیگر ہم خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو بری طرح خطرے میں ڈالیں گے۔
یہ ایک اہم لمحہ ہے اور ہم سب کو دوررس سوچ اور دلیرانہ اقدامات سے کام لینا ہے۔ امریکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا۔
آج میرے ساتھ یہاں ایک غیرمعمولی رہنما موجود ہیں جو اس کام میں ہماری مدد کریں گی۔
گیل سمتھ صدر اوبامہ کے دور میں یوایس ایڈ کی منتظم تھیں اور انہوں نے صدر اوبامہ اور کلنٹن دونوں کے ادوار میں قومی سلامتی کونسل میں کام کیا جہاں ہمیں پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو جاننے اور اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ انہیں صحت عامہ کو لاحق خطرات کے خلاف اقدامات کا بھرپور تجربہ ہے اور انہوں نے 2014 میں ایبولا بحران کے خلاف امریکہ کے اقدامات کی قیادت کی تھی۔ وہ ملیریا، تپ دق اور ایچ آئی وی/ ایڈز کے خلاف عالمگیر کوششوں میں سالہا سال تک خدمات انجام دے چکی ہیں۔ وہ ‘ون کمپین’ کی صدر اور سی ای او کی حیثیت سے اپنے تازہ ترین کردار میں ہمارے ساتھ ہیں۔ اس مہم کا مقصد بدترین غربت اور قابل علاج بیماریوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ابتدائی طور پر یہ کام افریقہ میں کیا جائے گا۔
وہ تجربہ کار ہیں۔ انتہائی محترم ہیں۔ وہ تیزی رفتاری سے کام کریں گی۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے اور سالہا سال تک ان کا معترف ہونے کے ناطے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے ان سے زیادہ محنتی، تیزرفتار یا موثر شخصیت میسر نہیں آ سکتی۔
میں ان کا شکرگزار ہوں کہ وہ کوویڈ کے خلاف عالمگیر اقدام اور تحفظ صحت کی رابطہ کار کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے رضامند ہوئیں۔ گیل سمتھ، بات کیجیے۔ آپ کا شکریہ۔
گیل سمتھ: جناب وزیر خارجہ، آپ کا شکریہ۔ آپ کے ساتھ دوبارہ کام کرنا اور آپ کو جناب وزیر خارجہ کہہ کر پکارنا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔
یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لیے میں ون کمپین میں اپنے دوستوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں دفتر خارجہ اور پوری وفاقی حکومت میں خدمات انجام دینے والے مردوخواتین کے ساتھ کام کرنے کی متمنی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
میں بعض واقعتاً ذہین سائنس دانوں، صدر بائیڈن اور ہاورڈ یونیورسٹی کے عملے اور رضاکاروں کی خاص طور پر مشکور ہوں جہاں کل میں نے کوویڈ ویکسین کی دوسری ڈوز لگوائی۔
یہ ویکسین جسم کے لیے اچھی ہے مگر یہ ذہن اور روح کے لیے بھی اچھی ہے کیونکہ یہ مستقبل کی امید جگاتی ہے۔ ہمارا کام مستقبل کو متشکل کرنا ہے۔
میں ماضی میں چند جرثوموں (وائرس) کے خلاف کام کر چکی ہوں اور میں نے دو اسباق سیکھے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر وائرس ہم سے زیادہ تیزی سے اپنا کام کر رہا ہے تو پھر یہ جنگ وہی جیت رہا ہے۔ دوسرا سبق یہ کہ مقصد، سائنس، چوکسی اور قیادت کو اکٹھا کر کے ہم کسی بھی وائرس کو مات دے سکتے ہیں۔
امریکہ یہ سب کچھ کر چکا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے ایک ریپبلکن صدر نے ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا پر قابو پانے کے لیے ایک دلیرانہ اقدام شروع کیا۔ ایک ڈیموکریٹ صدر نے اس اقدام کو مزید وسعت دی۔ 2014 میں اوبامہ-بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کی مضبوط اور فیاضانہ مدد سے دنیا میں پہلی ایبولا وبا کو شکست دی۔
اب ہمارے سامنے دو چیلنج ہیں۔ پہلا یہ کہ سرحدوں سے ماورا وبا کے دورانیے کو کم کیا جائے جو دنیا بھر میں زندگیوں اور روزگار کو برباد کر رہی ہے اور دوسرا یہ کہ صحت سے متعلق مستقبل کے ان عالمگیر خطرات کی روک تھام، نشاندہی اور ان کے خلاف اقدامات کو یقینی بنایا جائے جن کے بارے میں ہم ابھی سے آگاہ ہیں۔
اس وقت امریکہ کے قائدانہ کردار کی شدت سے ضرورت ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہم یہ کردار اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔ یہاں آنا میرے لیے اعزاز ہے اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-remarks-to-the-press-on-the-covid-response/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔