اقوام متحدہ میں امریکی مشن
دفترِ اطلاعات و عوامی سفارت کاری
23 فروری، 2022
شکریہ جنابِ صدر۔
مجھے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہنا ہے کہ ہم اس ادارے کی تاریخ کے چوراہے پر کھڑے ہیں۔ سوموار کو صدر پوٹن نے اعلان کیا کہ روس نام نہاد ڈی این آر اور ایل این آر علاقوں کو ”آزاد ریاستیں” تسلیم کرے گا۔ یہ علاقے یوکرین کی خودمختار سرزمین کا حصہ ہیں جن پر 2014 سے روس کے آلہ کاروں نے تسلط جما رکھا ہے۔ اس اعلان کے بعد انہوں نے نام نہاد ‘امن قائم کرنے والے فوجی دستوں” کی آڑ میں روس کی فوج کو ان علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا۔
اس سے کچھ ہی دیر کے بعد سیکرٹری جنرل گوتیخش نے کہا کہ ”یہ یوکرین کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور روس کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔” انہوں ںے آج اپنے خطاب میں اس بات کی توثیق کی ہے۔ سوموار کی رات ایک ہنگامی اجلاس میں سلامتی کونسل میں ایک کے علاوہ تمام ارکان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کا مطالبہ کیا جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب روس یوکرین کے خلاف اپنی مزید بلااشتعال جارحیت ترک کر دے۔
کیا روس نے ان مطالبات پر کوئی توجہ دی ہے؟ نہیں۔ اس سے برعکس روس نے سلامتی کونسل کے اس مطالبے کا جواب ایسے مزید اقدامات سے دیا ہے جو یوکرین کی خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان میں بڑے پیمانے پر غلط اطلاعات کا پھیلاؤ، جو ہم نے آج دوبارہ سنی ہیں، سائبر حملے اور جنگ کا بہانہ حاصل کرنے کے لیے ”جعلی کارروائیاں” شامل ہیں جبکہ یوکرین کی سرحدوں کے قریب 150,000 سے زیادہ فوج کا بڑا اجتماع اس کے علاوہ ہے۔
روس کے اقدامات سے ان خدشات کی تصدیق ہو گئی ہے جن کا اظہار ہم اور دوسرے ممالک کرتے چلے آئے تھے۔ اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کو آج ہم سب کو لاحق خطرے کا اندازہ کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ساتھیو، یہاں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ دونوں فریقین کو تناؤ کم کرنے کے لیے کہنا گویا روس کو راستہ دینا ہے۔ اس معاملے میں روس ہی جارح ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دوسری راہ دیکھنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو بالاآخر کہیں مزید مشکل راستہ اختیار کرنا پڑا۔ روس جو راہ اختیار کر رہا ہے اسے جاننے کے لیے ہمیں صرف گزشتہ دہائی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ روس نے 2014 میں کرائمیا پر غیرقانونی چڑھائی کی اور تب سے اس پر قبضہ کر رکھا ہے اور مشرقی یوکرین میں عسکری تنازعات کھڑے کرنے اور انہیں بھڑکانے میں مصروف ہے۔ حالیہ برسوں میں روس کے رہنما یہ دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں کہ یوکرین ایک حقیقی ملک نہیں ہے اور انہوں نے اس کے وجود پر سوالات اٹھائے ہیں۔ صدر پوٹن نے بھی اس ہفتے ایسی ہی باتیں کی ہیں۔
روس کے اقدامات عالمی قانون کی بلا اشتعال خلاف ورزی اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی پامالی اور مِنسک معاہدوں سے براہ راست انکار ہے۔ روس کی جارحیت سے نہ صرف پورے یوکرین کو خطرہ ہے بلکہ خود اقوام متحدہ اور اس کا ہر رکن ملک بھی خطرے میں ہے۔
ساتھیو، صدر پوٹن نے سوموار کو ہمیں اپنے ارادوں کے بارے میں واضح اشارہ دیا جب انہوں نے دنیا سے ماضی میں سو سال سے زیادہ عرصہ پیچھے واپس جانے کی بات کی جب اقوام متحدہ کا وجود نہیں تھا اور سلطنتیں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ روس اپنے ہمسایوں کو دوبارہ اپنی نوآبادیاں بنا سکتا ہے اور یہ کہ وہ طاقت کا استعمال کریں گے تاکہ اقوام متحدہ کو تماشا بنایا جائے۔
امریکہ اسے سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ 2022 ہے۔ ہم سلطنتوں اور نوآبادیوں کے دور میں یا یوایس ایس آر یا سوویت یونین کے دور میں واپس نہیں جا رہے۔ ہم آگے بڑھ چکے ہیں۔ جیسا کہ سوموار کو سلامتی کونسل میں کینیا کے مستقل نمائندے نے کہا، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ”مردہ سلطنتوں کی چنگاریاں” نئی طرز کے جبر اور تشدد کو بھڑکا نہ سکیں۔
بدقسمتی سے روس جو جعلی حقیقت تخلیق کرنا چاہتا ہے اس کے حقیقی اثرات کا یوکرین اور دنیا کو پہلے ہی سامنا ہے۔ اب تک مشرقی یوکرین میں روس کی جنگ کے نتیجے میں پہلے ہی 14,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ یوکرین کے قریباً تین ملین شہریوں کو خوراک، پناہ اور زندگی کے تحفظ میں مددگار دیگر طرح کی امداد درکار ہے۔ ان میں عمر رسیدہ لوگ اور بچے بھی شامل ہیں۔ یقیناً عام روسی شہریوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ پوٹن اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے کتنے روسیوں کی زندگیاں قربان کرنا چاہتے ہیں۔
اگر روس اسی راہ پر گامزن رہتا ہے تو ہمارے اندازوں کے مطابق یہ مہاجرین کا ایک نیا بحران پیدا کرے گا اور یہ بحران اس سے کہیں بڑا ہو گا جس کا دنیا کو آج سامنا ہے۔ روس کی جانب سے منتخب کردہ جنگ کے نتیجے میں مزید پچاس لاکھ لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور اس کا دباؤ یوکرین کے ہمسایوں پر آئے گا۔ چونکہ یوکرین کا شمار گندم برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور خاص طور پر یہ گندم ترقی پذیر ممالک کو بھیجی جاتی ہے اس لیے روس کے اقدامات سے خوراک کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور لیبیا، یمن اور لبنان جیسی جگہوں پر مزید بھوک جنم لے گی۔
یہ جنگ جو تکالیف لائے گی ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس سے کہیں وسیع خطرہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ روس کے اقدامات ہمارے عالمی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان سے خودمختاری، سفارت کاری اور علاقائی سالمیت کے ہمارے بنیادی اصول خطرے میں ہیں۔ بدقسمتی سے ان خوفناک اور دنیا کو منفی طور سے تبدیل کرنے والے نتائج کے باوجود روس اپنی روش ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں تاکہ روس پر واضح ہو کہ اسے اپنے اقدامات کی کیا قیمت چکانا ہو گی۔ لیکن ہم سب کی جتنی خواہش ہے کہ روس کشیدگی کم کرے اور امن کی راہ اختیار کرے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ انتخاب ہمیں نہیں کرنا۔ یہ جنگ صدر پوٹن نے منتخب کی ہے۔ اگر وہ مزید جارحیت کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کا جو نتیجہ نکلے گا اس کا اکیلا ذمہ دار روس ہو گا۔
آج ہم مِل کریہ کر سکتے ہیں کہ روس پر واضح کریں کہ اگر وہ جارحیت جاری رکھتا ہے تو اسے اس کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔ ذمہ دار ممالک اپنے ہمسایوں کو دھمکا کر اپنی تابعداری پر مجبور نہیں کرتے۔ سابقہ سلطنتیں خودمختار اور آزاد ممالک ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی پہلی ہی سطر میں کہا گیا ہے کہ ہم باہم متحد ہو رہے ہیں۔ یہ الفاظ اس طرح ہیں کہ ”ہم آنے والی نسلوں کو جنگ کے تازیانے سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔” اس وقت یہاں ایک اہم لمحہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اس نسل کو اور آنے والی نسلوں کو اس ہولناک تباہی سے بچا سکتے ہیں۔
ساتھیو، یہ الگ بیٹھ رہنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ الگ تھلگ راہ ترک کرنے کا وقت ہے۔ آئیے متحد ہو کر روس کو دکھائیں کہ وہ تنہا ہے اور اپنے جارحانہ اقدامات میں اکیلا ہے۔ آئیے خودمختاری اور سیاسی آزادی کے اصولوں اور یوکرین سمیت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی علاقائی سالمیت کی پُرزور حمایت کریں۔
آئیے روس پر ثابت کریں کہ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا ہر رکن ملک یہ سمجھتا ہے کہ اب کشیدگی ختم کرنے، مذاکرات کی میز پر واپس آنے اور امن کے لیے کام کرنے کا وقت ہے تاکہ یوکرین کے شہری تحفظ سے رہ سکیں اور آنے والی نسلوں کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی حفاظت ہو سکے۔
شکریہ۔
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://usun.usmission.gov/ambassador-thomas-greenfields-remarks-at-the-un-general-assemblys-debate-on-the-situation-in-the-temporarily-occupied-territories-of-ukraine/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔